اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 3 (پارٹ 2)

وہ دونوں اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔ دونوں کا موڈ بہت اچھا تھا۔۔
’’ ویسے مان گئ آپکو۔۔ کتنی چالاکی سے آپنے سب کے سامنے انکار بھی کیا اور اقرار بھی ’’ الہام نے اسے داد دی تھی۔۔
’’ ہاں فرق اتنا ہے کہ انکار سچا تھا اور اقرار جھوٹا ’’ اس نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اقرار بھی سچا ہو جائے گا۔۔ آپ ٹینشن کیوں لے رہے ہیں ’’ اس نے شرارت سے کہا تھا۔۔
’’ مجھے کیا ضرورت ہے ٹینشن لینے کی ؟ یہ تو اب تمہارا مسئلہ ہے ڈھونڈ کر لاؤ ڈاکٹر ’’ اس نے کاندھے اچکا کر کہا تھا۔
’’ اچھا ویسے سچ بتائیں کوئی بھی نہیں پسند؟ ’’ جھک کر رازداری سے پوچھا تھا۔۔
’’نہیں ’’
’’ اچھا کوئی تو ہوگی جو اچھی لگی ہو ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا۔۔ ایک چہرہ تھا۔۔ جو کہ احتشام کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔۔
’’ ہاں شاید ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور الہام اچھل گئ تھی۔۔
’’ سچی ! بتائیں کون ہے وہ ؟ ’’ وہ ایکسائیٹمنٹ میں اتنا تیز بولی تھی کہ آس پاس کے لوگوں نے پلٹ کر انہیں دیکھا تھا۔۔
’’ آرام سے ’’ احتشام نے اسے ٹوکہ تھا۔
’’ اچھا بتائیں کون ہے ؟ ’’ اس نے اب کی بار بہت آہستہ کہا تھا۔۔
’’ میں نہیں جانتا اسے ’’
’’ تو پھر ؟ ’’ وہ اب کنفیوز ہوئی تھی۔۔
’’ بس ایک بار ہی ملا تھا اور نام بھی نہیں پوچھ سکا ’’ اس نے افسوس سے کہا تھا۔۔
’’ کہا ملے تھے ؟ ’’
’’ تمہاری یونیورسٹی کے باہر ’’ عام انداز میں کہا تھا۔۔
’’ واٹ ! میری یونیورسٹی کے باہر ؟ ’’ وہ حیران ہوئی تھی ۔
’’ ہاں تم جس دن ناراض ہوئی تھی ۔۔ اس سے ملاقات ہوئی تھی ۔۔ تمہارے چلے جانے کا بتایا تھا اس نے ’’اسکی بات پر الہام کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ سمجھ گئ تھی کہ کس کی بات کر رہا تھا وہ ؟
’’ اریج ؟ آپ اریج کو پسند کرتے ہیں ؟ ’’ وہ ایک شاک میں تھی۔
’’ نہیں نہیں۔۔ میں اسے پسند نہیں کرتا۔۔ ہاں شاید اچھی لگی تھی مجھے وہ ’’ اس نے خود کو بچانا چاہا تھا۔۔
’’ اوہو۔۔ بس بس رہنے ہی دیں۔۔ آپ کو پسند نہیں ہے مگر اچھی لگتی ہے ’’ اس نے اس انداز میں پوز دے کر کہا تھا کہ احتشام نے باقاعدہ قہقہ لگایا تھا۔۔
’’ ویسے حیرت ہے۔۔ تم جیسی کارٹون کی اچھی پیاری دوست کیسے بن گئ ؟ ’’ اس نے اب اسے چھیڑا تھا۔۔
’’ جیسے آپ جیسے ڈرائیکولہ کی مجھ جیسی معصوم بہن بن گئ’’ اس نے حساب تو برابر کرنا ہی تھا اور پھر باقی کا وقت دونوں کی نوک جھوک میں ہی گزرا تھا۔۔
اس دونوں کے گھر آنے کے بعد چائے کا ایک اور دور چلا تھا۔۔۔ اربش طبیعت خرابی کا بہانہ بناکر اپنے کمرے میں بند تھی ۔۔ رات دیر تک باتوں کے بعد احتشام اور پھوپھو گھر واپس چلے گئے تھے اور وہ سب بھی اپنے کمروں میں آرام کرنے۔۔
وہ اپنے کمرے میں موجود تھی۔۔ اسکا سکون تباہ ہوچکا تھا۔۔ غصہ، نفرت بن کر اسکی آنکھوں میں بھڑک رہا تھا۔۔ آج سے پہلے اسے الہام سے ضد تھی مگر آج ۔۔؟ آج وہ اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔۔ بچپن سے اب تک انکے درمیان صرف ایک ہی دیوار تھی ۔۔ سوتیلا رشتہ۔۔۔ اور اس سوتیلے رشتے کی وجہ سے ہی وہ اس کے کبھی قریب نہیں ہوئی تھی۔۔ مگر آج ؟ الہام نے اس سے اسکی محبت چھین لی تھی ۔۔ اب محبت چھین لینے والے سے نفرت ہوجانا تو لازم تھا۔۔ اور اسے ہوگئ تھی۔۔۔ آج اسے الہام سے نفرت تھی ۔۔ ایسی نفرت جس کی آگ میں وہ الہام کو جلا کر خاک کردینا چاہتی تھی ۔۔۔وہ اپنی رائیٹنگ ٹیبل کے پاس آئی تھی۔۔ اس نے کلینڈر پر آج کی تاریخ پر ایک دائرہ بنایا تھا۔۔ لال پین سے ۔۔۔
’’ آج کے بعد تم دن گننا شروع کردو الہام میڈم ۔۔ میں تمہیں اس جگہ مارونگی جہاں تمہیں پینے کے لئ تو دور۔۔ ڈوب کر مرنے کے لئے بھی پانی نہیں ملے گا۔۔۔ جس رشتے اور محبت کے دم پر تم نے میری محبت مجھ سے چھینی ہے۔۔ جس رشتے کے دم پر تم آسمان میں اڑ رہی ہو ۔۔۔ میں اس رشتے کو ایسا انجام دونگی کہ تم اس رشتے کا نام لینے سے بھی کانپو گی ۔۔ وعدہ ہے میرا تم سے ’’ اس نے جیسے الہام سے کہا تھا اور کچھ دیر بعد وہ کچھ سوچ کر۔۔ کوئی فیصلہ کر کے مسکرائی تھی۔۔ شاید وہ جان چکی تھی ۔۔ کہ نفرت کی اس آگ میں ۔۔ الہام کو کیسے جلانا تھا ؟

پورا دن اتنا مصروف گزرا تھا کہ اسے کچھ سوچنے کا موقع نہیں ملا تھا اور اب جب اسے موقع ملا تھا۔۔ تو اسے بس ایک ہی شخص کا خیال آیا تھا۔۔ اور وہ بے چین ہوگئ تھی۔۔
’’ وہ آج آیا نہیں تھا۔۔ کہیں طبیعت نہ خراب ہو ؟ مجھے اس سے پوچھنا چاہئے’’ اس نے اٹھ کر موبائیل اٹھایا تھا مگر وہ رک گئ تھی۔۔ ایک نظر گھڑی پر ڈالی تھی۔۔
’’ ایک بج رہے ہیں وہ سو رہا ہوگا شاید’’ اس نے سوچا تھا۔۔
’’ مگر ہو سکتا ہے جاگ رہا ہو؟ ’’ ایک اور خیال آیا تھا۔۔
’’ لیکن رات بھی بہت ہوگئ ہے۔۔ کیا سوچے گا وہ ؟ ’’ اس نے پھر سے خود کو روکا تھا۔۔
’’ کچھ نہیں سوچے گا۔۔ بلکہ اچھا لگے کا اسے کہ تم نے پوچھا ’’ ایک اور خیال آیا تھا اور اس نے کال ملا لی تھی۔۔ بیل جارہی تھی۔۔ مگر کال ریسیو نہیں ہوئی تھی۔۔۔ اس نے موبائیل واپس رکھا تھا۔۔
’’ سورہا ہوگا۔۔۔ کیا ضرورت تھی مجھے اس ٹائم کال کرنے کی ؟ صبح پوچھ لیتی ’’ اس نے خود کو کوسا تھا۔۔ اب وہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوئی تھی۔۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس کا موبائیل بجا تھا۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تھا اسی کے نمبر سے کال آرہی تھی۔۔ اسکا مطلب وہ جاگ رہا تھا۔۔؟ اس نے موبائیل اٹھا یا تھا اور اب دوبارہ کھڑکی کے سامنے موجود تھی۔۔
’’ ہیلو؟ ’’ اسکی آواز آئی تھی ۔۔
’’ اسلام و علیکم’’ دھیمی آواز میں کہا تھا ۔۔
’’ وعلیکم اسلام ۔۔ کیسی ہیں آپ ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ وہ حیران ہوئی تھی۔۔۔
’’ آپ پوچھیں گے نہیں میں کون ہوں ؟ ’’
’’ نہیں۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کون ہے ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ آپکو کیسے معلوم ؟ ’’
’’ الہام ہوا تھا ’’ وہ تھوڑی دیر کے لئے رک گئ تھی۔۔ یہ شخص کتنا عجیب تھا۔۔ یا پھر یہ شخص کتنا مختلف تھا ۔۔۔
’’ آپ آج آئے نہیں ؟ طبیعت ٹھیک ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ آواز دھیمی تھی۔۔ نظریں آسمان پر تھیں۔۔
’’ اگر آجاتا تو آپ کال کیسے کرتی ؟ ’’ آواز میں شرارت تھی۔۔
’’ تو اس لئے نہیں آئے تھے ؟ ’’ وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ ہاں ’’
’’ بہت تیز ہیں ۔۔۔ اور میں سوچ رہی تھی ناجانے کیا ہوگیا کہ آپ نے چھٹی کی ہے ’’ اس نے اب شکایت کی تھی۔۔ کتنی پریشان اور بے چین رہی تھی وہ یونیورسٹی میں۔۔
’’ چلیں۔۔ اسی بہانے یاد تو کیا آپ نے ’’
’’ اس وقت کال کر کے میں نے ڈسٹرب تو نہیں کیا آپکو ؟ ’’
’’ ڈسٹرب تو آپنے پورا دن کیا ہے ’’ معنی خیز انداز میں کہا تھا۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ وہ سمجھ کیسے سکتی تھی اب۔۔؟
’’ مطلب یہ کہ مجھے لگا کہ آپ فوراً مجھ سے میرے آج نہ آنے کا پوچھے گیں۔۔ مگر آپنے تو پورا دن لگا دیا ایک کال کرنے میں ’’ وہ واقعی پورا دن انتظار کرتا رہا تھا اور اب جب وہ مایوس ہوگیا تھا۔۔ تو اس ٹائم اسکی کال نے اسے حیران کیا تھا۔۔
’’ میں کرنے لگی تھی کال۔۔ مگر آج کچھ مہمان آگئے تھے پھر احتشام بھائی مجھے باہر لے گئے تو موقع ہی نہیں ملا ’’ اس نے تفصیل بتائی تھی۔۔
’’ آج کا دن شاید اچھا رہا آپکا اور موڈ بھی اچھا ہے ’’ اندازہ نہیں تھا ۔۔ یقین تھا ۔۔
’’ جی بلکل ’’ مسکرائی تھی۔۔
’’ آگے بھی انشائ اللہ سب اچھا ہوگا۔۔ پریشان مت ہوا کریں ’’ اس نے اسے تسلی دی تھی یا پھر ہمدردی تھی؟ وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔ جانتی تھی تو بس اتنا کہ وہ اسکی فکر کر رہا تھا اور اسے یہ اچھا لگا تھا۔۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ اب میں واقعی پریشان نہیں ہونگی ’’ اس نے آسمان کی طرف نگاہیں کر کے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ ایسا کیوں لگتا ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔جواب وہ جانتا تھا۔۔۔ مگر سننا چاہتا تھا۔۔ اسکے منہ سے ۔۔
’’ کیوںکہ اب میرے پاس ایک رازدل جو ہے ’’ اس نے کہا تھا۔۔۔ اور دوسری طرف اسکے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔۔۔
’’ اور ہمیشہ رہے گا ’’ اس نے دل میں آمین کہا تھا۔۔
’’ آپکا نام کیا ہے ؟ ’’ الہام نے پوچھا تھا۔۔۔ اور دوسری جانب وہ حیران ہوا تھا ؟ اس لڑکی نے کارڈ پر نام بھی نہیں پڑا ؟
’’ رازدل ہی ہوں ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ مگر نام بھی تو ضروری ہے نا ؟
’’ نام تو آپکو پتہ ہونا چاہئے’’
’’ مجھے کیسے پتہ ہوگا ؟ آپ نے بتایا ہیس نہیں ’’ اس نے کہا تھا۔
’’ میرے کادڑ سے نمبر ڈائل کرنے ہوئے ۔۔ ایک کلاس میں رہتے ہوئے۔۔ آپ اتنی انجان کیسے رہ لیتی ہیں الہام ؟ ’’ یہ پہلی بار تھا کہ اس نے اسے اسکے نام سے پکارا تھا۔۔ یہ پہلی بار تھا ۔۔ یہ اسے اپنا نام اس قدر خوبصورت لگا تھا ۔۔
’’ آپ کے ساتھ بیٹھا شخص کون ہے ؟ اسکا نام کیا ہے ؟ وہ کیا کر رہا ہے ؟ آپ ان تمام چیزوں سے اتنی انجان کیسے رہ لیتی ہیں ؟ جبکہ وہ شخص تو آپکو آپ سے زیادہ جان چکا ہے ’’ وہ اسے حیران کر رہا تھا۔۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔ واقعی یہ عجیب ہی تو تھا کہ اسے اس شخص کا نام تک نہیں معلوم۔۔ جبکہ وہ اسکے ساتھ بیٹھتا تھا ۔۔ جبکہ اس نے اسی کے کادڑ سے نمبر ڈائل کیا ۔۔ پر نام نہیں پڑھا ۔۔ وہ واقعی انجان تھی ۔۔ اور وہ اتنا ہی جانتا تھا ۔۔
’’ پتہ نہیں ’’ اس کے پاس بس یہی جواب تھا۔۔
’’ میں بتاتا ہوں ’’ وہ کہہ کر خاموش ہوا تھا اور الہام اس کے جواب کی منتطر تھی۔۔
’’ اس لئے کیونکہ آپ خود میں اتنی الجھی ہوئی ہیں۔۔ خود کو ڈھونڈے میں اتنی مگن ہیں کہ آپکو اپنے آس پاس والوں کے وجود کا بھی احساس نہیں ہوتا اور آپکی اسی انجان اور بے پروا عادت نے ہی آپکو میرا رازدل بنا دیا ہے ’’ اس نے کہا تھا اور اسکی ساری سوچوں کو ایک بریک لگا تھا۔۔۔ اسے تو کبھی خود بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ کہا اور کتنی الجھی ہوئی ہے۔۔۔ مگر اس شخص کو سب کیسے پتہ چل جاتا تھا ؟ آخر کیسے ؟؟
’’ آپ کو اتنا کچھ کیسے پتہ لگ جاتا ہے ؟ ’’ سوچ کو زبان دی تھی۔
’’ الہام ہوتا ہے ’’ اس نے جواب دیا تھا۔۔ ایک ایسا جواب جس پر اسکا دل ایمان لایا تھا۔۔ الہام ہی تو ہوا ہے اسے۔۔
’’ اور جانتی ہو یہ الہام کہا سے ہوتا ہے ؟ ‘‘ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ کہا سے ؟ ’’ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی تھی۔
’’ عرش سے ’’ اس نے کہا تھا۔
’’ عرش؟ ’’ اسکی نظریں تو کب سے عرش پر ہی تھیں۔۔
’’ ہاں یہ الہام عرش سے۔۔ عرش والے کی طرف سے آتا ہے اور جانتی ہو یہ کیوں آتا ہے ؟ ’’ ایک اور سوال کیا تھا۔
’’ کیوں ؟ ’’
’’ کیونکہ عرش والا جانتا ہے کہ اگر الہام نہ ہوا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔۔ وہ جانتا ہے اگر اسنے اپنی رضا نہ دی تو اسکے بندے بھٹکتے رہینگے ۔۔ روتے رہینگے۔۔ گمنام رہینگے اور ایسے بندے جو سب سے اپنا آپ چھپائے بیٹھے ہیں۔۔ انکی مدد صرف الہام ہی تو کرسکتا ہے ’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔۔ اس کی باتیں اس کے دل تک اثر کر رہی تھیں۔۔
’’ الہام ؟ ’’ اس نے کافی دیر تک اسکا جواب نہ پاکر کہا تھا۔۔
’’ جی ’’ وہ ایک عجیب کیفیت میں تھی۔۔ وہ کچھ کہہ نہیں پارہی تھی ۔۔۔
’’ تمہیں عرش والے پر یقین ہے نہ ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔
’’ ہاں سب سے زیادہ ۔۔ بس ایک وہی تو ہے ۔۔ جس پر یقین ہے ’’ اس نے عرش کو دیکھتے کہا تھا۔۔
’’ تو پھر اس عرش والے کے الہام پر بھی یقین رکھو۔۔۔ جس پر الہام ہورہا ہے۔۔ وہ اسی کا چنا ہوا ہے ’’ اس کی بات پر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔ وہ واقعی اسی کا چنا ہوا ہے۔۔ اور اسکا چنا ہوا کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔۔۔
’’ مجھے عرش والے کے ہر چناؤ پر یقین ہے ’’ اس نے کہا تھا۔
’’ پھر اس یقین کے ساتھ کل کی نئ صبح کا آغاز کرنا کہ وہ تمہیں کبھی مایوس نہیں کریگا ’’
’’ میں جانتی ہوں۔۔ وہ عرش والا مجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا ’’ یہ اس کے دل کا ایمان تھا۔۔ جو مزید پختہ ہوا تھا۔۔
’’ اور اس عرش والے کا بنایا یہ عرش بھی تمہیں کبھی مایوس نہیں کریگا ‘’ اس نے پر یقین ہوکر کہا تھا۔
’’ آمین ’’ وہ مسکرائی تھی۔۔ وہ بھی مسکرایا تھا۔۔
’’ دیر ہوگئ ہے۔۔ سوجاؤ صبح جانا بھی ہے ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ ہاں پر پہلے اپنا نام تو بتا دیں ’’ اس نے گھڑی دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ بتا چکا ہوں۔۔ اب بھی نہیں سمجھی تم ؟ ’’ وہ تھوڑا حیران ہوا تھا۔۔ یہ لڑکی کب سمجھے گی ؟؟
’’ نہیں ’’ الہام کے جواب پر اسکا دل ماتم کرنے کا چاہا تھا۔۔
’’ اف ’’ وہ چڑ گیا تھا۔۔
‘’ کیا ہوا ؟ ’’ اور وہ تھی۔۔ معصوم۔۔ ہائے ۔۔
’’ عرش والا ۔۔ الہام۔۔ عرش کے سوا ۔۔ کہیں اور کیسے کر سکتا تھا ؟ ’’ اس نے کہا اور کال کٹ کر دی اور وہ اس کےالفاظوں میں الجھ گئ تھی۔۔
’’ عرش والا ، الہام ! عرش کے سوا؟ کہی اور ؟ کیسے کر سکتا تھا ؟ ’’ وہ اس کے ایک ایک حرف کو توڑ کر اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ اور پھر اچانک اسکے دماغ میں کچھ آیا تھا ۔۔۔ وہ مسکرائی تھی۔۔ اس نے اپنے موبائیل میں اسکا نمبر نکالا تھا ۔۔ جو نام معلوم نہ ہونے کہ وجہ سے اب تک سیو نہیں کیا تھا۔۔ مگر اب نام معلوم تھا ۔۔ اب اسنے سیو کیا تھا۔۔
’’ عرش ’’ کانٹیکٹ نیم پر اس نے لکھا اور نمبر سیو کیا تھا۔۔ اب وہ ایک پر سکون نیند لینے کے لئے تیار تھی۔۔۔

اگلی صبح اسکی آنکھ پھر دیر سے کھلی تھی۔۔ اور اب وہ جلدی سے تیار ہوکر نیچے آئی تھی۔۔ جہاں ڈائیننگ پر ماما ، پاپا اور اربش موجود تھے۔۔
’’ گڈ مارننگ ’’ اس نے کہہ کر کھڑے کھڑے ہی جوس کا گلاس اٹھایا تھا۔۔
’’ گڈ مارننگ۔۔ آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو کھڑی کیوں ہو ؟ ’’ پاپا نے کہا تھا۔۔
’’ نہیں پاپا پہلے ہی دیر ہوگئ ہے بہت ’’ اس نے ایک سانس میں جوس کا گلاس خالی کیا تھا۔۔
’’ تو جلدی اٹھا کرونا۔۔ روز تم بنا ناشتے کے جاتی ہو’’ اب کی بار ماما نے کہا تھا۔۔
’’ آپ پریشان مت ہوں ماما۔۔ میں وہاں ناشتہ کر لیتی ہوں ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ لیکن صبح کا ناشتہ ضروری ہوتا ہے ’’ اربش نے کہا تھا۔۔ اور وہ چونکی تھی۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ اس کے بھلے کی بات کر رہی تھی۔۔
’’ تم فکر مت کرو مجھے کچھ نہیں ہوگا ’’ اس نے عام انداز میں کہا تھا۔۔
’’ فکر تو کرنی ہوتی ہے۔۔ آخر تم میری بہن ہو ’’ اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔
’’ خیریت ہے آج تم جلدی اٹھ گئ ’’ الہام نے بات بدلی تھی۔۔
’’ ہاں آج سے یہ میرے ساتھ آفس جائے گی۔۔ میرا ہاتھ بٹانے ’’ پاپا نے اربش کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ یہ تو اچھی بات ہے۔۔ ویسے بھی گھر فارغ بیٹھ بیٹھ کر انسان کے دماغ کو زنگ لگ جاتا ہے ’’ وہ کہہ کر باہر کی طرف بڑھ گئ تھی اور اربش کی شعلہ برساتی نظروں نے اسے آخر کر دیکھا تھا۔۔
آج وہ یونیورسٹی آیا تھا مگر آج اس نے آمنے سامنے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔ کلاس میں تو ویسے بھی وہ انجان رہتے تھے اور اب چونکہ موبائیل موجود تھا۔۔ تو اب باہر بھی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ہاں ،مگر اس کے باوجود وہ مطمئن تھے کہ وہ ایک جگہ موجود ہیں۔۔۔ آج وہ اریج کو بھی ایک الگ ہی نظر سے دیکھ رہی تھی اور اس نظر سے بھی اسے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا ۔۔ وہ آج اس سے بات کرے گی اور ان معاملات کو آگے بھی بڑھائے گی۔۔۔ وہ دیر نہیں کرنا چاہتی تھی اسے تو سوچ سوچ کر ہی خوشی ہورہی تھی کہ اسکی اتنی اچھی دوست اسکی بھابھی بن جائے گی۔۔ وہ مسلسل مسکرا رہی تھی اور اریج شروع سے ہی اس کے چہرے کی مسکراہٹ نوٹ کر رہی تھی مگر کلاس کے دوران وہ بات نہیں کرتے تھے۔۔۔ اس لئے اب وہ انتظار میں تھی کہ کلاس آف ہو تو وہ اس سے اس خوشی کی وجہ پوچھے اور انتظار ختم ہو ہی گیا تھا۔۔
’’ خیریت ہے آج بہت خوش لگ رہی ہو ؟ ’’ اس نے آخر پوچھ ہی لیا تھا۔۔
’’ ہاں وہ تو میں ہوں ’’ اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ وہ پہلی بار اسے اتنا خوش دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ حیران تھی۔۔
’’ ایک بات بتاؤ ؟ ’’ اس نے الٹا سوال کیا تھا۔۔
’’ کیا ؟‘‘
’’ تم بھائی سے ملی تھی اس دن ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں ’’ ناسمجھی سے جواب دیا تھا۔
’’ کیسے لگے تمہیں ؟ ’’ اب کی بار اس نے جھک کر شرارت سے پوچھا تھا۔۔
’’ کیا ۔۔ کیا مطلب ؟ ’’ وہ کنفیوز ہوگئ تھی۔۔
’’ ارے سمپل سی بات ہے۔۔ تم نے ان سے ملی ۔۔ بات کی۔۔ کیسے لگے تمہیں ؟ ’’ اس نے اس بار بڑی تفصیل سے پوچھا تھا۔۔
’’ ٹھیک تھے ’’ اریج نے سر جھکا کر کہا تھا۔۔
’’ صرف ٹھیک ؟ ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ مطلب اچھے ہیں ’’ وہ اب نظریں بھی نہیں ملا پارہی تھی۔۔
’’ وہ تو ہیں۔۔ میرے بھائی جو ہیں ’’ اس نے فخر سے کہا تھا۔۔
’’ بلکل ’’
’’ بھائی کو ایک لڑکی پسند آئی ہے۔۔ اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں ’’ اس نے غور سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا اور اریج کے دل کو جیسے کرنٹ لگا تھا،۔۔۔ اس نے ایسے کہا تھا کہ جیسے کوئی عام سی بات ہو مگر جانے کیوں اریج کو جھٹکا لگا تھا۔۔۔
’’ یہ تو اچھی بات ہے ’’ اسے لگا کہ شاید یہ الفاظ وہ زبردستی کہ رہی ہے۔۔
’’ ہاں اور اس سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ مجھے بھی وہ لڑکی بہت پسند ہے اور میں اب دیر نہیں کرونگی ’’ اس نے خوشی سے کہا تھا۔۔
’’ دیر کرنی بھی نہیں چاہئے ’’ اریج نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔
’’ تمہیں بھی کوئی پسند ہے کیا ؟ ’’ اچانک سوال ہوا تھا۔۔ اریج کے سامنے ایک چہرہ آیا تھا،۔۔ مگر پھر ہٹ بھی گیا تھا ۔۔
’’ نہیں ’’ اس نے سر جھکا کر انکار کیا تھا۔۔
’’ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور اریج کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ اچھا کیسے ہے ؟
’’ کیوں ؟ ’’ اس نے پوچھ ہی لیا۔۔
’’ بھئی اب جب تمہیں کوئی اور پسند نہیں ہے۔۔ تو تمہیں بھی تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا نہ ؟ ’’
’’ کس بات سے اعتراض؟ ’’ وہ اب بھی نہیں سمجھی تھی۔۔
’’ آفکورس میری بھابھی بننے سے ’’ اس نے کاندھے اچکا کر کہا تھا اور اریج کے سر پر جیسے دھماکہ ہوا تھا۔۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔۔ وہ کیا کہہ رہی تھی ؟ ضرور اس نے کچھ غلط سن لیا ہے۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ اس نے حیرت سے پوچھا تھا۔۔
’’ مطلب یہ کہ میں تمہیں اپنی بھابھی بنانا چاہتی ہوں کیا تمہیں منظور ہے ؟ ’’ اسکے ٹیبل پر رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔۔
’’ کیسا مزاق ہے یہ ’’ وہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھی ۔۔
’’ مزاق نہیں ہے اریج ۔۔ بھائی نے خود مجھے کہا ہے۔۔ وہ تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں ’’ الہام نے اب سنجیدگی سے کہا تھا۔۔
’’ تم سچ کہہ رہی ہو ؟ ’’ اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔۔ صرف ایک معمولی سی ملاقات پر اتنا بڑا فیصلہ کیسے ہوگیا تھا ؟
’’ بلکل سچ ۔۔ اب تم بتاو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نہ ؟ ’’ اس سے پوچھا تھا۔۔ اریج کے دل میں عجیب سی چبھن ہوئی تھی۔۔ ایک خوشگوار چبھن۔۔
’’ بولو ؟ ’’ اس نے بے چینی سے دوبارہ پوچھا تھا۔۔۔ ڈر تھا کہ کہیں منع ہی نہ کردے۔۔
’’ نہیں ’’ شرم سے سر جھکا کر کہا تھا۔۔
’’ اہوو تو آگ دونوں طرف لگی ہے اور ہم ہی انجان تھے ‘’ الہام نے ایک آنکھ دبا کر کہتے ہوئے اسے چھیڑا تھا۔۔۔
’’ اچھا اب چپ کرو’’ اس کے کان سرخ ہوئے تھے۔۔
’’ اف کوئی بلش کر رہا ہے ’’ اسے چھیڑا تھا۔۔
’’ اب اگر اور کہا نہ تو میں چلی جاؤنگی ’’ اب کی بار اس نے دھمکی دی تھی۔۔
’’ کہا جاوگی ؟ بھائی کے پاس ؟ ’’ اس نے جھک کر کہا تھا۔۔
’’ اف الہام تم بھی نہ ‘’’ وہ کہہ کر فوراً وہاں سے بھاگی تھی اور الہام کی ہنسی کی آواز اسے دور تک آئی تھی اور اس ہنسی نے کسی اور کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔ وہ مسکرایا تھا۔۔۔
’’ اہم ۔۔۔ کسے دیکھ کر مسکرایا جارہا ہے ؟ ’’ معاذ جوکہ کافی دیر سے اسکی گومتی ہوئی نظروں کو نوٹ کر رہا تھا۔۔ آخر اسکی مسکراہٹ نے اسے بولنے کا موقع دے ہی دیا تھا۔۔
’’ کسی کو نہیں ’’ اس نے فوراً مسکراہٹ غائب کی تھی۔۔ چوری پکڑے جانے کا ڈر تھا شاید ۔۔۔
’’ ارے مسکرا لو ۔۔۔ میں نے منع تو نہیں کیا۔۔ شرماو مت ’’ اس نے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔
’’ میں شرما نہیں رہا اور تم اپنے کام سے کام رکھا کرو’’ لہجہ سخت کر کے کہا تھا۔۔
’’ کام ہی تو کر رہا ہوں۔۔۔ انکل نے تم پر نظر رکھنے کے لئے ہی تو بھیجا ہے مجھے یہاں ’’ اس کے لہجے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔
’’ ایک تو پتہ نہیں بابا کب مجھے بچہ سمجھنا چھوڑیں گے ’’ وہ چڑ گیا تھا۔۔۔ سکول سے لے کر ایک آج تک بابا نے اس معاذ کو اسکا باڈی گارڈ بنا رکھا تھا۔۔۔ وہ جہاں جاتا تھا۔۔ یہ بھی اسکے ساتھ ہوتا تھا۔۔ اور پھر بابا کو اسکے پورے دن کی رپورٹ ہوتی تھی۔۔۔ بس ایک یہی تو مسئلہ تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ الہام سے کھل کر مل بھی نہیں سکتا تھا۔۔ اس کے بابا شہر کے امیر ترین بزنس مین تھے اور اسکا بزنس میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا ۔۔۔ وہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔۔۔ بہت مشکلوں سے بابا سےاسے میڈیکل پڑھنے کی اجازت ملی تھی۔۔ بابا کی لاڈلی تو انکی بیٹی ہی تھی۔۔ مگر دونوں بچوں کی تربیت کے معاملے میں بابا بہت سخت تھے۔۔۔ اسکی بہن کی تو اسکی پسند سے شادی ہوچکی تھی۔۔۔ وہ آزاد ہو چکی تھی۔۔۔ مگر وہ اب تک پھنسا ہوا تھا۔۔۔ بابا چوبیس گھنٹے اس پر نظر رکھتے تھے اور یہ کام تھا ۔۔۔ انکے فرمانبردار مینیجر کے فرمانبردار بیٹے ’’معاذ عالم ‘‘ کا ۔۔ جو کہ ایک جونک کی طرح سکول میں اسکے ساتھ چمٹا تھا اور آج تک چمٹا ہوا ہے۔۔۔ اب اتنا وقت ایک ساتھ گزارنے کے ساتھ ساتھ جہاں دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔۔۔ وہیں وہ اس جاسوسی سے چڑ بھی جاتا تھا ۔۔۔
’’ ہاں ویسے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب انکل کو تمہیں بچہ سمجھنا چھوڑ دینا چاہئے ‘’ معاذ نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔
’’ اب نہیں۔۔۔ بہت پہلے چھوڑ دینا چاہئے تھا ’’ اس نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔ ایک نظر سامنے ڈالی تھی۔۔ اب وہ وہاں نہیں تھی۔۔ شاید اریج کے پیچھے چلی گئ تھی ۔۔۔
’’ پہلے کا پتہ نہیں۔۔ اب کی بات الگ ہے ’’ معاذ نے مسکرا کرمعنی خیز انداز میں کہا تھا۔۔
’’ اور اب کی بات الگ کیوں ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ اب تم بڑے ہوگئے ہو ’’ وہ کہہ کر ہنسا تھا اور اس کی بات سے عرش مزید چڑ گیا تھا ۔۔۔
’’ میں کئ سال سےبڑا ہوں ’’ اس نے اسے گورتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ مگر بڑوں والے کام تو اب کرنے لگے ہو ’’ معاذ نے ایک آنکھ دبا کر کہا تھا اور عرش اسکا مطلب سمجھ چکا تھا۔۔
’’ تم نے اگر بابا سے کچھ کہا۔۔۔ تو مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہوگا ’’ اس نے کھلم کھلا دھمکی دی تھی۔۔ انداز ایسا تھا کہ جیسے واقعی برا کر دینا تھا کچھ۔۔
’’ نمبر ایک ’‘ ایک انگلی اسکے سامنے کی تھی ۔۔۔ ’’تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں ۔۔۔ ‘‘ اور نمبر دو ’’ اب دوسری انگلی بھی سامنے کی تھی ۔۔۔ ’’ تم ہی تو چاہتے ہوں کہ تمہارے بابا کو احساس ہو کہ تم اب بڑے ہوگئے ہو’’ اس نے لفظ ’’ بڑے ’’ کو زور دے کر ادا کیا تھا۔۔
’’ نمبر ایک ’’’ عرش نے اسی کے انداز میں اپنی انگلی اسکے سامنے کر کے کہا تھا ۔۔ ’’ میں کتنا برا ہوں۔۔ یہ میں تمہیں پریکٹیکلی بتاوگا ’’ ۔۔ ’’ اور نمبر دو ’’ اب اس نے اپنی دوسری انگلی بھی سامنے کی تھی ۔۔ ’’ اگر بابا کو اب یہ پتہ لگا کہ میں بڑا ہوگیا ہوں۔۔۔ تو مینیجر صاحب کو بھی یہ پتہ لگ جانا ہے کہ انکا بیٹا بھی اب چھوٹا نہیں رہا ’’ اس نے اسی کے انداز میں جواب دیا تھا۔۔
’’ یہ تم ہمیشہ مجھے دھمکیاں کیوں دیتے رہتے ہو ؟ ’’ وہ بھی ڈر گیا تھا۔۔
’’ کیونکہ تم اسی قابل ہو ’’ وہ کہہ کر اٹھا تھا۔۔
’’ اور تم میری دھمکی کے قابل بھی نہیں ہو ’’ وہ بھی اس کے ساتھ اٹھا تھا۔۔
’’ ہاں میری قابلیت اس سے زیادہ ہے ’’ عرش نے چلتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہا تھا۔۔
’’ خوش فہمی ہے تمہاری ’’ معاذ چڑا تھا۔۔
’’ میرے پیچھے آنا بند کرو ’’ وہ مسلسل اسے ساتھ چلتے دیکھ کر بولا تھا۔۔
’’ تم مجھے روک نہیں سکتے ’’ معاذ نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ اس معاملے میں عرش واقعی کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔۔
’’ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایسا کر سکتا ہوں ’’ اس نے غصے سے تیز چلتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اور تم بھی جانتے ہو کہ ایسا کرنے پر تمہارے ساتھ کیا ہوگا ’’ آخر وہ دھمکی دینے کے قابل بن گیا تھا۔۔
’’ تم مجھے دھمکی دے رہے ہو ؟ ’’ عرش نے رک کر پوچھا تھا۔۔
’’ نہیں ! تمہیں کچھ یاد دلوا رہا ہوں ۔۔ پیارے عرش ’’ معاز نے ہاتھ باندھ کر کہا تھا اور عرش کو اب مزید غصہ آیا تھا مگر اب وہ کچھ بول نہیں سکتا تھا۔۔۔ اس لئے چپ چاپ آگے چلنے لگا تھا اور معاز صاحب اسکے پیچھے پیچھے۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial