تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 3

“کوئی کام ہیں تو بتادیں میں کردوں گی۔”
اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ جھٹ سے بولی۔وہ اب تک ویسے ہی حلیے میں تھی جیسے وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا۔
کام مگر کیوں؟؟حمزہ نے اچھنبے سے پوچھا۔
کام کے لیے ہی تو لاۓ ہوناں مجھے؟؟
شفا کے جواب پر اسے مزید حیرت ہوئی۔
نہیں تم اب اسی گھر میں رہو گی۔اور کام کو فلحال بھول جاؤ۔
اور تم نے یہ سب کیوں نہیں اتارا۔؟؟اسکی نازک گردن پر کندن کا سیٹ اب بھی موجود تھا۔باقی چیزیں بھی جوں کی توں موجود تھی۔
تم نے کہا نہیں اتارنے کو اس لیے میں نے نہیں اتارا۔اور میں اپنے گھر کب جاؤں گی؟؟
کیوں تم اپنے گھر کیوں جانا چاہ رہی ہو۔؟؟
اس کے سوال پر ابرواچکاتا وہ اس کے قریب ہوا۔شفا نے پھر پہلو تہی کی۔
کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں کہ میں تمہارا شوہر ہوں۔؟؟
اس کے جانے کی بات پر اس نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا۔
نن نہیں امی نے کہا تھا تم میرے شوہر ہوں تو تم ہی ہوسکتے ہو۔
شفا۔ایک بات کہوں۔؟؟ اس کے ہاتھ کو تھام کر دھیرے سے اس کی نگاہوں سے نگاہیں چار کرتا وہ بولا تھا۔
ہاں کہو؟؟
دیکھو میں تمہارا شوہر ہوں۔تم مجھے آپ کہو گی تو مجھے بھی اچھا لگے گا اور بابا کو بھی عجیب نہیں لگے گا۔تم، تو لفظ تم جیسی لڑکی کی زبان سے اچھے نہیں لگتے۔”
تم بھی تو مجھے تم کہہ رہے ہو؟ پھر میں کیوں نہ کہوں۔
شفا کے سوال پر اس نے بے ساختہ مسکراہٹ روکی۔
“اچھا اب میں تمہیں آپ کہوں گا۔ٹھیک ہے۔آپ نے بھی مجھے آپ کہنا ہے۔”
میاں بیوی کے رشتے میں عزت سب سے پہلے آتی ہے۔یہی سمجھ لو۔ہاتھ پر انگوٹھے سے لمس بکھیرتا وہ شفا کی بات مان کر اپنی بھی منوا گیا۔
صبح تم اپنے گھر جاؤ گی لیکن میرے ساتھ ہی واپس آؤ گی ٹھیک ہے۔”
اور یہ اتار دو دیکھو گردن پر نشان پڑ رہا ہے۔آگے بڑھ کر اس نے شفا کی گردن سے نیکلس کی ڈوری ڈھیلی کی۔اور نیکلس گلے سے اتار کر سائیڈ پر رکھا۔
سرخ ہوتی گردن کو بے ساختہ اس نے انگلیوں سے سہلایا تھا کہ شفا چیخ کے ساتھ اسے دھکا دے کر دور ہوئی اور زور سے اپنی گردن مسلی۔
شفا؟؟ وٹ ہیپنڈ؟؟ کیا ہوا۔میں ہوں آپ کا شوہر ایسے کیوں چیخ رہی ہو؟یکدم تو وہ بھی چونکا تھا۔
نن نہیں مم مجھے چھونا نہیں دور۔۔دور ہٹو۔”
اوکے میں دور ہوں۔لیکن آپ ریلکس ہوجاؤ،اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اس ریلکس ہونے کا اشارہ دیا اور خود چند قدم دور ہوا۔
اچھا وہ الماری کھولو اس میں تمہارے کپڑے ہیں تم چینج کرو میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔”
حمزہ نے وہاں سے جانا ہی ضروری سمجھا تھا۔
کانپتی سے وہ سر اثبات میں ہلا گئ۔اس کو اثبات میں سرہلاتے دیکھ کر وہ باہر کی جانب بڑھا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤
حمزہ کا نکاح اس سے سولہ سال کی عمر میں تب ہوا تھا جب اسے شادی کا مطلب بھی اچھے سے نہیں پتہ تھا۔بہنوں کے ساتھ غریبی سے بھری زندگی کو وہ اتنا جان پائی تھی کہ یہ گھر ہی اور اس کی چار دیواری ہی اس کی ساری دنیا ہے۔سب میں چھوٹی تھی ہر معاملے میں چھوٹی چھوٹی کہہ کر دور رکھا جاتا تھا۔اور شاید وہ ذہنی طور پر بھی چھوٹی رہ گئی تھی۔
وہ عفیفہ کے چچاسسر کا بیٹا تھا۔
عفیفہ کی بارات میں ہی انہوں نے اپنے تئیس سالہ بیٹے کے لیے پسند کیا تھا۔جو ایم اے کے پیپر دینے والا تھا اس شادی میں شفا کو پسند کر بیٹھا تھا۔
گھر میں ان دو باپ بیٹوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ماں کی تین سال پہلے دیتھ ہوچکی تھی۔
بابا سے اس نے خود ہی نکاح کا کہا تھا۔لیکن ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ وہ کچھ بن کر ہی اس کے اٹھارہ سال کے ہوتے ہی رخصتی کرواۓ گا۔
یوں عفیفہ کے ولیمے پر اس کا چھوٹا سا نکاح کا فنکشن ہوا تھا۔بہن کے ولیمے پر لہنگا پہنے وہ جو ادھر ادھر گھوم رہی تھی ڈوپٹہ پہنا کر اسے کرسی پر بٹھا کر چند گواہوں کی موجودگی میں نکاح کروایا تھا۔
شفا کو اس نے ایک دو نظر دیکھا تھا۔وہ قدرے دبو سی لڑکی اسے اچھی لگی تھی۔
یوں نکاح ہوتے ہی وہ اپنی پڑھائی میں مگن ہوگیا۔پھر ایک دوست کی توسط سے وہ دبئ کے لیے اپلاۓ کرگیا۔
جہاں پیزا ڈلیوری بواۓ سے اس نے اپنی کامیابی کا آغاز کیا۔
ان آٹھ سالوں میں وہ دن رات کی محنت سے دنیا کے ساتھ تو آگے بڑھ گیا تھا لیکن اپنی محبت کو مکمل طور پر بھول گیا۔
محبت بھی کچی عمر کی جسے بھولنے پر پل بھی نہ لگیں۔
شفا مراد کی زندگی میں تو میٹرک کے بعد گھر بیٹھنا ہی لکھا تھا۔
عتیقہ کی شادی ہوئی بس پھر زندگی میں مشکلات شروع ہوتی چلی گئ۔
بھابیوں نےدھیرے دھیرے اس پر کام کا بوجھ ڈالنا شروع کردیا۔
باپ کی موت کےبعد تو سب کو گویا کھلم کھلا اس کی ذات روندنے کا موقع مل گیا تھا۔
یو ں شفا مراد کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس کی زندگی میں نکاح جیسا لمحہ بھی آیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤
کچھ تو غلط ہے۔شفا کے ساتھ کچھ تو غلط ہوا ہے۔شاید وہ مجھے بتانا نہیں چاہتی یا پھر ابھی مجھ سے تکلف برت رہی ہے۔اس لیے سہمی ہوئی ہے۔
لیکن یہ مسلہ ایسے تو حل نہیں ہوگا۔مجھے شفا کو جلد از جلد اپنے اعتماد میں لینا ہوگا۔
چاۓ کے کپ کے گھونٹ بھرتا وہ پرسوچ سا شفا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
کمزور سی وہ لڑکی آج بھی اپنی جانب اسے پوری طرح متوجہ کرچکی تھی۔
برسوں پہلی محبت آج پھر سراٹھا کر سامنے کھڑی ہوئی تھی۔
اپنی لاپرواہی پر اسے پچھتاوا بھی تھا۔تبھی آج شفا یہاں موجود تھی۔
لانا تو وہ اسے بہت پہلاچاہتاتھا لیکن پہلے وہ حالات سازگار کرنا چاہ رہا تھا۔
دو سال پہلے وہ دبئ سے واپس آیا تھا اور آتے ہی اس نے بابا کے نام جو ایک زمین تھی اسے بیچ کر اور کچھ اپنی چھ سالہ محنت کی جمع پونجی سے اپنا ڈریم پروجیکٹ یعنی اپنے ریسٹورنٹ پر کام شروع کیا تھا۔
ان دو سال میں اس نے “پیزا پوائنٹ “کی دوسری برانچ پر بھی کام شروع کیا تھا۔
اس کی لگن سچی تھی تبھی اللہ پاک کی کرم نوازی سے آج وہ دو ریسٹورنٹس کا مالک تھا۔
اپنی آٹھ سالہ جمع پونجی وہ ان دو ریسٹورنٹس پر لگا چکا تھا۔
وہ شفا کو ایک مضبوط چھت دینا چاہتا تھا۔اس لیےاب تک وہ اس سے لاپرواہی برتتا آیا تھا۔لیکن یہ لاپرواہی اس کے لیے وبالِ جان بنے گی اس بات کا اسے قطعی اندازہ نہیں تھا۔
کافی دیر گزر چکی ہے شاید شفا نے چینج کرلیا ہو۔
کپ ہاتھ میں پکڑ کروہ نیچے کی جانب آیا تھا۔جب اسے اپنے کمرے میں سے شفا کی مدھم آواز آئی تھی۔
جیسے وہ کسی سے باتیں کررہی ہو۔”
دھیمی آہٹ سے دروازہ کھولتا وہ اندر آیا ۔
سیاہ شلوار کے ساتھ سفید قمیض پہنے وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود سے باتیں کررہی تھی۔
حمزہ کو شدید حیرت نے گھیراتھا۔
شفا کس سے باتیں کررہی ہو؟؟”یکدم چونکتی وہ آئینے کے سامنے سے ہٹی۔
کک کسی سے نہیں ۔میں تو بس خود کو دیکھ رہی تھی۔
حمزہ نے مزید کریدنا مناسب نہیں سمجھا ۔
وہ چپ کرکے بیڈ پر دراز ہوا تھا۔
مجھے کہاں سونا ہے یہاں تو کوئی چارپائی بھی نہیں ہے۔؟؟
شفا کی آواز پر وہ کروٹ کے بل اس کی جانب رخ کرگیا۔
یہاں بیڈ پر میرے پاس ” اتنا بڑا بیڈ ہے ہم دونوں آرام سے سوسکتے ہیں۔
نن نہیں مجھے تو چارپائی پر سونے کی عادت ہے۔میں وہی سوتی ہوں۔
اب سے آپ اپنی سب عادتیں بدلنی ہیں۔آپ کو میرے رنگ میں رنگنا ہے شفا !!
زومعنی بات کہتا وہ بیڈ کے کنارے پر ہاتھ رکھ کر اسے وہاں سونے کا اشارہ کرگیا۔
بنا کچھ بولے وہ بیڈ کے کنارے پر سمٹ کر دراز ہوئی۔
حمزہ کے کمفرٹ اڑھانے پر وہ بے ساختہ مڑی تھی لیکن وہ کمفرٹ اوڑھا کر کروٹ بدل گیا تھا۔
شفا بھی قدرے پرسکون ہوتی جلد ہی نیند کی وادیوں میں اتری تھی۔
💞💞💞💞💞
بھابھی مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے یہ کیسے جاسکتی ہے ؟؟ اور وہ شخص جو بھی تھا آیا تو آیا کیسے ؟؟
مطلب کسی نے تو اسے بلایا تھا۔”
ثنا اور ایمن ابھی رازونیاز میں ہی مصروف تھی کہ باہر سے ثانیہ کے چلانے کی آواز پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی باہر کی جانب بڑھیں۔
اماں آپ نے اسے جانے کیسے دیا۔؟؟ریاض اتنا غصہ ہورہے ہیں ۔
انہوں نے تو شفا کے لیے رشتہ بھی دیکھ لیا تھا۔حمزہ سے اس کی طلاق کروا کر کسی اچھی جگہ شادی کرنی تھی ۔اس غریب کے پاس ایسا کیا تھا جو آپ نے رات و رات اسے رخصت کردیا۔
ارے ثانیہ یہ پوچھو اس کے پاس کیا نہیں تھا۔
یہ بڑی گاڑی اور گارڈ بھی تھے۔وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔
بڑے ٹھاٹ سے آیا تھا۔اور شفا کو نئے جوڑے میں رخصت کرکے لے کر گیا ہے۔
ایمن بھابھی کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی۔اور ساری تفصیل وہ اس کے گوش گزار گئ۔
یکدم ثانیہ کے چہرے پر ناگواری آئی تھی۔
اماں یہ کہیں تمہارا کام تو نہیں۔؟؟ جمیلہ بیگم کو مشکوک نظروں سے دیکھتی وہ ان کی جانب مڑی تھی۔
مجھ جیسی بڑھیا میں اتنا دم خم نہیں کہ اپنی بیٹی کے لیے لڑتی پھروں۔شاید میرے اللہ کو اس پر رحم آگیا تھا جو اسے نئ زندگی دے دی۔شاید کچھ دن بعد اس کی لاش ہی ملتی۔
ارے اس کا قصور کیا تھا جو ہر کوئی اس پر ہاتھ صاف کردیتا۔کیوں مارتے تھے تم اسے۔کوئی ایک وجہ بتادو۔
کیا وہ زبان دراز تھی کیا وہ بد اخلاق تھی۔سب کا کام دوڑ دوڑ کرکرتی تھی۔لیکن تم سب کو ناجانے اس سے کیا خدا واسطے کو بیر تھا۔
بے حس ہوتم سب میری بیٹی کی خوشی ہضم نہیں ہورہی ۔اور ثانیہ اب اگر وہ اپنے گھر چلی گئی تو تجھے بھی جلن ہورہی ہے رشتے یاد آرہے ہیں جب میں فریاد کرتی رہی شور کرتی تھی تب تو یاد نہیں آتا تھا ہر بار خاموش کرواتی تھی تو ہی تھی ناں مجھ چپ کروانے والی۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ گئی ہے کسی کے ساتھ بھاگی نہیں ہے جو تم لوگ ایسے شور مچارہے ہو۔معاف کرو اسے اور اپنی اپنی زندگی پر توجہ دو۔
جمیلہ بیگم نے شاید آج سالوں کی کھولن تینوں پر انڈیلی تھی
اماں جس کی اتنی حمایت کررہی ہے۔ناں مت بھول کہ کل کووہ لڑکا اس جیسی پاگل کو چھوڑنے میں ایک منٹ نہیں لگاۓ گا۔پھر وہ ادھر ہی آۓ گی اور تب مت کہنا ثانیہ میری بیٹی کے لیے کچھ کردے۔
سفاکیت کی انتہا گویا ثانیہ پر ختم تھی۔
تیرے منہ میں خاک اگر اچھا نہیں بول سکتی تو برا بھی نہ بول۔”
بخش دے اسے مت بھول کہ تیرے بچوں کو اس نے ماں بن کر پالا ہے۔”خیر تم سب سے زبان درازی کرکے میں اپنے لفظ ضائع کروں گی اسسے اچھا ہے میں دولفظ اس رب کے لیے پڑھ لوں۔”
ثانیہ کو منہ توڑ جواب دیتی وہ کمرے کی جانب بڑھ گئی تھیں۔
پیچھے وہ تینوں پیچ و تاب کھاتی رہ گئیں۔
❤❤❤❤❤❤
کروٹ لیتے ہی اس کا ہاتھ دوسری جانب گیا۔بیڈ کی خالی جگہ دیکھتا وہ جھٹ سے آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا ۔گھڑی پر وقت دیکھا تو سات بج رہے تھے۔اتنی صبح شفا کہاں جاسکتی ہے؟؟دل میں ناجانے کیوں وہم جاگے تھے۔
بڑبڑاتا سا وہ واش روم کی جانب آیا لیکن وہ بھی خالی اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
وہ تیزی سے باہر کی جانب بڑھا۔
شفا!! اونچی آواز میں پکارتا وہ لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر آیا۔اور یہاں اس کے قدم تھمے تھے۔
شفا یہ کیا کررہی ہو۔اور اتنی صبح؟؟ کیا پاگل ہوگئ ہو۔
اس گیراج دھوتے دیکھ کر وہ تیزی سے اس کے ہاتھ سے جھاڑو لیتا دور اچھال گیا۔
آر یو میڈ؟؟ اتنی صبح کون ایسے کام کرتا ہے اور اپنے کپڑے دیکھو گیلے ہورہے ہیں۔؟؟ کچھ ہوش ہے آپ کو؟؟ٹھنڈ بھی لگ سکتی ہے
اس کو بازو سے پکڑ کر وہ ربرو کیے سختی سے بولتا شفا کو دہلا گیا۔
شفا نے بے ساختہ منہ بازو میں چھپایا۔جیسے اس کی مار سے بچنا چاہا ہو۔
شفا ؟؟ کیا ہوا؟؟ منہ کیوں چھپارہی ہو۔؟ وہ اس کی حرکت پر مزید جھنجھلاتا سختی سے بولا۔
مم مارنا نہیں!! تمہارا ہاتھ بہت بھاری ہے۔فاحد بھائی جیسا ہے اوراس جیسا بھی ہے۔
نن نہیں میں نہیں بتاؤں گی۔اپنا ہاتھ وہ لبوں پر رکھ کر سختی سے دبا گئ۔
شفا !! میری طرف دیکھو۔اس کی بازو کو چھوڑتا وہ یکلخت اسے قریب کرتا اس کے منہ سے ہاتھ ہٹانے لگا۔
جسے شفا نے سختی سے اپنے منہ پر رکھا تھا۔”
نہیں ماروں گا۔!!پرامس کبھی نہیں ماروں گا۔میری طرف دیکھو۔اس کا ہاتھ ہٹا کر وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھر گیا۔
کانپتی سے وہ اسے دیکھتی رہ گئ۔
آؤ اندر چلتے ہیں یہاں سے آواز باہر جاۓ گی۔چلو۔ !!
اس کے کندھے کے گرد بازو حمائل کیے وہ اسے اندر کمرے میں لایا اور بیڈ پر بٹھایا تھا۔”
دیکھو شفا آپ ابھی دلہن ہو” دلہن “یعنی ابھی آپ کو کوئی کام نہیں کرنا بس آرام کرنا ہے اس گھر میں گھومنا یے۔اس گھر کو دیکھو۔بس کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانا۔
دیکھو کام والی ماسی آتی ہیں وہ سارا کام کرتی ہیں۔
ٹھیک ہے۔
جواباً اس نے اثبات میں سرہلاکر اس کی بات کی تائید کی تھی۔
گڈ!!! اب آپ یہ گیلے کپڑے چینج کرو ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔
یہ گرمی کا موسم ہے۔ٹھنڈ کیسے لگ سکتی ہے؟؟ شفا نے ہلکا سامسکرا کر حمزہ کی جانب دیکھا۔
پہلی مرتبہ وہ مسکرائی تھی اور حمزہ کو لگا جیسے اس کی مسکراہٹ میں ایک مقناطیسی سی طاقت ہے جو اسے۔شفا کی جانب کھینچ رہی ہے۔
کیا ہوا؟؟ شفا نے اسے سن سا بیٹھادیکھ کر سامنے ہاتھ ہلایا۔
کچھ نہیں !!آپ چینج کرو۔مجھے ابھی مزید سونا ہے اور ہاں آپ نے اب کمرے سے باہر نہیں نکلنا۔
اس کی تنبیہ پر شفا نے بے بسی سے اس کی جانب دیکھا۔
اب کیا ہوا؟؟
اس کی نظروں کا مفہوم وہ اچھے سے سمجھا تھا۔جیسے وہ اسے کچھ کہنا چا رہی ہو۔
وہ۔۔مم مجھے بھوک لگ رہی ہے۔”
دھیما سا بڑبڑا کر وہ نظر جھکا گئ۔تو اس میں اتنا گھبرانے والی کیابات ہے؟؟ آؤ ناشتہ بناتے ہیں بلکہ بابا بھی جلد ناشتہ کرنے کے عادی ہیں۔
آپ چلیں میں یہ کپڑے بدل کر آتی ہوں۔شفا کہتے ہی اٹھ کر وارڈروب کی جانب آئی تھی۔
جہاں اس کے کپڑے ایک ترتیب سے موجود تھے۔
سنیں!! بے ساختہ وہ اسے پکار گئ۔”
جی ؟؟حمزہ بیڈ سے اٹھ کر اس کی جانب آیا۔
یہ سارے کپڑے میرے ہیں۔؟؟ وارڈروب میں سجے خوبصورت سادہ اور پرکشش سے لباس کو ہاتھ سے چھو کر وہ استفسار کرگئ۔
بلکل سب تمہارے ہیں۔یہ میں نے خاص تمہارے لیے خریدے ہیں۔اور تم بلاجھجک جو چاہو استعمال کرو۔”
اس کےقریب کھڑے ہوکر وہ ایک گلابی امتزاج کا فراک اس کی جانب بڑھا گیا۔اور یہ سب جیولری میک اپ سب تمہارا ہے۔ڈریسر پر موجود باکس کی جانب اشارہ کرے اس نے باقی لوازمات کے بارے میں بھی اسے اگاہ کیا تھا۔
یہ پہنو۔!!پھر ہم ناشتہ بناتے ہیں۔فراک اسے تھماتا وہ خود کچن کی جانب بڑھا تھا۔
شفا بھی سر اثبات میں ہلاتی واش روم کی جانب بڑھی تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
نم گیلے بال کمر پر بکھرا کر وہ ڈوپٹہ اوڑھے کمرے سے باہر نکل کر لاؤنج میں آئی۔
حمزہ؟؟ اس کوپکارتی وہ دروازکے قریب ہی رکی ۔
شفا یہاں آجاؤ۔دائیں جانب سے آواز سنتی وہ کچن کی جانب آئی۔جہاں حمزہ ایپرن باندھے ۔انڈا پھینٹ رہا تھا۔
مم میں بناتی ہوں آپ نہیں بناؤ۔شفانے تیزی سے آگے آکر اس کے ہاتھ سے باؤل لیا۔
نہیں میں بنالوں گا۔تم بس مجھے دیکھو۔”سرگوشیانہ سا انداز سنتی شفا ہونق بنی اسے دیکھتی رہ گئ۔
حمزہ کی نظر بھی بھٹکی تھی۔اور اس کے گندمی سے نم چہرے پر ٹکی تھی۔
تم مجھے ناشتہ نہیں بنانے دو گی،؟؟سراثبات نفی میں ہلاتا وہ شفا کو مزید ہونق زدہ کرگیا۔۔
مم میں تو کچھ بھی نہیں کررہی پھر آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں۔؟؟
شفا کی الجھی سی بات پر وہ گہرا مسکراتا انڈے کا آمیزہ پین میں پھیلا گیا۔
کچھ نہیں ۔!! ادھر جگ سے پانی لاکر ساس پین میں ڈالو۔
اسے ہدایت دیتا وہ انڈے کی جانب متوجہ ہوا۔
پر ابھی تو آپ نے کہا تھا کہ کچھ مت کرو مجھے دیکھو؟؟
شفا نے اس کی کچھ دیر پہلے والی بات دہرائی۔
اب میں ہی کہہ رہا ہوں۔پانی کا جگ لے کر آؤ۔ میں آپ کے ہاتھ کی چاۓ پینا چاہتاہوں۔
حمزہ کے جواب پر وہ سرہلاتی جگ لینے بڑھی تھی۔
کچھ ہی دیر میں وہ ناشتہ ہال میں موجود چھوٹے سے ڈائننگ ٹیبل پر سجاچکی تھی۔
عاقل صاحب کو ان دونوں کوجاگتا دیکھ کر خوشگوار سی حیرت نے گھیرا تھا۔
ارے آج تو میرے گھر میں رونق اتر آئی ہے۔ماشاءاللہ میری بیٹی نے ناشتہ بنایا ہے۔اور یہ کیا آتے ہی کام شروع کروادیا؟؟
بابا آپ کی بیٹی نے صرف چاۓ اور میں نے یہ ناشتہ اور سینڈوچ بناۓ ہیں۔
ٹیبل پر سجے سینڈوچ کی جانب اشارہ کرتا وہ فرضی کالر جھاڑتا عاقل صاحب کے لبوں پر مسکراہٹ لایا۔
ظاہر ہے پیزا بواۓ ہو۔سینڈوچ بنانا تو آپ کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
شرارت کے سنگ کہتے وہ حمزہ کے لبوں پر مسکراہٹ لاۓ تھے۔
تینوں نے خوشگوار ماحول میں بھرپور ناشتہ کیا تھا۔
❤❤❤❤
“مم میں کیسے جاؤں اندر؟؟ میں کیا کہوں گی۔؟؟آپ مجھے میرے گھر چھوڑدو۔سب انتظار کررہے ہیں۔
“گھبرائی سی وہ سامنے لگے بورڈ کو دیکھتی بولی تھی۔
گھبراؤ نہیں میں آپ ٹھیک دو یا تین گھنٹے بعد پک کروں گا۔
پھر یہاں سے سیدھا آپ کے گھر جائیں گے۔
کچھ لوگوں کو ان کی اوقات دکھانی ہے۔آخری بات اس نے بڑبڑائی تھی۔
جاؤ۔!! گھبرانا نہیں ہے۔میری بات ہوچکی ہے وہ آپ کچھ نہیں کہیں گی بس اپنا کام کریں گی۔جاؤ شاباش اس کا گال تھپتپاتا وہ گاڑی کا دروازہ کھول گیا۔
ڈرتے ڈرتے اس نے قدم نیچے رکھے اور سیلون کا دروازہ کھولتی اندر کی جانب بڑھی۔
دوپہر ہوچکی تھی اور وہ اسے سیلون لایا تھا۔تاکہ اپنے گھر اگر وہ جاۓ تو پورے ٹھاٹ سے جاۓ۔جن لوگوں نے اس کے ساتھ زیادتیاں کی تھی۔
ان کو منہ توڑ تھپڑ مارنا حمزہ کے لیے ضروری ہوچکا تھا۔
گاڑی کا رخ موڑ کر وہ ریسٹورنٹ کی جانب بڑھا تھا جہاں دوسری نیو برانچ میں تعمیراتی کام جاری تھا۔
❤❤❤❤❤❤
واؤ!! حمزہ کی آنکھیں بے ساختہ شفا پر ٹکیں۔جو سہج سہج کر قدم اٹھاتی گاڑی کی جانب ہی آرہی تھی۔نازک سے سراپے پر سجی ڈیپ ریڈ لونگ فراک اس پر لیا گولڈن ڈوپٹہ ایک کاندھے پر سیٹ تھا۔
ڈارک براؤن سٹریٹ بالوں نے مزید خوبصورتی کو بڑھایا تھا۔
گاڑی میں بیٹھتی وہ جھجکی تھی۔یہ سب بہت عجیب ہے۔
کیوں عجیب ہے؟ بہت پیاری لگ رہی ہو۔بلکہ بہت ہی پیاری لگ رہی ہو ۔اپنی تعریف سنتی وہ بے ساختہ سٹپٹائی اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔
اب ہم کہاں جائیں گے؟؟ شفا نے فوراً بات کا رخ بدلا۔
اب ہم وہاں جائیں گے جہاں جانے کی آپ کل سے ضد کررہی تھی۔
بے ساختہ شفا کا چہر ڈر سے سفید پڑا۔
ڈرو نہیں !! اب میں تمہارے ساتھ ہوں کوئی تمہیں میلی آنکھ سے بھی دیکھے گا تو میں اس کی آنکھیں نکالنے میں پل نہیں لگاؤں گا۔
اس کی دوٹوک بات پر شفا چپ سادھ کر بیٹھی تھی۔
سالے صاحب بی ریڈی!! آرہا ہوں میں۔،چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاۓ وہ گاڑی کا رخ شفا کے گھر کی جانب موڑا تھا۔
❣❣❣❣❣❣❣
اففف میری تو کمر دکھ گئی؛ یہ شفا کمینی میں تو لگتا سیل فٹ تھے ۔کیسے بھاگ بھاگ کر کام کرتی تھی کلموہی کی زبان پر ایک شکوہ بھی نہیں ہوتا تھا۔”
برتن دھوتی ایمن ساتھ ساتھ “شفا “کو کوسنے کا کام بھی جاری رکھ رہی تھی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد ہی اتنے برتن اکٹھے ہوچکے تھے کہ شام ہوتے ہی اسے دھونے پڑے ۔
جمیلہ بیگم نے خلاف توقع خود اپنے لیے ناشتہ بنایا اور دوپہر کے کھانے میں بھی انہوں نے اپنی روٹی خود بنائی تھی۔اور تب سے کمرے میں بند تھیں۔
یہی چیز ایمن کو تکلیف میں مبتلا کررہی تھی کہ بیٹی کے جاتے ہی انہوں نے کیسا پینترا بدلا۔
شفا آجا!! بے بسی سے برتن پٹک کر انہوں نے شفا کو پکارا تھا کہ باہر بیل کی آواز پر وہ بے ساختہ چونکی۔
عبید دروازہ کھولو جاکر۔بڑی بھابھی کے بیٹے کو پکارتی وہ دروازہ کھولنے کا حکم دے گئ۔
ہاتھ دھو کر وہ بھی باہر نکلی کہ آنے والے کو دیکھ سکیں۔اور سامنے شفا کو شہزادی سے کے روپ میں دیکھ کر ان کا منہ حیرت سے کھلا۔
بڑی بھابھی بھی باہر آتی ٹھٹکی تھیں۔
مہرون لونگ فراک پر بنارسی گولڈم ڈوپٹہ ایک کندھے پر ڈالے کانوں میں بالیاں بالوں کو گہرے براؤن رنگ میں سیدھا کیے ایک کندھے پر ڈالا تھا۔پیروں میں ہائی ہیلز پہنیں وہ چمکتی جلد کے ساتھ سب کے منہ حیرت سے کھول گئ۔اس کے ساتھ ہی سیاہ شلوارسوٹ میں حمزہ اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ موجود تھا۔
کیا آپ کےگھر مہمانوں کو بٹھانے اور پانی پلانے کارواج نہیں ہے۔؟؟بڑی بھابھی کو دیکھتا وہ طنزیہ سا بولا تھا۔
شفا نے بے ساختہ حمزہ کی جانب دیکھا۔وہ تو ایسے یہاں آنے پر تیار نہیں تھی۔لیکن حمزہ بہلا پھسلا کے اسے یہاں لے آیا تھا۔
پانی کا کہاہے کچھ کھانے کا آرڈر نہیں دیا۔”حمزہ نے مزید گوہر افشانی کی۔
اس کی چھائی شخصیت سے مرعوب ہوتی بڑی بھابھی کچن کی جانب بڑھی تھیں۔اور حمزہ اور شفا لاؤنج میں رکھے صوفے پر براجمان ہوۓ تھے۔
یہ سب عجیب ہے ۔دیکھو تم چند دن میرے ساتھ رہو گے پھر تم بھی چلے جاؤ گے۔ایسا مت کرو بھابھی کا رویہ میرے ساتھ مزید غلط ہوجاۓ گا۔”
ان دونوں کے منظر عام سے ہٹتے ہی وہ لاچاری سے بولتی اس کی جانب مڑی۔
تمہیں کیوں لگتاہے میں تمہیں چھوڑ جاؤں گا؟؟ ابرو اچکاۓ وہ اس سے سوال کرگیا۔
سب ایسےہی تو کرتے ہیں۔مطلب ختم ہوتے ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔بے ساختہ اسے سبحان یاد آیا تھا۔
اور آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔
اس کا جواب میں گھر جاکر دوں گا۔کہ کون چھوڑتا ہے کون نہیں۔”
اس وقت بس یہ یاد رکھو تم میرے ساتھ ہو کوئی تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگاسکتا ۔اس لیے ڈرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔
اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتا وہ نرم لہجے سے بولتا اس کی ہمت بندھا گیا۔
جواباً شفا کچھ نہیں بولی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial