تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 2

آہ!!چہرے پر موجود زخم پر انگلی پھیرنے سے بے ساختہ منہ سے آہ نکلی۔
بھائی آہستہ مارلیتے۔رہ کر میرا گال سجا دیا۔”
ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں میں آنسو آۓ تھے۔کیونکہ آج کچھ زیادہ ہی چہرے پر نقش و نگار بنے تھے۔لیکن بے حسی اس کی جوں کی توں تھی۔
لال گال پر سیک کرتی وہ آئینے میں دیکھتی بول رہی تھی۔
آج تو دل بھر بھر کر آرہا تھا۔
وجہ آج بھائی کے مارنا تھا۔ورنہ بھابیوں سے تو وہ مار کھاتی ہی رہتی تھی۔
لیکن آج بھائی نے بھی کسر پوری کردی تھی۔
ہاۓ۔امی۔!!
گال پر ہاتھ لگاتے ہی اسنے درد سے ماں کو پکارا تھا۔
لیکن ماں گھر پر ہوتی تو کم ازکم اس پر ظلم نہ ہونے دیتی۔
چند دنوں سے وہ عفیفہ کی طرف گئی تھیں۔
تبھی آج کوئی بھائی کو روکنے والا نہیں تھا۔
وجہ کچھ بھی نہیں ہوئی تھی۔
بھابھی کے سامنے جواب دینے کو انہوں نے زبان درازی سمجھا تھا اور رکھ کر دو تھپڑ لگاۓ تھے۔تبھی اب گال سجاۓ بیٹھی تھی۔
موبائل پر ان نون نمبر سے کال دیکھ کر ناجانے کیوں اس کا جی چاہا اسے اپنے دل کا حال سناۓ۔
فوراً سے پہلے اس نے کال پک کی ۔
کیسی ہو شفا؟؟ ناجانے آج کیوں وہم ستارہے تھے کہ تم تکلیف میں ہو؟
سنو مجھے کوئی دوا بتاؤ جس سے میرا درد ختم ہؤجاۓ۔بنا اس کی بات پر توجہ دیتی وہ درد سے بھرپور لہجے میں بولی تھی۔
شفا کیا ہوا ہے کہاں درد ہے؟ مجھے بتاؤ؟
مقابل کافکر سے بھرپور لہجہ سنتی شفا کو گویا ڈھارس ہوئی۔
بھائی نے آج بہت زور سے منہ پر تھپڑ ماراہے جس کی وجہ سے درد ہورہا ہے۔
ناجانے وہ کس زعم میں تھی کہ اسے اپنی تکلیف بتاتی چلی گئ۔ شاید دل کو اس وقت کسی شدید سہارے کی ضرورت تھی۔
مقابل شخص کا جی چاہا کہ وہ اس کے بھائی کا منہ توڑ دے۔
شفا تمہیں کیوں تھپڑ کھایا تم ان کو بدلے میں چار لگاتی۔
تمہارا نام کیا ہے اس کے سوال کے برعکس اس نے سوال پوچھا
میں تمہیں کچھ کہہ رہا ہوں اور تم کیا بول رہی ہو؟؟وہ سختی سے بولا۔
تم مجھے اپنا نام بتاؤ؟؟ مقابل ضد پر آ رہی تھی۔
“سبحان میرا نام سبحان ہے۔”
اس کی ضد پر اس نے اپنا نام بتایا تھا ۔
مجھ سے کیوں بات کرتے ہو شفا کے اگلے سوال پر وہ یکلخت خاموش رہ گیا۔
جواب بھی کیا دیتا کوئی جواب اس کے پاس باقی ہی نہیں تھا۔۔
تم مجھے اچھی لگتی ہو” اس لیے میں تم سے بات کرتا ہوں۔
اچھا تم مجھ سے میسج پر بات کرو۔
جھٹ سے کہہ کر اس نے کال کاٹی۔اور تیزی سے میسج ٹائپ کیا۔۔
مجھ سے شادی کرو گے؟؟ مقابل کی بات تھی یا بم بلاسٹ ایک منٹ کے لیے تو سبحان بھی سٹپٹایا۔
اسے توقع ہی نہیں تھی کہ وہ معصوم سی دکھنے والی لڑکی اتنی بےباک ہوجاۓ گی ۔۔کہ تیسری کال پر اس سے یہ ڈیمانڈ کرے گی۔
کیا ہوا سوچ میں کیوں ڈوب گئے ؟کچھ تو بولو؟
شفا کا میسج دوبارہ سکرین پر ابھرا۔
نن نہیں میں نہیں کرسکتا۔
چندلائنزلکھ کر اسے سینڈ,کرکے وہ ریوالونگ چئیر سے ٹیک لگاگیا۔
گوکہ مشکل عمل تھا لیکن وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ اس سے امید نہ لگاۓ۔
کک کیوں نہیں کرسکتے۔
دیکھو مجھے اس جنجال پورہ سے نکلنا ہے کسی بھی حال میں۔میں تنگ آچکی ہوں اس زندگی سے۔
تم میری پریشانی جاننا چاہتے تھے اور اس کا حل بھی تمہارے پاس ہے تو کرو حل میری پریشانی۔
شفاکے میسج سے اسے جیسے چیلنج کااحساس ہوا۔
ایک بات بتاؤ؟؟ مقابل نے پھر سوال کیا۔
پوچھو؟؟
تم نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہے۔ پھر بھی تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟؟ اگر میں کوئی عیاش پسند انسان ہوا تو کیاکرو گی؟؟
مقابل کےلفظ تھے یاپھر گہراانکشاف کہ شفا کے رونگٹے کھڑے ہوۓ۔
جواب دو؟؟ کافی دیر میسج نہ آنے پر اس نے مزید میسج کیا۔
پھر میں خودکشی کرلوں گی۔کیونکہ اس زندگی سے نجات کا واحد حل وہی ہے۔”
اور اس میسج پر گویا سبحان کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔”
❤❤❤❤❤❤❤
چنددن پرسکون گزرے۔ اس کے بعد نہ سبحان کا کوئی میسج آیا نہ شفا نہیں کوئی میسج کیا۔”کرتی بھی کیسے ؟؟
دل میں جو ایک امید تھی وہ بھی سبحان نے توڑ دی تھی ۔
اپنی کم بختی کا احساس اسے شدت سے ہوا تھا۔ اور وہ پہلی بار زخموں کی تکلیف سے نہیں ۔ وہ امید ٹوٹنے پر روئی تھی۔
وہ کسی کے لیے خاص نہیں ہے۔سب کے لیے بس ایک کام کا ذریعہ ہے۔پھر چاہے وہ بھابھی ہو یا بہنیں۔یا پھر وہ “سبحان “جس کے نام کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔
اس شخص نے خود اس سے رابطے بڑھائے تھے۔
اور اس کی ایک ہی بات پروہ سارے رابطے ختم کر چکا تھا” گویا شفاء کو یقین ہو چلا تھا کہ یہ دنیا دھوکے باز ہے، جس پر اعتبار کیا اس نے بھی دھوکا دیا تھا حالانکہ اس نے کوئی وعدہ وعید نہیں کیے تھے نہ زیادہ رابطے بڑھاۓ تھے۔”
لیکن شفا کو بھی نہ جانے کیوں اس سے امید باندھ کر وہ اتنی بڑی بات کہہ چکی تھی ۔
اب اسے اپنی بے وقوفی کا اندازہ اچھے سے ہوا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مزید بے حس ہوتی چلی گئی مار کھانا ڈانٹ پھٹکار سننااس کی زندگی میں خوراک جیسا بن گیا تھا” جو روز اسے فضول میں ملتا۔”
اور اب تو وہ خود سے بھی شکوہ نہیں کرتی تھی۔کیونکہ شکوے سننے کے لیے بھی اس کے پاس اپنی ذات کے سوا کوئی نہیں تھا۔”
ایک قصہ ایک کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔اب شفا کے دل میں کسی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤
کون ہو بھئی گھر میں کیوں گھسے چلے آرہے ہو؟؟
بڑی بھابھی ایک اونچے لمبے اجنبی مرد کو دیکھتی حیرانگی سے چلائی تھیں۔جو دروازہ کھول کر صحن میں آچکا تھا۔
کون ہے؟؟
جمیلہ بیگم بھی اندر سے باہر آئیں اور سامنے کھڑے خوبرو سے شخص کو دیکھ کر چونکی تھیں۔
تت تم؟؟؟ یہ یہاں۔؟؟ حیرانگی کا اظہار کرتی انہوں نے ایک نظر اوپر کی جانب دیکھا۔
میری بیوی کہاں ہے۔؟؟ مقابل کی دھاڑ نما آواز پر بڑی بھابھی بھی دہلی تھیں۔لیکن خود ہر قابو پاتی وہ سختی سے گویا ہوئی۔
کونسی بیوی کیسی بیوی؟؟
کس کی بات کررہے ہو۔؟؟
میں شفا کی بات کررہا ہوں اسے بلائیں جلدی۔
بھابھی کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ۔یہ کونسا شوہر تھا جو شفا کا دعویدار بن کر آیا تھا۔
مقابل کھڑا شخص مزید سختی سے بولا۔
حلیے سے کسی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا لگ رہا تھا۔تبھی بھابھی تھوڑا دبی تھیں۔
ہانپتی ہوئی شفا بھی شور سے نیچے آئی جب سامنے کھڑے مرد پر نظر پڑتے ہی وہ ڈوپٹہ درست کرتی سیڑھیوں پر ہی رکی۔
اے شفا چل دفعہ ہو اوپر!!
بھابھی کی دھاڑ سے وہ بد حواس ہوئی۔
شفا کہیں نہیں جاۓ گی۔وہ میرے ساتھ جاۓ گی۔اور میں اسے لے کر ہی جاؤں گا۔
شفا نیچے آؤ۔
شفا کو پکارتا وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
اس کے قدم پیچھے کی جانب کھسکے تھے۔
لیکن وہ اس کا ہاتھ پورے استحقاق کے ساتھ تھامتا نیچے لایا۔
شفا بے جان مورت کی طرح کھنچتی چلی گئی تھی۔
بھابھی کے سینے پر گویا سانپ لوٹےتھے۔ایسا تو انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
کیا ہوا کیسا شور ہے؟؟منجھلی بھابھی بھی آنکھیں مسلتی باہر آئیں لیکن شفا کو کسی غیر مرد کے ساتھ کھڑی دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ گئ۔
مم میں آحد کو بلاتی ہوں۔تیزی سے وہ اندر جاکر آحد کا نمبر ڈائل کرنے لگیں۔
آنٹی آپ شفا کو یہ جوڑا پہنائیں اس کی رخصتی پوری رسم و رواج سے ہوگی۔
ایک شاپنگ بیگ انہوں نے جمیلہ بیگم کی جانب بڑھایا۔
آنٹی میرے پاس وقت نہیں ہے جلدی کریں” ۔جمیلہ بیگم کو بے سدھ سا کھڑا دیکھ کر وہ قدرے اونچا بولا تھا۔
جج جی۔
بیگ لے کر وہ شفا کو لیے اندر کی جانب بڑھی۔جو حیران کن نظروں سے ان کے ساتھ گھسٹتی چلی گئ۔
ابھی تو وہ سبحان کے دھوکے سے نہیں سنبھلی تھی یہ نیا زخم دینے اسے کون آیا تھا۔
مقابل نے اسے اندرجاتے تک دیکھا تھا۔
بلائیں اپنے شوہر کو آج دو ٹوک بات ہوگی۔
بڑی بھابھی کو دھمکی زدہ سا بولتا وہ لاؤنج میں ایک جانب رکھی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر پوری شان سے براجمان ہوا تھا۔
❤❤❤❤❤❤
امی؟؟ لبوں سے محض یہی نکلا۔نہ کوئی سوال اور نہ ہی کوئی وضاحت چاہی تھی۔
بیٹا!! کوئی سوال مت کرنا یہ جوڑا پہن لو۔بیگ میں سے سرخ جوڑا نکال کر انہوں نے شفا کی جانب بڑھایا۔سوال پوچھنے کی تو اسے عادت تھی بھی نہیں اس لیے بنا بولے وہ اندر باتھ روم میں بڑھ گئ۔
کچھ دیر میں سرخ شارٹ قمیض کے ساتھ سٹریٹ ٹراؤزر پہنتی وہ دھلے چہرے کے ساتھ باہر آئی۔
اتنے میں جمیلہ بیگم باقی چیزیں بھی بیگ سے نکال چکی تھیں۔
بیٹا مجھے تو پتہ نہیں ان سب کا بس تو یہ پہن لے۔بھاری آویزے اورنازک ساکندن کا سیٹ اور سرخ چوڑیاں اس کی جانب بڑھا کر وہ مخاطب ہوئیں۔
شفا نے اب بھی بنا سوال کیے سب چیزیں چپ چاپ پہنیں تھیں۔
سفید گردن پر گویا وہ کندن کا نازک سیٹ پوری طرح سجا تھا۔
کانوں میں آویزے پہن کر ہاتھ میں چوڑیاں چڑھا کر اس نے ڈوپٹہ ہمیشہ کی طرح سر پر اوڑھا۔اور ماں کی سرعت میں باہر کی جانب بڑھی۔
اسے سوال کرنے کی شاید عادت نہیں تھی یاپھر سب کے رویوں نے شاید اسے کے سوال کرنے کی حس ختم کردی تھی۔”
❤❤❤❤❤
کس حق سے لے جانے کی بات کررہے ہو۔کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس؟؟
جو تم اتنے سالوں بعد شفا کو لینے چلے آۓ۔
فاحد بھائی کی دھاڑ نما آواز سے اس نے سختی سے ماں کا پلو تھاما۔کچھ دن پہلےکے تھپڑ وہ اب تک نہیں بھولی تھی ۔صحن میں الگ طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا
پہلے میرا گریبان چھوڑو۔مقابل شخص سختی سے بولتا فاحد کو خود سے دور دھکیل گیا۔
پینٹ کی پاکٹ سے اس نےپیر نکال کر اس نے منہ کی جانب پھینکے۔
جو شفا اور اسکا آٹھ سال پرانا نکاح نامہ تھا۔۔یہ ثبوت ہے۔اور یاداشت پر زور ڈالو کافی خوشی سے تم سب نکاح میں شریک تھے۔اب اگر زیاد بکواس کی تو پولیس کو بلانے میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا۔
شفا میری یعنی حمزہ کی بیوی ہے۔”
ایسا اس نکاح میں واضح بتایا گیا ہے۔اور ثبوت چاہیے تو یاداشت پر زور ڈال لینا۔
دھمکی زدہ بھاری لہجہ شفا کو بھی دہلا گیا تھا۔مردوں کی اونچی آواز سے اس کی ویسے ہی اس کی جان جاتی تھی۔
اچھا ثبوت تو تم نے دے دیے”
شفابی بی سے بھی پوچھ لو وہ رخصتی چاہتی ہے یانہیں۔؟بڑی بھابھی ثنا کی زبان میں کھجلی ہوئی۔
وہ چاہے یا نہ چاہے لیکن وہ میرے ساتھ جاۓ گی۔اور آپ ہوتی کون ہیں ؟ مجھ سے یہ پوچھنے والی۔
میری بیوی اور میرامعاملہ ہے۔میں کسی کو حق نہیں دوں گا وہ فالتو بکواس کرتا پھرے۔
مقابل شخص نے بدتمیزی کی حد کی تھی۔شفا کی حالت تو گویا کاٹو تو بدن میں لہو کی مانند تھی۔”
یہ اس کا شوہر ناجانے کہاں سے نکل آیا تھا۔ان چند سالوں میں اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس کا کوئی نکاح بھی ہوا ہے۔
چلو شفا!! اس کا ہاتھ نرمی سے تھامتا وہ آگے بڑھا تھا کہ فاحد اور آحد دوبارہ سامنے کھڑے ہوۓ۔شفا کی گویا گھگی بندھی۔یقیناً اب اسے مار پڑنے والی تھی۔
اس کے کانپتے ہاتھوں کی لغزش حمزہ نے واضح محسوس کی تھی ۔
میرا راستہ چھوڑو۔ورنہ آج مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔حمزہ کی دھمکی اور بھاری آواز پر احد تو سٹپٹایا تھا لیکن فاحدڈٹ کر کھڑا رہا۔
مجھے پتہ تھا آپ لوگ ایسے نہیں مانو گے۔گارڈز اندر آؤ۔
اونچی آواز میں پکارتا وہ اپنے گارڈز کو اندر آنے کا اشارہ دے گیا۔
اوہ تو اب تم مقابلہ کرنے کے لیے ان کراۓ کے غنڈوں کا سہارا لوگے ۔”
فاحد کی طنزیہ آواز پر تمسخرانہ مسکراتا حمزہ شفا کا ہاتھ چھوڑ کر فاحد کی جانب آیا۔
پے در پے دو بھاری پنچ اس نے فاحد کے منہ پر دھرے تھے۔
ایک چیخ کے ساتھ شفا ماں کی جانب بھاگی تھی۔
اپنی بیوی کو کو یہاں سے لے جانے کے لیے میرا ہاتھ ہی کافی ہے۔امید کرتا ہوں دوبارہ بکواس نہیں کرو گے۔”
چلو شفا ماں کے پلو سے چپکنے سے پہلے ہی شفا کو تھامتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔
شفا لاکھ جھٹپٹائی لیکن اپنے گرفت مضبوط کیے وہاں سے لے کر نکلتا چلاگیا۔
بھابھی کے کوسنے اسے باہر جاتے وقت تک سنائی دیتے رہے تھے۔
❤❤❤❤❤❤❤
بڑی سی گاڑی کو حیران بھری نظروں سے دیکھتی وہ حمزہ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔
تت تم ککک کون ہو؟؟ یہ پہلا سوال تھا جو اس نے گاڑی میں بیٹھ کر کیا۔
گھر جا کر ہر سوال کا جواب ملے گا۔سپاٹ سا کہتا وہ گاڑی کی سپیڈ بڑھا گیا۔اس کے سختی سے جواب دینے پر شفا میں دوبارہ سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
گاڑی چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد ایک چھوٹے مگرخوبصورت سے گھر کے آگے رکی تھی۔
چلو آؤ۔ !! دوسری جانب سے اسے لے کر وہ اندر کی جانب آیا۔
مم مجھے نہیں جانا مجھے گھر جانا یے۔ناجانے یکدم اسے کیا ہوا تھا کہ وہ ڈرتی سی بولتی اس سے ہاتھ چھڑوانے لگی۔
حمزہ کو اس کی حرکت کچھ عجیب و غریب لگی تھی۔
کیا ہوا؟؟ یہ بھی تمہارا گھر ہے۔
نرمی سے بولتا وہ اسے دوبارہ لیے اندر کی جانب بڑھا لیکن وہ مسلسل اس سے ہاتھ چھڑوانے کے در پر تھی۔
حمزہ کو اس کے رویے سے کچھ کچھ تو اندازہ ہورہا تھا۔ کہ وہ کافی سٹریس میں ہے۔
بابا!! گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے اونچی آواز میں عاقل صاحب کو پکارا تھا۔
میں جانتا تھا تم بہو کو ضرور لے کر آؤ گے ۔
مسکراتے ہوۓ وہ شفاء کے نزدیک آۓ تھے جو ساری صورتحال سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
عاقل صاحب کے سر پر ہاتھ رکھنے پر وہ بے ساختہ حمزہ کے پہلو میں چھپی تھی۔
گھبراؤ نہیں!! میں آپ کے بابا جیسا ہی ہوں۔
جاؤ حمزہ !!”بچی کو کمرے میں لے جاؤ۔”
وہ سب معاملات سمجھتے تھے تبھی انہوں نے زیادہ شفا سے بات نہیں کی تھی۔
جی بابا سر اثبات میں ہلاتے وہ اسے لیے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤
وہ ابھی کمرے میں داخل ہی ہوا تھا جب شفا جو بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی جھٹ سے کھڑی ہوئی۔
کیا ہوا تم اٹھ کیوں گئ۔
مم میں بس ایسے ہی “تم سے کچھ پوچھوں۔
شفانےمزید ہمت کی تھی۔”
ہاں پوچھو۔؟؟
کیا تم سچ میں میرے شوہر ہو؟؟ مقابل کے سوال پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑی تھی۔
ہنس کیوں رہے ہو؟کیا میں نے غلط سوال پوچھا ہے۔؟
کانپتی سی لال جوڑے میں وہ چند قدم پیچھے کھسکی۔
“بس ایسے ہی دل کیا تو مسکرادیا۔”
کندھے اچکاتا اسے جواب دیتا وہ اس کے قریب ہوا۔
تو پھر جواب دو کہ تم سچ میں میرے شوہر ہو؟؟ مقابل۔کی بے یقینی نے اسے چونکایا تھا۔
ماتھے پر تفکر کے تاثرات نمایاں ہوۓ جسے شفا نے غصہ گردانا تھا۔
دیکھو مارنا مت، !!
مم اب کوئی سوال نہیں پوچھوں گی اور تم غصہ بھی مت کرو۔
پل بھر میں شفا کی کیفیت بدلی تھی۔اور وہ مزید پیچھے ہوتی اپنے گالوں پر ہاتھ رکھ گئ۔
کیوں میں کیوں ماروں گا تمہیں؟؟
اور یہ ہاتھ ہٹاؤ گال سے”اس کے دونوں ہاتھوں کو گال سے ہٹاتا وہ اسے اپنے قریب کرگیا۔
اپنے ہاتھوں پر اس کی گرفت محسوس کرتی وہ یکدم ٹھنڈی پڑی۔
کون مارتا ہے تمہیں؟؟ مقابل کا لہجہ سرد تھا۔
کک کوئی نہیں۔”
“دیکھو مت مارنا میں نے کہاناں میں اب سے کوئی سوال نہیں پوچھوں گی۔”
اس کی مار کی رٹ نے مقابل کو شدت سے احساس دلایا تھا،
کہ وہ اپنی خواہشات کے حصول میں اس کو دردندوں کے درمیان چھوڑ کر جاچکا تھا۔
“جو اسے نیم پاگل بناچکے ہیں۔”
اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کرتا وہ بنا کچھ بولے اسے سینے سے لگاگیا۔
رگوں میں خون کی گردش تیز ہوئی تھی۔اور ایک عہد دل میں کیا تھا کہ جتنا اس کی بیوی کو تڑپایا گیا تھا۔ اتنا ہی انہیں بھی تڑپاۓ گا۔
یکلخت وہ کسمساتی اس سے دور ہٹی تھی اور گہرے سانس لیتی رخ موڑ گئ۔
کیا ہوا شفاء میں دیکھ رہا ہوں تم بہت ڈری ہوئی ہو؟؟ سب ٹھیک ہے۔ ؟؟
اس کا رویہ اسے پل پل الجھا رہا تھا۔
کک کچھ نہیں۔”
اچھا تم ریسٹ کرو میں کچھ کھانے کے لیے لاتا ہوں پھر تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب دوں گا۔”
اس کی بے چینی نوٹ کرتا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
“توبہ کتنی چالاک لڑکی نکلی۔مجھے تو لگتا ہے یہ اس سے پہلے ہی رابطے میں تھی۔تبھی ایسے چپ چاپ چلی گئ۔”
کچن میں دونوں بھابیاں کھڑی شفا کو کوسنے میں مگن تھیں۔
بھابھی ویسے اس کا شوہر لگ تو اچھا خاصہ رہا تھا۔اس منحوس کی اتنی اچھی قسمت کہ اسے حمزہ جیسا لڑکا مل گیا۔
عبید بھی بتارہا تھا کافی بڑی گاڑی تھی جس میں وہ آیا تھا۔
فاحد کا تو منہ سوج گیا ہے۔کم بخت نے مارا بھی تو کافی زور سے ہے۔بڑی بھابھی کو فاحد کا سوجا چہرہ یاد آیا تھا جس پر انہوں نے مزید گل افشانی کی تھی۔
چند گھنٹوں میں ہی انہیں شفا کی کمی محسوس ہوگئ تھی۔شام کا کھانا بنانا اس وقت ان دونوں کو موت جیسا لگ رہا تھا۔
جمیلہ بیگم جو تخت پر بیٹھی تھیں۔ان دونوں کے کوسنوں کے بعد بھی طمانیت سے تسبیح کرنے میں مصروف تھیں۔کیونکہ جو بوجھ ان کے سر پر تھا وہ آج اتر چکا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
یہ لو!! چمچ میں چاول بھر کر اس نے شفا کی جانب بڑھایا۔
مم میں کھالوں گی۔تت تم۔یہاں رکھ دو۔شفا پیچھے کی جانب کھسکتی اس سے دور ہوئی۔حمزہ کو اس کا گریز اچھے سے سمجھ میں آرہا تھا۔
دیکھو ۔میں جانتا ہوں ابھی تمہارے لیے ان سب پر یقین کرنا مشکل ہے۔لیکن یہ یقین رکھو کو میری طرف سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اور ہاں میں تمہارا شوہر ہوں۔ہمارا آٹھ سال پہلے نکاح ہوا تھا شاید تمہیں یاد ہو۔
لیکن وہ خالی دماغ سے اسے دیکھتی رہی
حمزہ نے اس کی جانب دیکھ کر جیسے اس کے تاثرات جانچنا چاہے۔
اچھا تمہاری ایج کیا ہے۔؟؟ حمزہ نے مزید سوال کرکے اسے بولنے پر اکسایا ۔۔
مجھے نہیں پتہ۔!حمزہ کو شدید حیرت نے گھیرا تھا۔
کیا تھی وہ لڑکی اپنی عمر بھی نہیں جانتی تھی۔
میں بتاؤں تمہاری عمر چوبیس یا پچس سال ہوگی۔”
حمزہ کے جواب پر اس نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
تت تمہیں کیسے پتہ چلا؟؟
شفا کی حیرت یقینی تھی۔
کیونکہ جب ہمارا نکاح ہوا تھا میری عمر تئیس سال اور تمہاری سولہ سال تھی۔اس لیے مجھے یاد ہے۔
چلو باتیں ہم بعد میں کرتے ہیں پہلے تم کھانا کھالو۔”
چاول سے بھری چمچ اس نے پھر اس کےمنہ کی جانب بڑھائی جسے وہ اب کھاچکی تھی۔
حمزہ کو کم ازکم یہ تسلی ہوئی تھی کہ وہ جلد سمجھانے سے سمجھ جاتی ہے یہ پہلا قدم گویا اسے کامیابی کے دہانے پر لے کر جانے والا تھا۔
❣❤❤❤❤❤❤
بابا وہ تو کافی حد تک ذہنی مریضہ بن چکی ہے۔ایسا لگتا ہے سب نے اس پر کافی تشدد کیا ہے۔”
حمزہ کی بات پر وہ محض ہونہہ کر رہ گئے۔
بابا میں آپ کو کچھ بتا رہا ہوں۔حمزہ بے چارگی سے بولا۔
بیٹا اس میں غلطی کس کی ہے مجھے یہ بھی بتادو۔ان کے طنزیہ انداز پر وہ کچھ بول ہی نہیں سکا۔
اگر اس سب میں غلطی ہے تو سب تمہاری ہے۔
تم نے خود انہیں موقع دیا کہ وہ اس لڑکی کو فالتو شے سمجھ لیں۔
آٹھ سال حمزہ !!کوئی چھوٹا عرصہ نہیں ہے۔ان آٹھ سالوں میں اس نے ناجانے کیا کیا سہا ہے۔صرف اور صرف تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے۔”
تم دولت کمانے کی دھن میں اپنی سب سے بڑی ذمہ داری بھول گئے۔
میں اگر اب تمہیں مجبور نہ کرتا تو شاید تم اب بھی اسے نہ لاتے۔
صد شکر کہ جمیلہ خاتون نے میرے آگے فریاد کی۔ورنہ میں بھی لاعلمی میں رہتا۔
جانتے ہو کتنا صبر کتنی تکالیف اس نے برداشت کی۔میری تنہائی کو تو تم ایک طرف رکھو۔
پر ایک بار اس بچی کی تکلیف کو محسوس کرو۔اب ان تمام تکالیف سے نکالنا تمہارا کام ہے۔تھوڑا مشکل تو ہے پر ناممکن نہیں۔
ہمت مت ہارو۔اس دنیا سے ملواؤ۔اسے بتاؤ کہ آزادی کیا چیز ہوتی۔شوہر کا ساتھ کتنا اہم ہوتا ہے۔
ان سب کے مطلب اب تم ہی اسے بتاسکتے ہو۔
بس کوشش جاری رکھو۔
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے اسے حوصلہ دیتے کہا تھا۔
جی بابا۔شفا کو زندگی کی طرف میں ہی لاؤں گا۔
بابا کی باتوں سے اسے اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس ہوئی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial