تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

اس نے کالج چیک کروایا تھا لیکن وہ کئی نہیں تھی وہ اسے ہر جگہ تلاش کرتے کرتے تھک چکا تھا تھانے میں وہ گیا تھا لیکن وہ اسے نہیں ملی تھی وہ ہوتی تو ملتی نہیں ۔۔۔۔۔اسے پچھتاوے کے ناگ ڈس رہے تھے وہ پچھلے پندرہ دن سے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا رہا۔۔۔! لیکن وہ کہیں ہوتی تو ملتی نہ ۔۔!
وہ ہلکے سے اندھیرے سے ڈرنے والی لڑکی اس رات طوفانی بارش مجں اس کے ستموں سے تھک کر نکلی تھی اپنے ستم سوچ کر اس کا چٹانی صفات رکھنے والا دل ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ہو رہا تھا۔۔۔۔ وہ کمال کا ضبط رکھنے والا شخص آج ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔۔۔۔۔کتنے طمطراق سے اس نے کہا تھا کہ پچھتانا اس کی سر فہرست میں نہیں ہے اس کے الفاظ میں اتنی رعونت تھی اس رات اس کے رونے نے اسے سکون دیا تھا لیکن اللہ نے اس کے غرور کو محض ایک پل میں پاش پاش کر دیا تھا خدا نے اس کے لہجے کی رعونت کسی طمانچے کی طرح اس کے منہ پر ماری تھی۔۔ ایک رات میں میں اس کا غرور خاک ہوا تھا وہ اس رات کے بعد اسے پاگلوں کی طرح ڈھوڈ رہ تھا وقت کے پاسے نے اسے ایک ہی دن میں توڑ کر رکھ دیا تھا لیکن یہ پچھتاوے اسے کس پھن پھیلاتے سانپ کی طرح ڈس رہے تھے ۔۔۔۔آج وقت نے سارے داؤں الٹے کر دیے تھے۔!
فلیٹ کا دروازہ کھول کر وہ شکستہ قدم لیے اندر داخل ہوا تھا وہ ہر وقت نفیس سا رہنے والا شخص آج بکھرے حلیے میں آیا تھا دس دن سے سیگریٹ پر جی رہا تھا کھلا ہوا گریبان ۔۔۔۔بکھرے بال ۔۔۔لال آنکھیں ، ہارتی ہوئی چال کھانے پینے اسے کسء چیز کا ہوش نہیں تھا اگر وہ آج اسے اس حلیے میں دیکھ لیتی تو دنیا جہاں خوشیاں اس ستمگر کے قدموں میں بچھا دیتی۔۔۔۔ وہ ایسے قدم اٹھاتا ہوا اندر۔ داخل جیسے آخری بازی ہار کہ آیا ہو ۔۔۔خلاف معمول گھر خالی تھا وہ لاونج کے صوفوں پر کوٹ اور لیپ ٹاپ بیگ رکھتا ادھر ہی بیٹھا تھا بھٹک بھٹک اس کا دھیان کچن کی طرف جاتا تھا اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی پانی دینے آئے گی۔۔۔آج اس کا آنچل نظر نہیں آ رہا تھا پھر سے سیگریٹ نکال کر پھونکھنے لگا تھا لیکن اسے چین نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔
♥♥♥♥♥
؎ نسیمِ بار آلودہ ہے کیا
اس مکاں میں اٹھتی ہے کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
یہ ہی ایک شخص جہان میں تھا کیا
♦♦♦♦♦♦
وہ جو خود کو دلیلیں دے کر خاموش کرواتا تھا کہ اس اسے محبت نہیں ہے ۔۔۔۔لیکن جب وقت کا تپھڑ پڑا تھا ہر دلیل ہر جواز بے معنی ہوکہ رہ گیا تھا۔۔۔۔وہ ان یادوں سے پیچھے چھڑاتے کچن میں گھسا تھا ٹنشن سے کچھ نہیں کھایا تھا اب وہ کافی بنانے کےلیے کچن میں آیا تھا کیونکہ چائےبنانے والی جو روٹھ کہ چلی گئی تھی ۔۔
چائے کےلیے سامان مشکل سے نکال کہ کبینٹ پہ رکھا اور بنانے لگا تھا کچن صاف ستھرا تھا وہ اس سے ڈر کہ کچن صاف رکھتی تھی کہ کہیں وہ اس کی تذلیل نہ کرے وہ چائے بناتا بناتا اس کی سوچوں میں ایسا کھویا یہ بھی نہ پتہ چلا کہ چائے ابل ابل کر باہر آ رہی تھی گیس آف کی اور ارگرد نظر ڈالی تو کوئی شے سامنے نظر نہ آئی تھی جس سے وہ پتیلی کو اٹھاتا اس نے ہاتھ ہی سے کرنا چاہا لیکن گرم پتیلی سے ہاتھ ٹچ ہوا تو اس نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ایک سیکنڈ میں اس کی ہاتھ اور انگلیوں کو ایسی جلن پہنچا گئی وہ انگلی پہ ہاتھ رکھ کہ پانی تک آیا اور سنک کے نیچے ہاتھ رکھا تھا انگلی کی تکلف نے شدت پکڑی تو یکدم آنکھوں کے سامنے معصوم سا چہرہ آیا تھا بکھرے بال ، روتی آنکھیں۔۔وہ چہرہ سامنے گھومنے لگا تھا۔۔
وہ رات ایک عذاب کی طرح اس کے سامنے آئی تھی وہ رات اس کے اوپر کسی نوکدار تلوار کی طرح لٹک رہی تھی جس رات اس کی گردن اور کندھوں کو سیگریٹ سے جلایا تھا آج اس کے درد کو محسوس کیا ۔۔کیا وہ ساری رات تڑپتی رہی ہوگی ۔۔۔۔کیا وہ ساری تکلیف میں رہ گئی ۔۔۔۔؟کیا اسے بھی ایسی جلن ہوگی ۔۔۔؟ وہ کتنی روئی کتنی چیخی اور تڑپی ہوگی ۔۔۔اس نے اس درد میں کس کس کو تلاش کیا ہوگا۔۔۔آج اس کے درد پر گلے میں پھانس اٹکی تھی تکلیف کہنے کو محض چھوٹا سا لفظ ہے یہ کہنے کو صرف لفظ ہی پر جب یہ کسی کو ہوتی ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ کیا ہے ؟ یہ ایسی شے ہے جب کسی کو ہو تو۔۔۔۔ ہم سمجھ نہیں سکتے ہم سوچتے رہتے ہیں یہ کیا ہے۔۔؟ لیکن جب خود کو ہو نہ تو ہم سمجھا نہیں سکتے کہ یہ کتنی ہے ۔۔۔ ؟ اس لیے کسی کی تکلیف پہ مسکرایا نہ کرو۔۔۔۔ورنہ وقت تم پہ قہقے لگائے گا۔۔۔
یہ تکلیف آج اسے خود کو ہوئی اس کے درد کا اندازہ سمجھ آیا تھا لیکن یہ تکلیف بھی بلا کا ضبط دیتی ہے آج ایسا ہی روشنال کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔
وہ کچھ دیر ایسے ہی تہی داماں بیٹھا رہا پھر سنک میں برتن رکھ کر روم میں چلا آیا تھا روم کھولتے ہی دل میں سناٹا اترتا ہوا محسوس ہوا تھا وہ بوجھل دل کے ساتھ اس کے روم میں چلا آیا ۔۔۔۔۔
وہ دھیمی اور شکستہ چالتا اسکے روم میں داخل ہوا تھا
اور اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔۔جہاں اس کا گرین کلر کا ڈوپٹہ پڑا ہوا تھا پین کھلا ہوا کاپی کے اوپر پڑا ہوا تھا ان کے اوپر گرد جمی ہوئی تھی وہ کس چیز سے پیچھے چھڑاتا اس کی یادیں ہر طرف بکھری ہوئی تھی اس کا روتا ہوا چہرہ ۔۔۔اسکی معصوم سسکیاں اس کے ذہن میں آرہی تھی ۔۔۔وہ کئی سال پہلے اس فلیٹ میں اکیلا رہتا تھا لیکن آج یہ ہی فلیٹ اسے کاٹ کھانے کو ڈور رہا تھا۔
