قسط: 15
اس کا کشادہ چہرے سرخ تھا۔۔۔جبکہ اس کی سوجی آنکھیں دیکھ۔۔۔۔اس کا سرخ چہرے دیکھی جو۔۔۔وہ بامشکل سانس لے رہا تھا۔۔اس کی طرف دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا ۔۔اس کی بگڑتی سانسیں دیکھ اس کی سانسیں ڈوبنے لگی تھی
وہ سانس نہیں لے پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اشنال نے اس کو دیکھا جو بے چین لگ رہا تھا۔۔۔۔جیسے اس کے سینے میں آگ لگی ہو۔۔۔وہ بار بار سینے کو مسل رہا تھا۔۔۔۔
آپ ٹھیک تو ہیں یی۔۔۔یہ پ۔۔۔پانی پ۔۔۔پی لیں ۔۔۔۔وہ اپنے نازک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ گئی تھی اور ا پانی کا گلاس اس کے منہ کے ساتھ لگایا تھا جو وہ ہاتھ مار کہ گرا چکا تھا۔۔۔۔اس کی حالت دیکھ کر اشنال کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی جبکہ روشنال ٹھیک ہوتا تو رسپونس دیتا وہ کچن سے پھر پانی بھر کے لائی اور کانپتے ہاتھوں سے اسے پانی پلانے کی کوششش کرنے لگی ۔۔۔ پانی پینے کے بعد تھوڑی دیر بعد اسکی حالت تو تھوڑی سی ٹھیک ہوئی تو وہ بنا اس کے طرف دیکھے لیٹ گیا تھا
آپ ٹھیک تو ہیں نہ۔۔۔۔وہ فکر مندی سے اس کے کندھے کو ہلاتے ہوئی اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
ہوں۔۔۔۔۔آنکھیں کھول کر روشنال یہ ہی کہہ سکا تھا اس کو فکر مندی سے اپنے اوپر جھکا دیر اس کے معصوم چہرے پر اپنے لیے پریشانی دیکھ کر وہ آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔اس کو کیا تسلی دیتا وہ تو خود سے ہی ہارا ہوالگ رہا تھا۔۔۔
روشنال۔۔۔۔۔پلیز صاف صاف بتائیں۔۔۔۔۔آپکی حالت اگر زیادہ خراب ہوگئی تو ممم۔۔۔۔میں ۔۔۔۔کک۔۔۔کیا کروں۔۔۔۔۔گی م۔۔۔ممجھے تو یہاں کہ راستوں کا بھی نہیں پتا۔موسم بھی خراب ہو رہا ہے۔۔وہ اس کہ پاس بیٹھی فکرمند ہوکر پھر سے اس کے کندھے کو ہلا گئی تھی۔۔۔
مممم۔۔۔میں ۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔بس بے چینی ہے مجھے۔۔۔اس کو اپنے قریب بیٹھا دیکھ مر اس کے ہاتھ کو اٹھاتا اپنے دل پہ رکھتا ہوا مسلنے لگا تھا جیسے اس کے لمس سے بے چینی ختم ہو جائے گا ۔۔۔۔وہ یہ کرتے آنکھیں پھر سے آنکھیں موند چکا تھا ۔
اسے بےچین دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی تھی اور دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی پڑھ کہ اس کے ہاتھ پر پھونک کر اس کا ہاتھ اس کے دل پر پھیرا تھا۔۔
روشنال ۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔بت۔۔بتائیں نہ۔۔۔اب آپ ٹھیک ہیں وہ اس کے اوپر جھکتی اونچی آواز میں بولی تاکہ وہ اس کی آواز سن کر جواب دے دے۔۔۔۔!
اب مم۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔تم جاؤ اور پریشان مت ہو اس نے آنکھیں کھول کر سرد سے لہجے میں جواب دیا اور بمشکل اسے تسلی دے سکا تھا۔۔۔۔وہ اس کے پری پیکر چہرے کو دیکھا جو بس رونے کے در پہ تھی ۔۔
واقعی۔۔۔۔۔!وہ بس یہ ہی کہہ سکی اس کے کشادہ پیشانی پر نم ہوتے قطرے ۔۔۔۔اس کو ٹھنڈے پسینے آرہے تھی اپنے نماز کی شکل میں کھولتی ڈوپٹے کو اس کی کشادہ پیشانی صاف کی تھی چہرے بھی نم تھا اس کا چہرہبھی اپنے ڈوپٹے سے صاف کیا تھا اس جیسے مضبوط مرد کو اس حالت میں دیکھ کر اس کی رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی تھی ۔۔۔اسے خود نہیں پتہ تھا کہ یہ ستمگر کب اس کے دل پر ڈیرہ جما گیا تھا ۔۔۔۔وہ اس کی بند آنکھیں دیکھ کر اس کو دل کہ راستے اندر اتارنے لگی تھی اس کی کھلی آنکھیں دیکھ کر وہ نظریں نہ ملا پاتی تھی
وہ تھوڑی دیر اس کو دیکھتی رہی لیکن اس کی آنکھیں ہنوز بند تھی وہ پریشان سی کچن میں آگئی تھی اس کی حالت دیکھ کر ٹانگیں کانپ رہی تھیں اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی گر جائے گی اس ستمگر کی حالت اس پر گراں گزر رہی تھی۔۔باہر سے بادل گرج رہے تھے وہ ٹیرس کے قریب آئی موسم دیکھا جو خراب لگ رہا تھا بارش ہونے کے آثار معلوم ہوئے رہے تھے خراب موسم دیکھ کہ خوف کی لہریں اس کے اندر سرایت کرنے لگیں تھیں کافی دیر کھڑے رہنے وہ وہاں سے ہٹی کچن میں آکے سالن تیار کرنے لگی سالن تیار کر چکی جب مغرب کی اذانیں ہونے لگی تھی وہ آنچ آف کرکے سے نکلی اور ایک دفع کمرے میں جھانکی کہ اس کی طبعیت معلوم کرکے آئے ڈور سے ہی دیکھا تو اس کو سوتا ہوا پویا اس کو سوتا ہوا دیکھ کر وہ اپنے روم میں آگئی تھی اب تو پڑھائی کا بھی دل نہیں کر رہا تھا لیکن وضو کرکے نماز ادا کرکے سورة واقعہ پڑھ کہ وہ پھر سے کچن میں آئی اور آٹا گوندھنا شروع کیا آٹا گوندھا کہ تقربیاً عشا کے قریب روٹیاں ڈال کہ رکھی اور میز پر رکھی ۔۔باہر بارش کی آواز سنتی اس نے پردے بند کیے سب کمروں کے ڈور بند کیے تھے۔۔۔اور اس کے روم میں جو ابھی تک سو رہا تھا
روشنال۔۔۔۔۔۔۔!دو دفعہ پکارنے پر بھی وہ ٹس سے مس ہوا تھا ۔۔۔۔اس کی اندر خوف کی ایک لہر آئی تھی وہ اس کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔
**********
وہ ڈرائیور کہاں ہیں۔۔۔۔جو مجھے کل لے کہ گیا تھا۔۔۔عرفان درانی گارڈ پہ چیخا تھا جو کرسی پہ بیٹھا نیند پوری کر رہا تھا۔۔۔۔کیونکہ اسے آفیشل بزنس ٹور پہ جانا چاہتا تھا کرموں کو غیر حاضر پاکر وہ غصہ ہوگیا تھا۔۔۔
صاحب ۔۔۔۔ پیچھے کوراٹر و۔۔۔وہ آدمی سور رہا ہے ۔۔۔وہ نیند سے جھولتی آنکھیں کھول کہ انگڑائی لیتا ہوا بولا تھا
جلدی اس پینڈو آدمی کو بلا کہ لے کہ آؤ مجھے ایر پورٹ پہ جانا ہے۔۔۔
جی۔۔۔۔جی صاحب ۔۔۔میں جاتا ہوں۔۔۔۔گارڈ کرمو کو بلانے کےلیے بھاگا تھا۔۔۔
اوئے اٹھ ۔۔۔۔۔توُ نیندیں پوری کر رہا تھاتجھے ۔۔۔۔صاحب بلا رہے ہیں جا باہر جا ۔۔۔۔صاحب تجھے ایسا سلائے گے تو ساری زندگی اٹھ نہیں سکے گا۔۔۔۔گارڈ نے اپنی بھاری بھرکم ٹانگ اس سوئے ہوئے شخص کو ماری تھی جو اپنا پرنے کو اپنے نیچے کیے اونگھ رہا تھا ایسے تو کوئی شخص بھی نہیں سوتا جیسے وہ نیچے زمین پر سویا ہوا تھا ۔۔۔۔اس کے پیوند زدہ کپڑوں سے غربت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔۔۔۔
او۔۔بغیرت تو نے پٹھان کو ٹانگ ۔۔۔۔ماری ۔۔۔اب۔۔۔پٹ۔ھان ان تجھے ٹانگ مارے گا تو نے میری سوئی ہوئی غیرت کو جگا دیا ۔۔۔۔کرمو زمین پر سویا ہوا تھا جب اس شخص کے باری بوٹوں والا پاؤں اس کی پشت پہ لگا تھا وہ اپنی کمر کو مسلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا اوف ہوا میں ٹانگ اچھلائی۔
اوہ تجھے صاحب سیدھا کرے گا۔۔۔۔میں جا کہ صاحب کو بول رہا ہوں کہ پٹھان کی غیرت جاگ گئی ہے۔۔۔۔وہ اسے دھکمی دیتے ہوا بول کہ اس سے مارنے سے پہلے ہی باہر لپکا تھا۔۔
جا تیرے اس صاحب سے میں نہیں ڈرتا۔۔۔۔تیرے صاحب سے کیا ۔۔۔۔اپنے باپ کو چھوڑ کر میں کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتا۔۔۔بتا دیں اپنے صاحب کو۔۔۔۔۔کرمو پرنے کو ہلاتا اتنی آواز میں بولا کہ کوئی سن نہ سکے۔۔۔رکو میں صاحب کو بتاتا ہوں اسکی دھیمی آواز سن کر اس پھر سے دھمکی دی گئی ۔۔۔
او۔۔۔۔جی۔۔۔۔تسی سانوں یاد کیتا تے اسی حاضر۔۔۔۔
کرمو بھاگتا ہوا گارڈ سے پہلے عرفان درانی تک پینچا تھا اور جلدی سے اپنی مادری زبان میں بات کی تھی ۔۔۔
تم ۔۔۔مجھے ۔۔۔۔یہ بتاؤ۔۔۔۔میں نے تمھیں ۔۔۔اپنے ساتھ جانے کےلیے رکھا یا صرف کھانے اور سونے کے لیے رکھا ہے حرام خور انسان مال سے تم مجھے واپس لے کہ آئے ۔۔۔ادھر سے نکلنا چاہتے ہو شاید ۔۔عرفان درانی اس کو دیکھ کر اپنا غصہ باہر نکالا تھا۔۔۔
۔۔۔اوہ نہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔صاب۔۔۔۔جی ۔۔۔۔ام ۔۔۔تو آپ کو دیکھتا رہا پر ام کو آپ نظر نہیں آیا آپ اس اتنی بری بلا کہ اندر چلے گئے ام سمجھا وہ بلا آپ کو کھاگئی ہے ۔۔۔کرمو نے مال کو بلا سمجھ کر وضاحت دی تھی۔۔۔
صاب ۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔یہ بال آپکا ہوا میں اڑا ہے کیا۔۔۔میری مورے تو کہتی تھی کہ میں نے یہ بال دھوپ میں نہیں سفید کیا ۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے ۔۔۔۔آپ کا بال بھی ہوا لے گیا ہے۔۔۔صاب جی تسی تے اتنے اچھے بندے اوہ ۔۔۔۔۔گنج تہانوں سوہنڑی نہیں لگدی جی۔۔۔۔
شٹ اپ جائل انسان ۔۔۔۔مجھے ایر پورٹ پہ چھوڑ کہ آؤ ۔۔۔عرفان درانی اس کی ڈفر پڑھ کہ چیخ اٹھا تھا اور اپنی گنج پہ ہاتھ رکھ کہ سر کو دبوچا تھا۔۔
اوہ صاحب۔۔۔۔۔خیر نال ۔۔۔سر زخمی ہو جا سی تساں دا۔۔۔تساں دے بال ہی نہیں۔۔۔۔کرموں اس کو ایسا کرتے دیکھ کر بولے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔۔
نکلو۔۔۔نکلو۔۔۔ادھر ۔۔۔سے ۔۔نہیں تو دھکے مار کہ نکلواؤں گا۔۔اس کی پھر سے بات سن کر عرفان درانی غصے سے ڈھارتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
اوہ ۔۔۔سر جی۔۔۔پریشان نہ ہو۔۔۔شانت رہو۔تسی جہاز تے نہیں جانڑا چلو۔۔۔۔ام آپ کو چھوڑا کے آتا ہے۔۔۔کرمو اس کو خود پہ ڈھارتے دیکھ کر اردو پنجابی مکس کر کے اس کے غصے کو ٹھنڈا کیا اور چابیاں اپنی جیب سے نکالی تھی۔۔
جائل انسان ۔۔۔عرفان درانی نارمل ہو کر پھر بڑبڑایا گاڑی میں بیٹھا جو گاڑی سٹارٹ کر رہا تھا۔۔
سنو۔۔۔۔تم نے میرا فون ۔۔۔تو ۔۔۔۔نہیں دیکھا۔۔۔عرفان درانی فرنڑ سیٹ پہ بیٹھتا تحکم سے بولا تھا ۔۔۔۔
سر جی تساں نو۔۔۔۔۔چوٹ ۔۔۔۔تے نہیں لگی۔۔۔۔!فیر کتھے خون نکلیا ۔۔۔تساں دا۔۔۔۔کرموں نے گاڑی چلاتے ہوئے اسکی طرف دیکھتے فکرمندی سے کہا تھا۔۔۔
واٹ۔۔۔۔جائل انسان ۔۔۔۔اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔اب مجھے مخاطب مت کرنا۔۔۔۔یہ نہ گاڑی سے پھینک دوں۔۔۔وہ اس کی بار سنتا دانت بھینچتا ہوا بولا تھا۔۔
فلحال گاڑی ۔۔۔۔ام چلا رہا تھا ۔۔۔تسی اپنا خیال کرو میرا نہیں ۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے گاڑی کی سیپڈ تیز کر دی تھی۔۔۔
**********
روشنال اٹھیں کھانا کھالیں ۔۔۔دو تین دفعہ اسے پکارا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔۔۔
اس نے ہلایا بھی لیکن وہ نہیں ہلا تھا۔۔۔ وقت کی تاخیر کیے بغیر اشنال نے اس کے سینے پر سر رکھا تھا اور کان اس کے سینے پر رکھے تھے تاکہ اس دل کی ڈھرکنیں چیک کرسکے۔۔۔۔اس کی سانسوں چلتی نہ دیکھ کر وہ گبھرائی تھی ۔۔۔وہ پھر سے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر تھپتھانے لگی۔۔۔مگر بے سود ۔۔۔۔اس مضبوط شخص کو ایسے دیکھ کر وہ پھر سے کانپنے لگی وہ شخص تو اب اس کی ڈھڑکنوں کا بھی مالک بن چکا تھا۔۔۔اس کی اس حالت کا ذمہ دار وہ خود کو ٹھہرانے لگی تھی۔۔۔
فون ۔۔۔۔اسکا۔۔۔۔دیکھا جو بیڈ پہ پڑا ہوا تھا۔۔۔۔پر لاکڈ تھا اس نے اس کی فنگر پرنٹس لگا کر چیک کیا کھل گیا تھا کانپتے ہاتھوں سے فرقان کا نمبر ڈھونڈا اور ڈائل کیا ۔۔
ہیلو۔۔۔۔ب۔۔۔بھا۔۔۔بھائی ۔۔روشنال کی طبعیت خراب ہے۔۔۔۔مم۔۔نے ان۔۔۔کو اٹھا رہی لیکن وہ اٹھ نہیں رہے نہ ہی بات کر رہے ہیں نہ جواب دے رہیے ہیں ۔۔آ۔۔۔آپ ۔۔۔بھابھی کو لے کر آجائیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔دو تین کال ملانے کے بعد جب فرقان نے کال اٹھائی تو اسکی گبھرائی ہوئی آواز سنی تھی ۔۔
اچھا چھوٹی آپ رو مت ۔۔۔میں بس پہنچ رہا ہوں میں ڈاکٹر کو لے کہ آتا ہوں۔۔۔۔فرقان نے اس کی گبھراتی ہوئی آواز سنی جو رورہی تھی تو اس کو دلاسہ دیا تھا۔وہ کال ڈسکنٹ کر گیا تھا۔
کال بند ہونے کےبعد وہ اس کے پاس آبیٹھی ۔روشنال اٹھیں نہ پلیز ۔۔ا اس کے سینے سے لگ کر شدت سے روتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
آپ۔۔۔۔آپ ۔۔۔ٹھیک ۔۔۔۔ہیں ۔۔۔اس کی چلتی سانسوں کو دیکھ کر وہ خوشی سے اچھلی تھی جس کی سانسیں چل رہی تھی اس کی چلتی سانسوں نے اسے زندگی کی نوید سنائی تھی لیکن اس کا رسپونس نہ پاکر پھر سے اس کو پکارا تھا۔۔۔
اتنے میں ڈور بیل بجی تو اس نے دروازہ کھولا تھا فرقان ڈاکٹر کو لے کہ آیا تھا پر ساتھ کنزہ نہیں تھی ۔۔۔۔
بھا۔۔۔بھائی۔۔۔وہ اس کو دیکھ کر روپڑی تھی۔۔۔
۔۔۔کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔جب بھائی کو پکارا ہے وہ سالے صاحب کو کچھ ہونے دیں گے۔۔۔نہیں۔۔۔نہ جبکہ فرقان نے اس کے سر پر ہات رکھ کر عقیدت سے اسے تائید چاہی تھی۔۔
نہیں ۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر پیچھے ہٹا اور ڈاکٹر کو اندر آنے کا کہا تھا ڈاکٹر اندر آیا تھا وہ پیچھے پیچھے چل دیا تھا۔۔۔
روشنال میرے جگر اٹھ جا۔۔۔فرقان کمرے میں آیا تو اسے پکارا مگر وہ نہ ہلا۔۔۔۔فرقان نے پانی کا گلاس بیڈ سے اٹھایا اور اس کے منہ پر چھڑکا تھا۔۔۔جس سے اس کو ہوش تو آیا تھا پر وہ پھر سے آنکھیں بند کرگیا تھا ۔۔۔
********
بی بی لو ہے انکا۔۔۔۔! اس لیے ایسی کنڈیشن ہوئی ہے بہت زیادہ سٹریس اور کچھ نہ کھانے کی وجہ سے ان کی ایسی حالت ہوئی ہے ٹنشن کی کوئی بات نہیں ہے بس پانی میں تھوڑا سا نمک ملا کہ ملائیں یا لیموں کا پانی پلائیں یہ نارمل ہو جائیں گے اور یہ کچھ پین کلر ہے ان کو کھانے کے بعد دے دیجیئے گا۔۔۔۔ڈاکٹر اس کو چیک کرتا پیشہ وارنہ الفاظ میں بولا تھا۔۔۔
فرقان ڈاکٹر کو لے کر دروازے تک چھوڑنے آیا اور وہ کچن میں آئی لیموں کو تھوڑے سے پانی میں نچوڑ لیا تھا
بھائی ۔۔۔۔۔یہ ان کو پلا دیجئے گا۔۔۔ واپس آتے فرقان کو دیکھ کر ڈوپٹہ سیٹ کیا اور اسے گلاس پکڑایا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے میں لے جاتا ہوں آپ بس پریشان نہ ہو۔۔۔لٹل سسڑ اور روشنال کےلیے کچھ ہلکا پھلکا سا تیار کرلیں میں اس کو کھلا کہ جاؤں گا۔۔وہ اس کے ہاتھ سےپانی لیتا ہوا مدھم سے لہجے میں بولا ۔۔۔
جی ۔۔۔ٹھیک ۔۔۔اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔وہ روم میں چلا گیا اشنال کچن میں آئی اور اس کے لیے دلیہ بنانے لگی تھی وہ تو شکر ہے کہ ہر چیز کیبنٹ میں میسر تھی اس کی خراب طبعیت کے باعث اس کی عشا نماز بھی نکل گئی تھی وہ تو شکر ہےکہ کھانا کا پوچھتی اس کے پاس چلی گئی ۔۔۔۔ورنہ وہ ساری رات ایسے ہی رہتا یہ سوچ کر اس کی روح کانپ گئی تھی وہ آگے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی دلیہ بنا کر پھر سے کمرے میں چلی آئی تھی ۔۔۔۔
روم کا لاک نیم کھلا دیکھ کر اس نے ناک کرنا مناسب فرقان کی اجازت پاتے ہی اندر آئی تو اس اس ستمگر کو دیکھ کر اسے سکون آیا تھا۔۔۔!
کیونکہ وہ لیٹا ہوا تھا جبکہ اس کا ہاتھ پکڑے فرقان اس کو اس کا خیال رکھنے کا کہہ رہا تھااس کو ٹھیک دیکھ کر اشنال کا کے دل میں ڈھیروں سکون اترا تھا وہ تکیوں کے سہارے بیٹھا روشنال کی کسی بات پہ مسکرایا تھا۔
ادھر دے بھابی میں اس کو کھلاؤں ۔۔۔۔یہ ڈفر تو میری ایک بات بھی سنتا ۔۔۔۔خومخواہ آپ کو بھی پریشان کر رکھا ہے اس نے ۔۔فرقان نے اشنال کو دیکھ کر دلیہ لینے کی خاطر ہاتھ بڑھایا تھا اور اس سے دلیہ لے لیا اور اس سے کھلانے لگا ۔۔
جاؤ ۔۔۔۔بھائی کےلیے چائے لے کہ آؤ۔۔۔۔روشنال نے اس سے کھڑے دیکھا تو روکھے سے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔۔اس کی گھمبیر اور روڈ سا لہجہ سنتی اشنال ایک لفظ ہی کہہ سکی تھی روشنال اسکی سرخ سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بے چین ہوا تھا لیکن لہجہ اپنا تلخ رکھنے سے وہ خود کو روک نہیں سکا تھا۔۔
نن۔۔۔۔نہیں ۔۔۔سٹر۔۔۔۔میں چائے نہیں پی رہا پھر کبھی آؤں گا۔۔۔فرقان نے یہ کہہ کر سہولت سے انکار کیا تھا وہ نہیں چاہتا وہ اپنی چھوٹی سے بہن کو کسی بھی تردد میں ڈالا۔۔۔۔
بھابی خاک تجھے چاہے گی۔۔۔۔۔جب کسی کسی زہریلے ڈریکولے کی طرح میری معصوم بہن کو ڈرائے گا وہ تو پھر پرچھائی سے نفرت ہی کریں گی نہ کہ۔۔۔فرقان کہتے کہتے رک گیا تھا۔۔۔۔
تیری بہن سے پہلے وہ میری بیوی ہے۔۔۔۔بڑے آیا بہن کابھائی۔۔۔۔۔!روشنال نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔۔
اللہ ایسے ہی خوش رہے ۔۔۔تیری بیوی سدا سہاگن رہے۔۔۔۔فرقان نے اس کے ہنستے چہرے کو دیکھ شریر لہجے میں کہا تھا۔۔۔چل جگر کھا ۔۔۔۔تجھے طاقت ۔۔۔۔آئے میری بہن تو تیری حالت دیکھ کر مرنے والی ہوگئی تھی ۔۔۔۔مجھھے کال کی جب انہوں نے مجھے رو رو کہ بتایا۔۔۔۔تو میرے سامنے ہوتا بس میں بیماری میں ہی منہ توڑ دوں ۔۔۔۔فضول میں اس ننھی جان کو تو نے تنگ کیا۔۔۔۔تو تو کہتا تھا ۔۔۔بھابھی تجھے پسند نہیں کرتی ۔۔۔۔بکواس کرتا ہے تو۔۔۔۔۔ اگر وہ تجھے پسند نہیں کرتی تو انگاروں پہ نہ لوٹ رہی ہوتی ۔۔۔۔فرقان نے اسے اچھا بھلا لٹارا تھا۔۔اور اس کےپاس وہ ساتھ کھلاتا رہا اور ان کی یلکی مزاق چلتی رہی تھی۔۔۔۔!
******
فرقان چلا گیا تھا اس کو گئے آدھا گھنٹا ہوگیا تھا وہ پہلے تو دیکھتی رہی کہ روشنال نے اسے خود بلائے گا تو وہ جائے گی ایسے نہیں۔۔۔۔لیکن اس کی طبعیت خراب ہونے کے خدشے سے وہ اندر آئی تھی ڈاکٹر کی پین کلر بھی ساتھ اسے دے گی
ادھر بیٹھو۔۔۔۔روشنال جس نے اس کو اندر آتے دیکھا تو اسے پکارا تھا۔۔۔اشنال اس کو رسپونس کیا دیتی اس کی بھاری سخت سن کر وہ سوچنے لگی اب اسے ایسی خطا کیا ہوئی ہے جو وہ پھر سے ایسے ہی بےرحم اور سخت بنا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ سوچنے لگی کہ وہ سنگدل کیوں اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا دے رہا ہے جو اس نے کیا ہی نہیں ۔۔۔وہ پتھر دل شخص کیوں نہیں موم ہو رہا ۔۔
کچھ بکواس کی ہے میں نے مس۔۔۔۔اس کو سوچتے دیکھ کر اور رسپونس نہ پاتا دیکھ کر وہ جنجھلایا ہی گیا تھا۔۔
ججج۔۔۔جی بولیں ۔۔۔۔۔ جبکہ اس کی پرتپش نظروں سے وہ گبھرا رہی تھی اس کی گہری برواؤن آنکھوں کو اپنے پورےوجود پر گردش کرتے دیکھ کر وہ جی جان سے کانپی تھی ۔۔۔
بیٹھو۔۔۔۔۔وہ سخت سا اپنے پاس اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا اس کی کی آنکھ سنتی وہ اس کے پاؤں کے قریب تھوڑی سی جگہ پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
ادھر نہیں ادھر بیٹھو اور سر دباؤ میرا۔۔۔۔اسکی سرد نگاہیں اس کے نازک سراپے ہی تھیں وہ اسے اپنے پاس اشارہ کرتا ہوا پھر سے بولا تھا۔۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔۔وہ کانپتی ہوئی اٹھی اور اس کے منتخب کردہ جگہ پر بیٹھی تھی۔۔
کیا کہہ رہوں ہوں سر دباؤ میرا۔۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھوں کو دیکھتا ہوا بولا جو کہ پہلے ہی کانپ رہے تھے۔۔۔۔
جج۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔یہ کہتے وہ اس کی کشادہ پیشانی پہ ہاتھ رکھ کہ ہلکا دبانے لگی تھی ۔۔۔
کھایا میں نے کچھ نہیں ہے اور ہاتھ تمھارے کام نہیں کر رہے ۔۔۔۔اس کے ہاتھوں کو آہستہ چلتا دیکھ کر اس کو غصہ آیا تھا۔۔
اشنال نے بےبس ہوکر اس کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں بند تھی پر وہ طنز کے تیر بھگو بھگو کہ مار رہا تھا لیکن کچھ دیر اس کی آواز نہ سنی تو اس دشمنِ جاں کی طرف دیکھا اور دیکھتی رہی۔۔۔
اچھا چپکے پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے میرا۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی جب اس نے آنکھیں کھول کر گھمبیر آواز میں کہا تھا۔۔۔
جج۔۔۔۔جی۔۔۔ممم۔۔۔۔میں۔۔۔تو۔۔اس کی چمکتی آنکھیں اپنے اوپر جمے دیکھ کر وہ جلدی سے ہاتھ ہٹا گئی تھی اور گبھراہٹ سے منہ سے کچھ نکل ہی نہ سکا تھا۔۔
فرقان کو کو اتنی رات کو کیوں فون کیا ۔۔۔۔اس کو کیوں پریشان کیا تھا۔۔۔اس کے ہاتھ کو پکڑتا وہ سختی سے استفار کرنے لگا تھا چمک غائب تھی صرف اور صرف سرد پن تھا اس کی نگاہوں میں ۔۔۔
وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔آپ۔۔م۔۔مجھے سن نہیں رہے تھے ۔۔۔۔تو۔۔۔۔تت۔۔۔میں ننن۔۔۔۔نے بب۔۔۔بھائی کو کال ک۔۔۔۔کی تھی مم۔۔۔مجھے لگا۔۔۔۔اس کے بازوؤ کے سخت پکڑنے پر وہ کانپنے لگی اور ڈرتے ہوئی بولی تھی۔۔۔
کیا لگا کہ مر گیا ہوں میں ۔۔۔۔وہ اتنا اونچا غرایا کہ دو تین منٹ اس کی آواز نے اس خاموش کمرے میں ارتعاش پیدا کیا تھا۔۔۔
پلیز آپ ایسا نہ۔۔۔۔۔کہیں۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں نے ایسا بالکل بھی نہیں سوچا۔ بلکہ مجھے تو ایسا لگا کہ ممم۔۔۔میں گگ۔۔گر جاؤں گی۔۔۔وہ اس کی آواز سے سہم کر بولی۔۔۔۔ہرنی جیسی نشیلی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھی…
تمھیں تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ تم مجھ جیسے ستمگر سے چھٹکارا مل جاتا اور مجھے علم ہے کہ میری حالت دیکھ کر تمھیں خوشی ہوئی ہوگی۔۔کیونکہ تمھارے اوپر تو ظلم کرتا ہوں میں ۔۔اس کو اپنی طرف کھینچتا اس کی دیکھتا اب کی بار وہ نرمی سے بولا تھا۔۔۔
اشنال کا سر اس کے کشادہ سینے سے ٹکرایا تھا اس کا نمازی سٹائل ڈوپٹہ اس کے زبردست کھینچاؤ سے کھل گیا تھا اسے باہر بدلتے موسم اور اسے شخص کی بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی اس کے بدلتے رنگوں سے وہ بالکل ناواقف تھی۔۔۔۔
؎ تو رنگ دے رنگ دے بندے ویکھے نے
میں اک بندے وچ ہزار رنگ ویکھے نے
ابیا علی
بتاؤ ۔۔۔۔تمھیں ۔۔۔۔۔میری خراب حالت کر تمھیں تو خوشی ہوئی ہو گی ۔۔۔۔مطب مر رہا ہے جان چھوٹ رہی ہے وغیرہ۔۔وغیرہ جب مجھے سانس نہیں آر رہی تھی تو اس وقت ۔۔۔۔تمھیں تو خوش ہو رہی ہوگی ۔۔۔ تم اپنی جگہ بھی ٹھیک ہی ہوگی ۔۔۔۔ویسے بھی میں تم پہ بلاوجہ پابندیاں لگاتا ہوں ۔۔۔۔۔قید کر کے رکھتا ہوں ۔۔۔مارتا ہوں ۔۔۔باندھ کہ جاتا ہوں ۔۔۔وہ اس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں اپنی نگاہیں ڈال کہ سرد لہجے میں بولا تھا۔۔
جب ایک بندہ آپ کے سامنے بےجان پڑھا ہو۔۔۔۔سانس نہ لے پا رہا ہو۔۔۔۔۔تو آپ خود بتائیں اس کو کیا کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔بتائیں نا جب آپ کی طبعیت خراب تھی آپکو سانس نہیں آر رہی تھی مجھے کیا کرنا چاہیے تھا وضاحت دیں میں تو آپکے پاس آئی تھی آپ نے جبکہ خود مجھے یہاں سے نکال دیا تھا ۔۔وہ اس کے بڑھتے سوالوں۔۔۔اور اس کے بدلتے لہجے سے اس کے اوپر جھکے جھکے بیٹھے تجھک گئی اور تنک کر بولی تھی۔۔
تمھیں مجھے اپنی سانسیں دینی چاہیے چاہیے۔۔۔۔مجھے انہیل کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔تب تو مجھے پتا ہوتا کہ تم میری رکتی سانسوں کی کمی کو پورا کرنے آئی لو۔۔۔۔وہ اس کے سوالوں کے جواب دیتا اس کی طرف دیکھا جس کے بال اس کے اوپر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔ ۔۔۔پل۔۔۔پلیز ۔۔۔چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ اس سنجیدہ شخص سے یہ سوال سننے کی ہمت نہیں رکھ سکی اس کے سوال کا جواب سنتے اس کے جسم کا خون اس کے چہرے پر سمٹ آیا تھا وہ ایسے بے باک جواب کی توقع اس شخص سے نہ رکھ سکی تھی اس کا دل کیا کہ خود کو اس کی نظروں سے اوجھل کر لیں پر یہ کیسے ممکن تھا۔۔۔۔
اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے میں تمھارا محرم تھا۔۔۔۔تم تو ایسے نظریں چرا رہی ہو اور بچنے کی کوشش کر رہی ۔۔۔جیسے میں کوئی لوفر ہوں اشنال بخت محرم کی سنگت میں مت گبھراؤ میں اور میں اتنی دیر بے ہوش پڑا رہا تھا اور تم اپنے روم میں جاکر مزے کرتی رہی ۔۔۔۔اس کے سرخ چہرے اوراس کی جھکی نگاہیں دیکھ کر روشنال نے پھر طنز مارا تھا اس,کی سوئی وہی پہ اٹکی تھی جب تک وہ اشنال بخت سے تفشیش نہ کرلیتا تب تک اس کے پچھلی رات سے جلتے دل کو قرار نہیں آتا تھا۔۔۔
ممم۔۔۔میں روم۔۔۔۔میں آئی تھی آپ کو پکارا ۔پر آپ ن۔۔۔نے مجھے جو۔۔۔۔اب نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔کان لگا کہ چیک کیا تھا کہ آپ کو سانس آرہی ہے یا نہیں ۔۔۔۔آپ کی سانسیں نہیں چل رہی تھی اس لیے مم۔۔۔۔میں ۔۔۔نے فر قان بھائی کو کال کی تھی۔۔۔۔وہ اس کہ سینے پر دیکھتی ہوئی شرمندہ ہوتے بولی تھی ۔۔۔۔!
کیسے سانسیں چیک کی تھی۔۔۔۔۔؟اس کا شرمندہ اور سرخ چہرہ دیکھ اس کا لہجہ دیکھ کر اسے پوچھا تھا اس کا رویہ ہنوز سرد تھا۔۔۔
اد۔۔۔۔۔۔ادھر ھر سر رکھ کر آپ کک۔۔۔کے دل پر۔۔۔۔۔اس نے گبھراٹ سے اس کے سینے پر رکھا تھا۔۔۔۔
سبحان اللہ ۔۔۔۔محترمہ دائیں طرف کونسا دل ہوتا ہے۔۔۔۔اللہ نے عقل کا خانہ کہاں رکھا ہے تمھارا۔۔۔۔اس کے گبھرائے چہرے کو پھر سے دیکھا ۔۔۔۔اس کے مچلتے آنسووؤں پلکوں کی بار پہ جمع تھا۔۔۔
جج۔۔۔۔۔جی ۔۔۔ اس کی بات سن کر وہ اپنی نظریں نہ چرا سکی تھی۔۔۔۔ہائے اللہ تبھی میں کہوں انہیں سانس نہیں آرہی ۔۔۔۔۔ہائے اللہ جی گبھراہٹ میں میرے اس دماغ کو کیا ہوجاتا ہے۔۔۔۔! وہ یہ ہی سوچ رہی تھی جب بادل گرجے تھے اس کی گرفت پہ وہ مچلی تھی۔۔۔
۔۔۔یہ۔۔صرف ۔۔جی۔۔۔۔کہنے کا سرٹفیکفیکٹ کہاں سے لیا تھا اور کوئی گولڈ میڈل تو نہیں لیا۔۔۔۔ اس کے بار جی کہنے
اس کی گھنی مونچھوں تلے عنابی مسکرا اٹھے تھے۔۔۔
وہ اس کے سر کو اٹھاتا اس کی سوجی جھکی پلکوں پر لب رکھ گیا تھا۔۔۔جبکہ اشنال کی سانسیں مدھم ہونے لگی تھی اس کے لمس پر ۔۔۔۔وہ کانپنے لگی تھی ۔۔۔
جاؤ۔۔۔۔شاباش اپنے روم میں جاؤ۔۔۔۔صبح کالج نہیں جانا۔۔
اس کے سراپے کے دلکش خدوخال سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔۔۔وہ پھر بے اختیاری کے لمحوں میں آکے ایسی حرکت سر زد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ جانتا تھا۔۔۔اس کے سامنے بیٹھی اسکی یہ معصوم بیوی اسکی شدت سہہ نہیں پایا گی۔۔۔۔جبکہ اس کے اوپر جھکی اشنال چاہتی تھی کہ وہ آج ادھر ہی سو جائے کیونکہ باہر بادل گرج رہے تھے ۔۔اسے حیرت ہوئی کہ وہ شخص بادل گرجنے سے بھی کتنا پرسکون ہے وہ حیرانگی سے اس کی طرف پہلے تو دیکھتی رہی پھر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔جبکہ روشنال اسکی اڑتی رنگت اور کانپتے ہاتھ دیکھ رہا تھا۔۔۔
اگر آپ کی طبعیت نہیں ٹھیک تو میں ادھر ہی رک جاتی ہوں صوفے پر سو جاؤں گی وہ نظریں چراتی ہوئی بولی کہ یی شخص اس کی آنکھوں کا جھوٹ نہ پکڑ لے ۔۔۔۔!
نہیں میں ٹھیک ہوں تم جاؤ۔۔۔۔شاباش جاؤ تم ۔۔۔۔تکیے پر گال ٹکائے وہ اس کی حالت کا نوٹس تو لے رہا تھا جو مڑی تھی جانے کے لیے وہ پیچھے سے اس کو بغور دیکھنے لگا تھا اس کا ڈوپٹا کندھے پر اب جھول رہا تھا اس کی کمر پر بکھرے سیاہ بالوں نے اس کی نازک کمر کو ڈھانپ رکھا تھا وہ اسے دیکھنے میں روئی کی طرح ملائم لگی تھی ۔۔۔۔وہ روشنال کی کافی توجہ اور اہمیت میں پلی تھی روشنال نے اسے موم کی گڑیا کی طرح پالا تھااس کو احیتاط سے پالا تھا۔۔۔
اب بھی ایک قسم کا چھوٹی بچی سمجھ کر پال رہاتھا بے شک وہ سخت بن جاتا تھا پہلے وہ اسے نرمی سے بات کرتا تھا وہ سجھتا تھا وہ بیگانی شے ہے لیکن جب رشتہ بدلا تو دیکھنے کا انداز بھی بدل گیا تھا۔۔۔۔وہ اب بھی اس کا خیال رکھتا تھا لیکن اب اپنی شہ سمجھ کر خیال رکھتا تھا اس کا پیار کرنے کا طریقہ وہی تھا بس اب لہجہ بدل گیا تھا۔۔۔اب وہ اس سے سختی سے بات کرتا تھا۔۔۔ اس کا خیال رکھنا نہیں چھوڑا تھااس کا خیال تو رکھتا تھا لیکن پتھر دل انسان بن کر۔۔۔۔۔
ب۔۔۔بات۔۔۔۔سنیں ۔۔۔۔باہر بادل گ۔۔۔گرج رہے ہیں۔۔۔۔اگر آپ کو ان کی آواز سے الجھن ہو رہی ہے یا خوف آ رہا ہے تو میں ادھر ہی سوجاتی ہوں۔۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر مڑی لیکن اس کی ڈراک برواؤن آنکھیں خود پر ٹکے دیکھ کر اپنی سانسیں روکیں اس کا جواب سننے کی منتظر ہوئی تھیں
نہیں۔۔۔۔تم جاؤ۔۔۔۔۔دروازہ بند کر جانا ۔۔۔مجھے کوئی الجھن کوئی خوف نہیں ہے وہ صاف لفظوں میں کہہ گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ ڈر رہی ہے اس کی آنکھوں کا خوف دیکھ لیا تھا پر اسے جاتا ہوں دیکھنےلگا تھا ۔۔۔۔جب وہ آرام سے نکلتی مدھم رفتار سے اپنے کمرے میں آئی تھی ۔۔۔
********
ڈوپٹہ اتار اور بالوں کو جوڑے کی شکل میں دے کر وہ بیـڈ پہ آکر وہ لیٹی تھی جب پھر سے بادل گرجے تھے وہ تکیے کو بھنچتی زور سےمٹھیوں میں کلمے کا ورد کرنے لگی تھی۔۔۔
کیا ہے سفاک انسان تھوڑی سی جگہ اپنے روم میں دیتے۔۔۔
میں تو اپنی رات امن سے گزار لیتی۔۔۔ پر قسم سے بندے کو اتنا بھی سنگدل نہیں ہونے چاہیے مجھے تو بڑا کہے رہے تھے کہ تمھیں میرا خیال نہیں ہے ۔۔۔۔خود تو جیسے پہ پلکوں پہ بیٹھا کہ رکھا ہے ظالم انسان۔۔۔وہ بادلوں کی آواز پھر سے سنتی غصے اور بے بسی سے لیٹی تھی ۔۔
خو د تو بڑا کہہ رہے تھے محرم ہے ہم۔۔۔۔۔! اب تو ایسے مجھے بیجھا جیسا میں ان کے چاچا کی بیٹی نہیں ہوں وہ غصے میں آتی تو نہیں دیکھتی کہ کیا بول رہی ہے وہ ایسے ہی خود سے باتیں کرتی تھی۔۔۔
وہ ایسے ہی بڑ بڑا رہی تھی جب لائٹ چلی گئی تھی وہ چیخ بھی نہ سکی تھی لائٹ جاتا کر وہ ڈر سے کمبل لپیٹ گئی تھی وہ اس شخص کے پاس جانا چاہتی تھی پر ڈر کی وجہ سے اٹھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔
******
روشنال اس کو بھیج کر وہ لیپ ٹاپ کھول کر اسائمنٹ کرنے لگا جب لائٹ جانے سے اس کو ساتھ کمرے میں لیٹی اشنال کا خیال آیا تھا۔۔۔اسےپتہ تھا بادلوں کے گرجنے سے وہ خود کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہوگی وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھا تھا کہ کہیں وہ خود کو کسی چیز میں بند نہ کرلے۔۔بیڈ سے اٹھ کر اس کے کمرے میں آیا تھا اور اس کا روم بند تو تھا لیکن لاک نہیں تھا۔۔۔جب فون کی ہلکی سی لائٹ آن کی اور اس کے بیڈ کہ قریب اور اس کے بیڈ پہ بیٹھا تھا ۔۔
اشنال۔۔۔اشنال ۔۔وہ کمبل میں لپٹی گھٹلی سی بنی پڑی تھے جیسے اس کی آواز سنی کمبل ہٹاتی شدت سے روتی ہوئی اس کے سینے سے لگی تھی۔۔۔
بات سنو ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔۔اس نے اسے بلایا لیکن اس کی پشت پہ ہاتھ باندھے ۔۔۔وہ تو جیسے گھسنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔
اشنال سیدھی ہوکہ بیٹھو ۔۔۔وہ جو ٹانگیں بھی اس کی گود میں گھسا رہی تھی اس کے سر پر ڈوپٹہ نہیں تھی اس کو ایسا کرتا دیکھ کر وہ تھوڑا سا سختی سے بولا تھا تاکہ وہ ہٹ جائے۔۔۔!
نہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔اس کے سینے پر ہی سر رکھے نفی سے سرہلایا تھا جوڑے سے سلکی بال پھسل کر نیچے گرے تھے وہ تھوڑی سی اوپر ہوئی اور اس کی گردن میں سر دیا تھا۔۔
اشنال۔۔۔۔۔روشنال اب پچھتا رہا تھا کہ وہ ویسے ہی اس کے کمرے میں آگیا تھا اپنے جذبوں کی آواز سے گبھرا کر اس کو پکارا تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے خود سے دور مت کریں ۔۔وہ اس کی گردن میں سر دئیے ہی بولی تھی جبکہ روشنال کو اس کے لب اپنی گردن پہ ہلتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔۔اس کو اپنے قریب دیکھ کر وہ اس کے گرد بازوؤں حمائل کرگیا تھا جبکہ اشنال کی جان پہ اب بنی تھی۔۔