قسط: 4
جاؤ لے کر اؤں میڈیسن اور ہاں کچھ کھانے کے لیے بھی لے انا جو اس کو کھلا کر میڈیسن دے سکوں – ایسا کرنا سوپ لے انا اسانی سے پلا بھی دیں گے اور اچھا بھی ہوگا صحت کے لیے – سکندر نے اپنی ہی رو میں بولتے جب داد کو دیکھا تو وہ اسے دیکھ مسکرا رہا تھا – کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ؟؟ سکندر نے نہ سمجھی سے پوچھا کچھ نہیں بس یہی دیکھ رہا ہوں کہ اگر نفرت میں یہ حالت ہے تو محبت میں کیا ہوگا سائیں – اپ تو پھر پوری دنیا کو اگ لگا دو گے بیوی کو ذرا سی خراش انے پر –
یہاں وہ ایک انسو ہی ابھی بہائیں گی اور ادھر اپ کی پوری دنیا میں ہلچل مچ جائے گی – اہ سائیں میں ابھی سے اپ کی حالت ایمیجن کر رہا ہوں – اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا سکندر کو خطرناک ارادوں سے اپنی جانب بڑھتا دیکھ ایک سیکنڈ سے پہلے وہاں سے غائب ہوا تھا – جبکہ سکندر واپس کمرے میں اتا وہاں پڑے صوفے پر پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھتا انکھیں موند گیا – اج وہ پہلے ہی تھکا ہوا تھا اور اب یوں عنایہ کی وجہ سے نیند بھی نہ لے سکا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
داد دوائیاں اور سوپ لے کر ایا تو دیکھا سکندر وہیں صوفے پر بیٹھا بیٹھا ہی سو گیا تھا – داد کا دل تو نہیں تھا اسے جگانے کا مگر اگر وہ اسے نہ جگاتا تو پھر سکندر کے غصے کا نشانہ بھی اسی نے بننا تھا – سائیں ! سائیں ! وہ اس کے کندھے کو ہلکے سے ہلاتے اسے اٹھانے کی کوشش کرتے بولا – ہاں اگئے تم داد – کہاں ہے سامان وہ نیند سے جاگتا انکھوں کو بار بار جھپکتے ہوئے نیند بھگانے کی کوشش کرتا بولا – جی یہ لیں سائیں اس نے اس کے سامنے شاپر کرتے کہا – برتن میں ڈال کر لاؤ –
سکندر کے کہنے پر داد ہا میں سر ہلاتا کمرے سے چلا گیا – جب تک داد سوپ برتن میں ڈال کر لایا تب تک سکندر واش روم سے منہ دھو کر اگیا تھا تاکہ نیند کو دور بھگا سکے – داد کے اتے ہی اس نے عنایہ کے پاس جاتے اسے جگانے کی کوشش کی مگر وہ ابھی بھی غنودگی میں تھی – اخر وہ خود ہی بیڈ پر بیٹھتا اسے تھوڑا سا اوپر کر کے خود اس کے پیچھے ہو کر بیٹھا اور اس کی کمر اپنے سینے سے اس طرح لگائی کہ اسانی سے اسے سوپ پلا سکے – لاؤ دو مجھے – داد سے کہتا اس کے ہاتھ سے باؤل لیتا وہ عنایا کو احتیاط سے سوپ پیلانے لگا – ابھی اس نے عنایہ کو تین چار چمچ ہی پلائے تھے کہ عنایہ نے اگلے چمچ پر غنودگی میں ہی منہ سائیڈ پر کرتے چمچ منہ میں نہ لیا جس پر سکندر نے بھی باؤل سائیڈ پر رکھ دیا –
داد سے دوائی لیتے اسے کھلائی اور پھر صحیح طرح اسے لٹاتے خود بیڈ کی دوسری سائیڈ پر ہو گیا – تم اب ارام کرو داد میں یہیں ہوں اگر دوبارہ اس کی طبیعت خراب ہو گئی تو پتہ چل جائے گا – پتہ نہیں کون سی منہوس گھڑی تھی جب اس سے نکاح کر لیا اپنی انا کی تسکین کے لیے – اب پچھتا رہا ہوں پہلے داد سے ارام سے کہتے اخر میں وہ خود ہی غصے ہوتے بولا – جس پر داد اس کی حالت پر مسکراہٹ چھپائے کمرے سے چلا گیا جبکہ سکندر وہیں بیڈ پر لیٹ کر انکھیں موند گیا – جو بھی تھا اب وہ اس صوفے پر تو لیٹنے سے رہا ویسے بھی یہ لڑکی اس کے نکاح میں تھی وہ لیٹ سکتا تھا اس کے برابر – تھکن کی وجہ سے اسے کب نیند ائی اسے پتہ ہی نہ چلا جب کہ عنایہ بھی اس کے برابر سکون کی نیند سو رہی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::
صبح اس کی انکھ خود پر کچھ بھاری چیز محسوس کرتے کھلی تھی اور سب سے پہلے اس کی نظر اپنے ساتھ لیٹے سکندر پر گئی – جو اس کے بے حد قریب لیٹا اس کا پورا وجود اپنے قبضے میں کیے سو رہا تھا – اپنا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ وہ اس پر رکھے سو رہا تھا – سکندر کو اپنے اتنے قریب دیکھ اس کی جان لبوں پر ائی تھی اس نے اپنے ہاتھوں کو سکندر کے سینے پر رکھ اسے دور کرنا چاہا – اس کے ہاتھ کا لمس اپنے سینے پر محسوس کرتے سکندر کی انکھ کھلی تھی اور سب سے پہلے اسے عنایہ کا چہرہ نظر ایا – جو انکھوں میں خوف لیے اسے دیکھ رہی تھی بنا اسے کچھ کہے اور بنا کوئی موومنٹ کیے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھ کر بخار چیک کیا تھا –
جو کہ اب کافی بہتر تھا پپ… پیچھے ہٹیں – انایہ کی کانپتی اواز میں کہے گئے الفاظ سن اس نے ماتھے سے ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھا – اگر نہ ہٹوں تو ؟؟ اس نے جیسے اسے ٹیس کرنا چاہا – میں نے کہا پیچھے ہوں سکندر شاہ – اب کے عنایہ نے بھی غصے میں کہا جس پر سکندر نے داد دینے والی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ عنایہ کے اوپر سے اپنی ٹانگ ہٹاتا اس کے سیدھا ہوتے ہی ایک سیکنڈ سے پہلے اس کے اوپر کسی کالی گھٹا کی طرح چھایا تھا – یہ کس لہجے میں بات کر رہی ہو مسز عنایا سکندر شاہ مت بھولو شوہر ہوں تمہارا تمہارے جتنے چاہے قریب ا سکتا ہوں تم روک نہیں سکتی مجھے سمجھی – دونوں بازو اس کے دائیں بائیں رکھے چہرہ کانوں کے قریب لے جاتے وہ سرد لہجے میں بولا – جبکہ عنایہ تو اس کے یوں قریب انے اور انکھیں بند کیے اپنے دل کی دھڑکنوں کو اپنے کانوں میں سن رہی تھی –
سکندر نے کانوں کے پاس سے چہرہ اوپر کرتے عنایہ کے چہرے کو دیکھا جو کبوتر کی طرح انکھیں بند کیے چہرے پر خوف سجائے ہوئے تھی جبکہ اس کے ہونٹ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے – اس کے ہونٹوں پر نظر پڑتے ہی سکندر کو رات کا منظر یاد ایا جب رات کو اس کے ہاتھوں کی انگلیاں عنایہ کے ہونٹوں سے ٹکرائی تھی بےساختہ ہی وہ جھکا تھا اور عنایہ کے ہونٹوں پر اپنے لب رکھ چکا تھا – اس کی اچانک کی جانے والی حرکت پر عنایہ کا پورا وجود لرزا تھا اس نے فورا اپنے ہاتھوں کی مدد سے اسے دور کرنا چاہا تب تک سکندر اپنا کام کرتا اس کے اوپر سے ہٹ چکا تھا – وہ خود حیران تھا کہ اخر اسے اچانک ہوا کیا – پھر بنا اس کی جانب دیکھے وہ کمرے سے باہر نکل گیا –
جبکہ عنایہ تو ابھی بھی وہیں لیٹی دل پر ہاتھ رکھتی د ھڑکنوں کو کنٹرول کر رہی تھی انکھوں سے انسو بے اختیار بہے تھے – ہاتھ کی پشت ہونٹوں پر رکھتے اس نے بے دردی سے سکندر کا لمس مٹانا چاہا مگر ایسا کہاں ممکن تھا اخر تھک ہار کر بیڈ سے اٹھتی انسو صاف کرتے وہ واش روم کی جانب بڑھ گئی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
داد تم ایسا کرو کہ کسی ملازمہ کا انتظام کرو – وہ افس میں بیٹھے فائل چیک کر رہے تھے کہ اچانک سکندر نے داد سے کہا – کس لیے سائیں داد نے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے پوچھا – میرے خیال سے یہاں شہر عنایہ کے پاس کسی ملازمہ کا ہونا بہتر ہے – سکندر کی بات پر داد نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا – مگر سائیں اس سے بہتر یہ نہیں کہ ہم عنایا بی بی کو حویلی لے جائیں – ویسے بھی اپ کے نکاح میں ہیں وہ اور بی جان بھی خوش ہو جائیں گی ان سے مل کر انہیں اپ کی شادی کی فکر بھی تو بہت ہے – داد کے کہنے پر سکندر نے اسے دیکھا تھا –
نہیں داد وہ میرے نکاح میں ضرور ہے مگر میں اسے اپنی بیوی نہیں مانتا اور میرے نکاح میں بھی تم بہتر جانتے ہو کہ صرف ایک بدلہ اور انا کی تسکین کے لیے ہے – جانتا ہوں تم کل رات مجھے اس کی کیئر کرتا دیکھیے سمجھ رہے ہو کہ میں اس میں انٹرسٹ لے رہا ہوں تو یہ بالکل غلط ہے – کیونکہ وہ مجھے کل کی طرح اج بھی ناپسند ہے میں نے اس کی کیئر اس لیے کی کیونکہ اس کی ماں نے میرے اگے ہاتھ جوڑتے کہا تھا کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا –
ائی ہوپ تم سمجھ گئے ہو گے سکندر کی باتوں پر داد کو بھی یقین ایا تھا – وہ کل رات سے دماغ میں چل رہی سوچوں کا سوچ خود پر لعنت بھیجتے سکندر کی طرف دیکھنے لگا – ٹھیک ہے سائیں اج شام تک ملازمہ چھوڑ اؤں گا وہاں – داد کے کہنے پر سکندر نے ہاں میں سر ہلایا کیونکہ اگر داد نے کہہ دیا تھا تو اس کا مطلب کام ہو جائے گا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اس کی طبیعت کافی بہتر تھی اور اس وقت وہ کچن میں کھڑی اپنے لیے کچھ بنانے کا سوچ رہی تھی کہ تبھی اسے لاونچ میں کسی کے چلنے اور باتیں کرنے کی اوازیں انے لگی – ایک پل کے لیے اسے لگا کہ کوئی چور اگیا ہے مگر جب اس کے کانوں میں داد کی اواز پڑی تو اسے کچھ سکون ملا تھا – وہ وہیں سب کچھ چھوڑتی کچن سے باہر نکلی کیونکہ داد کے ساتھ کسی لڑکی کی اواز ارہی تھی – وہ باہر ائی تو سامنے ہی اسے داد اور ایک لڑکی نظر ائی جس سے داد نہ جانے کیا کہہ رہا تھا – عنایہ کے وہاں اتے ہی داد نے اسے سلام کیا تھا جس کا جواب اس نے محض سر ہلا کر دیا تھا –
بی بی جی یہ کومل ہے اور اج سے یہیں اپ کے پاس رہے گی – داد کے کہنے پر اس نے حیرت سے اس کومل نامی لڑکی کو دیکھا جو تھی تو سانولی رنگت کی مگر اس میں اٹریکشن بہت تھی – یہ کیوں رہے گی یہاں میرے پاس ؟؟ اس نے حیرت سے داد سے پوچھا – وہ جی سائیں کا حکم تھا کہ اپ کے پاس کسی ملازمہ کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اکیلے رہنا ٹھیک نہیں – داد کے کہنے پر عنایہ نے تنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا – اچھا بہت جلدی یاد نہیں اگیا اپ کے سائیں کو کہ میں یہاں اکیلی ہوں اور میرے پاس کسی کا ہونا ضروری ہے – عنایہ کے تنزیہ کہنے پر داد کچھ نہ بول سکا – میں چلتا ہوں بی بی جی – داد کہہ کر جانے والا تھا کہ عنایہ نے اس سے روکا –
سنیں !! عنایہ کی پکار پر اس نے پلٹ کر دیکھا – اج کے بعد مجھے بی بی جی مت کہیے گا – کیونکہ مجھے کوئی شوق نہیں اس شخص کی نسبت سے بلائے جانے کا – ائی ہوپ اپ سمجھ گئے ہوں گے – اور اپنے سائیں کو جا کر کہہ دیجئے گا عنایہ کو ان کے احسان نہیں چاہیے – وہ غصے سے بولتی وہاں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی -جبکہ داد نے بیچارگی بھری نگاہوں سے کومل کو دیکھا تھا جس پر اس قہقہہ بے ساختہ تھا – دونوں میاں بیوی ہی کھڑ دماغ ہیں – داد خود سے بڑبڑاتا وہاں سے چلا گیا جبکہ کومل سوچ رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ دو گھنٹے بعد واپس نیچے ائی تو کومل وہیں صوفے پر بیٹھی تھی – جبکہ گھر دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس نے صفائی کی ہو – ویسے تو گھر صاف ہی تھا مگر دو دن سے عنایہ نے طبیعت خراب زیادہ ہونے کے سبب صفائی نہ کی تھی – تو اس لیے تھوڑا بہت گند تھا مگر اب وہاں صفائی تھی کچن سے بھی کھانے کی مزیدار خوشبو ارہی تھی – تم گئی نہیں ؟؟ وہ کومل کے پاس جاتی پوچھنے لگی جس پر وہ فورا کھڑی ہوئی –
نہیں بی بی جی وہ میں کیسے جاتی مجھے شاہ سائی نے یہاں کام کے لیے بھیجا تھا اگر واپس چلی گئی تو وہ ناراض ہوتے – وہ اپنے دوپٹے کے پلو کو مروڑتی پریشانی سے بولی – کیوں تم سے کیوں ناراض ہوتے وہ ؟؟ تمہاری مرضی تم جہاں مرضی کام کرو اور جہاں مرضی چاہے نہ کرو – عنایہ نے صوفے پر بیٹھتے اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا – وہ جی شاہ سائیں داد جی پر غصہ ہوتے کہ تم نے شام سے پہلے ملازمہ کا انتظام نہیں کیا اور داد جی مجھ پر غصہ ہوتے اور میں ان کا غصہ برداشت نہیں کر سکتی نا –
وہ پریشانی سے اپنا مسئلہ بتا رہی تھی – کیوں داد تمہیں کیوں ڈانٹتا ؟؟اور تمہیں کیوں اس کے غصے کی اتنی فکر ہے ؟؟ عنایہ نے انکھیں چھوٹی کیے پوچھا – وہ نہ جی….وہ…..! کیا وہ وہ لگا رکھی ہے صحیح سے بتاؤ – اس کی ٹرین وہ وہ پر اٹکتی دیکھ عنایہ نے جھنجھلا کر کہا – وہ نا جی وہ میرے منگیتر ہیں اور میرے مامو ذاد بھی اس لیے – کومل اپنا دوپٹہ منہ میں رکھتے شرماتے ہوئے بولی جب کہ اس کے اس طرح شرمانے پر اج بہت دنوں بعد عنایہ کھل کر ہنسی تھی – او کومل تم کتنی کیوٹ ہو انایہ کے کہنے پر وہ پھر سے شرما دی جس پر عنایہ کو اور ہنسی آئی تھی –
ویسے تمہاری ایج کیا ہے ؟؟ اپنی ہنسی روکتے عنایہ نے اس سے پوچھا 20 سال جی – کومل کے کہنے پر عنایہ نے اسے حیرت سے دیکھا اسے لگا تھا وہ اس کی ہم عمر ہوگی مگر وہ اس سے دو سال بڑی تھی – اچھا تو تم پڑھتی نہیں کیا ؟؟ پڑھتی تھی جی 12 پڑھی ہیں پھر میرا دل نہیں کیا پڑھنے کا – داد جی نے تو بہت کہا مگر میں نے کہہ دیا کہ نہیں مجھے نہیں پڑھنا اب – کومل کے کہنے پر اس نے حیرت سے دیکھا صحیح کہتے ہیں جن لوگوں کو کسی چیز کی سہولت میںسر ہو وہ اس کی قدر نہیں کرتے اور کچھ جن کو قدر ہوتی ہے ان کو میسر نہیں ہوتی – وہ دل ہی دل میں سوچتی کھڑی ہوئی – اؤ کھانا کھاتے ہیں -مجھے بہت بھوک لگی ہے –
وہ کومل سے کہتی کچن کی طرف چل پڑی جس پر وہ بھی اس کے ہم قدم ہوئی – ویسے کیا بنایا ہے تم نے؟؟ خوشبو بہت مزے کی ہے – بریانی بنائی ہے – بی بی جی انایہ کے پوچھنے پر اس نے چہک کا جواب دیا – پلیز کومل مجھے بی بی جی مت کہنا – تم میرا نام لے سکتی ہو – عنایہ کے کہنے پر اس نے ہاں میں سر ہلایا – ٹھیک ہے عنایہ جی کومل کے کہنے پر عنایہ نے اسے گھورا تھا – جس نے نام تو لے لیا تھا مگر جی ابھی تک ساتھ لگایا تھا –