قسط 3
ایک ماہ گزر گیا لیکن الفاظ کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی
ہسپتال میں اس کی نائٹ ڈیوٹی شروع ہوگئی وہ ساری رات اسپتال میں رہتا اور صبح گھر واپس آتا
ماما بابا نے اسے خوب ڈانٹ پلائی
ابھی ابھی تمہاری شادی ہوئی ہے اور ابھی پھر سے کام پر لگ گئےہو
تمہیں چاہئے کہ تم نور کو کہیں باہر گھمانے لے کے جاؤ اور تم کام پر لگے ہوبابا بہت غصے میں تھے
سوری بابا کام بہت زیادہ ہے آپ فکر نہ کریں میں اسے بعد میں گھمانے لے جاؤں گا الفاظ کو پتہ چل چکا تھا کہ نور نے اس کے رویے کے بارے میں گھر میں کسی کو نہیں بتایا
کیونکہ نور کو یقین تھا کہ الفاظ بہت جلدی اس سے راضی ہوجائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اس کے سارے خیال غلط ثابت ہوئے
پہلے نور کو لگتا تھا کہ شاید وہ اس سے ناراض ہے لیکن وہ ناراضگی کا اظہار تو دور کوئی بات تک نہیں کرتا تھا
نور کو لگا شاید اس پر واقع ہی کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے پھر نور نے اسے ڈسٹرب کرنا چھوڑ دیا
وہ سارا دن گھرپے رہتا لیکن وہ کمرے میں نہ جاتی کیونکہ اسے کمرے میں دیکھتے ہی اس کا موڈ بگڑ جاتا
°°°°°°
وہ کمرے میں آئی تو الفاظ ابھی ابھی نہا کر نکلا تھا
ٹاول کندھے پر ڈالے بنا شرٹ کے وہ آئینے کے سامنے کھڑا تھا
اس کی موجودگی میں وہ کمرے میں نہیں آتی تھی لیکن پھوپو کی وجہ سے اسے کمرے میں آنا پڑا
کیونکہ وہ بالکل کوئی جویلری نہیں پہنتی تھی اس کی وجہ سے پھوپو کو غصہ آیا اور انہوں نے اچھا خاصا ڈانٹ دیاکہ ابھی ابھی تمہاری شادی ہوئی اور ایسے کیسے گھومتی ہو یہ کوئی حال ہے تمہارا جاؤ جلدی سے جویلری پہنوپھوپو کی وجہ سے اسے کمرے میں آنا پڑا
کمرے میں آتے ہی اس کی نظر سامنے ڈریسنگ ٹیبل کےسامنے کھڑے الفاظ پر پڑی
اور پھر نظر اس کے بازو پر گئی جہاں بہت خوبصورت ڈیزاین میں نور کا نام ٹیٹو کروایا گیا تھا
نور کا دل پل میں مغرور ہوا ۔۔۔
کیا یہ شخص اسے اتنا چاہتا ہے کہ اس کا نام ساری زندگی کے لئے اپنے بازو پر لکھوایا ہوا ہے
اس نے سوچا پھر بنا کچھ کہے آگے بڑھی اسے بنا شرٹ کہ دیکھ کے وہ نظر جھکا گئی
بنا اسے مخاطب کیے وہ جلدی جلدی اپنی کنگن تلاش کرنے لگی وہ بہت غور سے اس کی جھکی ہوئی نظریں دیکھ رہا تھا
مجھے اگنور کر رہی ہو
وہ اسے مصروف دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
کیا میں کیوں کروں گی اگنور وہ پل میں نروس ہو گئی
ایک بات اچھے سے سمجھ لو مجھے اگنور کرنے کی غلطی کبھی مت کرناورنہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہوگا سارا دن میں اس کمرے میں رہتا ہوں اس کمرے کی طرف دیکھتی بھی نہیں ہو
تو جناب اگنور ہو رہے تھے نور کا دل خوش ہواتھا
مجھے کیا ضرورت ہے آپ کو اگنور کرنے کی آپ بزی ہوتے ہیں اس لئے میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرتی وہ بہت کونفیڈنس سے بولی
ابھی وہ اور کچھ کہتی کہ الفاظ نے ایک پل میں اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کے اسے اپنے بے حد قریب کر لیا ایک اس کے اتنے قریب اور اوپر سے اس نے شرٹ تک نہیں پہنی تھی
الفاظ مجھے جانے دیں
نور کاکونفیڈنس پل بھر میں ہوا ہوا
میں سب کچھ برداشت کرسکتا ہوں نور لیکن تم مجھے اگنور کرو یہ میری برداشت سے باہر ہے
اس کے ہونٹوں کو فوکس کرتے ہوئے بالکل اس کے قریب آ کر سرگوشی کرتا ہوا اس کے ہونٹوں کو چھو گیا
اگلے ہی پل اس نے نور کو خود سے ایسے دور کیا جیسے کرنٹ کو ہاتھ لگا لیا ہو
یہاں کیا کر رہی ہو دفع ہوجاو میرے سامنے سے کتنی بار کہا ہے میرے سامنے مت آیا کرو وہ لمحے میں بدل گیا تھا
توہین کا احساس حاوی ہوتے ہی نور روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی
°°°°°°°
پڑھائی کے سلسلے میں وہ لندن گیا تھا جہاں اس نے یہ ٹیٹو بنوایا تھا
جس کے بعد بابا نے اس کی بہت بےعزتی کی تھی
لیکن الفاظ کو اس بےعزتی کا زیادہ کوئی اثر نہ ہوا
وہ تو خوش تھا کہ نور کا نام ہمیشہ کے لیے اس نے اپنے بازو پر محفوظ کر لیا ہے
اور یہ بات روشانے نے نور کو بتائی تھی اور نور ایک ہفتے تک کسی کے سامنے نہ آئی
جیسے الفاظ کو اس نے خود کہا ہو کہ میرے نام کا ٹیٹو اپنے بازو پر بنواؤ
لیکن نورکی خواہش ضرور تھی کہ وہ اپنے نام کا ٹیٹو دیکھے
آج اس کی یہ خواہش پوری ہوئی وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا لیکن پھر اس سے دور کیوں تھا کب تک وہ ایسا ہی کرتا رہے گا
یہ سوچ نور کو اپنے اور الفاظ کے رشتے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی
مجھے نہیں پتہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن مجھ سے دور رہے کے آپ مجھے نہیں بلکہ اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں
اگر آپ میرے پاس نہیں آئیں گے تو میں آپ کے پاس آؤں گی
اگر آپ مجھے اپنے آپ کو اگنور نہیں کرنے دیتے تو اب آپ بھی مجھے اگنور نہیں کریں گے
نور نے یہ فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل کرنے کے بارے میں سوچنے لگی
°°°°°°°
وہ سب سے زیادہ محبت اپنی پھوپو سے کرتی تھی
پھوپو بھی اسے بے حد چاہتی تھی
لیکن بابا اسے کم ہی پھوپوکے گھر جانے دیتے
کیونکہ بابا الفاظ کی دلی وابستگی کے بارے میں جانتے تھے
وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ زیادہ اپنی پھوپو کے گھر جائے وہ شروع سے ہی اپنی پھوپو کے بہت قریب تھی
اکثر پھوپو کے گھرانے کی ضد کرتی
نور کبھی پھوپو کے خلاف نہیں جاتی تھی
وہ جو کہتی ہو وہی کرتی
پھوپو کی ہر بات جیسے پتھر پر لکیر تھی
نور کی پھوپو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی تھیں
اسے وہ دن بھی یاد ہے جب انہوں نے اس کے باپ کے پیروں پر گرتے اپنے بیٹے کے لئے اس کا ہاتھ مانگتے کہا تھا کہ اگر الفاظ کو نور نہ ملی تو الفاظ مر جائے گا
نور اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے
جو وہ اپنے بیٹے کو دینا چاہتی ہیں
نور تو ہمیشہ سے ہی اپنی پھوپو کے گھر آنا چاہتی تھی
وہ ہمیشہ سے ہی اپنی پھوپو کے گھر رہنا چاہتی تھی
اب وہ پھوپو کے قریب آگئی تھی
لیکن الفاظ اس سے دور چلا گیا اتنا دور کے اب وہ سفر طے نہیں کر پا رہی تھی