تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 14

اشنال پلیز میں معافی مانگتا ہوں آئندہ کبھی نہیں کرونگا ڈانٹوں گی بھی نہیں ۔۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔اس کو ڈھاڑیں ماڑ ماڑ کر روتا ہوا دیکھ کر وہ پہلی بار التجائی ہوا تھا۔۔۔۔۔!
نہیں رہنا میں میں نے آپ جیسے جنگلی انسان کے ساتھ میری زندگی تباہ کر دی ہے آپ نے۔۔۔۔!مجھے اپنا قیدی بنایا ہوا ہے آپ نے۔۔۔۔میری زندگی کو عذاب بنا دیا ہے ۔۔۔میرا دم گھٹتا ہے آپ کی اس گھر میں ۔۔۔۔آپ مجھے قید کر کے مارنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔میں تھک گئی ہوں۔۔۔۔مجھے رہائی دے دیں میرا دل کرتا ہے میں کھل کے سانس لوں وہ سانسیں جو آپ نے قید کی ہیں ۔۔۔۔۔آپ سمجھتے ہیں میں آپ کی ملازمہ ہوں ۔۔۔ہر وقت کام کراوتے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ نے مجھے کسی محکوم کی طرح رکھا ہوا ہے جب دل کیا مارا۔۔۔۔جب دل کیا ڈانٹا پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔آپ جب یہاں نہیں تھے تو مجھے میری زندگی جنت لگتی تھی میں آپ کی غیر موجودگی میں میری زندگی میں سکون تھا ۔۔۔۔ اس غلطی کی سزا آپ مجھے دے رہے ہیں جو میں نے کبھی کی ہی ۔۔۔۔آپ نے اس کے بدلے میری روح پر بھی زخم لگائیں میرے دل کو بھی چھلنی کر دیا۔۔پھر بھی آپکی نفرت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی ۔۔میں سمجھتی تھی آپ میرے سپر مین ہے جو میرے سامنے کھڑی ہر مشکل کو ختم کر دیں گے لیکن آپ نے میری زندگی ہی مشکل کردی ہے میری سانسیں تنگ کر دی ہیں ۔۔۔آپ کی گندی ذہینت میں یہ بھی جائے گا کہ میں اکیلے کیسے رہ لیتی ہوں تو سن لیں اب آپ نے مجھے تنہائیوں کا ساتھی کر دیا ہے ۔۔۔پراس تلخی بڑی زندگی نے ایک بات تو سمجھائی ہے نا جہاں احترام اور سچا خلوص وہاں رشتے بڑھائیں ورنہ تنہائی آپ کی بہترین ساتھی ہے۔۔۔۔۔اور ایک بات اور اسےمیری ضد سمجھے یا گزارش ۔۔۔مجھے آزاد کر دیں پلیز۔۔۔۔آپ نے میری زندگی بالکل قید کر دی ہے میری زندگی کو اسیر بنادیا ہے رہائی دے دیں مجھے پلیز ۔۔پر آپ تو غاضب ہیں جو میری خوشیاں غضب کرگئے میری زندگی میں آگ لگا کہ آپ تو پرسکون سو جاتے تھے پر مجھے نیند نہیں آتی تھی میں ساری رات رات عذابوں سے گزارتی تھی وہ رب آپ سے میرے درد کا حساب لے لے گا میں نے اپنے فیصلہ اللہ پہ چھوڑ دیا ہے وہ اللہ میرے درد کا حساب لے گا۔۔۔
وہ چیخ کہ روتی ہوئی اپنے لفظوں سے اسکا دل جلا گئی تھی ۔۔۔وہ تو آگے پچھلے سارے حساب بے باک کرگئی تھی۔۔۔
جب کہ اس کے الفاظ سن کر باہر بیٹھا روشنال آج اس کے لفظوں سے ہار گیا تھا اس کے دل پہ ایسے لگتا تھا کسی نے زوردار برچھی ماری ہو اور خون جیسے رس رس کے اندر ہی جم گیا ہو ۔۔وہ تو اسے زمانے کی بے رحم نظروں سے بچانا چاہتا تھا کسی سایہ دار درخت کی طرح اس پر چھاؤں کرنا چاہتا تھا پر وہ بھول گیا تھا کہ جسم پر لگے زخموں کا علاج تو ہوجاتا ہے لیکن دل اور روح پر لگے زخموں کا علاج ناممکن ہے ۔اس کے لفظوں پر روشنال کی روح پر تایازنے لگے تھے وہ خالی خالی دل لیے صوفے پہ ہی لیٹ گیا تھا روشنال کو تو محبت تھی اس سے اس لیے اس کا خیال رکھنا چاہتا تھا سایہ بن کر ساتھ رینا چاہتا تھا لیکن اپنی اس محبت کے لفظ سن کر بے بس ہوگیا تھا
محبت لکھنے میں تو بہت چھوٹا لفظ ہے مگر یہ مبت انسان کو ہمیشہ بےبس کر دیتی ہے کبھی چھاؤں بن کے سایہ دیتی ہے تو کبھی دھوپ بن کہ کسی تپتے صحرا میں لاکھڑا کرتی ہے اس کو بھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس تپتے صحرا میں کھڑا ہے
سخت لگی ہے اور راستہ بھی مل گیا مگر اسے منزل نہیں مل رہی ۔۔۔وہ سچ کہتی تھی کہ اس نے اسے قید کیا ہے اور اپنی محبت میں اس کو قید نہیں کرنا چاہت تھا سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں چلا گیا تھا۔۔۔
Abeeha Ali novel
********
صاحب ۔۔۔یہ تمھارا دو روپے کا سکہ گرگیا تھا۔۔۔۔وہ ڈاڑھی والا شخص عرفان درانی کے پیچھے آتا ہوا بولا تھا۔۔
کون ہو تم۔۔۔۔۔؟ہر دوسرا تیسرا فقیر یہاں گھسا ہوتاہے۔۔۔
عرفان دارنی اس شخص کے حلیے کو دیکھتا ناگواری سے بولا تھا ۔۔۔
صاب ۔۔۔۔ام ادھر نیا ڈرائیور ہے ۔۔۔۔!بالوں پر تیل سے اٹے شخص نے مجبوری سے کہا تھا۔۔۔۔!
کون لایا ہے تمھیں ۔۔۔۔اور شیرو کہاں ہے ہر دوسرا تیسرے دن فقیر گھسا ہوتا ہے یہاں ۔۔۔۔؟
صاب۔۔۔۔ام کو۔۔۔۔۔شیر ۔۔۔خان لایا ہے۔۔ صاب جی ام شیرو کا بھائی ہے شیرو بیمار تھا اس لیے ام آیا ہے ۔۔وہ ادھیڑ عمر ۔۔۔۔شخص پریشانی سے بولا تھا۔۔۔
چلو جی اس کی کمی تھی ۔۔۔عرفان درانی نے ایک طاہرانہ نظر اس پہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔جو پھٹے ہوئے کپڑوں پہ سر پہ سرخ رنگ کا پرنہ رکھے بے بسی کی تصویر تھا ۔۔۔ عرفان درانی نے ایک نظر اسے دیکھا جو حلیے سے شیرو کا بھائی لگ رہا تھا شیرو جو اسکا بہت ہی ڈرائیور تھا اس کو اپنی اترن دے کر عرفان دارنی نے اسے بے بس کیا ہوا تھا وہ اسے اپنے کپڑے دیتا تو شیرو انسان مند نظروں سے اسے دیکھتا اور دعائیں دیتا رہتا ۔۔۔۔۔
صاب ۔۔۔۔کتھے جانڑا ۔۔۔۔۔وہ شخص سادگی سے بولا تھا۔۔۔!
ریڈ کنگ مال میں چلو۔۔۔۔۔عرفان دارنی کی ایک نظر فون پر تھی اور ایک باہر روڈ پر تھی ۔۔۔۔
صاحب ۔۔۔۔۔اوہ کی بلا اے۔۔۔۔۔! وہ شخص تو سادگی میں گویا شیرو کو بھی چھوڑ گیا تھا۔۔۔
جائل انسان کبھی گھر سے بھی نکلے ہو۔۔۔۔۔عرفان کے لہجے میں حقارت تھی۔۔۔۔۔
صاب ام کے چھوٹے چھوٹے سات بچہ ہے صاب ام ان کی مشکل سے دو ٹائم کی روٹی پوری کر پاتا ہے ۔۔۔
صاب میرا ناں۔۔۔۔۔کرمو ہے۔۔۔۔تساں دی باہوں باہوں مہربانی ہووے جے ۔۔۔تساں میرے ویر بڑی مدد کیتی ۔۔۔۔میرا ویر کہندا اے تسی بڑے چنگے بندے اوہ۔۔۔۔۔
تم جو کوئی بھی بس اپنے کام سے کام رکھو زیادہ میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔۔کیسے لوگ ہوتے ہیں پتہ نہیں ذرا سے نرمی سے بات کرو تلوے چاٹنے پہ آجاتے ہیں ۔۔۔
کرمو نے اپنا تعارف بنجابی میں کروایا تو عرفان درانی اس کی طرف دیکھتا ہوا ناگورای سے مخاطب ہوا تھا۔
اسی اثنا میں کرموُ جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا ان کی گاڑیوں کے آگے گاڑی آئی تھی ۔۔۔۔گاڑی کو اتنا زور کا جھٹکا لگا کہ ڈیش بورڈ کی ساری چیزیں گری تھی۔۔۔عوفان درانی کا سر ہلکا سا کھڑکی سے ٹکرایا تھا۔۔۔
یو ایڈیٹ ۔۔۔۔جائل انسان ۔۔۔۔! اس گاڑی کے پاس سے گزرنے کا بھی پتہ ہے تمھیں ۔۔۔۔!فقیروں والا حلیہ ہے تمھارا ۔۔۔پھر بھی کیا سوچ کر میں نے تمھیں ڈرائیور رکھا ہے ۔۔۔!
وہ گاڑی کی دوسری طرف اتر کر آتے فرنٹ سیٹ سے کرموں کو گریبان سے کھینچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
صاب جی معذرت ۔۔۔۔۔ام کو معاف کر دو۔۔۔۔۔میرے چوٹا چوٹا بچہ ہے۔۔۔۔۔اُم کہاں جائے گا۔۔۔۔۔! ام ایک غریب انسان ہے۔۔۔۔۔صاب جی۔۔۔۔۔ام کو پتہ ہے آپ بہت اچھا انسان ہو۔۔۔ام کو آپ شریف انسان لگا ہے۔۔۔کرموں روتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا۔۔۔۔
یہ تمھارے پاس آخری موقع ہے ۔۔۔۔ا وہ اسے چھوڑتا کچھ سوچ کہ پھر سے گاڑی میں بیٹھا تھا
بس گاڑی روک دو میں آرہا ہوں۔۔۔۔عرفان درانی نے تحکم سے بھرپور لہجے میں کہا تھا ۔۔
پھر کرموں عرفان درانی کو مال چھوڑ کر واپس گاڑی موڑنے لگا جب نگاہ عرفان دارنی کے فون پہ پڑی تھی ۔۔۔
ہائے۔۔۔۔۔مارا ۔۔۔۔لگتا ہے ۔۔۔۔یہ صاب ۔۔۔۔یہ بلا ادھر ہی چھوڑ گیا ہے۔۔۔۔۔کرمو عرفان درانی کا فون اپنی جیب میں رکھتے ہوئے بڑبڑایا تھا ۔
@abeeha ali novel
******
اشنال جس نے رو رو کہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تھی اب باہر نکلنے سے ڈر رہی تھی ۔۔۔۔کہ وہ اس کا بہت برا حشر کرے گا۔۔۔اس کی ہرنی جیسی آنکھیں دکھ رہی تھی اس شخص کا خوف علیحدہ سے غالب تھا کالج کے یونیفارم پانی میں بیٹھے رہنے سے وہ بھیگ چکی تھی اس پہ اپنی دل کی بھڑاس نکال کہ وہ گھنٹے سے باتھ ٹب میں بیٹھی تھی اب سردی سے کانپ رہی تھی ۔۔۔وہ تو غصہ دکھا چکی تھی پر اب جیسے دل کو چین نہیں تھا وہ سوچ رہی تھی کہ اس شخص کو باتیں سنا کر اس نے اچھا نہیں کیا تھا اپنے آنے والے وقت کا سوچ کر اس کی سانسیں ڈوبنے لگی تھی ۔۔۔۔باہر کسی بھی قسم کی آواز نہ پاکر اس نے ٹاول اپنے اوپر لیا اور آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی ۔۔۔۔روم میں نیم نیم اندھیرا پاکر اسے پتا تھا کہ وہ سو چکا ہے اس لیے چاہتی تھی کہ وہ آرام سے کھسک کر اپنے روم میں چلی جائے لیکن اس سے پہلے بیڈ سے اپنی کتابیں ساتھ لے کر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔!
روشنال سر پہ ہاتھ رکھے بالکل سیدھا سویا ہوا تھا
اسے پتہ تھا کہ وہ مکمل نیند میں ہے اس لیے آرام سے اس کے پاس اپنی کتابیں اٹھانے کےلیے ہاتھ بڑھایا تھا۔۔ لیکن پاؤں گیلے ہونے کی وجہ اس کا پاؤں رپٹا تھا وہ ان کتابوں کے اوپر گری تھی جو وہ اٹھانے لگی تھی وہ آہستہ سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ جیسے اس کی نظر اوپر اٹھی اور اس کے چہرے پر پڑی تو دل جیسے دھک سے رہ گیا تھا۔۔! اس کی نظر اس کے کشادہ چہرے پہ پڑی جو اس سے تھوڑی دور سویا ہوا تھا وہ اس کی چلتی سانسیں روک گیا تھا وہ سانس روک کر اس کو دیکھے گئی تھی اشنال بخت کو یہ شخص آج سے پہلے اتنا حسین نہیں لگا تھالیمپ کی ہلکی ہلکی روشنی میں وہ شخص روشنیاں بکھیر رہا تھا اس کی بڑی بڑی کشادہ آنکھیں تو بند تھی۔۔فراخ پیشانی پہ ہلکے ہلکے بکھرے بال ۔ مضبوط کسرتی وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہاتھ کشادہ سینے پہ پڑا ہوا تھا ۔۔۔پھر اسکی نظر اس کے سفید بازؤں پہ ٹکی ۔۔۔۔جس پہ بندھے گھڑی بھی صرف اور صرف اس شخص کے ہاتھ میں بندھے جانے سے لاکھوں کڑوڑوں کی معلوم ہوتی تھی۔۔۔سیاہ رنگ کے لباس میں سویا وہ شخص اس کے دل کی ہستی کو برباد کرگیا تھا۔۔گویا وہ سیاہ رنگ تو بنا ہی اس کےلیے تھا ۔۔۔۔اس کے خراٹوں کی ہلکی ہلکی آواز سن کر اسے احساس ہوا کہ وہ اس کے اتنے قریب پڑی ہوئی ہے وہ جھٹ سےاچھلی دل کی حالت بدلی تو سوئے ہوئے روشنال بخت سے بھی نظریں چرا لیں تھی اس کا سفید چہرہ حیا کی لالی سے سرخ ہوا تھا
وہ گبھرا کر تھوڑی پیچھے ہوکر اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔اس کو اپنے چہرے پر قطرے محسوس ہوئے ۔۔تو اپنا پیسنہ صاف کرنے لگی ۔۔یہ کیسا احساس تھا جس نے اس کے دل کو جکڑ لیا تھا آج سے پہلے تو اسے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا تھا یہ پہلی دفعہ تھا اس کے چہرے پر قوس و قزح بکھری تھی حالانکہ وہ س شخص کے کتنی بار قریب گئی تھی لیکم اس کے پاس جانے سے اسے ڈر ہی محسوس ہوتا تھا اس سے پہلے وہ شخص جاگتا وہ اپنے دھک دھک کرتے دل کو سنھلتی جلدی سے اپنے روم میں آگئی تھی ۔۔۔۔