وہ اس کے تصور سے نکل ہی نہیں پا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں اسکی آواز تحلیل ہونے لگیں تھک ہار کر وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔اس کے آنسوؤں کسی کالے سائے کی طرح اس سے چمٹے ہوئے تھا۔۔۔۔
؎ یادیں ماضی عذاب ہیں یارب
یا الہی چھین لے مجھ سے محافظہ میرا
*******
آغا جان یہ لیں آپکی چائے۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹے تھے جب منال نے انہیں چائے دی تھی تہمنیہ اور ثمینہ گروسری کا سامان لینے گئی تھی وہ خالہ کی غیر موجودگی میں نیچے آئی تھیں ۔۔۔
کیا ہوا آغا جان ۔۔۔۔آپ پریشان کیوں ہیں وہ ان کے پاس بیٹھتی ہوئی ان کے ہاتھوں کو تھام گئی تھی۔۔۔
بس اپنے ستم یاد آرہے ہیں ۔۔۔! وہ اپنی آنسووؤں زدہ آنکھیں کھولتے ہوئے بولے تھے۔۔
کک۔۔۔کیا ہوا۔۔۔آغا جان آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔۔! وہ ان کے رونے پہ بوکھلا اٹھی تھی۔۔
کچھ نہیں بس دل بھر آیا تھا اپنی زیادتیاں یاد آ رہی تھی جو اس معصوم بچی پر کیں تھا جیسے جیسے وقت نزدیک آرہا ہے پچھتاوے بڑھتے جارہے ہیں دل کو سکون نہیں ہے اس معصوم بچی کی بےبسی یاد آتیں ہیں میں کتنا کم ظرف تھا اس کے سر پہ ہاتھ نہیں رکھ سکا۔۔۔
زندگی کے ماہ و سال گزر گئے اس بچی سے عداوت نہیں مٹا سکا۔۔۔۔حالانکہ اس کے یہاں رہنے کا بھی بہت بڑا معاوضہ لے لیا تھا روشنال سے ۔۔وہ بھی اس وجہ سے مجھ سے دور ہوگیا تھا ۔۔۔۔میں آج سوچتا ہوں تو میرا ضمیر مجھے ملامتیں کرتا ہے اس کی بے بس آنکھوں کو میں نے منحوسیت کا نام دیا تھا ۔۔۔وہ مجھ سے پیار لینے کی کوشش میں لپکتی رہتی لیکن میں اسے دھتکار دیتا۔۔۔وہ جب مجھے تمھیں اور حسنال سے پیار کرتا دیکھتیں تو اس کی آنکھوں میں ایک حسرت نظر آتی ہے وہ دور کھڑی جب تم لوگوں کو پیار کرتا دیکھتی ۔۔۔تو اس کی آنکھوں میں درد ہوتا تھا۔۔۔میں اس کی نظروں میں چھپے اس کی باپ کی صورت نہیں دیکھ پایا ۔۔۔ میں اس کو گھر میں دیکھ نہیں دے سکتا تھا وہ جب جب میرے سامنے آتی میں اسے ڈانٹ دیتا ، دھتکار دیتا کیونکہ مجھے اس کی صورت میں کھڑا اپنا بیٹا یاد آتا تھا۔۔۔میں خود سے ڈرتا تھا کہ کئی اس کو پوتی سمجھ کر گلے نہ لگالوں ۔۔۔لیکن آج یہ خواہش سر پکڑ رہی ہے میں کتنا کم ظرف تھا نا ۔۔۔دادا بن کر نہ سہی انسان بن کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ لیتا۔۔۔وہ نحیف سا اٹھتے اٹھ بیٹھے تھے ۔۔
دادا ایک بات کہوں آپ مانیں گے۔۔۔وہ ان کے آنسووؤں صاف کرتی بولی تھی ۔۔۔۔
ہوں۔۔۔وہ اس کے چہرے کو کھوجتے اثبات میں سر ہلاتے بولے ۔۔
ہم لوگ کل چلیں گے نا ادھر اشنال سے معافی مانگنے ۔۔۔!
ساتھ میں اس کےلیے گفٹ لے جائیں گے نا۔۔۔!
وہ نہیں کرے گی معاف ۔۔وہ مجھ سے میری نفرت کا حساب مانگے گی۔۔۔۔آغا جان تھکے سے لہجے میں بولے۔۔۔
آغا جان مجھے یقین ہے وہ کر دے گی معاف وہ بہت اچھی ہے ۔۔۔میں نے بھی س سے معافی مانگنی ہے ۔۔!
کہتے ہیں جب تک درد سہنے والا معاف نہ کرے تب تک اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔
ویسے آغا جان غرض ایسی شے ہے جو انسان کو کسی کے قدم چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے آپ کو بھی غرض تھی مما کو غرض تھی مجھے غرض تھی ۔۔۔روشنال کی اپنی غرض تھی اگر آج رشتوں میں غرض نہ ہوتی تو یہ رشتے کھوکھلے نہ ہوتے ۔۔۔تنہا نہ ہوتے ۔۔۔۔اس غرض کی وجہ سے آپ نے اپنے بیٹے بہو کو کھویا تھا۔۔
آپ نے محبتوں کا قرض لیا پاپا سے۔۔۔۔۔کہ وہ چھوٹی امی کو طلاق دیں گے تو ہی اس گھر میں قدم رکھیں گے۔۔۔!
مما نے آپ سے تایا ہونے کا حساب مانگا۔۔۔۔۔کہ آپ ان سے محبت میں کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔!
میں نے اشنال کے ساتھ غلط کیا ۔۔۔۔اس کی معصومیت سے فائدے اٹھائے ۔۔۔۔اس سے کام کرواتی ۔۔۔۔کام ہوتا تو اسے بلاتی ۔۔۔۔نہ ہوتا تو پوچھتی ہی نہیں کہ وہ کون ہے۔۔۔!
روشنال نے اسے غلط سمجھا ۔۔۔۔! اس رشتے کی ، اس غرض کی چکی میں صرف اور صرف اشنال پسی ہے وہ دوسروں کے سامنے اتنی اچھی بن گئی کہ اس کی خود کی ذات کئی تحلیل ہوکر رہ گئی تھی ۔۔۔۔
اگر سب ایک دوسرے کے غلط سلوک پر دوسروں کو ان کے لہجوں کا احساس دلاتے ۔۔۔۔تو سب پچھتا نہ رہے ہوتے۔۔اس میں اس نسل کا قصور نہیں ہوتا ہمیں جیسی ٹریننگ دی جاتی ہے ہم ویسے ہی بنتے ہمیں رشتوں میں ڈر اور عدواتیں سکھائی جاتی ہیں پیار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔
سہی کہہ رہی ہو۔۔۔وہ اس کے ایک الفاظ میں کھوئے ہوئے بولے ۔۔۔۔
پھر وہ ان کو اور میڈیسن دے کر تب تک ان کے پاس سے نہیں اٹھے جب تک وہ سوئے نہیں گئے تھے
ڈور پر بیل سنتی خود نکل گئی تھی۔۔۔
*******
منال نے دروازہ کھولا تو سامنے رف سے حلیے میں حسنال کھڑا تھا۔۔۔
خیر تو ہے آج لگتا ہے یہ دستک دروازے پر نہیں آپ کے دل پہ لگی ہے تب ہی بھاگی چلی آئیں ۔۔! وہ اورنج کلر کے کپڑے پہنے اوپر ہم رنگ ڈوپٹے میں خود کو کور کیے کھڑی تھی ۔۔۔ اس کو ایسے دیکھ کر مسکراتا ہوا بولا۔۔۔!
بکواس بند کرو۔۔۔۔امی اور خالہ گھر نہیں اس لیے میں نے دروازہ کھولنے آئی تھی ۔۔
ہائے شکر ہے۔۔۔۔آئے گلے ملتے ہیں ۔۔۔وہ ہاتھ پھیلاتے ہوئے اپنا ڈمپل نکالتے ہوئے بولا تھا۔۔
دفع ہو اندر ۔۔۔۔۔اس کے ایسے کرنے سے وہ اچھل کر پیچھے ہوئی اور غصے سے بولی تھی۔۔۔!
جبکہ وہ اس کی بات سنتا بغیر کوئی رسپونس کیے لیپ ٹاپ بیگ اٹھائے اندر آگیا تھا۔۔۔
وہ پیچھے سے اس کی چوڑی پشت دیکھنے لگی اور تاسف سے سر ہلایا جو اپنے روم کی طرف جا رہا تھا۔۔
وہ ڈور بند کر کے کچن میں آئی اسے لگا وہ ناراض ہوکہ چلایا گیا تھا اس کےلیے گلاس میں پانی لائی تھی۔۔۔۔
وہ روم میں آئی اس کو دیکھا جو چئیر پہ بیٹھے لیپ ٹاپ رکھے کسی موبائل کو لیپ ٹاپ کی یو ایس پی سے کنکیٹ کرکے کام کر رہا تھا ۔۔۔۔وہ حیران ہوئی ابھی تو وہ کام سے آیا اور ابھی پھر ایسے بیٹھ گیا جیسے کوئی نوبل پرائز جیتنا ہو۔۔۔!
وہ پانی رکھ کر وہیں بیٹھ گئی تھی اور اسے دیکھنے لگی جو رف سے حلیے می بھی کمال کی جاذبیت رکھتا تھا۔۔۔وہ اس کا بغور جائزہ لینے لگی جس نے برواؤن شرٹ جس پہ رومن ریز کی تصویر تھی ۔۔۔بکھرے بال ۔۔۔گال پہ پڑتے ڈمپل ویسے تو نظر آرہا تھا لیکن اس کی سنجیدگی سے وہ نمایاں نہیں ہو رہا تھا وہ اس سے نظریں چرانے لگی۔۔۔
لگتا ہے کسی کو پیار ہو رہا ہے مجھ سے ۔۔۔۔!؟ اس کی نظریں لیپ ٹاپ پر تھیں لیکن اس کو اپنی طرف چوری دیکھتا پاکر یکدم سے بولا تھا۔۔۔
الحمداللہ دماغ ہے میرا۔۔۔۔! وہ بھی ٹھک سے جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔
وہ تو نیوٹن کا بھی تھا… پتہ ہے اس بچارے کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔! وہ ایسے ہی کام پہ دھیان رکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
کیا ہوا تھا۔۔۔۔منال نے بھی ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔!
ہونا کیا تا بچارے قبر میں پڑا ہوا ہے اس دماغ کے ساتھ بھی۔۔۔! قسم سے وہ نیوٹن کا ہی ظرف تھا جو وہ سییبوں پر بھی تجربے کرتا رہا میں ہوتا تو اٹھا کہ کھالیتا یہ بھی نہ دیکھتا کہ درخت سے گرا ہے یا آسماں سے۔۔۔۔! وہ ڈمپل کی نمائش کرتے ہوئے بولا تھا۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تم نیوٹن نہیں ہو۔۔۔۔ورنہ پورے کا پورے درخت بھی تم پہ گرتا نا۔۔۔ تم تو نے ان سیبوں کے پتوں کو بھی اٹھا کر کھا لینے تھے۔۔۔وہ تنک کر بولی تھی۔۔۔۔
ویسے ایک بات کہوں آپ مجھ سے پیار کریں گی تو فائدے میں رییں گی۔۔۔؟ وہ اس کی وجہیہ چہرے کو بغور دیکھتا ہوا بولا تھا۔۔
تمھارے ساتھ مجھے آئندہ کی زندگی ہی بلینک نظر آ رہی ہے فائدہ کس بات کا۔۔۔۔! میرا دل کرتا تھا کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جو دماغ رکھتا ہو۔۔۔لیکن میری ہی قسمت پھوٹی تھی جو میری تم جیسے بد دماغ کے ساتھ شادی ہوگئی ۔۔۔۔!
وہ اس کی طرف دیکھتی اپنی قسمت پہ افسوس کرتی ہوئی بولی۔۔۔!
مانا کہ آئن سٹائن کی طرح ذہین نہیں ہوں لیکن سلمان خان کی طرح رومینٹک تو ہوں نا۔۔۔۔۔! وہ لیپ ٹاپ بند کرتا اس کی طرف آکہ بیٹھ گیا تھا اس کے اورنج ڈوپٹے میں پرنور چہرے کو اتنے دونوں بعد دیکھتا اس کے دل میں خواہش ابھری وہ اس کے چہرے کو اپنے لمس سے معطر کرے۔۔۔۔پر وہ اس کی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
میں تمھاری لیے کھانا لا رہی ہوں وہ اس کے پاس سے جلدی سے اٹھتی باہر چلی گئی تھی ۔۔۔۔جبکہ حسنال کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی

وہ دس بجے اٹھا اسکی ساری رات آنکھوں میں ہی کٹی تھی نماز فجر کے بعد اسے چین آیا تھا…
اس کے چہرے پر ساری رات جاگنے کہ احساسات معلوم ہو رہے تھے۔۔۔۔! وہ سوچ سوچ کر تھک گیا تھا کہ وہ کہاں جا سکتی ہے ساری رات اس کے ذہن میں یہ ہی سوچیں تھیں مطلب وہ اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہے وہ اتنے آرام سے بیٹھنے والا شخص نہیں تھا اسے یقین تھا کہ وہ اسے ڈھونڈ لے گا لیکن اس کی چھوٹی غلطی کی سزا تو وہ وہ بھول نہیں سکتا تھا۔!اس کے ذہن میں ایک دم سے سارہ کا نام آیا تھا۔۔۔۔!
وہ جلدی سے اٹھتا چابیاں اٹھاتا اس کے گھر کےلیے نکلا تھا۔۔کیونکہ ایک وہ واحد لڑکی تھی جس کے گھر اشنال جاسکتی تھی وہ گاڑی میں بیٹھتا اس کے گھر کی طرف گاڑی لے کر گی تھا۔۔۔اس کے گھر کا راستہ معلوم تھا جس دن اس نے سارہ کو ڈراپ کر کہ گیا تھا وہ گلیوں سے گزرتا وہاں آیا جہاں اس دن سارہ گھسی تھی جہاں ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کہ دو پورشن بنے ہوئے تھے ۔۔اس نے اندازے سے بیل بجائی تھی ۔۔۔
جی کون۔۔۔۔۔نرم باریک سی اشنال کی آواز اس کے دل کے زخموں پہ مرہم کا کام کر گئی تھی اس کی آواز سن کر اس کے چہرے پر اتنے دنوں پر مسکراہٹ آئی تھی ایک دم سے اسکے دم سے بوجھ ہٹا تھا ۔۔۔۔!
وہ نہیں بولا اسے پتہ تھا کہ اگر وہ بول پڑا تو اسکی نازک سی بیوی نے وفات پا جانا ہے ۔۔۔
اس نے پھر گیٹ پہ ہاتھ رکھ کر بجایا تھا اب کی بار اس نے بیل نہیں بجائی ۔۔۔۔!
کیا مسئلہ ہے کون ہے ۔۔۔۔۔؟وہ ایک دم سے جنجھلا کر دروازہ کھول گئی تھی۔۔۔
سامنے سفید ڈوپٹہ میں لپٹا اس کا گلاپی چہرہ کسی گلاپ کے پھول کی طرف لگ رہا تھا اس کے روپ اور زیادہ پاکیزگی آگئی تھی ۔۔۔
اور آج اس نے نور کا پیکر دیکھا تھا وہ فریز ہو کہ اسے دیکھنے لگا تھا۔۔
عورت کے ویسے بہت سے بہت سے مقامات ہیں لیکن ان دس مقامات سے وہ اوجِ کاملیت حاصل کرتی ہے۔۔۔
عورت کی حیا اس کے خلوص میں، اسکی وفا نگاہوں میں، اسکی ادا اس کے بھول پن میں، حسن اسکی سادگی میں ، عظمت اس کے کردار میں ، غصہ اسکی زبان میں، قابلیت اسکی سیرت میں، چاہت اس کے انداز میں، صبر اس کی خاموشی میں ، غرور اس کے پردے میں، اور سب سے اہم بات اپنے خوبصورتی سے لاپرواہ ۔۔۔۔۔ یہ سب عورت کی خصوصیات ہیں … یہ سب خوبیاں عورت کو ممتاز بناتی ہیں شاید ان سب مقام میں عورتوں کو بلند مقام دیا گیا ہے اور وہ ساری خوبیاں سامنے کھڑی اس کی شریک حیات میں تھیں ۔۔۔
آج پندرہ دنوں بعد وہ اس کے اداس چہرے پر مسکان لائی تھی ۔۔۔
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔اس کو ایک دم سے اپنے سامنے دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ ایک منٹ میں اڑا تھا وہ زرش پڑ گئی تھی ۔۔۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ شخص یہاں تک پہنچ گیا تھا۔۔
آپ۔۔۔۔۔کک۔۔۔کو کیسے پپ۔۔۔پتہ چلا ۔۔۔۔کہ میں۔۔۔۔یہ۔۔۔یہاں ہوں۔۔۔۔وہ اس کے سامنے دیکھ گڑبڑائی تھی وہ ایک دم سے اس کا سامنا نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
میں تمھیں شہرِ پاتال سے بھی نکال لیتا یہ تو پھر اپنا شہر ہے۔۔۔۔ !
وہ ہی دل جلانے والی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی تھی۔۔۔! اس کو دیکھ کر پل بھر میں اعتماد واپس آیا تھا۔
گھر چلو۔۔۔!
وہ اس کے حسین مکھڑے کو دیکھتے سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔
نہیں جاؤں گی مم۔۔۔میں آپ سے نفرت کک۔۔۔۔کرتی ہوں۔۔
ا۔۔۔ایک دم سے آنسوؤں اس کی گالوں پہ پھیلے تھے ۔۔۔
وہ تو میں بھی کرتا ہوں۔۔۔۔۔گھر چلو۔۔۔تو دونوں ایک دوسرے سے کریں گے پھر مل بیٹھ کر ڈیسائیڈ کریں ۔۔۔کس کی نفرت میں شدت زیادہ ہے۔۔۔۔۔؟ وہ معنی خیزی سے کہتا اس کے چھکے چھڑا گیا تھا۔۔۔۔اس کا خون سارا سمٹ کر اس کے چہرے پہ آیا تھا ۔۔۔وہ اس سے ایسے توقع نہں رکھ سکی ۔۔۔پر وہ معصوم آج تک نہیں سمجھ سکی کہ وہ یہ عجیب انسان ہر کسی کی توقعات سے بڑھ کر ہے وہ سرخ چہرہ لیے لب کاٹنے لگی تھی ۔۔۔
قسم سے ایسے ہی چھوڑ دو ۔۔۔۔اس طرح ظلم نہ کرو نہیں گریں گے لب ۔۔۔۔!
آپپ۔۔۔آپ کو شرم ن۔۔۔نہیں آتی اس طرح کی باتیں کرنے سے۔۔۔وہ گبھرا کر بولی تھی۔۔۔
جب سے تم چھوڑ کہ آئی مرگئی ہے۔۔۔۔۔ اور دفناؤ گی تم۔۔۔۔!
ججج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ممم۔۔۔میں کِلر۔۔۔نہیں ہوں۔۔۔۔وہ فق پڑتے رنگ کے ساتھ بولی ۔۔۔جبکہ اس کے دلکش من موہنے سے چہرہ کا یہ روپ دیکھ کر اپنے بے ساختہ آنے والے قہقے کا گلہ گھونٹا تھا۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial