بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

نہیں مجھے جانا ہے -میں داد بھائی کو فون کر کے بلاتی ہوں – وہ جلدی سے اس سے دور ہونے کی کوشش کرتے بوکھلائے ہوئے بولی مگر سکندر نے اسے ازاد نہیں کیا تھا – کہا نا مجھے صرف تمہاری ضرورت ہے کسی ڈاکٹر یا داد کی نہیں – ائی نیڈ یو – سکندر کے الفاظ اسے کشمکش میں ڈال رہے تھے دل کہہ رہا تھا مان لے سکندر کی بات اور سونپ دے اپنا اپ اس کو مگر دماغ کہہ رہا تھا نہیں ابھی نہیں وہ ابھی ہوش میں نہیں ہے –
دل اور دماغ کی جنگ سے تنگ ا کر اس نے سکندر کی جانب دیکھا جو انکھوں میں طلب لیے اسے دیکھ رہا تھا – اخر دل کی اواز پھر سے جیت گئی اور اس نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھتے جیسے اس کو اجازت دے دی تھی – جو بھی تھا وہ شوہر تھا اس کا اور اسی دلیل سے اس نے دماغ کو خاموش کروا دیا تھا – اس کے اجازت دیتے ہی سکندر اگلے ہی لمحے اسے بیڈ کی دوسری جانب کرتے خود اس کے اوپر حاوی ہوا تھا – اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے گیا تھا اس کے اس عمل پر عنایہ نے گھبرا کر اس کی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچا تھا –
سکندر کا ہر ایک عمل شدت بھرا تھا – وہ کبھی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لیتا قطرہ قطرہ اپنی سانسیں اس کی سانسوں میں شامل کرتا تو کبھی اس کی گردن پر شدتیں نچھاور کرتا – عنایہ تو اس کے ہر ایک عمل پر کبھی گبھرا جاتی تو کبھی شرمانے لگتی – مگر اب اس گھبراہٹ اور شرماہٹ کا کوئی فائدہ نہ تھا اسے سکندر کی جان لیوا قربت کو اب برداشت کرنا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
صبح اس کی انکھ کھلی تو عنایہ کو اپنے سینے پر سر رکھے سوتا دیکھ اسے پہلے تو حیرت ہوئی مگر جیسے ہی نظر اس کے وجود پر موجود اپنی شرٹ پر گئی تو رات کا ایک ایک لمحہ ایک ایک منظر اسے یاد اگیا تھا – او شٹ یہ کیا کر دیا تم نے سکندر شاہ – اپنے ماتھے پر دائیں ہاتھ کو مارتے وہ خود سے بڑبڑایا تھا –
کل اسے ہلکا ہلکا بخار تھا مگر سفر کی تھکاوٹ نے اسکے بخار کو اور بڑھا دیا تھا – اسی وجہ سے وہ کل اپنے حواس میں نہیں تھا اور عنایہ کے ساتھ فزیکل ہو گیا – اہستہ سے عنایہ کا سر اپنے سینے سے ہٹاتے وہ بیڈ سے اتر گیا اور سیدھا واش روم کی جانب بڑھ گیا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ابھی سکندر کو گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ عنایہ کی بھی انکھ کھل گئی – اس نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں سکندر نہیں تھا جبکہ واش روم سے پانی گرنے کی اواز ارہی تھی یعنی وہ واش روم میں تھا – کل رات کے بارے میں سوچتے اس کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ ائی تھی اور وہ خود ہی شرماتی اپنا منہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی – تقریبا تین چار منٹ بعد واش روم کے دروازے کا لاک کھلنے کی اواز سن وہ فورا کمفرٹر میں گھستی سوتی بن گئی – وہ بالکل بھی سکندر کا سامنا نہیں کر سکتی تھی وہ بھی اس حالت میں تو بالکل بھی نہیں – کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے بیڈ کی جانب دیکھا جہاں وہ کمفرٹر منہ تک تانے سو رہی تھی –
کندھوں پر رکھے ٹاول کو اس نے صوفے پر رکھتے ڈریسنگ مرر کے سامنے جاتے اپنے بال بنائے تھے – شرٹ اٹھا کر پہنتے اس نے خود پر پرفیوم سپرے کیا تھا جبکہ اس ساری کاروائی کے دوران اس کی نظر شیشے کے ذریعے پیچھے بیڈ پر ہی تھی – وہ اچھے سے جانتا تھا کہ عنایہ جاگ چکی تھی مگر اس سے شرماتی سونے کا بہانہ کر رہی تھی – میں جانتا ہوں تم جاگ رہی ہو تو یہ ڈرامے بازی بھی نہ کرو کہ تم سو رہی ہو – سکندر کے الفاظ سنن عنایہ نے زبان دانتوں میں دبائی تھی – یعنی وہ پکڑی گئی تھی – اہستہ سے اس نے اپنے چہرے سے کمفرٹر اتارا اور تھوڑا سا اٹھتے ہوئے بیڈ کی بیک سے ٹیک لگائی تھی – مگر گردن تک کمفرٹر ابھی بھی موجود تھا –
سکندر نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا تھا جو اس سے شرماتی اپنی نظریں ادھر ادھر گھما کر اس اگنور کرنے کی کوشش کر رہی تھی – دیکھو عنایہ میں جانتا ہوں جو کچھ کل رات ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا – وہ ابھی بول رہا تھا مگر اس کے الفاظ پر عنایہ کے چہرے کا رنگ اڑا تھا اور اس نے سفید چہرہ لیے اب کے اسے دیکھا تھا – جو اسی کی طرف دیکھتا بول رہا تھا – کل رات میں اپنے حواسوں میں نہیں تھا اسی لیے تمہارے قریب اگیا – میں تمہیں یہ نہیں کہوں گا کہ میں کل رات کی وجہ سے شرمندہ ہوں کیونکہ میں نہیں ہوں شرمندہ – جو بھی تھا جیسے بھی تھا چاہے میں اپنے حواسوں میں نہیں تھا مگر تم میرے نکاح میں ہو – پھر چاہے وہ نکاح کسی بدلے یا انا کی تسکین کے لیے ہی کیوں نہ کیا ہو – اور یہ میرا حق ہی تھا جو کل میں نے استعمال کیا مجھے ضرورت تھی تمہاری تو میں نے اپنا حق استعمال کر لیا اور ضرورت پوری کر لی –
پر ہاں تمہیں یہ ضرور کہوں گا کہ تم بھول جاؤ کل رات جو بھی ہوا – اور کسی قسم کی کوئی خوش فہمی مت پیدا کر لینا میرے بارے میں – وہ اس سے کہتا اپنا کوٹ اٹھاتے کمرے سے نکل گیا جب کہ عنایا تو ابھی تک انکھوں میں بے یقینی لیے اس جگہ پر نظریں جمائے ہوئے تھی جہاں پر ابھی وہ کچھ دیر پہلے کھڑا اسے اپنے الفاظوں سے اسمان سے زمین پر پٹک کر گیا تھا – اسے اپنے ارد گرد ایک ہی جملہ بار بار سنائی دے رہا تھا کہ سکندر نے اسے اپنی ضرورت کا سامان سمجھا – وہ جس لمس کو محبت سے تشبیح دے رہی تھی وہ تو در حقیقت ضرورت بھرا تھا – اور اس نکاح کی حقیقت بھی انا کی تسکین اور بدلہ تھی – اور ایک وہ پاگل تھی جو سکندر سے محبت کر بیٹھی تھی یہ سوچ کر کہ اسے بھی شاید محبت ہو گئی ہے مجھ سے –
مگر اب تو جیسے سب کچھ ختم ہو گیا تھا – اس کا دل خون کے انسو رو رہا تھا جبکہ دماغ ہنس رہا تھا دل پر – وہی تو تھا جو سکندر کی باتوں پر ہاں بول رہا تھا جبکہ دماغ نے تو کہا تھا مت جاؤ اس کے قریب وہ ہوش میں نہیں صبح ہوتے ہی بھول جائے گا – اور یہی ہوا تھا وہ صبح ہوتے ہی اسے رات میں جو ہوا بھول جانے کا بول کر جا چکا تھا اور وہ پیچھے اپنے اپ کے یوں بے مول ہونے پر بری طرح روتی رہ گئی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
کومل دو دن کا کہہ کر گئی تھی مگر اج چوتھا دن تھا اور وہ نہیں ائی تھی – عنایہ تو جیسے ساری دنیا بھلائے بیٹھ گئی تھی – اسے بھی اج چوتھا دن تھا وہ اپنے کمرے میں سے نہیں نکلی تھی – نہ یونی جاتی نہ ہی کتابوں کو ہاتھ لگاتی – کھانے پینے کا بھی کوئی ہوش نہیں تھا اسے – بس کمرے میں بند ہر وقت اپنی قسمت پر ماتم کرتی رہتی – عنایہ جی اپ یہاں ہیں اور میں اپ کو نیچے اوازیں دے رہی تھی –
کومل جو ابھی ائی تھی عنایہ کے کمرے کا دروازہ کھولتے بولی اور اس کے پاس پہنچی مگر اسے جوں کا تو لیٹے دیکھ پریشانی سے اس کے قریب بیٹھی – کیا ہوا عنایہ جی وہ پریشانی سے اس کے چہرے سے کمفرٹر ہٹاتی ہوئی بولی – مگر جیسے ہی کومل کی نظریں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ اپنا دل تھام کر رہ گئی – اس کی خوبصورت سنہری رنگ کی انکھیں بالکل لال ہوئی پڑی تھی اور چہرہ بالکل سپاٹ تھا یوں لگتا تھا جیسے نہ جانے کتنا بڑا روگ لگائے بیٹھی تھی – کیا ہوا ہے اپ کو بتائیں نا میرے دل کو کچھ ہو جائے گا – وہ انکھوں میں انسو لیے اس سے پوچھنے لگی جس پر عنایہ پہلے تو خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی مگر اچانک ہی اٹھ کر بیٹھتی اس کے گلے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی –
اس کے یوں رونے پر کومل تو گھبرا گئی تھی اور خود بھی رونے لگی تھی – نہ جانے کیا ہوا تھا اسے ان دنوں میں کہ اس کی یوں حالت ہو گئی تھی – جب وہ گئی تھی تب تو وہ بالکل ٹھیک تھی پھر اب نہ جانے اسے کیا ہوا تھا – تقریبا 10 منٹ سے وہ اس کے گلے لگی جی بھر کر رو رہی تھی اور کومل کو بھی رلا رہی تھی – بس کریں نہ عنایہ جی کتنا روئیں گی – بس کر دیں ورنہ طبیعت اور بگر جائے گی اپ کی – وہ اسے خود سے دور کرتی اس کے انسو صاف کرتے بولی – عنایہ نے بھی آہستہ سے اپنے دائیں ہاتھ کی پشت گال پر پھرتے چہرہ صاف کرتے اپنے آنسوں پر بندھ باندھا تھا – اب بتائیں کیا ہوا ہے آپ کو ؟؟ کومل نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے پوچھا جو سر جھکائے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھی – کچھ نہی بس امی ابو یاد آرے تھے –
اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بول کر کومل کو ٹالنے کی کوشش کی – اب وہ اور اپنا تماشہ نہی بنوانا چاہتی تھی اسے بول کر کہ اس کے شوہر نے اسے ایک رات کے لیے ضرورت کے طور پر استعمال کیا اور اس کا پاگل دل ابھی بھی اسی کے نام کی دھرکنوں کی دھن گا رہا تھا اور وہ روح جو سکندر کے الفاظ پر چھنی ہوئی تھی ابھی بھی چوٹوں سے چور انہی دھرکنوں کی دھن پر سکندر کے نام کا چولا پہنے محوِ رقص تھی – مگر وہ تو اپ کو کبھی بھولے ہی نہی تھے – کومل کے کہنے پر اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی – ہاں وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی – کب بھول پائی تھی وہ اپنے ماں باپ کو – ان کی بے اعتباری پر ان سے رشتہ تو توڑ آئی تھی مگر بیٹیاں کب بھولتی ہیں ماں باپ کو پھر چاہے ماں باپ بیٹیوں کے ساتھ کتنا ہی برا برتاو کیوں نہ کر لیں – ہاں آتے ہیں یاد وہ ہر وقت پر کل سے زیادہ یاد آ رہے ہیں اور پھر ان کی بے اعتباری کو یاد کر کے زیادہ رونا آرہا ہے کہ بابا نے تو نہ کیا اعتبار مگر امی نے بھی اعتبار نہی کیا –
وہ جو میری دوست تھیں میری بیسٹ فرینڈ تھیں – میری ہر عادت کا انہیں پتا تھا پھر بھی ناجانے کیوں انہیں مجھ پر تب یقین نہی آیا کہ میں نے کوئی نکاح نہی کیا تھا – عنایہ کے کھوئے کھوئے لہجے میں کہنے پر کومل نے اسے گلے لگایا تھا – چلیں کوئی نہی انشااللہ ایک دن سب بہتر ہو جائے گا – اس نے عنایہ کو دلاسہ دیتے کہا جس پر عنایہ نے ہلکے سے آمین کہا تھا – اچھا یہ تو بتائیں سکندر سائیں سے کوئی بات ہوئی تھی اپ کی اس رات یا اگلی صبح ؟؟ وہ جو ابھی کومل کے دلاسے پر تھوڑی نارمل ہوئی تھی اس کی اگلی بات پر اس کی انکھوں کے سامنے پھر سے اس رات کا ایک ایک منظر اور کانوں میں اگلی صبح سکندر کا کہے جانے والا ایک ایک لفظ گونجا تھا – نہی میری کوئی بات نہی ہوئی ان سے اور پلیز کومل میرے لیے کچھ بنا لاو مجھے بھوک لگی ہے –
اپنے چہرے پر بنا کوئی تاثر لائے وہ اس سے جھوٹ بولتی اس سے دور ہٹتی جلدی سے بولی – مقصد صاف اسے اس ٹاپک پر دوبارہ بات کرنے سے روکنا تھا – اوکے میں ابھی بناتی ہوں کچھ کھانے کے لیے آپ تب تک فریش ہو جاو – کومل بھی جلدی سے کھڑی ہوتی بولی اور کمرے سے نکل گئی اور وہ بھی کھڑی ہوتی واشروم کی جانب فریش ہونے کی نیت سے چل پری –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
دادی آپ کیوں اپنا خیال نہی رکھتیں ؟؟ میرا ہی سوچ لیا کریں کہ آپ کے علاوہ کوئی نہی میرا – سکندر جو اس وقت دادی کے کمرے میں موجود تھا ان کا ہاتھ تھامے بولا – دراصل دادی کا بلڈ پریشر آج بہت بڑھ گیا تھا اور اسی وجہ سے اچانک ان کی طبعیت بگر گئی تھی اور سکندر کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے تھے ان کی طبیعت بگرنے پر – وہ تو شکر تھا کہ آج وہ گھر پر ہی تھا اور دادی کے کمرے میں ہی موجود تھا جب ان کی طبعیت بگری تھی – اس نے فوراً ڈاکٹر کو بلا لیا تھا اور اب دادی کی طبیعت بہتر تھی تو وہ ان سے شکوہ کر رہا تھا جس پر وہ ہلکے سے مسکرا دی تھیں –
تو تم کر لو نہ شادی تاکہ میرا خیال رکھنے والی بھی کوئی ہو اور تمہارا بھی میرے علاوہ کوئی ہو- اور ویسے بھی میں بوڑھی جان آج ہوں کل کا پتا نہی – تو مجھے بھی بے فکری ہو گی کہ میرے مرنے کے بعد کوئی تمہارا خیال رکھنے والا ہوگا – دادی کے کہنے پر سکندر نے ان کی جانب شکائیتی نظروں سے دیکھا تھا – اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو – کیا آپ میرا خیال رکھ رکھ کر تنگ آگئی ہیں – جو ایسی باتیں کرتی ہیں – سکندر کے شکائیتی انداز میں کہنے ہر دادی نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا تھا –
نہی میری جان ایسی کوئی بات نہی ہے بھلا مائیں بھی بچوں کی دیکھ بھال کرتے تھکتی ہیں – میں تو بس تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں – تم شادی کرو تمہاری بیوی آئے تمہارے چہرے پر اصل رونق آئے پھر تمہارے پیارے پیارے بچے ہوں اور میں انہیں اپنی گود میں کھیلاوں بس اتنی سے خوہش ہے میری – دادی کی اتنی سی خواہش سن وہ دھیرے سے ہس دیا – اور ان کی گود میں سر رکھتے لیٹ گیا تھا –
نہی دادی میرا بلکل بھی موڈ نہی شادی کا – اس نے پھر سے ہمیشہ کی طرح شادی سے انکار کیا تھا مگر اس بار شادی کے زکر پر اس کی آنکھوں کے پردے میں عنایہ کا چہرہ ضرور آیا تھا – وہ اسے تو کہہ آیا تھا اس رات کو بھول جانے کو مگر خود نہی بھول پایا تھا – اس رات کا ایک ایک لمحہ اسے یاد آتا تھا اور اسے بےچین کر دیتا تھا – جو بھی تھا مگر اس بات کا وہ خود بھی اقرار کرتا تھا کہ بےشک عنایہ کی قربت ایک نشہ تھی – ایک بار جیسے شراب کا نشہ کر لو تو انسان روز شراب مانگتا ہے بلکل اسی طرح اس کا دل بھی پھر سے عنایہ کی قربت مانگ رہا تھا – مگر وہ خود پر قابو کیے دل کو بھی ڈپٹ کر بیٹھا ہوا تھا لیکن دیکھنا تھا اس کا خود پر یہ قابو کب تک رہنے والا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial