بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

اج وہ چوتھے دن پھر حاضر تھا جبکہ عنایہ خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو روز ہی ٹپک پڑتا تھا – کبھی سودا دینے ا رہا تھا کبھی کپڑے لے کر جا رہا تھا کہ لانڈری سے دھلوانے ہیں تو کبھی یوں ہی ا کر پوچھ رہا ہے کہ کچھ چاہیے تو نہیں – جی فرمائیے اج کیا لینا ہے یا دینا ہے – وہ داد کے سامنے ہاتھ باندھے پوچھنے لگی – نہیں بی بی… میرا مطلب عنایہ جی وہ اج یہ اپ کو دینے تھے اسی لیے ایا ہوں – وہ جو اسے پھر بی بی بول رہا تھا اس کے گھورنے پر عنایہ جی کہتا چند پیپرز اس کے سامنے کرتا بولا – جبکہ کومل کی طرح اس کے بھی عنایہ جی کہنے پر عنایہ نے انکھیں گھمائی تھیں –
اپ مجھے بہن بھی بلا سکتے ہیں – وہ غصے سے اس کے ہاتھ سے پیپر چھینتی بولی – جبکہ کومل وہیں صوفے پر بیٹھی داد کی حالت انجوائے کر رہی تھی اور پوپ کارن کھا رہی تھی جس پر داد اسے گوریوں سے نواز رہا تھا – یہ کیا ہے کس کے ایڈمیشن فارم ہیں ؟؟ وہ جو کومل کو گھوریوں سے نواز رہا تھا عنایہ کی اواز پر اس نے جلدی سے عنایہ کی طرف دیکھا جو سے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی – اپ کے ایڈمیشن پیپرز ہیں سائیں کا کہنا ہے کہ اپ کو اپنی تعلیم اگے جاری رکھنی چاہیے – اور یہ ان کا کوئی احسان نہیں بلکہ اپ کا حق ہے – داد کی بات پر وہ کبھی حیرت سے اسے دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھوں میں پکڑے فارم کو – کیوں ان کو میرے حق کا کہاں سے خیال اگیا ؟؟
ایسا تو نہیں کہ اج وہ مجھے میرے حق دے کر کل اپنا حق مانگنے ا جائیں اگر ایسا ہے تو جا کر کہہ دو ان سے یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ میں ایسا کچھ ہونے دوں گی – غصے سے کہتے اس کا سانس پھول گیا تھا – نہیں بہنا ایسا بالکل نہیں ہے دراصل سائیں تعلیم حاصل کرنے والی بات پر بہت یقین کرتے ہیں ان کا کہنا ہے یہ ہر انسان کا حق ہے اور اسے اپنا حق حاصل ہونا چاہیے – داد کی بات پر عنایہ کہ تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے مگر انکھوں میں ابھی بھی شک تھا – سچ کہہ رہے ہیں نا اپ ؟؟
اس نے انکھیں چھوٹی کیے پوچھا جب کہ اس کے اس اس طرح انکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھنے پر داد کو وہ بے حد معصوم لگی – ہاں بہنا ایسا ہی ہے میرا یقین کرو – وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتا بولا جس پر اسے تھوڑا تھوڑا یقین ایا تھا – اوکے میں کل تک کر دوں گی یہ فارم فل اور آپ آ کر لے جائیے گا -انایا کے کہنے پر داد ہاں میں سر ہلاتا خدا حافظ بول کر چلا گیا جبکہ وہ ابھی بھی کھڑی ہاتھ میں پکڑے پیپرز کو دیکھ رہی تھی –
::::::::::::::::::::::::
بس داد بھائی اپ یہاں ہمارا انتظار کریں ہم نے بہت شاپنگ کرنی ہے اور لڑکیوں کی شاپنگ کا اپ کو پتہ ہے کہ وہ کتنی دیر لگاتی ہیں – داد عنایہ اور کومل کو اج مول لے کر ایا تھا شاپنگ کے لیے کیونکہ اگلے ہفتے سے انایہ کی یونی کلاسز سٹارٹ تھی اس لیے سکندر نے داد کو اسے شاپنگ کروا دینے کا کہا تھا – مگر یہاں مال پہنچتے ہی عنایہ نے داد کو گاڑی میں انتظار کرنے کا کہہ دیا تھا جبکہ لڑکیوں کی شاپنگ سے تو داد بھی واقف تھا اس لیے فورا کریڈٹ کارڈ اس نے عنایہ کے حوالے کر دیا –
اور خود وہیں پاس موجود کیفے سے کافی پینے چلا گیا تاکہ جتنی دیر وہ شاپنگ کریں وہ وہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کر سکے – مال کے اندر جاتے ہی عنایہ کے چہرے پر کریڈٹ کارڈ کو دیکھ شیطانی مسکرا آئی تھی – کومل تمہارا جس چیز پر دل ائے اس چیز پر ہاتھ رکھ دینا لے کر دینا میرا کام اور ہاں مہنگی سستی نہ دیکھنا – عنایہ نے کارڈ بیگ میں رکھتے کومل سے کہا جو اس کی بات پر حیران ہوتی اسے دیکھ رہی تھی – مگر عنایہ جی شاپنگ اپ نے کرنی ہے میں نے نہیں ویسے بھی میرا انے کا کوئی موڈ نہیں تھا اپ زور زبردستی لے کر ائی ہیں اور اللہ کا شکر ہے میرے پاس سب کچھ موجود ہے – اپ اپنی شاپنگ کریں – کومل کی بات پر عنایہ نے غصے سے اسے دیکھا –
تم چلو چپ چاپ میرے ساتھ وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے جاتے بولی – اور اگلے تین گھنٹوں میں اس نے ادھے سے زیادہ کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا تھا – اس نے دو تین لاکھ سے کم کوئی چیز نہیں لی تھی – کپڑے ہینڈ بیگ سینڈل ہر ایک چیز اس نے ایکسپنسو لی تھی – اپنے ساتھ اس نے زبردستی کومل کو بھی چیزیں لے کر دی تھی اور اتنی ہی مہنگی لی تھیں جتنی اپنے لیے – جیولری کی دکان پر اتے اس نے مہنگی سے مہنگی چینز ، رنگ ، ایئر رنگ اور مکمل سیٹ لیے تھے اس کا ارادہ تو کومل کو بھی لے کر دینے کا تھا مگر کومل نے اسے اپنی قسم دے کر چپ کروا دیا تھا – سارا کریڈٹ کارڈ اب خالی ہو کر اس کے ہاتھ میں موجود تھا – وہ سکون سے ہاتھ میں پکڑے کریڈٹ کارڈ کو دیکھ رہی تھی – اسے ان سب چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر اسے بس سکندر کو زچ کرنا تھا اس لیے اس نے مہنگی چیزیں لیں –
دوسری طرف سکندر ایک میٹنگ میں تھا کہ بار بار اس کے فون پر میسج ٹیون بج رہی تھی اخر اس نے تنگ ا کر فون پاور اف کر دیا اور میٹنگ کے ختم ہوتے ہی اس نے فون دوبارہ ان کیا – مگر جب انے والے میسجز دیکھے تو اس کا دماغ گھوم کر رہ گیا – اس نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے داد کو کال ملائی تھی جو اگلے ہی لمحے پک کی گئی تھی – جی سائیں حکم فرمائیں داد نے فون اٹھاتے ہی فرمانبرداری سے کہا – بنا کسی فضول بست کے یہ بتاؤ کہ کہاں ہو تم؟؟ اور کریڈٹ کارڈ کہاں ہے ؟؟ سکندر نے غصے سے اسے ڈپٹتے اپنی بات کہی تھی – کیوں کیا ہوا سائیں ؟؟ میں تو یہاں مال کے پاس والے کیفے میں بیٹھا ہوں – عنایہ بی بی اور کومل شاپنگ کر رہی ہیں اور کریڈٹ کارڈ بھی ان کے پاس ہے – داد نے جلدی سے اسے ساری تفصیل بتائی –
گدھے انسان کون سا کریڈٹ کارڈ دیا تھا تم نے اسے ؟؟ سکندر کی طرف سے خود کو گدھا کہے جانے پر داد نے ادھر ادھر دیکھا تھا کہ کہیں اس کی بےعزتی کسی نے سنی تو نہیں – وہ پانچ کروڑ تھے جس میں اپ کا والا پرسنل – داد نے تھوک نگلتے بتایا – داد ! داد ! کمینے انسان تم لگو میرے ہاتھ تمہاری خیر نہیں ہے اپنے جسم کو تیل لگا کر انا میرے سامنے – تمہاری عقل کہاں مر گئی تھی جو اسے پانچ کروڑ والا کریڈٹ کارڈ دے دیا – سکندر کے غصے سے بولنے پر داد کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی – مطلب ضرور کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی – سائیں کیا ہوا اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا – کیا ہوا کہ کچھ لگتے اس لڑکی نے سارا کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا ہے –
نکمے تمہیں ان کے ساتھ اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم ارام سے خود وہاں کیفے میں بیٹھ کر کوفی پیتے اور وہ لڑکی مجھے کنگلا کرنے نکل پڑتی – سکندر کی بات پر داد کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں – مطلب تین گھنٹوں میں عنایہ پانچ کروڑ خرچ کر چکی تھی – سائیں پانچ کروڑ سے تو اپ کنگلے نہیں ہونے لگے نا یہ تو بہت معمولی سی رقم ہے اپ کے لیے – داد نے اسے نارمل کرنے کے لیے کہا مگر غلطی سے بھڑ کے چھتے کو چھیڑ بیٹھا تھا – بکواس بند کرو تم چاہے معمولی رقم ہے مگر جانتے ہو نا کہ کتنی محنت سے کماتا ہوں – تم بس مجھ سے بچ کر رہنا داد مجھے تم پر بہت غصہ ہے اور لے کر اؤ انہیں گھر میں بھی وہاں ا رہا ہوں اس لڑکی کی خبر لیتا ہوں –
وہ غصے سے کہتا فون بند کر گیا جبکہ داد نے فون کو اپنے کوٹ کی جیب میں رکھا اور کیفے سے باہر نکل گیا – واقعی یار صحیح کہتا ہوں میں سائیں کے ٹکر کی بیوی ہے – اللہ اللہ تین گھنٹوں میں پانچ کروڑ ختم کر دیے – اگر یہی ہا رہا تو کوئی شک نہیں کہ عنایہ بی بی تو سائیں کو سڑک پر لے ائیں گی – وہ مال کی طرف بڑھتا خود سے ہی بڑبڑا رہا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
چلو کومل چلتے ہیں اب – اس نے اپنے ساتھ کھڑی کومل سے کہا – جو حیرت کا مجسمہ بنے اس کے ساتھ کھڑی تھی – وہ تب سے اسے مہنگی سے مہنگی چیزیں خریدتی دیکھ حیرت میں ڈوبی ہوئی تھی – ابھی وہ اگے بڑھتی کہ اپنے پیچھے سے عنایہ کو یوں لگا جیسے کوئی اسے بلا رہا ہو اپنا شک دور کرنے کے لیے اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک شخص اس کی جانب ا رہا تھا – کیسی ہیں مسز سکندر شاہ ؟؟ انے والے کے طرز مخاطب نے اسے حیران کیا تھا – بھلا یہ کون تھا جو اس کے اور سکندر کے نکاح کے بارے میں جانتا تھا – جی اپ کون ؟؟ اس نے انکھوں میں نہ سمجھی لیے پوچھا –
اپ مجھے نہیں جانتی مسز سکندر مگر میں جانتا ہوں – دراصل ابھی ایک ہفتے پہلے ہی میں اپ کے علاج کے لیے ایا تھا جب اپ بیمار تھیں – سامنے والے کی بات پر عنایی نے اوہ کہا تھا – جی اور یقین مانے میں نے تب اپنی زندگی کا پہلا کیس دیکھا تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کے لیے اتنا پوزیسو تھا – سچ کہوں میں خود پریشان ہو گیا تھا اب خود دیکھیں مجھے علاج کے لیے بلا کر کہہ رہے تھے ہاتھ نہیں لگانا دور ہو کر چیک کرو – بھلا ایسا تھوڑی ہوتا ہے – مگر جو بھی ہو اپ خوش قسمت ہیں کہ اپ کو اتنی فکر کرنے اور اتنی محبت کرنے والا شوہر ملا بہت فکر تھی اس رات ان کے چہرے پر اپ کے لیے – وہ تو حیرت سے سامنے والے کی باتیں سن رہی تھی کیا واقعی سکندر نے اس رات اس ڈاکٹر کو یہ سب کہا تھا – اور کیا واقعی اسے فکر تھی اس کی –
وہ اپنی سوچوں میں گم اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی کہ تبھی وہاں داد ایا تھا – ہائے مسٹر داد کیسے ہیں ؟؟ وہ ڈاکٹر اب داد کے گلے مل رہا تھا جبکہ کومل اور عنایہ دونوں ہی حیرت میں تھی کومل بیچاری پر تو اج ایک حیرت کا پہاڑ ختم ہوتا تو ٹوٹ پڑتا – ڈاکٹر کے وہاں سے جانے پر داد ان کی جانب متوجہ ہوا – چلیں اگر شاپنگ ہو گئی تو ؟؟وہ ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے بے شمار شاپنگ بیگ دیکھ کر بولا جس پر عنایہ نے حامی سر ہلایا تھا اور وہ اگلے ہی لمحے عنایہ کے ہاتھ سے اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود شاپنگ بیگ پکڑ چکا تھا اور باہر کی جانب چل دیا جبکہ عنایی اور کومل اس کے پیچھے پیچھے تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::
عنایہ بہنا اپ نے سارے پیسے کیوں خرچ کر دیے ؟؟ سائیں بہت غصے میں تھے – داد نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہیں عنایہ سے کہا جب کہ وہ اس کی بات پر مسکرائی تھی مطلب تیر نشانے پر لگا تھا – بس میرا دل جس چیز کو پسند کر رہا تھا وہ مہنگی تھی لیکن انہیں چھوڑنے کا میرا دل نہیں تھا اس لیے میں نے بنا سوچے خرید لیں – کیونکہ میرے پاس پیسے تھے تو میں کیوں اپنی پسند کی ہوئی چیز چھوڑ کر اتی – اس نے کندھے اچکا کر کہا جیسے بات ہی ختم کی ہو – جب کہ داد نے بھی دوبارہ کوئی سوال نہیں کیا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ گھر پہنچے تو سکندر پہلے سے وہاں موجود تھا – اندر اتے ہی سکندر پر نظر پڑتے انایہ کا سانس سوکھا تھا کیونکہ وہ خونخوار نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا – اس سے پہلے کہ وہ بھاگ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھتی سکندر نے پھرتی سے اگے بڑھتے اس کا بازو تھاما تھا اور اسے اپنے ساتھ زبردستی سیڑھیاں چڑھاتا اپنے کمرے میں لے گیا – اور دروازہ زور سے بند کیا – داد اور کومل دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا – عنایہ جی کی خیر نہیں مجھے لگتا ہے –
کومل نے اہستہ اواز میں داد سے کہا جس نے اس کی بات پر اتفاق کیا تھا مگر اندر ہی اندر اپنے لیے بھی پریشان تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کی بھی خیر نہیں تھی سکندر کے ہاتھوں – اس لیے جلدی سے سارے بیگ صوفے پر رکھتے وہ وہاں سے بھاگا تھا – اس کا ارادہ حویلی جانے کا تھا کیونکہ بس ایک بی جان ہی تھیں جو اسے بچا سکتی تھیں – جبکہ اس کے پھرتی سے وہاں سے بھاگنے پر کومل نے حیرت سے دروازے کو دیکھا تھا جہاں سے وہ ابھی غائب ہوا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
کمرے میں لے کر جاتے ہی اس نے غصے سے اس کا ہاتھ چھوڑا تھا – اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ بولتا عنایہ نے اسے جتائی نظروں سے دیکھا تھا – ارے واہ شاہ سائیں کو تو غصہ ا رہا ہے ؟؟ وہ بھی میرے چند پیسے خرچ کرنے پر – اس کا انداز صاف شاہ کو چڑانے والا تھا – ہاں ا رہا ہے مجھے غصہ اور جسے تم چند پیسے کہہ رہی ہو نا وہ چند پیسے بھی دن رات جاگ کر کمانے پڑتے ہیں – اور پانچ کروڑ کوئی معمولی رقم نہیں –
تمہیں کیا لگتا ہے میں نہیں جانتا کہ تم نے کیوں اتنی بڑی رقم چٹکیوں میں اور بلا وجہ خرچ کی ہے – میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ میں اپنی چیزوں کے معاملے میں بڑا پوزیسو ہوں اور تمہیں بھی حق نہیں میری محنت کی کمائی کو یوں بلا وجہ صرف مجھے غصہ دلانے کے لیے خرچ کرنے کا – وہ غصے سے اسے قریب کرتا ایک ہاتھ سے اس کے منہ کو دبوچے بولا – کیوں نہیں خرچ کر سکتی میں؟؟ حق ہے میرا – نکاح میں ہوں اپ کے اور اپ کی ذمہ داری ہوں –
اپ نے اپنی مرضی سے ہی نکاح کیا ہے مجھ سے بلکہ پوری پلاننگ سے کیا ہے – اپ نے کیا ہے نہ نکاح مجھ سے تو پھر اپ کی چیزوں پر حق بھی ہے میرا – میں جیسے چاہوں خرچ کروں – وہ اس کی گرفت سے اپنا منہ چھڑاتی اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں بولی – جب کہ اس کی بات پر سکندر کے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ ائی تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial