قسط: 15
وہ اس کے پیچھے ہی تیزی سے نیچے آیا تھا جو اب کچن میں گھس گئی تھی – عنایہ کو کچن میں جاتا دیکھ سکندر بھاگ کر کچن میں اس کے پیچھے گیا تھا مگر کچن میں داخل ہوتے ہی سامنے کا منظر دیکھ اس کے اوسان خطا ہوئے تھے – عنایہ نو ! پیچھے کرو اسے یہ لگ جائے گی تمہارے – سکندر نے سامنے کا منظر دیکھتے چلاتے ہوئے کہا جہاں وہ اپنے ہاتھ کی نبض پر چھڑی رکھے کھڑی تھی –
نہیں میں نہیں مانو گی آپ کی بات مجھے مرنا ہے بس میں خود کو سزا دینا چاہتی ہوں اپ سے محبت کرنے کی – آج میں خود کو ختم کر کے چھوڈوں گی – اپنے ساتھ اس بچے کو بھی لے کر جاوں گی کیونکہ میں ایک اور عنایہ نہیں لانا چاہتی اس دنیا میں – وہ جنونی انداز میں کہتی اپنی نبض پر چھڑی چلا چکی تھی جبکہ سکندر کو لگا وہ چھڑی عنایہ نے اپنی نبض پر نہیں بلکہ اس کے دل پر چلائی تھی – نووووو عنایہ !! وہ چیختے ہوئے کہتا اس کے پاس پہنچا تھا جس کی انکھیں بند ہو رہی تھیں – عنایہ انکھیں کھولو !! میں تمہیں کہہ رہا ہوں انکھیں کھلی رکھو میں ابھی ہاسپٹل لے کر جاتا ہوں تمہیں – وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتا بولتا اسے باہوں میں اٹھا چکا تھا جبکہ اتنی درد کے باوجود عنایہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی –
داد اور کومل جو سکندر کی اونچی اواز پر ائے تھے کچن میں اتے ہی سامنے سکندر کی باہوں میں عنایہ کو دیکھ پریشان ہو گئے تھے – کیا ہوگیا عنایہ جی کو ؟؟ اور ان کی کلائی سے یہ خون کیوں بہہ رہا ہے ؟؟ کومل پریشانی سے سکندر کے پاس اتی بولی – اور اپنے دوپٹے کو عنایہ کی کلائی پر رکھتی خون روکنے کی کوشش کرنے لگی – داد گاڑی نکالو جلدی – سکندر کے کہنے پر داد فورا باہر کی جانب بھاگا تھا – ہاہا کچھ بھی کر لو میں اب نہیں بچوں گی پر مجھے سکون مل رہا ہے اپ کو یوں بے بس ہوتا دیکھ – وہ درد کی وجہ سے بامشکل بولی تھی –
اگر تمہیں یا میرے بچے دونوں میں سے کسی کو کچھ ہوا تو میں قسم کھاتا ہوں عنایہ میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لوں گا – سکندر نے غصے اور شدت سے بھر پور لہجے میں اسے وارنگ دی تھی جو اب خون کافی ضائع ہونے کے سبب بے ہوش ہو چکی تھی –
:::::::::::: :::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::
ڈاکٹر ! ڈاکٹر ہاسپٹل میں وہ عنایہ کو لاتے ہی ڈاکٹر کو آوازیں دینے لگا – ڈاکٹر صبا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی عنایہ کا چیک اپ کر کے آئی تھیں سکندر کی باہوں میں اس کا بے جان وجود دیکھ حیرت اور پریشانی سے بھاگ کر سکندر کے قریب پہنچی تھیں – کیا ہوا مسٹر سکندر انہیں ؟ سکندر کے قریب پہنچتے ہی انہوں نے پریشانی سے پوچھا – ابھی اپ پلیز اس کا ٹریٹمنٹ کریں پہلے ہی کافی خون بہہ گیا ہے – سکندر نے ان کے سوال کے جواب میں پریشانی سے کہا –
جی جی چلیے میرے ساتھ – وہ جلدی سے کہتیں سکندر کو ICU روم میں لے گئی – سکندر کے عنایہ کو بیڈ پر لٹانے تک ڈاکٹر نرسزز کو بلا چکی تھیں – اپ اب باہر ویٹ کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں – ڈاکٹر منہ پر ماسک پہنتی بولی – پلیز ڈاکٹر میری وائف اور بچے دونوں کو کچھ نہیں ہونا چاہیے – سکندر کے چہرے پر اس وقت انتہا کی پریشانی تھی – انشاللہ اپ بس دعا کریں باقی اللہ کو جو منظور – ڈاکٹر کے کہنے وہ باہر نکلتا باہر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا گیا تھا – داد اور کومل بھی وہاں موجود تھے – کومل کا تو رو رو کر برا ہال تھا جبکہ داد سے بھی سکندر کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی – سائیں انشاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا –
اپ فکر نہ کریں بس دعا کریں – داد نے آگے بڑھتے سکندر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے تسلی دیتے کہا – تم سہی تھے داد وہ واقع میری محبت ہے یا شاید اس سے بھی بڑھ کر اور آج یہ احساس مجھے بار بار اور شدت سے ہو رہا ہے – وہ اندر موت اور زندگی کے درمیان جھول رہی ہے اور یہاں میرا بس نہیں چل رہا میں خود اس کی ساری تکلیف لے لوں – سکندر کے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہنے پر داد نے اسے گلے لگایا تھا – اپ لوگ پلیز+A بلڈ گروپ کا ارینج کر دیں – اچانک ائی سی یو کا دروازہ کھولتے نرس نے باہر نکلتے کہا – میرا ہے اے پلس بلڈ گروپ میں دیتا ہوں –
داد جلدی سے نرس کی بات پر بولا جو اب اسے خون دینے کے لیے لے گئی تھی – سائیں دعا کریں نہ کہ عنایہ جی ٹھیک ہو جائیں کومل جو وہاں کوریڈور میں رکھی چئیرز میں سے ایک پر بیٹھی تھی سکندر سے روتے ہوئے بولی جس پر سکندر نے آسمان کی طرف منہ کیا تھا – یقینً وہ دل میں اپنے رب سے مخاطب دعا گو تھا –
:::::::::::::::::::::: ::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::
کیسی ہے ڈاکٹر میری وائف ؟؟ ڈاکٹر کے ائی سی یو سے باہر نکلتے ہی سکندر نے بے تابی سے پوچھا – اپ کی دعائیں قبول ہو گئی ماشاءاللہ ماں اور بچہ دونوں ٹھیک ہیں اور اپ میرے ساتھ ائیے مسٹر سکندر – مسکرا کر جواب دیتے اخر میں ڈاکٹر نے سکندر کو اپنے ساتھ چلنے کا کہا – دیکھیں مسٹر سکندر میں نہیں جانتی کہ اپ کے کیا فیملی ایشوز ہیں کہ جس کی وجہ سے اپ کی وائف نے اس حالت میں بھی خود کشی کرنے کی کوشش کی – لیکن میں اپ کو اتنا بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ اگر اگلی بار ایسا کچھ ہوا تو ائی ایم سوری ہم کچھ نہیں کر پائیں گے –
اپ کے بچے کو بچانا ناممکن ہو جائے گا اور عنایہ کی جان بھی خطرے میں جا سکتی ہے – اج بھی ایک معجزاتی طور پر اپ کی بیوی اور بچے کی جان بچی ہے ایک تو وہ پہلے سے اتنی کمزور ہیں دوسرا کم عمری میں پریگننسی میں بھی بہت کمپلیکیشنز ہوتے ہیں اور ان کی عمر بھی ابھی محض 18 سال ہے – ابھی میری اپ سے یہی درخواست ہے کہ اپ کے جو بھی فیملی ایشوز ہیں پلیز انہیں سوٹ اؤٹ کر لیں – کیونکہ گھریلو پریشانیاں ماں کے کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے اور بچے کے لیے بھی – ایک اور بات اپ کی وائف کی حالت دیکھ اور ان کی خودکشی کی کوشش کو دیکھ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ یہ بچہ نہیں چاہتی اور اپ یقینا یہ بچہ چاہتے ہیں –
تو میری اپ کو یہی نصیحت ہے کہ اپ انہیں اکیلا مت چھوڑیں کیونکہ جس طرح اج انہوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی وہ اگلی مرتبہ بھی ایسا کر سکتی ہیں – باقی اپ خود سمجھدار ہیں لیکن پلیز اپنی وائف کو ٹینشن سے دور رکھیے گا اگر اپ کو اپنے بچے اور وائف کی زندگی پیاری ہے – سکندر بڑی غور سے ڈاکٹر کی تمام ہدایات اور باتیں سن رہا تھا – تھینک یو ڈاکٹر میں دھیان رکھوں گا اور اسے اب اکیلا نہیں چھوڑوں گا اور اس بات کی بھی گارینٹی دیتا ہوں کہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کروں گا – سکندر نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتے کہا – ویسے مسٹر سکندر اپ برا نہ مانے تو ایک بات پوچھوں ؟؟ ڈاکٹر کے پوچھنے پر سکندر نے ہاں میں سر ہلاتے انہیں بات پوچھنے کی اجازت دی –
کیا اپ نے اپنی وائف سے ان کی مرضی کے خلاف شادی کی ؟؟ یا ان کی مرضی کے خلاف رشتہ قائم کیا ؟؟ ڈاکٹر کے سوال پر سکندر نے اسے دیکھا تھا – کیا مطلب میں سمجھا نہیں اپ کی بات ؟؟ سکندر نے نہ سمجھی سے پوچھا – میرا مطلب ہے کہ زیادہ تر ایسے کیسز میں ہی ایسا ہوتا ہے کہ ماں بچے کو دنیا میں لانے کے لیے راضی نہیں ہوتی جب اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کی گئی ہو اور اس کا شوہر اس سے زبردستی اپنے حقوق وصول کرتا ہو – ڈاکٹر کی بات کا مطلب سن سکندر نے فورا نہ سر ہلایا –
نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ان فیکٹ ہم بہت خوش تھے ایک ہیپی کپل کی طرح بس یہ پچھلے کچھ دنوں سے ہمارے درمیان کچھ ایشوز ہو گئے ہیں اور اس میں ساری غلطی میری ہی ہے اور اب میں پچھتا رہا ہوں کیونکہ اب وہ مجھے معاف نہیں کر رہی لیکن مجھے امید ہے ایک نہ ایک دن میں اس سے منا ہی لوں گا – سکندر نے کھوئے ہوئے لہجے میں بتایا جس پر ڈاکٹر نے امین کہا تھا – اور ہاں مسٹر سکندر اب اپ ان پر غصہ مت کریے گا خود کوشی کی کوشش کی وجہ سے –
آپ ان کے ساتھ اچھے سے برتاو کریں ، ان کے غصے پر بھی ہس کر بات کو ٹال دیں یہ بھی ان کی کنڈیشن کے لیے بہتر ہے – سکندر جو کمرے سے جانے والا تھا ڈاکٹر کے اچانک کہنے پر اس نے پلٹ کر ڈاکٹر کو دیکھا – اوکے ڈاکٹر میں غصہ بلکل نہیں کروں گا – سکندر نے مسکرا کہا اور کمرے سے نکل گیا – اچھا ہوا تھا کہ ڈاکٹر نے اسے روک دیا تھا ورنہ اس کا ارادہ عنایہ کی عقل اچھے سے ٹھیکانے لگانے کا تھا –
::::::: ::::: ::::: ::::: :::::: ::::::: :::::: :::::: ہیں
داد اور کومل کو وہ گھر بھیج چکا تھا اور اب وہ عنایہ کے کمرے میں موجود تھا – اسے ائی سی یو سے دوسرے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا اور تھوڑی دیر پہلے ہی اسے ہوش ایا تھا – پین تو نہیں ہو رہا بازو میں – سکندر نے اس سے فکر مندی سے پوچھا – کیوں بچایا مجھے ؟؟ کمرے کی چھت کو خالی نظروں سے دیکھتے بنا نظروں کا زاویہ بدلے اس نے سکندر سے اہستہ اواز میں پوچھا –
کیا مطلب کیوں بچایا ؟؟ تم پاگل ہو میں نہیں – تم نے خود کشی کی کوشش کرنے کی ٹھانی تو کیا میں بھی تمہاری طرح پاگل پن دیکھاتا جو تمہیں خودکشی کرنے دیتا – تم نے تو اپنے ساتھ پل رہی ننھی جان کا بھی نہیں سوچا – سکندر نے اس کے پوچھنے پر سخت لہجے میں کہا ارادہ تو اس کا بھرپور طریقے سے غصہ کر کے اسے سمجھانے کا تھا مگر ڈاکٹر نے اسے غصہ کرنے سے منع کیا تھا – کیوں بچایا مجھے ؟؟ نہیں جینا مجھے نہ ہی اس بچے کی مجھے کوئی پرواہ ہے کیونکہ مجھے اسے اس دنیا میں لانا ہی نہیں ہے – زندگی تو تباہ کر دی میری آپ نے کم سے کم موت تو ارام سے انے دو –
اور یہ یہ ساری مشینیں یہ ساری ٹریٹمنٹ نہیں چاہیے مجھے – مرنا ہے مجھے – وہ ایک دم بیڈ پر اٹھ کر بیٹھتی غصے سے بولتی جنونی انداز میں اپنے ہاتھ پر لگی ڈرپ اور کلائی پر باندھی گئی پٹی کو نوچ کر اتارنے لگی – اس کا یہ جنونی اور پاگل انداز دیکھ سکندر پریشانی سے اس کی طرف بڑھتا اس کو قابو کر چکا تھا – تم پاگل ہو گئی ہو عنایہ کیا پاگل پن ہے یہ ؟؟ سکندر نے اس کے دونوں ہاتھ قابو کرتے غصے سے اسے کہا – چھوڑو مجھے میں نے کہا چھوڑو مجھے -مجھے مرنا ہے مجھے نہیں جینا – وہ ایک ہی بات بار بار دہرا رہی تھی –
جبکہ سکندر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اور اس نے ایک زوردار طمانچہ اس کے منہ پر مارا تھا – تھپڑ اتنا شدید تھا کہ عنایہ کی انکھوں کے سامنے کی پوری دنیا گھوم گئی تھی اور وہ اگلے ہی لمحے بے ہوش ہوتی سکندر کی باہوں میں جھول گئی – اس کے بے ہوش ہوتے ہی سکندر نے اسے ارام سے بیڈ پر لٹایا اور خود ڈاکٹر کو بلانے چل پڑا – اسے عنایہ کے اتنے شدید ری ایکشن پر حیرت ہو رہی تھی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ جب کوئی عورت عشق میں ہاری ہو تو ایسے ہی پاگل ہو جاتی ہے –
::: :::: ::: :::: :::::::::::::::: :::::::::::::::::: :::::
دو دن سے وہ ہاسپٹل میں ہی تھا عنایہ کے ساتھ – اب عنایہ کو زیادہ بے ہوش ہی رکھا جاتا تھا کیونکہ وہ جب بھی ہوش میں اتی تو خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھی – داد کے ذریعے وہ دادی کو پیغام پہنچا چکا تھا کہ کچھ ضروری کام کی وجہ سے وہ نہیں حویلی آ سکتا – تھوڑی دیر پہلے ہی انہیں ڈسچارج پیپر مل چکے تھے اور اب وہ داد اور کومل عنایہ کے بیڈ کے پاس کھڑے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے – تو کومل تم یہ سارا سامان لے اؤ اور داد تم جا کر گاڑی سٹارٹ کرو میں عنایہ کو لے کر اتا ہوں – ہم سیدھا حویلی جائیں گے –
میں اور رسک نہیں لے سکتا ویسے بھی تمہاری شادی میں کچھ دن ہی رہ گئے ہیں اور کومل بھی اب زیادہ دیر شہر والے گھر نہیں رہ سکتی اور اس حالت میں میں عنایہ کو اکیلا بالکل نہیں چھوڑ سکتا – سکندر کے کہنے پر داد نے اسے حیرت سے دیکھا تھا -مگر سائیں دادی کو کیا جواب دیں گے ؟؟ داد کے پریشانی سے پوچھنے پر سکندر نے اسے دیکھا – کیا جواب دینا ہےمیں نے حقیقت ہی بتاؤں گا اور پھر جو دادی سزا سنائیں گی سن لوں گا – لیکن اب عنایہ حویلی جائے گی –
سکندر کے جواب پر داد اثبات میں سر ہلاتا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ کومل ضروری سامان سمیٹنے لگی – سکندر نے ایک نظر عنایہ کہ بے ہوش وجود کو دیکھا – اس نے خود کہہ کر ڈاکٹر سے عنایہ کو انجیکشن لگوا دیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عنایہ کبھی بھی حویلی نہیں جائے گی اس لیے اسے بے ہوش کر کر لے جانا ہی بہتر تھا – کومل کے سارا سامان سمیٹتے ہی سکندر نے اگے بڑھتے عنایہ کے بے ہوش وجود کو اپنی باہوں میں بھرا تھا اور پھر وہ اسی لیے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ کومل بھی اس کے پیچھے ہی تھی –
وہ نہیں جانتا تھا کہ اب حویلی جا کر جب دادی کو سب سچ بتائے گا تو دادی کا کیا ری ایکشن ہوگا لیکن جو بھی تھا اب وہ اس حقیقت کو مان چکا تھا کہ عنایہ کے بغیر وہ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی نہیں جی سکتا جینا تو دور وہ اس کے بغیر ایک پل بھی جینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تو اس کی خاطر وہ دادی کی ڈانٹ اور غصہ بھی سہہ لے گا – لیکن اسے پتہ تھا دادی اس سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہے گیں ویسے بھی عنایہ کو دیکھ ان کا سارا غصہ ختم ہو جائے گا کیونکہ ان کے دل کی مراد جو برائے گی ان کے پوتے کی بیوی ان کی پسند کے مطابق ہونے والی تھی – مگر وہ یہ نہیں جاتا تھا کہ اس بار اسے دادی کی ڈانٹ کی جگہ سخت ناراضگی سہنے کو ملے گی –