******
اس کو اپنے روم میں آئے گھنٹہ ہوگیا تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ کروٹ پہ کروٹ کیے سونے کی کوشش میں لیٹی ہوئی تھی لیکن اس دل کا کیا کرتی جو ساتھ والے کمرے میں خود سے بے خبر سوئے ہوئے دشمنِ جان کے پاس چھوڑ آئی تھی اس کے نام لگاآئی تھی ۔۔۔۔وہ جب بھی آنکھیں بند کرتی بار بار آنکھوں کے سامنے وہ مضبوط قلعے جیسا شخص آ جاتا تھا ۔۔۔وہ اب اپنے لفظوں پہ غور کر رہی تھی جو اسے سنا کہ آئی تھی بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آگئے تھے کتنی سفاکی سے اس نے کہا تھا کہ مجھے اپنی قید سے رہائی دو۔۔۔۔آنسوؤں آنکگوں سے بہہ رہے تھی ۔۔۔۔ایک لمحے میں اس شخص نے اسے قید کرلیا تھا وہ جو بدتمیزی سے حقارت سے کہہ کر آئی تھی کہ آپ نے کسی محکوم کی طرح سمجھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔وہ خود کو چھوڑ کہ اپنے دل کو تھپک کر سلانے کی کوششش کرتی ۔۔۔۔لیکن وہ تو جیسے آج باغی ہوا تھا آج اس کے دل نے جو دغا دیا ۔۔۔۔۔اس کا ننھا سا دل ایک پل میں روشنال حاکم بخت کا اسیر ہوگیا تھا بے سکونی کی ایک لہر اس کے جسم میں پھیل گئی تھی ۔۔۔۔
باوجود کوشش کے بھی جب سونا نہیں آیا تو تہجد کےلیے اٹھ کھڑی ہوئی وضو کرکے نماز بچھائی اور پڑھنے لگی۔۔۔!لیکن آج نماز میں بھی اس شخص کا چہرہ سامنے آیا تھا وہ سجدے میں گئی تو پھر سے اس شخص کا چہرہ اامنے ۔۔وہ اٹھ کر نماز توڑ گئی تھی
؎ خدا کی نظروں میں بھی گناہ گار ہوتی ہوں فراز
جب وہ شخص مجھے سجدوں میں بھی یاد آتا ہے۔۔
( ابیا علی)
وہ بے بسی سے رونے لگی نگاہوں میں بے بسی تھی چہرے پر بے بسی تھی وہ آیات پڑھنے لگی تھی
آیات۔۔۔۔۔۔
اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا علَى طَاعَتِكَ.
ترجمعہ۔۔۔۔۔
”اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! میرا دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے 🖤❤️💯…“
(صحيح المسلم : 2654)
وہ سجدے میں سر رکھے پہلےتو پھوٹ پھوٹ کر روئی جب دل ہلکا ہوا تو پھر اٹھ کر سہی سے تہجد پڑھنے لگی وہ پڑھ کر فارغ ہوئی کچھ سورتیں پڑھی تب جا کر سکون حاصل ہوا تھا تہجد ادا کرنے کے بعد وہ کتنی دیر تک سجدے کی حالت میں پڑی رہی۔۔۔
” سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی
اور جتنا سکون سجدے میں
دنیا کے کسی کونے میں نہیں“_
اشنال بخت پہلی لڑکی تھی جس کو محبت ہوئی وہ خوش نہیں ہوئی بلکہ ڈھاڑیں مار مار کہ روئی تھی وہ جانتی تھی یہ محبت اس کے دل کا روگ بن جائیگی وہ بے بسی کے احساس سے روئی تھی وہ اسکا محرم تھا لیکن اس سے محبت تو اس کا چین و سکون تباہ کرگیا تھا لوگ محبت کرتے ہیں تو لطف پاتے ہیں اس نے محبت کی تو ایسے محسوس ہواجیسے محبت اس کے گلے میں عذاب کا چین بن کر لٹک رہی ہے وہ ساری رات اس عذاب سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ محبت کسی عذاب کی طرح اس پہ مسلط ہوگئی تھی
********
حسنال دو بجے گھر آیا تھا پانچ بجے پھر حماس ٹی وی نیوز کی طرف جانا تھا ۔۔۔گھر میں مکمل خاموشی تھی راتوں کو جاگ جاگ کر اس کی آنکھوں پہ حلقے آگئے تھے ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا وہ پہلے اپنے روم میں گیا ۔۔۔۔فریش ہوا پہلے ۔۔۔ اس سے سخت بھوک لگی ہوئی تھی پھر کچھ سوچتا اپنے کپڑے بیگ میں رکھتا دبے پاؤں سیٹرھوں پہ چڑھا تھا۔۔۔۔اس کے روم میں آیا تو دروازہ لاک تھا دو تین باہر ہلکے سے گھمانے سے دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔! لائٹ آف تھی وہ سوئچ بورڈ کے پاس گیا اور لائٹ آن کی اور بیڈ پہ کمبل میں لپٹے وجود کی طرف دیکھا اور پھر بیڈ کی طرف قدم بڑھائے تھے ۔۔۔
اے چلغوزی اٹھیں ۔۔۔۔۔۔مجھے کھانا گرم کرکے لا دیں۔۔۔وہ اس کے بیڈ پر بیٹھتا پہلےاس کے منہ پر ہاتھ جمایا پھر اپنی بھوک کا ذکر کیا کہ ۔۔۔کہیں وہ چیخ نہ پڑے ۔۔۔
چ۔۔۔۔چھ۔۔۔چوڑوں۔۔۔۔۔ا۔۔۔اٹھو۔۔۔منال جس کی آنکھ اس کے اپنے اپنے اوپر ہاتھ پڑے رہنے سے کھلی تھی وہ اس کی گرفت میں پھڑ پھڑا کر رہ گیا جو اس کے اوپر جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔
چپ میں ہٹاتا ہوا آپ کی آواز نہیں نکلنی چاہیے ۔۔۔۔!وہ اس کی حیرت سے پھٹتی آنکھیں دیکھ کر آرام سے بول رہا تھا۔۔
کک۔۔۔کیا۔۔۔۔مسئلہ ہے تمھارے ساتھ آوارہ انسان۔۔۔خود تو دن رات آورگیاں کرتے ہو۔۔۔۔ہر وقت گھر سے باہر رہتے ہو۔۔رات کے دو بجے آکر کھانامانگتے ہوئے تھیں شرم آنی چاہیے ۔وہ اس کے ہاتھ اٹھانے کے بعد زور سے چیخی تھی۔۔۔۔
چھوڑیں اٹھیں شاباش مجھے بھوک لگی ہوئی ہے کھانا گرم کے لائیں۔۔۔وہ اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا اس کے صبیح چہرے پر نظر ڈالتا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
میں تمھارے باپ کی ملازمہ نہیں ہوں جو لاڈ صاحب کو اٹھ کر کھانا لا کر دوں۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھتی غصے سے بولی تھی۔۔۔!
میرے باپ کی ملازمہ نہیں ہیں پر میرے ہونے والے دس بارہ بچوں کی ماں تو ہیں چلیں شاباش آپکو میرے دس بارہ بچوں کا واسطہ ۔۔۔۔اس کے چہرے پر سنجیدگی مگر انداز میں شرارت تھی۔۔
حسنال تم آج بچو گے نہیں۔۔۔۔وہ پہلے تو اس کی بات سر سے پاؤں تک سرخ ہوئی پھر اس کے بالوں کو پکڑتی چیخ
اٹھی۔۔۔۔
آپ جا رہی ہیں یا آپ سے کروں دو دو ہاتھ ۔۔۔۔۔! وہ اپنی نیند سے بھرپور آنکھوں کو آنکھوں کو کھولتا معنی خیزی سے بولا تھا۔۔۔
جا رہی ہوں ٹھرکی انسان وہ اس کے بالوں کو چھوڑتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی چپل پہن کے گلے میں ڈوپٹہ ڈال کے بیڈ سے اٹھی تھی اسے پتہ تھا کہ وہ اس کے پاس بیٹھی تو وہ خومخواہ اسے چھیڑتا رہے گا۔۔۔
جب اس کے جانے کے بعد حسنال اس کے بیڈ پہ ہی لیٹ گیا ایک تو سارا دن کام پہ رہنے کی وجہ سے تھکن کی وجہ سے اس کا برا حال تھا اوپر سے اب صبح کو نکلنا بھی تھی ۔۔۔
منال آج خالہ کی غیر موجودگی میں پورے دوہفتوں بعد آئی تھی نہ خالہ اسے بلا رہیں اور نہ تایا۔۔۔۔اور جس دن سے ان کو اس کی حقیت کا پتا چلا تھا اس دن کے بعد سے خالہ کا رویہ اس سے اکھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔تایا ابو اسے نظریں بھی جب دیکھتے بے رخی سے دیکھ کر گزر جاتے تھے ایک آغا جان کا رویہ اس کے ساتھ تھوڑا ٹھیک تھا باقی اس کی سگی ماں کا رویہ بھی بدل گیا تھا۔۔۔بس ایک حسنال ہی تھی جو اس کے اداس چہرے پر مسکراہٹ لاتا تھا ۔۔۔
اس نے ہاٹ پاٹ کا ڈھکن اٹھایا تو روٹی نہیں تھا فریج کھول کے دیکھا سالن پڑا ہوا تھا ۔۔۔اس نے چولہے کا فلیم آن کیا فریج سے آٹا نکالا ۔۔۔۔اور پیڑا بنانے لگی ۔۔۔۔روٹی توے پہ ڈال کے ۔۔۔۔ایک طرف سالن گرم کیا۔۔۔۔اور دوسری ہاتھ روٹی پکاتی رہی۔۔۔۔روٹی پکانے کے بعد ہاٹ پاٹ میں رکھی اور ساتھ دوسری روٹی بنا کہ ہاٹ پاٹ میں رکھی اورسالن بھی ساتھ رکھا تھا۔۔۔۔کیبنٹ سے بوتل نکال کر سنک سے بھر کے ہاٹ پاٹ اور بوتل ایک سائیڈ پہ رکھی اور جو چیزیں اس نے استعمال کی وہ سمیٹی اور لائٹ آف کرکے کھانا لے کر اوپر آگئی تھی۔۔۔
واپس آئی تو وہ سویا ہوا تھا وہ اس کے پاس بیٹھی اور ہاتھ آگے بڑھایا اسے اٹھانے کےلیے پر کچھ سوچتی ہوئی رک گئی تھی ۔۔۔۔اس کی بند آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے اس کے رتجگے جاگنے کا پتہ دے رہے تھے وہ فکر مند نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگی جو اس کا خیال رکھتا تھا اسکی پرواہ کرتا تھا۔۔۔وہ اس شخص کو سمجھ نہ پائی تھی وہ ایسا شخص تھا جو اپنی محبت کا کشکول خالی رکھ اس کے خالی کشکول کو بھرنا چاہتا تھا وہ محبت لینا نہیں جانتا تھا وہ صرف اور صرف محبت دینا جانتا تھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھی اس کا دل کیا تھا وہ اس کے پیشانی بکھرے نم بالوں کو اپنے ہاتھوں سے سمیٹے ۔۔۔
حسنال اٹھو ۔۔۔۔کھانا کھالو۔۔۔۔ کچھ دیر رونے کے بعد اپنے آنسوؤں صاف کرتی وہ اس کو کندھے سے ہلاتی زور سے بولی تھی ۔۔۔
جی جی ۔۔۔۔حسنال نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔۔۔
اٹھو کھانا کھاؤ۔۔۔۔مجھے نیچے بھیج کر میری نیند خراب کرکے سو رہے ہو۔۔۔۔۔!وہ مصنوعی غصے سے بولی تھی حالانکہ اس کی روح سخت بے چین تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ اس کے کندھے سے لگ کہ اپنے دل کا غبار نکالے۔۔۔۔!
آپ اتنی محبت سے چل کر نیچے گئی ہیں اور میرے لیے کھانا لائی ہیں کیا ایسا ہوسکتا ہوں میں نہ کھاؤں ۔۔۔۔!
آپ کے ہاتھوں سے تو میں زہر بھی نہ چھوڑوں وہ بھی آپکے ہاتھوں سے کھا کر خوشی خوشی مر جاؤں ۔۔۔
وہ یہ کہتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ بیٹھا تھا …
شکل اچھی نہ ہو۔۔۔۔کم ازکم بندہ بات تو اچھی کرلے۔۔۔۔وہ اس کی بات سے دہل کر غصے سے بولی تھی گویا اس کا مرنے کی بات کرکے جیسے منال پہ خنجر چلا ہو ۔۔۔!
آپ کہنا تو یہ چاہتی تھی کہ مریں تمھارے دشمن لیکن آپ کے منہ سے بدحواسی میں کچھ الٹا نکل گیا تھا ۔۔
وہ اس کی چہرے پہ اڑی اڑی رنگت پہ چوٹ کرتے ہوئے بولا اور کھانا اپنے سامنے رکھا اور کھانے لگا تھا۔۔۔۔پھر اس کے بعد تب تک نہ بولا جب تک کھانا ختم نہ کیا تھا۔۔۔
اب مجھے ساڑھے چار تک اٹھا دینا آپ ۔۔۔۔۔میں نے پھر آوارہ گردی کیلیے نکلنا ہے۔۔۔۔وہ شرارت سے برتن سائیڈ ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا تھا۔
میری طرف سے جہنم میں جاؤآوارہ انسان ۔۔۔وہ اس کی بات پہ چڑ کہ بولی تھی ۔۔۔
آپ کو بھی ساتھ لے کر جاؤں گا آخر کو میری شریک حیات ہیں میرے ہونے والے دس بارہ بچوں کی ماں ہیں ۔۔۔آپ کو ساتھ لے کہ جانا کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔۔
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا میں تمھارے ساتھ جنگلی انسان کے ساتھ کئی نہیں جاؤں گی۔۔۔وہ اس کو اپنے اوپر معنی خیز نگاہیں دیکھ کر پھاڑکھانے والے انداز میں بولی تھی۔۔۔
نہیں میں آپکو ساتھ لے کر جاؤں گا دونوں میاں بیوی ساتھ مل بیٹھ کر چنے بیچا کرے گے اور جہنمیوں میں تقسیم کرے گے ۔۔
وہ کیا خوب شاعر نے کہا ہے ۔۔۔
؎خوب گزریں گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو
وہ شعر پڑھتا اس کے چہرے پہ ٹکٹکی باندھتے ہوئے بولا
میں تو جنت میں بھی تمھارے ساتھ نہ جاؤں۔۔۔وہ اس کی مسلسل خود پہ ٹکے دیکھ کر غصے سے بولی تھی۔۔۔
تو جنت کس کافر نے مانگی ہے آپ کے ساتھ جانا قبول ہے۔۔۔وہ اس کے غصے سے بھرے چہرے کو دیکھ کر اسے مزید تپاتا ہوا بولا۔۔۔۔
استغفار۔۔۔۔۔۔۔پھر جب میرے علاوہ ہر چڑیل کے ساتھ ٹھرک جھاڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں آگ میں پھینک دیں گے ۔۔۔۔۔! اس کی بات کا خفگی سے جواب دیا گیا تھا۔۔
تو پھر میرے ساتھ جنت ہی چلیں جائیں ۔۔۔۔میں وہاں کی حوروں کے ساتھ بھنگرا ڈال لیا کروں گا تب تو اللہ آگ میں نہیں پھینکے گے نہ۔۔۔۔ وہ جو اس کو اللہ سے ڈراتے ہوئے معصومیت سے بولی تھی حسنال کو اس کو ڈھیروں پیار آیا تھا وہ اس کی بات کا جواب دیتا بازوؤں سے پکڑ نرمی سے اپنے اوپر گرالیا تھا۔۔۔
چ۔۔۔۔چچ۔۔۔چھوڑو نہایت ہی فضول انسان ہو تم ۔۔۔وہ اسکی چمکدار آنکھوں سے نگاہیں چڑا کر ہڑ بڑا کر بولی تھی ۔۔۔
رو لیں میرے سینے پر سر رکھ کر۔۔۔۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کیا کب سانسوں کو ڈور ٹوٹ جائے اور آپ کے دل میں یہ خواہش بن کر حسرت رہے جائے وہ اس کے سر کو پکڑتا اپنا ساتھ لگاتا اس کے کانوں میں گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔۔۔
بکواس۔۔۔۔بند کرو میرا دل بند ہو جائے گا۔۔۔۔اللہ تمھیں میری بھی عمر لگا دے ۔۔۔۔وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھتی دہل کر چختی ہوئے بولی تھی۔۔۔
ہائے کمال کر دیا آخر کار آپ بھی جھانسی کی رانی کی بہو نکلی نہ۔۔کیسے آپ نے مجھ معصوم پر ستم کر دیا
ویسے بڑی چالاک ہے آپ ۔۔۔۔۔؟کیا پتہ آپکا آخری دن ہو آج۔۔اس لیے آپ جہنم کی رٹ لگا رہی تھی تاکہ اپنے ساتھ مجھے نظارے کراتیں۔۔ اس لیے مجھے اپنی عمر لگا رہی ہیں نہ ۔۔۔۔کہ جو میری تھوڑی بہت زندگی ہے وہ بھی ختم ہو جائے۔۔۔۔
وہ اس کے دہلتے چہرے کو اپنا لہجہ شرارتی کرگیا تھا ورنہ اپنی زندگی کا تو اسے بھی اب خطرہ ہی تھا جس اوکھلی میں اس نے ہاتھ دیا تھا وہاں تو موت بھی کانپتی تھی زندگی بھی پناہ مانگتی تھی ۔۔
دفع ہو جاؤ کمینے انسان۔۔۔۔میں تو تمھارے لیے فکرمند ۔۔۔ایویں فضول میں ڈرامے لگاتے رہتے ہو۔۔۔۔وہ اس کا شرارتی لب ولہجہ دیکھ کر چیخ پڑی ۔۔۔۔پھر اس کے سینے پر اتنی شدت سے روئی کہ حسنال گڑ بڑا گیا تھا اس کے لیے سنھبالنا مشکل ہوگیا تھا وہ اس کو ساتھ لگائے تھپکیاں دیتا بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔وہ سوگئی تھی جبکہ حسنال بخت اس کے سونے کے بعد پریشان ہوا تھا۔۔۔۔آخر ساڑھے چار بجے وہ اس کے روئے چہرے کو دیکھتا اس کے بکھرے بالوں پر کیچر لگاتا اس کے ماتھے پر عقیدت بھرا لب رکھتے اپنا بیگ اٹھاتا نکل گیاتھا وہ گھر سے نکلا تو فجر کی اذان ہوچکی تھی اس نے جلدی سے نماز ادا کی اور اپنے مشن پہ نکلا تھا۔۔۔!
*********
آج اتنی بری بھوتی کیوں بنائی ہے اور خاموش کیوں ہے ۔۔۔۔ویسے تیری شکل تو پہلے ہی ایسی تھی پر غصے سے کچھ تو ظاہر کر دیتا تھا۔۔۔۔فرقان نے صبح سے اس کے خاموش چہرے کو دیکھ کر کھوجتے ہوئے پوچھے تھا۔
جب انسان اپنی وقعت کھو دے تو اس کیے بہترین پناہ خاموشی ہے۔۔۔وضاحت کبھی سچا ثابت نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ندامت کبھی بھی کھویا ہوا مقام واپس نہیں لاسکتی ۔۔۔۔ہاں میرے دوست خاموشی مزید تزلیل سے بچالیتی ہے۔۔۔۔۔وہ گہرے مگر اداس لہجے میں خلا میں گھورتے ہوئے اسے مخاطب ہوا تھا۔۔۔
۔کیا ہوا ہے تجھے میرا دوست ایسے پریشان تو اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔یار میں تیرا غصہ برداشت کر لوں گا تیری گالیاں برداشت کرلوں گا۔۔۔۔لیکن تو ایسے بلکل اچھا نہیں لگ رہا میر دوست ہیرا ہے وہ کسی کی نظر میں کیا وقعت کھوئے گا۔۔۔کسی کے تو تیرے آگے ہی وقعت نہیں ہے ۔۔۔ فرقان جذباتی لہجہ لیے بولا ۔۔۔وہ اس کا اداس چہرہ اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ نہیں پا رہا تھا اس لیے دکھ سے بولا تھا۔۔۔۔
کسی کا دل توڑ کر معافی مانگنا آسان ہے لیکن اپنا دل ٹوٹ جائے تو کسی کو معاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔
یار کیوں اتنی گہری باتیں کر رہی ہے اصل وجہ تو بتا ۔۔۔۔اگر تجھ سے غلطی ہوئی ہے تو پردہ ڈال دوں گا غلط اقدام سے روک دوں گا تیری اداسی کو ختم کر دوں گا فرقان نے اسے بہت پریشان دیکھتے ہوئے اس کے پاس ہوتے کہا تھا۔۔۔
پھر وہ اسے ہر بات بتاتا گیا ہر لفظ ۔۔۔۔ہر غلطی گناہ کچھ بھی نہیں چھپایا تھا ۔۔۔۔تجھے پتا ہے میں نے اس کی معصومیت کو ایک غلط لمحے کی زد میں آکے برباد کر دیا تھا میں نے اس پر اتنا ظلم کیا کہ کوئی یہ کام کرنے سے پہلی ہزار بارسوچتا۔۔۔لیکن اس پہ ظلم کرتے میرا دل مہیں کانپا ۔۔۔۔۔وہ روتی چلاتی اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتی رہی لیکن مجھ جیسے بغیرت شخص کو شرم نہیں آئی میں کبھی اپنے لفظوں سے ۔۔۔۔کبھی ہاتھوں سے اس کی جسم وح کو داغ کرتا رہا۔۔۔۔اور تیرے دوست نے اس کی نظر میں اپنا وقعت ، اپنا مقام کھو دیا ۔۔وہ مجھ سے پناہ مانگتی ہے ۔۔۔میرے قریب جانے سے اسکا چہرہ زرد پڑ جاتا ہے ۔۔۔اس کو میں نہیں میرے دیئے درد اور ستم رلاتے ہیں ۔۔۔۔وہ کہتی ہے میری زندگی جہنم بنا کر آپ تو سوجاتے ہیں لیکن میری راتیں عذابوں میں کٹتی ہے۔۔۔یار اب تو ہی بتا ۔۔۔وہ معصوم لڑکی کیسے مجھ سے محبت کرے گی جو میری پرچھائی سے بھی ڈرتی ہے۔۔۔میں کیسے اسے زندگی کی طرف وہ باتیں کرتے کرتے میں ڈھار ڈھار مار کہ رونے لگا ۔۔۔جبکہ فرقان پہلے تو ساکت ہوا وہ اسے کہنا تو چاہتا تھا لیکن اس کی حالت کے پیشِ نظر رک گیا ۔۔۔۔پھر اپنے سامنے اس اونچے لمبے شخص کو دیکھا جو اپنی بیوی پر کیے گئے ستم پر بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔۔فرقان ضیاء نے اپنی بتیس سالہ زندگی میں پہلی بار تیس سالہ اونچا لمبے مرد کو اپنی اٹھارہ سالہ بیوی کو اپنے دیے گئے ستموں پر ڈھارے مار مار کر روتے دیکھا تھا نادم ہوتے دیکھا تھا پریشان ہوتے دیکھا تھا وہ اسکے گلے لگا پہلی دفع اپنی تکلیف بہا رہا تھا ۔۔۔
یار وہ تیری بیوی ہے اس سے کنارہ کشی مت کر ۔۔۔۔اس کو جانچ اس کء معصومیت کو دوبارہ سے قائم کر ۔۔۔۔ایسے تو بھابی تجھ سے دور ہو جائے گی ان کی انا ، ان کی شرارت ،ان کی ضد ، ان کے مان کو واپس لاجو انہیں تجھ پہ تھا ۔۔۔ان کا سپرمین انہیں واپس لٹا ۔۔۔۔اور بھی گھر جا۔۔۔۔ایسے تو ڈپریش کا مریض بن جائے گا۔۔۔۔چل گھر چلتے ہیں ۔۔۔۔سکون کا سانس لے زندگی تو اپنے روپ بدلتی ہے وہ اس کے آنسوؤں کا صاف کرتا امید کا کونہ اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔
اور کچھ دوست ہوتے ہیں جن سے زندگی میں سانسیں چلتی ہیں اور فرقان اس کا دوست اسکا غمگسار زیادہ تھا۔۔فرقان نے اسے پرسکون کرکے بیجھا اور خود بھی گھر کی راہ لی تھی۔۔۔۔
*********
وہ جب سے کالج سے آئی تھی پرییشان تھی اکیڈمی میں بھی آج اسے سارہ مرجھائے چہرے کی وجہ پوچھتی رہی لیکن وہ آج سارا دن خاموش رہی تھی وہ اپنے کمرے میں کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی ایک کتاب گود م2یں پڑی ہوئی تھی وہ نہ جانے خلا کی وسعتوں میں کیا کس نادیدہ نقطے کو کھوج رہی تھی۔۔۔
کسی سے محبت کرنا جرم ہے اور وہ تو میرے محرم ہیں حلال محبتیں تو سکون دیتی ہیں پھر مجھے اتنی بےچینی کیوں ہے۔۔۔۔وہ خود سے سوال کرتی ہوئی بولی تھی
ایک تو دل رات سے اپنے اختیار میں نہیں تھا اس کا نازک دل دھک دھک کر رہا تھا وہ روشنال کے اگلے لائحے عمل سے ڈر رہی تھی مغرب اذان سنتی نماز ادا کی اور کمرے سے باہر آئی تو کچن میں چلی آئی تھی ہاٹ پاٹ میں اسکا ناشتہ ایسے ہی پڑا ہوا تھا مطلب وہ صبح ناشتہ نہیں کر کے گیا تھا وہ پیاز کاٹنے لگی تھی جب
دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ سیدھا ہوئی تھی اور بھاگتی کچن کی کھڑکی سے اسے دیکھنے لگی تھی اس دل کو سیراب کرنے لگی جو صبح سے پیاسا تھا وہ نظروں کے ذریعے اس دل میں اتارنے لگی اس کے بھرپور سراپے دل کی دنیا درہم برہم ہوگئی تھی جو بکھرے حلیے میں بھی دل میں اتر جانے کا ہنر رکھتا تھا ۔۔۔۔!
وہ آج تھوڑا جلدی آگیا تھا ۔۔۔! وہ اسے چوری نظروں سے دیکھتی رہی جو سنجیدہ اور سی چال چلتا بغیر کچن کی طرف دیکھے کمرےمیں چلا گیا تھا اشنال نے ایک بات نوٹ کی جس چال میں مضبوطی ہوتی تھی آج اس چال میں لڑکھڑاہٹ تھی ۔۔۔
پاگل ہے تو بھی اشنال ۔۔وہ چلا گیا لیکن وہ ان جگہوں کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گزرا تھا وہ جب ہوش میں آئی اپنے سر پر ہاتھ مار کر بولی تھی ۔۔۔۔
ہائے اشنال ۔۔۔۔۔اپنے اس نئے تمگر محبوب سے پانی تو پوچھ لو۔۔۔وہ اپنے سانسیں درست کرتی ہوئی سنک سے پانی بھرا اور روم میں آئی تھی ۔۔۔
پانی پی لیں۔۔۔وہ ہمشہ کی طرح اس کے آگے پانی پکڑاتے ہوئے بولی دل کی بدلتی دنیا سے وہ پہلی بار دل کے کہنے پر اس کےلیے پانی لائی تھی ۔۔۔
مجھے پیاس نہیں ہے ۔۔۔۔وہ اپنی بند آنکھوں سے بازوؤں ہٹا کر نرمی سے بولا تھا۔۔۔۔۔جبکہ اس کی سوجی آنکھیں دیکھ۔۔۔۔اس کا سرخ چہرے دیکھا۔۔۔وہ بامشکل سانس لے رہا تھا۔۔اس کی طرف دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا ۔۔اس کی بگڑتی سانسیں دیکھ اس کی سانسیں ڈوبنے لگی تھی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial