قسط: 11
میں کہہ رہی ہوں دور رہیں مجھ سے۔۔۔۔! وہ ضبط کی آخری انتہا پر تھی وہ خود کو اس سے چھڑواتی ہوئی دور ہوئی تھی ۔۔۔
مسئلہ کیا ہے تمھارے ساتھ ۔۔۔میں تمیز سے پیش آ رہا ہوں تمھاری اکڑ ہی ختم نہیں ہو رہی۔۔لیکن مجھے لگتا ہے مجھے کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔۔۔۔
اپنا اگنور کرنا تو روشنال ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر پایا تھا۔۔
اب کی بار روشنال کا دماغ گھوم گیا تھا اسے اپنی طرف کھینچا اس کی کمر پر اپنے بازوؤں کی گرفت سخت کرلی تھی۔۔۔
وہ اونچا لمبا شاندار شخصیت کا شخص اس کے حسن سے بہک گیا تھا۔۔۔
کیوں اب تمیز کیوں کر رہے ہیں میں نے کہا ہے یا آپ کے پاؤں پڑ کے اپنے عزتِ نفس کی بھیک مانگی ہے۔۔۔
آپ مجھ جیسی واہیات عورت کے قریب کیوں آتے ہیں ۔۔۔وہ پہلی رات والا فقرہ دہرا گئی تھی جو اس کے دل میں کسی انی کی طرح چبھا تھا وہ اس کے لفظوں کو بھلا نہیں سکی تھی وہ پھٹ پڑی تھی آپ اس رات مجھے بیوی نہیں بلکہ طوائف۔۔۔۔!
اشنال وہ غصے سے چیخا تھا۔۔۔۔!اور اپنا ہاتھ مارنے کےلیے بڑھایا تھا مگر پھر ضبط کرکے بڑی مشکل سےروکا تھا
کیا کریں گے ماریں گے مجھے ۔۔۔۔۔؟ ماریں رک کیوں گئے ہیں اور آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔۔۔۔ یا پھر سے میری روح پر زخم لگائیں گے وہ اونچی ہوئی اب کی بار پھر سے اسے دھکا دیا تھا ۔۔۔۔
نہیں آج ماروں گا نہیں ۔۔۔۔آج۔۔۔۔۔کچھ نیا کروں گا۔۔آج تمھارے لہجے کی بغاوت ختم کروں گا اور اس رات جو کام غصے اور ہوش کھوکر کیا تھا آج حوش و حواس ۔۔۔
یہ کہتا اپنی بات ادھوری چھوڑ گیا تھا۔۔۔
اس کی اگلی بات سے اس کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اس کی طرف بڑھا تھا اور اسکی کلائیوں سے پکڑ کر اسے بازوؤں میں اٹھاتا بیڈ پہ پٹخنے کے انداز میں بیٹھایا تھا۔۔۔
نہ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔پلیز رو۔۔۔۔آپ ایسا ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔کرسکتے ۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتے پیچھے سرکنے لگی تھی ۔۔۔۔
وہ اس کے پاس بیٹھا تھا اور اسے پھر سے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔
ر۔۔۔روشنال پلیز نہ کریں ۔۔۔۔وہ چیخی تھی۔۔۔
روشنال اسکی خوفزدہ ہرنی جیسی سہمی آنکھیں دیکھی اسے ایسا لگا کہ اس کی آنکھیں افسانے لکھ رہی ہوں اس کی آنکھیں اس کی لرزتے لب اسکا معصوم حسن دیکھ کر اسکی ہاٹ بیٹ مس ہوئی اس نے بغیر پرواہ کیے اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔۔۔
نن۔۔۔۔نہی۔۔۔۔نہیں کریں نہ۔۔۔۔۔!
اس کے خوف سے نکلتے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو وہ خود میں سموتا بند کر گیا تھا۔۔۔اور کچھ دیر بعد اسے چھوڑا تھا اسکے اس عمل سے اشنال کی سانس اکھڑ گئی تھی ۔
کچھ نہیں کر رہا بس ۔۔۔وہ اس کے بال سہلاتا اسے ریلیکس کرتا ہوا بولا تھا جو اس کی قربت میں کانپ رہی تھی ۔۔۔
اس کے بعد اسکے گال اور آنکھوں پہ لب رکھے تھے ۔۔۔
مجھے نہیں پتہ کہ تم پھر سے میرے لیے اہم کب سے ہونے لگی ہو۔۔۔یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ مجھے اپنی پہلے والی ایشو سے زیادہ پیاری لگنے لگی ہو۔۔۔۔شاید یہ نکاح کا اثر ہے اور ہاں ایک غور سے سنو نہ میں تمھیں دھتکارنا چاہتا ہوں اور نہ اتنی غیر اہم ہو تم میری زندگی کا لازمی جزو بن گئی ہو ۔۔۔۔۔وہ اپنے لطیف احساسات اس تک سرگوشی میں پہنچا رہا تھا۔۔۔
اپنی پاکٹ سے R نام کا لاکٹ نکالا اور اس کی گردن میں پہنایا تھا اور اپنے لب اس کی نازک سفید گردن پہ رکھے تھے روشنال کے بازوؤں کے حلقے میں اس کے بے باک لمس پہ وہ کانپ کے رہ گئی تھی اسکے لفظ اس کے اوپر سے گزرے تھے۔۔۔
یہ فون لو ۔۔۔۔رات کو میں کال کیا کروں گا ۔۔۔دروازہ صیح سے بند کرلینا کوئی بھی آ جائے کھولنا مت اسے میری دھمکی سمجھ لینا یا گزارش ۔۔۔۔۔!اگر ذرا سی کھٹ پھٹ کی آواز بھی آئے نہ تو مجھے کال کر دینا ۔۔۔۔۔ہوسکتا ہے تین سے چار دن تک میری واپسی ہو۔۔۔۔اور خود کی حفاظت میری امانت سمجھ کر کرنا۔۔۔اسکے چہرے کو ہاتھوں میں پکڑتا نرمی سے اس کے ماتھے پر لب رکھتا ہوا بولا تھا۔۔۔۔
رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی کالج کےلیے تیار رہنا ۔۔کھانا ٹائم پہ کھانا ۔۔۔اگر بوریت محسوس ہوئی تو فون پہ
کوئی چیز دیکھ کر دور کر لینا۔۔۔۔ اور ہاں یہ تمھارے لیے لایا تھا۔۔۔۔وہ اپنی سائیڈ پاکٹ سے دو تین چاکلیٹ اس کی گود میں رکھتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔
اللہ حافظ فی امان اللہ ۔۔۔۔۔وہ یہ کہتا اب کی بار اس کی آنکھوں لب رکھتا اسے چھوڑتا باہر نکل گیا تھا وہ پیچھے اس کی چوڑی پشت کو گھورتی رہ گئی تھی۔۔۔
آج اشنال کو تین مہینے بعد پہلی بار اس سے اپنائیت ہوئی تھی آج اسکا بخشا ہوا لمس بالکل اسے اپنے بابا کی طرح لگا تھا اس کے اس لمس پر اسکی آنکھیں بھیگنے لگی تھی ۔۔۔ اسے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ دو تین دن کا کیوں کہہ کے گیا تھا پہلے وہ اس طرح کیوں کہہ کے گیا تھا۔۔
اشنال دوازہ بند کر لو۔۔۔۔اس کی آواز سنتی وہ چاکلیٹ اور فون سائیڈ رکھتی باہر نکلی تھی۔۔۔۔
وہ دروازہ بندکرنے کےلیے اس کے پیچھے گئی تھی جب وہ اسکو سلیوٹ مارتا حیران پریشان چھوڑ کر اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے کیوں بلوایا مجھے۔۔۔ کوئی کام تھا کیا؟۔۔۔۔۔روشنال نے عجلت میں پوچھا تھا۔۔۔
ہاں مجھے وکیل ہائیر کرنا تھا آپ کا سنا تو چلی آئی ہوں وہ جو جیسی بھی پر روشنال کو اسے ناگواری محسوس ہوئی تھی۔
میں نے یہ فیلڈ پیچھے دو سال سے چھوڑی ہوئی ہے اس لیے معذرت۔۔ روشنال نے بڑی سہولت سے انکار کیا تھا۔۔۔
شیر شکار چھوڑ بھی دے تو رہتا وہ شیر ہی ہے گیڈر نہیں بن جاتا وہ اس کی شاندار شخصیت کو دیکھتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔!
آپ مجھے کیسے جانتی ہیں ۔۔۔۔۔؟وہ مدعےکی بات پہ آیا اور انتہائی سنجیدگی سے بولا تھا
جی میں نے آپکا بڑا نام سنا تھا سنا ہے آپکا نام اس شہر کے ٹاپ لسٹ وکیلوں میں آتا ہے اور میں نے کافی آپ کے بارے میں پوچھ گچھ بھی کرائی ہے ۔۔۔۔۔!وہ کافی مغرورانہ لہجے میں بولنے لگی تھی کیونکہ اسے لگا کہ اس کا ہائیر کیا گیا وکیل کافی زیادہ ایج کا ہوگا ۔۔۔لیکن اپنی سوچ کے برعکس اس شخص کو دیکھا اور دیکھتی رہ گئی تھی۔۔
بلیک کلر کے سوٹ میں ۔۔۔اونچا لمبا قد، چوڑے مضبوط شانے ۔۔۔۔سیاہ گنھیرے بال پیشانی پہ آئے ہوئے تھے سمپل بلیک کلر کی چپل پہنے وہ اپنی تئیں رف سے حلیے میں تھا اپنے بازوؤں میں باندھی گھڑی کو باربار دیکھتا وہ شاید مجبوری میں کھڑا تھا اسے لگا کہ وہ کئی جانے کی تیاری کر رہا تھا۔۔
میں مسز عرفان درانی ہوں۔۔۔۔وہ اپنی طرف سے اسے متاثر کرتی ہوئی بولی تھی کیونکہ عرفان دورانی بہت بڑا بزنس مین تھا جس کی دولت کے چرچے دیکھ کر اس نے عرفان درانی سے شادی کی تھی۔۔
پنک کلر کی ٹی شرٹ میں بالوں کی اونچی پونی ٹیل کیے روشنال کو وہ کافی بولڈ لگی تھی جو شاید اسے متاثر کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔۔
تو مس آپ اپنا کیس بتائیں ہوسکتا ہے اس مسئلے پر روشنی ڈالیں ۔۔۔۔روشنال نے پہلے اس سے وجہ پوچھنی چاہی تھی۔۔
میں عرفان درانی سے ڈائیورس لینا چاہتی ہوں آپ اس معاملے میں میرا ساتھ دیں گے اور یہ بات میڈیا تک نہیں چاہیے؟وہ اسے آرڈر دینے والے انداز میں گویا ہوئی ۔۔
اس میں کیا مشکل ہے آپ مانگے تو وہ دے دیں گے۔۔روشنال بخت اس معاملے کو نہیں جانتا تھا اس لیے یہ لفظ آسانی سے کہے تھے۔۔۔
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے آپ نے یہ والا محاورہ تو سنا ہوا ہے نا۔۔۔! اس بـڈھے کو جب تک عدالت میں نہ گھسیٹ لوں مجھے آرام نہیں آئے گا اس سے پہلے وہ آپ تک پہنچ پاتا میں نے آپ کا پتہ کرایا اور ۔۔۔۔وہ اپنی ایک ٹانگ کو ٹانگ کو دوسری ٹانگ پہ رکھے پاؤں ہلاتی ہوئے بولی تھی۔۔۔!
تو آپ پھر یہ بھی جانتی ہوں گی کہ میں اپنے کیس کی منہ مانگی رقم لیتا ہوں۔۔۔۔۔اس نے جیسے باور کرایا تھا۔بس آپ میری جان چھڑا دیں آپکو اتنی رقم دوں گی کہ آپ ساری عمر بیٹھ کہ کھائیں گے تو بھی ختم نہیں ہوگی
آئمہ درانی نے لالچ کا پتہ پھینکنا چاہا تھا وہ پنتیس سال کی خاتون تھی اس لیے ہر کسی سے شطرنج کھلینا اس کی سرشت میں شامل تھا پر وہ نہیں جانتی تھی کہ روشنال نہ صرف وکیل تھا بلکہ بہت بڑا شطرنج باز تھا جو سارے مہرے کرنا جانتا تھا جس کا کام ہی الٹی بساط کھیلنا تھا۔
مسز دارنی آپ نے جب میرے بارے اتنی انویسٹگشن کروائی ہے تو تو یہ پتہ کروانا تھا کہ سود لینا میری فطرت نہیں ہے میں بس اپنی محنت کا پھل لیتا ہوں اپنی تین سالہ وکالت کے کرئیر میں کسی کے ایک روپے کا بھی حقدار نہیں رہا یہ علیحدہ بات ہے کہ میں اب یہ فیلڈ چھوڑ دی ہے ۔۔۔۔آپ نے اگر کام کراونا ہے تو فائل دے لالچ نہیں ۔۔۔۔۔نہیں تو وہ ڈور ہے جائیں ۔۔۔۔اور ڈور کا آٹو میٹک لاک ہے ۔۔۔۔وہ اسے دوروازے کی طرف اشارہ کرتا ہوئے بولا تھا۔
نہیں نہیں وکیل صاحب آپ تو برا ہی مان گئے ہیں میں نے تو آپکی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔آئمہ درانی اپنے بالوں کی لٹ کو ہاتھ میں لپیٹٹی بات سنھبالنے کی کوشش کی تھیں دراصل میں اس لیے آپ کو کہہ رہی ہوں کہ معاملہ رازداری میں ہو اور اسکی بھنک تک کسی کو بھی نہ پڑے آپ سے کچھ کانٹریکٹ سائن کروانے ہیں اس کے بعد اپنا کیس آپ کو دیکھاؤں گی ۔۔
اگر آپ کو اعتبار نہیں تو میری صلاح ہے کہ آپ کوئی اور دروازہ کھکھٹائیں ۔۔۔۔کیونکہ جہاں اعتبار کے پنچھی نہ آئیں تو میں پھر اڑا دیتا ہوں ۔۔۔۔وہ اپنی ازلی ٹون میں بولا تھا۔۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے آپ پہ پورا اعتبار ہے ۔۔یہ فائل دیکھ لیں ۔۔۔۔آئمہ درانی ایک دم ہچکچائی تھی کیونکہ یہ بندہ اس کےلیے ٹیڑھا محسوس ہوا تھا کیونکہ وہ اسے جتنا رجھانے اور معاملے کو سلجھانے کی کوششش کرتی وہ اتنی ہی ناگواری سے اس کی ہربات کو رد کر رہا تھا
وہ مسکراتے ہوئے فائل پکڑاتے اس کے ہاتھ کو ٹچ کرتی ہوئی بولی۔۔۔
ٹھیک ہے آپ جاسکتی ہیں۔۔۔۔وہ غصے کو ضبط کرتا سختی سے بولا تھا۔۔
کچھ دیر وہ فائل کھول کر قابلِ غور کرتا رہا لیکن اسے اس کیس بہت الجھا ہوا لگا پچھلے تین سال سے وہ عرفان درانی کی کمزوری نہیں سمجھ پایا آج کمزوری کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں لگا تھا جسے وہ حسنال کو بتا سکتا تھا اس لیے کچھ فیصلہ کرتا ہوا اٹھا تھا ۔۔۔
وہ چابیاں اٹھاتا بخت ولا کےکیے نکل آیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈور بیل بجی تو تہمینہ بیگم نے دروازہ کھولا تھا۔۔۔
روشنال کو دیکھ کر ٹھھٹکی تھی ۔۔۔۔۔۔! وہ کوئی دستی بیگ لیے کھڑا تھا۔۔۔
کیسا ہے میرا چاند ۔۔۔۔۔۔اسے سامنے دیکھتے ہوئے ان کے منہ بس یہ ہی نکلا تھا تین مہینے بعد اس کو اپنی نظروں کے سامنے ان کو جیسے قرار آیا تھا ۔۔۔۔
باپ سے ناراضگی تو ٹھیک تھی پر میری کیا غلطی تھی جو اپنی پیدا کرنے والی کو بھول گئے تھے وہ اسکو تین مہینے بعد سامنے دیکھ کر روازے پر ہی گلے شکوے شروع ہوگئیں تھیں ۔۔۔
نہیں امی آپ میری ماں ہیں میں آپ سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں اور مائیں بھی کوئی بھولنے والی چیزیں ہیں میں بابا سے بھی ناراض نہیں ہوں ۔۔۔
اس نے شرمندگی سے جواب دیا تھا۔۔۔
اندر آؤ ۔۔۔۔۔انہوں نے حکم دیا تھا۔۔۔
نہیں معذرت امی پر میں نہیں آؤں گا۔۔۔۔انفیکٹ میں تو یہاں آنا ہی نہیں چاہتی تھا دراصل امی میں بابا سے ہی ملنے آیا ہوں حسنال نے کل تین مہینوں میں مجھے پہلی بار فون کیا تھا کہ بابا کی طبعیت خراب ہے اس لیے میں آیا ہوں اس نے تیز لہجے میں کہا تھا۔
تو کیا رسمِ دنیا نبھانے آیا تھے کہ دروازے پر ہی مل کر چلے جاؤ گے آجاؤ جب کہ تہمینہ بیگم روشنال کو بازوؤں سے پکڑ تے لاونج لے آئی تھیں ۔۔
برخوردار آگئی ہے یاد مجھے تو لگا تھا اتنے ناراض ہوگئے ہو کہ اب قبر میں ہی اتارنے آؤ گے ۔۔۔! صیغیر صاحب بیٹھے نیوز سن رہے تھے جب بیوی کے پیچھے آتے بیٹے کو دیکھا تھا اور اٹھ کر کھڑے ہوئے تہمینہ بیگم خاموشی سے اسے باپ کے پاس چھوڑ تی خود کچن کی طرف چلی گئیں۔۔۔۔
بابا ۔۔۔۔پلیز ایسی باتیں نہ کریں میں پھر سے چلا جاؤں گا وہ آکے شدت سے ان کے سینے سے لگا تھا اور کچھ دیر بعد تک لگا رہا تھا۔۔۔
ہاہا یہ دیکھیں لیلہ مجنوں کی طرح عشق جاگ رہا ہے مجھے تو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے ۔۔۔۔روشنال اور اپنے باپ کو گلے سے لگے دیکھ کر وہ سیڑھوں سے اتر آیا تھا۔۔
جبکہ صیغیر صاحب اس کی بات پہ ہنسے تھے۔۔۔
بھائی بات سنیں میری ۔۔۔۔ آج پہلی دفعہ یہ بالکل ریما کی طرح ہنس رہیے نہیں آغا جان اور یہ دونوں مجھے کتنے دنوں سے بات چیت کرنا بند کی ہیں کہ میں اپنی جاب سے رایزئن دے دوں ۔۔۔۔۔صرف اس لیے کہ میری جان کو خطرہ ہے آپ نے ان کی محبت میں نے اپنے کیر ئیر کی قربانی دے دی ہے لیکن میں صرف ایک ان کی محبت کو دیکھ سکتا ۔۔۔لیکن میری وطن سے محبت اتنی ہے کہ میں خود تو قربان ہوسکتا ہوں لیکن جاب چھوڑنا میرے لیے ناممکن ہے۔۔۔پتہ ہے آپکو جرنلسٹ بننا میرا خواب تھا اس کےلیے میں نے دن رات محنت کی ہے اب جب میری منزل قریب ہے تو میں کیوں اپنے ارادے سے پیچھے ہٹوں ۔۔۔آپ ہی بابا کو سھھائیں وہ روشنال ایک دم سے مذاق سے ہٹتا سیریس موڈ میں آیا تھا۔۔۔
تو کیا بابا جان۔۔۔۔۔کرنے دے دے نا جاب اسے ۔۔۔۔جب یہ پچھلے سات مہینوں سے کام کر رہا ہے ابھی تک کچھ نہیں ہوا تو انشاء شاللہ آگے بھی کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
میں اسے منع کروں بھی تو اس الو کے پٹھے نے کون سا رک جانا ہے یہ لیکن یہ تو چار دن ہوگئے ہیں راتیں گھر سے باہر گزارتا ہے نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا حوش۔۔۔۔اس نے مجھے یہ تک نہیں بتایا اس کے فون پہ لوگ اسے دھمکیاں دے رہے ہیں وہ بھی مجھے پتہ لگا ہے تم مجھے نہیں اسے سمجھاؤ۔۔۔۔۔وہ حسنال کی طرف سے منہ پھیر کر غصے سے بولے تھے۔۔۔
بابا پلیز آپ اتنی چھوٹی چھوٹی پریشان کیوں ہوتے ہیں میرے ان ہاتھوں کی لکیروں میں جتنی زندگی لکھی ہے میں اتنی ہی کاٹ کر جاؤں گا۔۔۔۔
وہ ایک دم سے ان کے پاس بیٹھتا ان کو ہگ کرتا شرارت سے بولا تھا۔۔۔
اور اگر کسی نے کیس تم پر ہی الٹا کر دیا جیل بند کروادیا تو پھر کیا کرو گے ۔۔۔۔! پھر بیٹھ کر روؤ گے ساری زندگی ۔۔۔
پھر اس طرح ہوتا ہے نہ اس طرح کے کاموں ۔۔۔۔وہ مذاق سے بولا تھا وہ انہیں اور چڑا گیا صیغیر صاحب نے اس سے منہ بالکل پھیر لیا تھا۔۔۔
روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں جھانسی رانی کے پیا۔۔۔
وہ ان کو ناراض ہوتا دیکھ کر انہیں بات سے ہٹانے کےلیے اپنی ماں کی دیکھ کر ان کے قدموں میں جابیٹھا تھا۔۔
حسنال باز آجاؤ ۔۔۔۔۔تہمینہ بیگم نے ٹیبل پہ چائے رکھ رہی تھء جب اس کو اول فول بکتے دیکھ کر اسے خون خوار نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔
اپنی ماں کے ارادے دیکھتا وہ باپ کے قدموں سے اٹھتا بسکٹ اٹھاتا یہ کہتا پھر سے سیڑھیوں کی اوپر چڑ رہا تھا ۔۔
وکیل صاحب میرا حصہ اپنی جیب میں رکھ لینا یہ ہو نہ اس نازک صورتحال میرے لیے کچھ نہ بچے ۔۔وہ سیڑھی پہ قدم رکھتا پلٹ کہ بولا تھا جب کہ روشنال اس کے الٹی حرکتوں سے اتنے عرٖصے پہلی دفعہ ہنسا تھا پہلی دفعہ محفوظ ہوا ۔۔۔حسنال کی وہ چال سے وہ شروع سے واقف تھا جس طرح وہ باپ کو چکمہ دے کر بھاگا تھا وہ اسے دل ہی دل میں سرائے بغیر نہ رہ سکا تھا۔
چھوڑو اسے یہ کوئی بات تمھیں ڈھنگ کی نہیں کرنے دے گا تم اشنال کو کیوں نہیں ساتھ لائے۔۔۔۔۔صیغیر صاحب نے اس سے پوچھا تھا۔۔۔
بابا اس کے پیپر ہو رہے ہیں فلحال۔۔۔۔اتوار لے آؤں گا۔۔۔۔اس نے جان بوجھ کرجھوٹ بولا تھا اور خالہ کو دیکھا جو اس کی بات سنتی غصے اور طیش سے آرہی تھی ۔۔
اس لڑکی کو تم گھر لے کہ آئے تو یہ بھول جانا کہ میں تمھاری خالہ ہوں اور تمھاری ماں کی بہن ہوں ۔۔۔۔تم نے میری بیٹی کو دھوکہ دیا ۔۔۔۔پہلے چار سال اسے منگنی کر کے دغا دیا ۔۔۔میری معصوم بچی کی زندگی خراب کرکے تم خود عیش سے جی رہے ہو اور اس مہارانی کو پھولوں کی سیج پر بیٹھایا ہوا ہے ۔۔۔۔میں بھی کتنی بے وقوف ہوں نا کہ ان سب کو اپنا سمجھتی رہی پر مجھے آج سمجھ آئی کہ تم سارے اس چال میں شامل تھے ۔۔تم ساروں نے اس پرائے خون کی خاطر میری معصوم بیٹی کی زندگی خراب کی ہے ۔۔۔۔تہمینہ بیگم روشنال کو ہنستے دیکھ کر غصے سے پاگل ہوگئی تھیں ۔۔
خالہ آپ غلط باتیں نہ کریں اور نہ امی ابو کو اس سارے معاملے میں شامل کریں ۔۔۔میں بس تھوڑی دیر کےلیے آیا تھا۔۔۔۔۔وہ اپنے لہجے کو نرم کرتا تمیز سے بولا تھا اور ویسے بھی وہ ان سے نظریں جھکا کر باتیں کیا کرتا تھا۔
آج خود آئے تو کل اپنی اس بدکردار بیوی کو لاؤ گے پہلے وہ حسنال پر ڈورے ڈالتی رہی ۔۔۔۔
بس خالہ ایک لفظ اور نہیں بہت لحاظ کرلیا میں نے آپکا ۔۔۔۔اب میری معصوم بیوی کے بارے میں اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نکالا تو میں بھول جاؤں گا کہ آپ کا اور میرا رشتہ کیا ہے میں یہ بھول جاؤں گا کہ آپ میری خالہ ہیں اور یہ تو بالکل یاد نہیں رکھوں گا کہ آپ میر مرحوم چاچو کی بیوی ہیں اور جہاں تک بات ہیں نا میری بیوی کے کردار کی تو اس کا کردار اتنا صاف جتنا کہ صاف شفاف موتی ہوتا ہے وہ اتنی تیز آواز تین سے بند اندر بیٹھی منال کانپ کر رہ گئی تھی
خالہ بے شک آپ اسکی ماں تھی ماں کے ہوتے ہوئے بھی اس کی تربیت نہیں ہوئی اگر آپ اسے ہر بری بات سے منع کرتی وہ اس حد تک نہ گرتی وہ اتنی چالباز اور دھوکے باز نہ ہوتی ۔۔۔سچ بات ہے آپ نے اس کی تربیت نہیں کی اسے صرف پالا ہے آپ اپنی محرومیوں اور کمیوں کا بدلہ اس سے لیتی رہیں اس کو ٹارچر اور پریشرائز کرتی رہیں
پتا ہے جب ہاتھی کا بچہ چھوٹا ہوتا ہے اسے لوہے کی زنجیروں سے بند دیا جاتا ہے تا کہ ہو کر اپنی زنجیریں نہ توڑ دے پھر وہ ہاتھی کا بچہ مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ ان مضبوط زنجیروں سے آزاد ہو جائے لیکن اس کی کوشش نا کام ہو جاتی ہے ۔۔۔اور جب بڑا ہوتا ہے اس کے پاس ہمت بھی ہوتی ہے طاقت بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک سیکنڈ میں اسے توڑ دیں ۔۔۔لیکن وہ دماغ نہیں ہوتا جو کسی کی غلامی کی زد میں آجاتا ہے ۔۔۔اس طرح آپ نے اسکا دماغ اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کہ وہ کچھ اچھا سوچ سکے بس اتنا ہی کہنا تھا یہکہہ کر جانے لگا تھا۔۔۔
اور ہاں ایک بات یہ ہے اپنی بیٹی کے ہاتھ کی رائٹنگ کا اس خط سے موازنہ کر لیجئیے گا میری بیوی کی رائٹنگ اس رات کے خط میں ایک پرسنٹ کا میل بھی نہیں ہے اور اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا مجھے آپ کی بیٹی سے نفرت نہیں ہے اس سے ہمدردی ہے اس پر ترس آتا ہے کہ اس کے اندر کوئی تو خامی تھی کمی تھی جس لمحے اس نے اشنال سے نفرت کی اور ان کمزور لمحوں نے اس سے گھٹیا کام کروایا تھا اور اس سے اس بات کا احساس بھی نہی ہے ۔۔
کہاں جارہے ہو آج رات تو رک جاؤ۔۔۔۔۔! وہ سب کو حیران پریشان چھوڑ کر جا رہا تھا ۔۔جب تہمینہ بیگم اس کے آگے آئی اور اس کو روکتے ہوئے بولیں۔۔۔
نہیں امی میرا کام ہے ۔۔۔۔میں دو تین شہر سے باہر ہوں میں اپنے کیس میں الجھا ہوا ہوں۔۔۔۔۔بس آپ کی دعا چاہیے وہ جھکتا ان کے ہاتھ چومتا ماں سے دعا لیتا نکل گیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال اس کی لفظوں سے زمین میں دھنسی جارہی تھی وہ اپنی نفرت کا اتنا پتہ لگا کر چلا گیا تھا آج تیسرا روز اس کی ماں اسے اندر کھانا دے کر جاتی تھی اس کے سائیڈ ٹیبل پر کھانا رکھ کہ چلی جاتی تھی وہ اس سے اس کا حال تک پوچھنا گوارا نہیں کرتی تھی حسنال نے اس واقع کے بعد اسکی خبر نہیں دی تھی روشنال کو گئے دو گھنٹے ہو گئے تھے وہ تب سے روئی جا رہی تھی اس کے الفاظ اس کے دل میں کھب کر رو گئے تھے اس کی طبعیت خراب ہو رہی تھی اس نے دل میں اتنا تہہ کر لیا تھا کہ وہ اب خود کی تربیت خود کریں گی اور خود کےلیے خود جیے گی اس کو سانسوں کا مسئلہ ہوا تھا۔۔۔ اس کی طبعیت پھر بگڑنے لگی تھی وہ سانس لینے کی کوشش میں آدھی ہوگئی تھی جب اپنی کمر پہ اسے بازوؤں کا حصار معلوم ہوا تھا۔۔۔۔