قسط: 10
بتاؤ ۔۔۔۔؟اس کا ایک دفعہ پھر مارنے کےلیے اٹھا جب وہ آگے ہاتھ کرگئی تھی ساری بدتمیزی پل میں اڑن چھو آئی
اس کا غصہ اس کے چھکے چھڑا گیا تھا حسنال کو اس نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا تھا اس کوکبھی کبھی غصہ آتا تھا لیکن جب آتا تو ہر چیز بہا کہ لے جاتا تھا۔
بتاؤ۔۔۔۔۔میں نے یا روشنال بھائی تمھارے ایسا کیا کیا ہے جو تم نے اتنا گھٹیا لفظ استعمال کیا ۔۔۔بتاؤ تین مہنیے ہوگئے تمھارے اور میرے نکاح کو ۔۔۔۔۔! تمھارے قریب بھی آیا تم نے تو مجھے کاٹھ کا الو یا ریموٹ سمجھ رکھا تم یہ سمجھتی ہو کہ تھمارا جس طرح دل کرے گا تم چلا لوگی تو کان کھول کر سن لو میں اتنا بے وقوف نہیں جتنا تمھیں نظر آتا ہے ۔۔۔۔تین مہینے سے میں اس رشتے سے نظریں چراتا پھر رہا ہوں ۔۔۔ایک دن بھی زیادہ ہوتا ہے کسی کو ٹائم دینے کےلیے پر تین مہینے بی بی میں تمھارے ڈارمے برداشت کر رہا ہوں تم صوفے پر سوتی ہو میرے ہاتھ لگانے سے رئیکٹ کرتی ہو جیسے تم بچی ہو ہو کبھی کچھ نہیں کہا ہر روز تمھارے جھٹکنا تمھاری اوٹ پٹانگ حرکتیں بر داشت کر رہا پر بی بی یہ رشتہ آسان نہیں بچی نہیں ہو محرم رشتوں کو سمجھو بی بی اگر تمھارا یہ ہی رویہ رہے گا تو میں اس معاملے کو آر یا پار کروں گا ۔۔۔وہ اس کے بالوں کو بازوؤں میں ڈبوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
جب کہ منال کی آنکھیں تو حیرت سے پھٹنے کو تیار تھی
مانا کہ میں اتنا فرشتہ صفت انسان نہیں ہوں لیکن منال بی بی تمھارے ان کیے گئے لفظوں کی طرح گھٹیا بھی نہیں ہوں۔۔۔مجھے رشتوں کو سمجھنا آتا ہے ان میں توازن رکھنا آتا ہے کون باپ ہے ؟کون ماں ہے؟ کون بھائی ہے؟ کون بیوی ہے ؟ان کے آگے ان کے مطابق مجھے بات کرنا آتی ہے میں مذاق بھی کرتا ہوں مجھےغصہ بھی آتا ہے لیکن میں رشتوں کے سامنے چڑھ چڑھ بڑھ بڑھ کرنے کا عادی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔!ایسا کرنے سے رشتے ٹوٹتے ہیں ۔۔۔اور میں رشتوں کو توڑنے کا بھی عادی نہیں ہوں وہ یہ بات کہتا اس کے بالوں کو چھوڑتا بیڈ سے اٹھتا اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔
مم۔۔مجھے چھوڑوں میں بابا کو بتاؤں گی کہ ت۔۔۔۔تم نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا تھا۔۔وہ اس کو تھوڑا سا نرم پڑتا دیکھ کر پھر دھمکی دے گئی تھی پر یہ نہیں پتہ تھا اس کے لفظ پھر جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔۔۔
بالکل شوق سے بتانا ساتھ اپنے لفظ بھی انہیں بتانا ۔۔۔۔ساتھ یہ بھی بتانا کہ تم نے خود کو دو بھائیوں کی رکھیل کہا ہے وہ تمھیں اس لفظ کا مطلب ہی نہیں بلکہ تشریح بھی سمجھائیں گے وہ اپنے لہجے پر باوجود قابو نہ پاسکا ایک اور تھپڑ اسے جڑ دیا ۔۔۔۔
منال بی بی میری نظروں سے اوجھل ہو یہ نہ ہو کہ میں کچھ ایسا کر ڈالوں کہ پھر مجھ سے ہی منہ چھپاتی پھرو ۔۔۔۔!
کک۔۔۔۔کیا ہوا ہے کیوں بچی کے ساتھ اتنے بدتمیزی سے کیوں بات کر رہے ہو ثمینہ بیگم نے اس کے آگے آکر غصے سے کہا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی اونچی آواز سنتے باہر سے آغا جان ثمینہ اور تہمینہ بیگم دونوں آگئی تھی ۔۔۔۔
ماں اسے کہیں کہ یہ میری نظروں سے اوجھل ہو جائے نہیں تو میں کچھ کر ڈالوں گا۔جبکہ تہمینہ بیگم تو شاک سی کھڑی حسنال کو دیکھنے لگی کیونکہ وہ ان کا بیٹا تھا انھیں پتہ کہ وہ کبھی اتنا جلدی غصے میں نہیں آتا تھا کوئی نہیں وجہ ضرور تھا ورنہ اس کا ایک دم سے غصے میں آنا بہت ہی غیر معمولی بات تھی وہ زیرک خاتون تھی معاملے کو سمجھ گئی تھی ۔۔۔
آغا ۔۔۔آغا جان ۔۔۔۔میں نے اس کے ساتھ نہیں رہنا اس نے ممم۔۔مجھے تھپڑ مارااسے بولے کہ مجھے طلاق دے میں اس جنگلی وحشی کے ساتھ ایک منٹ بھی نہیں رہنا چاہتی اگر اس نے مجھے نہ چھوڑا تو میں اس گھر سے بھاگ جاؤں گی ۔۔۔۔وہ بھاگ کے روتی ہوئی آغا جان کے ساتھ لگی تھی۔
خالہ جان اسے سمجھا لیں نہیں تو میں اسے زمین میں گاڑ دوں گا ۔۔۔جب کہ حسنال پھر سے مارنے کےلیے آگے لپکا تھا وہ ڈر کے بابا جان کہ آگے ہوئی تھی ۔۔۔
بس ایک لفظ نہیں حسنال ۔۔تم منال کو کچھ نہیں کہوں گے میں خود اپنی بیٹی کو سمجھاؤں گا آغا جان نے حسنال کو ڈانٹ دیا تھا ۔۔۔وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولے تھے۔۔۔
نہیں آغا جان اگر آپکی لاڈلی اور فرمانبردار پوتی نہیں یہ رشتہ نبھانا چاہتی تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔
میں حسنال بخت ولد صغیر بخت اپنے حوش و حواس ۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ ۔۔۔۔۔۔۔! اس کے حق دار ہو تم ۔۔وہ اپنا فقرہ بھی مکمل نہیں کرپایا جب صغیر صاحب نے اسے تھپڑ جڑ دیا تھا ۔۔۔
بغیرت انسان یہ ہے تمھاری غیرت ۔۔۔۔کہ تم ایک عورت پر ہاتھ اٹھا رہے ہو ۔۔۔۔یہ نہیں تم دفع ہو جاؤ میری نظروں سے ایک بیٹے کی میں منتیں کرکے تھک گیا کہ آجاؤ گھر
پر وہ کہتا ہے کہ مجھے اس گھر میں قدم رکھنا بھی گوارا نہیں اور دوسرا اپنا ہاتھوں ماں باپ کے سامنے گھر اجاڑ مجھے لگتا ہے کہ میری تربیت میں ہی کوئی خرابی رہ گئی صغیر صاحب آج پھٹ پڑے تھے ۔
ب۔۔۔بابا۔۔۔۔۔جان س۔۔۔سوری وہ ان کے پاس آیا جو پہلے غصہ تھے اب آبد یدہ ہوتے دیکھا تو ۔۔۔
بابا جان۔۔۔۔وہ باپ کے پیچھے بھگا جو رنجیدہ اور ناراض ہوکر نکلے تھے باپ کی ناراضگی دیکھ کر ایک دم سے غصہ
غائب ہوا تھا جو اسکے کمرے سے غصے سے نکل کر گئے تھے۔۔۔۔
منال تم میرے کمرے میں چلو ثمینہ بیگم بیٹی کو ہوا تھا
آغا جان سے علحیدہ کرتے ہوئے تیز لہجے میں بولی تھیں وہ اسے کھنچتی ہوئی کمرے میں لے آئی تھی جبکہ پیچھے تہمینہ بیگم اور آغا جان شاک میں تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھیں شرم نہیں آئی۔۔۔۔اس سے طلاق مانگتے ہوئے وہ ۔۔۔وہ اس کا چہرہ تھپڑوں سے لال کرتی اسے بیڈ پہ پھینکتی ہوئی بولیں تھی۔۔۔۔کتنی دفعہ سمجھایا تھا میں نے تمھیں مت کرو مت کرو ۔۔۔۔۔اس عمر میں بھی مجھے دربدر کروانے کا شوق چڑھا ہے تمھیں۔۔۔۔
اگرصیغیر بھائی نہ آتے تمھارے منہ پر تو اب تک کالک لگ جاتی تمھیں تو شکر کرنا چاہیے کہ تم سے چار سال چھوٹا تمھیں عزت اور محبت دے رہا ہے پر مجھے کچھ اور ہی چکر لگتا ہے اگر اور کوئی دل میں ہے تو بتا دو مجھے میں تیسرے مہنیے سے تمھارا یہ روگ دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔
امی بس ایک لفظ اور نہیں ۔۔۔۔میں کسی کو بھی پسند نہیں کرتی اور میں نے اسے طلاق مانگی ہے وہ رو رو کر کہنے لگی تھی ۔۔۔۔لیکن وہ اگر دے دیتا تو میری جان تو چھوٹ جاتی جو آپ نے اس کی وجہ سے میری زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے۔۔۔۔حسنال ۔۔۔تمھارا شوہر ہے اس کی عزت کرو ۔۔۔۔۔اس کی خدمت کرو۔۔۔۔یہ کرو ۔۔۔۔ یہ نہ کرو اس ہر وقت کی روک ٹوک نے میری زندگی عذاب کرکے رکھ دی ہے اگر آپ نے میرے زبردستی کی تو قسم سے میں سچ کہہ رہی ہوں میں بھاگ جاؤں وہ ضدی ہوکر بولی تھی۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔۔۔تم بھاگ تو تب سکوگی جب میں تمھیں اس قابل چھوڑوں گی یا تمھاری یہ زبان کسی قابل رہے گی تو تب نا۔۔۔۔۔؟ ان کی نظر سائیڈ ٹیبل پہ پڑے جارجر پہ پڑی تھی۔۔۔۔۔
امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔منال نے ماں کی طرف حیرت سے دیکھا جن کے ارادے سنگین لگ رہے تھے خوف سے اس کی نگاہیں پھٹنے کے قریب تھی جب انہوں نے چارجر کی لیڈ سے اسے مارا۔۔۔ وہ چیختی رہی پر ثمینہ بیگم نے اپنے کان بند کرلیے تھے اس کے جسم پر جب یکے بعد دیگرے لیڈ کی ضرب لگتی تب تب حسنال سے نفرت بڑھتی جا رہی تھی اپنے بچاؤ کےلیے وہ بھاگتی مگر آخری لیڈ اس کے منہ پہ لگی تھی ثمینہ بیگم مار کے باہر چلی گئی تھی ۔۔۔۔
اس کی لہجے کی بغاوت جیسے ایک پل میں ختم ہوئی تھی ۔۔۔۔اس کو اپنے جسم سے اٹھتی ٹیسوں پر قابو پانے لگی اسے ماں کی مار کا دکھ نہیں تھا کیونکہ وہ اسے پہلے بھی مارتی رہتی تھی اس کےلیے حیرت کا مقام تو یہ تھا کہ کیا واقعی ثیمنہ بیگم اس کی سگی ماں تھی ۔۔۔
وہ پیچھے اکیلی درد کو سہنے کےلیے پڑی ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشنال یار جلدی چل کے آؤ۔۔۔۔۔۔! روشنال اس کو کالج ڈراپ کرتا نکل گیا تھا ۔۔۔۔وہ اتری جب اسے سارہ نظر آئی تھی
بات سنو تھمارے یہ ہینڈسم سے بھائی تمھیں آج دوسری باری ڈارپ کرگئے ہیں
ایک بات کہوں۔۔۔۔؟
کہو۔۔۔۔۔۔اشنال چاکر بھی اس کی غلط فہمی دور نہیں کر پائیتھی
میری کوئی سٹینگ ویٹنگ کروا دو اپنے بھائی سے وہ روشنال کی پرسنلیٹی سے امپریس نظر آتی ہوئی وہ سمجھی کہ روشنال اشنال کا بھائی ہے ۔۔۔
یار ایک تو تم اتنی ٹھرکی ہو ہر لڑکا تھمیں بھا جاتا ہے ۔۔!اشنال اکتا کر بولی تھی وہ اسکی عادتوں سے واقف ہوگئی تھی ۔۔۔
نہیں یار سچی یہ سیدھا دل پہ لگا ہے ۔۔۔۔۔۔!
چھوڑو یار ان فضول باتوں کو فرسٹ لیکچرہے
میم ثمرہ کا ہوتا ہے ان کا تو تمھیں پتہ ہے نہ ۔۔۔۔۔!
ابھی دس منٹ رہتے ہیں سارہ نے جیسے یاد دہانی کروائی ۔۔۔
یار ایشو میں ایک بات تمھیں بتاؤں ۔۔۔۔؟ آج سے اکیڈمی میں میرا کام ڈبل ہو جائے گا۔۔۔ایک کولیگ کی شادی ہے ان کی کلاسز میرے پلے پڑھ گئی ہیں ۔۔۔۔؟ میں مجبوری میں یہ جاب کر رہی ہوں اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے نا کہ زیادہ کام کا برڈن میرے اوپر پڑھ جائے ۔۔۔۔۔ میں نے خود بھی پڑھنا ہوتا ہے ۔۔۔اور ایک تو کوئی نیو ٹیچر بھی مل نہیں رہی۔۔۔۔
منتھلی کتنی پے ملتی ہے تمھیں ۔۔۔۔۔؟ اس کی بات سنتی اشنال کے آنکھوں کے آگے ایک دم سے تارے چمکے تھے ۔۔۔!
سٹارٹنگ ففٹین تھاوزنڈ ہے۔۔۔۔۔! اس نے جواب دیا تھا۔۔۔
اور گھر کتنے بجے جاتی ہو۔۔۔۔؟
شام ساڑھے پانچ۔۔۔۔!
اوہ یار پھر تو میں تمھارے ساتھ پڑھا لیا کروں گی ۔۔۔۔؟
اس نے دل میں سوچا تھا کہ روشنال تو رات آٹھ بجے آفس سے آتا تھا وہ اس کے جانے سے پہلے ہی چلی جایا کریں گی۔۔۔۔
یہ تو میرے لیا بہت ہی خوشی کی بات یے ۔۔۔پر تمھارے بھائی تمھیں کرنے دیں گے ۔۔۔۔۔؟ سارہ نے اس سے پوچھا تھا۔۔۔۔؟
تو میں شوقیہ کروں گی نہ۔۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر جھوٹ بول گئی تھی ۔۔۔
تو ٹھیک ہے کل تیار رہنا۔۔۔۔!کل سے وہ میم نہیں آئیں گی تو میں سر سے بات کر لوں گی ۔۔۔میرے لیے تو خوشی کا مقام ہے ۔۔۔۔۔!تم میرے ساتھ ہوگی ۔۔۔۔
اچھا اب تو چلو۔۔۔۔جب کہ اشنال نے اس کے پیچھے کلاس روم کی راہ لی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل پھر میرے ساتھ جاؤ گی اکیڈمی ۔۔۔۔۔چھٹی ہوئی تو وہ سارہ کے ساتھ کالج سے باہر نکلی تھی ۔۔۔
ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔! جاؤں گی ضرور جاؤں گی ۔۔۔
سارہ اسے فرسٹ ڈے ملی تھی جس اسے نے اسکی فرسٹ ڈے کافی ہیلپ کی تھی اشنال نے اسے جب بھی دیکھا ہنستے ہوئے دیکھا اسے سارہ بہت خوش قسمت لڑکی لگی تھی میک اپ اور اچھے سوٹ پہنتی کافی امیر گھرانے کی لڑکی تھی ۔۔۔
ویسے تمھاری کیا مجبوری ہے تم تو شکل سے بالکل بھی مجبور نہیں لگتی اشنال نے اپنے دل کی بات کی تھی جو کئی دنوں سے کھٹک رہی تھی ۔۔۔۔ میرا ایک چھوٹا بھائی اور ماں ہی ہیں ۔۔۔۔۔ بابا کچھ عرصے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جاملے اپنے اور بھائی کے خرچے کی ذمہ داری میرے اوپر ہی ہے
بابا کی پنشن سے گھر کا سودا سلف اور مما کی دوائیاں آتی ہیں میں اپنی ایجوکیشن اور بھائی کےلیے اکیڈمی جاتی ہوں ۔۔۔
اشنال جو خود کو مظلوم تصور کرتی رہتی ۔۔۔۔وہ اس کی کہانی سن کر جیسے سن ہوگئی تھی کہ کیسے وہ لڑکی زندگی سے لڑ رہی ہے ۔۔۔۔اشنال بخت کو اس کی بات نے سارے جواب دے دیے جو وہ اس کے بارے میں اندازے لگاتی تھی ۔۔
پتہ ہےمیں نے جو تہہ میک اپ کی منہ پر چڑھائی وہ صرف اور صرف اس لیے کہ میری الجھنوں بھری زندگی کا اندازہ کوئی میرے چہرے سے نہ لگا لے ویسے بھی لوگ حثیت اور خوشی کا اندازہ چمکتے چہرے اور رنگین کپڑوں سے لگاتے ہیں ۔ یہاں تم جس کو دیکھو گی وہ تھیں مطمن نظر آئے گا تمیں اپنا درد زیادہ لگے گا مجھے اپنا۔۔لیکن اس دنیا میں خوش کوئی بھی نہیں صرف اس نے خود کو سنبھالا ہوا ہے اور چوٹ جسے لگتی اس کے درد کا اندازہ خود کو ہوتا ہے کسی اور کو نہیں اور جس کو اپنا درد ہم بتاتے ہیں اس کی ہمدردی محض دودن کی ہوتی ہے۔۔۔
پتا ہےمیں اپنے بابا کی لاڈلی اولاد تھے ۔۔۔۔وہ نیوی ریٹارڈ تھے ہمارے گھر میں پہلے خوشیوں کا ڈیرا ہوا کرتا تھا مما سے ضد کرنا ۔۔۔بابا سے اپنی ہر خواہش پوری کروانا۔۔۔۔ سات سال کے بھائی کو چڑانا ۔۔۔۔ناول پڑھنا شاعری کرنا شوقیہ کوکنگ کرنا یہ میری زندگی کا آرٹ تھا۔۔۔کبھی مما غصے سے بات کرتی تو میں سیدھی بابا کہ پاس جاتی تھی کہ مما نے مجھ سے کام کروایا ہے میں ایک کام کرتی جو جیسے ان پر احسان کرتی تھی اب وہ ساری شوخیاں ختم ہوگئی ہیں ۔۔۔۔پہلے جو تایا میرے لاڈ اٹھایا کرتے تھے بابا کی ڈیٹھ کے بعد وہ اپنے بیٹے کی شادی صرف اور صرف اس لالچ میں کر رہے ہیں گھر میرے نام ہے وہ رشتے جو کہتے تھے کہ یہ ہماری لاڈلی بیٹی ہے ۔۔۔ بابا کے مرنے کے بعد انہوں نے بھائی کی بیٹی تک نہ سمجھا۔۔۔۔اب مجھے سمجھ آگئی ہے رشتوں کی پتا ہے ماں یا باپ کے مرنے سے زندگی کا مفہوم مر جاتا ہے ماں باپ کی لاڈلی اولادیں رل جاتی ہیں پہلے ہم زندگی کو گزار رہے ہوتے ہیں ماں یا باپ مرنے کے زندگی ہمیں گزارتی ہے ۔۔۔پتا ہے دنیا وہ کتاب ہے جو کبھی نہیں پڑھی جاسکتی اور زمانہ وہ استاد ہے جو سب کچھ سکھا دیتا ہے بس اب مجھے زندگی نہ مشکل لگتی ہے نہ آسان بس یہ ہے کہ میں زندگی گزار رہی ہوں پر اب میں مطمن ہوں وقت نے ہر حقیقت اور راز افشاں کر دیے ہیں ۔۔
اور تمھارے تایا کے بیٹے وہ۔۔۔۔۔انہوں نے تمھیں سپورٹ نہیں کیا ۔۔۔۔۔! اشنال نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔۔۔۔
؎ زندگی کچھ تو بھرم میرے احباب کا رکھ
سارے چہرے میرے سامنے عیاں تو نہ کر
ابیہا علی
کیا مطلب اشنال اسکے شعر سے سمجھ نہیں ہائی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔وہ اس کے پاس لڑکیوں سے الگ تھلگ وین کا انتظار کر ہی تھی ۔۔۔
مطلب وہ کینڈا میں ہوتا ہے اس ویک کے اینڈ پہ آ رہا ہے ابھی تک تو میں بھی یہ ہی سمجھ رہی ہوں کہ وہ کیا پتہ ایسا نہ ہو جیسے اس کے ماں باپ ہیں اس کو اچھا سمجھنا صرف اور صرف میری خوش فہمی ہے ۔۔۔۔
لو تمھاری وین آگئی میں اپنا راستہ پکڑتی ہوں تم اپنا پکڑو ۔۔۔۔۔اشنال اسے کوئی بات کرتی ہی کہ جب سارہ نے موضوع کو کلوز کیا تھا۔۔۔
کل پھر تیار رہنادونوں اکیڈمی اکھٹے چلیں گے ۔۔۔۔وہ خدا حافظ کرتی چلی گئی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ روزانہ کی طرح ہانڈی تیار کرنے ۔یں لگی تھی خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے روشنال کو آنے میں ابھی آدھا گھنٹا تھا ۔۔۔۔۔وہ یہ سوچ کر خوش تھی کہ اس کےلیے پندرہ ہزار لاکھوں کڑوڑوں کے برابر تھا ۔۔۔۔اس نے سوچا کہ پندرہ ہزار لے کر اکھٹے کرکے وہ روشنال کے سارے قرضے اتار دے گی ۔۔۔۔! وہ اس کی محتاج نہیں رہے گی ۔۔۔۔وہ اس کے آگے جھکے گی بھی نہیں ۔۔۔۔وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارے گی لیکن روشنال کا خیال تصور میں آتے ہی وہ پل بھر کے لیے ڈر گئی تھی کہ اسے کیا جواب دے گی ۔۔۔پھر دل میں سوچا کہ اسے اوور ٹائم کا بہانہ لگا دیں گی وہ ساتھ ہانڈی بنا رہی تھی اور ساتھ ساتھ چیخ چلی کی طرح خیالی پلاؤ بنا رہی تھی لیکن اس کے ہٹلر چینگیز خان کو پتہ لگنے کی دیر تھا اس کے چیخ چلی کی طرح سارے انڈے ٹوٹ جانے تھے وہ روشنال صیغیر بخت تھا وہ تو پیدا ہی خوابوں پہ وار کرنے کےلیےکیا گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکٹ سے چابیاں نکالتے وہ گھر آیا تھا تو وہ کچن میں نہیں تھی کوٹ اور لیپ ٹاپ رکھتا اس کے کمرے کی طرف بڑھا تھا ہلکا سا دروازہ کھلا ہوا تھا اس کی چپل جائے نماز کے پیچھے دیکھ کر وہ کچن میں چلا آیا اور گلاس اٹھا کہ پانی پیا ۔۔۔۔ہانڈی بالکل ہلکی آنچ پہ تھی وہ گیس کی فلیم آف کر گیا تھا۔۔۔۔۔اسکا دل کچن میں نہ لگا تو وہ کچن سے نکلتا پھر سے اس کے روم کی طرف قدم بڑھا تھا اب کی بار اس پہ نگاہ پڑتے ہی اسکا کا دل جیسے اپنے اختیار میں ہی نہ رہا ۔۔
وہ اپنے دھیان میں لگی نوٹس پہ جھکی ہوئی تھی اس کا سفید چاند جیسا دمکتا چہرہ ، ہرنی کی طرح چمکتی آنکھیں جو ہمہ وقت جھکی ہوتی اپنی ستواں ناک جس پہ وہ دائیں ہاتھ کا انگوٹھا رکھ کر سوچتی ہو پھر لکھتی ۔۔۔۔اس کے صندلی عارض ہر وقت گلابی ہی رہتے تھے اپنے مخروطی گلابی ہاتھوں میں پنسل تھامے اپنے چھوٹےچھوٹے دانتوں میں اسی پنسل کو گھساتی ۔۔۔۔۔اس کے لمبے بال آگے پیچھے بکھرے ہوئے تھے ڈوپٹہ نماز کے بعد اس نے اتار کہ اپنے گلے میں ڈالا ہوا تھا ۔۔۔۔بھشک وہ قدرتی حسن کی بے پناہ دولت سے مالا مال تھی ۔۔۔۔اپنے حسن سے بے خبر یہ بارہ سال چھوٹی بیوی پچھلے کئی دنوں سے اس کے حواسوں پہ چھائی رہتی تھی۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے پاس جابیٹھا تھا ۔
وہ جو دنیا جہاں سے بے خبر تھی اس کے پاس بیٹھنے سے اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے کھول کر چیک کر رہی تھی جیسے یہ یقین نہ کر پار رہی ہو کہ وہ حقیقت میں بیٹھا ہے ۔۔۔۔
ہم ہم ہم ۔۔۔۔روشنال معنی خیزی سے صرف اتنا ہی کیا اسکے بچوں والی حرکت سے اسے ہنسی آئی جو اس نے بامشکل دبائی تھی وہ اسے دھنک کی طرح لگتی تھی ہر بار کی طرح اس کے چہرت پر الوہی اور مختلف چمک ہوتی تھی وہ بالکل دھنک کی طرح رنگ بدلتی تھی کبھی روتی دھوتی ،یہ کبھی مسکراتی، اور کبھی شرماتی نظر آتی اپنی یہ بیوی دلچسپ اور اپنی جان سے پیاری لگنے لگ پڑی تھی۔۔۔۔
آ۔۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔ک۔۔۔کوئی کام تھا۔۔۔۔
اس کو حقیقت سمجھ کر وہ ایک دم پیچھے ہوئی تھی اور ڈر کر بولی ۔۔۔اور جلدی سے ڈوپٹہ سر پر کرکے اپنے بال چپھائے تھے ۔۔۔کہ کئی اسے اس بات پر پھر سے روشنال سزا نہ دے اس کی ایک دم سے پچھلی باتیں یاد آئی تھیں۔۔۔
اس کے ایسا کرنے سے منظر بدلا تھا روشنال نے اس کے گھٹا جیسے سیاہ بال ڈوپٹے کے نیچے چھپ گئے تھے اس کے ایسا کرنے سے روشنال اٹھ کر اس کے قریب ہوا۔۔۔تو وہ پیچھے ہوگئی تھی ۔۔۔جیسے جیسے وہ پیچھے ہوتی روشنال اس کی طرف بڑھتا ۔۔۔۔۔وہ سراسمیگی سے بیڈ کرواؤن کی سرے پر لگی تھی۔۔۔۔
سالن جل جائے گا مم۔۔۔۔مجھے جانے دیں ۔۔۔وہ ہکلائی تھی اس نے جب کوئی بہانہ تو یہ مناسب لگا تھا۔۔۔
میں فلیم آف کر آیا ہوئے یہ کہتے ہوئے اس کی طرف جھکا اور اس کے گال پہ لب رکھے تھے۔۔۔روشنال نے اس کے جانے آخری وجہ بھی ختم کر دی تھی۔۔۔
جب کہ اشنال اس کے ایسا کرنے سے ساکت ہوگئی تھی اب وہ پہلے خود اس کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا پھر کل اس نےاسے دھتکار دینا تھا وہ بعد میں خود تو دودھ کا دھلا بن جاتا۔۔۔۔۔پھر اس کی کردار کشی کر دیتا ۔۔۔۔کہ اس نے اپنے حسن دکھا کر ورغلایا تھا ۔
چھوڑیں۔۔۔۔۔اشنال کے ذہن میں سوچ آتے ہی اس نے اپنے ہاتھ اس کے چوڑے سینے پر رکھے اور اسے پیچھے دکھیلا تھا۔۔۔غم اور غصے شدت سے اشنال کا چہرہ لال تھا اس کا جب چاہے اسے دھتکار دے جب اپنےپاس بلا لے وہ کوئی چابی کا کھلونہ نہیں تھی جیسے وہ چلاتا وہ چلتی اس کے اندر بھی انا تھی اس کے اندر بھی احساسات تھے اس نے کسی کو اجازت نہیں دی تھی کہ کوئی بنا اجازت اس کے پاس بھی آتا ۔۔۔۔۔۔لیکن وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ روشنال بخت اس کا شوہر ہے اس نے اجازت اس پر حقوق رکھتا تھا۔۔۔۔۔
وہ غصے سے اس پیچھے دکھیلتی اٹھی تھی روشنال اس کے ایسا کرنے سے حیران ہوا تھا۔۔۔
وہ اس کے ایسا کرنا سے اس سے ہاتھ سے پکڑتا خود بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے چھڑاتی پھر دور ہوئی تھی۔۔۔۔
جب کہ روشنال اس کی ضد کو دیکھتا زور سے اپنی طرف کھینچھا تھا وہ اس کے سینے سے آلگی تھی اس کا ڈوپٹہ سر اتر گیا تھا اس نے اس کی کمر سے پکڑا تھا اشنال کی ہمت جواب دینے لگی تھی ۔