تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 16

وہ اسے مزید اپنے قریب رکھ گیا تھا اور اس کے گرد
بازوؤں حمائل کرگیا تھا۔۔۔
کیا ہوا ڈر تو ایسے رہی ہو۔۔۔۔جیسے تمھارا وقتِ آخرت آگیا ہو۔۔
وہ کانپ کر اس کی قمیض کو مٹھیوں میں بھنیچ گئی تھی اس کے کانوں میں گمبھیر سا بولا تھا اور اس کو اپنے سے علحیدہ کیا تھا۔۔۔
ن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر پھر سے چپکی تھی۔۔۔
اٹھو ایک منٹ کے اندر اٹھو۔۔۔۔۔! وہ اس کے بار بار ڈرنے سے کوفت میں آیا تھا اور کچھ اس کے بدلتے لہجے کا سبب اس کی سابقہ رات سنائی گئی باتیں نہیں تھی۔۔۔
وہ بیڈ سے اترا اور اسے کھنیچ کے اتارا تھا۔۔۔
ہہ۔۔۔۔ہم ۔۔ہم ۔۔کہاں۔۔۔جج۔ جا رہے ہیں ۔۔۔۔وہ وہ اس کے اتنے زبردست حملے کےلیے تیار نہیں تھی اور اس کے ساتھ کھنچتی جا رہی تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کہاں لے کہ جا رہا ہے ۔۔۔۔
تھارا یہ ڈر ختم کرنے ۔۔۔۔وہ پیچھے مڑا تھا اور اپنی ڈارک براؤن نظریں اس پر گاڑ کہ بولا تھا جو ناسمجھی اور خوف سے اسے دیکھ رہی تھی ا س کو دیکھتا رہا جس کی ہرنی جیسی آنکھوں خوف کا ایک جہان آباد تھا وہ اسے پھر سے کھنچتا سیڑھوں کی طرح بڑھا تھا اس کے بال کمر پہ لہرارہے تھے ڈوپٹہ وہی رہ گیا تھا ۔۔
چ۔۔۔۔چھوڑیں مم۔۔۔مجھے ۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں نے کہیں نہیں جانا آپ کے ساتھ۔ مم۔۔۔مجھے نہیں ڈر لگ رہا۔۔۔اس کو سٹیرھیوں کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ التجائی ہوتی بولی تھی۔۔۔
سس۔۔۔۔خاموش۔۔۔۔ایک لفظ نہیں۔۔۔۔وہ اسے گھیسٹتا ہوا احساسات سے عاری لہجے میں بولا اور چھت کا ڈور کھولتا وہ اسے تیز بوندوں کے نیچے کھڑا کرگیا تھا۔۔۔
یہ۔۔۔۔کک۔۔۔کیا رہے آپ ۔۔۔۔؟وہ بادلوں کو گرجتا دیکھ کر اس ظالم شخص کو دیکھنے لگی ۔۔۔جو اسے بارش میں کھڑا کر کہ پرسکون سا ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔۔
تمھارے ڈر کو کھڑا کر رہا ہوں ۔۔۔۔اشنال بخت اب میری پناہوں میں مت گھسنا میں تمھیں اتنا سخت دیکھنا چاہتا ہوں کہ تمھیں کسی کے سہارے کی ضرورت نہ پڑے تم اتنی مضبوط ہو جاؤ کہ تمھیں کسی دوسرے کے سہارے کی محتاج نہ ہو۔۔۔۔وہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر سرد سے لہجے میں بولا تھا۔۔
ممم۔۔۔۔میں تت۔۔۔تو۔۔۔۔ایسی ہو۔۔۔۔جاؤں ۔۔۔۔گی پھر ۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے۔ ۔ایسے دیکھ کر پچھتائیں گے بہت ۔۔۔۔۔وہ کانپتے لبوں سے بادلوں کے گرج سے خوفزدہ ہوتی پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولی تھی۔۔
مجھے پچھتانا منظور ہے بیگم۔۔۔۔۔وہ اسی احساسات سے عاری لہجے اس کی طرف جھکتا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا۔۔۔۔
آپ روئیں گے بھی ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے پھر سے بولی تھی ۔۔۔
رو لوں گا اور ۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھے بنا بولا جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑھ رہا ہو۔۔۔
آپ مجھے ڈھونڈا کریں گے پر میں نہیں ملو گی۔۔۔۔وہ اب کی بار سسسکیوں سے بولی تھی اس کے کپڑے بھیگ چکے تھے۔۔۔
میرے علاوہ تمھارا کون ہے جہاں تم جاؤ گی۔۔۔۔؟اب کی بار اس کا مذاق اڑایا تھا۔۔
مم۔۔۔میرا اللہ ہے نا۔۔۔میں اپنے اللہ کے پاس چلی جاؤں گی۔۔۔وہ اس پہ اثر نہ ہوتے دیکھ کر دیکھ کر ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی تھی ۔۔
چ۔۔چلو۔۔۔۔نیچے۔۔۔۔اس کے اس جواب سے روشنال کا سینے فٹ پتھر دل ہل کر رہ گیا تھا۔۔۔وہ اس ایسے جواب کی توقع نہیں رکھتا تھا وہ اسے اپنا ایسا پتہ بتا گئی جو مضبوط اور مستقل تھا۔۔۔۔وہ کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا تھا بس یہ ہی کہہ سکا تھا۔۔
اب میں کئی نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔!جب تک صبح نہیں ہوگی آپ چلیں جائیں۔میرا ڈر جب ختم ہو جائے گا میں نیچے آجاؤں گی ۔۔مجھے اس خوفناک رات میں رہنے دیں آپ جائیں سو جائیں۔۔۔
اس نے روتے ہوئے ضد کی تھی وہ اس کے منہ پہ تو بڑی شیرنی بہن رہی تھی لیکن اندر ہی اندر اس کا ننھا سا دل سہم رہا تھا اس کو یہ وحشت زدہ موسم بھی رولا رہی تھا اور اپنے سامنے کھڑا یہ وحشت ناک بندہ بھی اس کا ننھا سا دل دھڑکا رہا تھا وہ روشنال کے لہجے کو دھیما پڑھتی دیکھ کر شیرنی ہوئی تھی لیکن اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ چھپ جائے جہاں بادل کیا کسی کی آواز نہ سنائی دے۔۔۔
میں کہہ رہا ہوں جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔ وہ اسکے دوپٹے سے بغیر وجود سے نظریں چراتا سخت مگر دھیمے لہجے میں بھولا تھا ۔۔۔۔
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔جاؤں گی اب۔۔۔۔۔وہ مزید ضدی ہوئی تھی ۔۔۔
چلو۔۔۔۔اسے بازوؤں سے جکڑتے وہ اس سے گھیسٹا ہوا چھت سے نیچے لے جانے لگا چھت کا ڈور بند کیا اسکی گرفت اس کے بازوؤں میں ایسے ہی تھی۔۔۔اور فون کی لائٹ آن کی تھی تاکہ نیچے لے جاسکے۔۔۔۔!
کک۔۔۔کئی نہیں جاؤں۔۔۔۔مم۔۔۔میں آپکے ساتھ۔۔کہیں نہیں جاؤں گی وہ اسے ہاتھ چھڑاتی پہلی سیٹرھی پہ بیٹھ گئی تھی۔۔
اٹھو۔۔۔۔وہ اسے ہاتھ سے پکڑتا اٹھانے کی کوشش کرنے لگا وہ اسے ایسا پکڑ رہا تھاجیسے چھوٹے سے بچے کو ماں ڈانتی ہےاور منہ پھلا کہ بیٹھ جاتا ہے وہ اسے مناتتی رہتی لیکن وہ نہیں مانتا۔۔۔اٹھو۔۔وہ اب کی موبائل کی لائٹ اس کی طرف کرتا بولا تھا ۔۔
آپ چلیں۔۔۔۔جائیں۔۔۔۔مم۔میں نے آپ کے ساتھ جانا۔۔۔وہ تو جیسے اس کی ایک نرم لہجے سے ضدی ہوئی تھی بغیر اپنے انجام کی پرواہ کیے بغیر ۔۔۔۔ اسے تو ضد میں اپنے حلیے کا بھی خیال نہیں رہتا تھا وہ ایسی ہی تھی اور ابھی بھی یہ ہی ہوا وہ اپنے ڈوپٹے سے بے پرواہ وجود سے بے نیاز تھی۔۔۔
میں آخری بار کہہ رہا ہوں اشنال اٹھ جاؤ۔۔۔پھر میری دی گئی قیامت سہہ نہیں پاؤگی وہ اسکے پاس بیٹھتا اس کی نمکین کٹورے چھلکاتے آنکھوں کی طرف دیکھ کر بولا اب کی بار اس کے بےباک نگاہیں اس کے گیلے سراپے پہ رقص کرنے لگی تھی ۔۔۔
ن۔۔نہیں اٹھوں گی آپ ضد کے پکے ہیں تو میں بھی آپ سے چار ہاتھ آگئے ہوں آپ چاہے یہاں میری قبر بھی بنا دیں آج میں نے یہاں سے نہیں اٹھنا ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے فاصلہ پہ ہوئی تھی
یہ ہی روشنال کا ضبط جواب دینے گیا تھا اس کی نظریں اس کے گیلے سراپے پہ نگاہیں ایسی ٹکی کہ ہٹنے کا نام ہی لے رہی تھی اس کی نظریں بے قراری سے اس کے وجود کا طواف کرنے لگی تھی اس کی نظریں اشنال کی لال آنکھوں اور اس کے چہرے کے ہر نقش کو بے صبری سے چھونے لگی تھی یہ ہی کوئی ایسی آندھی تھی جو روشنال کی نظروں کی زد میں آکر اس کے پتھر دل کی سطلنت کو روندتی ہوئی چلی گئی تھی۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤
؎ ہائے یہ سرخ سرخ لب روشن
کالی آنکھیں بھی ہیں غضب روشن
وصل کی شب بجائے شمع و چراغ
ہوتے ہیں جب ان کے لال و لب روشن
🌼🌷🥀🥀🥀
روشنال کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر اور اس کے ذہن جلیل حسن جلیل مانک پوری کہ یہ غزل گردش کی تھیں۔۔
جبکہ اشنال اسکی بےباک نظریں اپنے شریر پر گردش کرتے دیکھ کر جی جان سے کانپی تھی اس میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ وہ اٹھ سکے ۔۔۔وہ اسے نظریں چرا گئی تھی اسکی نظروں کے ساتھ اس کا سر بھی جھکا تھا۔۔۔
ادھر اسکا حلیہ روشنال کا ضبط ٹوٹ گیا تھا اس کا جھکتا سر دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا چہرہ اوپر کیا اور مدہوش ہوتے لب اس کہ لبوں پر رکھ گیا تھا اور اس کے انداز میں شدت آئی تھی ۔۔
ادھر اشنال کے وجود میں ایک برقی لہر ڈوری تھی یعنی آج وہ شخص اس کی سانسوں پہ بھی قبضہ کرگیا تھا وہ اپنی پوری شخصیت اور مکمل اسحقاق بھرے انداز میں اپنا حق وصول کر رہا تھا اتنی شدت اور جنونیت سے کہ اشنال بخت کو اپنی سانسیں ختم ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
اس نے خود پر لعنت بھیجی تھی کہ کیوں ضد کی۔۔۔۔؟ اپنی ضد کا انجام اسے مل گیا تھا وہ شخص آج اس کی سانسوں سے آگیا تھا۔۔۔وہ رونے لگی جب اس کی تھوڑی سے ہلکی گرفت دیکھ کر اپنی سانسوں کو متوازن کرتی اسے پیچھے دے کر اندھا دھند بھاگی تھی جبکہ پیچھے روشنال غصے سے آوزیں دیتا رہ گیا تھا وہ روتے روتے کمرے میں آئی اور واش روم میں گھسی تھی اور رگڑ کر لب صاف کرنے لگی تھی۔۔۔اسے اس کا یہ دیا گیا پیار نہیں لگا بلکہ ایک ضد سی لگی تھی ۔۔۔۔وہ اس لیے نہیں رو رہی تھی وہ اپنے ذات کی تذلیل کےلیے رو رہی تھی یعنی جب چاہے اسے حق وصول کر لیتا اور جب اسے دھتکار دیتا۔۔۔۔وہ اتنی بے حرماں تھی کیا۔۔۔اس سے پیار اپنی جگہ لیکن وہ اس کی دوغلی شخصیت سے تھک کہ فیصلہ اور خود سے عزم کرتی اٹھ کر دوسرا لباس تبدیل کیا تھا۔۔
***********join Abeeha Ali novel
مہارانی صاحبہ اٹھ کہ کام کرو۔۔۔۔میں تمھارے باپ کی ملازمہ نہیں جو ہر وقت کام کروں۔۔۔۔۔ثمینہ بیگم اسے اٹھاتی ہوئی بولیں تھیں۔
آپ نے مجھے خود قید کیا ہوا ہے اس کمرے میں۔۔۔۔کیا یہ بات بھول گئیں آپ ۔۔وہ تپ کہ بولی تھی۔۔۔
جو تمھاری حرکتیں تھی نا۔۔۔۔۔وہ تمھارے تایا ابو اور تمھاری خالہ کو پتہ چل گئی ہیں وہ روز مجھے باتوں میں جتلاتی ہیں کہ تم نے کتنی غلط حرکت کی ہے۔۔۔
ثمینہ بیگم کا سب کا رویہ اسے بتایا تھا ج جنہوں نے اسے ایک قسم کا انہیں کمرے میں قید کر رکھا تھا اور جب حسنال کا پتہ لگے گا وہ طلاق تو تمھارے منہ پر مارے گا ثمینہ بیگم خدشے کے تحت بولیں تھیں۔۔۔
تو کیا آپ اسے بتائیں گی ۔۔۔۔ ؟منال حسنال کا سوچ کر ڈری تھیاور ماں سے جواب طلب کرنے لگی تھی۔۔۔
مجھے تم نے بےوقوف سمجھ رکھا ہے ۔۔۔۔۔!میں نہیں اسکی ماں بتائیں گی اسے۔۔۔۔۔! یہ تمھارا اپنا قصور ہے اب بیچ میں مجھے موردِ الزام مت ٹھہراؤ۔۔۔۔!
خالہ جان نے آپ سے خود کہا ہے کہ وہ حسنال اور آغا کو بتائیں گی۔۔۔پلیز بتائیں۔۔۔
وہ ماں کی باتیں سن کر روہانسی ہوتی بولی تھی۔۔۔
تمھاری خالہ جان کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ اب کچھ نہ کچھ کریں گی کیونکہ اس کے دل میں اشنال کےلیے ہمدردیاں جاگ رہی ہیں میری بہن ہوکر وہ ہر وقت اس کلموہی کی باتیں کرکے میرا دل جلاتی رہتی ہے۔۔۔۔! وہ کلموہی تو بڑی نصیب والی نکلی ہے اس دن تو نہیں تھی لیکن کیسے وہ اسکی سائیڈ لے رہا تھا جیسے اس کےلیے جان بھی دے دے گا اور تیری خالہ کہہ رہی تھی کہ وہ اشنال اور روشنال کو لیں آئیں گی ۔۔وہ دل جلائیں کہہ رہی تھیں۔۔
سچی۔۔۔۔وہ ایکسائٹٹد ہوئی تھی۔۔
کیوں تیرا بھی اس کلموہی کےلیے پیار جاگ رہا ہے یہاں ہھر سے اشنال یاد آرہا ہے۔۔۔گویا اس کے حق میں بولنے والا تو ثمینہ بیگم کو زہر ہی لگتا تھا چاہے پھر وہ سگی بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔
نہیں۔۔۔۔نہیں اس کو کلموہی مت کہہں میرے دل پہ چوٹ لگتی ہے اسکا معصوم چہرے مجھے یاد آتا ہے وہ مجھے یاد آتی ہے اس پر دیے گئے الزام یاد آتے ہیں میں اس پاک لڑکی پر الزام لگا کر ڈپریشن کی مریض ہوگئی ہوں ۔۔وہ بیڈ پہ بیٹھے رو پڑی تھی اور نصیب تو رب تعالیٰ کی ذات لکھتی ہے نا۔۔۔۔۔! میں کہتی ہوں اللہ تعالیٰ اس کے نصیب اچھے کریں دنیا جہان کی نمعتیں اسے عطا کریں ۔۔۔وہ آج اپنے بہن کے پیار بول رہی تھی کیونکہ اب وہ تنہا ہوتی تو اسے اشنال اسکا معصوم چہرہ ۔۔۔اس کی مستیاں شدت سے یاد آتی تھیں۔۔۔۔وہ اللہ سے رو رو کر دعائیں مانگتی تھیں لیکن اب اس کی بہن کی کمی پوری نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔
ہاں آخر ہے تو اپنے باپ کی بیٹی جتنا بھی پیار کروں سانپ کی طرح ڈسے گی تو سہی نہیں نہ۔۔۔وہ یہ کہتی اس کو کوستی نکل گئی تھیں جبکہ منال پیچھے تکیے سے ٹیک لگاگئی اور سوچنے لگی کہ اللہ تعالی اسے کیسے معاف کریں گا ۔۔۔۔اسے سے پتہ تھا جب اللہ کے بندے اس سے خفا تھے تو وہ رب بھی اس سے خفا تھا۔۔۔کیونکہ وہ رب جب ناراض ہوتا ہے تو کسی کو زندہ زمین میں نہیں گاڑتا ۔۔۔۔۔اور نہ ہی آسماں سے پتھر برساتا ہے وہ بس سجدے کی توفیق چھین لیتا ہے۔۔۔دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور دنیا میں غرق کرتا ہے کیونکہ یہ عذابوں کےلیے بدترین عذاب ہے ۔۔۔۔وہ میگزین پڑھ رہی تھی جب یہ باتیں اس کے سامنے آئیں تھیں وہ کانپ کر رہ گئی تھی اور کتنی دیر ہل نہ سکی تھی۔۔جب دماغ سوچنے کے قابل ہوا تو۔۔
تو اٹھ کر وضو کیا تھا اور اتنا اسے خوف محسوس وہ مصلحے پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔کچھ دیر بعد جب وہ نماز پڑھ کر آئی تو۔۔۔اسے اپنا چہرہ اتنا پرنور لگا کہ وہ اندازہ نہیں کرسکی کہ یہ رب کی ایک منٹ کونسی ایسی نوازش ہے لیکن اس کے ذہن سورة الرحمن آئی تھی ۔۔
آیات *فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان*
ترجمعہ *”تو تم اپنے رب کی کون کون سی
نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟”❤*
ہمارا اللہ اتنا مہربان ہے کہ ہماری *عبادت* اور* تقویٰ*
کو ہمارے چہرے سے * ظاہر* کر دیتا ہے مگر ہمارے
*گناہ* ساری دنیا سے * پوشیدہ* رکھتا ہے۔۔
جب کہ وہ اللہ کا کرم اپنے چہرے سے دیکھ کر پرسکون ہوئی تھی ۔۔۔۔
🖤🥀
وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی جب اسے حسنال کی بھی شدت سے یاد آرہی تھی کیونکہ اس کو سمجھنے والا پچھلے تین دن سے غائب تھا۔۔۔اسے نیند کا ایسا تعویز دے کر وہ ایسا گیا کہ پھر اسے نظر نہیں آیا تھا وہ اس کو دل و شدت سے سوچنے لگی تھی۔۔۔۔
***********
وہ آج جلدی اٹھا تھا نماز ادا کی اور لیپ ٹاپ پہ کام کرنےلگا جب رات کا منظر سامنے آتے ہی اس کو ایک لطیف سے احساس نے چھوا تھا اس کے گھنے عنابی لبوں نے ایک خوبصورت مسکان نے چھوا تھا ۔۔۔۔وہ اس کے نشے میں ایسا کھویا کہ اسے کوئی شے یاد نہیں رہی تھی۔۔۔
وہ اٹھا کہ اسے اٹھائے تاکہ وہ ناشتہ بنائے اور دونوں ناشتہ کرکے اپنی اپنی ورک پلیس پہ نکلیں۔۔۔۔!اس لیے وہ اس کے روم میں آیا تھا۔۔۔
اشنال۔۔۔۔۔اشنال۔۔۔اس نے پکارا لیکن اسکا کوئی جواب نہیں آیا تھا وہ کہیں ہوتی تو جواب دیتی ۔۔۔!
وہ کہیں بھی نہیں تھی اس نے واش روم کا ڈور تو اوپن تھا۔۔۔۔وہ مڑنے لگا جب اسکی نظر پنسل کے نیچے کاغز پر پڑی تھی وہ حیرانگی لیے مڑا تھا اور اٹھا کہ پڑھنے لگا۔۔
مجھے پتہ ہے یہ پڑھنے کے بعد آپ غصے میں ہوگے میرے جانے سے آپ کا انتقام ادھورہ رہے جائے گا۔۔۔۔لیکن میں بھی عزت نفس رکھتی ہوں ۔۔۔ اپنی بار بار تزلیل نہیں سہہ سکتی ۔۔۔۔معذرت لیکن میں آپ کو سمجھ نہیں سکی کیونکہ آپ دوغلی شخصیت والے شخص ہیں۔۔۔میں آپ کو حاکم کہہ کر پچھتائی تھی لیکن آپ سچ میں حاکم میں ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ آپ مجھ پہ حق رکھتے ہیں لیکن مجھے سمجھ آگئی ہے کہ آپ اپنے نفس کی تسکین کی تسکین کےلیے میرے پاس آتے ہیں آپ نے مجھے انسانوں کی طرح تو ٹریٹ نہیں کیا۔۔۔اس سےزیادہ میں کچھ بھی نہیں لکھ رہی کیونکہ آپ پہ کونسے اثر ہونے ہیں ۔۔کیونکہ لکھنے والا اپنے احساسات سمجھ کر لکھتا ہے اور پڑھنے والا صرف لفظ سمجھ کر پڑھتا ہے ۔۔۔
اس لیے میں اپنے الفاظ ضائع نہیں کرسکتی۔۔۔ہاں یہ کہنا چاہوں گی آپ کو قسم ہے کہ آپ میرے پیچھے نہیں آئیں گے میں جہاں بھی رہوں آپ کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے آپ کو اس کی قسم جس سے آپ دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں آپ کو اسکا واسطہ مجھے ڈھونڈیے گا مت ۔۔۔آپکی کوئی بھی چیز چرا کہ نہیں لے کہ جارہی اپنا گھر دیکھ لیجئے گا ہر چیز آپ کو وہی پہ نظر آئے گی جو پیسے دیے ہیں وہ میں تکیے کہ نیچے رکھ کہ جا رہی ہوں رشتے وہاں مکمل ہوتا ہے جہاں تقدس احترام اور محبت ہو۔۔۔۔یہ تو نکاح والے دن طے تھا کہ مجھے آپ سے بچھڑنا تھا۔۔۔اس سے آگے اس کی ہمت نہہں ہوئی تھی۔۔۔۔۔اس سے آگے شاید روتی رہی تھی آگے کے لفظ مٹے ہوئے تھے اس کے آنسوؤں سے۔۔۔بس نیچھ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔فقط لاوراث۔۔۔۔۔۔بے حرماں۔۔۔۔بدنصیب۔ ۔تنہا اشنال کبیر بخت۔۔آخر میں لوارث لکھا ہوا تھاجبکہ اس کا خط پڑھ کر وہ لفافہ ہاتھ میں پکڑے بیڈ پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔تو کیا وہ یہ سمجھتی تھی ۔۔۔کہ وہ صرف اپنے دل کی تسکین کےلیے اس کے پاس جاتا ہے۔۔۔۔۔اس کا خط پڑھ کر ایک بے رحم آنسوؤں اسکی پلکوں کو توڑتا۔۔۔۔۔۔اس کی ہلکی بڑھی ڈاڑھی میں جذب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! وہ واسطہ بھی بھلا کس کا دے کہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔اپنا۔۔۔۔۔!اور وہ کہتی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں اپنے ساتھ کے کہ جارہی ۔۔۔۔۔ہاں وہ لے گئی تھی اس کی سب سے قیمتی شے ۔۔۔۔دل گئی تھی ۔۔۔وہ اسے اپنا ہی واسطہ دے کر تنہا کرگئی تھی یعنی کہ وہ اسے ڈھونڈ نہ سکے۔۔۔۔!وہ گھر سے تو کچھ بھی نہیں چرا کہ لے گئی لیکن اس کے جسم سے گوشت کا ٹکڑا تو ساتھ لے گئی تھی یعنی اسکا دل۔۔۔۔اس نے طے کرلیا تھا کہ اب وہ اسے آزاد ہی چھوڑ دے گا۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial