قسط: 17
وہ خالی ذہن لیے آفس آگیا تھا دماغ نے جیسے کام کرنا بند کر دیا تھا لیکن وہ روشنال بخت اناؤں کی ریاست کا مشہور بادشاہ تھا اندر سے مکمل ٹوٹ گیا تھا اس کا دل خالی ہوگیا تھا اس کا دل جیسے نوحے کر رہا تھا لیکن اس کے چہرے سے سختی کا خول نہیں ٹوٹا تھا وہ مغرور تھا اور مغرور رہنا پسند کرتا تھا
لیکن وہ کانچ کی گڑیا جب سے اسے چھوڑ کہ گئی تھی اس کے اندر خلش سی رہ گئی تھی اس کی معصوم حرکتیں اسے بری طرح یاد آ رہی تھیں جب وہ ضد سے اسے ہر بات منواتی تھی وہ یہ میٹھی یادیں سوچتے سوچتے ماضی میں چلا گیا تھا۔۔۔۔!
ماضی
یہ کون ہے چاچو۔۔۔۔!چودہ سالہ روشنال نے کبیر صاحب کے ساتھ کھڑی امنبر چاچی کے بازوؤں میں گرین والی بچی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا وہ اس وقت کی بات تھی جب وہ پاپا کے ساتھ ان کے گھر گیا تھا ۔۔۔
یہ۔۔۔۔یہ میری پرنسز ہے۔۔۔! کبیر صاحب نیچے جھکتے ہوئے اس کے گلے ملتے ہوئے دھیمی سی مسکان سے بولے تھے۔۔۔
پر پرنسسز تو کراؤن پہنتی ہے اس کے ہیڈ پرن کرواآؤن تو نہیں ہے ۔۔۔۔وہ الجھن بھرے اندازے میں اس خوبصورت اور گول مٹول آنکھوں والی بچی سے بولا تھا۔۔۔۔!
م۔۔۔۔یں۔۔۔۔ک۔۔۔کارتون۔۔۔والی پرنششز نہیں ہوں۔۔مم۔۔میں ت۔۔تو اپنے ب ۔ببا کی پرنششز ہوں۔۔۔۔ اشنال اس کو دیکھتے غصے سے توتلی زبان میں بولی تھی ۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔یہ میری چھوٹی سے پرنسز ہے ۔۔۔۔اس کے معصوم غصے سے پھولے ہوئے سرخ و سفید چہرے کو دیکھ کر کبیر صاحب نے ہنستے ہوئے امنبر سے لیا تھا۔۔
ب۔۔۔بابا ۔۔۔ت۔۔۔تون ہے۔۔۔اشنال نے اپنے ننھے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو کبیر صاحب کے گال پر رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
بیٹا۔۔۔۔یہ آپکے بھائی ہیں آپکے سپر مین ہیں انہیں پتا تھا کہ وہ اسے نہیں جانتی اور ایسے سوال تو کرے گی ۔۔۔۔۔۔
وہ اسے کی گال پہ پیار کرتے ہوئے بولے تھے۔۔پھر اس کے بعد وہ چھوٹی سی بچی اس کی آنکھوں کا تارا بن گئی تھی روشنال شروع سے سمجھدار بچہ تھا وہ ہر دوسرے ویک میں چچا کے گھر جاتا تھا چونکہ چچااپنی نے یونیورسٹی فیلو سے شادی کی تھی تو آغا جان ان سے بہت ناراض تھے ان کی بس ایک شرط تھی کہ کبیر صاحب اگر امنبر کو طلاق دیں تو پھر ہی اس گھر میں قدم رکھ سکتے ہیں اس کے بعد انہوں نے بھی گھر میں داخلہ نہیں رکھا تھا دونوں گھروں کا آنا جانا ممنوع ہوگیا تھا۔۔۔لیکن صیغیر صاحب بھائی کی محبت میں ڈورے چلے آتے تھے بھائی کی محبت ان کےلیے بہت معنی رکھتی تھی ۔۔۔۔جبکہ روشنال اشنال اس حد تک اٹیچ ہوگیا تھا کہ اسے اشنال کے علاوہ دیکھتا ہی نہیں تھا وہ جب بھی آتا اس کے کےلیے چاکلیٹ لے کہ آتا تھا۔۔۔۔اور وہ اسے اپنا سپر مین سمجھ کر ہر شے کی فرمائش کرتی تھی اور وہ اسکا مان رکھتا بھی تھا۔۔۔
بھائی۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔آئش۔۔۔کریم۔۔۔نہ۔۔نہیں۔۔مجھ۔۔کو نہیں پتہ آپ ابھی لا دو ۔۔۔وہ جب اس کے گھر آیا ۔۔جب وہ روتے روتے اس کے ہاتھ پکڑ کہ فرمائش کی گئی تھی ۔۔۔
پرنسسز ایسے رونا نہیں آپکو۔۔۔۔میں ابھی لا رہا ہوں۔۔۔اب ادھر بیٹھو۔۔۔۔اس کی آنکھوں سے اسے آنسوؤں برداشت نہیں ہوئے تھے اور اس کو وہاں چیئر بٹھا کہ خود نکلا اور اس کےلیے پانچ منٹ میں آئس کریم لایا تھا اس کے بعد روشنال بخت کےلیے وہ ہر چیز سے لڑ گیا تھا پارک میں جب وہ اسے لے گیا تھا اس وقت وہ سولہ سال کا تھا اور اشنال چار سال کی تھی ایک لڑکے کے ہاتھ سے غلطی سے پتھر اشنال کے سر پر لگ گیا تھا جس سے اس کے سر سے خون آنے لگا تھا ۔۔۔وہ اشنال کو قریب ہی ہوسپٹل میں لے کہ گیا تھا۔۔۔!اس کی ڈریسنگ کروا کہ اس کو گھر چھوڑ کے پھر پارکنگ میں آیا اور پھر پارک میں آیا تھا۔۔۔تاکہ وہ اشنال کے سر پر لگے پتھر کا بدلہ لے سکے۔۔
لیکن وہ لڑکا وہاں تھا ہی نہیں۔۔۔۔! وہ اس کے معاملے میں خاصہ شدت پسند تھا۔۔
*******
دن گزرتے گئے وہ بائیس کا تھا اس وقت وہ فورتھ ائیرکے پیر دے چکا تھا لیکن وہ اب کبیر چاچو کہ گھر جاتا تھا مگر بہت کم۔۔۔۔وہ سمجھ چکا تھا۔۔کہ آغا جان کی ناراضگی اور خالہ کی نفرت کبھی نہیں ختم ہوسکتی اس نے خالہ کو چاچو چچی کےکیے باقدہ جھولیاں پھیلاتے ہوئے دیکھا تھا وہ ان کے مرنے کی ان کی بچھڑنے کی بد دعائیں کرتی تھی اور ایک دن ان کے دل میں ٹھنڈ پہنچی تھی لوگوں کی دعائیں رنگ لاتی ہیں لیکن ان کی بدعائیں رنگ لائی تھی ۔۔۔وہ فورن سٹٹڈیز کےلیے اپلائی کر رہا تھا ڈاکومنٹس سبمنٹ کروا کہ آرہا تھا ابھی راستے میں ہی تھا جب صیغیر صاحب کی کال گئی تھی۔۔
ہیلو ۔۔۔ تمھاری چاچی اور چاچو کا آکیسڈنیٹ ہوا ہے فوراً ہوسپٹل پہنچو۔۔۔انہوں نے اپنے لہجے پر کنڑول پاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔!
ب۔۔بابا ۔۔سب کچھ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔آپ کی آواز کو کیا ہوا ہے۔۔۔سب خیریت تو ہے نا۔۔۔چاچو چچی تو ٹھیک ہے نا۔۔وہ کسی خدشے کے تحت بولا تھا۔۔۔
تم آؤ گے تو پتا چل جائے گا۔۔۔وہ اسے یہ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکے تھے۔۔۔
******
وہ جب ہاسپٹل پہنچا تھا تو اس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی تھی امنبر چاچی کی تو موقع پر ڈیٹھ ہوگئی تھی جبکہ کبیر چاچوکی کنڈیشن کریکٹیکل تھی ۔۔۔
چاچو۔۔۔۔آپ۔۔۔ٹھیک تو ہیں نا۔۔وہ ان کے پاس آکے بیٹھا تھا۔۔
بس ۔۔۔سپر مین بس میرا وقت آخرتِ ہے موت تو ہر کسی کو آنی ہے ۔۔لیکن اتنی جلدی سانسیں ختم ہو جائیگی سوچا نہیں تھا مجھے موت کا دکھ نہیں ہے اپنی پرنسز کی تنہائی اور اکیلے پن سے ڈر لگتا ہے اس کے نصیب سے ڈر لگتا ہے پتہ نہیں میرے جانے کے بعد وہ اپنی ماں اور میری موت کو سہہ پائیں گی وہ ہماری جدائی کو سہہ لے گی ۔۔۔میرے جانے کے بعد صرف وہ نہیں میری دونوں بیٹیاں یتم ہو جائیں گی ۔۔۔لیکن منال کی مجھے اتنی فکر نہیں ہے کیونکہ اس کی ماں آغوش ہے جو اسے ہر سردو گرم سے بچالے گی۔۔۔میری بیٹی کو زمانے کے سردو گرم سے بچانا تمھارا کام ہے سپر مین میں آج ان الفاظ کو کیسے بیان کروں جب وہ سکول سے گھر آئے گی تو ہماری آنکھوں کو بند پائے گی ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے ان کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔۔وہ اپنا ماسک اتارتے ہوئے بولے تھے۔۔۔
سر۔۔۔۔یہ کک۔۔۔کیا کر رہے ہیں ۔۔ماسک اوپر کریں۔۔۔نرس نے ان کے ایسے کرنے پر شور کیا تھا۔۔
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا تھا۔۔
تمھیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔میں ہوں نہ بچا لوں گاصیغیر صاحب نے ان کے پاس ان کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا۔
چاچو ابو ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم آپ کو بچا لے گے نہ۔۔۔۔!
روشنال نے بھی انہیں کمزور سی تسلی دی تھی وہ حیران تھا کہ امنبر چاچی کا وفات انہیں کیسے پتہ چلا ۔۔۔؟
نہ۔۔۔۔نہیں بھائی صاحب میری سانسیں شاید یہ ہی تک تھیں میرا وقتِ سفر تمام ہوچکا ہے۔۔۔جب میں نے امنبر سے شادی کی اس وقت میری خوشیوں کا دائرہ بہت وسع ہو چکا تھا پھر اس کے بعد اللہ نے مجھے رحمت سے نوازا اور مجھے دنیا میں ہی جنت مل گئی اس کی معصوم سی شرارتوں سے میرے گھر کا آنگن کھل اٹھا تھا لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ میری خوشیوں کا دوارنیہ اتنا مختصر ہو جائیگا ۔مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔۔۔۔لیکن آغا جان سے بس اتنا کہہ دیجئے گاکہ اپنی نافرمان اولاد کو معاف کر دیجئے گا اور اس اولاد کی بیٹی کو سینے سے لگائیے گا۔۔بھائی جان میری پھولوں سے نازک بچی کا خیال رکھئیے گا ۔۔۔وہ میری نرمیوں سہنے والی میری پرنسز زمانے کی سختی کیسے جھیلے پائے گی مرنے والے سے آخری خواہش پوچھی جاتی ہے آج اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس کے نصیب خود لکھ کہ جاتا۔۔ ۔۔۔یہ باتیں سنتے روشنال بخت پھٹنے لگا تھا۔۔۔وہ کبیر صاحب کی طرف دیکھ نہیں پا رہا جن کی آنکھوں سے آنسوؤں نکل کر تکیے پر گر رہے تھے اور پھر وہ ان کا وقتِ نزع قریب آگیا تھا۔۔۔روشنال نے پتھر دل کرکے ان کو پانی پلایا اور کلمہ پڑھایا تھا وہ اس کی آنکھوں کے سامنے زندگی کے بازی ہار گئے تھے۔۔۔
******
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج نہیں تو کل ہماری باری ہے
شام تک امنبر اور کبیر صاحب کی ڈیڈ باڈی کو گھر لایا گیا تھا جوانی کی موتیں تھی ہر طرف حشر برپا ہوچکا تھا سب غم میں تھے ۔۔۔!
