قسط 2 (پارٹ 2)
سمندر کی لہریں ساحل تک آکر واپس جارہی تھیں ۔۔۔ ماحول میں ان لہروں کا شور پھیل رہا تھا ۔۔۔ہوا اپنے دوش پر چل رہی تھی ۔۔ موسم تو ان دنوں ویسے بھی بہار کا تھا ۔۔مگر سمندر کے پاس موسم اور بھی سہانا لگتا ہے ۔۔۔ مگر صرف تب جب اندر کا موسم بھی سہانا ہو ۔۔۔۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کب سے اس دیوار پر بیٹھی ان لہروں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ یونیورسٹی سے سیدھا یہیں آئی تھی۔۔ اور جانے وہ کتنے گھنٹوں سے ایک پتھر پر بیٹھی تھی ؟ اسے تو یہ احساس بھی نہیں ہورہا تھا کہ جانے کب سے دو آنکھیں اسی کو دیکھ رہی تھیں ؟؟ اور اسے احساس ہوتا بھی کیسے ؟ وہ تو اس وقت اس دنیا میں تھی ہی نہیں۔۔ وہ تو اپنے ماضی میں کھوئی ہوئی تھی۔۔ ماضی ! جو انسان کو گھیر لیتا ہے ۔۔ہر تنہا لمحے میں ۔۔
ماما کو تو کبھی اس نے دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔ پاپا نے بتایا تھا کہ ماما اسکی پیدائش کے وقت ہی فوت ہوگئ تھیں۔۔۔ ماما کے گھر والوں میں صرف نانا اور نانی ہی تھے۔۔۔ کیونکہ ماما انکی اکلوتی اولاد تھیں تو نانا نانی کے انتقال کے بعد ننیال تو ختم ہی ہو گیا تھا۔۔۔ اب صرف پاپا ہی تھے اور اس کے پاپا کے رشتہ دار جو کہ دوسرے شہروں میں رہتے تھے۔۔ جن سے کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی۔۔۔ اب ماما کے انتقال کے بعد پاپا کے لئے اسے سنمبھالنا اور پھر بزنس کو ٹائم دینا مشکل ہورہا تھا۔۔۔ اس صورتحال میں اس کے چچا صاحب نے انہیں انکی ایک بیوہ کزن سے شادی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔۔۔ پاپا بھی اب مجبور ہی تھے۔۔۔ گھر میں اسے ملازموں کے ہاتھوں نہیں چھوڑ سکتے تھے۔۔۔ اس لئے وہ اس شادی کے لئے مان گئے تھے۔۔ پاپا کی کزن عائشہ جن کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا۔۔۔ انکی ایک بیٹی بھی تھی جوکہ اس سے تقریباً چار سال بڑی تھی۔۔ پاپا نے ان سے سادگی سے نکاح کیا تھا۔۔۔ اور وہ دوںوں ان کے گھر میں آچکی تھیں۔۔ یہ سب تب ہوا جب اسکی عمر ایک سال تھی۔۔ اور اس عمر میں تو ایک بچے کو جس سے محبت ملے وہی اسکا سگا ہوجاتا ہے ۔۔۔ ماما اس سے بہت پیار کرتی تھیں۔۔ اسے تو کبھی اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ اسکی سگی ماما نہیں ہیں۔۔ اور نا ہی وہ اس بارے میں کچھ جانتئ تھی۔۔۔ یہ تو اربش کی مہربانی تھی کہ اس پر یہ حقیقت آشکار ہوئی تھی۔۔ کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے جانتی تھی کہ وہ اسکی سگی ماما نہیں ہیں۔۔ بچپن میں اسکی اور اربش کی اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی۔۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں ۔۔ الہام کیونکہ ہر بات سے انجان تھی اس لئے اسے کبھی اربش کو رویہ سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔۔
وہ سکول میں اسکا لنچ باکس لے لیتی تھی۔۔ اسے ملنے والی پاکٹ منی غائب ہوجاتی تھی۔۔ اس کے پسندیدہ کھلونے بھی یا تو وہ توڑ دیتی تھی یا پھر وہ اس سے چھین لیتی تھی۔۔۔ اور اسکا اگر کوئی ڈریس اسے پسند آجاتا تو وہ اسے اسکے کمرے سے لے جاتی تھی۔۔ اور اگر وہ اس کے حوالے نہ کرے تو اس کی غیرموجودگی میں اسے قینچی سے کاٹ دیتی تھی اور جب روتی ہوئی وہ ماما کے پاس اسکی شکایت لگانے جاتی تھی۔۔۔ تو ماما اربش کو ڈانٹ کر ان دونوں کی دوستی کروا دیتی تھیں۔۔ مگر وہ ڈانٹ ایسی تو نہیں ہوتی تھی جیسی اسکی غلطی پر اسے سننے کو ملتی تھی ۔۔ مگر اسکا معصوم ذہن کچھ بھی سمجھ نہیں پاتا تھا ۔۔۔ اربش ماما اور پاپا کے سامنے ایسے ظاہر کرتی تھی جیسے وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو یا پھر کئ بار تو اس نے مانا ہی نہیں کہ اس نے کچھ کیا ہے؟ اور آخر میں اسے ہی بہلاپھسلا کر منا لیا جاتا تھا۔۔۔ یہ سب کبھی بھی ختم نا ہوا۔۔ وقت کے ساتھ چیزیں بدلتی گئ۔۔۔ اور اربش کی حرکتیں بھی۔۔۔
پھر ایک دن ایسا آیا جب اسے پتہ لگ ہی گیا کہ وہ اسکی سگی بہن نہیں ہے ؟؟ وہ اس وقت میٹرک کلیئر کر چکی تھی اور اب اسکا داخلہ ایک اچھے کالج میں کروانے کے لئے پاپا اور ماما آپس میں بات کر رہے تھے۔۔ وہ ایک طرف بیٹھی دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ اس کا ریذلٹ بہت اچھا آیا تھا۔۔۔ اس نے پورے سکول میں ٹاپ کیا تھا۔۔۔ اسے اب ایک اچھے سے کالج میں میڈیکل میں آرام سے ایڈمیشن مل سکتا تھا۔۔۔ جبکہ اربش کا ریزلٹ اتنا خاص نہیں تھا ۔۔۔ اس لئے اب اسے ایک عام کالج میں جانا تھا۔۔
’’ آپ الہام کے لئے اتنے اچھے کالج کا فارم لائے ہیں اور اربش کی مرتبہ ایک عام سا کالج ؟ ’’ ماما اس وقت غصے میں تھیں۔
’’ ظاہر ہے الہام کے نمبر اتنے اچھے آئے ہیں کہ اسے اسی کالج میں جانا چاہئے ’’ پاپا نے کہا تھا۔۔
’’ اور اربش اس کالج کے لائق نہیں تھی۔۔ یہی کہنا چاہ رہے ہیں آپ ؟ ’’ وہ اب بھڑک گئ تھیں۔۔
’’ عائشہ یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟؟ اربش کے نمبر اتنے کم ہیں کہ اسے اس کالج میں داخلہ نہیں مل سکتا ’’ پاپا نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔
’’ تو ٹھیک ہے پھر ۔۔ الہام بھی اسی کالج میں جائے گی جس میں اربش تھی ’’ ماما نے فارم رکھتے ہوئے فیصلہ کیا تھا اور الہام ڈر گئ تھی۔۔۔ وہ ایک اچھے کالج سے پڑھنا چاہتی تھی۔۔۔ اسی لئے تو کی تھی اس نے اتنی محنت۔۔۔
’’ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔ اس نے اتنے اچھے مارکس لائے ہیں۔۔ میں اسے ڈاکڑ بنتے دیکھنا چاہتا ہوں اور اس لئے اسکا ایڈمیشن اسی کالج میں ہوگا ’’ پاپا نے انکی بات نہیں مانی۔۔ الہام کو کچھ سکون ملا تھا۔۔ شکر ہے پاپا نے آج تو اسکا ساتھ دیا۔۔
’’ میں آپکو یہ نا انصافی نہیں کرنے دونگی۔۔۔ آپنے میری بیٹی کو ایک تھرڈ کلاس کالج میں بھیجا۔۔ جبکہ اپنی بیٹی کے لئے سب سے بہترین کالج کا انتخاب کیا ہے ’’ ماما کو ناجانے کیا ہوگیا تھا ؟ وہ اتنا غصہ کیوں تھی؟ اور میری اور اپنی بیٹی سے کیا مطلب تھا انکا ؟؟ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔
’’ اربش میری بھی بیٹی ہے۔۔ میں اسکے لئے بھی وہی فیصلہ کرونگا جو اسکے لئے بہترین ہوگا ‘’
’’ اگر وہ آپکی سگی بیٹی ہوتی تو آپ دونوں کے لئے ایک جیسا فیصلہ ہی کرتے ’’ ماما کی بات پر اسے جیسے کرنٹ لگا تھا۔۔ وہ چونک گئ تھی۔۔
’’ اربش پاپا کی سگی بیٹی نہیں ہے؟ یعنی وہ میری سگی بہن نہیں ہے ؟ ’’ وہ اب باتوں کو سمجھنے لگی تھی۔۔
’’ اور تم اگر الہام کی سگی ماں ہوتی تو مجھ سے آج اس طرح کی بات نہ کر رہی ہوتی ’’ پاپا غصے سے کہتے ہوئے کھڑے ہوئے تھے۔۔
’’ میں نے کبھی دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا۔۔ اور نا آگے رکھونگی۔۔ یہ آپ ہیں جو یہ سب کر کے میری بیٹی کو احساس دلا رہے ہیں کہ آپ اپنی سگی بیٹی سے زیادہ اور اس سے کم پیار کرتے ہیں ۔۔ میں آپکو ایک بات بتا رہی ہوں تیمور۔۔۔ اگر میری بیٹی کے اندر احساس کمتری پیدا ہوئی۔۔۔ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔ میں نے آپ سے شادی صرف اپنی بیٹی کے لئے کی تھی۔۔ ’’ ماما کہہ کر فوراً چلی گئ تھیں۔۔ پاپا بھی غصے سے جاچکے تھے ْ۔۔
مگر الہام وہیں بیٹھی رہ گئ تھی۔۔ یہ ایک دن میں کیسےکیسے پردے اٹھے تھے ؟؟ وہ جسے اپنی ماں سمجھتی تھی۔۔ وہ اس کی سگی ماں نہیں تھی۔۔۔ اور اسکی سگی ماں ؟؟؟ یہ بات اس کے لئے کتنی تکلیف دہ تھی یہ صرف وہی جانتی تھی ۔۔۔ اسے آج تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ اربش اس کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھتی؟ اور آج ۔۔ اسے چند لمحوں میں سب سمجھ آگیا تھا۔۔۔ وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔ آنسو اسکت چہرے پر بہہ رہے تھے ۔۔ وہ جانے کب تک وہاں بیٹھی رہی تھی ۔۔ جنہیں وہ اپنا سمجھتی تھی ۔۔وہ اپنے نہیں تھے ۔۔۔ اربش ۔۔ اور ماما ؟؟ وہ آج کیا بن گئ تھیں ؟؟ کیوں وہ اسے اربش جیسا نہیں سمجھتی تھیں۔۔۔ کیونکہ وہ سوتیلی بیٹی تھی ؟؟؟ اسکا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کر رہا تھا ۔۔ اور جب دل بھر آئے تو رو لینا چاہئے ۔۔ ہر درد بہا دینا چاہئے ۔۔ان آنسوؤں کو آزاد کر دینا چاہئے ۔۔۔ اور الہام نے آنسوؤں کو آزاد کر دیا تھا ۔۔۔
اور پھر رات پاپا اسکے پاس آئے تھے ۔۔ اسے یہ خبر سنانے کہ وہ اسکا ایڈمیشن اسی کالج میں کروا رہے ہیں۔۔ جس میں اربش جارہی ہے۔۔ ہاں ایک یہ احسان ضرور تھا کہ اسے میڈیکل میں ہی ایڈمیشن لینے دیا گیا تھا۔۔۔ بلکہ اسے بھی احسان نہیں کہہ سکتے تھے۔۔ کیونکہ یہ بھی پاپا کی ہی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے۔۔۔ اور وہ پاپا کی ہر خواہش پوری کرنا چاہتی تھی۔۔ بنا کسی شکوے کے۔۔ اور پھر اسکا احتشام بھائی بھی تو ڈاکڑ بن رہے تھے۔۔۔بس ایک یہی واحد رشتہ تو تھا ۔۔ جو اسکا اپنا تھا ۔۔ اسکا احساس کرنے والا ۔۔ تو اسکا خیال رکھنے والا ۔۔ اسے بھی اپنے بھائی کی طرح بننا تھا۔۔۔ اس نے احتشام کو جب کالج کا بتایا ۔۔ تو وہ بہت ناراض ہوا تھا۔۔۔ مگر پاپا نے اسے یہ کہہ کر منایا کہ وہ دونوں بہنوں کو قریب کرنے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں۔۔ اب کوئی تو بہانہ بنانا تھا نہ ؟ احتشام اس بے تکی وجہ پر کچھ بھی نہیں کہہ سکا تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اصل وجہ کیا ہوگی ؟ وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ الہام کی ماما اور اربش اسکے سگے رشتے نہیں ہیں۔۔ اس لئے تو وہ الہام کا خیال رکھتا تھا ۔۔ مگر اس نے کبھی الہام کو کچھ نہیں بتایا تھا اور نا ہی آج بتا رہا تھا۔۔ ہاں وہ تو آج خود ہی الہام نے اسے ماما پاپا کی ساری باتیں بتائیں تو اس نے یہی ظاہر کیا کہ جیسے اسے آج معلوم ہوا ہے ۔۔۔ بچپن سے اب تک اربش سے ہونے والا ہر جھگڑا وہ اسے کال اور مسیج کر کے بتاتی تھی یا پھر جب وہ اس سے ملنے آتا تب ۔۔۔ وہ ہر بات سے واقف تھا۔۔۔ وہ سب جانتا تھا۔۔۔ ایسی کونسی بات تھی جو وہ نہیں جانتا تھا ؟؟
پھر آج ؟؟ آج اس نے الہام سے یہ کیسے کہہ دیا ؟؟ وہ الہام کے خلاف اور اربش کے حق میں کیسے ہوگیا ؟ اربش تو آج بھی وہی اربش تھی ۔۔ الہام تو آج بھی وہی الہام تھی۔۔۔ تو پھر احتشام کیسے بدل گیا ؟ اسکا بھائی کیسے بدل گیا ؟ ایک ہی تو رشتہ تھا۔۔ اس کا مخلص اور اب وہ بھی ۔۔؟؟ یہ صدمہ اس کے لئے بہت بڑا تھا۔۔ اس نے ماما کا پیار دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔ اس نے بہن کا رشتہ محسوس ہی نہیں کیا تھا ۔۔۔ اس نے پاپا کو کسی اور کا پاپا بنتے دیکھا تھا ۔۔۔ اور اب اسکا بھائی ؟؟؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کب سے انہیں سوالوں کو سوچ رہی تھی۔۔۔ اسے وقت کا احساس نہیں تھا۔۔صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہورہی تھی ۔۔۔ اور اس کے ذہن میں پرانی باتیں تھی۔۔۔ سوال تھے۔۔ اور جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔ وہ یہاں سورج کی روشنی میں آئی تھی۔۔۔ اور اب وہ سورج اپنے غروب کے سفر کے بہت نزدیک تھا۔۔ مگر وہ ؟ وہ اب بھی وہی بیٹھی تھی کہ ایک آواز نے اسے چونکا دیا ۔۔۔
’’ جانتی ہو ۔۔۔ یہ سمندر کی لہریں اتنا شور کیوں مچاتی ہیں ؟ ’’ کوئی اس کے قریب بیٹھا بولا تھا۔۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔ وہ اسکے قریب ہی بیٹھا تھا ۔۔ اور جانے کب آکر بیٹھا تھا ؟ یہ چہرہ انجان نہیں تھا۔۔ وہ اسے کئی بار دیکھ چکی تھی۔۔
’’ کیونکہ یہ سمندر جب اپنے اندر کے سناٹے سے گھبرا جاتا ہے ۔۔ جب اسکے اندر گھٹن بڑھنے لگتی ہے۔۔ تو وہ چاہتا ہے کہ کوئی اسے سنے۔۔ اس کے اندر کے اس اندھیرے اور گھٹن سے اسے آزاد کروائے ۔۔۔ اس لئے وہ ان لہروں کی صورت میں شور مچاتا ہے اور اسکا یہ شور ۔۔ اس کے اندر کا بوجھ کم کر دیتا ہے اور جب یہ بوجھ کم ہوجاتا ہے۔۔۔ تو وہ پھر سے نارمل ہوجاتا ہے ۔۔۔ اپنے اندر دوبارہ سب جمع کرنے لگتا ہے ۔۔۔ جانتئ ہوں۔۔ انسان اس سمندر کے پاس آکر کیوں خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے ؟ انسان کیوں یہاں آتا ہے ؟ ’’ اس نے الہام کو سوالیاں نظروں سے دیکھا تھا۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ مگر اب اسکی آنکھوں کی حیرت کم ہو چکی تھی۔۔ اس نے ہولے سے سر ہلایا تھا ۔۔ اس سوال کا جواب وہ جانتی تھی۔۔ وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔۔ اسکی آنکھیں اسکے جواب کی منتظر تھیں۔۔۔
’’ کیونکہ یہ سمندر بھی ہماری ہی طرح ہوتا ہے۔۔۔ انسان کو اس میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔۔۔ اس کے اندر اتنا ہی سناٹا ہے جتنا ہمارے اندر ۔اسکا یہ شور ہمارے اندر کے شور کو راستہ دکھاتا ہے۔۔ مگر افسوس ہم اسکی طرح شور نہیں کر سکتے ’’ الہام نے سامنے سمندر پر ڈوبتے سورج کے رنگ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کیوں نہیں کرسکتے شور ؟ جب جانتی ہو کہ یہ شور کر کے اپنے اندر کے سناٹوں سے نجات حاصل کرتا ہے۔۔۔ تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ؟ ہم بھی تو نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں نہ ؟ یا آپ نہیں چاہتیں ؟ ’’ اس نے کئ سوال ایک ساتھ کئے تھے۔۔ جس کے جواب الہام کے پاس پہلے سے تیار تھے ۔۔۔
’’ کیونکہ یہ بہت خوش نصیب ہے۔۔ اسکے پاس ہم سب ہیں۔۔۔ اسکا شور سننے کے لئے۔۔ اسکا درد محسوس کرنے کے لئے ۔۔ لیکن ہمارے پاس ؟ ہمارے پاس ایسا کوئی نہیں جو ہمیں سن سکے۔۔ جو ہمیں محسوس کر سکے ’’ اس نے کہا تھا اور اس کے جواب پر اس شخص نے اس پر سے نظر ہٹا کر سامنے ڈوبتے سورج پر ڈالی تھیں۔۔
’’ یہ بھی تو ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی ہو جو آپکو سننا چاہتا ہو؟ کوئی ہو جو آپکو محسوس کر سکتا ہو ؟ ایسا بھی کوئی ہو شاید جو کہ آپکی خاموشی بھی سن سکتا ہو اور آپکو وہ نظر نا آرہا ہو ؟ آپ اسے محسوس نہ کر پارہی ہوں ؟ ہو سکتا ہے نہ ایسا ؟ ’’ اس نے دوبارہ نظریں اسکے چہرے پر لائیں تھیں۔۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ ڈوبتے سورج کی کرنیں دونوں کے چہروں کو روشن کر رہی تھیں۔۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر تھیں۔۔ دونوں کی نظروں میں ایک دوسرے کا عکس تھا۔۔
’’ یہ بھی تو ہو سکتا کہ کوئی ہر وقت آپکے پاس ہو اور آپ اسے محسوس نہ کر پارہی ہوں ؟ ’’ اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ وہ جیسے اس کے الفاظوں اور اس کے سحر میں گم تھی۔۔۔ وہ اسے گم دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔
’’ یہ بھی تو ہوسکتا ہےنہ کوئی منتظر ہو کہ آپ اسے دیکھیں اور وہ مسکرا سکے ’’ اس نے ایک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔ انداز شرارتی تھا ۔۔۔ وہ ہوش میں آئی تھی۔۔۔ اس سے فوراً اس کے چہرے سے نظریں ہٹائی تھیں۔۔۔
’’ آپ ۔۔ آپ یہاں کیسے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ اور اس شخص نے ایک گہری سانس لے کر سامنے دیکھا تھا۔۔
’’ آپ آج بہت پریشان تھیں۔۔ مجھے لگا کہ مجھے آپکے ساتھ ہونا چاہئے ’’ اس نے ایسے کہا تھا کہ جیسے وہ اسے بہت عرصے سے جانتا ہو۔۔ جیسے اسے واقعی اسی کا انتظار ہو ۔۔
’’ آپکو کیسے پتہ میں یہاں ہو ؟ ’’ اس نے حیران ہوکر کہا تھا۔۔
’’ آپکا پیچھا کر کے آیا ہوں ’’ اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔
’’ آپ اتنے گھنٹوں سے یہاں موجود ہیں ’’ وہ حیرت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
’’ جی اور مجھے ڈر تھا کہ میری رات بھی یہاں نا گزر جائے اس لئے آپکو ہوش میں لانے کے لئے مجھےآپکے سامنے آنا پڑا ’’ نظریں اب بھی اسکی حیران آنکھوں میں تھی۔۔اسے یہ حیرت اچھی لگی تھی ۔۔۔ …
’’ لیکن کیوں ؟ آپ یہاں کر کیا رہے تھے ؟ وہ بھی اتنے گھنٹے ؟ ’’ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔ پاس بیٹھا یہ شخص جس سے آج پہلی بار وہ بات کررہی تھی ۔۔۔ وہ اسکے لئے اتنے گھنٹے یہاں کیوں تھا ؟؟
’’ سن رہا تھا ’’ اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔۔
’’ کیا ؟ ’’
’’ آپکی خاموشی کو ’’ جواب میں جانے ایسا کیا تھا کہ الہام کچھ لمحے اسے دیکھتی ہی رہ گئ تھی ۔۔۔
’’ میں نے تو سنا تھا کہ آپ کسی لڑکی سے دوستی نہیں کرتے ’’ اس نے بات بدل کر کی تھی۔۔
’’ وہ تو میں اب بھی نہیں کرتا۔۔ نا ہی کرونگا کبھی ’’ اس نے سامنے نظریں کی تھیں ۔۔
’’ تو میں بھی تو ایک لڑکی ہونا ’’ اس نے جیسے یاد دلایا تھا۔۔
’’ جانتا ہوں کہ آپ بھی ایک لڑکی ہیں اور میں آپ سے بھی دوستی نہیں کرنا چاہتا ’’ اس کی بات پر وہ مزید حیران ہوئی تھی۔
’’ تو پھر کیا چاہتے ہیں آپ ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔
’’ میں آپکا دوست نہیں ۔۔ آپکا رازِدل بننا چاہتا ہوں ’’ اسکی آنکھوں میں دیکھتے اسنے کہا تھا۔۔
’’ رازِدل ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں۔۔ آپکے دل کے ہر راز سے واقف ہونے والا ۔۔ آپکے دل کا ایک راز بننا چاہتا ہوں ’’ وہ گہری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جیسے اس کے اندر جھانک رہا ہو۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ اس کا سوال تھا اور وہ فوراً کھڑا ہوا تھا۔۔۔ ہاتھ اسکی طرف بڑھایا تھا۔۔ سورج ڈوب چکا تھا۔۔ اندھیرا پھیل رہا تھا۔۔ ایسے میں سمندر کی ہواؤں کے درمیان ۔۔ لہروں کے شور پر ۔۔ وہ اس کے سامنے ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا۔۔
’’ کیونکہ آپ میرا رازِدل بن چکی ہیں۔۔۔’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور الہام کو لگا جیسے کسی نے دل کے جلتے صحن میں ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہو ۔۔۔ ’’ گھر چلیں ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔ اور الہام اس کے سحر میں گم ہولے سے سر ہلا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر ۔۔۔ اب وہ اسے اپنی گاڑی میں اس کے گھر چھوڑنے جارہا تھا۔۔۔ دوبارہ دونوں نے کوئی بات نہ کی تھی۔۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔۔ اور دونوں ایک دوسرے کی سوچوں میں گم تھے ۔۔