تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 7

سارا دن وہ ناک بھوں چڑاۓ حمزہ کو کوستی رہی جو یکدم اکڑو بن گیا تھا۔پچھلے کتنے دن وہ اپنی چاہت کے حصار میں رکھتا یکدم بدلاتھا۔
لیکن آج اسے حمزہ کے لہجے پر ڈر ،خوف نہیں بلکہ غصہ آرہا تھا۔
اس کو تنگ کرنے کے لیے وہ مزید تیز میک اپ کرگئ۔بلیو بنارسی ٹائپ فراک میں شیفون کا بھاری ڈوپٹہ سائیڈ کندھے پر ڈالے لمبے براؤن ڈائی شدہ بالوں کو پیچھے سیٹ کیے کانوں میں بھاری بالیاں پہنے وہ حمزہ کو چاروں شانے چت کرنے کا ارادہ بناچکی تھی۔
میک اپ کرتے اس کا ہاتھ تو ایک بار تو تھما کہ اس کے دل کی حالت کیوں بدل رہی ہے۔کیوں وہ ایسی ہوتی جارہی ہے۔اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ حمزہ کی شفا بن چکی ہے۔ان چند ماہ میں شفا مراد کی شخصیت اس حد تک نکھری تھی کہ اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا۔
“آپ کو میں نے اپنے رنگ میں رنگنا ہے۔”
حمزہ کا گھمبیر لہجہ بے ساختہ اس کی سماعت میں گونجا تھا۔جسے سوچتی لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
کیا وہ سچ میں میری چاہت کرتے ہیں۔آئینے میں دیکھتی وہ آج ناجانے کتنے دنوں بعد خود سے مخاطب تھی۔
حمزہ کا نام ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ کا موجب بنا تھا۔ساری ناراضگی جیسے پل بھر میں رفع دفع ہوئی۔اس کا دھمکی بھرا لہجہ بھی شفا کو ناجانے کیوں اس وقت پیارا لگا۔
ایسے ہی تو جیون ساتھی کی اس نے خواہش کی تھی۔جو اس کی سنے اپنی سناۓ اس کی بےوقوفانہ باتوں کوبھی غور سے سنے۔حمزہ میں یہی سب خوبیاں ہی توتھیں جس کی وہ دیوانی ہوتی چلی گئ۔
زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا اعتبار تو وہ کرنے ہی لگی تھی۔اورسب سے اہم بات وہ خود سے باتیں کرنا بھول چکی تھی۔اس بات کا اندازہ ابھی اسے بلکل نہیں تھا۔”
بلکل وہ مجھے پسند کرتے ہیں تبھی تو ہر وقت میرا خیال رکھتے ہیں۔
سوال کا جواب خود ہی دیتی وہ نظر جھکاگئی۔یکدم اپنے گرد مخصوص حصار اور خوشبو محسوس کرتی وہ چونکی۔لب بے ساختہ دانتوں میں دباۓ۔
آئینہ آپ کو اچھا جواب نہیں دے گا۔یہ میں ہی ہوں جو ہر سوال کا جواب دے سکتا ہوں۔کیا کہتی ہو؟؟ دے دوں ہر سوال کا جواب۔ ؟؟”
شفا کی متغیر رنگت پر حمزہ نے بنا اسے محسوس کرواۓ اپنی گرفت ڈھیلی کی اور کندھے سے پکڑ کر اس کا موہنا روپ روبرو کرگیا۔
شفا کی گھنیری لرزتی پلکوں نے گویا اس کی توجہ چاہی تھی۔
صبح والی بات پر ناراض ہو؟؟ اس کی خاموشی کو ناراضگی گردانتا وہ شفا سے سوال کرگیا۔
شفا یکلخت دور ہوتی ہینڈ بیگ لینے وارڈروب کی جانب آئی۔
اوہ تو مسز ناراض ہیں۔ویری گڈ۔!! مطلب مشکل سے مانیں گی ۔پیشانی کو انگلی سے مسلتا لبوں پر شریر مسکان
سجاۓ وہ اونچی آواز میں بولا مگر شفا ایک گھوری ڈال کر عاقل صاحب کے روم کی جانب بڑھ گئ.۔
بیڈ پر رکھے کپڑے دیکھ کر حمزہ بھی مسکراتا فریش ہونے بڑھ گیا تھا۔
💞💞💞💞💞💞
نہیں میں نہیں جاؤں گی۔”
سامنے خوبصورت سے بنگلے کو دیکھتی شفا کی گویا گھگھی بندھی۔ساری اذیتیں ساری تکلیفیں آنکھوں کے سامنے لہرائی۔کہ کس طرح اس شخص نے اسے اذیت دی تھی کیسے ہر لمحہ وہ ڈر کر جیتی رہی۔
شفا میں نے کچھ کہا تھا کہ اگر آپ گھبرائیں یا پھر آپ کا ایک آنسو بھی نکلا تو میں یہی چھوڑ جاؤں گا۔شفا کی کاجل زدہ آنکھیں مزید پھیلیں۔
ویسے میری دھمکی کا یہ اثر ہوا کہ آپ کافی اچھے سے تیار ہوگئیں۔
اس کی جانب جھکتا وہ شفا کو چونکا گیا۔
حمزہ آپ مجھے تکلیف دینا چاہ رہے ہیں۔ایک شکوہ لبوں سے نکل کر معدوم ہوا۔
کافی درست اندازے لگانے لگی ہو۔حمزہ کی بے حسی گویا عروج پر تھی۔
ہم اندر جا رہے ہیں۔سمجھ لو آج تم اکیلی ہو۔تمہیں اپنا بچاؤ کرنا ہے۔اور یہ کیسے کرنا ہے یہ تم آپ بہتر سمجھتی ہو۔
اور ہاں میں آج تمہیں تکلیف ہی دینا چاہ رہا ہوں۔سفاکیت کی انتہا کرتا وہ گاڑی سے اتر کر مین فیٹ ناک کرگیا۔
شفا نم آنکھیں رگڑتی باہر آئی۔حمزہ کا رویہ آج اس کی سمجھ سے باہر تھا۔لیکن جس طرح اس نے شفا کو کہا تھاکہ وہ اسے تکلیف دینا چاہتا ہے۔یہ بات جیسے شفا کے دل پر لگی ۔لیکن وہ ضبط کرتی اس کے برابر کھڑی ہوئی۔اس کو بھی جیسے ضد بندھی تھی کہ وہ حمزہ کے ساتھ بلکل نہیں جڑے گی۔آج وہ اکیلی ہی سب سہہ لے گی۔
گارڈ کے دروازہ کھولنے پر وہ گیراج کراس کرتے آگے بڑھے۔
لاؤنج کے دروازے پر حمزہ نے ہاتھ رکھ کر گہرا سانس لیا۔اور شفا کاہاتھ بے ساختہ تھاما۔
اب کیوں پکڑ رہے ہیں۔چھوڑ دیں۔مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ۔تکلیف کا مقابلہ کرسکوں۔شفا کی تیکھی آواز پر حمزہ نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی۔
اوہ تو آپ بہادر ہوگئ ہیں۔؟؟ زرا سی گردن جھکاۓ وہ براہ راست شفا کی آنکھوں میں دیکھ کر چیلنج زدہ سا بولا۔
ہاں ہوگئی ہوں۔منہ بنا کر کہتی وہ اندر کی جانب بڑھی۔لیکن حمزہ نے دوبارہ ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے برابر کیا تھا۔اور لاؤنج میں آیا تھا۔
💞💞💞💞💞💞💞
تم ؟؟ کچن سے نکلتی ثانیہ کے قدم سامنے سجی سنوری شفا کو دیکھ کر ٹھٹکے۔اور ماتھے پر تیوری حمزہ کو دیکھ کر آئی۔
اسلام علیکم!! ماتھے پر ہاتھ لے جا کر وہ طنز بھری نظروں سے اسے سلام کرگیا۔
آپ نے تو دعوت نامہ بھیجا نہیں۔میں نے سوچا میں خود ہی آجاتا ہوں۔کیسا لگا ہمارا سرپرائز؟؟”
آنکھ کے اشارے سے وہ ثانیہ کو مزید طیش دلا گیا۔لیکن وہ ضبط کرتی انہیں لاؤنج میں موجود کاؤچ کی جانب لائی۔
اپنی ساس کے سامنے وہ اپنی عزت خراب نہیں کرسکتی تھی۔
شاہانہ چال چلتا حمزہ کاؤچ پر دراز ہوا۔شفا بھی اس کے پاس کی قدرے فاصلہ رکھ کر دراز ہوئی۔
ریاض بھائی نہیں آۓ۔حمزہ کے سوال پر ثانیہ کے ساتھ ساتھ شفا نے بھی پہلو بدلا۔
آنے والے ہیں۔ثانیہ تیکھا سا بولتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
خالہ آپ؟؟سات سالہ نمرہ بے ساختہ شفا کے گلے لگی۔شفا کی آنکھوں میں گویا نمی آئی تھی۔کافی عرصے بعد وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ثانیہ سے لاکھ اختلاف لیکن اس کے بچوں کو اس نے ماں بن کر پالا تھا۔محبت ہونا تو فطری عمل تھا۔
کیسی ہے میری گڑیا؟؟ اس کے گال چومتی شفا اسے اپنے پاس بٹھاگئی۔
خالہ سے تو آپ مل لی خالو سے نہیں ملو گی۔نمرہ کے بالوں کو سہلاتا حمزہ اسے اپنے پاس بٹھا گیا۔
قدرے ہنس مکھ سی وہ بچی حمزہ سے بھی اچھے سے ملی تھی۔
شفا نے ایک نظر حمزہ کو دیکھ کر سامنے رخ موڑا۔گویا ناراضگی کا واضح اعلان تھا۔
حمزہ بھی مسکراتا دوبارہ نمرہ کی جانب متوجہ ہوا۔
کچھ دیر میں لاؤنج کا دروازہ کھولے اونچا لمبا خاصے ڈیل ڈول والا شخص لاؤنج میں داخل ہوا۔
سامنے شفا کے ساتھ حمزہ کو دیکھتا وہ بھی چونکا۔
شفا کی نظر جیسے ہی ریاض پر پڑی گویاسانس رکتا محسوس ہوا۔بے ساختہ وہ نمرہ کی بیک سے ہاتھ حمزہ کے ہاتھ پر رکھ کر دباگئی۔
حمزہ نے پل بھر میں اپنا ہاتھ دور کھینچا اور نمرہ کو گود میں بٹھایا۔
ریاض کی گویا آنکھؤں میں پل بھر میں طیش نمایاں ہوا۔
پاپا!! نمرہ بے ساختہ اس کی گود سے اٹھتی ریاض کی جانب بڑھی۔پل بھر میں وہ اسے بانہوں میں بھرتا اپنے قریب کرگیا۔
حمزہ کا اسے گود میں بٹھانا ناجانے کیوں کھٹکا تھا۔
ریاض بھائی کیسےہیں۔؟؟؟یکدم حمزہ اٹھ کر ریاض کی جانب بڑھا۔اور قدرے بلند حال پوچھتا نمرہ کو اس کی گود سے اتار کر خود گلے لگا۔
ویسے تمہاری بیٹی کافی پیاری ہے۔اپنے سے موٹے شخص کو سختی سے بازو میں کستا وہ ریاض کے کان می زہر اگل گیا۔
شفا تو سن سی بیٹھی سب دیکھ رہی تھی کہ یہ حمزہ کو ہوکیا گیا ہے۔اپنے مجرم کے گلے لگ کر وہ ناجانے شفا کو کیوں تکلیف دے رہا تھا۔
ریاض نے جھٹکے سے حمزہ کو دور کیااور نمرہ کو اپنے پاس کیا۔
حمزہ جانتا تھا کہ ریاض اسے جھٹکے گا۔اس لیے وہ خود کو تیار کرچکا تھا۔
نمرہ بیٹا آجاؤ خالو کے ساتھ باتیں کرو۔اس کی گال پر چٹکی بھرتا وہ اپنی سرخ انگارہ آنکھیں ریاض پر ٹکا کر بولا۔
پاپا یہ شفا ماسی کے ہسبنڈ ہیں۔اور میرے خالو۔!!نمرہ کی خوشی دیدنی تھی۔
نمرہ بیٹا آپ اندر جاؤ۔غیر محسوس طریقے سے وہ نمرہ کو حمزہ سے دور کرگیا۔
ارے ریاض بھائی پری کا موڈ ہے اپنے خالو کے ساتھ کھیلنے کا اور آپ اسے اندر بھیج رہے ہیں۔
آجاؤ نمرہ۔خالو کے پاس۔اس کی بازو پکڑ کر وہ اسے اپنے برابر کھڑا کرگیا۔اور تندہی سے ریاض کی جانب دیکھا جو ساری صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
شفا ریاض بھائی سے نہیں ملو گی؟؟ شفا کو پکارتا وہ مزید پرجوش ہوا۔
شفا مرتی کیا نہ کرتی اٹھ کر حمزہ کی جانب آئی۔اس کے قریب آتے ہی وہ شفا کے کندھے پر بازو حمائل کرتا ریاض کو دہکتی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
یہ۔میری بیوی میری زندگی شفا حمزہ ہے۔شفا ریاض بھائی کو سلام کرو۔اس کے کندھے پر گرفت جماتا وہ شفا کو ہوش کی دنیا میں پٹک گیا۔
سس سلام!! بنا اس کی جانب دیکھے وہ سلام کرتی حمزہ کا ہاتھ تھام گئی۔
ثانیہ بھی جوس لیے لاؤنج میں آئی تھی۔یہ رومان پرور منظر دیکھ کر پہلو بدل کر رہ گئی۔
نمرہ بیٹا!! مما کو کہا کرو فل بازو پہنائیں “بیٹا دنیا میں آپ کے پاپا جیسے بہت درندے موجود ہیں۔
چبا چبا کر کہتا وہ نمرہ کے بالوں کو سہلا گیا۔
یہ کیا بکواس کررہے ہو؟؟ ریاض ثانیہ کو دیکھتا دبا سا چیخا۔
ارے بکواس تو آپ خود ہیں۔ریاض بھائی۔جانور کہوں یا انسان سمجھ نہیں آرہا۔ثانیہ کو قریب آتے دیکھ کر ریاض کا رنگ فق ہوا۔کیونکہ حمزہ کی آواز اتنی دھیمی بھی نہیں تھی۔
کیا بول رہے ہو؟؟ ثانیہ تیکھے چتون لیے حمزہ کی جانب آئی۔
وہی جوآپ نے سنا ،خیر میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔آپ کو میں سپیشل انوائٹ کرنے آیا تھا۔ایک چھوٹی سی گیٹ ٹو گیدر رکھی ہے۔آپ سب ضرور آئیے گا۔
یہ گیٹ ٹو گیدر میری وائف کی برتھ ڈے کے لیے ہے۔میں اس مرتبہ اپنی بیوی کی برتھ ڈے یادگار بنانا چاہتا ہوں۔ہوپ سو کہ آپ سب ضرور آئیں گے۔
نظریں اب بھی ریاض پر ٹکی تھیں۔ریاض بھائی گڑیا کو ضرور لائیے گا۔اور ہاں باربی ڈریس میں تو گڑیا اور بھی پیاری لگے گی۔”
ہلکی سی آنکھ دباتا وہ ریاض کو دہلا گیا تھا۔چلتا ہوں۔اپنی بربادی کے لیے تیار رہنا۔جتنا ٹرپانا تھا تڑپا لیا اب میری باری ہے۔اور ہاں گڑیا کا خاص خیال رکھنا کیونکہ مکافات عمل ضرور ہوتا ہے۔کہیں گڑیا ہی نہ لپیٹ میں آجاۓ۔”
ایک مرتبہ پھر اس کے زبردستی گلے لگتا وہ اس کے کانوں میں صور پھونکتا جاچکا تھا۔
ریاض کا سفید ہوتا چہرہ ثانیہ نے بھی دیکھا تھا۔
💞💞💞💞💞💞💞💞
حمزہ یہ سب کیا ہے؟؟ آپ میرا بدلہ ایک بچی سے لیں گے۔۔؟؟کیا آپ اتنے سفاک ہوچکے ہیں۔؟ شفا کی بلند آواز سنتا حمزہ استہزایہ ہنسا۔
شفا کیا آپ مجھے اب تک اتنا ہی جان پائی ہو؟؟خیر می ں جانتا ہوں آپ۔کو اب بھی مجھ پر مکمل اعتبار نہیں ہے۔لیکن مجھے اپنی حدود اچھے سے یاد ہیں۔
مجھے اپنے رب کو بھی منہ دکھانا ہے شفامراد۔!!
ایک احساس مجھے اس شخص میں جگانا ہے۔کہ وہ بھول چکا تھا کہ اس کی بھی بیٹی ہے۔اگر وہ دوسروں کی بیٹی کے ساتھ غلط کرسکتا ہے تو اس کی خود کی بیٹی بھی ہے۔جس کے ساتھ غلط ہونے میں پل بھی نہ لگے۔
کیا اس بچی کو چھونے میں آپ کو ہوس نظر آئی تھی؟؟ اس کی آنکھوں میں جھانکتا وہ شفا کو شرمندہ کرگیا۔
نن نہیں حمزہ ایسا نہیں ہے لیکن نمرہ بچی ہے۔اس سب میں اسے لانا بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔
وہ بچی مجھے بھی عزیز ہے۔”میں اتنا گھٹیا نہیں ہوں کہ ایک بچی سے بدلہ لوں۔لیکن کچھ لوگوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے کچھ نیچے گرنا پڑتا ہے سمجھو وہی کررہا ہوں۔اور ہاں سب سے اہم بات یہ پہلی اور آخری مرتبہ تھا۔گڑیا کو اب میں ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔اگر آج میں کسی کی اولاد کے ساتھ برا کروں گا تو میری اولاد کے ساتھ بھی برا ہوگا۔”
اولاد کا ذکر سنتی شفا پل بھر میں جھٹپٹائی تھی۔
حمزہ کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
صبح کے رویے کے لیے سوری!! بے ساختہ کان پکڑتا وہ شفا کی جانب جھکا تھا۔
شفا کے گال بے ساختہ پھولے۔اسے بھی ابھی یاد آیا تھا کہ وہ حمزہ کے ساتھ ناراض ہے۔
اس سے پہلے وہ بیڈ سے نیچے اترتی وہ جھٹکے میں اسے اپنے قریب کرتا حصار قائم کرگیا۔
دوپہر تعریف بھی نہیں کی تھی اس کے لیے بھی سوری کرنا چاہتا ہوں۔
شفا کے گال سے گال جوڑتا وہ ہاتھ کی انگلیاں اس کے ہاتھ میں انگلیوں میں پھنسا گیا۔
اس کی قربت میں دہکتی شفا نے گویا سکون سے پلکیں موندھی تھی۔
حمزہ کو اپنی کامیابی پر بے ساختہ خوشی محسوس ہوئی لیکن وہ شفا سے ابھی کچھ بھی نہیں پوچھنا چاہتا تھا۔اس وقت دونوں کے درمیان خاموشی ہی سب سے اہم چیز تھی۔
💞💞💞💞💞💞💞
سر کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔”
ویٹر کی آواز پر حمزہ نے بے ساختہ سراٹھا کر سامنے دیکھا۔جہاں احد اپنے دانتوں کی نمائش کرتا موجود تھا۔سالے صاحب!! آپ یہاں خیریت ہے۔؟؟ حمزہ کے سوال پر احد مزید آگے آیا۔
احسان(ویٹر)آپ نے انہیں مین روم میں کیوں آنے دیا۔سختی سے استفسار کرتا وہ ویٹر بھی جھاڑ گیا۔
سس سر۔یہ۔۔بہت فورس کررہے تھے۔کہتے آپ ان کے بہنوئی ہیں۔
انہیں ٹیبل پر بٹھائیں میں ابھی آتا ہوں۔اور یہ جو آرڈر کریں ان کو فوری سروس دی جاۓ۔
اشارے سے ان کو جانے کا حکم دیتا وہ دوبارہ اپنے کام کی جانب متوجہ ہوا۔
بھائی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہیں۔”احد کہتا آگے آیا لیکن حمزہ ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک گیا۔
باہر جا کر بیٹھیں کھانا آرڈر کریں میں آتا ہوں۔اس مرتبہ قدرے سختی سے بولتا وہ احد کو وہاں سے جانے کا کہہ گیا۔
احد منہ کے زاویے بگاڑتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔
💞💞💞💞💞💞💞💞
یہ ۔یہ بھی اور یہ بھی !! مینیو کارڈ سے بنا نام جانے وہ کھانا آرڈر کرتا چلا گیا ۔
ویٹر تو اس کے مینیو بتانے کی سپیڈ کو دیکھتا حیران ہوا تھا۔
سر یہ سب ؟؟ ایک مرتبہ تو اس نے بھی کنفرم کرنا چاہا۔
ہاں یہ سب لاؤ۔آخر بہنوئی کا ریسٹورنٹ ہے۔اتنا تو حق بنتا ہی ہے میرا۔
گردن اکڑاۓ وہ ویٹر کو جتا گیا۔اثبات میں سرہلاتا ویٹر بھی وہاں سے اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔
کچھ دیر میں حمزہ بھی اس کی جانب آتا چئیر سنبھال گیا۔
کہیے کیا کہنا تھا۔لہجہ ہمیشہ کی طرح دو ٹوک تھا۔
واہ حمزہ بھائی آپ کا ہوٹل تو بہت پیارا ہے۔”طوطاچشمی کی انتہا کرتا وہ حمزہ کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ کا موجب بن گیا۔
مدعے کی بات پر آئیے۔حمزہ کے سختی سے استفسار کرنے پر احد کی گھگی بندھی۔وہ تو اسے شیشے میں اتارنے آیا تھا لیکن حمزہ کی سمجھداری پر عش عش کر اٹھا۔
میری ایک بات کان کھول کر سن لیں۔اپنی فضول بکواس سے اگر میری بیوی کو زرا بھی پریشان کیا تو پھر وہ ہوگا جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں۔”
“آپ کا کاروبار آپ کی ذمہ داری میرے گھر یا میری کسی چیز پر نظر رکھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔آپ سمجھتے ہیں میں آپ لوگوں کی فطرت نہیں جانتا۔آپ کی رگ رگ سے واقف ہوں۔جو اپنی بہن کو اندھے کنویں میں پھینکنے میں پل نہ لگائیں ان کی میں مالی مدد کروں۔تھو ہے پھر مجھ پر۔”
بنا اس کی بکواس سنے وہ سب جان گیا تھا۔احد تو جیسے سن سا بیٹھا اس کی ذہانت اور زبان دیکھ رہا تھا۔مطلب وہ اس حد تک جان گیا تھا کہ وہ کس مقصد کے لیے آیا ہے۔
یہ جو سب آرڈر کیا ہے ناں !! ان کا بل ادا کیے بغیر آپ یہاں سے نہیں جاسکتے۔
ویٹر ان سے پورا بل لینا ادر وائز آپ بہتر جانتے ہیں کہ یہاں کےکیا اصول ہیں۔ویٹر کو ہدایت دیتا وہ احد پر ایک نظر ڈالے وہاں سے نکلا تھا۔
اپنے سامنے سجی ڈشز کو دیکھ کر احد کو ان کی قیمت کا انداز ہوچکا تھا۔
ماتھے پر نمایاں ہوتا پسینہ احد کی حالت کا گواہ تھا۔
💞💞💞💞💞💞💞💞
شفا کہاں ہو؟؟ حمزہ شفا کو پکارتا کمرے میں آیا تھا لیکن وہ شاید وہاں نہیں تھی۔
حمزہ کچن میں آجائیں۔!! شفا کی آواز پر وہ کچن کی جانب بڑھا جہاں وہ سیاہ شلوار سوٹ پہنے ڈوپٹہ گلے میں ڈالے
مصروف سی حمزہ کو بے ساختہ اپنی جانب متوجہ کرگئ۔۔
کیا بن رہا ہے۔؟؟ حمزہ کو خوشبو سے کچھ تو اندازہ ہوگیا تھا ،لیکن بات کے بہانے اس نے پھر بھی پوچھا تھا۔
“بابا نے بتایا تھا کہ آپ کو پالک چکن بہت پسند ہے۔بس وہی بنارہی تھی۔”
ناجانے آج کیوں اسے بتاتے ہوۓ کچھ جھجک محسوس ہوئی تھی۔
حمزہ کے چہرے پر بے ساختہ دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
کیا میری پسند کا کھانا بنارہی ہو۔؟؟ حمزہ نے دوبارہ تصدیق چاہی۔
جی بلکل آپ کی پسند کا ،آپ میرا اتنا خیال رکھتے ہیں۔تو میں کیوں نہ رکھوں شفا کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں۔
آپ کو احساس ہونے لگا ہے”حمزہ دھیما سا بڑبڑاتا شفا کے پیچھے کھڑا ہوا۔
حمزہ مجھے کھانا بنانے دیں۔شفا کی گھبرائی سی آواز سنتا حمزہ مزید مسکرایا تھا۔
کیونکہ آج اس کی آواز میں حیاکی جھجک تھی ناکہ کوئی ڈر ۔
میں تو کچھ نہیں کررہا۔اس کے بالوں کی ڈھیلی پونی کو ہاتھوں میں بھرتا وہ سرگوشیانہ بول کر مزید شفا کی جانب جھکا۔
کیا میرا قریب آنا تمہیں برا لگ رہا ہے۔؟؟ اس کے کان میں سرگوشیانہ سوال کرتا وہ شفا کے جواب کا طالب ہوا۔
بب برا۔ !! ن نن نہیں تو۔شفا کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
کیا سچ میں برا نہیں لگا۔حمزہ کی آواز قدرے اونچی ہوئی۔
حمزہ۔بابا گھر پر ہیں۔!!شفا یکدم دہلی تھی۔
تو میں کونسا کسی اور کے ساتھ کھڑا ہوں۔اپنی بیوی کے پاس ہوں۔
پھر بھی حمزہ۔!! شفا کی گھبرائی سی آواز ناجانے کیوں اسے بھلی محسوس ہوئی تھی۔
اچھا سب چھوڑو یہ دیکھو۔اس کے گرد اپنا حصار قائم کرتا وہ ایک باکس اس کے سامنے کرگیا ۔جسے دیکھ کر شفا کا رنگ پل بھر میں فق ہوا تھا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial