اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5 (پارٹ 1)

آج اسکے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔۔ حالانکہ آج بھی وہ نہیں آئی تھی۔۔۔ مگر وہ مطمئن تھا۔۔ وجہ کیا تھی؟ یہ جانے بغیر معاذ کو سکون کہاں آنا تھا ؟
’’ تو پھر کیسی ہیں وہ ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ کون ؟ ’’ اس اچانک سوال کو وہ سمجھا نہیں تھا۔۔
’’ وہی۔۔ جس کی وجہ سے کل بارہ اور آج ایک بجے ہیں ’’ معاذ نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ ٹھیک ہے ’’ عرش نے اتنا ہی کہنا ٹھیک سمجھا تھا۔۔
’’ کتنی ٹھیک ؟ ’’ ایک فضول سوال ہوا تھا۔۔ اب معاذ فضول سوال نہ کرے ؟؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔
’’ جتنا میں ہوں ’’ جواب بھی اچھا تھا۔۔۔ عرش جو تھا ۔۔
’’ اوہو۔۔ کیا بات ہے ’’ معاذ نے اب اسے چھیڑنا چاہا تھا۔۔ پر اگلے شخص نے نو انٹری کا بورڈ لگایا ہوا تھا۔۔
’’ ویسے وہ آ کیوں نہیں رہی ؟ ’’ اسے اب مزید معلومات چاہئے تھی۔۔
’’ بھائی کی شادی ہے اگلے ہفتے ’’ ایک اور مختصر جواب تھا۔۔ وہ دونوں ایک ہی جیسے تھے۔۔
’’ پھر تو تم بھی جاوگے؟ ’’ مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ بلایا تو چلا جاونگا ’’ جیسے بہت عام سی بات ہو۔۔ جیسے بلاوا آیا ہی نہ ہو ۔۔
’’ اسکا مطلب بلاوا آگیا ہے ’’ معاذ نے کہا تھا اور جواب میں عرش نے صرف اسے دیکھا تھا۔۔
’’ تمہیں شاید معلوم نہیں ہے۔۔ مگر حکومت نے اب تک زیادہ بولنے پر ٹیکس نہیں لگایا ’’ اسے اب چڑ ہوئی تھی۔۔ وہ اسے کچھ انجوائے ہی نہیں کرنے دے رہا تھا۔۔
’’ تم چاہتے ہو میں زیادہ بولوں اور تمہیں میرے سر پر ناچنے کا موقع مل جائے ’’
’’ خیر وہ تو میں بچپن سے ناچ رہا ہوں ’’ اس نے اسکی دکھتی رگ پکڑی تھی۔۔
’’ اور بڑھاپے تک ناچتے ہی رہوگے ’’ وہ تپ کر بولا تھا۔۔
’’ انشائ اللہ ’’ اسے کب اعتراض تھا کوئی ؟
عرش اب اٹھ کر اپنی کلاس کی جانب گیا تھا۔۔ اور وہ ہمیشہ کی طرح۔۔ اسکے پیچھے پیچھے۔۔

آج بھی وہ لوگ شاپنگ کے لئے آئے تھے۔۔ مگر آج اربش بھی انکے ساتھ تھی۔۔ اور اربش کی موجودگی کی وجہ سے الہام کا موڈ اچھا خاصہ خراب تھا۔۔۔ وہ بہت چپ چپ سی تھی۔۔ اربش اریج سے ہی زیادہ کلوز ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ اور الہام کو یہ سب بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ ان دونوں کے درمیاں کچھ بہت غلط تھا۔۔اور یہ بات اریج محسوس کر رہی تھی۔۔ اس وقت بھی وہ شاپ سے نکل کر اب کچھ کھانے کے لئے آکر بیٹھے تھے۔۔ اربش نے آرڈر دیا تھا اور الہام اب بھی خاموش ہی تھی۔۔ جب اسکا موبائیل بجا تھا۔۔ اس نے دیکھا۔۔ احتشام بھائی کی کال تھی۔۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔۔ اریج نے اس تبدیلی کو محسوس کیا تھا۔۔ مگر کال کس کی تھی؟ یہ اسے معلوم نہیں تھا۔۔
’’ ایکسکیوزمی ’’ وہ کہہ کر کال ریسیو کرنے کے لئے گئ تھی۔۔
’’ احتشام کی کال ہے ’’ اربش نے اسکے جاتے ہی کہا تھا۔۔ اریج چونکی تھی ۔۔
’’ آپکو کیسے معلوم ؟ ’’
’’ الہام کے چہرے کی مسکراہٹ سے۔۔۔ پتہ ہے ایسی مسکراہٹ صرف احتشام کی کال سے ہی آتی ہے ’’ اس نے خوشگوار انداز میں کہا تھا۔۔ اریج بھی مسکرائی تھی۔۔ دونوں بہن بھائیوں میں واقعی بہت محبت تھی۔۔
’’ ویسے تمہاری بھی تو بات ہوتی ہوگی احتشام سے ؟ ’’ اس نے اب اریج کےحالات جاننا چاہے تھے۔۔
’’ نہیں ’’ اریج نے کہا تھا۔۔
’’ کیوں ؟ تم دونوں کی شادی ہونے والی ہے اور تم دونوں نے اب تک بات بھی نہیں کی ’’ وہ حیران ہوئی تھی۔۔ اریج کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔ وہ خاموش تھی۔۔ یہ بات تو اس نے بھی محسوس کی تھی ۔۔
’’ ویسے احتشام کو کرنی چاہئے تم سے بات ۔۔ الہام کو تو وہ ایک دن میں کئ کالز کر لیتا ہے ’’ اس نے کہا تھا اور اریج کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کہنا کیا چاہ رہی تھی ؟
’’ ظاہر ہے ۔۔ وہ انکی بہن ہیں کال تو کرینگے۔۔ آپکو بھی کرتے ہونگے ’’ اریج کی بات پر ایک معنی خیز مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔
’’ نہیں مجھ سے تو وہ بات ہی نہیں کرتا اب ’’ اربش نے کہا تھا۔۔ اتنے میں ویٹر نے آکر کھانا سرو کیا ۔۔ دونوں خاموش ہوگئیں ۔۔
’’ وہ کیوں ؟ ناراض ہیں آپ سے ؟ ’’ ویٹر کے جاتے ہی اس سے اربش سے پوچھا تھا ۔۔
’’ نہیں۔۔ ناراض نہیں ہے۔۔ بس جب سے رشتے کی بات چلی تھی۔۔ تب سے وہ مجھ سے دور دور ہی رہتا ہے ’’ اربش نے جوس کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا اور اریج ٹھٹکی تھی۔۔
’’ رشتہ کونسا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا اور اربش جیسے کنفیوز ہوئی تھی۔۔
’’ نہیں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔ ایسے ہی منہ سے نکل گیا تھا ’’ وہ تھوڑا گھبرائی تھی۔۔ یا شاید گھبرانے کی اداکاری کی تھی۔۔
’’ آپ مجھ پر اعتبار کر سکتی ہیں اربش ’’ وہ پوری بات جاننا چاہتی تھی ۔۔
’’ لیکن اگر احتشام کو پتہ لگا۔۔ تو اسے اچھا نہیں لگے گا ’’ وہ اب بھی ڈر رہی تھی ۔۔
’’ آپ فکر مت کریں۔۔ میری تو ویسے بھی ان سے بات ہی نہیں ہوتی ’’ اس نے کہا تھا اور اب اربش جیسے مطمئن ہوئی تھی۔۔
’’ تمہیں برا لگے گا۔۔ چھوڑو’’ اسے اب اریج کی فکر تھی۔۔
’’ آپ نہیں بتائینگی تو ضرور لگے گا برا ’’ اریج نے پیار سے کہا تھا۔۔
’’ وہ ایکچولی۔۔ میرے اور احتشام کے رشتے کی بات چلی تھی ’’ اربش کہہ کر خاموش ہوئی تھی اور اریج کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔۔ احتشام اور اربش ؟؟ یہ ناممکن تھا ؟؟ وہ یہ کیا کہہ رہی تھی ۔۔
’’ آپ کے اور احتشام ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ وہ تو آپکے بھائی ہیں ’’ اریج کو لگا ۔۔ جیسے یہ ایک مزاق ہے۔۔
’’ نہیں تم سمجھ نہیں رہی وہ الہام کے بھائی ہیں میرے نہیں’’ اس نے اسے سمجھانا چاہا تھا
’’ تو آپ الہام کی بہن نہیں ہیں ؟ ’’ وہ حیران ہوئی تھی اور اسکا سوال اربش کو سمجھا گیا تھا کہ اسے الہام نے سچ نہیں بتایا ہے۔۔یہ اسکے حق میں تھا ۔۔۔
’’ میں الہام ہی کی بہن ہوں مگر احتشام ہمارا بھائی نہیں۔۔ کزن ہے ’’ اس نے جیسے ایک دھماکہ کیا تھا اور اریج نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔۔ الہام نے تو کبھی اسے کچھ نہیں بتایا اس بارے میں۔۔
’’ مگر الہام تو کہہ رہی تھی کہ احتشام اسکے بھائی ہیں ’’
’’ ہاں۔۔ منہ بولے بھائی ہیں۔۔ دونوں پچپن ہی سے بہت کلوز ہیں۔۔ اور ایک دوسرے کو بہن بھائی ہی سمجھتے ہیں۔۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ وہ سگے بہن بھائی نہیں ہے۔۔ ایکچولی احتشام اور الہام ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں اور اتنی محبت کرتے ہیں ایک دوسرے سے۔۔ کہ وہ تو خود بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ دونوں کزنز ہیں اور ہم بھی بھول ہی چکے ہیں۔۔۔ عادت ہوگئ ہے نا۔۔ اب دیکھو نا ۔۔ اتنی مصروفیات میں بھی احتشام صرف الہام کے لئے وقت نکالتا ہے اور اس سے بات کئے بنا تو اسے سکون نہیں ملتا ’’ وہ آگے بھی جانے کیا بولنے والی تھی؟ جب اریج نے اس کی بات کاٹی تھی۔۔
’’ آپکا اور احتشام کا رشتہ کیوں نہیں ہوا ؟ ’’ اس کی بات پر اربش کی آنکھوں میں کامیابی کی ایک چمک آئی تھی۔۔ تو تیر نشانے پر لگا تھا۔۔
’’ وہ میں تمہیں نہیں بتا سکتی۔۔ سوری ’’ اس نے انکار کیا تھا۔۔
’’ کیوں نہیں بتا سکتی آپ ؟ ’’ اسے ہر حال میں جاننا تھا۔۔ جانے اور کیا کیا تھا جو الہام نے اس سے چھپایا تھا۔۔
’’ میں نہیں چاہتی کہ تمہارے اور الہام کے بیچ کوئی غلط فہمی پیدا ہو اور پھر احتشام ایک مخلص انسان ہے۔۔ میں نہیں چاہتی تم اسے غلط سمجھو ’’ اس نے زمانے بھر کی معصومیت چہرے پر سجائے کہا تھا۔۔
’’ آپ مجھے بس سچ بتائیں ’’ وہ ضد کرنے لگی تھی۔۔
’’ تم کہہ رہی ہو تو ۔۔۔’’ اس نے ابھی کہنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ الہام وہاں آگئ تھی اور اسکی بات ادھوری رہ گئ تھی۔۔
’’ سوری۔۔ احتشام بھائی کی کال تھی ’’ الہام نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کیا کہہ رہے تھے ؟ ’’ اربش نے پوچھا تھا۔۔ جبکہ اریج اب الہام کو سوالیاں نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔
’’ کہہ رہے تھے کہ اپنی بھابھی ہی کے ساتھ شاپنگ کرنی ہے یا مجھ کو بھی کوئی پوچھے گا۔۔ میں نے کہا آپ بھی آجاتے۔۔ تو کہنے لگے نہی۔۔ں مجھے بھی سپیشلی الگ کرواؤ شاپنگ ’’ الہام نے ہنس کر کہا تھا ۔۔
’’ پھر ؟ ’’ اریج نے پوچھا تھا۔۔
پھر یہ کہ کل سے میں انکے ساتھ شاپنگ میں ہیلپ کرونگی۔۔ باقی اب تمہیں خود کرنی ہوگی ’’ الہام نے اریج سے کہا تھا اور یہ بات اریج کو بلکل اچھی نہیں لگی تھی۔۔۔ احتشام ساتھ شاپنگ کیوں نہیں کرنا چاہتا ؟ اکیلے میں کیوں ؟ اربش تو جیسے اریج کا دماغ پڑھ رہی تھی۔۔
’’ تو الگ کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ان دونوں کے ساتھ ہی کر لینا ’’ اربش نے اریج کے دل کی بات کی تھی۔۔
’’ میں نے بھی یہی سوچا تھا پر احتشام بھائی نے منع کردیا ’’ الہام نے کہا تھا اور اریج کے چہرے پر تاریک سائے آئے تھے۔۔ جسے الہام تو دیکھ نہیں سکی۔۔ پر اربش نے نوٹ کیا تھا۔۔
’’ کوئی بات نہیں۔۔ میں اریج کو آگے کی شاپنگ کروا لونگی۔۔ تم احتشام کے ساتھ جانا ’’ اربش کی بات پر تینوں رضامند تھے۔۔

اگلے روز وہ احتشام کے ساتھ شاپنگ پر آئی تھی۔۔ آج کل وہ انہیں کے گھر رہ رہی تھی۔۔ رابعہ پھوپھو اکیلی تھیں۔۔ تو انکا ہاتھ بٹانے کے لئے اسکا یہاں ہونا ضروری تھا۔۔۔ وہ یہی سے اریج کو لینے جاتی تھی اور پھر اسے چھوڑ کر یہی واپس آجاتی تھی۔۔ آج اسے اریج کے ساتھ نہیں جانا تھا کیونکہ اریج کی اچھی خاصی شاپنگ وہ لوگ کر چکی تھیں اور جو تھوڑی بہت رہتی تھی وہ اب اربش کی ذمہ داری تھی۔۔ اس لئے اب اریج کی طرف سے وہ بے فکر تھی اور اب احتشام بھائی کے ساتھ وہ اس شاپنگ مال میں موجود تھی۔۔ مگر چکر تو وہ کب سے لیڈیز کے ڈریسز کی شاپس کے لگا رہے تھے۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ احتشام بھائی لیڈیز کے ڈریسز کیوں دیکھ رہے ہیں ؟
’’ مجھے سمجھ نہیں آرہی۔۔ شاپنگ ہم آپکی کرنے آئے ہیں اور ڈریسز ہم لیڈیز کے دیکھ رہے ہیں۔۔ آپ زنانہ جوڑا پہنیں گے کیا اپنی شادی میں ؟ ’’ اس نےاب تنگ آکر کہا تھا۔۔ اتنی دکانوں پر کب سے فضول میں گھوم رہے تھے وہ۔۔
’’ چپ کرو ’’ احتشام نے اسے پھر سے چپ کروایا تھا۔۔ جب سے وہ آئے تھے۔۔ یہی ہورہا تھا۔۔ وہ اسے کچھ بولنے نہیں دے رہے تھے۔۔اور وہ زیادہ دیر چپ نہیں رہتی تھی ۔۔
اب وہ ایک اور دکان میں آئے تھے۔۔ احتشام نے یہاں بھی کئ ڈریس دیکھے تھ۔۔ے پر اسے پسند نہیں آرہے تھے اور آخر کار اس نے کھل کر کہہ ہی دیا تھا۔۔
’’ مجھے ایک بار ہی اس پوری مارکیٹ کا سب سے لیٹس اور خوبصورت جوڑا دکھاؤ۔۔ ان سب میں سے کچھ نہیں لینے والا میں ’’ الہام ایک طرف کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
’’ اوک سر ’’ اب وہ دکان دار اندر سے ایک جوڑا نکال کر لایا تھا اور اسے ڈبے سے نکال کر احتشام کے سامنے پھیلایا تھا اور الہام بھی نظر پڑھتے ہی اس کے قریب آئی تھی۔۔
’’ واو ! کتنا حسین ہے یہ ’’ الہام اب اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہہ رہی تھی۔۔ لال رنک کی بیس اور اس کے اوپر سلور موتیوں سے کیا گیا کام ۔۔۔ بے حد حسین اور باریک ڈیزائین۔۔۔ پاؤں تک آتی لمبائی اور باڈی کی فکس فٹنگ کے علاوہ اس پر موجود موتی بھی بے حد قیمتی تھے۔۔ اسی کے ساتھ اس ڈریس کے میچنگ کے نازک سے ائر رنگ جن کی لمبائی بازوں تک آتی تھی۔۔ انکا ڈیزائن بھی اسی ڈریس کے ڈیزائن جیسا ہی تھا۔۔ اس نے محسوس کیا تھا کپڑا اتنا ملائم تھا کہ ہاتھ پر سختی سے پکڑنے پر بھی پھسلنے کو تیار تھا۔۔ اس نے اتنا حسین جوڑا آج تک اپنی لائف میں نہیں دیکھا تھا۔۔
’’ اسے پیک کر دیں ’’ احتشام کی آواز نے اسکا دھیان اس ڈریس پر سے ہٹایا تھا۔۔۔
’’ مگر یہ بہت ایکسپنسو ہے بھائی۔۔ آپ اریج کے لئے کچھ اور لے لیجئے گا ’’ اس نے اسے روکا تھا۔۔ وہ دیکھ سکتی تھی۔۔ اس ڈریس کی پرائز ایک لاکھ سے بھی اوپر تھی۔۔ اور پھر یہ شادی کا جوڑا نہیں تھا۔۔ یقیناً احتشام اریج کو تحفہ دینا چاہتا تھا۔۔ مگر اتنا مہنگا ؟
’’ تم چپ کرو ’’ اس نے اسے ایک بارپھر ٹوکا تھا۔۔۔ اور الہام اب منہ بنا کر خاموش ہوگئ تھی۔۔ اس نے دوربارہ کچھ نہیں کہا تھا۔۔ احتشام نے دو اور ڈریسز اور ان کے ساتھ کی جیورلی اور سینڈل وغیرہ بھی لئے تھے اور وہ سب کی سب چیزیں ہی بہت ایکسپنسو تھی۔۔ وہ بس خاموشی سے اسے سب لیتا دیکھ رہی تھی۔۔ اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ اریج کے لئے کچھ بھی لینے سے پہلے وہ پرائز نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ بس دکان کی نئی اور سب سے مہنگی چیز وہی لے رہا تھا۔۔۔ واقعی اریج اس کے لئے اہم تھی۔۔ الہام کو اچھا لگا تھا۔۔ ۔ شاپنگ سے فارغ ہوکر وہ اب اسے واپس گھر چھوڑ رہا تھا۔۔ اس نے ہسپتال بھی جانا تھا۔۔ اس لئے اس کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکا تھا۔۔ گھر کے آگے گاڑی رکی تو وہ دوبارہ بولی تھی۔۔
’’ آپ نے بہت زیادہ خرچہ کیا ہے آج۔۔ اتنی ساری چیزیں اور جوڑے لے لئے ہم اریج کے لئے بہت کچھ لے چکے تھے۔۔ آپ ایک اپنی طرف سے لے لیتے تو وہ بھی بہت تھا ’’ اسے واقعی احساس تھا کہ احتشام نے ضرورت سے بہت زیادہ لے لیا تھا۔۔
’’ میں جانتا ہوں کہ تم بہت کچھ لے چکی ہو اسکے لئے۔۔ اس لئے تو میں نے کچھ نہیں لیا ’’ وہ بہت پر سکون انداز میں بولا تھا۔۔ جبکہ الہام اسکی بات پر چونکی تھی ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ یہ سب پھر کیا ہے ؟ ’’ اس نے بیک سیٹ پر رکھے بیگز کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔۔
’’ میں نے کب کہا کہ یہ اریج کے لئے ہیں ؟ ’’
’’ تو پھر کس کے لئے ہیں ؟ ’’ وہ حیران تھی۔۔ اتنی ساری چیزیں اگر اریج کے لئے نہیں تھیں۔۔ تو پھر کس کے لئے احتشام نے اتنا کچھ لیا تھا۔۔
’’ تمہارے لئے ہیں یہ ’’ احتشام نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ وہ چونکی تھی۔۔
’’ میرے لئے ؟ ’’
’’ ہاں پچھلے ایک ہفتے سے تم اریج کے لئے اتنی شاپنگ کر چکی ہوکہ یہ بھول گئ کہ تمہیں بھی کچھ لینا ہ۔۔ے تمہارے اکلوتے بھائی کی شادی میں صرف ۴ دن رہ گئے ہیں اور تم نے ایک جوڑا تک نہیں لیا ’’ وہ اسے ڈانٹ رہا تھا اور الہام اسے دیکھ رہی تھی۔۔ واقعی ۔۔ وہ تو بھول ہی گئ تھی کہ اسے بھی کچھ لینا ہے۔۔ مگر احتشام نہیں بھولا تھا۔۔ وہ بھول سکتا بھی نہیں تھا ۔۔
’’ آپ ہیں نا میرا دھیان رکھنے کے لئے۔۔ مجھے کیا ضرورت سوچنے کی کچھ ’’ اس نے بہت دل سے کہا تھا۔۔ احتشام مسکرایا تھا۔۔
’’ اچھا اب مکھن مت لگاؤ اور جاؤ اندر۔۔ کل تمہاری باری ہے میری شاپنگ کرنے کی ’’
’’ ضرور ’’ اس نے کہا تھا اور وہ اب بیک سیٹ سے بیگز اٹھا اندر گئ تھی اور احتشام نے گاڑی اب اپنے ہسپتال کی طرف موڑی تھی۔۔
وہ اندر آئی ہی تھی کہ اسے اربش باہر نکلتی ہوئی نظر آئی تھی۔۔ جو اسے دیکھتے ہی اسکی طرف آرہی تھی۔۔
’’ ہوگئ شاپنگ ’’ اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگز کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں ہوگئ ’’ اس نے مختصر جواب دے کر آگے بڑھنا چاہا تھا جب اربش نے اسکے ہاتھ سے بیگز لئے تھے۔۔ وہ رکی تھی۔۔
’’ یہ کیا بدتمیزی ہے ’’ الہام کو اسکی حرکت اچھی نہیں لگی تھی۔۔۔
’’ ارے کوئی بد تمیزی نہیں ہے ۔۔ میں تو بس دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ تم نے احتشام کے لئے کیسی شاپنگ کی ہے ؟ ’’ اس نے اب بیگز میں دیکھنا شروع کیا تھا اور پھر ایک جوڑا باہر نکالا تھا۔۔
’’ واو ! یہ تو بہت ہی خوبصورت ڈریسز ہیں۔۔ مگر یہ احتشام کے تو نہیں ہیں پھر اریج کے ہیں ؟ ’’ الہام نے اس کے ہاتھ سے بیگز لئے تھے۔۔
’’ میرے ہیں ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھ گئ تھی اور اربش کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ آئی تھی۔۔
اب وہ اریج کے ساتھ شاپنگ مال میں موجود تھی آج انکی شاپنگ کا آخری دن تھا۔۔ صرف ایک جوتوں کا جوڑا ہی لینا تھا۔۔ اس کے علاوہ سب کچھ وہ الہام کے ساتھ لے چکی تھی۔۔ انہوں نے اپنی مطلوبہ چیزیں لے لی تھیں۔۔ مگر اس میں انہیں تھوڑی دیر ہوگئ تھی تو اربش اسے ڈنر کروانے کے لئے ایک ریسٹورینٹ لے آئی تھی۔۔۔
’’ ویسے تمہارے ساتھ آنے سے پہلے میں ایک کام سے احتشام کی طرف گئ تھی مگر الہام اور احتشام تو صبح سے ہی شاپنگ پر گئے ہوئے تھے ’’ اربش نے کھانے کی طرف وجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اچھا ’’ اریج نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تھی۔۔۔
’’ ہاں۔۔ بہت مہنگی شاپنگ کروائی ہے احتشام نے الہام کو۔۔ ڈیزائنرز کے سب سے مہنگے اور بہترین جوڑے دلوائے ہیں اسے۔۔ میری تو آنکھیں چمک گئ انہیں دیکھ کر ’’ اربش کی بات پر اریج کے ہاتھ رکے تھے۔۔
’’ الہام کی شاپنگ ؟ ‘’ الہام تو اسے احتشام کی شاپنگ کا کہہ کر گئ تھی۔۔
’’ ہاں۔۔ تین خوبصورت اور مہنگے ڈریسز کے علاوہ جیولری اور سینڈلز ہر چیز دلوائی ہے اس نے الہام کو ’’
’’ اچھا ’’ اریج کے چہرے کے بدلتے تعصورات کو اربش نے نوٹ کیا تھا۔۔
’’ میں نے کہا تھا نا کہ احتشام بہت محبت کرتا ہے الہام سے۔۔ اب دیکھوں نا اپنی شاپنگ کرنے گیا تھا اور الہام کی کر آیا ’’ اس نے مزید کہنا ضروری سمجھا تھا۔۔
’’ آپ نے مجھے بتایا نہیں ’’ اریج نے کہا تھا۔۔
’’ کیا ؟ ’’ وہ سمجھی نہیں تھی۔۔
’’ آپکی اور احتشام کی بات کیوں ختم ہوئی تھی ؟ ’’ ناجانے کیوں پر جیسے اسکے لئے یہ جاننا بہت اہم تھا۔۔اور اربش کےلئے بتانا۔۔
’’ تم یہ لو نا۔۔ یہاں کے کباب بہت ٹیسٹی ہیں ’’ اربش نے کباب کی پلیٹ اسکی طرف بڑھا کر کہا تھا۔۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ بات بدلنا چاہ رہی تھی۔۔
’’ بات مت بدلیں۔۔ مجھےبتائیں ’’ اریج جیسے سب جان کر ہی رکنے والی تھی۔۔
’’ کیا کرنا ہے تم نے جان کر۔۔ اب تو یہ پرانی باتیں ہیں ’’ اربش نے اداسی سے کہا تھا۔۔
’’ مگر میں پھر بھی جاننا چاہتی ہوں۔۔ پلیز مجھے بتائیں ’’ اس نے اب زور دے کر کہا تھا۔۔ اربش اب مجبور تھی۔۔
’’ الہام نہیں چاہتی تھی کہ ہماری شادی ہو۔۔ اس لئے اس نے احتشام سے کہا کہ وہ انکار کر دے اور احتشام نے ہمیشہ کی طرح الہام کے کہنے پر انکار کر دیا ’’ اس نے کہا تھا اور اریج کی آنکھوں میں حیرت آئی تھی۔۔
’’ ہمیشہ کی طرح ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں اس نے اپنی زندگی کے بہت سے اہم فیصلے الہام کی خاطر اسکی مرضی سے کیے ہیں ’’
’’ کیسے فیصلے ؟ ’’ اسے تجسس ہوا تھا۔۔
’’ ایک سال پہلے احتشام کو فرانس کے ایک ہاسپٹل میں جاب کی آفر آئی تھی اور تم تو جانتی ہو ترقی کے چانسز کتنے زیادہ ہوتے ہیں اس میں۔۔ مگر احتشام نے آفر ایکسپٹ نہیں کی ’’
’’ وہ کیوں ؟ ’’ اسے حیرت تھی۔۔ اتنی اچھی آفر کون ریجیکٹ کر سکتا ہے۔۔
’’ الہام کی خاطر ’’ اس نے مختصر کہا تھا۔۔۔
’’ الہام کی خاطر؟ ’’ وہ حیران ہوئی تھی۔۔
’’ ہاں الہام اس سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔ اس لئے اس نے الہام کی خاطر اپنےمستقبل کا ایک سنہرہ موقع گوا دیا۔۔ وہ بھی بہت خوشی سے’’ وہ رکی تھی۔۔ پھر مسکرائی تھی۔۔
’’ ایسے ہی ہیں دونوں ایک دوسرے کی خاطر۔۔ ایک دوسرے کی ہر بات مان لیتےہیں۔۔ پھر چاہے انہیں کتنا ہی نقصان کیوں نا ہو ’’ اس نے بات کو جن الفاظوں کے ساتھ پورا کیا تھا۔۔ اریج کے ذہن میں شک کا بیج بونے میں وہ کامیاب ہوگئ تھی۔۔
’’ الہام آپ دونوں کی شادی کے خلاف کیوں تھی ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا۔۔
’’ وہ میں تمہیں نہیں بتاسکتی ؟ ’’ اربش نے صاف انکار کیا تھا۔۔
’’ کیوں نہیں بتا سکتیں ؟ ’’
’’ کیونکہ تم الہام کی اچھی دوست ہو اور اس کے خلاف کسی بھی بات پر تم یقین نہیں کروگی ’’ اسے معلوم تھا کہ اگلی بات پر وہ اتنی آسانی سے یقین نہیں کرے گی۔۔
’’ اگر بات سچی ہے تو آپکو بتاتے ہوئے یقین کی پروانہیں ہونی چاہئے ’’ اریج نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔ اسکا دماغ اور دل اس وقت کس جنگ میں تھا۔۔ یہ صرف وہی جان سکتی تھی۔۔۔
’’بات تو سچی ہے اریج ۔۔ مگر بنا ثبوت کے اس پر کوئی یقین نہیں کریگا ’’ وہ بہت سنجیدہ تھی۔۔
’’ تو آپ ثبوت کے ساتھ بتا دیں ’’ وہ بھی ہر بات کی تہہ تک جانے کو تیار تھی۔۔
’’ ضرور۔۔ مگر اس کے لئے تمہیں دو سے تین دن انتظار کرنا ہوگا ’’
’’ اور ان دو تین دن میں میری شادی ہے ’’ اریج سے جیسے اسے یاد دلایا تھا۔۔
’’ جانتی ہوں ’’ وہ مسکرائی تھی اور یہ ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔۔ جسے اریج سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ باقی کا سارا وقت انہوں نے بات نہیں کی تھی۔۔ دونوں ہی کے دماغ کسی نا کسی سوچ میں گم تھے۔۔ فرق بس یہ تھا کہ اریج اپنے اندر پیدا ہونے والے شک کے بیج کو پال رہی تھی اور اربش اسے ایک پیڑ بنانے کی تیاری میں تھی۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial