قسط: 16
حویلی پہنچتے ہی عنایہ کے وجود کو باہوں میں بھرتے وہ حویلی کے اندر داخل ہوا – داد اور کومل شہر والے گھر پھر سے روانہ ہو چکے تھے کیونکہ وہاں سے عنایہ کے کپڑے اور دوسرا سامان لانا تھا – وہ اسکے بے ہوش وجود کو باہوں میں بھرے سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی جانب چل پڑا جب کہ بی جان جو گاڑی کی اواز سن کمرے سے باہر ائی تھیں سکندر کی باہوں میں ایک لڑکی کا وجود دیکھ حیران ہوئی تھیں – وہ بھی اپنی چھڑی کی مدد سے چلتی اہستہ اہستہ سیڑھیاں چڑھتی ان کے پیچھے گئی تھیں –
کمرے میں پہنچتے ہی سکندر نے عنایہ کو بیڈ پر لٹا کر اس پر لحاف اورھ دیا مگر جیسے ہی پیچھے پلٹا دروازے میں بی جان کو حیران کھڑا دیکھ اسے احساس ہو گیا کہ اب یقینا اسے بی جان کے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا – یہ کون ہے شاہو اور تم اسے یوں اپنے کمرے میں کیوں لے کر ائے ہو ؟؟ دادی کمرے کے اندر اتیں سکندر سے تشویش زدا لہجے میں بولیں – دادی یہ میری بیوی ہے – سکندر کے جواب پر بی جان نے انکھیں پھاڑے اسے دیکھا تھا – یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟؟ کل تک تو تم شادی کے لیے راضی نہیں تھے اور اب اچانک یہ لڑکی لے کر ائے ہو اور کہہ رہے ہو تمہاری بیوی ہے – سچ سچ بتاؤ کون ہے یہ ؟؟ بی جان نے اپنے لہجے میں روب لاتے کہا –
میں سچ کہہ رہا ہوں بی جان یہ میری بیوی ہے عنایہ سکندر شاہ اور ہماری شادی کو چار ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں اور اب تو یہ میرے بچے کی ماں بھی بننے والی ہے – سکندر تو بی جان پر حیرتوں کے پہاڑ ہی توڑ رہا تھا – واہ بیٹا بڑی جلدی خیال اگیا تمہیں کہ اب اپنی شادی کے بارے میں اپنی بوڑھی دادی کو بھی اطلاع کرنی ہے – نہیں نہیں ابھی بھی نہ بتاتے نہ بتاتے ابھی بھی بچہ پیدا ہو جاتا جوان ہو جاتا اس کی بھی شادی ہو جاتی جب اس کا بھی بچہ ہونے والا ہوتا تب بتاتے مجھے – بی جان نے طنز کے تیر ڈبو ڈبو کر سکندر پر وار کیا تھا – سوری بی جان میں خود شرمندہ ہوں اپ سے دراصل میں اپ کو بتاتا ہوں اس شادی کی حقیقت کیا ہے –
جانتا ہوں اپ غصہ کریں گی لیکن اگر نہ بتایا تو بھی اپ غصہ کریں گی – سکندر ان کا ہاتھ تھامتا شرمندگی سے بولا – کیا حقیقت ہے اس شادی کی ؟؟ بی جان نے جلدی سے پوچھا – دراصل بی جان میں…. ابھی سکندر دادی کو ساری حقیقت بتاتا کہ اس سے پہلے ہی اس کے فون پر افس سے کال انے لگی – میں ابھی ایا بی جان یہ ایک کال اٹینڈ کر کے پھر اپ کو بتاتا ہوں سب کچھ – وہ کال پک کرتا بی جان سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ بی جںن بیڈ پر لیٹے عنایہ کے وجود کو دیکھنے لگیں ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ عنایہ کو ہوش انے لگا دادی جو وہیں کمرے میں صوفے پر بیٹھی تھیں اسے ہوش میں اتا دیکھ جلدی سے اٹھتیں اس کے قریب گئی تھیں –
ہوش میں اتے ہی عنایہ نے کمرے کو حیران کن نگاہوں سے دیکھا تھا یہ ہاسپٹل کا روم تو نہیں تھا اور نہ ہی ان کے شہر والے گھر کا کوئی بھی روم تھا تو وہ کہاں تھی – اس نے حیرت سے نظریں گھماتے دیکھا کہ تبھی اس کی نگاہ دادی پر پڑی اپ کون ؟؟ عنایہ نے حیرت سے پوچھا – میں سکندر کی بی جان ہوں – دادی کے تعارف پر عنایہ نے انکھیں پھاڑے انہیں دیکھا تھا – یعنی سکندر اسے حویلی لے ایا تھا – تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا ہے بچے ؟؟ دادی نے اس کی کلائی پر باندھی پٹی کو دیکھ پوچھا – جس پر عنایہ تنزیہ مسکرائی تھی – خود کشی کی کوشش کی تھی میں نے – اس نے بڑے ارام سے جواب دیا جب کہ بی جان حیران ہوتیں اسے دیکھنے لگیں – مگر کیوں ؟؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا – کیونکہ مجھے اپ کے پوتے کے ساتھ نہیں رہنا مجھے اس کے ساتھ نہیں زندگی گزارنی اور نہ مجھے اس بچے کو اس دنیا میں لانا ہے –
عنایہ نے بدتمیزی سے جواب دیتے کہا – مگر تمہیں کیوں نہیں رہنا سکندر کے ساتھ ؟؟ کیا تم دونوں کے درمیان کوئی لڑائی ہوئی ہے ؟؟ بی جان کے پوچھنے پر عنایہ نے انہیں دیکھا یعنی اس شخص نے اپنی دادی کو کوئی حقیقت نہیں بتائی تھی – لڑائی ؟؟ لڑائی نہیں اپ کے پوتے نے میری زندگی برباد کی ہے پہلے اس نے میری شادی والے دن مجھے بد نام کیا مجھ سے نکاح کیا بدلے میں – پھر اس نے میرے ساتھ جھوٹی محبت کا ناٹک کیا مجھے استعمال کیا مجھ سے کھیلا میرے جذبات سے کھیلا- میری پوری دنیا تو اس نے ختم کر دی تھی لیکن اس نے تو میری روح تک چھنی کر دی – اپ خود بتائیں کیا ایسے شخص کے ساتھ میں رہنا چاہوں گی جس نے مجھے برباد کیا ہو ؟؟ وہ دادی کی طرف دیکھتے غصے سے بول رہی تھی جبکہ بی جان تو اس کی باتوں پر صدمے میں چلی گئی تھیں – کیا شاہو نے ایسا کیا ؟؟ انہوں نے بے یقینی سے پوچھا جس پر عنایہ کی انکھوں میں انسو اگئے اور اس نے ہاں میں سر ہلایا –
مجھے صحیح سے پوری بات بتاؤ – دادی اس کے پاس بیٹھتی اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولیں جب کہ عنایہ نے انہیں آنسوں سے بھری نظروں سے دیکھا تھا اور ان کے سینے سے لگتی رونے لگی پھر اہستہ اہستہ انہیں ساری بات بتانے لگی – دادی جیسے جیسے اس کی بات سن رہی تھی انہیں یقین نہیں ارہا تھا کہ یہ سب سکندر نے کیا ہے وہ سکندر جو شادی کے نام سے دور بھاگتا تھا جو عورت کو دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا – اس نے ایک لڑکی کے ساتھ اتنا برا کیا ہے – اچھا میرا بچہ تم چپ کرو میں ہوں نا میں سب دیکھ لوں گی تم پریشان مت ہو – دادی اس کے بال سہلاتے ہوئے اسے دلاسہ دیتے بولیں –
جس پر عنایہ اپنے انسو صاف کرتی پیچھے ہٹی تھی پر بیٹا میری ایک بات ماننا دوبارہ اس بچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ ایسا کر کے اللہ کی نا شکری کرو گی – تم تو ان خوش قسمت عورتوں میں سے ہو جسے اللہ اولاد کی نعمت سے نواز رہا ہے اگر تم ناشکری کرو گی تو اللہ کو ناراض کرو گی – دادی اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھیں اس سے پہلے کی عنایہ کوئی جواب دیتی سکندر کمرے میں داخل ہوا تھا بی جان کو عنایہ کے پاس بیٹھا دیکھ اور خود کو گھورتا پا کر سکندر کو احساس ہو گیا تھا یقینا عنایہ انہیں سب کچھ بتا چکی تھی – سکندر کے کمرے میں اتے ہی بی جان عنایہ کے پاس سے اٹھتیں سکندر کی طرف بڑھیں تھیں –
بی جان میں اپ کو سب کچھ بتانے ہی….. چٹاخ ! اس سے پہلے کہ سکندر بی جان کو کوئی دلیل دیتا کمرے کی فضا میں زوردار تھپڑ کی اواز گونجی تھی – عنایہ کی انکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی تھیں سکندر نے گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے بی جان کو دیکھا تھا اس کی 29 سالہ زندگی میں اج پہلی بار دادی نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا – بی جان ! اس نے صدمے سے انہیں پکار رہا تھا – مت کہو مجھے بی جان نہیں ہوں میں تمہاری بی جان میں تو اس سکندر کی بی جان تھی جس نے کبھی عورت ذات کو نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہ تھا – میں اس سکندر کو نہیں جانتی جس نے ایک عورت کی ذات سے کھلونے کی طرح کھیلا ہے – غصے کے سبب دادی کی اواز کانپ رہی تھی جبکہ سکندر شرمندہ سا نظریں جھکا گیا تھا –
ائ ایم سوری بی جان میں شرمندہ ہوں – سکندر نے شرمندگی سے کہا – کہا نا مت کہو مجھے بی جان اور دفع ہو جاؤ یہاں سے خبردار جو تم مجھے اج کے بعد اس بچی کے اس پاس بھی نظر ائے – بی جان کے الفاظ پر سکندر نے حیرت سے انہیں دیکھا مگر بی جان یہ میرا کمرہ ہے – اس نے صدمے سے چور اواز میں کہا – تمہارا کمرہ تھا اج کے بعد اس کمرے میں یہ بچی رہے گی اور تم جہاں مرضی رہو مگر مجھے تم اس کمرے کے اس پاس بھی نظر نہیں انے چاہیے ہو – سنا تم نے ؟؟ دادی نے کہتے باقاعدہ اس کا بازو پکڑ کر اسے کمرے سے نکالا تھا جبکہ سکندر کو سمجھ ہی نہیں ارہا تھا کہ اخر یہ ہو کیا رہا ہے اس کی بی جان جو اس پر جان چھڑکتی تھی اس سے اس قدر غصہ ہو چکی ہیں اور وہ عنایہ جو ابھی ائی تھی بی جان کو کیسے اس نے اپنی طرف کر لیا تھا –
بی جان اسے کمرے سے نکالتے واپس کمرے کی جانب ائیں اور دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر عنایہ کو دیکھنے لگیں – تم ارام کرو بچے اب یہ تمہارے کمرے میں نہیں ائے گا اور اگر یہ کسی طریقے سے ا جائے اور تمہیں تنگ کرے تو تم میرے کمرے میں ا جانا – دادی کہہ کر دروازہ بند کرتیں واپس اپنے کمرے کی جانب چل دیں جب کہ سکندر جو سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا اس کی طرف انہوں نے منہ کرنا بھی گوارا نہ کیا – سکندر کو واقعی صحیح سے احساس ہوا تھا کہ اس نے اپنے بدلے اور اپنی انا کے چکر میں اپنے سارے رشتے خود سے ناراض اور دور کر لیے تھے –
لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی دادی کو تو وہ منا ہی لیتا جبکہ سب سے زیادہ فکر اسے عنایہ کی تھی جو بات بات پر رشتہ ختم کرنے کی بات کرتی تھی – اس نازک موڑ پر جب اس کا اور عنایہ کا رشتہ ایک کچے دھاگے کی ڈور کی مانند ہو چکا تھا اللہ تعالی نے اس بچے کے ذریعے اس کچے دھاگے کو مضبوطی بخشی تھی – شاید اتنی مضبوط تو ہو ہی چکی تھی وہ ڈور کہ وہ اپنے رشتے کو بچا سکتا اپنی کی گئی غلطیوں اور نادانیوں کو سدھار سکتا اور اسے پورا یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ پھر سے عنایہ کو پہلے جیسی عنایہ بنا ہی لے گا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
رات کے وقت وہ گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی کہ تبھی کوئی کھڑکی سے اندر ایا تھا – اس کے بیڈ کے قریب اتے سکندر نے گہری نظروں سے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا جو سوتے وقت وہ بہت معصوم لگ رہی تھی- سوتے ہوئے کتنی خوبصورت اور معصوم لگتی ہو اور جب جاگ جاتی ہو تو جنگلی بلی بن جاتی ہو – اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے سکندر نے اہستہ اواز میں کہا – بی جان کے سونے کے بعد وہ عنایہ سے بات کرنے کے لیے یوں چوری چھپے کھڑکی کے ذریعے ایا تھا کیونکہ دروازہ تو عنایہ نے اندر سے لاک کر رکھا تھا اور باقی ڈپلییکیٹ چابیاں دادی کے قبضے میں تھیں –
داد کو وہ نیچے پہرہ دینے کے لیے کھڑا کر ایا تھا – بیڈ پر بیٹھتے اس نے عنایہ کو ہلکے سے ہلاتے اسے جگانے کی کوشش کی مگر اس کی نیند میں کوئی بھی خلل نہ ایا – دو تین بار کوشش کرنے کے بعد بھی جب وہ نہ اٹھی تو سکندر کی انکھیں شرارت سے چمکیں اور اس نے اگے ہوتے عنایہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے تھے – انداز میں بے حد نرمی تھی – عنایہ جو خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی اچانک نیند میں گھٹن ہونے کے سبب اس کی انکھ کھلی مگر سکندر کو خود پر جھکا اور اپنے ہونٹ اس کی گرفت میں دیکھ اس کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھی – اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اس نے سکندر کو پیچھے کی طرف دھکا دیتے دور کیا اورخود اٹھ کر بیٹھی تھی – کیا کر رہے ہیں اپ یہاں ؟؟ دادی ! دادی ! وہ اس سے پوچھتی دادی کو زور زور سے اوازیں دینے لگی جبکہ سکندر نے جلدی سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اسے چپ کروایا تھا – چپ کر جاؤ پاگل عورت پہلے ہی بہت مشکل سے تم سے بات کرنے کے لیے ایا ہوں –
سکندر نے اس کے ہونٹوں پر رکھے ہاتھ کو بنا ہٹائے اس سے کہا -چیخنا مت اور نہ شور کرنا میں بس تم سے تھوڑی دیر بات کرنے ایا ہوں اینڈ ائی پرومس میں کچھ بھی ایسا ویسا نہیں کروں گا – سکندر نے اس سے کہتے اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں سے ہٹایا تھا جبکہ عنایہ محض اسے گھور رہی تھی – سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ میرا بے بی کیسا ہے ؟؟ اس نے محبت بھری نگاہوں سے اس کے پیٹ کی جانب دیکھتے کہا – پہلے تو عنایا اس کے یوں بے باک الفاظ اور نگاہوں پر شرم سے پانی پانی ہوئی تھی مگر پھر اچانک ہی وہ مسکرا کر سکندر کو دیکھنے لگی – ابھی تو بالکل ٹھیک ہے اپ کا بے بی مگر زیادہ دن رہنے والا نہیں کیونکہ میں بہت جلد اسے ختم کرنے والی ہوں –
سکندر جو مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا اس کے الفاظ پر اس کی ساری مسکراہٹ سمٹی تھی اور اگلے ہی لمحے اس نے عنایہ کے بالوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتے اس کا چہرہ اپنے قریب کیا تھا – مجھے مت مجبور کرو عنایہ کہ میں جو اچھا بنا ہوا ہوں اپنی اچھائی کو سائیڈ پر رکھتے ایک بار تمہاری عقل ٹھکانے لگا دوں – سکندر کے غصے سے کہنے پر عنایہ نے اس کی انکھوں میں انکھیں ڈالی تھیں – مجھے نہیں رہنا اپ کے ساتھ سکندر شاہ کیوں نہیں سمجھ رہے اپ خدا کے لیے مجھے ازاد کر دو – اپ کو جب بھی دیکھتی ہوں مجھے یاد اتا ہے کہ میں نے اپ جیسے شخص سے محبت کی میں نے خود اپنے ہاتھوں سے خود کو برباد کیا – وہ انکھوں میں انسو لیے بے بسی سے روتی ہوئی بولی جبکہ سکندر کی گرفت اس کے بالوں پر ہلکی ہوئی تھی اور اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے تھے –
کیا تم مجھے ایک بار اخری بار موقع نہیں دے سکتی ؟؟ سکندر نے ایک آس لیے پوچھا جب کہ عنایہ نے نہ سر ہلاتے اس کی آس توڑ دی تھی – نہیں میں نہیں دوں گی اپ کو اب کوئی بھی موقع بس مجھے ازاد کر دیں – عنایہ کے جواب پر سکندر نے اس کے تھامے ہاتھ چھوڑ دیے تھے اور چہرے پر مایوسی پھیل گئی تھی – ٹھیک ہے میں تمہیں چھوڑ دوں گا مگر ایک شرط پر – سکندر کے کہنے پر عنایہ نے اسے دیکھا تھا – کیا شرط ہے جو بھی ہو مجھے قبول ہے جلدی سے بتاؤ – وہ جلدی سے بولی جب کہ اس کی جلد بازی دیکھ سکندر کے دل کو کچھ ہوا تھا یعنی وہ اس قدر اس سے نفرت کرنے لگ گئی تھی کہ اس سے دور جانے کے لیے وہ کوئی بھی شرط ماننے کو تیار تھی –
میری شرط یہ ہے کہ تم اس بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گی تم اس بچے کو اس دنیا میں لاؤ گی اس کے بعد یہ بچہ میرا اور تم اپنے راستے میں تمہیں ازاد کر دوں گا اس رشتے سے – سکندر کی شرط سن کر عنایہ نے چند پل اسے خاموش نظروں سے دیکھا تھا پھر ایک لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے جیسے اس نے خود کو نارمل کیا تھا – ٹھیک ہے مجھے منظور ہے یہ شرط مگر یاد رکھیے گا بچے کے پیدا ہوتے ہی آپ مجھے ازاد کرو گے اور پھر میرا آپ سے اور اس بچے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا – عنایہ کے مان جانے پر سکندر کے سینے میں درد اٹھا تھا لیکن وہ اس درد کو سہتا مسکرا دیا تھا – ٹھیک ہے تو پھر ہماری ڈیل ہوئی لیکن اب تم اپنا خیال رکھو گی اور ایک اور بات صبح تم بی جان سے کہہ کر میری اس کمرے میں انٹری کرواو گی کیونکہ میں خود اپنے بچے اور اس کی ماں کا خیال رکھنا چاہتا ہوں –
سکندر نے اس کے سامنے ہاتھ کرتے کہا جسے عنایہ نے کچھ دیر سوچ کر تھام کر ڈیل ڈن کی تھی جبکہ سکندر دکھی نظروں سے اپنے ہاتھ میں عنایہ کا ہاتھ دیکھ کر رہ گیا تھا – اس کے دل سے دعا نکلی تھی کہ کاش یہ ہاتھ ہمیشہ اس کے ہاتھ میں قید رہے – عنایہ کے واپس ہاتھ کھینچ لینے پر وہ ہوش کی دنیا میں آیا تھا اور بیڈ سے اٹھتا جس رستے سے آیا تھا اسی رستے سے واپس جا چکا تھا جبکہ عنایہ نے اپنی ڈیل کے بارے میں سوچتے نا جانے کس جزبے کے تحت اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا تھا – شاید وہ اپنے اندر پل رہے وجود کو محسوس کرنا چاہتی تھی –