بابا۔۔۔۔اٹھیں۔۔۔۔نہ پانی پی لیں نہ۔۔۔۔۔دس سالہ اشنال اپنے ننھے ہاتھوں سے پانی لائی تھی وہ روز ان کو اسی ٹائم پہ پانی دیتی تھی وہ ان کی بند آنکھوں کو ساکت سی دیکھتی نجانے کتنی دیر بعد پانی لے آئی تھی۔۔۔!
سارے لوگ اس معصوم سے ہرنی سی آنکھواں والی بچی کو دیکھنے رہے تھے کچھ رحم سے۔۔۔۔کچھ غم سے یمدردی سے ۔۔۔وہ ان کے پاس پانی لاتے سب کی آنکھوں میں آنسو لے آئی تھی ۔۔۔
سپر مین ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ مما بابا۔۔۔۔کیوں نہیں اٹھ رہے۔مما نے کہا تھا آج پاپا کے ساتھ لونگ ڈرائیو پہ جائیں گے ۔سپر مین مما بابا کو بولیں نہ وہ اٹھیں بابا پہلے تو پرنسز کی ایک آواز پہ اٹھ جایا کرتے تھے آج کیوں نہیں اٹھ رہے ۔۔! وہ صرف روشنال کو پہچانتی تھی جو بلیک سوٹ میں سختی کی تہہ جمائے سنجیدہ سا کھڑا تھا اس کے پاس آتی ہوئی بولی تھی۔۔۔
وہ اب کبھی نہیں اٹھیں گے ایشو میرا بچہ۔۔۔۔ وہ ایسی جگہ چلیں گے جہاں سے واپس آنا ناممکن ہے وہ اللہ تعالی کے پاس چلیں گئے ہیں جہاں کوئی ایک بار جائے تو مڑ کہ نہیں آتا ۔۔۔۔وہ اس دس سالہ بچی کے پاس بنجوں کے بل بیٹھا اپنی طرف سے آسان سے الفاظ میں سمجھا رہا تھا۔۔ جو سکول والے دو پونیاں سر پہ کیے سکول والے یونیفارم میں خوفزدہ کھڑی اس کے پاس سوالی سی بن کر کھڑی تھی۔۔۔
یہ۔۔۔کک۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں سپر مین ایسے نہیں ہوسکتا میرے بابا اب مجھے کبھی نہیں اٹھائیں گے مجھے چاکلیٹ کون لا کہ دیں گا۔۔۔مجھے سٹوریز کون سنائے گا۔۔۔مجھے پیار کون کرے گا۔۔؟
اسما کے بابا وہ تو ہر وقت روتی ہے اس کے بابا اللہ کے پاس چلے گئے ہیں ۔اب میں بھی ہر وقت روؤں گی ۔!وہ تیزی سے بولتی رو پڑی تھی جیسے اس عمر میں ماں باپ کی جدائی کا یقین آگیا تھا۔۔۔ دس سال کی بچی پہ ایسی قیامت ٹوٹی کہ اس کی آنکھوں سے پانی بارش کی تیز بوندوں کی طرف نکل رہا تھا۔۔۔
روشنال اس کو کوئی دلاسہ نہیں سکا بس اس کے غم کو دیکھتا شدت سے اسے ساتھ لگا گیا تھا۔۔۔وہ اس کے ساتھ لگی رونے لگی تھی جبکہ تہمینہ بیگم غم زدہ دل کے ساتھ اس کے ماتھے کو چومتی ہوئی لے آئی تھی ۔۔۔اور پھر وہ ان کو خالی نظروں سے دیکھتی کبھی ان کے ماتھے پہ پیار کرتی پیار کرتی کبھی گال پہ۔۔۔۔سب کو رولا گئی تھی اسے جیسے سمجھ لگ گئی تھی کہ یہ چہرے پھر نہیں نظر نہیں آنے۔۔۔وہ شدت سے کبھی بند آنکھوں والے باپ کے چہرے کو چومتی تو کبھی ماں کے۔۔۔۔کبھی ایک چرپائی کے پاس جاتی تو کبھی دوسری ۔۔۔آخر تھک کر باپ کی چرپائی کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔آغا جان خالی ذہن سے ہر طرف دیکھ رہے تھے یہ منظر دیکھ کر تو دشمن بھی چیخ اٹھتے لیکن وہ تو پھر دادا تھا۔۔۔وہ اسے گلے لگانا چاہتے تھے لیکن جیسے ان کا دماغ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا وہ جوان بیٹے کی موت کو قبول نہیں کرپارہے تھے ۔۔۔۔وہ ایسے ہی بیٹھے تھے جب ان کی ڈیڈ باڈی کو سپرد خاک کرنے کےلیے اٹھایا تھا۔۔۔اتنی قیامت اور حشر دیکھ وقت جیسے تھام گیا تھا وہ سمجھتے اب وقت گزرے گا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔!
ماں باپ کے چلے جانے کے بعد ان کی لاڈلی اولادیں رل جاتی ہیں اور جنکے ماں باپ مر جاتے ہیں وہ دنیا کی ٹھوکروں کی زد پہ آ جاتے ہیں ۔۔۔وہ جو پہلے زندگی کو گزار رہے ہوتے ہیں ماں باپ کے مرنے کے بعد زندگی انہیں گزارتی ہے۔۔۔وہ لاوارث ہوجاتے ہیں۔۔۔۔!
جیسے آج اشنال بخت ہوئی تھی۔۔ !
******
اس اتنے گہرے زخم کو ہوئے تین مہنیے ہوگئے تھے سب روٹین پہ آگئے تھے ۔۔۔
وقت کا کام گزرنا جیسے بھی ہو گزر جاتا ہے وقت کا کمال یہ ہے یہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے کچھ برے لمحے ہاتھ میں تمھا کر اور کچھ اچھی یادیں لے کر۔۔۔۔۔!
اس ڈائن کی بیٹی کو آپ یہاں کیوں لائے ہیں صیغر بھائی۔۔۔۔! وہ اس کے پاس آتی ہوئی بولی تھیں جو ڈر کے صیغر صاحب کے پیچھے ہوئی تھی ….!
اس کی مہنوس ماں میری خوشیوں کو نگل گئی اور یہ میری بیٹی کے باپ کو ۔۔۔۔۔وہ اس کو دیکھتے پاگل ہوتے ہوئے بولیں تھیں۔۔۔۔
بس ثمینہ ۔۔۔۔۔ تم سے زیادہ اس معصوم بچی کا نقصان ہوا ہے۔۔۔۔! تم اللہ کی رضا کو منحوسیت کا نام نہیں دے سکتے ۔۔۔۔صیغیر صاحب ان کا پاگل پن دیکھ کر غصےطسے بولے تھے جو خون خونخوار نظروں سے ان کے پیچھے ہوتی اشنال کو دیکھتی ہوئی بولی تھی۔۔
یہ ادھر ہی رہے گی کیونکہ آدھی سے زیادہ جائیداد اس کے نام ہے تم کیا دنیا کی کوئی بھی عدالت اسے یہاں پہ نہیں روک سکتی۔۔۔! یہ بات سن کر ثمینہ بیگم کچھ حد
تک نارمل ہوگئی تھی ۔۔۔۔لیکن ان کے دل میں بھابھنڑ جل رہے تھے۔۔۔لیکن اس کے بعد وہ اشنال سے سب سامنے تو لاڈ سے پیش آتی تھیں۔۔۔۔لیکن اسے کبھی سٹور میں بند کر دیتیں۔۔۔۔تو کبھی اسے تھپڑ مارتی ۔۔۔۔تو کبھی اس کا ہاتھ جلا دیتی تھیں۔۔۔
*******
تم اور تمھاری ماں نے میرے بابا کو مارا ہے۔۔۔تم سب ہو اس کے ذمہ دار۔۔۔۔منال جو اسے سات آٹھ سال بڑی تھی اس کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
آپی۔۔۔سپر مین کہتے ہیں ۔۔۔آپ تو میری بہن ہیں ۔۔۔بہنیں تو کبھی مارتی نہیں۔۔۔۔اشنال منہ پہ ہاتھ رکھے سسکتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
تم جیسی ڈائن کی میں بہن نہیں ہو ہی سکتی۔۔۔۔آئندہ اگر اس زبان سے کہا تو میں تمھاری زبان کھنیچ لوں گی اور آیندہ تم مجھے روشنال کے ساتھ نظر آئی تو میں تمھیں جلا دوں گی۔۔وہ اس پہ چیختے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے چیخ رہی تھی جس کو ماں نے پمپ کرکے اس کے کمرے میں بیھجا تھا پھر ماں کی شہہ پر وہ اسے خوب ڈراتی ضرورت پڑھتی تو مار بھی لیتی تھی۔۔۔
*******
ہ۔۔۔۔ہوہوہو۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔مغرب کا ٹائم تھا اشنال ٹیوشن سے واپس آئی تھی تہمینہ بیگم اسے کھانا کھلاتی اس کی ہر چیز کا دھیان وہ خود رکھتیں تھیں آج بھی تہمینہ بیگم اسے کھانا دے کہ گئی تھی وہ کھا رہی تھی جب اسے پانی کی طلب محسوس ہوئی تھی وہ دروازہ کھول کہ بارئی آئی تھی جب اسے ایک کمرے کا دراوزہ کھلا تھا کوئی فل وائٹ کلر کے کپڑے پہنے آنکھوں کے نیچے نیچے سرما لگائے ۔۔۔ہونٹوں پہ لپ اسٹک لگائے اس کے سامنےآتے چیخ کہ بولا تھا۔۔۔
مما۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔وہ اس ڈروانی صورت والی مخلوق سے ڈر گئی تھی ۔۔۔!وہ کدی چیز کی پراہ کیے باہر بھاگی تھی اس کا ننھا سا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔
ہوہو ہو۔۔۔ہی ہی ۔۔۔۔۔! سفید شال سے خود کو لپٹے وہ شیطان مخلوق پھر سے اس کے سامنے آئی تھی ۔۔۔
پلیز جن بھائی۔۔۔۔۔! مم۔۔۔مجھے جانے دیں ۔۔۔۔مم۔۔۔
نہ۔۔۔۔نہ۔۔۔میں بھوتوں کا ، شیطانوں کا ، کا شیطان ہوں ۔۔۔میں انوسینٹ ڈیول ہوں ۔ اس ریاست کا شہزادہ ،اس قبیلے کے جنوں کا سرادر ۔۔۔۔ جو ایک دفعہ میرے شکنجے میں آتا ہے اس کا بچنا ناممکن ہوتا ہے ۔۔۔۔اور تم نے میرے دائرے میں قدم رکھا ہے لڑکی۔۔۔۔جہاں کسی انسان کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے یہاں قدم رکھ کہ تم نے میرے غضب کو دوعوت دی ہے۔۔۔
پلیز۔۔۔۔جن۔۔۔۔جن۔۔جی ۔مجھے جانے دو۔۔۔۔وہ اس کے خوفناک چہرے سے نظریں اٹھا کر روئی تھی۔۔۔
ایک شرط پہ۔۔۔۔۔! وہ معصوم شیطان اس کی گبھرائی ہوئی آواز سے مزے اٹھاتا سنجیدہ انداز میں بولا تھا۔۔۔۔
کک۔۔۔۔کونسی جن بھائی۔۔۔۔۔!
ایک رجسڑ پہ ورک کر کہ دینا ہے ۔۔۔۔۔!
جن بھائی آپ پڑھتے بھی ہیں۔۔۔۔۔! وہ خوفزدہ آنکھیں مزید پھیلاتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔!
روشنال جو اشنال کو ہی ہوم ورک کروانے آ رہا تھا ۔۔۔۔حسنال کی اس چالاکی کو دیکھ کر ادھر ہی رک گیا تھا۔۔۔
جس نے اس معصوم بچی کو مکمل طور پہ گھیر رکھا تھا ۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اشنال نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ ہاسٹل میں ہوتا تھا اور کبھی کبھی گھر آتا تھا وہ اس کی باتیں سنتا حسنال کے پیچھے جا کہ کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔
اب کس کی ہمت ہوئی ۔۔۔۔۔میرے دائرے میں پاؤں رکھنے کی۔۔۔۔ وہ بقول اپنے ازلی غضب سے بولا تھا۔۔۔!
سردار صاحب ۔۔۔۔معزرت ہمیں معاف کردیں ۔۔۔۔ہم آپ سے پناہ چاہتے ہیں۔۔!
ب۔۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔۔اتنے قریب کھڑے ڈیسنٹ ڈیول کو دیکھتا وہ بھاگنے کے چکر میں تھا ۔۔۔۔جب روشنال نے اس کی گردن کے پیچھے ہاتھ کرتے ہوئے پاس کیا تھا۔۔۔۔
سپر۔۔۔۔۔مین۔۔۔۔پلیز مجھے بچالیں۔۔۔۔۔وہ اس کی آواز سنتی ڈرتی ہوئی اس کے پاس آئی اس کے پاس آ کھڑی ہوئیں تھیں۔۔۔
چل بیٹا تُو تو اندر چل ۔۔۔۔۔تیری قبیلے کے شیطانوں دعوت کروں میں۔۔۔۔ایک ہاتھ سے اشنال پکڑے اور دوسری طرف سے اسے گردن سے پکڑے لے اس کے کمرے میں کہ آیا تھا اس کامنہ دھلوا کہ کمرے میں لایا تھا تاکہ روشنال اس ڈرے نہیں۔۔
پھر اس کے بعد وہ قبیلے کا سرادار انوسینٹ ڈیول ۔۔۔۔اس ڈیسنٹ ڈیول کہ ہاتھوں مرغا بنا رہا تھا۔۔۔۔
جبکہ اشنال اس کو مرغا بنے دیکھ کر پہلی دفعہ ہنسی تھی وہ جو کسی سے بات نہیں کرتی تھی آج اتنے دنوں بعد اس کو ہنستے دیکھ روشنال بھی کھل مسکرایا تھا۔۔۔اس کی مسکراہٹ کےلیے وہ کچھ بھی کرسکتا تھا۔۔۔۔!
*********
روشنال جو ماضی کو سوچ رہا تھا چاچو جان کے بے بسی آخری لمحات کو سوچتا اس کا دل پہ زبردست سی کھینچ پڑی تھی ۔۔۔۔۔اس خود کو سرزنش کی تھی کہ کیوں اس نے گہرائی سے نہیں سوچا تھا ۔۔۔۔کیونکہ وہ اس معصوم لڑکی کو اس بے رحم دنیا کے پاس چھوڑ کر خود اس سے آزاد ہوجاتا وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔وہ گاڑی کی چابی لے کہ باہر نکلا تھا اور اس کے کالج کی طرف گاڑی موڑی تھی وہ جلدی سے کار سے باہر نکلا تھا۔۔۔اور بھاگتا ہوا کالج کے پاس آیا تھا۔۔۔!