قسط 8
پچھلی اقساط کا لنک پوسٹ کے لاسٹ میں موجود ہے
باکس کو تھامتے ہاتھ یکدم لڑکھڑاۓ تھے۔اور باکس زمین بوس ہوا تھا۔
اوپس یہ تو گرگیا”۔حمزہ گرفت ڈھیلی کیے نیچے جھکا اور باکس شفا کو,دوبارہ تھما گیا۔یہ کیا ہے۔مجھے نہیں چاہیے۔”
شفا کا لڑکھڑاہٹ سے بھرپور لہجہ حمزہ کو چونکا گیا۔
کیوں نہیں چاہیے۔میں سپیشل آپ کے لیے لایا ہوں تاکہ آپ سارا دن مجھ سے رابطے میں رہو۔
موبائل باکس کو زبردستی اس کے ہاتھ میں رکھتا وہ شفا کو ہدایت بھی دے گیا۔
حمزہ میرا دن ویسے بھی گزر جاتا ہے۔آپ پلیز اسے واپس لے جائیں۔
ناجانے کیوں سبحان کا ڈر اس پر شدت سے حاوی ہوا تھا۔کہ جیسے ہی موبائل آن کرے گی سبحان سامنے آجاۓ گا۔
شفا میں آپ کے لیے لایا تھا اسے آپ ہی یوز کریں گی۔اور اس کو آن بھی آپ ہی رکھیں گی۔
سختی سے کہتا وہ تھوڑادور ہٹا تھا۔اچھا آپ ناراض مت ہوں۔میں یہ لے لیتی ہوں۔
کانپتے ہاتھوں سے موبائل شلف پر رکھ کر وہ حمزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ گئی۔
ارے میری جان میں کیوں ناراض ہونے لگا۔فوراً سے پہلے وہ شفا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں جکڑ گیا۔
زبردستی مسکراتی وہ حمزہ کو دیکھتی رہ گئی۔
کھانا جل رہاہے۔اس کے نزدیک جھکتا وہ ذومعنی سا بولا۔
اوہ ۔آپ نے ہی ہاتھ پکڑا تھا۔اسے تو جلن ہونی ہی تھی۔
شفا کے جواباً بولنے پر حمزہ کا قہقہ فضا میں گونجا تھا۔
چلو آپ اسے جلدی سے ریڈی کرو میں فریش ہوکر آتا ہوں۔گال تھتپاۓ وہ باہر کی جانب بڑھا تھا۔شفا بھی پریشان سی کھانے کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔





یہ حمزہ تو بہت گھٹیا نکلا”۔قمیض اتار کر بیڈ پر پٹکتے احد نے گویا انگارے چباۓ تھے۔
کیا ہوا؟؟سب خیر تو ہے؟؟ ایمن فکرمند سی اس کے پیچھے آئی۔
ارے یہ پوچھو کیا نہیں ہوا؟؟ سالے نےاتنی بے عزتی کی اور سات ہزار کا بل بھی بنادیا۔
آپ اس کے سالے ہیں وہ آپ کا سالا نہیں ہے۔ایمن کی سوئی گویا سالے پر اٹکی تھی۔”
میرا دماغ خراب نہ کر۔جا یہاں سے” اس کمینے نے میری ساری کمائی اپنے دوٹکے کے کھانے میں اڑا دی ۔”
جنجھلایا سا وہ ایمن کو بھی جھاڑ گیا۔
مجھ پر کیوں غصہ کررہے ہیں کچھ بتائیں گے تو ہی میں سمجھوں گی ناں ساری بات کو۔”
منہ کے زاویے بگاڑتی وہ بھی سختی سے بولی تھی۔
جواباً وہ بکتا جھکتا ساری تفصیل ایمن کے گوش گزار گیا جسے سنتے ایمن کے ماتھے پر بھی بل نمایاں ہوۓ تھے۔
توبہ کتنا تیز ہے یہ شخص۔!! حد ہی پار کردی اب اسے تو میں بتاؤں گی کہ اس نے میرے شوہر سے پنگا لے کر اچھا نہیں کیا۔
تم کیا کرلو گی۔وہ شخص میری رگ کو پہچان گیا۔اگر تم نے شفا کو کچھ کہا تو پھر ہم دونوں ہی مصیبت میں پھنسیں گے۔
آپ فکر مت کریں۔میں نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلیں ۔اب بس آپ تماشہ دیکھنا۔جو شفا کا میں لگاؤں گی۔آپ مجھے یہ بتائیں کہ حمزہ کس وقت گھر نہیں ہوتا؟؟ایمن کے رازداری سے پوچھنے پر احد نے بھی گویا ساری تفصیل اس کے گوش گزاری تھی۔”








دروازے پر ہوتی دستک نے شفا کو چونکایا تھا۔حمزہ اس وقت ریسٹورنٹ میں تھا۔اس لیے وہ پرسوچ سی دروازے کی جانب آئی۔
کون؟؟ اندر سے اس نے پوچھنا ضروری سمجھا لیکن کوئی جواب نہ آنے پر وہ دروازہ کھول گئی۔اور یہیں اس سے غلطی ہوئی تھی
عاقل صاحب اس وقت کمرے میں آرام فرما تھے۔مجبورا ً اسے ہی دروازہ کھولنا پڑا تھا۔
سامنے درندے کے روپ میں ریاض کو دیکھتی شفا کی پتلیاں پھیلی تھیں۔
بازو سے اسے اندر کی جانب دھکیلتا وہ بنا شفا کو سنبھلنے کا موقع دیے اندر داخل۔ہوا تھا۔
اس کے لبوں پر بھاری ہاتھ کی گرفت جماتا وہ شفا کی چیخ کو بھی حلق میں دبا گیا۔
ہاتھ پاؤں مارتی وہ بے حال ہوئی تھی۔لیکن اس سفاک کی گرفت سخت تھی۔اس کے گال پر بے ساختہ شفا کے ناخن لگے تھے۔
اتنی ہمت بڑھ گئ۔کہ اپنے اس دو ٹکے کے شوہر کو میرے سامنے لے آئی۔بھول گئ میرے دیے زخم جو اتنی دیدہ دلیری دکھا رہی تھی۔”
شفا تو گویا ذبح ہوۓ بکرے کی مانند اس کی گرفت میں تڑپی تھی۔آنکھ سے آنسو بھل بھل گرتے اس کے ہاتھ پرجذب ہوۓ۔
میری بیٹی کو اگر زرا سی بھی میلی نظر سے دیکھا ناں تو تیرا وہ حال کروں گا کہ تیرا شوہر بھی تجھے پہچان نہیں پاۓ گا۔
سانسوں کے تھپیڑے گردن کو جھلساتے گویا شفا کی گردن کو کاٹ رہے تھے۔
اپنے بچاؤ کے لیے وہ پوری شدت سے کہنی اس کی پسلی پر مار گئی
ریاض آہ کے ساتھ پیچھے ہٹا تھا۔اور موقعے سے فائدہ اٹھاتی شفا ایک اور دھکا دیتی اندر جا کر دروازہ بند کر گئی۔
اتنی ہمت بڑھ گئی تیری سالی۔میں چھوڑوں گا نہیں تجھے۔بکتا جھکتا وہ اپنی حالت درست کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
کیونکہ جانتا تھا اندر اس کا سسر موجود ہوگا۔اور جتنا اسے دھمکادیا شفا نے مر کر بھی اپنی زبان نہیں کھولنی تھی۔






بابا شفا کہاں ہے؟؟ گھر میں غیر معمولی اندھیرا دیکھتا حمزہ سیدھا عاقل صاحب کے روم میں آیا۔جو نوافل پڑھ رہے تھے۔
پتہ نہیں بیٹا شام سے نظر نہیں آئی۔میں نے بھی مناسب نہیں سمجھا کہ بچی کو تنگ کروں بس خود کھانا لے کر کھالیا۔دیکھو کہیں بیمار وغیرہ نہ ہو۔ “عاقل۔صاحب تسبیح کرتے حمزہ کو جانے کا کہہ گئے۔
حمزہ کا دل بھی جیسے یکدم گھبرایا تھا۔تیزی سے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔جہاں کا گھپ اندھیرا سے مزید پریشان کرگیا۔
شفا۔!! کہاں ہو؟؟ سوئچ آن کرتا وہ پورے کمرے میں نظر دوڑاتا شفا کو پکارتا بے حال تھا۔
کاؤچ کے قریب دبکی سی شفا کو دیکھتا وہ کسی گہری انہونی کا شکار ہوا تھا۔
شفا!! میری جان ایسے کیوں بیٹھی ہو ؟؟ ہاتھ میں موجود بیگز کو وہ سائیڈ پر رکھتا تیزی سے اس کی جانب آیا۔
شفا۔بازو سے اٹھاکر کھڑا کرتا وہ اسے سینے میں سموگیا۔
مجھے لگا آپ کہیں چلی گئی ہو۔اپنی سانس بحال کرتا وہ جیسے شفا کو اپنے قریب محسوس کررہا تھا۔
میں نے آپ کو منع کیا تھا حمزہ!! کہ بدلے میں کچھ نہیں رکھا لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی۔شفا کا درد سے اٹا لہجہ حمزہ کو یکدم دہلا گیا۔
کیا ہوا ہے۔؟؟ یکدم وہ اسے روبرو کرتا اس کی آنکھوں کو دیکھا جو سوج کر سرخ ہوچکی تھی۔
شفا کیا ہوا ہے کس سے ڈر رہی ہو؟؟حمزہ کا لہجہ یکدم سپاٹ ہوا۔
آپ سے حمزہ آپ سے ڈر رہی ہوں۔آپ کی وجہ سے وہ شخص میرے گھر تک آگیا۔آپ نے کیوں اس درندے کو جگایا۔کیوں حمزہ”میں مرنے والی تھی حمزہ۔کاش میں مرجاتی کاش “
۔یکدم اس کا کالر جکڑتی وہ شدت سے روتی بولی تھی۔
حمزہ کو پل بھر میں سمجھ آیا تھا کہ کون آیا ہوگا۔
شفا!! اس کاچہرہ ہاتھ کے پیالوں میں بھرتا نظروں کے حصار میں کرگیا۔جان تو گویا سینے میں اٹکی تھی۔
کیا وہ شخص اس حد تک گھٹیا تھا کہ اس کے گھر تک پہنچ گیا۔
یکدم وہ اسے سینے میں بھینچ گیا۔
لال انگارہ ہوتی آنکھیں اس کی حالت کی گواہ تھیں۔ہچکیاں بھرتی شفا حمزہ کے دل پر گویا اپنے آنسو گراتی اس کو انوکھی تکلیف سے روشناس کروا گئی۔
شفا وہ اندر کیسے آیا تھا؟؟یہی ایک سوال تھا جو اسے پریشان کررہا تھا۔اپنی سوچ کو وہ لفظوں میں ڈھال گیا۔
جواباً وہ روتے بلکتے اسے ساری تفصیل بتاتی چلی گئی۔
اس کے چہرے پر انگلیوں کے نشان حمزہ کے قہر کو ہوا دے گئے۔
بےساختہ ان پر نرم لب رکھتا وہ شفا کو خود میں دوبارہ سمو گیا۔
مجھ پر یقین ہے ؟ اس کے سر پر لب جماتا وہ دھیرے سے بولا۔
شفا کا سر بے ساختہ اثبات میں ہلا۔
“یہی یقین مجھے آپ کی طرف سے چاہیے۔اب اس شخص کی ایسی حالت ہوگی کہ وہ دوبارہ کسی بچی پر میلی آنکھ نہیں ڈالے گا۔میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھالیا تھا۔اب میری سختی کا جائز فائدہ میں اسے اٹھواؤں گا۔”
اس لیے وہ بیڈ کی جانب آیا۔سائڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگاتا وہ ڈرار سے دوائی بھی نکال گیا۔
اس وقت شفا کو پرسکون نیند کی اشد ضرورت تھی۔





اوۓ کیا کررہے ہو؟؟ چھوڑو مجھے۔!! ہاتھ پاؤں مارتا وہ بدحال ہوا تھا۔لیکن سامنے والوں سے اپنا بچاؤ نہیں کرواپایا ۔جنہوں نے سرعام مار کر اس کی اچھی خاصی درگت بناڈالی تھی۔
ان کا زیاد جھکاؤ ہی منہ پر تھا۔جس کی وجہ سے ریاض کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل پایا۔
وہ توگھر سے اپنی دکان کے لیے نکلا تھا۔لیکن چار غنـڈوں نے اسے پل بھر میں جھپٹا تھا۔
یہ لے فون کر اپنے گھروالوں کو کہ تجھے ہسپتال لے جائیں۔تیری تو اچھی خاصی حالت بگڑ چکی ہے۔
مصنوعی افسوس کا اظہار کرتے وہ چاروں بےساختہ ہنسے تھے۔
لے نمبر ملا۔اس کا موبائل پاکٹ سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا ۔
ریاض نے تیزی سے موبائل آن کرکے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔
خون آلود منہ سے بولنا بھی مشکل تھا۔
لا میں بات کرتا ہوں۔ایک غنڈہ اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹتا کان سے لگا گیا۔
ہیلو۔!! دوسری جانب سے نسوانی آواز سن کر غنڈے کے منہ پر ہنسی نمودار ہوئی۔
ارے واہ آواز تو بڑی پیاری ہے۔موبائل پر ہاتھ رکھ کر وہ ریاض کے قریب جھکا تھا۔ریاض کے منہ پربے بسی دیکھتا وہ شیطانی سا مسکرایا۔
یہ تمہارے شوہر کو کوئی مار کر یہاں پھینک گیا ہے۔جلدی سے یہاں پہنچو۔ورنہ کام خراب ہوجاۓ گا۔”
انکھ دباتا وہ ریاض کو مزید تکلیف دے گیا۔چل نکل یہاں سے ورنہ اس کی بیوی کو دیکھ کر میں خود کو روک نہیں پاؤں گا۔آہ بھرتا وہ موبائل اس کے اوپر پھینکتا اپنے گینگ کو لے کر نکلا تھا۔






شفا !! دوگارڈ ہروقت گیٹ پر موجود رہیں گے۔کسی سے ڈرنے کی آپ کو اب بلکل بھی ضرورت نہیں ہے۔میں سمجھتا تھا کہ کچھ لوگ باتوں سے سمجھ جاتے ہیں لیکن شاید میں غلط تھا۔کچھ لوگوں کو جب تک ان کی اوقات نہ بتائی جاۓ وہ سدھرتے نہیں ہیں۔
بیڈ پر کمفرٹ لیے لیٹی شفا کا سرخ چہرہ بخار کی نشاندہی کررہا تھا۔
یہ لو۔!! چمچ سے سوپ اس کے منہ کی جانب بڑھاتا وہ شفا کی آنکھیں نم کرگیا۔
کسی سے نہیں ڈرنا۔کل جیسے اپنا بچاؤ کیا مجھے فخر ہے کہ میری بیوی ہمت والی ہوچکی ہے۔
شفا نے بے ساختہ نظر جھکائی۔
دوبارہ چمچ اس کے منہ کی جانب بڑھاتے وہ ٹشو سے اس کا منہ صاف کرگیا۔
حمزہ۔!! آپ جانتے ہیں مجھے جب بھی بخار ہوتا تھا کوئی کمرے میں جھانکتا بھی نہیں تھا۔مجھے بخار میں الرجی ہوجاتی ہے۔سب سمجھتے تھے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے جو سب کو لگ جاۓ گی۔کھانا تو دور کی بات کوئی پانی کا بھی نہیں پوچھتا تھا ۔
پھر آپ کیوں میری فکر کررہے ہیں”۔آج پہلی بار شفا کا اپنے گھروالوں کے لیے شکوہ منہ سے نکلا تھا۔
اس کے چہرے پر ہلکے ہلکے بنے دانے بتارہے تھے کہ شفا کی بخار کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔
کیونکہ آپ میری زندگی میری روح میری دھڑکن ہیں۔
میاں بیوی کو ایک دوسرےکا لباس کہا گیا ہے۔اور لباس کا کام ہی ڈھانپنا ہے۔اگر لباس میں کوئی کھوٹ بھی ہوتو ہم اس کھوٹ کو دور کرکے دوبارہ اسے اپنے جسم کی زینت بناتے ہیں۔”
تو پھر اگر آپ کو یہ تکلیف ہے تو میں کیوں آپ کو خود سے دور کروں۔یہ الرجی ایک دودن میں بلکل ٹھیک ہوجاۓ گی۔اور اگر ان دنوں میں آپ کی فکر نہیں کروں گا تو یہ بگڑ بھی سکتی ہے۔”
آپ خود بھی جیسے تیسے ٹھیک ہو ہی جائیں گی۔لیکن اگر ان دنوں میں آپ کا خیال نہیں رکھوں گا تو تف ہے مجھ پر ۔”
“آپ کو میں نے اللہ کا حاضر ناظر جان کر اپنایا تھا۔تو پھر میں آپ کی جانب سے لاپرواہی کیوں برتوں۔؟؟”
اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکتا وہ اسے زندگی کی نوید دے گیا۔
بے ساختہ آگے بڑھتی وہ اس کے گلے سے لگی۔حمزہ کے لیے تو گویا یہ خوشی سے بڑھ کر لمحہ ثابت ہوا۔
اپنے ہوش میں وہ پوری رضامندی سے اس کے گلے لگی تھی۔اور شاید آج حمزہ کو اپنی کامیابی مکمل انعام کے ساتھ موصول ہوئی تھی۔
حمزہ میں اپنے رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔اللہ پاک نے شاید میری نیکی کےعوض مجھے آپ سے ملایا ہے۔آپ کی محبت پر میں آج ایمان لاتی ہوں حمزہ۔!! میری زندگی کی سچی خوشی ہیں۔آپ سے بڑھ کر میرے لیے اس دنیا میں کچھ نہیں ہے۔ہر رشتہ میرے لیے بعد میں ہے۔مگر آپ کا پیار اور آپ کی چاہت سب سے پہلےہے۔”
اس کے کندھے میں منہ چھپاتی وہ حمزہ کو اظہار کا گہرا سکون دے گئی۔
تو کیا اب میری بیوی کو مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا۔
حمزہ کی شرارت سے بھرپور آواز پر شفا بخار کی حدت سےبھی مسکرائی تھی۔
” نہیں اب میں آپ کو ڈرایا کروں گی۔”
مجھے پری سے ڈر نہیں لگتا۔اس کے گرد بازو حمائل کرتا وہ سرگوشیانہ بولا تھا۔
میں آپ کو چڑیل بن کر ڈراؤں گی۔ہر وقت ڈراؤں گی۔
شرارت آمیز لہجے میں بولتی وہ حمزہ کو پرسکون کرگئی۔
میں ہر وقت ڈرنے کو تیار ہوں بس خود کو کسی تکلیف کے لیے ہلکان مت کرنا۔
میرا یقین رکھنا ۔اپنی بیوی پر اب میں آنچ بھی نہیں آنے دوں گا۔
شام کو جلدی آجاؤں گا۔بس خود کا خیال رکھنا۔دوسری برانچ کے لیے کچھ کام تھا ورنہ میں نہیں جاتا۔
نہیں آپ جائیں میں ٹھیک ہوں کچھ دیر آرام کروں گی تو ٹھیک ہوجاؤں گی۔اور کھانا بھی آپ نے کھلادیا اور دوائی بھی آپ نے زبردستی کھلا دی۔جواباً منہ بناتی وہ بیڈ پر لیٹی تھی۔نقاہت سے بیٹھنا اس کے لیے مشکل ہورہا تھا۔
اگر دوائی نہ دیتا تو آپ نے ٹھیک بھی نہیں ہونا تھا۔
خیر ریسٹ کرو۔ماسی سارا کام سنبھال لے گی۔
میں چلتا ہوں۔سر پر محبت بھرا لمس چھوڑتا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا تھا۔







شفا سے ملنا ہے!!۔گیٹ پر کھڑی دونوں بھابیاں گارڈ کو دیکھتی یکدم پریشان ہوئی۔لیکن چہرے کے زاویے بحال کرتی وہ پراعتماد سی بولی تھیں۔
میں صاحب جی سے پوچھ کر بتاتاہوں۔
صاحب جی؟؟ وہ تو ہوٹل میں ہوتا ہے۔ایمن نے کان میں سرگوشی کیے ثنا کی جانب دیکھا۔
جاؤ پوچھ آؤ۔ہم یہیں کھڑے ہیں۔”
ثنا اعتماد بحال کرتی نخوت سے بولی۔گارڈ اثبات میں سرہلاتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
کچھ دیر میں واپس آتا ان کو اندر جانے کا بول گیا تھا۔
دونوں چادر سنبھالے اندر داخل۔ہوئی جہاں عاقل صاحب موجود تھے۔
وہ ہمیں شفا سے ملنا تھا۔عاقل صاحب کو دیکھ کر ان کی زبان لڑکھڑائی۔
بہو اپنے کمرے میں ہے۔اور کافی تیز بخار ہے تو وہ آرام کررہی ہیں۔
کمرے کی جانب اشارہ کرتے وہ دوبارہ اندر کی جانب بڑھ گئے۔
وہ دونوں بھی شفا کے کمرے کی جانب بڑھی تھیں۔







بھابھی آپ؟؟ دونوں کو دیکھتی وہ یکدم گھبرائی لیکن اعتماد کو بحال کرتی وہ سیدھی ہوئی۔
ایمن اور ثنا کے تو گویا دل جل کر راکھ ہوۓ۔ٹھاٹھ سے بیڈ پر لیٹی شفا اور خوبصورت کمرہ اپنی حیثیت خود بتارہا تھا۔
تمہیں بخار ہے۔؟؟ ایمن کے سوال پر وہ بے ساختہ سر ہلا گئی۔
پھر تو ہمیں دور ہی بیٹھنا چاہیے تمہیں تو الرجی بھی ہوجاتی ہے۔ایمن اور ثنا دونوں کاؤ چ پر بیٹھی تھیں۔
شفا کے لبوں پر بے ساختہ تلخ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
خیریت سے آئی ہیں آپ لوگ؟؟
شفا نے بے ساختہ سوال کیا۔ “
بی بی تمہاری تو بہت ہمت بڑھ گئی ہے۔کہ اپنی بھابھیوں سے ہی سوال کرنے لگی ہو۔
خیر پیسے کا گھمنڈ تو سر چڑھ کر بولے گا۔نخوت سے بولتی وہ شفا کو گھور رہی تھی جیسے کچا چبا جائے گی۔
تمہارے شوہر نے تمہارے بھائی کی اتنی بے عزتی کی۔لیکن تمہارے بھائی نے اف بھی نہیں کی۔لیکن شفا بے بی میں چپ رہنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
اتنے سال تمہیں کھلایا پلایا۔ٹھاٹھ سے رکھا ان کا حساب کون دے گا۔
نواب صاحب غنڈے بن کر تمہیں یہاں لے آۓ اور ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں رکھا یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔
تو کیا آپ لوگ مجھے بیچنا چاہ رہے تھے۔شفا کی زبان پھسلی تھی۔
توبہ ہے لڑکی اتنی بدزبانی توبہ دیکھو بھابھی اس کے تو اچھے خاصے پر نکل آئے ہیں۔”
ایمن نے ثنا کو بھی شامل کرنا چاہا۔
بی بی وہاں سے اگر آ ہی گئ تھی۔اپنے راز بھی اپنے ساتھ لے آتی۔کسی لڑکے کو اگر پھنسا ہی لیا تھا تو اسے یہ تو بتادیتی کہ تم کسی کی بیوی ہو؟؟
ثنا نے گویا جلتے انگارے شفا کی جانب پھینکے۔
کک کیا کہہ رہی ہیں ۔۔میں نے کیا کیا ہے۔شفا کی جلتی آنکھیں پھیلیں تھی۔
یہ تمہارا موبائل ۔اپنے یار کے میسج پڑھ لینا یاد آجاۓ گا۔
ایمن اٹھتی موبائل اس کے قریب پٹک گئی۔
شفا کا تو گویا رنگ فق ہوا۔
بب بھابی۔زبان نے گویا ساتھ دینے سے انکارکیا۔
میں تو سوچ رہی تھی کہ حمزہ کو دکھادوں پر تمہاری حالت پر رحم آگیا۔
اگر تم چاہتی ہو تو ۔۔میں حمزہ کو دکھادوں گی۔پھر تم اور حمزہ دونون نمبٹ لینا۔
نن نہیں بھابھی۔ایسا کچھ مت کرنا۔شفا کی گویا حالت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی مانند تھی۔
تو بی بی پہلے ہی ایسے کرتوت نہیں کرنے تھے۔شفا کو وہ موبائل ایک ناگ کی مانند لگا تھا۔جو اسے ڈسنے کو تیار بیٹھا ہے۔
اپنے شوہر کو اب تم راضی کرو گی یا تو ہمیں کوئی کاروبار کروا کردے یا پھر اتنا عرصہ اس کے نکاح میں ہونے کے باوجود تمہیں کھلایا پلایا ہے اس کا حساب دے۔ورنہ یہ موبائل تو میں تمہارے شوہر کو دکھادوں گی۔پھر تم خود دیکھ لینا۔سفاکیت کی انتہا کرتی وہ شفا کی جانب لینےکے در پر تھیں۔
بھابھی میں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے جو آپ میرے ساتھ ایسا کررہی ہیں۔
بےبسی سے آنکھوں میں آنسو آۓ تھے۔اور حمزہ کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوما کہ اگر یہ حقیقت اسے پتہ چل گئی تو اس پر کیا بیتے گی۔”
صبح ہی تو اس نے اپنا اظہار اسے سونپا تھا۔اپنایقین اس کے حوالے کیا تھا۔اب اگر وہ اس کے یہ میسجز دیکھ لیتا تو ناجانے کیا سوچتا۔؟؟ یہ بات جیسے شفا کی جان کو کھارہی تھی۔
بگاڑا تو کچھ نہیں مگر کبھی کبھی خود غرض بننا پڑتا ہے بہرحال اب تم دیکھ لو کب تک پیسے بجھواؤ گی۔وہ کیا ہے ناں کام آج کل بڑا سست چل رہا ہے۔تمہارے بھائی کو بہت ضرورت ہے۔ “
جلدی بجھواؤ گی تو بچ جاؤ گی۔ورنہ تم بہتر جانتی ہو۔
گردن کو اکڑاۓ ثنا نے آخری بمب شفا پر پھینکا تھا۔
چلیں بھابھی!! ثنا کو اشارہ کرتی وہ اٹھی تھیں اور موبائل اٹھاۓ باہر کی جانب بڑھی تھیں۔
دگرگوں ہوتی حالت کے ساتھ شفا بیڈ پر ڈھے سی گئی تھی۔




ریاض بھائی !! یہ سب کیسےہوا؟؟ روم میں داخل ہوتے ہی حمزہ کی نوٹنکی شروع ہوئی۔
ثانیہ جو ریاض کے پاس بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھیں حمزہ کو دیکھتی مزید شدت سے روئی۔”
“ارے باجی پریشان مت ہوں ایسے چھوٹے موٹے زخم تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن شکر کریں جان بچ گئی۔گال کے زخم پر انگلی سے دباؤ ڈالتا وہ مصنوعی بیچارگی طاری کرگیا۔”
ریاض نے تکلیف دباتے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
باجی آپ زرا باہر جائیں میں ریاض بھائی سے کچھ تفصیل جاننا چاہتا ہوں آخر کون تھے جو دن دیہاڑے انہیں مار کر چلے گئے۔۔
میرے کافی دوست اثر رسوخ رکھتے ہیں جلد ہی دشمنوں کا پتہ بتادیں گے۔
ثانیہ تو گویا کسی سہارے کی تلاش میں تھی۔سرہلاتی باہر کی جانب بڑھی۔
ریاض حمزہ کو حلیہ وغیرہ بتادیں کیا پتہ آپ کی مدد کردے۔جاتے جاتے بھی وہ ہدایت دینا نہ بھولی۔
ثانیہ کے جاتے ہی حمزہ ریاض کے قریب جھکا۔کل میری باتوں کا تجھ پر اثر نہیں ہوا تھا۔تجھے لگا تھا میں فالتو بکواس کررہا ہوں۔اس لیے تیری اتنی ہمت بڑھ گئی کہ میرے گھر تک پہنچ گیا۔اور میری بیوی کو اپنے غلیظ وجود سے چھوا اور بکواس کی۔ڈرپ لگے ہاتھ پر سوئی پر دباؤ ڈالتا وہ ریاض کو تکلیف کی گہری رمز سے اگاہ کرگیا۔
چھوڑ۔۔مجھے۔تکلیف سے بولنا مشکل ہوا تھا۔
میری بیوی پر گندی نظر ڈالتے تجھے اپنی بیٹی یاد نہیں آئی تھی ۔
یہ۔اپنا سوجا منہ دیکھنا تو تجھے احساس ہوگا کہ تکلیف کیا ہوتی ہے تو کیا میری بیوی کی حالت بگاڑے گا میں تیری سانسیں ہی روک دوں گا۔
گال کو اپنے ہاتھ میں جکڑ کر وہ ریاض کی چیخیں بلند کرگیا۔”
“بکواس بند کر۔ایک چیخ نہ نکلے تیری ورنہ وہ حالت کروں گا کہ پانی بھی نصیب نہیں ہوگا۔”
ہاتھ سے خون کی بوندیں نکلتے دیکھ کر حمزہ کو گویا سکون نصیب ہوا۔۔
یہ ٹریلر تھا صرف۔ابھی پوری فلم باقی ہے۔مزید جھٹکے کے لیے تیار رہنا۔اپنی بیوی کی تکالیف پر میں تجھے اتنی سی سزا پر نہیں چھوڑ سکتا۔”
خون کو اس کے منہ پر لگاتا وہ اس کے دبوچے گال کو جھٹکے سے چھوڑتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
ریاض نے تکلیف ضبط کرتے گال سے خون صاف کیا تھا۔۔