قسط: 9
عنایہ جی قسم سے سکندر سائیں آپ کو اس روپ میں دیکھ لیں نہ تو بس پھر ان کی خیر نہی ہے – جو ان کے بارے میں مشہور ہے نہ کہ ان کے پاس دل نہی ہے وہ جزبات نہی رکھتے بس ایک نظر آپ کے اس روپ کو دیکھ لیں گے نہ تو سارے جزبات ابل ابل کر باہر آئیں گے ان کے – عنایہ کی کلاس کو ان کے سینیرز کی طرف سے آج ویلکم پارٹی تھی اور اسی وجہ سے وہ تیار ہو رہی تھی جانے کے لیے – اس کی تیاری دیکھ کومل نے اسے چھیرتے ہوئے کہا جس پر وہ محض اسے گھور کر ہی رہ گئی تھی – وہ لگ بھی تو اتنی پیاری رہی تھی کہ کومل اس کے قاتل روپ کی اپنے انداز میں تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی –
عنایہ جانا تو نہی چاہتی تھی مگر اندر کی بےچینی اور اداسی کم کرنے کے لیے اس نے جانے کا سوچا تھا کہ چلو تھوڑی دیر ہی سہی مگر زہن تو دوسری طرف ہوگا – اس صبح کے بعد سکندر نہی آیا تھا اور آج ایک ماہ ہوگیا تھا مگر وہ نہی آیا تھا – ایک اس کا دل تھا جو ابھی بھی سکندر کو دیکھنے کے لیے بےتاب تھا – اس سب کے باوجود اپنے دل کے سکندر کےلیے وہی جزبات رکھنے پر کبھی کبھی وہ بےبسی سے رو دیتی تھی – مگر اج اس کا ارادہ ساری سوچوں اور بےچینوں سے تھوڑی دیر نجات پانے کا تھا – اسی لیے وہ یونی جانے کے لیے تیار تھی – اسے میک اپ نہی پسند تھا مگر آج اس نے ساری کسریں پوری کیں تھیں تیار ہو کر – اسے تو میک اپ کرنا نہی اتا تھا مگر کومل کو اتا تھا اور اسی نے تیار کیا تھا اسے –
فضول باتیں کرنا بند کرو اور یہ بتاو میں کیسی لگ رہی ہوں – اس نے مرر کے سامنے رکھے سٹول سے کھڑے ہوتے گول گول گھومتے ہوئے کومل سے کہا – فضول باتوں سے مراد سکندر کے نام سے اسے چھیرنے سے تھا – کومل نے ڈرامائی انداز میں گال پر انگلی رکھتے اس کے سراپے پر مکمل تنقیدی نگاح ڈالی تھی – سفید رنگ کی لونگ فراک پہنے جس پر سفید رنگ کے موتیوں کا ہی ہلکہ ہلکہ کام ہوا تھا جو اس فراک کی خوبصورتی بڑھا رہا تھا – جیولری کے نام پر اس نے کانوں میں چھوٹے چھوٹے ڈائیمنڈ کے ٹوپس پہنے تھے اور ان کے ساتھ کی رنگ بھی پہن رکھی تھی – ریڈ پنسل ہیل پہنے ساتھ لائیٹ میک اپ کے ساتھ ڈارک ریڈ لپسٹک لگائے وہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی – ایک دم پرفیک ، گورجیس ، کلر بیوٹی لگ رہی ہیں –
کومل کی عجیب تعریف پر اس نے نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا – کلر بیوٹی مین ؟؟ عنایہ کے پوچھنے پر کومل کا قہقہہ چھوٹا تھا – مطلب کہ قاتل حسینہ – کومل کے آنکھ ونک کرکے مطلب بتانے پر عنایہ نے اس کے کندھے پر تھپر مارا تھا – بس بےہودہ باتیں کروا لو تم سے – وہ اسے ڈپٹ کر کہتی بیڈ پر پڑا ڈوپٹہ اٹھا چکی تھی – اسے اچھے سے سیٹ کرنا بیک بہت ڈیپ ہے اور پھر پتا نہی کس جاہل نے یہ ڈریس بنایا ہے بیک ڈیپ رکھ کر ڈوریاں لگا دیں تھیں تو نیچے زپ لگنے کی کیا ضرورت تھی – خدا نہ کرے اگر کھل گئی تو ؟؟
میں تو کبھی نہ پہنتی یہ بیہودہ ڈریس اگر تم مجھے اپنی قسم نہ دیتی – چلو اب اچھے سے کور کرو بیک کو – اور سچی بتاو ہئیر سٹائل اچھا لگ رہا ہے نہ ؟؟ وہ اپنے کرل کیے بالوں کو چھوتی بولی جنہیں کرل کرکے بیک پر کھلا چھوڈ رکھا تھا – اوور تو نہی لگ رہی میں ؟؟ شیشے میں خود کو دیکھتی پوچھنے لگی -عنایہ کو نروس دیکھ کومل کو ہسی آ رہی تھی – بوکھلاہٹ میں شیشے میں اپنے عکس کو دیکھتی وہ بار بار اپنی تیاری کا پوچھ رہی تھی –
ہاں جی بہت اچھا لگ رہا ہے ہئیر سٹائل آپ پر اور اپ بلکل بھی اوور نہی لگ رہیں – اب لائیں میں آپ کا ڈوپٹہ سیٹ کر دوں – اس کے ہاتھ سے ڈوپٹہ پکرتی وہ اسے واپس مرر کے اگے پڑے سٹول پر بیٹھاتی بولی جس پر عنایہ کو بھی تسلی ہوئی تھی اور وہ خاموشی سے بیٹھ گئی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ویلکم پارتی کا فنگشن مارکی میں کیا گیا تھا اور اس وقت مارکی میں ہر طرف رنگ و بو اور بےحیائی کا سماں تھا – وہ ایک کورنر میں رکھی ٹیبل کی ایک چئیر پر بیٹھی سب کو عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی – پہلے تو اسے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی تیار ہو کر آگئی ہے مگر جب یہاں اس نے لڑکیوں کے فیشن دیکھے تو کانوں کو ہاتھ لگایا تھا – اسے لگا تھا وہ یہاں انجوائے کرے گی مگر یہاں تو وہ اور بور ہو رہی تھی – ہائے گورجیس بیوٹی یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو ؟؟
اس نے تھوڑی دیر پہلے ہی ڈرائیور کو کال کر کے اسے پک کرنے کا کہہ دیا تھا ایک تو وہ شدید بور ہو رہی تھی اور دوسرا رات بھی بہت ہو گئی تھی – تھوڑی دیر میں ہی ڈرائیور پہنچنے والا تھا اور وہ بیٹھی ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی کہ تبھی تین لڑکے اس کے پاس ائے تھے اور ان میں سے ایک لڑکے نے ایک چئیر اپنے بیٹھنے کے لیے نکالتے اس پر بیٹھتے اس سے پوچھا – اس کے ساتھ باقی کے دو لڑکے بھی اپنے لیے چئیر نکالتے بیٹھ گئے تھے – اس لڑکے کے طرز مخاطب پر اسے غصہ تو بہت ایا مگر وہ کوئی بھی لڑائی جھگرا نہی چاہتی تھی اسی لیے بنا کوئی جواب دیے وہاں سے جانے لگی –
ارے حسینہ مانتے ہیں کہ حسن تم پر ٹوٹ کر برسا ہے مگر اتنا بھی نکھرا نہ دیکھاو اور ہم دیوانوں کو نہ ترپاو – ان تینوں نے یقینً اس دن سکندر کو میک کو مارتا نہی دیکھا تھا اسی لیے بڑی بےخوفی سے وہ عنایہ کو چھیر رہے تھے – وہ ان لڑکوں کو اگنور کرتی جلدی سے وہاں سے جانے لگی مگر سامنے سکندر کو کھڑا دیکھ اس کا سانس رکا تھا – اس کے تاثرات سے پتا چل رہا تھا کہ وہ ان لڑکوں کی باتیں سن چکا تھا – عنایہ کو ان لڑکوں کی فکر پڑ گئی تھی کیوں کہ وہ اس پر جملے کستے اس کے پیچھے ہی آگئے تھے – اور سکندر کی غصے سے ہوئی لال آنکھیں دیکھ عنایہ کو اور گھبراہٹ ہو رہی تھی – یقینً ڈرائیور کی جگہ وہ اسے پک کرنے آیا تھا – اگر عنایہ کو پتا ہوتا یہ سب ہونا تھا تو وہ کبھی بھی فنگشن پر نہ آتی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ارے شاہ سائیں آپ اس وقت ؟؟ کومل جو ٹی وی لون میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی سکندر اور داد کو اچانک وہاں دیکھ حیرت سے پوچھ بیٹھی – کیوں میں نہی آ سکتا یہاں ؟؟ میرا گھر ہے یہ میں جب چاہے آ سکتا ہوں – سکندر کے جواب پر وہ خوامخواہ شرمندہ ہوئی تھی – نہی میرا مطلب وہ نہی تھا سائیں – کومل نے جلدی سے خود کو کلئیر کرنے کی کوشش کرتے کہا –
ہاں ہاں پتا ہے مجھے میں بھی ویسے ہی بول رہا تھا – وہ وہیں صوفے پر بیٹھتے بولا مگر نظریں ادھر اُدھر بھی گھما رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو – عنایہ کدھر ہے ؟؟ اس نے اخر پوچھ ہی لیا تھا – سائیں جی وہ نہ اپنے یونی کے فنگشن پر گئی ہیں – ان کی ویلکم پارٹی تھی – کومل کے جواب پر اس کے ماتھے پر بل آئے تھے – کس کی اجازت سے گئی ہے وہ ؟؟ وہ بھی اتنی رات کو – وہ ایک دم صوفے سے کھڑا ہوا غصے سے بولا تھا – جبکہ کومل چپ چاپ سر جھکا گئی تھی – داد تو خود اس کے غصے پر حیران ہوا تھا – ڈرائیور کدھر ہے ؟؟ جاو ڈرائیور کو بلا کر لاو داد – داد کی طرف منہ کرتے اس نے حکم دیا تھا – جس پر وہ فوراً ڈرائیور کو بلانے چلا گیا تھا –
کب تک فنگشن ختم ہونے کا بتایا تھا اس نے ؟؟ ڈرائیور کے آتے ہی سکندر نے اس سے پوچھا تھا – شاہ سائیں انہوں نے کہا تھا کہ جب میں کال کروں مجھے لینے آ جانا – ڈرائیور کے جواب پر اس کا اور دماغ گھوما تھا – دس بج رہے ہیں اور اس نے کب فون کرنا ہے تمہیں – اور تمہیں بھی زحمت نہ ہوئی مجھے بتانے کی کہ وہ اپنے کسی فنگشن پر جا رہی ہے – ابھی سکندر ڈرائیور پر عنایہ کے حصے کا غصہ نکال ہی رہا تھا کہ تبھی ڈرائیور کا فون بجنا شروع ہو گیا تھا – سائیں بی بی جی کی کال ہے – ڈرائیور نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا فون اس کے سامنے کرتے کہا –
اٹھالو پوچھ کیا رہے ہو – سکندر کے کہنے پر ڈرائیور نے جلدی سے کال اٹھائی تھی – سائیں وہ پک کر لینے کا کہہ رہی ہیں – کال سنتے ہی ڈرائیور نے کہا – تم بیٹھو ادھر میں خود جاوں گا اسے لینے – وہ ڈرائیور سے کہتا داد کے ہاتھ سے چابی چھینتے ہوئے باہر نکل گیا – جبکہ داد ، کومل اور ڈرائیور پیچھے عنایہ کے لیے دعا گو تھے کہ وہ بچ جائے سکندر سے –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
شاہ پلیز گھر چلتے ہیں کوئی تماشہ مت بنائیے گا – وہ جلدی سے سکندر کے پاس آتی بولی – جس پر سکندر نے اسے تگری گھوری سے نوازہ تھا – پلیز شاہ پلیز – اس سے پہلے کے سکندر ان لڑکوں کی جانب بڑھتا عنایہ نے اس کا بازو تھام کر منت کی تھی جس پر سکندر غصے سے مٹھیاں میچ کر رہ گیا تھا – اور اگلے ہی لمحے عنایہ کی بازو کو اپنی جارہانہ گرفت میں لیتے اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے لگا – شاہ کیا کر رہے ہیں میں گر جاوں گی –
سکندر اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ گاڑی تک لے کر جا رہا تھا اور ہیل پہنے ہونے کے سبب عنایہ سے چلا نہی جا رہا تھا – بند کرو اپنی بکواس پہلے یہ بتاو کہ کس کی اجازت سے تم یہاں آئی ؟؟ مجھ سے پوچھا تھا ؟؟ گاڑی تک پہنچتے ہی سکندر نے اسے گاڑی سے لگاتے دونوں جانب اپنے ہاتھ رکھتے اس سے غصے سے پوچھا – میرا دل تھا آنے کا – اس نے آہستہ آواز میں کہا – اچھا تو پوچھنا نہی تھا مجھ سے اور یہ میک اپ کس خوشی میں کر رکھا ہے تم نے ؟؟ غصے سے بولتے جب دیہان اس کے تیار ہونے پر گیا تو سکندر کو نئے سرے سے غصہ آیا تھا –
وہ میں وہ – عنایہ کو سمجھ نہی آ رہا تھا کیا جواب دے کیوں کہ میک اپ تو اس کا کومل نے زبردستی کیا تھا اور وہ کومل کو نہی پھسا سکتی تھی – کیا وہ وہ ہاں ؟؟ بولو کیا وہ وہ ؟؟ تمہیں کس نے حق دیا میری اجازت کے بغیر اتنا تیار ہو کر گھر سے نکلنے کا ، ان ہونٹوں کو سجا کر نکلنے کا – نا جانے کتنوں کی نگاہ تمہارے ہونٹوں پر گئی ہو گی اور ناجانے کیسے کیسے خیال ائے ہوں گے ان کے زہن میں – سکندر کے الفاظوں پر عنایہ کو ڈھیروں شرم نے آ گھیرا تھا – سوری !
اسے اپنی ہی غلطی لگی تھی اس لیے جلدی سے معافی مانگ لی – سکندر نے اس کے معافی مانگنے پر اسے دیکھا تھا جو شرمندہ سی چہرہ جھکائے کھڑی تھی – بیٹھو گاڑی میں – اس کے دونوں طرف سے اپنے دونوں ہاتھ ہٹاتے وہ بولا تھا اور خود بھی دوسری جانب جا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
راستے میں گاڑی کو کوئی مسلہ بن گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کافی دیر سے گھر ائے تھے – کومل اور داد بھی سو چکے تھے – عنایہ کا ارادہ بھی اپنے کمرے میں جانے کا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھتی سکندر نے اچانک اسے گود میں اٹھا لیا تھا – سکندر کی اس حرکت پر عنایہ کا پورا وجود سن ہوا تھا – کیا کر رہے ہیں شاہ نیچے اتاریں مجھے – عنایہ نے ہاتھ پاوں مارتے سکندر کی گود سے اترنے کی کوشش کرتے کہا مگر وہ بنا کوئی جواب دیے اسے لیے اپنے کمرے میں آگیا تھا –
کمرے میں آتے ہی اس نے پاوں کی مدد سے دروازہ بند کیا تھا اور عنایہ کو کمرے کے بیچوں بیچ لا کر کھڑا کیا تھا – کیا کر رہے ہیں شاہ مجھے جانا ہے اپنے کمرے میں – ناجانے کیوں عنایہ کو سکندر کے ارادے ٹھیک نہی لگے تھے اسی لیے جلدی سے بولتی وہاں سے جانے لگی مگر سکندر نے ایک ہی جھٹکے میں اسے کھینچتے ہوئے اپنے قریب کیا تھا اور اس کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائیل کیے تھے – کہاں جا رہی ہو ؟؟ پہلے مجھ سے تعریف تو وصول کر لو جو آج اتنی خوبصورت لگ رہی ہو – سکندر نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بہکے ہوئے لہجے میں کہا – نہی مجھے نہی لینی تعر….اس سے پہلے کہ عنایہ اپنا فقرہ مکمل کرتی سکندر نے اس کے الفاظ بیچ راہ میں ہی پی لیے تھے – سکندر کے جنونی انداز سے گھبراتے عنایہ نے اس کے بازو کو زور سے پکرا تھا –
آہستہ اہستہ عنایہ کے لبوں کا جام پینے کے ساتھ وہ عنایہ کے ڈوپٹے کو اس کے وجود سے دور کر چکا تھا – ہونٹوں کو بخشتے اب اس کے ہونٹوں کا رخ عنایہ کی گردن تھی جہاں وہ اپنی شدتیں نچھاور کر رہا تھا – عنایہ کو تو سمجھ نہی آرہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے – اپنی کمر پر سکندر کی انگلیوں کی حرکت محسوس کرتے عنایہ کی جان لبوں پر آئی تھی – اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتی سکندر اس کی بیک پر لگی ڈوری اور زپ کھول چکا تھا – اور ایک ہی جھٹکے میں اسے پلٹتے اب وہ اس کی کمر پر شدتیں لٹا رہا تھا – شاہ جی پلیز !! عنایہ کے التجائی لہجے میں کہنے پر سکندر نے پھر سے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا – شش آواز نہی آئے مجھے تمہاری –
مجھے پسند نہی کوئی مجھے ڈسٹرب کرے – عنایہ سے کہتے ہی وہ پھر سے اس کے ہونٹ اپنی گرفت میں لے گیا تھا – اور عنایہ بھی اس کے سامنے بےبس ہو گئی تھی – بے شک اب سکندر رکنے والا نہی تھا اور نہ عنایہ اسے روک سکتی تھی اسی لیے وہ خود کو سکندر کے رحم و کرم پر چھوڈ چکی تھی –