تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 10

بھائی!! پکڑو شفا بھاگ رہی ہے ۔احد سب سے پہلے ہوش میں آیا تو شفا کی جانب بھا گا۔۔ لیکن تب تک وہ دروازہ کھول چکی تھی۔ سامنے کھڑے حمزہ کو دیکھ کر گویا شفا کی جان میں جان آئی۔ حیران سا وہ بھی شفا کی حالت دیکھ کر چونکا تھا۔
حمزہ۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ حمزہ مجھے بچالیں۔ اس کے سینے سے لگتی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑے وہ شدت سے روئی تھی۔
شفا کیا ہوا؟ وہ اس کو سامنے کرتا اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا ۔
حمزہ نہیں گھر چلیں۔ یہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ یہ درندے ہیں یہ میرے بہن بھائی کچھ بھی نہیں ہیں۔ میرے دشمن ہیں۔ قدم ایک جگہ جماتی وہ حمزہ کو بھی اپنے ساتھ روک گئی۔ “شفا میں نے آپ کو کل ہی کہا تھا کہ مت رکیے گا لیکن شاید آپ کو ضد ہو چکی تھی۔
لیکن اب یہاں سے آپ میری مرضی کے بغیر بلکل بھی نہیں جائیں گی۔ ان کا اصلی روپ ابھی آپ کے لیے دیکھنا باقی ہے۔ آئیں میرے ساتھ !!شفا کو روبرو کیے بازو سے تھامتاوہ آگے بڑھا تھا۔
نہیں میں نہیں جاؤں گی ۔ حمزد واپس چلیں۔ مجھے نہیں رہنا” سبحان کو ایک نظر دیکھتی وہ پھر اس کے پہلو ” سے چپکی تھی۔ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
یہ شخص کون ہے ؟؟ ” سامنے اجنبی مرد کو دیکھتا وہ شفا سے سوال کر گیا۔ یکلخت شفا کا چہرہ سفید پڑا تھا۔ جس سوال سے وہ بچنا چاہ رہی تھی۔ اس نے وہی سوال کر کے اسے موت کی جانب دھکیلا تھا۔
میں بتاتا ہوں یہ کون ہے اور تیری بیوی کتنی جھوٹی ہے ۔ ؟ شفا کو یکدم دور کر تاوہ ریاض کی جانب آیا جو پر جوش ساکھٹڑ اہو کر بولا تھا۔ تیری بکواس تو میں ایک پل بھی نہیں سنوں گا۔” گریبان سے جکڑ تاوہ ریاض کو زور دار جھٹکا دے گیا۔ زخموں سے چور ریاض پیچھے تخت پر گر اتھا ثانیہ ہائے ہائے کرتے یکدم ریاض کی جانب آئی تھی۔ بولو تم کون ہو ؟؟ اور یہاں کیا تماشہ لگا ہوا تھا۔ ؟؟
مم۔ میر انام سبحان ہے ۔ اور میں شفا کو پسند کر تا ہوں۔ اس نے مجھے شادی کے لیے کہا تھا۔
لڑکھڑایا سا لہجہ سن کر حمزہ کے ماتھے پر بل نمایاں ہوۓ۔ حمزہ۔۔۔ میں آپ کو بتاتی ہوں ۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔ خاموش شفا!! ایک لفظ آپ کے منہ سے نہ نکلے ۔ یکدم دھاڑ تا وہ شفا کو خاموش کروا گیا۔ ۔۔۔ حمزہ۔۔ پپ پلیز ۔ !!
شفا آپ کو میں کچھ کہہ رہا ہوں آپ کو سنائی نہیں دے رہا شفا کی بات درمیان میں ہی رہ گئی ۔۔
۔ شفا کانپتی سی اپنے دونوں ہاتھ منہ پر جماگئی۔
سب سچ بتاؤ؟؟ ایک لفظ بھی اگر جھوٹ ہوا تو میر اہاتھ ہو گا اور تمہارا منہ ۔ اتنا ماروں گا ” کہ اپنا نام تک بھول جاؤ گے۔ حمزہ کی دھمکی پر گویا مقابل کی گھگھی بند گئی تھی ۔۔۔
مم میں سچ بول رہا ہوں ۔ میں سبحان ہوں۔ آپ کون ہیں ؟؟ اور مجھ سے سوال کیوں کر رہے ہیں ؟؟
اوہ تو مطلب تم سبحان ہو “۔ اپنی شرٹ کے کف کو اوپر کر تا وہ پر اسرار سابولا۔ ہا۔۔ ہاں میں ہی ہوں۔ کوئی شک ہے ؟؟ یہ لو میرا آئی ڈی کارڈ۔ کانپتے ہاتھوں سے جیب سے کارڈ نکال کر وہ حمزہ کی جانب کر گیا۔
اوہ تم تو سچ میں سبحان احمد ہو “
حمزہ کا لہجہ شفا کو ناجانے کیوں موت کی جانب دھکیل گیا۔
ایسالگ رہا تھا جیسے یہ رشتہ بھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے والا ہے۔ لیکن اس بار غلطی بھی اس کی تھی۔ “اگر رشتہ ٹوٹ بھی جاتا تو وہ کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا اسکتی تھی۔
تم واقعی شفا سے شادی کر نا چاہتے ہو ؟؟ اس سوال پر گویا شفا کی جان حلق میں آگئی ۔ حمزہ میں ۔ ۔ وہ حمزہ کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔ حمز ہاتھ کے اشارے سے اسے وہی روک گیا۔ اپنے قدم روکتی اور نفی میں سر ہلاتی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔
جواب نہیں دیا تم نے؟؟ حمزہ دوبارہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
ہاں میں کرناچاہتا۔
یکدم حمزہ کا بھاری ہاتھ اس کے الفاظ منہ میں ہی روک گیا۔
دوبارہ بول۔!!
گریبان سے اس کو تھامتا وہ سامنے کر گیا۔
کر نا چا ہتا ہے میری بیوی سے شادی ؟؟
حمزہ نے دوبارہ سوال دہرایا۔ اس سے پہلے اس کا سر نفی میں ہلتا ۔۔دوسرا تھپڑ اس کے منہ پر مارا گیا۔ خون کا ایک فوارا اس کے منہ سے چھوٹا تھا۔
اسکا ہاتھ بے ساختہ اپنے منہ پر گیا۔ جیسے یہ مکا اس کے منہ پر پڑا۔
وہ میری بیوی ہے۔۔۔ حمزہ سبحان کی اس سے بات کرنے والا میں تھا۔ ۔۔۔۔
اس سے میسجز کرنے والا بھی میں تھا ۔۔۔تو ” ” کیسے کہہ سکتا ہے کہ تو سبحان ہے ۔ اور وہ تجھ سے محبت کرتی ہے ۔
ایمن اور ثنا کے منہ تو گویا حیرت سے کھل کر سفید پڑگے۔ باقیوں کی حالت کو تو گویا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔
“جھوٹ مت بولو۔۔ تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم ہی سبحان ہو اور تم ہی شفا کو میسج کرتے تھے۔ “
ثنا کی طیش سی آواز پر حمزہ بے ساختہ اس کی جانب مڑا۔
اوہ تو آپ تھی اس شخص کو لانے والی ” حمزہ کی درست بات پر سنا کی گویا گھگی بندھی ۔اور ایک نظر اس نے فاحد کی جانب ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
مم میں کیوں لاوں گی۔
تم جانتے ہوئے اسے یا تمہاری بیوی ۔ اس کا یار ہے تو ظاہر ہے اس سے پو چھو۔ “
بکواس نہیں کرنی میری بیوی کے بارے میں ورنہ میں آپ کے عورت ہونے کا بھی لحاظ نہیں کروں گا۔ ” بد لحاظ ہوں اتنا تو آپ جانتی ہی ہوگی۔ فہد دیکھیں کیسے بد تمیزی کر رہا ہے ۔ ثنا نے مدد کے لیے فہد کی جانب دیکھا جو حیرت سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔
انہیں کیوں درمیان میں لا رہی ہیں۔ ارے کیوں نہ لاؤں۔ وہ شوہر ہے میرا۔ وہ میری سائڈ نہیں لے گا تو کون لے گا۔
تو پھر شفا بھی میری بیوی ہے۔ جو اس پر الزام لگاے گا ۔۔ اسے برباد کرنے میں میں پل بھی ضائع نہیں کر وں گا ۔۔۔
دھمکی آمیز انداز میں کہتا وہ شفا کی جانب متوجہ ہوا جو سن سی کھٹری حمزہ کو ہی دیکھ رہی تھی۔ لیکن اب اس کی آنکھوں میں اعتبار کی پر چھایاں تھیں۔
ہاں تم بولو ۔ !!
کس نے تمہیں یہاں بلایا تھا۔ ؟ حمزہ کی سردی آواز شفا کو بھی سہم جانے پر مجبور کر گئی۔ میں سبحان ہی ہوں ۔
شفا بھی مجھ سے رابطے میں تھی۔ لڑکھٹرائی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سنتا وہ استہزائیہ مسکرایا تھا۔ ایک نظر شفا کی جانب ڈال کر وہ دوبارہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ اور پے در پے کئی تھپڑ گھونسے اس کے منہ پر جڑے تھے۔
تیری اتنی ہمت کہ تو میری بیوی کی کردار کشی کرے۔ میں تیری جان لے لوں گا۔ حمزہ چھوڑو۔ چھوڑو۔ اسے۔
معاملہ بگڑتا دیکھ کر احد اور فہد نے اسے تھام کر پیچھے دھکیلا تھا۔ اسے کہو سچ بولے ورنہ میں اس کی جان لے لوں گا۔
بازو سے ماتھے کا پسینہ صاف کر تاوہ قہر آلود سا بولا۔ ۔!!
ہاں سنا بھابھی لائی تھی مجھے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ مجھے بہت سارے پیسے دیں گی۔ جس کے بدلے بس مجھے تھوڑی سی ایکٹنگ کرنی ہو گی ۔
خون آلود منہ سے تکلیف سے کراہتا وہ بولتا چلا گیا۔ ثنا بھابھی کا تو گویار نگ فق ہوا تھا۔ اور یہی حالت ایمن کی بھی تھی۔ مم مجھے ایمن نے کہا تھا۔ کہ شفا کو پھسا کر پیسے بٹوریں گے۔ اس کی زبان کھلتے دیکھ کر ایمان کی ہمت بھی جو اب دے گئی۔ یہ جھوٹ ہے۔ میں نے کوئی پیسے نہیں لیے۔
احد میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔
احد تیزی سے آگے آیا اور ایمن کے منہ پر ایک تھپڑ جڑ گیا۔ حیران کن نظروں سے احد کو دیکھتی وہ منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔ شادی شدہ زندگی میں پہلی مرتبہ احد نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ کیوں تم سنا بھابھی کے ساتھ ملی ” احد کی قہر آلود آواز سے ایمن کی گھگی باندھ گئی ۔ منہ پر ہاتھ رکھے وہ بس احد کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” احد یہ سب تماشہ بعد میں کرتے رہنا پہلے مجھے میری بیوی کا حساب لینے دو۔ سبحان کی تو ہمت جواب دے گئی تھی۔ اس کے بھاری ہاتھ نے اس کے دماغ کی رگوں کو ہلا کر رکھ دیا” تھا۔
مم میں معافی مانگتا ہوں۔ مم میں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ تو سنا بھابھی نے مجھے کہا تھا۔ ۔ ” دیکھیں میں آپ کو سب سچ بتا چکا ہوں۔ خداکا واسطہ ہے مجھے جانے دو۔ جانے دیتا ہوں لیکن پہلے تیری خاطر مدارت بہت ضروری ہے ۔ ایک نمبر ڈائل کرتا وہ فون کان سے لگا گیا۔ “سبحان تیزی سے اسے کے پاؤں میں گرا تھا۔
بھائی صاحب میرا تو کوئی قصور نہیں ہے یہ سب تو سنا جی کے کہنے پر کیا۔ مجھے پیسوں کی بہت ضرورت تھی۔۔
مجھے معاف کر دیں۔ میں کبھی اپنی زبان نہیں کھولوں گا۔ مجھے جانے دیں۔ میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اگر مجھے کچھ ہو گیا تو انکے سر پر ہاتھ کون رکھے گا ۔۔۔
اگر مجھے پتہ چلا کہ یہ راز تو نے کسی کے سامنے اگلا تو تیرا وہ حال “کروں گا کہ ساری عمر اپنے بچوں سے ملنے کو ترسے گا۔
جیب میں سے دس ہزار نکال کر ثنا کی جانب پھیلتا وہ حمزہ کے پاؤں تھام گیا۔
دس سیکنڈ سے پہلے یہاں سے دفعہ ہو جا ۔۔۔۔
دھمکی سنتا سبحان فورا وہاں سے رفو چکر ہوا تھا کہ ایک نظر بھی اس نے کسی کی جانب نہیں ڈالی تھی۔
اس کے جاتے ہی حمزہ شفا کی جانب آیا تھا جو سن سی کھڑی تھی ۔ پل بھر میں یہ ہوا کیا تھا شفاخود بھی نہیں سمجھ پائی تھی ۔
“حمزہ ہی سبحان تھا جس سے وہ شادی کے بارے میں کہہ چکی تھی۔ یہ حقیقت تھی یا پھر از بیت ناک تکلیف جو اس سے برداشت نہیں ہو پارہی تھی۔
فہد !! تم لوگ تو بھائی کے نام پر دھبہ ہو ۔ کاش کہ تم دونوں شفا کے بھائی ہی نہ ہوتے کم از کم آج میری بیوی سکھ میں تو ہوتی ۔
خیر میں کچھ کہہ کر اپنی زبان ہی گندی کروں گا۔ لیکن یاد رکھو تمہاری بھی اولاد ہے۔ اپنی بہن کے ساتھ جو رویہ تم ۔ لوگوں نے روا رکھا۔۔
دعا کر نا تمہاری اولاد تمہارے ساتھ ایسے کبھی نہ کرے۔۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial