اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 4 (پارٹ 1)

اس نے آفس کا دروازہ ناک کیا تھا۔۔ اندر سے آواز آئی تھی۔۔۔
’’ کم ان ’’ اجازت ملتے ہی وہ اندر آئی تھی۔۔۔ جہاں سامنے ہی ایجاز صاحب ایک فائیل پر سر جھکائے بیٹھے تھے ۔۔۔
’’ پاپا ’’ اس نے کہا تھا اور ایجاز صاحب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
’’ جی پاپا کی جان بولو ؟ ’’ انہوں نے مسکرا کر سیدھے ہوتے ہوئے کہا تھا۔
’’ مجھے ایک فرینڈ سے ملنے جانا ہے۔۔ اگر آپکی اجازت ہو تو ’’ آج وہ بہت تابیدار بنی ہوئی تھی۔۔
’’ تو اس میں پوچھنےوالی کٓیا بات ہے۔۔؟ جاؤ ’’
’’ نہیں وہ میں نے سوچا آپ کہیں گے کہ آج پہلا دن ہے آفس میں اور آج ہی جارہی ہے دوستوں سے ملنے ’’ اس نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔۔ ایجاز صاحب اسکی بات پر مسکرائے تھے۔۔
’’ یہ تمہارے پاپا کا آفس ہے۔۔۔ یعنی کہ تمہارا اپنا۔۔ تم جب چاہے آسکتی ہو۔۔ جب چاہے جاسکتی ہو ’’ انہوں نے کہا تھا اور وہ اب آکر انکے گلے لگی تھی۔۔
’’ تھینک یو پاپا۔۔ یو آر دی بیسٹ ’’ وہ کہہ کر اب آفس سے باہر آئی اور کسی کو کال ملائی تھی۔۔
’’ میں آرہی ہوں ’’ اس نے کہہ کر کال بند کی تھی اور اب وہ ایک ریسٹورینٹ کی طرف جارہی تھی۔۔
اس نے وہاں پہنچ کر کسی کی تلاش میں نظریں دوڑائی تھیں اور وہ اسے سامنے ہی ایک کونے کی میز پر بیٹھا نظر آگیا تھا۔۔ وہ اب اسکی طرف بڑھی تھی۔۔
’’ کیسے ہو ؟ ’’ اس نے اسکے سامنے بیٹھ کر پوچھا تھا۔۔ سامنے بیٹھا شخص اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔
’’ بلکل ٹھیک ہوں۔۔ بس پہلے سے زیادہ ہینڈسم ہوگیا ہوں ’’
’’ ہاں وہ تو دکھ ہی رہا ہے ’’ اس نے تعریفی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔ وہ واقعی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔
’’ تم بھی بلکل نہیں بدلی اربش۔۔۔ آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہو ’’ سامنے بیٹھے شخص نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ میں بدلنے والی بھی نہیں ہوں ’’ اس نے ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر سیدھے ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اچانک تم نے رابطہ کیا۔۔ میں حیران ہوگیا تھا۔۔ ضرور کوئی کام ہی تمہیں مجھ تک لے کر آیا ہے ’’ اس نے اب اس ملاقات کی وجہ پوچھی تھی۔۔ اتنے عرصے بعد اربش نے اسے ملنے کا کہا تھا ۔۔۔
’’ ہاں۔۔ کام ہی ہے اس لئے بلایا ہے۔۔ ورنہ تم جانتے تو ہو کہ میں فضول کی دوستیاں نہیں پالتی ’’ اس نے بھی صاف الفاظ میں اقرار کیا تھا۔۔ وہ واقعی بلکل نہیں بدلی تھی ۔۔
’’ ہاں۔۔ بہت اچھے سے جانتا ہوں۔۔ بتاو کیا کام ہے ؟ ’’ وہ اب سنجیدہ ہوا تھا۔۔
’’ سنا ہے تم ایک بہترین فوٹو گرافر بن چکے ہو؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ تمہیں تو پتہ ہے میرا بس یہی ایک مقصد تھا ’’ اس نےمسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ لیکن اس میں تم اتنا زیادہ تو نہیں کما سکتے ہوگے کہ اپنی خواہشات پوری کر سکو ’’ اسکا انداز فروفیشنل تھا۔۔
’’ نہیں۔۔ مگر اتنا کما لیتا ہوں کہ میں اور میرے گھر والے ایک پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں ’’ اب وہ سنجیدہ ہوا تھا۔۔ ان باتوں کا کیا مطلب تھا آخر ؟
’’ مگر اگر تم زیادہ کماتے تو شاید تم اور تمہارے گھر والے پرسکون سے کچھ زیادہ عیش و عشرت حاصل کر سکتے تھے ’’ اس نے جیسے تنقید کی تھی۔۔
’’ مجھے یقین ہے۔۔ ایک ایسا وقت بھی آہی جائے گا ’’ وہ پر یقین تھا ۔۔
’’ اور اگر میں کہوں کہ وہ وقت آگیا ہے تو ؟ ’’ اس نے آگے جھک کر ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟ ’’ وہ اسکی بات اور انداز سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔
’’ مطلب یہ کہ میرے پاس تمہارے لئے ایک بہترین آفر ہے۔۔ اگر تم مان لیتے ہو تو۔۔ تم اور تمہارے گھر والے مزے کرینگے ’’ اس نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کیسی آفر؟ ’’
’’ تمہیں میرا ایک کام کرنا ہے اور میں اسکی اچھی خاصی قیمت دونگی تمہیں ’’
’’ کیا کام ؟ ’’ اس کے سوال پر وہ مسکرائی تھی اور اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اسکے سامنے رکھا تھا۔۔
’’ یہ کام ’’ اس نے آنکھوں سے اس لفافے کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔۔ سامنے بیٹھے شخص نے وہ لفافہ اٹھایا تھا اور اب وہ اسے دیکھ رہا تھا اور جیسے جیسے وہ اس کے اندر کے کاغذات دیکھتا رہا ۔۔۔ ویسے ویسے اسکی آنکھیں حیرت سے کھلتی گئ تھیں۔۔۔
’’ تم ۔۔۔ تم ایسا کیوں کرنا چاہتی ہو ؟ ’’ وہ حیران تھا۔۔ اربش اس طرح کا کام اس سے کیوں کروا رہی تھی۔۔
’’ یہ میرا پرسنل میٹر ہے۔۔ تمہیں بس یہ کام کرنا ہے اور میں اسکی تمہیں اچھی خاصی قیمت دونگی ’’ اس کا انداز کسی بھی احساس سے خالی تھا۔۔ بس اسکی آنکھیں تھیں۔۔۔ جہاں نفرت کی آنچ وہ شخص دیکھ سکتا تھا۔۔
’’ یہ بہت خطرناک کام ہے ’’ اس نے اسے ڈرانا چاہا تھا ۔۔
’’ تمہارے لئے تو نہیں ہے نا ؟ میں جانتی ہوں کہ تم ہی یہ کام کر سکتے ہو اور میں تم پر ہی اعتبار کر سکتی ہوں ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور سامنےبیٹھا شخص اب وہ لفافہ بند کر رہا تھا۔۔
’’ قیمت کتنی ہوگی ؟ ’’ اس شخص نے پوچھا تھا اور اربش کے چہرے پر ایک کامیاب اور مکار مسکراہٹ پھیلی تھی ۔۔

اریج کے لئے یہ سب بہت حیران کن تھا۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے محبت تھی۔۔۔ محبت ابھی نہیں ہوئی تھی۔۔ ہاں مگر یہ ضرور یہ ہوا تھا کہ اسے احتشام پہلی ملاقات میں ہی اچھا لگا تھا۔۔۔ وہ شکل و صورت کے علاوہ اخلاق اور کردار کا بھی اچھا انسان تھا اور اس بات کا یقین اس پروپوزل سے ہوا تھا۔۔۔ پہلی ملاقات کے بعد ہی اس نے اس سے کوئی رابطہ یا دوبارہ یہاں آکر اس سے سامنا نہیں کیا تھا۔۔۔ بلکہ اس نے تو ڈائیرکٹ رشتہ کی بات کر لی تھی ۔۔ اور یہی اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ایک اچھے کردار کا انسان تھا۔۔ وہ خوش تھی کہ احتشام نے اسے پسند کیا تھا اور الہام تو اب جلد ہی بات آگے بڑھانا چاہتی تھی۔۔ مگر اس سے پہلے اسے اپنے گھر میں بات کرنی تھی۔۔۔ ماما پاپا اور بھائی اسکی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے ۔۔ وہ بہت لاڈلی تھی سب کی۔۔ اسکی ہر فرمائش پوری کردی جاتی تھی۔۔۔ مگر اس بار بات الگ تھی۔۔ وہ اس خواہش کا اظہار کیسے کرے ؟ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔ جب سے یونیورسٹی سے آئی تھی۔۔ وہ یہی سوچ رہی تھی مگر ۔۔ اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔۔۔ فطری شرم تھی جو اسے یہ بات کرنے سے روک رہی تھی۔۔ ابھی بھی وہ کمرے میں بیٹھی اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ اسکا موبائیل بجا تھا۔۔۔ اسنے دیکھا ۔۔ بھائی کی ویڈیو کال تھی۔۔ اس نے کال ریسیو کی تھی۔۔ سامنے ہی بھائی کا چہرہ نظر آیا تھا۔۔
’’ کیسی ہے میری بہنہ ؟ ’’ بھائی نے پیار سے اس سے کہا تھا۔۔
’’ بلکل ٹھیک ہوں۔۔ آپ بتائیں۔۔ کیسا ہے میرا بھائی ؟ ’’ اس نے بھی انہیں کا انداز اپنایا تھا۔۔
’’ جب میری بہنہ ٹھیک ہے تو میں بھی ٹھیک ہوں ’’
’’ اور میری بھابھی کیسی ہیں ؟ ’’ اس نے اب بھابھی کا پوچھا تھا۔۔۔ جو کہ اسے سامنے نظر نہیں آرہی تھیں۔۔
’’ وہ سورہی ہے۔۔ آج کچھ طبیعت ٹھیک نہیں اسکی ’’
’’ کیوں کیا ہوا انہیں ؟ ’’ وہ پریشان ہوگئ تھی۔۔
’’ ارے پریشان ہونے والی بات نہیں۔۔۔ بس ہلکا سا ٹیمپریچر ہے۔۔ ابھی میڈیسن لے کر سوئی ہے ’’
’’ اچھا خیال رکھا کریں انکا ’’
’’ وہ تو میں بہت رکھتا ہوں ’’ بھائی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔ وہ بھی مسکرائی تھی۔۔
’’ خیریت ہے۔۔ کچھ کھوئی کھوئی لگ رہی ہو تم ؟ ’’ بھائی اسے بہت غور سے دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔
’’ نہیں تو۔۔ میں نے کہا کھونا ہے بلکل ٹھیک ہوں میں ’’ اس نے خود کو نارمل ظاہر کیا تھا۔۔
’’ لگ تو نہیں رہا۔۔ تم ضرور کسی گہری سوچ میں ہو۔۔ بتاو کیا بات ہے ؟ ’’ وہ اسے بہت اچھے سے سمجھتے تھے۔۔ وہ کبھی بھی اپنی سوچیں اور اپنی پریشانیاں ان سے چھپا نہیں سکتی تھی۔۔
’’ وہ بھائی ایک بات کرنی تھی ’’ اسے یہی بہتر لگا تھا۔۔ وہ بھائی سے ہی کھل کر بات کر سکتی تھی۔۔ وہ بھائی ہونے کے علاوہ اسکے دوست بھی تو تھے۔۔
’’ ہاں بولو کیا بات ہے اریج ؟ ’’ بھائی اب پریشان ہورہے تھے۔۔
’’ وہ بھائی میری ایک دوست ہے ’’ اس نے بس اتنا کہا تھا اور بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ ڈونٹ ٹیل میں ۔۔۔ تم میری دوسری شادی کروانا چاہتی ہو ’’ وہ اب اسکا موڈ ٹھیک کرنے کو بولے تھے۔۔
’’ بھائی ’’ اس نے انہیں آنکھیں دکھائی تھیں۔۔
’’ اچھا بابا مزاق کر رہا تھا۔۔ بولو کیا ہوا تمہاری دوست کو ؟ ’’
’’ اسے کچھ نہیں ہوا وہ بلکل ٹھیک ہے۔۔ وہ اصل میں وہ ہمارے گھر آنا چاہتی ہے ’’ اس نے رک رک کر کہا تھا۔۔
’’ لو تو آجائے میں کونسا وہاں ہوں۔۔ جو اسے چھیڑونگا ’’ وہ اپنی عادت سے مجبور تھے۔۔
’’ جائیں۔۔ میں آپکو نہیں بتا رہی کچھ ’’ وہ اب ناراض ہوئی تھی۔۔ ایک تو اتنی مشکل سے ہمت کی تھی بولنے کی اور انہیں مزاق سوجھ رہا تھا۔۔
’’ اچھا اچھا سوری بابا۔۔ بولو اب میں سیریس ہوں ’’ وہ واقعی اب چہرے پر سنجیدگی لاکر بولے تھے۔۔
’’ وہ ۔۔ وہ اپنے بھائی کے لئے آنا چاہتی ہے ’’ اس نے بہت تیزی سے کہہ کر موبائیل کا رخ اپنے چہرے سے ہٹا دیا تھا۔۔
’’ کیا ۔۔۔؟؟؟ ’’ دوسری طرف بھائی کو ایک شاندار جھٹکا لگا تھا۔۔
’’ یہ میری بہن کیا کہہ رہی ہے ؟؟ اسکا بھائی ؟؟؟؟ ’’ وہ تو مانو صدمے میں چلے گئے تھے اور اریج منہ چھپائے بیٹھی تھی۔
’’ تم نے دیکھا ہے اسے ؟ ’’ وہ اب سنجیدہ ہوئے تھے ۔۔
’’ جی ’’ اس نے بس اتنا ہی کہا تھا۔۔
’’ کیمرہ اپنے چہرے کی طرف کرو ’’ اس نے فوراً بات مانی تھی۔۔
’’ کیسا ہے وہ ؟ ’’ وہ اس کے چہرے کے تعصورات غور سے دیکھ رہے تھے۔۔
’’ ٹھیک ہے ’’ اس نے یہی کہنا مناسب سمجھا تھا۔۔
’’ صرف ٹھیک ؟ ’’ انہوں نے ٹھیک پر زور دیا تھا۔۔
’’ اچھے ہیں ’’
’’ کتنے اچھے؟ ’’ بھائی صاحب دوبارہ پٹھری سے اترے تھے۔۔
’’ بھائی ’’ اس نے پھر سے گھورا تھا۔۔
’’ ارے کنفرم کر رہا تھا۔۔ اچھا یہ بتاو کرتے کیا ہیں وہ ؟ ’’ انہوں نے وہ پر زور دیا تھا۔۔
’’ ڈاکٹر ہیں ’’ اس نے کہا تھا اور بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ مجھے منظور ہے ’’ اریج نے حیران ہوکر انہیں دیکھا تھا ۔۔
’’ جی ؟ ’’ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا ۔۔
’’ جی ہاں۔۔ میں ماما پاپا سے بات کرلونگا ۔۔ تمہاری خوشی سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں بہنہ ’’ انہوں نے اسے پیار سے دیکھتے کہا تھا۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر ہی جان گئے تھے کہ اسے وہ پسند تھا۔۔۔
’’ بھائی آپ بہت اچھے ہیں ’’ اس نے خوشی سے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں ہاں لگا لو مکھن ’’ وہ اب دوبارہ شرارت پر اترے تھے۔۔
’’ آپ مکھن ہی کے قابل ہیں ’’ اس بار اس نے بھی جواب دیا تھا۔۔
’’ لو جی۔۔ اب تو ہم آپکو کسی کے قابل بھی نہیں لگے گیں ’’ انہوں نے طنز کیا تھا۔۔
’’ اچھا میں سورہی ہوں بائے ’’ اس نے اب بات ختم کرنی تھی۔۔ ورنہ بھائی نے مزید طنز کرنے تھے۔۔
’’ واہ کیا بات ہے۔۔ کام ختم تو اب بائے ؟ ’’ وہ اسکی مطلب پرستی پر حیران تھے۔۔
’’ ہاں جی۔۔ بائے ’’ اس نے کہہ کر کال کٹ کی تھی اور اب اسنے سونا تھا۔۔ ویسے بھی مشکل مرحلہ آسانی سے حل ہوگیا تھا۔۔نیند تو سکون کی آنی تھی ۔۔
اس نے گاڑی احتشام کے گھر میں پارک کی تھی اور اب وہ باہر نکلی کہ مالی اسے دیکھتے ہی اسکی طرف آیا تھا۔۔
’’ سلام بی بی۔۔ کیسی ہیں آپ ؟ اس بار بہت عرصے بعد چکر لگایا ’’ مالی بابا نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔۔ وہ یہاں بہت عرصے سے کام کر رہے تھے۔۔ اس لئے ہر فرد سے واقف تھے۔۔ اور الہام تو اسی گھر کا ایک فرد تھی۔۔
’’ بس چچا ۔۔ آپکو تو معلوم ہے آپکی یہ بیٹی ڈاکٹری کے چکر میں بہت مصروف ہوکر رہ گئ ہے۔۔ ورنہ یہاں آنا تو میں بلکل نہیں بھولتی ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ اللہ آپکو کامیاب کرے بیٹا ’’ مالی چچا نے اسے وعا دی تھی۔۔
’’اچھا پھوپھو گھر پر ہیں نہ ؟ ’’ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ جی وہ اندر ہیں آپ جائیں ’’ وہ اب آگے بڑھی تھی اور گھر کے اندر ہی اسے پھوپھو کے کمرے سے آتی ملازمہ نظر آئی تھی۔۔ اس نے انہیں بلانا ضروری نہیں سمجھا تو خود ہی اوپر جانے لگی۔۔
وہ اس وقت نماز سے فارغ ہوکر اٹھی تھیں کہ کمرے کا دروازہ کسی نے ناک کیا تھا۔۔
’’ راحیلہ ۔۔ میں چائے نیچے ہی پیونگی تم جاؤ ۔۔ آتی ہو میں ’’ وہ سمجھیں ملازمہ چائے لے کر آئی ہے۔۔
’’ جی بیگم ساحبہ۔۔ میں بھی آپ کے ساتھ ہی پیونگی ’’ الہام نے ہلکا سا دروازہ کھول کر اندر جھانکتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ارے الہام ! تم کب آئی ؟ ’’ وہ اسے دیکھتے ہی اسکی طرف بڑھی تھیں اور اسے سینے سے لگایا تھا۔۔
‘’ جب آپ اکیلے اکیلے چائے ہضم کرنے کی سازش کر رہی تھیں ’’ اس نے جیسے بہت بڑی سازش پکڑی تھی۔۔
’’ اور تم پہنچ گئ۔۔ میری چائے پر حملہ کرنے ’’ انہوں نے اسکے سر پر چھپت لگا کر کہا تھا۔۔
’’ بلکل۔۔ میرے بناآپکو مزا بھی کہاں آنا تھا ’’ اس نے اپنی شرٹ کا کارلر ہلا کر فخریہ انداز میں کہا تھا۔۔
’’ اچھا آؤ۔۔ چائے پیتے ہیں ’’ اب وہ اسے لے کر نیچے لاونچ میں جارہی تھیں۔۔
’’ راحیلہ چائے کے ساتھ کباب بھی لانا میری بیٹی آئی ہے ’’ انہوں نے بیٹھتے ہوئے ملازمہ کو اپڈیٹ دی تھی۔۔
’’ اور کچھ میٹھا بھی ’’ اس نے بھی آواز اونچی کر کے ملازمہ سے کہا تھا۔۔
’’ میٹھا تو تم کھاتی نہیں ہو۔۔ پھر آج میٹھا کیوں ؟ ’’ انہوں نے پوچھا تھا۔۔
’’ اپنے لئے نہیں۔۔ آپکے لئے منگوایا ہے’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ خیریت ہے ؟ آج اچانک ڈاکٹرنی کو میری یاد آئی اور پھر میٹھا بھی کھلایا جارہا ہے ’’ انہیں اب کچھ تجسس ہوا تھا۔۔ کیونکہ الہام کبھی بھی بنا کسی وجہ کے نہیں آتی تھی۔۔۔ اسکی پڑھائی ہی اتنی مشکل ہوتی تھی کہ وہ کہیں نہیں جاتی تھی۔۔ جب تک کہ اسے کوئی کام نہ ہو اور ویسے بھی احتشام سے اس کی ملاقات روز ہوجاتی تھی۔۔
’’ بس آپکے لئے ایک زبردست خبر لائی ہوں۔۔ مگر میٹھے کے ساتھ بتاونگی ’’ اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بہت آرام سے کہا تھا۔۔
اور اسی وقت ملازمہ چائے اور دیگر اشیائ لے کر لاونچ میں آئی اور میز میں رکھ رہی تھی۔۔ الہام نے فوراً جھک کر مٹھائی کی پلیٹ سے ایک مٹھائی اٹھا کر پھوپھو کے چہرے کے قریب کی تھی۔۔
’’ پہلے وجہ تو بتاؤ ’’ پھوپھو نے چہرہ پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ مبارک ہو ۔۔ آپکو آپکی ہونے والی بہو مل گئ ہے ’’ اس نے کہا تھا اور مٹھائی انکے منہ میں ڈال دی تھی اور وہ جو کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر مٹھائی ختم ہونے سے پہلے کہہ نہ سکی تھیں۔۔
’’ تم سچ کہہ رہی ہو ؟ ’’ انہوں نے بے یقینی سے الہام کا ہاتھ تھام کر پوچھا تھا۔۔
’’ بلکل سچ کہہ رہی ہوں۔۔ بس آپ تیاری کریں ۔۔ ہم کل یا پرسوں وہاں جارہے ہیں ’’ اس نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ تم نے دیکھا ہے اسے ؟ کون ہے ؟ کیسی ہے ؟ کیا کرتی ہے ؟ ’’ پھوپھو اتنی ایکسائیٹڈ تھیں کہ ایک ساتھ اتنے سوال کر بیٹھیں۔۔
’’ بتاتی ہوں آپکو۔۔ پہلے مجھے یہ کباب اور چائے تو کھا پی لینے دیں ’’ اسنے اب کباب اور چائے پر ہاتھ صاف کیا تھا اور پھوپھو اس صفائی کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔۔ یہ الہام خوشی میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی کھاتی تھی ۔۔
’’ الہام اب بتاؤ نا کون ہے وہ ؟ ’’ اس نے چائے کا آخری گھونٹ لیا ہی تھا جب وہ فوراً بولی تھیں۔۔
’’ پھوپھو آپ بھی بہت بے صبری ہیں ’’
‘’ اچھا سنیں۔۔ لڑکی بہت اچھی ہے۔۔ اریج نام ہے اسکا اور خوبصورت بھی ہے ۔۔ فیملی بھی بہت اچھی ہے۔۔ ویل سیٹیلڈ ہے ۔۔ ایک بھائی باہر ہے اور ایک وہ خود ہے اور آپکی اس بیٹی کی بہت اچھی دوست ہے۔۔ جسے آپکے بیٹے نے صرف ایک ملاقات میں پھنسایا ہے ’’ اس نے روانی سے ساری بات کہی تھی ۔۔
’’ میرا بیٹا بہت شریف ہیں۔۔ وہ کسی کو پھنسا نہیں سکتا ’’ آخری بات پھوپھو کے دل کو لگ گئ تھی۔۔
’’ جی جی۔۔ پھر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ وہ اریج کی ایک جھلک پر ہی پھسل گئے ’’ اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ انسان بن جاؤ۔۔ اچھا یہ بتاؤ جانا کب ہے ؟ ’’
’’ بس کل یا پرسوں۔۔ میں تو آج ہی لے جاتی پر ان لوگوں سے اجازت بھی تو لینی ہے نا ’’
’’ بس ٹھیک ہے۔۔ پھر میں تو شادی ایک مہینے کے اندر اندر کرونگی۔۔ بتا دینا انہیں ’’ انہوں نے تو جیسے صبر ہی نہیں کرنا تھا۔۔
’’ آپ فکر نا کریں۔۔ میرے بھی یہی ارادے ہیں۔۔ بس آپ تیار رہیے گا۔۔ میں آونگی لینے آپکو ’’ اس نے اب اپنا بیگ اٹھایا تھا۔۔
’’ یہ تم کہا جارہی ہو ؟ ’’ اسے جانے کے لئے کھڑا ہوتا دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ گھر جاؤنگی۔۔ ریسٹ کرونگی کچھ دیر۔۔ یونیورسٹی سے فوراً یہیں آگئ تھی ’’
’’ اچھا ٹھیک ہے۔۔ مگر شادی کے دنوں میں تم نے یہی رہنا ہے میرے ساتھ ’’ انہوں نے اسے اجازت دیتےہوئے کہا تھا۔۔
’’ بلکل۔۔ میرے اکلوتے بھائی کی شادی ہے۔۔ بہت کچھ کرنا ہے میں نے تو ’’ وہ بھی ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔۔
’’ چلو پھر ٹھیک ہے ’’
’’ اوک پھوپھو ۔۔ اللہ حافظ ’’ وہ ان سے گلے ملی تھی۔۔
’’ اللہ حافظ ’’ جواب سن کر وہ وہاں سے باہر نکلی تھی اور رابعہ پھوپھو اب جانے کی تیاریوں کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔۔ انکے اکلوتے بیٹے کی شادی میں نہ تو وہ کوئی کمی کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی دیر۔۔۔

وہ آئی سی او سے باہر نکلا اور مریض کے گھر والوں کو مریض کی حالت بتا رہا تھا۔۔ جب ڈاکٹر پارسا اسے سامنے اپنے انتظار میں کھڑی نظر آئی تھی۔۔ وہ مریض کے گھر والوں سے فارغ ہوکر انکی طرف بڑھا تھا۔۔
’’ کیا ہورہا ہے ؟ ’’ اس نے انکے پاس آکر کہا تھا۔۔
’’ آپکا انتظار ’’ مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ اور اس انتظار کی وجہ؟ ’’ وہ اب اپنے آفس کے اندر آیا تھا اور ڈاکٹر پارسا بھی اس کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔
’’ مجھے بھوک لگ رہی تھی اور تمہیں معلوم ہے مجھ سے اکیلے کھانا نہیں کھایا جاتا ’’
’’ اور آپنے سوچا کہ کھانے کے لئے مجھے لے چلو ساتھ’’ اس نے اب اپنا کوٹ اتار کر کرسی کے اوپر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ بلکل یہی سوچا۔۔ اب چلو ’’ وہ اب آفس کا دروازہ کھول کر انہیں باہر جانے کا کہہ رہی تھی۔۔
’’ جو حکم آپکا ’’ وہ دونوں اب ہاسپٹل کی کینٹین کی طرف جارہے تھے۔۔ وہ دونوں اس ہسپتال میں ۳ سال سے ساتھ کام کر رہے تھے اور ان کے درمیاں اچھی خاصی دوستی بھی ہوچکی تھی۔۔ مگر دوستی کا یہ رشتہ ایک طرفہ تھا۔۔
’’ اور سناؤ۔۔ الہام کیسی ہے اور تمہاری ماما ؟ ’’ کھانے سرو ہونے کے بعد ڈاکٹر پارسا نے پوچھا تھا۔۔
’’ الہام اور ماما دونوں آج کل بہت اچھی ہیں ’’ اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا اور ساتھ ساتھ کھانے سے بھی انصاف ہورہا تھا۔
’’ اچھا۔۔ وہ کیوں ؟ ’’ چاول کی پلیٹ پر چمچ چلاتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ میں شادی کے لئے مان جو گیا ہوں۔۔ بس اسی خوشی میں مست ہیں دوںوں ’’ اس نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہا تھا اور پلیٹ پر چلتا ڈاکٹر پارسا کے ہاتھ رک گئے تھے۔۔
’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ پھر کوئی لڑکی بھی ڈونڈھی کیا ؟ ’’ ناجانے کیوں یہ بات پوچھتے ہوئے انکا دل عجیب سا خوف محسوس کر رہا تھا۔۔ جانے دل کو اتنے خوف کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟
’’ صرف ڈھونڈی ہی نہیں پسند بھی کر لی ہے اور جلد شادی بھی ہوجانی اور تم نے ضرور آنا ہے اوک ؟ ’’ وہ بہت خوش تھا۔ ۔۔ اور وہ اتنی ہی حیران تھی۔۔ اتنی ہی تکلیف میں تھی۔۔ اتنے ہی دکھ میں تھی۔۔ دل کا خوف سچ ہوا تھا ۔۔ اور دل کا خوف جب سچ ہوجائےتو روح بھی کانپ جاتی ہے ۔۔ جان بھی نکل جاتی ہے ۔۔ اسے لگا روح کانپ رہی ہے ۔۔ اسے لگا۔۔ جان نکل رہی ہے ۔۔۔
’’ بہت مبارک ہو تمہیں ’’ اسے لگا کہ جیسے اسکی آواز ایک اندھیرے کنویں سے آرہی تھی۔۔ جہاں ہر طرف اب صرف سںاٹا ہی سناٹا تھا۔۔ جہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔۔۔ جہاں کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا ۔۔ یہ سامنے بیٹھا شخص بھی تو نہیں دیکھ پارہا تھا ۔۔۔
‘’ شادی میں آکر مبارک باد دینا۔۔ ایسے نہیں ’’ اس نے کہا تھا اور وہ اداس سی مسکرائی تھی۔۔ اداسی میں مسکرا دینا بھی ایک فن ہوتا ہے ۔۔۔ اور یہ فن ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔۔۔
سامنے والا اسکی آنکھوں کی نمی اور اسکی اداسی نہیں دیکھ پارہا تھا ۔۔۔ وہ تو اپنی خوشی میں ہی اتنا گم تھا کہ کسی کا دل ٹوٹنے کی آواز تک اسے نہیں آئی تھی۔۔
’’ ہاں۔۔۔ دل تو ہوتا ہی شاید ٹوٹنے کے لئے ہے ۔۔ اور اسکے ٹوٹنے کی آواز بھی بس وہی سن سکتے ہیں۔۔ جن کا دل ٹوٹا ہو۔۔ ورنہ آس پاس والوں کو کیا خبر کہ کب ؟ کہاں ؟ اور کس وقت ؟ کسی کا دل ٹوٹ جاتا ہے ؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہوتا ہے ؟ شاید وہی۔۔ جسکا دل ٹوٹا ہو؟؟ ’’
’’ یہ قصور بھی تو اس دل کا ہے۔۔ جو دوسروں سے خود کو اتنا جوڑ لیتا ہے کہ الگ ہونے کے خیال سے کانپ جاتا ہے۔ اور دور ہوجانے پر ۔۔۔ ٹوٹ بھی جاتا ہے۔۔ یہ دل ! ’’
اور اسکا دل بھی ٹوٹ گیا تھا۔۔ اب کچھ نہیں بچا تھا اسکے پاس۔۔ اب وہ خالی ہوچکی تھی ۔۔۔ اب وہ خاموش ہوگئ تھی۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial