قسط 5
سمیرا رضا نے اپنے باپ کے آفس آنا شروع کر دیا تھا
ماں باپ کی اکلوتی بیٹی اور کروڑوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث سمیرا نے خود فیصلہ کیا تھا کہ وہ آفس سمبھائےگی
سمیرا کے باپ کی طبیعت بہت زیادہ خراب رہنے لگی تھی
وہ چھوٹی سی عمر میں ہی اپنی ماں کو کھو بیٹھی تھی
اور اپنے باپ پر وہ مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی
اس لئے خود ہی آفس جا نے لگی شروع میں تووہ سب ورکرز کو بہت عجیب اور مغرور لگی
لیکن اچھی نیچر اور اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے سمیرانے سب کو ہی اپنا قائل کرلیا
سب آفس میں سمیرا کو بہت پسند کرتے ہو اور اسے بہت عزت دیتےتھے
وہ ندیم کو پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی
ندیم اسے پسند کرنے لگا تھا
وہ ہر وقت اسی کے خیالوں میں کھویا رہتا
آفس میں کسی کام کے لئےاگر کسی بھی ورکر کو بلایا جاتا
تو ندیم پہلے بھاگ کر جاتا
وہ ہمیشہ سمیرا کے آگے پیچھے رہتا
جس کو سمیرا نے بہت نوٹ کیا تھا
لیکن سمیرا نے اس پر زیادہ دھیان نہ دیا
ندیم ایک بہت ہی قابل انسان تھا
اور آفس کے مرکز میں بہت اہمیت رکھتا تھا
°°°°°
مجھے اسے اپنے ساتھ لے کر نہیں جانا چاہیے تھا
میرا مقصد اسے اپنے آپ سے دور کرنا ہے نہ کہ اس کے قریب جانا
کیوں نہیں رہ پاتا میں اس سے دور کتنی کوشش کرتا ہوں لیکن پھر بھی
اس طرح سے تو وہ میرے اور قریب آجائے گی
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دے سکتا مجھے اسے اپنے آپ سے دور کرنا ہوگا
کیسے بھی میں اس کے پاس نہیں جاسکتا
وہ دل و دماغ کی ایک جنگ لڑ رہا تھا
اس نے بابا سے میرے جھوٹی شکایت کی الفاظ نے ولید کو بتایا
تو اس کا مطلب ہے تم دونوں ڈنر پر گئے تھے گریٹ ولید کو خوشی ہوئی
اس میں خوش ہونے والی کوئی بات نہیں میں اسے خود سے دور رکھنا چاہتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھ سے محبت کر بیٹھے
تجھے نور بھابھی کو سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے
فیصلہ تُو ان پر چھوڑ دے ولید نے اسے سمجھانے کی ایک اور ناکام کوشش کی
وہ میرا کبھی یقین نہیں کرے گی الفاظ کے پاس ہر بات کا ایک ہی جواب تھا
تو ٹھیک ہے تو نور کو طلاق دےدے کم از کم اس سے نور بھابھی کو تکلیف تو نہیں ہوگی
ویسے بھی اگر نوراس سارے قصے سے ہٹ جائے تو تُو زیادہ آسانی سے اپنا کام کرلے گا اس سب میں سب سے بڑی رکاوٹ نور بھابھی ہیں اب ولید کو غصہ آنے لگا
تُو دے دے انہیں طلاق اس نے حل نکلا تھا
تو چاہتا ہے کہ میں مر جاؤں الفاظ نے ولید کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
ولید شرمندہ ہوا لیکن پھر بولا
کل بھی تو مرنا ہے تو بہتر ہے آج مر جا
وہ خود مجھ سے طلاق مانگے گی ولید میں اسے مجبور کر دوں گا فکر مت کر میرا کیس بھی تو ہی ہنڈل کرے گا سنجیدگی سے کہتا الفاظ آخر میں مسکرایا
الفاظ تیری محبت میری سمجھ سے باہر ہے ولید نے دکھ سے کہا
وہ محبت ہی کیا جو کسی کی سمجھ میں آجائے الفاظ نے اسی کےانداز میں جواب دیا
پھر کہنے لگا ‘میں چاہتا ہوں وہ مجھ سے اتنی نفرت کرے کہ اگرآگے زندگی میں کبھی بھی وہ میرے بارے میں سوچے تو اپنا منہ پھیر لے
اسے مجھ سے محبت نہیں ہونی چاہیے ولید انسان اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھول سکتا
الفاظ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
اگر اسے تجھ سے محبت ہو گئی تو پھر کیا کرے گا۔۔!
میں ایسا ہونے ہی نہیں دوں گا۔وہ سنجیدگی سے بولا
وہ جتنا بھی اس سے دور جاتا وہ اتنی اس کے قریب آجاتی
بہت کوشش کے بعد بھی وہ اس سے دور نہیں جا پارہا تھا
اوکے ٹھیک ہے اب مجھے چلنا چاہیے ولید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
کب تک فری ہو گا الفاظ نے پوچھا
شام تک ۔۔ولید نے بتایا
ٹھیک ہے کہ ہم رات کو ملتے ہیں
آج رات کو۔۔۔۔۔؟
کیوں آج نائٹ ڈیوٹی نہیں ہے تمہاری ولید نے پوچھا
نہیں آج میں فری ہوں اس لئے تو کہہ رہا ہوں ملتے ہیں۔
ولید اس کا سب سے بہترین دوست تھا جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات شیئر کر لیتا
بچپن سے جوانی تک اس نے کبھی اپنی کوئی بات ولید سے نہیں چھپائی تھی
ایک بات پوچھنی تھی تو نور بھابھی انکل سے تیری جھوٹی شکایت کر کے تجھے اپنی ساتھ پر لےگئی ولید نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا
ہاں ۔۔۔۔وہ بھی مسکرایا
اس کا مطلب اگر تو سیر ہے تو میری بھابھی سوا سیرہے ولید ہنستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا
ہاں سواسیر تو ہے میری شیرنی اس نےمسکراتے ہوئے کہا
°°°°°°
یہ تم نے کیا پہن کر رکھا ہے وہ کمرے میں داخل ہوا جب اسے دیکھ کر بولا
ساڑھی ۔۔۔نور نے اپنا پلوٹھیک کرتے ہوئے کہا
اور کیوں پہنی ہے تم نے یہ ساڑھی الفاظ نے پھر سے پوچھا
کیونکہ مجھے ساڑھی پہننے کا بہت شوق ہے
ماما کہتی تھیں اپنے میاں کے گھر جاکے پہننا
نور مجھے یہ لباس بالکل پسند نہیں ہے جاوابھی اس کو چینج کر کے آؤ
الفاظ نے سختی سے کہا
ماما بھی نہیں پہننے دیتی تھیں اور آپ بھی نہیں پہننے دیتے نور پل میں اداس ہو گئی اس کی اداسی دیکھ کر الفاظ کو ُبرا لگا
نور میرا وہ مطلب نہیں تھا مجھے پتا ہے کہ ساڑھی تمہیں پسند ہے لیکن تم اس طرح سے یہ لباس پہن کر گھوم نہیں سکتی
کیونکہ یہ لباس اس قابل نہیں اس نے ساڑھی کی سلیوز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
جو کہ نہ ہونے کے برابر تھیں
نور مجھے پتا ہے تمہیں یہ لباس پسند ہے تم جتنا چاہے اسے پہنو لیکن کمرے کے باہر پہن کر نہیں جا سکتی الفاظ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے میں سے چینج کر دیتی ہوں نور نےکہا
مجھ پہ اچھی لگتی ہے نہ نور نے الفاظ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
کیونکہ نور نے یہ فیصلہ تو کر لیا تھا کہ الفاظ اس کی تعریف کرے نہ کرے وہ اپنی تعریف زبردستی کروائے گی
مجھے نہیں پتہ
الفاظ یہ نہیں کہہ سکا کہ آج نور اس کو بہکنے پر مجبور کر رہی ہے
ایک تو یہ اس کا من پسند لباس
پھر من پسند رنگ
پھر من پسند محبوبہ
پھر اس پر بیوی ہونے کا جائزرشتہ وہ کیسے نہ بہکتا
اپنے دل کے جذبات پر قابو کرتے ہوئے وہ کمرے سے تو کیا گھر سے ہی باہر نکل گیا نور دل ہی دل میں مسکرائی
کیوں کہ وہ الفاظ کی آنکھوں میں اپنی پسندگی دیکھ چکی تھی