قسط 5
یہ کارڈ؟؟ ایک اور جھٹکا گویا حمزہ کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔
بڑی بھابھی کا منہ حیرت سے کھلا۔چہرہ کالا تو ثانیہ کا بھی ہوا تھا۔
وہ سنہری رنگ کا خوبصورت کارڈ تھا ہی اتنا شاندار کہ سب کے منہ حیرت سے ضرور کھلنے تھے۔
اگر کارڈ اتنا خوبصورت ہے تو تقریب کیسی ہوگی۔؟؟ایمن کے دماغ میں سب سے پہلے کھچڑی پکی تھی۔
ہاۓ شفا تیری قسمت!! ثانیہ نے تو گویا شفا کے نام کو دانتوں میں پیسا تھا۔
دل تھا کہ جل جل کر کالا ہورہا تھا۔”
تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا لیکن بولی کچھ نہیں تھیں۔
جمیلہ خاتون کارڈ دیکھتی بے ساختہ مسکرائی ۔جس پر شفا کا خوبصورت نام کنندہ تھا۔”
اسی اتوار کو ولیمہ ہے۔اور ہماری تو کوئی تیاری بھی نہیں ہے۔درمیان میں دو دن باقی ہیں اور اس نے ابھی کارڈ بھیجا ہے۔ایسا لگ رہا ہے جیسے بڑی مشکل سے بلایا یے۔
اماں میں بتارہی ہوں اس شفا کے بہت پر پرزے نکل آئیں ہیں۔دیکھو تو سہی کارڈ بھی دو دن پہلے بھیجا۔
ریاض کو میں کیا جواب دوں گی وہ تو کبھی نہیں جائیں گے۔ہاۓ پھر تو میں بھی نہیں جا پاؤں گی۔”
ثانیہ نے تخت پر بیٹھ کر گویا ماتھا پیٹا تھا۔تو نہ جا اس نے زبردستی تیری منت تو کی نہیں ہے۔شکر کرو کارڈ بھیج دیا۔ورنہ میرا تو دل چاہ رہا وہ تمہیں اپنے ولیمے کی تصویریں بھیجتی تاکہ تمہارے دل سڑ سڑ کر سیاہ ہوتے۔
جمیلہ نے بھی گویا طنز کے تیروں کی برسات کی تھی۔
اماں مجھے لگتا ہے اب مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے۔
جیسے تم کھری کھری سناتی ہو۔میرا دل کرتا ہے یہاں آؤں ہی ناں لیکن تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا کر چلی آتی ہوں۔لیکن تمہیں بھی قدر نہیں
“دونوں بھابھیوں نے تو دل سے چاہا تھا کہ وہ یہاں نہ ہی پھٹکے۔پر کہہ کر ثانیہ جیسی چڑیل کو اپنے پیچھے نہیں پڑوا سکتی تھی ۔”
بیٹا نہ آیا کر میں خود ملنے آجایا کروں گی۔جمیلہ خاتون بھی حساب برابر کرتی اندر کی جانب بڑھ گئ۔
ثانیہ کا منہ حیرت سے کھلا تھا۔اور دونوں بھابھیوں نے تو گویا اپنی ہنسی چھپائی تھیں۔







ڈل گولڈن لونگ باربی سٹائل میکسی پر بھاری جوڑا اور انٹیک کی خوبصورت جیولری میں سجی شفا نے گویا یکدم حمزہ کا ایمان ڈگمگایا تھا۔مزید کسر اس کے چہرے پر سجے میک اپ نے پوری کی۔
یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھتا وہ جیسے اپنے ہوش گنوا رہا تھا۔
اوہ ماۓ گاڈ,شفا۔آپ مجھے مسمرائز کررہی ہو۔اس کے قریب ہوتا استحقاق سے اس کے سر پر لب رکھ گیا۔شفا نے گویا اپنا سانس روکا تھا۔
اوہ آئی ایم سوری !! اس کو ضبط سے مٹھیاں بند کرتا دیکھ کر گویا سارا معاملہ سمجھ گیا تھا۔
سرخی میں ڈھلا اس کا چہرہ حمزہ کو دوبارہ اپنی جانب بلارہا تھا لیکن اپنے جذبات پر کڑے پہرے بٹھاۓ وہ دور ہی کھڑا رہا۔
“اچھا لسن!! دیکھو جب ہم دونوں ہال میں داخل ہوں تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑنا ہے۔کسی سے نہیں گھبرانا۔آپ کے فیس پر ہلکی سی سمائل ہونی چاہیے۔
آپ کو اچھا نہیں لگتا ناں کہ میں آپ کو ٹچ کروں تو میں نہیں کروں گا۔
لیکن میری ایک بات یاد رکھنا۔اس ساری بھیڑ میں آپ کو میرے قریب رہنے سے کوئی دوسرا ٹچ نہیں کرپاۓ گا۔
کیا آپ چاہتی ہو؟؟ کہ باقی لوگ آپ کو ہاتھ لگائیں۔شفانے آنکھیں پھیلاۓ فوراً نفی میں سرہلایا۔
ایکزیکٹلی!! تو اس لیے کہہ رہا ہوں میرے ساتھ رہنا ہاتھ پکڑ کر کوئی پاس بھی نہیں آۓ گا اور نہ ہی کوئی آپ کو ٹچ کرے گا۔”
شفا کو وہ اس وقت بچوں کی مانند سمجھاتا ناجانے کیوں اچھا لگا تھا۔اس کی سوچ بدل رہی تھی۔اسے حمزہ کا ساتھ اچھا لگ رہا تھا۔لیکن شاید وہ بتانے سے قاصر تھی۔”
اب چلیں ہم؟؟شفا نے آگے بڑھ کر فوراً اس کا ہاتھ تھاما۔جیسے سچ میں کوئی اسے چھونے لگاہے۔
حمزہ بے ساختہ مسکرایا تھا۔ناؤ,سمائل!! اسے ساتھ لے کر چلتا وہ ایک اور فرمائش کرگیا تھا۔شفا بے ساختہ مسکراتی حمزہ کے ساتھ قدم سے قدم ملاتی آگے بڑھی تھی۔




سپاٹ لائٹ جیسے ہی ان دونوں پر آکر رکی۔
وہاں موجود شفا کی فیملی کی آنکھیں گویا ایسےباہر نکلنے کو بے تاب ہوئی تھیں کہ جیسے شفا کے قدموں میں گر جائیں گی۔
انہیں شاید اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ شفا ان کے ہاتھ سے نکل کر نوکرانی سے شہزادی کا روپ دھار چکی ہے۔
سہج سہج کر قدم اٹھاتی وہ بیک گراؤنڈ میوزک میوزک کی دھن کو سنتی وہ حمزہ کے حصار میں سٹیج کی جانب آئی تھی۔
یہ ایک چھوٹا سا ہائی کلاس ہال تھا۔جہاں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی خوبصورتی نے دونوں کے مزاج پر خوبصورت اثر ڈالا تھا۔
لائٹ روشن ہوتے ہی اس کی نظر جیسے ہی سامنے گئ۔شفا سمٹی سی حمزہ کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرگئ۔
ریلکس!! میں ہوں۔ہرپل ساتھ ہوں !! دھیمے سے سرگوشی کرتا وہ شفا کو اپنے ساتھ کا یقین دلا گیا۔
جمیلہ خاتون نے بے ساختہ آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چومتی دعاؤں سے نواز گئی تھی۔
حمزہ بھی مسکرا کر کافی عزت سے ان سے ملا تھا۔
باقیوں کی تو اسے پرواہ نہیں تھی لیکن شفا کی ماں کی عزت کرنا اس کے لیے فرضِ عین جیسا تھا۔”
ثانیہ جیسے ہی سٹیج کی جانھ بڑھنے لگی ۔حمزہ نے فوٹو گرافر کو ہاتھ کے اشارے سے عین سٹیج کے سامنے کیا۔جیسے ثانیہ کو وہاں آنے سے روکا ہو۔
پاؤں پٹکتی وہ تیکھی نظروں سے دونوں کو دیکھتی اپنی فیملی کی جانب بڑھ گئ تھی “۔
عفیفہ گھڑی دو گھڑی کے لیے اس سے ملنے آئی تھی۔حمزہ نے اس سے بھی کافی عزت سے بات کی تھی۔
شفا کی آنکھوں سے وہ شاید جاننے لگ گیا تھا کہ شفا کن لوگوں کے قریب ہے”شفا کے حوالے سے ہی وہ اب ان سب کو ان کی اوقات کے مطابق عزت دینےوالا تھا۔”
کچھ دیر میں فوٹو شوٹ سٹارٹ ہوا تھا۔
“نن نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔شفا دھیرے سے منمنآئی تھی۔کیوں نہیں ہوگا۔جب میں ساتھ ہوں تو پھر ڈر کس بات کا۔میں چاہتا ہوں یہ خوبصورت پل ہم ہمیشہ اپنے پاس قید رکھیں۔کیا آپ نہیں دیکھنا چاہتی کہ آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں؟؟ یہ تصاویر ہی آپ کو بتائیں گی کہ آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔اور ہمیشہ آپ انہیں اپنے پاس رکھ سکتی ہو۔چھوٹا سا فوٹو شوٹ ہے۔زیادہ وقت نہیں لگے گا۔”
حمزہ کی یقین دہانی پر اس نے بے ساختہ اس کی جانب دیکھا۔اور رضامندی کا اظہار کیا تھا۔








سامنے سے آتے دو افراد کو دیکھ کر گویا شفا کی سانس حلق میں اٹکی۔
ح۔۔حمزہ پھٹی آنکھوں سے وہ سامنے ہی دیکھتی حمزہ کو پکار گئ جو اپنے ورکرز سے مل رہا تھا شفا کو کچھ دیر کے لیے خود سے دور کرگیا۔اور یہی اس سے غلطی ہوئی ۔
شفا کی حالت بگڑ چکی تھی۔
سانس لینا اس کے لیے مشکل ہورہا تھا۔ضبط سے اس نے اپنی مٹھیاں بھینچیں تھی۔لمبے ناخن اپنی ہتھیلی میں چھبتے محسوس ہوۓ۔
شفا کے قدموں نے بے ساختہ پیچھے کی جانب رخ لیا تھا۔
حمزہ کی نظر بے ساختہ شفا کی جانب گئی۔ا
س کا سفید پڑتا رنگ اسے شفا کی کیفیت کا احساس دلا گیا۔ان سے معذرت کرتا وہ سٹیج کی جانب آیا۔وہ جو بے ہوش ہوکر گرنے کو تھی حمزہ کا سہارا پاتے ہی ہلکا سا چیختی اس کا بازو سختی سے تھام گئ۔
شفا!! ریلکس۔سب دیکھ ریے ہیں۔میں ہوں آپ کے پاس۔”
لیکن اس کی نظریں سامنے موجود شخص پر ہی تھی۔جس نے اپنی قہر بھری نظریں اس پر ڈال کر رخ موڑا تھا۔
حمزہ نے بھی اس کی نظروں کی سیدھ میں دیکھا۔لیکن وہاں تین چار لوگ موجود تھے۔
اب شفا کس سے ڈر رہی تھی۔اس بات کا اسے پتہ نہیں چلا تھا۔
شفا میر طرف دیکھو!! بازو سے پکڑ کر وہ اس کا رخ اپنی جانب کرگیا۔
دونوں بھاوج یہ منظر دیکھ کر جیسے جل کر کوئلہ ہوئی۔
وہ تو کسی تماشے کے انتظار میں تھیں۔لیکن حمزہ بروقت اسے سنبھال چکا تھا۔ان دونوں کو اندازہ تھا کہ شفا بھیڑ سے گھبراتی ہے۔تبھی وہ اب تک خاموش کھڑی تھیں کہ جیسے ہی حمزہ دور ہوگا شفا کی حالت خراب ہوجاۓ گی۔لیکن ایسا نہ ہوتا دیکھ کر دونوں دل مسوس کرکے رہ گئ۔
آگ تو وہاں موجود ایک اور شخص کے سینے میں لگی تھی۔حمزہ کو شفاکے قریب دیکھ کر۔لیکن وہ اپنی قہر بھری غلیظ نگاہوں سے ہی شفا کی حالت غیر کرگیا تھا۔
ؠ
کالم ڈاؤن !! ہم بس جارہے ہیں۔کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔اس کی کمر پر ہاتھ رکھتا وہ اپنے ساتھ کا یقین دلاتا سٹیج سے نیچے اترا تھا۔
اس کے پہلو میں چھپی وہ وہاں سے حمزہ کے ساتھ نکلتی چلی گئی تھی۔
باقی معاملات اب عاقل صاحب سنبھالنے والے تھے۔







یہاں بیٹھو!!گھر لاکر وہ اسے سیدھا کمرے میں لایا تھا۔گاڑی میں اس نے پانی پلاکر اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ شفا اس کے سوالوں سے مزید گھبراۓ۔اس لیے اس وقت اس کا خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا ۔
سنہری لباس میں وہ آج بار بار اسے اپنی جانب متوجہ کررہی تھی۔لیکن حمزہ کو اپنے جذبات پر قابو پانا شاید اچھے سے آتا تھا۔اپنے جذبات کی خاطر وہ کم ازکم شفا کو اذیت نہیں دے سکتا تھا۔
اس کا ایمان شاید یہ تھا کہ شفا مکمل رضامندی سے اس کی جانب بڑھے۔
شفا !! میں آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھوں گا۔کیونکہ میں جانتا ہوں ابھی آپ مکمل مجھ پر اعتبار نہیں کرتی۔پر مجھے آپ پر خود سے زیادہ یقین ہے۔
اس لیےاس بات کا یقین رکھو کہ میں ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہوں ۔کسی سے ڈرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا آپ کا اللہ اور آپ کا شوہر آپ کے پاس ہے۔
رب پر یقین رکھیں گی تو وہ آپ کے یقین کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔
میں جانتا ہوں میرے آٹھ سالوں کا آزالہ ایک دم ممکن نہیں ہوگا۔پر میری کوشش میں کیا آپ کو کوئی کھوٹ نظر آئی۔امید طلب نظروں سے اسے دیکھ کر اس نے جواب جاننا چاہا۔
شفا نے اس کی جانب ایک نظر ڈال کر نفی میں ہلایا۔
تو بس پھر یقین رکھو۔آپ کے ساتھ میں کھڑا ہوں۔اور میرے بازؤں میں اتنا دم خم تو ہے ہی کہ آپ سے ٹکرانے والے طوفان کا مقابلہ کرسکوں۔
اس کےگال پر اپنا ہاتھ رکھتا وہ شفا کو جیسے ہر تکلیف سے آزاد کرگیا۔
شفا کی آنکھوں میں نمی جھلملائی تھی۔جسے حمزہ نے بے مول ہونے سے پہلے ہی پوروں میں سمیٹا۔
جاؤ فریش ہوجاؤ۔میں جانتا ہوں آپ تھک گئی ہو۔اس کی آنکھوں میں اپنی نرم نگاہوں سے دیکھتا وہ شفا کو مزید پرسکون کرگیا۔





توبہ آج شفا کی بے شرمی دیکھی تھی۔کیسے چپک رہی تھی۔ہمیشہ کی طرح ایمن کی زبان میں کھجلی ہوئی اور جلے دل کے پھپھولے اس نے احد کے سامنے پھوڑے۔
انسان یہی لحاظ کرلے کہ اس کے بھائی بہنوئی سب وہاں موجود ہے۔
احد میں ایسے ہی نہیں کہتی تھی۔کہ شفا بہت گھنی میسنی ہے۔
احد میں آپ سے بات کررہی ہوں اور آپ ناجانے کہاں گم ہیں۔ایمن جیولری اتار کر احد کے سامنے بیٹھتی چڑ کر بولی تھی۔
ایمن میں ایک بات سوچ رہا تھا۔احد مکمل اس کی جانب متوجہ ہوتا سرگوشیانہ بولتا ایمن کو بھی چونکا گیا۔
اب آپ کیا سوچ رہے تھے؟؟ ایمن کے طنزیہ انداز پر وہ شیطانیت سے مسکراتا اس کے مزید نزدیک ہوا۔
حمزہ سے پارٹنرشپ !! کیا کیا کہہ رہے ہیں۔؟؟”ایمن جھٹکے سے سیدھی ہوکر بیٹھتی آنکھیں پھیلا گئ۔
بلکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔”جانتی ہو اتنا پیسہ ہے اس کے پاس۔دنوں میں امیر ہوسکتے ہیں بس شفا سے پیار جتانا ہوگا۔”
احد نے گویا ساری پلاننگ تیار کی تھی۔
احد یہ سب ہوگا کیسے؟؟
شفا تو ہم سے اچھی خاصی متنفر ہوچکی ہے تو ہمارے جال میں کیسے پھنسے گی۔؛
اس پاگل کو پھنسانا تو دو منٹ کا کام ہے۔بس تمہیں یہ کرنا ہوگاحمزہ کی غیر موجودگی اس کے گھر جانا ہے۔اور میں حمزہ سے دوستی بڑھاؤں گا۔
سمجھو ہمارا کام ہوگیا۔”
آخری بات رازداری سے کہتا وہ مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجا گیا تھا۔






نن نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔۔چچ چھوڑیں۔۔جج جانے دیں۔
مقابل مکروہ شخص کے سامنے التجا کرتی وہ درد کی انتہاؤں پر تھی۔لیکن اس بے حس کو پرواہ ہی نہیں تھی۔
تمہاری ایک بکواس بہت سے گھر خراب کردے گی۔اگر ایک بھی لفظ منہ سے نکلا تو یہاں سے تمہاری لاش ہی باہر جاۓ گی۔
بازو میں گڑی ہوئی انگلیاں اٹھا کر وہ اسے دھکے سے کے انداز میں زمین پر دھکیل گیا تھا۔اور خود باہر نکلتا چلا گیا۔
روتی بلکتی وہ زمین پر سمٹی تھی۔
اماں تو کیوں نہیں دیکھتی۔تجھے نظر نہیں آتا میں کتنی تکلیف میں ہوں۔درد کی اتہاہ گہرائیوں پر پہنچتی وہ آج پھر بلک بلک کر روئی تھی۔
آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی وہ پھر اپنے آپ سے سوال کرگئ۔
کیا میں سب کی تسکین کا زریعہ ہوں۔دیکھو وہ مجھے کتنی زور سے مار کر گیا ہے۔اب اگر میں امی کو دکھاؤں گی تو وہ مجھے ہی مشکوک نظروں سے دیکھے گی۔
کیا کروں کسے کہوں۔؟؟
اگر کسی کو بتایا بھی تو وہ مجھے جان سے ماردے گا۔
نن نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ہاں میں نہیں بتاؤں گی۔”
شفا؟؟؟؟ سب ٹھیک ہے۔حمزہ کی آواز پر وہ ہڑبڑاتی نیند سے جاگی تھی۔
سامنے حمزہ کو دیکھتی وہ ایک چیخ کے ساتھ دور ہٹی۔
نن نہیں میں نہیں بتاؤں گی۔بلکل بھی نہیں بتاؤں گی۔
ریلکس کالم ڈاؤن۔دیکھو میں ہوں حمزہ۔!! میری طرف دیکھو۔
اس کے قریب بیٹھتا وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھ میں تھام گیا۔
اس کی ڈھارس پر کچھ حوصلہ محسوس کرتی وہ پرسکون ہوئی۔اور حمزہ کو دیکھا۔
سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس لبوں سے لگاتا وہ اسے اپنے ساتھ لگا گیا تھا۔
حمزہ وہ مجھے ماردے گا مجھے بچالیں۔میں نہیں مرنا چاہتی۔وہ کہتا ہے وہ میرا گلا دبا کر ماردے گا۔
اس کے سینے سے لگی وہ روتی کرلاتی کچھ حقیقت اس کے گوش گزار گئ۔
کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔آپ میری دسترس میں ہو۔اور جو آپ کو مارنا چاہتا ہے۔اس کی موت کا سامان تو اب میں تیار کروں گا۔
اس کی بازو کو سہلاتا وہ شفا کو اپنے حصار میں مزید قید کرگیا۔
پہلی مرتبہ شفا کو اس کا چھونا برا نہیں لگا تھا۔ایک تحفظ اسے اپنے گرد محسوس ہوا تھا۔
آپ سچ میں اسےسزا دیں گے۔”شفا اب بھی بے یقین تھی۔
میں اور آپ دونوں مل کردیں گے۔اب میرا ہر کام آپ کے ساتھ ہی تکمیل پر پہنچے گا۔
اس کی آنکھوں میں جھانکتا وہ اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا۔شفا کی آنکھوں سے بے اختیار نمی نکلی تھی۔جسے وہ اپنی پوروں پر سمیٹ گیا۔
آؤ میرے پاس سوجاؤ۔!! اپنی بازو پر اس کا سر رکھتا وہ اسے حصار میں لے کر مزید قریب کرگیا تھا۔”شفا کو نہ آج اس کے لمس نے بے چین کیا تھا اور نہ ہی اس کا دل کیا تھا کہ وہ اسے خود سے دور کرے۔شاید محرمِ محبت کی کشش تھی جو دل کی حالت بھی بدل گئ تھی “







حمزہ کو اپنے قریب دیکھتی شفا کی حالت غیر ہوئی۔رات ناجانے وہ کس لمحے حمزہ کے قریب ہوئی تھی اسے خود بھی یاد نہیں تھا۔یاد تھا تو یہ کہ وہ نیند میں ڈر گئی تھی۔جب حمزہ نے اسے سہارا دیا تھا۔
اس کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹاتی وہ دور ہوکر لیٹتی گہرے سانس لینے لگی۔دل کی حالت الگ غیر ہورہی تھی۔
شفا گہرے سانس لو۔اور خود کو محسوس کرو کہ آپ کہاں ہو؟؟ حمزہ کی آواز پر شفا جھٹکے سے مڑی۔اور اس کی جانب دکھا۔جو آنکھیں موندے شفا کو ہدایت دے رہا تھا۔
سانس لو شفا اور محسوس کرو کہ تم کہاں ہو؟؟ کسی تپتی دھوپ میں ہو یا پھر ٹھنڈی چھاؤں میں۔
مزید بات دہراتا وہ آنکھیں کھول گیا۔
اپنے آپ کو نرم بستر اور حمزہ کی میٹھی نظروں کے حصار میں محسوس کرتی قدرے پرسکون ہوئی۔حالت خود بخود بہتری کی جانب بڑھنے لگی۔
“میں نے آپ کو رات بھی کہا تھا کہ کوئی آپ کو میرے علاوہ چھو بھی نہیں سکتا۔اور جو آپ کا مجرم ہے اسے سزا اب میں ہی دوں گا۔”اس کے ہاتھ کو تھامتا وہ شفا کو نیا جھٹکا دے گیا۔
شفا نے یکدم اس کی ہتھیلی پر گرفت مضبوط کی کہ ناخن بے ساختہ حمزہ کی ہتھیلی میں چبھے تھے۔پر نہ اس نے اس کا ہاتھ جھٹکاتھا اور نہ ہی اس کےناخن ہتھیلی سے ہٹاۓ تھے۔
“شفا!! جو جتنا ڈرتا ہے لوگ اسے اتنا ہی ڈراتے ہیں۔اپنا ڈر اب سب ختم کردو۔ورنہ میں خود ختم کرنے پر آیا تو پھر بہت غلط ہوجاۓ گا۔”ذومعنی سا کہہ کر وہ شفا کے ماتھے پر خنکی سے بھرے ماحول میں بھی نمی لایاتھا۔
شفا نے بے ساختہ ہاتھ جھٹکا لیکن حمزہ نے قدرے دوبارہ جھٹک کر اسے اپنے قریب کیا تھا۔
شفا بے ساختہ اس کے پہلو میں گری۔
ادھر میرے پاس بیٹھو۔اور سوچو کیا تمہیں میرے قریب بیٹھنا اذیت میں مبتلا کررہاہے۔”؟؟ بتاؤ مجھے۔ ؟؟
اس سے چند فاصلے پر چٹ لیٹے حمزہ نے بنا اس کی جانب دیکھے کہا “
شفا جواباً کچھ نہیں بولی۔لیکن آنکھوں سے نکلتے آنسو حمزہ کو دہلا گئے۔
شفا آپ چاہتی ہو میں آپ پر سختی کروں۔حمزہ رخ کہنی کے بل لیٹتا شفا کی نم آنکھوں میں اپنی نرم نگاہیں ٹکائی تھیں۔
شفا کا سر بے ساختہ نفی میں ہلا۔میں کر بھی نہیں سکتا میری جان!!
اس کے بال ہاتھوں سے سنوارتے وہ گمبھیر سے سرگوشی کرگیا۔
شفا نے سختی سے آنکھیں میچی۔بےساختہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
جاؤ فریش ہوجاؤ میں کچھ نہیں کررہا۔”حمزہ کی آواز قدرے دور سے سنتی وہ آنکھیں کھولے اس کی جانب دیکھالیکن وہ کروٹ لیتے دوبارہ آنکھیں موند گیا تھا۔
اپنے ہر عمل سے وہ شفا کو سکون بھرا احساس دینا چاہتاتھا۔نہیں چاہتا تھاکہ۔
شفا اس کی قربت میں زرا بھی بے سکونی محسوس کرے۔”
حمز کی پشت کو گھورتی وہ بیڈ سے نیچے اتری تھی۔”








حمزہ کی تھوڑی سی سختی کا یہ اثر ہوا تھا کہ شفا کی جھجک اب کم ہوگئی تھی۔
ڈرتی تو وہ اب بھی تھی لیکن پہلے سے واضح فرق حمزہ کو شفا میں محسوس ہوا تھا۔
ان دونوں کو ساتھ رہتے پورا مہینہ ہوچکا تھا ۔اس سارے عرصے میں وہ اسے کافی جگہ گھما چکا تھا۔لیکن اگر نہیں لے کر گیا تھا تو دوبارہ اس گھر میں نہیں لے کر گیا تھا۔
شفا بھی گویا اس کے ساتھ کی عادی ہونے لگی تھی۔کہ گھر کا خیال بھی اسے چھو کر نہیں گزرتا۔
اس وقت بھی وہ اسے مال میں شاپنگ کروانے لایا تھا۔
شفا!!میرے لیے کوئی شاپنگ نہیں کرو گی۔”شاپنگ بیگ اٹھاۓ وہ اسے پیچھے ہی تھا جب وہ اس سے نئی فرمائش کرگیا۔
مم میں آپ کے لیے شاپنگ؟؟ مگر کیسے ؟مجھے تو پتہ بھی نہیں ہیں آپ کیا پسند کرتے ہیں۔اور کونسے کپڑے آپ کو پسند ہیں۔
گھبرائی سی وہ اردگرد دیکھتی بولی تھی۔
“آپ سب کرسکتی ہو۔بس انسان میں ہمت و لگن ہونی چاہیے۔اگر آپ میں لگن ہوتو کوئی بھی آپ کو روک نہیں سکتا۔ “
چلو آؤ میرے لیے شرٹس پسند کرو۔میں اپنی بیوی کی پسند سے شرٹ لینا چاہتا ہوں۔اس کی بازو کو نرمی سے تھامتا وہ اسے لیے جینٹس شاپ پر آیا تھا۔
بیوی!! شفا کےمنہ سے بے ساختہ نکلا۔ یہ لفظ گویا شفا کو ایک گہرے احساس سے روشناس کرواگیا۔ناجانے کیوں یہ لفظ اسے اچھا لگا تھا۔
بلکل میری معصوم سی بیوی۔جو مجھے اس دنیا میں سب سے بڑھ کر عزیز ہے۔زرا سا اس کی جانب جھک کر وہ اظہار کا گہرا سکون شفا کو دے گیا تھا۔
جواباً شرمائی سی وہ اس شاپ کی جانب بڑھی تھی۔
لیکن یہاں اس کی خوشی جیسے پل بھر میں معدوم ہوئی۔آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں۔اور رنگت میں جیسے سفیدی گھلی۔حمزہ ابھی تھوڑا سا پیچھے تھا جب شفا کو رکتے دیکھا۔پل بھر میں وہ واپس مڑتی گہرے سانس لیتی حمزہ کی جانب بڑھی تھی کہ قدموں نے ساتھ دینے سے انکار کیا۔آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔اور حمزہ کا چہرہ بھی گویا نگاہوں سے اوجھل ہوتا لگا۔
اس سے پہلے حمزہ صورتحال کو سمجھتا شفا زمین پر ڈھے سی گئی تھی۔