قسط: 6
اچھا اگر تم اپنے حق مجھ سے وصول کر رہی ہو تو پھر کیا خیال ہے مجھے میرا حق کب دینے کا ارادہ ہے – اگر تم اپنا حق استعمال کر رہی ہو تو میں بھی اپنا حق استعمال کر سکتا ہوں نہ – وہ اس کے چہرے پر شہادت کی انگلی سے لکیریں کھینچتے ہوئے بولا تھا جب کہ عنایہ کا پورا جسم اس کی بات پر کانپنے لگا تھا –
تم تو ابھی سے کانپنے لگی میں نے تو بھی کچھ کیا بھی نہیں – اگر سہ نہیں سکتی تو پنگا بھی نہ لیا کرو – اگر میں کچھ کہہ نہیں رہا تو اس بات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ – ورنہ اگر میں کچھ کرنے پر آیا نہ تو منہ چھپاتی پھرو گی – وہ ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا اسے وارن کرتا کمرے سے نکل گیا تھا – جب کہ عنایہ نے خوف سے زرد پڑے چہرے پر اپنا کانپتا ہاتھ پھیرتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی –
:::::::: :::: :::: ::: ::::: :::: :::: :::: :::: :::: :::: :::: ::::
وہ نیچے ایا تو وہاں فرش پر پڑے شاپنگ بیگز دیکھ پھر سے اس کا پارہ ہائی ہوا تھا – دکھاؤ ذرا کیا کیا لیا ہے مہرانی صاحبہ نے – وہ صوفے پر بیٹھتا کومل سے بولا جس نے فورا سے بیک کھولتے اسے ساری شاپنگ دکھانی شروع کی تھی – یہ کیا ؟؟ کیا اس نے جیولری بھی خریدی ہے ؟؟
اس نے شاپنگ بیگ میں سے کومل کو جیولری کے سیٹ نکالتے دیکھ پوچھا جس پر کومل نے ہاں میں سر ہلاتے ہیں اس کے سامنے سارے جیولری سیٹ ، چینز ، رنگز اور ٹاپس رکھے تھے ان سب کی ٹوٹل قیمت ہی ڈھائی کروڑ تھی – پچیس لاکھ تک پیسے اس نے نیا موبائل اور لیپ ٹاپ لینے میں خرچ کر دیے تھے – اور باقی کی ساری شاپنگ دیکھتے اسے واقعی یقین ہو گیا تھا کہ عنایہ نے بس اسے تنگ کرنے کے لیے شاپنگ کی تھی کیونکہ باقی سارے پیسوں میں سے اس نے وہ کپڑے بھی لیے تھے جن کو وہ کبھی بھی پہننے والی نہ تھی –
جیسے کہ انڈین ساڑی ، لونگ میکسی جو موتیوں کے کام سے بھری ہوئی تھی – اس والے شاپنگ بیگ میں کیا ہے ؟؟ کومل نے اسے ساری شاپنگ دکھا دی تھی مگر ایک بلیک کلر کے شاپنگ بیگ کو چھیرہ بھی نہیں تھا تو سکندر نے خود اس بیگ کی طرف اشارہ کرتے پوچھا جس پر کومل کے گال لال ہوئے تھے – وہ سائیں وہ اپ کو نہیں دکھا سکتی – کومل کی بات پر سکندر نے حیرت سے اسے دیکھا – کیوں نہیں دکھا سکتی ؟؟ دکھاؤ مجھے – سکندر نے غصے سے اسے کہا – جب کہ کامل تو برا پھنسی تھی سکندر کے کہنے پر وہ بنا کچھ بولے اپنا لال چہرہ جھکا گئی تھی – سکندر نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا تھا مگر جب دماغ پر زور ڈالنے سے اسے بات سمجھ ائی تو اپنی جگہ شرمندہ ہوا تھا اور فورا صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا –
داد کہاں ہے ؟؟ ادھر اُدھر دیکھتے اپنی شرمندگی کم کرنے کے لیے اس نے کومل سے پوچھا – پتہ نہیں سائیں آپ جب عنایہ جی کو اوپر لے کر گئے تھے تو اپ کے جاتے یہ اچانک انہیں پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ ہوا کی تیزی سے بھاگ گئے – کومل کے اہستہ اواز میں دیے گئے جواب پر وہ سمجھ گیا تھا کہ داد کہاں اور کیوں گیا تھا اسے سبق سکھانے کا ارادہ کرتے ہیں وہ بھی گھر سے نکل گیا – جبکہ اس کے جاتے ہی کومل نے سکھ کا سانس لیا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
داد کہاں ہو ؟؟ باہر نکلو – دیکھو میں جانتا ہوں تم ادھر ہی کہیں چھپے بیٹھے ہو تو اس سے پہلے کہ میں تم تک پہنچوں ابھی کے ابھی باہر نکلو – وہ حویلی داخل ہوتے ہی ادھر اُدھر دیکھتا ہوا اونچی اواز میں داد سے مخاطب تھا جو بی جان کے کمرے میں چھپ کر بیٹھا اس کی اواز سن رہا تھا – بی جان بھی ہستے ہوئے اس کی پتلی ہوتی حالت دیکھ رہی تھیں – بی جان بچا لیں مجھے قسم سے بہت برا پھسا ہوں آج تو سائیں مجھے کچا چبا جانے کا موڈ بنائے پھر رہے ہیں – داد بی جان سے کہتا ادھر ادھر اپنے چھپنے کی جگہ ڈھونڈے لگا –
اچھا اچھا میں دیکھتی ہوں اسے تم یہاں ٹک کر بیٹھو ایک تو تم بتا بھی نہیں رہے کہ اخر وہ غصہ کیوں ہے تم پر – بی جان اس سے کہتی ہوئیں اپنی چھڑی پکڑے باہر نکلنے ہی لگی تھیں کہ اچانک سکندر کمرے میں داخل ہوا تھا اور اسے دیکھ داد کو سمجھ نہ ایا کہ وہ کہاں جائے – بی جان بچا لیں مجھے اپنے پوتے سے – سکندر کو سخت تیور سے اپنی جانب بڑھتا دیکھ داد جلدی سے بی جان کے پیچھے چھپتا بولا جبکہ سکندر نے بی جان کو سائیڈ کرتے اسے پکڑنا چاہا مگر داد جلدی سے بیڈ پر چڑھ کر دوسری جانب سے نیچے اترتا کمرے سے بھاگ گیا – داد کو بھاگتا دیکھ سکندر بھی اس کے پیچھے اسے پکڑنے بھاگا تھا – جبکہ بی جان حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں جو پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگ رہے تھے –
سائیں معاف کر دیں قسم سے پھر ایسی غلطی نہیں کروں گا داد حویلی کی بیک سائیڈ کی طرف بھاگتے ہوئے اپنے پیچھے اتے سکندر سے بولاجو اج اس کو اچھی طرح سبق سکھانے کا ارادہ رکھتا تھا – تو بیٹا میرے ہاتھ لگ تجھے میں بتاتا ہوں – سکندر اس کے قریب پہنچتے بولا – وہ دونوں اس وقت سوئیمنگ پول کے قریب تھے – داد جو پیچھے مڑ کر سکندر کو اپنے قریب پہنچتے دیکھ رہا تھا سامنے دھیان نہ دے سکا اس کا پاؤں پھسلا اور وہ سوئیمنگ پول میں گرا تھا جبکہ اسے بچانے کے چکر میں سکندر جو اس کا ہاتھ پکڑ رہا تھا خود بھی اس کے ساتھ پانی میں دھرم سے گرا تھا –
اب وہ دونوں سوئیمنگ پول میں فل بھیگے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے – تبھی دونوں کے قہقے بلند ہوئے اور دونوں اپنی تھوڑی دیر پہلے کی بچکانہ حرکتوں پر ہنستے وہیں سویمنگ پول میں کھڑے پیچھے کو گرے تھے –
بی جان جو پریشانی سے یہاں ائی تھیں کہ کہیں سکندر داد کو پیٹ نہ دے مگر سامنے کا منظر دیکھ حیران رہ گئی تھی – جہاں وہ دونوں کبھی سویمنگ کرتے تو کبھی ایک دوسرے پر پانی پھینکتے – وہ ہمیشہ ایسے کرتے تھے ان کا سانس سوکھا کر خود مستی کرنے لگ جاتے تھے – تم دونوں نکلو ذرا باہر اب میں تم دونوں کی طبیعت ٹھیک کرتی ہوں – بی جان مصنوعی غصے سے کہتی وہاں سے چلی گئیں جب کہ وہ بی جان کے غصے پر ہنس دیے – کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بی جان کا غصہ بس دکھانے کا ہوتا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اسے یونی جاتے دو ہفتوں سے زیادہ ہو گیا تھا اور وہ یونی لائف کو بہت انجوائے بھی کر رہی تھی – اس نے ابھی تک کوئی نہیں دوست نہیں بنائی تھی کیونکہ اسے ضرورت بھی نہیں تھی اس کے لیے کومل ہی بہت تھی ایک بہترین دوست – ہائے کیا میں یہاں بیٹھ جاؤں ؟؟وہ جو کینٹین میں بیٹھی بک کھولے پڑ رہی تھی کسی کی اواز پر اس نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی – یہ کینٹین ہے میری پرسنل پراپرٹی نہیں جو اپ مجھ سے اجازت مانگ رہی ہیں – سامنے والی کو جواب دیتے واپس اپنی بک پڑھنے میں مگن ہو گئی –
وہ ایکچولی میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی – وہ لڑکی گھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولی اور اس کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ گئی – ویسے کافی رچ فیملی سے لگتی ہو تم – عنایہ نے جب کافی دیر کتاب سے چہرے نہ اٹھایا تو اس لڑکی نے خود ہی سوال کیا – کیوں میں کہاں سے اپ کو امیر لگ رہی ہوں ؟؟ عنایہ نے اس لڑکی کے سوال پر کتاب بند کر سائیڈ پر رکھتے الٹا اسی سے سوال کیا – ہر طرح سے لگتی ہیں اپنے کپڑوں سے اپنے جوتوں سے بیگ سے اور اپنے ایٹیٹیوڈ سے – اس لڑکی کے جواب پر عنایہ نے حیرت سے خود پر ایک نظر ڈالی – ہاں واقعی وہ ہر کسی کو امیر ہی لگتی تھی کیونکہ اس نے یونی شروع ہونے سے اج تک جو بھی ڈریسز اور جوتے پہنے تھے بہت مہنگے تھے – مگر اسے اس لڑکی کا ایٹیٹیوڈ والی بات تھوڑی عجیب لگی تھی –
یقینا وہ لڑکی اس کے کسی کو نہ بلانے اور اکیلے بیٹھے رہنے پر ایٹیٹیوڈ والی بات کہہ رہی تھی – مگر عنایہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ اسے ایسے کمنٹ ہمیشہ ہی ملتے تھے اس کی ہمیشہ سے عادت تھی اکیلے بیٹھ کر اپنا پڑھنے کی اور اسی بات پر لڑکیاں اسے مغروری ، اکڑو اور نہ جانے کیا کیا کہتی تھیں – نہیں مجھے کسی سے زیادہ بات کرنے کی عادت نہیں اسی لیے سب کو میں مغرور لگتی ہوں اور شاید اسی لیے اپ کو بھی لگی – عنایہ نے کپڑوں وغیرہ کی بات کو اگنور کرتے ایٹیٹیوڈ والی بات پر اسے جواب دیتے پھر سے اپنی کتاب اٹھا لی لیکن اس بار ساتھ بیگ بٹھایا اور وہاں سے چلی گئی – اس کے وہاں سے جاتے ہی اس لڑکی کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹی اور تبھی ایک لڑکا اس کے قریب ایا تھا – کیا بنا کچھ پتہ چلا کس طرح کی لڑکی ہے –
وہ لڑکا اس کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولا – مجھے نہیں لگتا میک یہ لڑکی تم سے پٹے گی – اس میں بہت غرور ہے – لڑکی کے جواب پر میک نامی لڑکا مسکرایا تھا – میری جان اس جیسی بہت بڑی بڑی میرے اگے نہیں ٹک پائیں یہ کیا چیز ہے – پٹا لوں گا اسے بھی ویسے بھی ہمیں صرف دولت سے مطلب ہے جو اس کے پاس بے حساب لگتی ہے – میک نے اس سے کہتے قہقہہ لگایا جس پر اس کی گرل فرینڈ بھی مسکرائی تھی – ان دونوں کا یہی کام تھا یونی کی امیر لڑکیاں لڑکے دیکھ کر انہیں پھساتے اور ان کو لوٹ کر کھاتے تھے –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ گیٹ کی جانب بڑھ رہی تھی کہ اس میک نامی لڑکے نے اس کا پھر سے راستہ روکا تھا – پچھلے دو ہفتوں سے وہ اسے تنگ کر رہا تھا – اتے جاتے اس کا راستہ روکتے اس پر جملے کستا تھا – مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ کیوں جینا حرام کر رکھا ہے میرا تم نے – میک کو اپنا پھر سے رستہ روکتا دیکھ عنایہ غصے سے بولی تھی جس پر وہ کمینگی سے مسکرایا دیا –
میری جان تم ہی مجھے مجبور کرتی ہو یوں تمہارا راستہ روکنے پر کہا تو ہے تم سے کہ کر لو دوستی مگر تم مانتی ہی نہیں – کمینگی سے کہتے اس نے عنایہ کو انکھ ونگ کرتے فلانگ کس کی تھی – جس پر عنایہ کے چہرے کا رنگ اڑا تھا – گھبرا کر اس کی سائیڈ سے ہوتی جلدی سے گیٹ کی جانب بڑھ گئی کیونکہ باہر ڈرائیور اس کا انتظار کر رہا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
گھر پہنچ کر بھی اس کا ڈر ختم نہیں ہوا تھا وہ میک نامی لڑکا اب حد سے زیادہ بڑھ رہا تھا اب تو اسے یونی جانے سے بھی ڈر لگتا تھا – وہ اپنے کمرے میں سر گھٹنوں میں دے بیڈ پر بیٹھی تھی کہ کومل چائے لے کر اندر ائی تھی – یہ لیں عنایہ جی چائے پی لیں میرے ہاتھوں کی مزیدار سی – وہ چائے کا کپ بیڈ کی سائیڈ پر رکھ کر بولی جب کہ عنایہ نے کوئی حرکت نہ کی تھی – کیا ہوا ہے اپ کو عنایہ جی اداس لگ رہی ہیں ؟؟ کومل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بیڈ پر بیٹھتے پوچھا جس پر عنایہ نے رونے کا سبب لال ہوئی انکھوں والا چہرہ اوپر اٹھایا تھا –
ہائے اللہ جی کیا ہوا اپ کو اپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟ کومل نے پریشانی سے اسے پوچھا – کومل میری یونی کا ایک لڑکا ہے وہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے اتے جاتے مجھ پر جملے کستا ہے – میں کیا کروں یار ؟؟ وہ روتے ہوئے کومل کا ہاتھ پکڑتی بولی – اپ سائیں کو بتا دیں نہ – کومل نے جیسے اسے صلاح دی تھی – نہیں ان کو نہیں بتا سکتی میں تم جانتی ہو نا وہ مجھے پسند نہیں کرتے – تو بھلا وہ میری مدد کیوں کریں گے – عنایہ نے فورا اس سے منع کرتے کہا – تو اپ کچھ دن جاؤ ہی نہ یونیورسٹی – کامل نے پھر سے ایک صلاح دی جس پر عنایہ نے پھر نہ میں سر ہلایا –
نہیں کومل میری سٹڈیز کا ابھی سٹارٹ ہے اس لیے ابھی چھٹیاں نہیں کر سکتی – اس لڑکے کی وجہ سے بھلا میں اپنی سٹڈیز کیوں متاثر کروں – دفع کرو وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا – کتنا کوئی تنگ کرے گا – عنایہ نے کومل سے زیادہ خود کو حوصلہ دیتے کہا جس پر کامل نے مسکرا کر اس کا حوصلہ بڑھایا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::
چوتھا پیریڈ اس کا فری ہوتا تھا اسی لیے وہ اس پیریڈ میں گراؤنڈ میں بیٹھ کر پڑھتی تھی – ساری کلاس حیران تھی کہ چار ہفتوں سے زیادہ دن ہو چکے تھے اسے اس کلاس میں مگر وہ کسی سے بھی ضروری بات سے زیادہ بات نہ کرتی تھی – ابھی بھی وہ گراؤنڈ کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اچانک میک نے اس کا رستہ پھر سے روکا -کہاں جا رہی ہو جانِ من ؟؟/وہ پھر سے اپنی زبان کی بکواس اس پر جھاڑتے ہوئے بولا – جب کہ اس کے انے پر عنایہ کا وجود پھر خوف سے کاپنے لگا تھا – دفع ہو جاؤ یہاں سے اور مجھے تنگ کرنا بند کرو ائی سمجھ –
وہ خود میں حوصلہ جمع کرتے غصے سے کہتی وہاں سے جانے لگی کہ تبھی میک نے اس کی کلائی تھام کر اسے روکا تھا – میک کے یوں اچانک ہاتھ پکڑنے پر اس کا خود میں پیدا کیا گیا حوصلہ بھی ہوا تھا اور پورا وجود پھر سے ڈر کی وجہ سے کانپنے لگا تھا – چھوڑو میرا ہاتھ کمینے انسان – اس نے میک سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے کہا – اگر نہ چھوڑوں تو کیا کر لو گی ہاں ؟؟
میک نے کمینگی سے اس کو تکتے ہوئے کہا – اس سے پہلے کہ عنایہ اسے کچھ بولتی کسی نے پیچھے سے اس کے ہاتھ کی کلائی میک کے ہاتھ کی گرفت سے آزاد کی تھی اور میک کو نیچے لٹائے اس پر پے در پے مکوں کی برسات شروع کر دی – عنایا تو اس اچانک ہوئی کاروائی کو دیکھ حیران تھی – مگر جب نظر انے والے شخص پر گئی تو اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے – بھلا وہ یہاں کیسے موجود تھا ؟؟؟