قسط: 20
وہ اپنے سامنے ان گینڈے نما بندوں کو دیکھ کر پہلے تو گبھرا گیا تھا۔۔۔
لیکن اپنے سامنے ان بندوں کو دیکھ کر اسے روشنال کی بات یاد آئی تھی کہ ہر چیز ہنسی مذاق سے نہیں سلجھتی کچھ چیزیں مکوں ٹھڈوں سے سلجھتی ہیں ان ہٹلر نما کو دیکھ کر پہلے تو اس نے اپنی سانسیں روک لیں تھی۔۔۔
کیونکہ انھیں دیکھ کر اسے ایسے لگا کہ وہ دو سانڈے نما انسان لوہے کے بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
پہلے خاموش سا کھڑا ان کو دیکھتا رہا وہ اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے اسے ایسا لگا کہ وہ کوئی روبوٹ ہیں جو احساسات سے عاری تھے وہ پسٹل تانے کھڑے تھے جیسے ابھی اس کے وجود پرخچے اڑا دیں گے۔۔
ان کی طرف ایک مرتبہ دیکھ کر پہلے تو خود کو کمپوز کیا پھر اس کے چہرے پہ مخصوص مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
انکل آپ اتنے کمزور ہیں یار کچھ کھایا پیا کریں ۔۔۔۔اور باداموں کا استمال باقدگی سے کیا کریں ورنہ لوگ آپ جیسے عقل مندوں کو پیروں تلے روند گئے کیونکہ آپ کے پاس دماغی کی کمی لگ رہے مجھے تیزی سے یہ کہہ کر اپنی جیب سے ایک لیکوئڈ ٹائپ زہریلا مادہ نکالا اور ان کے منہ پر سپرے کیا ۔۔۔۔۔ جیسے وہ کیڑے ہوں اور ایک منٹٹ میں ہی مر جائیں گے ان کے ہاتھوں سے پسٹل گرے تھے ۔۔۔۔وہ پسٹل اٹھا کہ اس نے اپنی پاکٹ میں رکھے تھے ۔۔۔ان کی چیخیں باہر سے آتے ہوئے گانوں کی آوازں میں دب گئی تھی ۔۔۔باہر کوئی بھی سن نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔ اپنے جیب سے رومال نکال کر ان کو سونگایا تھا جس سے وہ اب بے ہوش ہوگئے تھے۔۔۔۔۔وہ ان کو زور دار ٹھوکر مار مین حل میں نکلتا چلا گیا تھا۔۔
باہر نکلا تو ہر طرف گانے لگے ہوئے تھے۔۔۔۔وہ بچی جو کچھ دیر پہلےلائی گئی تھی وہ بچاری نیم برہنہ تھی اس کو ڈرگز کے ٹیکے کے لگائے جارہے تھے ۔۔وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی اس معصوم سی بچی کو وہ درندے نوچنے کو تیار بیٹھے تھے۔۔۔۔۔
چھ۔۔۔چھوڑو ۔۔۔مجھے میرے بابا تمھیں مار ڈالیں گے۔۔۔وہ لڑکی منتں کر رہی تھی ۔۔۔لیکن اس درندے نے اسے اپنی طرف گھیسٹا۔۔
عرفان درانی صوفے پر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔یہ دیکھ کر اس کا خون کھول گیا تھا۔۔
باہر سے گاڑیوں کے سائرن سن کر عرفان درانی تو گبھرا اٹھا تھا ۔۔۔۔
وہ بغیرت بھیڑے اس سے دیکھ کر ڈر گئے تھے اس لڑکی کو گھسیٹ کر بیڈ کے نزدیک لائے تھے کہ اسے چھپا سکیں ۔۔۔۔عرفان درانی اسے لاونج سے باہر نکل چکا تھا۔۔۔۔گاڑیوں کی آواز سن عالم موت کا منظر محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔
ہینڈ دی اپ۔۔۔۔۔!وہ آگے بڑھا جب پولیس اندر آچکے تھے۔۔۔لمحے کی دیر تھی سب کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔۔۔وہ بے جان قدموں سے آگے بڑھا تھا اسے ایسا لگا تھا ۔۔۔۔! سب کو فرفتار باہر لیا گیا تھا۔۔۔
اس نے بچی کو بیڈ کے نیچے سے کھنھچ کر اور بیڈ کی چادر اتار کر اس پر ڈالی تھی ۔۔۔۔! جو جھول رہی تھی ۔۔۔۔اس مہربان شخص کو دیکھ کر اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا تھا
انک۔۔۔۔انکل م۔۔۔۔مجھے ۔۔۔مجھے ۔۔ان۔۔۔انصاف ۔۔ بات نامکل کر کے وہ لڑکی ہوش کھو بیٹھی تھی ۔۔۔وہ اسے بازوؤں میں اٹھاتا باہر نکل گیا تھا ایک بے رحم آنسوؤں اس کی پلکوں کی بار کو توڑتا اس بچی کہ اوپر گرا تھا۔۔۔! وہ ہاسپٹل بھاگا تھا۔۔۔اس کی پوری ٹیم اس کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
یہ بات میڈیا پہ نہیں جانی چاہیے ۔۔۔۔وہ اس کو گاڑی میں ڈالتا ۔۔۔۔ بھاری چلایا تھا۔۔۔چینل والے اسے دیکھنے لگ پڑے تھے اور اس کی حالت دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
وہ خود کو قصور سمجھ رہا تھا۔۔۔۔اس مسکراہٹ کے بادشاہ کا دل کر رہا تھا کہ وہ آج خود کو فنا کر لے۔۔۔۔!وہ اس بچی کا ذمہ دار خود کو سمجھ رہا تھا۔۔
جان دی تو اس ہی کہ تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا ہی نہ ہوا
***
آج کالج کیوں نہیں گئی ۔۔۔۔۔وہ سو کر اٹھا آج خلافِ ممعمول اس کو کچن میں کھڑے دیکھ کر بولا جو ناشتہ بنا رہی تھی اسے گھر دیکھ کر یہ تو جان چکا تھا کہ وہ کالج چھوڑنے کا پروگرام کر بیٹھی تھی بچپن میں اسکو پالا تھا اسکی رگ رگ سے واقف تھا یہ الگ بات تھی کہ ان میں تنازعات آئیں ہوں۔۔۔۔۔
میری مرضی میں جاؤں یا جاؤں۔۔۔وہ آخری پراٹھا بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ چکی تھی اور توے کو چولہے سے اتار کر بنا اس کی طرف دیکھے بولی تھی۔۔۔
اشنال مجھے سختی پر مجبور مت کرو ۔۔۔میں جتنا نرم پڑھ رہا ہوں تم اتنا ہی سر پر چڑھ رہی ہو۔۔۔۔۔وہ اس کی پشت دیکھتا تلخ مزاج لہجہ لیے بولا تھا ۔۔
کس نے کہا سر پر چڑھائیں ۔۔۔۔میں نے کہا تھا مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔۔آپ کو خود ہی شوق چڑھا ہوا تھا مجھے اپنے گھر لا نے کا…………اب بھگتیں۔۔۔وہ منہ پھٹ انداز میں غصہ و بدتمیزی سے بولی تھی ۔۔۔!
اشنال مائنڈ یور لنگویج ۔۔چھوٹے بڑے کی تمیز بھول ہی گئی ادب و لحاظ تم میں سے بالکل ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔اب مجھے خود سختی کرنے پر مجبور کر رہی ہو۔۔۔۔۔!
آپ اپنی زبان کو سنبھالیں ۔۔۔۔۔مجھے اداب و آداب مت سکھائیں ۔۔۔میں نے پہلے ہی سیکھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
وہ یہ کہہ کر چائے کا کپ کاونٹر پر پٹختی جانے لگی تھی ۔۔۔
تو یہ طے ہے تم نے کالج نہیں ۔۔۔۔۔وہ اس کا بازوؤں تھام کر اسں کے صبیح چیرے پر نگاہیں ڈال کر پوچھنے لگا۔۔۔۔!
نہیں جانا جب ایک بار کہہ دیا ہے تو بار بار مجھے فورس مت کریں۔۔۔۔وہ اس کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کربنا جھجکے بولی۔۔۔۔!
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے یہ تو طے ہے تمھیں سیدھا کرنے کےلیے مجھے حیوان ہی بننا پڑے گا ۔۔۔۔۔! یہ کہہ کر اس کو درشتی سے بازوؤں سے پکڑتا گھسیٹ کر ساتھ لایا تھا۔۔
چھوڑ۔۔۔یں۔۔۔۔مجھے وہ اسکے کھنینچھنے سے خوفزدہ ہوئی تھی ۔۔۔۔
چپ کرو تم ۔۔۔۔۔وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔۔۔
پلیز ۔۔۔چھوڑ دے مجھے۔۔۔۔! وہ اس کی مضبوط گرفت اور اسکا سرد رویہ دیکھ کر سہم گئی ۔۔۔اس کے دل نے خوف کے مارے دھڑکنا ہی چھوڑ دیا تھا وہ سوچنے لگی اب وہ اس کے ساتھ کیا کرے گا۔۔۔۔
اب تمھاری آواز نہ آئی تو میں بھول جاؤں گا تم میری بیوی ہو ۔۔۔۔یہ کہہ کر اسے بیڈ پر پٹخنے والے انداز میں بیٹھایا تھا ۔۔۔اور الماری کی طرف جاکہ اس کی شال نکالی اور اس کے قریب آکر اس کے سر پر ڈالی اور بیڈ سائیڈ دراز سے اسکی پن نکال کر ڈوپٹہ سیٹ کیا جس اس کا آدھا منہ چھپ گیا تھا شال سیٹ کرکے اس کو دیکھا جو منہ کے ٹیڑھے زوایے بنا رہی تھی ۔۔اس کی سائیڈ ٹیبل بکس اکٹھی کرکے بیگ میں ڈالی۔۔۔کچھ پل اس کے سہمے چہرے کو دیکھ کر نرم پڑا تھا۔۔۔لیکن پھر اس کی بدتمیزی کو سوچ کر اسے بازؤں سے پکڑ کر اسکا بیگ اٹھا کر کھنچتا ہوا ساتھ لایا تھا ۔۔۔
فلیٹ کا دروازہ بند کیا اور اسے گاڑی تک لے کر ساتھ چلنے لگا۔۔۔
چھ۔۔۔۔چوڑیں۔۔۔۔میں خود چل لوں گی۔ ۔وہ دو بندوں کو اپنی جانب نگاہیں پاتا دیکھ کر غصے سے بولی تھی اسے غصہ اس بات پہ آر رہا تھا ۔۔۔کہ اس شخص کو پرواہ کیوں نہیں کہ کوئی دیکھ رہا ہے۔۔۔
اب تو تمھارے اچھے بھی چلیں گے۔۔۔وہ گاڑی کے قریب آتا اسے گاڑی میں بیٹھا کر سختی سے بولا تھا خود فرنٹ سیٹ پہ آکے بولا تھا۔۔۔۔!
وہ اس کو دیکھتا لب بھینچے ڈرائیو کرنے لگا تھا۔۔جو ڈیش بورڈ پر سر رکھے رونے لگی تھی وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔۔۔! اسے ایسے دیکھ کر روشنال کے پتھر دل کو
کو کچھ کچھ ہوا تھا۔۔۔۔وہ اسے بغیر ناشتے کہ لاکے آیا تھا لیکن وہ ضدی ہی اتنی ہو رہی تھی کہ اسے ایسا کرنا پڑا۔۔
اس نے گاڑی بیکری کے سامنے روکی تھی اور کار لاک کرتا چلاگیا تھا۔۔
شوارمہ اور ٹن لے کہ آیا اسے کھلا دے گا یا ساتھ دے دے گا کہ وہ کالج میں ہی کھالے۔۔۔
اشنال ۔۔۔اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اب کی بار اسے نرمی سے پچکارا تھا جو اسی زوایے میں بیٹھی رورہی تھی۔۔۔!وہ بغیر سر اٹھائےاپنے کندھے پر سے اسکا ہاتھ جھٹک گئی تھی ۔۔۔
جبکہ روشنال کو اس کو دیکھ کر پھر سے گاڑی سٹارٹ کرکے ڈرائیونگ پر نگاہیں جما لیں تھی ۔۔۔۔
اترو کالج آگیا ہے ۔۔۔۔وہ کالج کے سامنے گاڑی کھڑا کرتا بولا تھا۔۔۔
وہ کالج کے سامنے گاڑی کھڑا کرتا ہوا بولا۔۔۔!
وہ سر اٹھا کر غصے سے اٹھی اور گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی ۔۔۔۔لیکن وہ اسے نہ کھلا ۔۔۔۔
اس نے نظریں غصے سے اس پر کی تھی اور خونخوار نظروں سے اسے دیکھا تھا جیسے کہنا چار ہی ہو ۔۔کہ مجھے باہر نکالیں ۔۔۔۔اب آپکی شکل نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔۔
اس کے تپے چہرے کو دیکھ کر روشنال کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔
کھل کارکا دروازہ نہیں رہا۔۔۔۔اور اکیلی رہنے چلیں تھیں محترمہ۔۔۔۔وہ طنز کا تیر اس پہ مار کر دروازہ کھولنے کی غرض سے اس کی طرف جھکا تھا۔۔۔
روشنال نے جب اسے ایسے دیکھا تو سانس روک کر بیٹھ گئی تھی وہ لیکن وہ تو جیسے ہٹنے کا نام ہی لے رہا تھا۔۔
اسے الجھن ہوئی تھی ۔۔۔
ہٹیں پیچھے۔۔۔۔مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔وہ اس کو ایسے دیکھ کر گبھرا کر بولی تھی۔۔
یہ کھالو پھر چلی جانا۔۔۔۔وہ اس کی طرف شاپر بڑھاتے ہوا بولا تھا۔۔۔
مم۔۔مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر جھوٹ بولی تھی۔۔
کالج میں کھالینا وہ اس کی گود میں رکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
کھالوں گی۔۔۔پلیز اب کھول دیں۔۔۔۔۔وہ ہار مانتے ہوئے بولی جیسے اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہو۔
پہلے منہ واش کرو۔۔۔۔۔تمھیں دیکھ کر ایسے لگ رہا ہے جیسے کوئی بھیڑ جنگل سے بھاگ کر آئی ہے۔۔۔۔وہ اس کے روئے روئے سفید و لال چہرے کو دیکھتا لطیف سا طنز کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
اور آپ کو دیکھ کر ایسے لگ رہا ہے آپ اس بھیڑ کے مالک ہے جو ڈنڈے سےاس بھیڑ کو آگے لگا رکھا ہیں ۔۔۔۔۔! وہ ایک دم سے تیز لہجے میں جواب اس کے منہ پر مارتی ہوئی بولی تھی۔۔
شکر ہے غصے میں ہی سہی تم نے مانا تو سہی کہ تم بھیڑ ہو۔۔۔۔! وہ اس کی بات پہ اپنی قہقہ ضبط کرتا خوبصورت مسکان لیے بولا تھا۔۔
آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔وہ اس کی وجہیہ چہرے پر نظر ڈالتے ناراضگی سے بولا تھا۔۔۔۔جو رف سے حلیے میں اس کا دل دھڑکا دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔اس کی ڈارک براؤن آنکھیں اپنے اوپر جمے دیکھ کر وہ اپنے نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔
تمھارے معاملے میں بہت نہیں بہت زیادہ برا ہوں۔۔۔۔۔مجھے خود نہیں معلوم میں تمھارے معاملے میں کیوں برا بن جاتا ہوں۔۔۔لیکن مجھے اچھے لگتا ہے ۔۔۔۔تمھارا معاملے میں برا بننا۔۔۔! وہ اس کے حیرت سے پھلتی آنکھوں کو دیکھ کر بولا تھا۔۔
آپ نے منال آپی کے ساتھ سختی کیوں نہیں کی تھی۔؟۔اسے تو آپ نے کبھی نہیں منع کیا ۔۔میں ہی کیوں ہر کسی کے عتاب کا نشانہ بنی رہی۔۔۔
وہ جو مرضی کرتی رہی ۔۔۔۔۔جو چاہے کھاتی ۔۔۔۔جہاں چاہے جاتی ۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔میرے حق میں ہر شخص ہی برا کیوں بن جاتا ہے۔۔۔۔۔وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگی تھی یہ بھی نہیں سوچا کہ دیر ہوگی۔۔۔۔!
کیوںنکہ وہ میری بیوی نہیں تھی۔۔۔۔جو میں اس کے اوپر حق جتاتا۔۔۔۔۔وہ میری نہیں تھی جو میں اسے ٹوکتا۔۔۔اسے منع کرتا ۔۔۔
تم میری بیوی ہو۔۔۔میں تمھیں پہ ہی حق جتاؤں گا۔۔۔تم میری ہو صرف اور صرف میری۔۔۔۔میری سانس سانس میں بس گئی ہو۔۔اور جو چیز میری ہے وہ میری ہے۔۔۔۔!میں تمھیں ٹوکوں گا منع بھی کروں گا ۔۔۔۔اگر ضرورت پڑی تو ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔۔۔وہ اس کی طرف جھکتے اس کی ہرنی جیسی نشیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے غصے سے بولا۔۔۔!
چیزیں تو وقتی ہوتی ہے جو اپنی محدوت مدت تک ساتھ دیتی ہیں پھر توڑ کر پھینک دی جاتی ہیں مگر میں کوئی چیز نہیں ہوں ۔۔۔زندہ انسان ہوں بے جان شے نہیں ہوں۔۔۔۔۔
تم میری انت الحیات ہو۔۔۔۔تمھیں توڑ کر نہیں بلکہ خود سے جوڑ کر رکھوں گا۔۔۔!تم بے جان شے نہیں ہو بلکہ جان تم میری شے ہو ۔۔۔۔یہ کہہ کر شرارت سے اسے آنکھ ونک کر گیا تھا۔۔۔
مجھے دیر ہو رہی ہے کھول کر دیں مجھے جانا ہے۔۔۔۔وہ ہراساں سی اس کے بدلتے روپ کو دیکھ کر گبھراتی ہوئی بولی تھی۔۔۔۔
پہلے فیس واش کرو۔۔۔وہ باٹل کا ڈھکن کھولتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
پھر آپ کی گاڑی نے گندا ہو جانا اور آپ نے ڈاٹنٹا ہے۔۔۔وہ لب بھینچے شکوہ کرگئی تھی ۔۔۔۔
تم سے زیادہ اہم میری گاڑی نہیں ہے۔۔۔۔تم منہ دھولو میں گاڑی صاف کروالوں گا ۔۔۔
پر مجھے جانا ہے۔۔۔۔۔وہ اسی ضدی لہجے میں بولی تھی ۔۔!
اچھا دومنٹ۔۔۔۔وہ ٹشو پیپر نکالتا اس کے ۔۔۔گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور ٹشو گیلا کرکے اس کا منہ صاف کرتا ہے کہ جب وہ اس کی ہاتھ سے ٹشو لے گئی تھی اور صاف کرنے لگی وہ منہ صاف کرچکی تھی ۔۔۔۔!
فی امان اللہ ۔۔۔۔۔یہ لاکڈ کھول دیا تھا ۔۔۔ وہ بغیر کوئی رسپونس دئیے اتر گئی تھی ۔۔۔۔جب کہ وہ اسکی پشت کو دیکھتا رہ گیا جب تک اس کی نظروں سے اوجھل نہیں وہ تب تک دیکھتا رہا تھا۔۔۔وہ اسے اپنے رشتے کا یقین دلانا چاہتا تھا………لیکن وہ اب شاید یقین کرنا نہیں چاہتی تھی اس نرم و نازک لڑکی کو پتھر بنانے کو ہاتھ تو اسی کا تھا۔۔۔
*****
ڈاکٹر پیشنٹ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔۔۔۔؟حسنال کسی خدشے کے تحت بولا تھا۔۔۔۔گیارہ گھنٹے ہوگئے تھے ۔۔۔وہ پریشانی سے چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔۔اس کی حالت بری تھی اس کا چہرہ تھکا ہوا تھا ساری رات سے جاگنا اوپر سےٹنشن۔۔۔۔۔
سوری ۔۔۔۔سر ۔۔۔۔ہم نے اپنی طرف پوری کوششش کی کہ مریضہ کو بچا سکیں لیکن بہت زیادہ ہائی ڈرگز کی وجہ سے ان کی دماغ کی نبض پھٹ گئی تھی ۔۔۔۔جسکی وجہ سے وہ جانبردار نہ رکھ سکی۔۔۔۔
یہ کک۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔!غم کی شدت سے اس سے بولنے ہی نہیں ہوا۔۔۔
وہ گرنے کے انداز سے زمین پر بیٹھا تھا۔۔۔۔اور ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔۔۔
کیا یہ دنیا ظالم تھی ۔۔۔۔؟کیا اس کا جج باپ اپنی مردہ بیٹی کو اسکا اسے انصاف دلا پائیگے۔۔۔۔ یا دو دن یہ قصہ سرِ عام رہے گا۔۔۔۔لوگوں کی زبان پر گونج رہی گی ۔۔۔ پھر اس معاملے کو ایسے بھلا دیں گے جیسے اس بچی کا کوئی وجود بھی تھا۔۔۔۔۔کیا اس کا باپ اسے دنیا کی عدالت میں اسکو انصاف دلا پائے گا۔۔۔۔۔یا اس کا رب ہی اپنی عدالت میں اسکو انصاف دے گا۔۔! اور بے شک رب کی عدالت بڑی بھاری ہے۔۔۔وہ اوپر بیٹھ کر نیچے والوں کو گاڑ دے گا۔۔۔وہ رب صرف انصاف کو دیکھتا ہے۔۔۔
ایک بدلے کی زد میں وہ جج کی بیٹی آگئی اس کا باپ باہر تھا جو بیٹی کی اغوا کا سن کر آرہا تھا عرفان درانی نے اپنے بدلے میں جج کی بیٹی کو کڈنیپ کروایا تھا۔۔عدالتیں تو گویا اس کے باپ سے چلتی تھی ۔۔۔۔اس بچارے کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کے بیٹی زندگی کی بازی ہار گئی ہے۔۔۔۔۔!
کیا ہوا ہے آپ کا کوئی اپنا چلا گیا ہے۔۔۔۔!کیا کوئی مرگیا ہے۔۔۔
ایک شخص اس کے پاس آکر زمین پر جھکتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دکھ سے بولا تھا۔
لوگ اسکو دیکھ رہے تھے وہ نیچے زمین پہ ہارا ہوں بیٹھا تھا۔۔۔
مرا نہیں مر گئے لوگوں کے ضمیر ۔۔۔جانے والی اپنی تو نہیں تھی پر انسانیت کا رشتہ تھا اسے۔۔۔۔۔! وہ شخص اس کی بات سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔!
جب ڈیڈ باڈی کو باہر لایا تھا وہ خالی ذہن لیے اٹھا تھا اور سٹریچر کے باعث گیا۔۔۔۔۔!
چھوٹی لڑکی۔۔۔میں تم سے شرمندہ ہوں ۔۔۔۔! میں تمھیں بچا نہیں سکا ظالموں سے۔۔۔لیکن ایک وعدہ ہے تمھیں انصاف دلاؤں گا۔۔۔۔!
ایک ان ظالموں نے چال چلی تھی ۔۔۔۔ایک میرا رب چلے گا اس کی چال ہر چال سے بھاری ہے بے شک وہ بہترین چل چلنے والا ہے۔۔۔۔
وہ اس کے معصوم چہرے کو تکتا ہوا بولا تھاجو معصوم اس ظالم دنیا سے منہ موڑ گئی تھی۔۔پھر ڈاکٹر نے اسے دور کر دیا تھا۔۔۔۔
*******
وہ رات کا کھانا کھا کہ لیپ ٹاپ پہ کام کر رہا تھا ۔۔۔۔۔اس نے حسنال کا نمبر ٹرائی کیا پانچ چھے دفعہ کال کرنے کے باوجود وہ نہیں اٹھا رہا تھا وہ پریشان ہوگیا تھا۔۔۔
اس نے گھر والے نمبر پہ ٹرائی کیا ۔۔۔۔!
ہیلو ۔۔۔۔! دوسری جانب ماں کی آواز آئی ۔۔
السلام علیکم ۔۔۔۔۔ماں حسنال گھر ہے۔۔فون نہیں اٹھا رہا ۔۔وہ پریشان تھا۔۔
وعلیکم سلام ۔۔۔۔! نہیں وہ تو پچھلے پانچ دن سے گھر نہیں آ رہا۔۔۔۔وہ بھی پریشان تھیں میں نے تمھیں کہا تھا اسے مت سپورٹ کرو۔۔۔۔! لیکن تم ہی اس کے اندر جوش پیدا کر رہے تھے کہ اسی فیلڈ مین آو۔۔۔۔۔۔اس کو اتنا جنون ہے کہ وہ راتوں کو گھر نہیں آتا۔۔۔۔وہ سلام کا جواب دے کر پھٹ پڑی تھی۔۔۔۔
امی پلیز۔۔۔۔۔اس نے جب فیلڈ یہ رکھی میں کیا کرسکتا اس کے دل میں بچپن سے شوق تھا۔۔۔۔آپ پریشان نہ ہو۔۔۔روٹین اس کی ٹف ہے بزی ہوگیا۔اور بابا کہاں ہیں ۔۔۔۔
آغا جان ٹھیک ہیں ۔۔۔۔خالہ کیسی ہیں۔۔۔۔۔
وہ انکی پریشانی سے بھرپور آواز سن کر ان کا دھیان بٹا گیا تھا ۔۔۔۔
ماں ہوں سب سمجھتی ہوں تمھارے ڈراموں کو ۔۔۔۔! چھوٹا بچہ نہ سمجھا کرو ۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے پالا ہے تمھیں۔۔۔۔وہ بھپر اٹھی تھی ۔۔۔۔۔!
امی ۔۔۔۔آواز نہیں آ رہی۔۔۔۔۔۔وہ ان کو زیادہ پریشان ہوتا دیکھ کر فون کٹ گیا تھا۔۔۔۔۔
سلیپر پہنتا وہ اشنال کے روم کی طرف آیا تھا ۔۔۔۔۔اس کا ڈور ایک دفعہ ناک کیا اور آواز نہ سن پھر اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔
وہ بیڈ کے دوسرے طرف نماز پڑھ چکی تھی اور نماز کو سمیٹتی اٹھ کر بیڈ کی چادر سیٹ کرنے لگی۔۔۔
وہ جھک کر بستر کی چادر سیٹ کر نے لگی ۔۔۔۔ابھی تک اس کی نظر نہیں پڑی تھی ۔۔۔۔جبکہ دوسری اس کو تکتی روشنال کی آنکھیں غضب کی حدت سمیٹ لائیں تھیں۔۔
اشنال کو اس کی نظروں سے تپش کا احساس ہوا تھا اور نظریں اٹھا کر اسے دیکھ جس کی آنکھوں میں اسےطسرد پن نہیں بلکہ ایک عجیب سی حدت تھی ۔۔۔
آپ اپنے روم میں جائیں ۔۔۔۔۔میں چائے دے آتی ہوں۔۔۔۔!
اس نے سمجھا شاید چائے کےلیے آیا ہو گا۔۔۔۔۔
وہ اس کو دیکھنے لگا وہ کس مزاج کی لڑکی تھی وہ صرف اور صرف اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتی تھی یعنی ان کا رشتہ ضرورتوں کی نوعیت تک تھا بس۔۔۔
اس میں اعمتاد ۔۔۔۔پیار۔۔۔محبت اور یقین نہیں تھا۔۔۔۔
لیکن میں نے اسے اعتماد ، یقین اور محبت کب دیا تھا۔۔۔!
جب بھی کی زبردستی کی غصہ کیا۔۔۔ڈانٹا اور مارا۔۔۔۔!
تو وہ کیسے اس پہ یقین کرتی ۔۔۔۔!
ہٹیں میں چائے لا رہی ہوں۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر اس نزدیک آئی تھی جب کہ وہ اس کا بازؤں تھام گیا تھا۔۔۔
مجھے چائے کی طلب نہیں ہے ۔۔۔۔۔! مجھے تمھاری طلب ہے۔۔۔۔! اس کا بازؤں پکڑ کر شدت سے چور لہجے میں بعلا تھا۔۔۔۔یہ لڑکی ایک پل کےلیے اس کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں چاہیے ۔۔۔۔!وہ اس کا دل و دماغ نشہ کا اثر کرتی تھی اس کی یہ بیوی اسے بہت ضروری تھی ۔۔۔
نشہ بھی دنیا بھلا دیتا ہے اور وہی دنیا بھلا دینے کا کام رکھتی تھی۔۔۔۔
روشنال کا پہلی بار شدت بھرا انداز دیکھ کر اس کا دل دھڑکا تھا۔۔۔۔۔جو اس کے سامنے سوالی سا کھڑا تھا۔۔وہ چاہتی تو اس سوالی کو خالی نہ جانے دیتی لیکن اس کے ستم اسے رلاتے تھے۔۔اس کے بکھرے بال اس ستمگر شخص کو اتنا حسین بنا رہے تھے ۔۔۔۔اس کا دل کیا کہ وہ ایک بار ان حسین گھنے گسیوؤں کو اپنے ہاتھوں سے سمیٹے۔۔۔!
اس نے اپنی تحیر آمیز سرخ آنکھیں لمحہ بھر کو آٹھائیں اوت پھر ریشمی لانبی پلکوں کے چلمن کو گرا دیا تھا۔۔۔
میں تمھاری اس خاموشی کو کیا سمجھوں ۔۔۔۔وہ اس کے حسین مکھڑے کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔
ہاتھ چھوڑیں میرا۔۔۔۔۔وہ اس کی آواز سنتی ہوش کی دنیا میں آئی تھی۔۔۔اس کا دل جیسے خود کو ملامت کرنے لگا تھا۔۔۔
سوری۔۔۔۔۔روشنال صاحب ۔۔میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔آپ کو چائے کی طلب ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔مجھے آپ کے ساتھ چاہ کی کوئی طلب نہیں ہے۔۔۔!
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے اعتماد سے بولی تھی۔۔
اوکے۔۔۔۔۔یہ کہہ کر اس کا ہاتھ چھوڑا تھا جبکہ وہ اسے کے پاس سے ہوتی ہوئی گزری تھی۔۔۔۔ وہ پیچھے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگ پڑا تھا۔۔۔۔
*******
کیسی بے حیا لڑکی ہو ۔۔۔۔۔میرے دونوں بیٹوں کو گھر سے نکال کر خود عیش کر رہی ہو۔۔۔۔۔شرم تو تم میں چھو کر نہیں گزری۔۔۔پہلے ایک کو اپنے عشق میں مبتلا کیا پھر اس کے ساتھ ڈرامہ کیا اب میرے معصوم بچےکو گھر سے دربدر کر دیا ۔مجھے سارا پتہ ہے وہ تم جیسی بڑی عمر کی لڑکی کے ساتھ رینا نہیں چاہتا اس لیے راتوں کو گھر نہیں آتا۔۔وہ آغا جان کے لیے چائے بنا رہی تھی جب وہ بھڑکتی ہوئی کچن میں آئی تھی۔۔۔
خالہ۔۔۔آپ۔۔۔۔۔وہ حیرت سے بولی تھی ۔۔۔ان کی باتوں سے اسے ایسے لگا جیسے کسی نے انی چبھو دی ہو۔۔۔۔
بس نہیں ہوں میں تمھاری خالہ۔۔۔۔۔بے حیا لڑکی اس رشتے کا پاس تو رکھا ہوتا۔۔۔۔۔میرا معصوم بیٹا بس تم سے رشتہ مجبوری میں نبھارہا ہے۔۔۔اس سے طلاق لو۔۔۔۔۔میرا بیٹا تو سکھی رہیں گا میں اس کی شکل دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔۔۔۔۔۔! وہ آگے سے کچھ نہیں بولی بس سنتی رہی وہ حد سے گری باتیں بھی کرگئی تھی ۔۔وہ بس آگے سے کچھ نہیں بولی تھی ۔۔۔۔وہ سمجھتی تھی کہ وہ حق بجانب ہیں ۔۔۔۔۔انہوں نے یہ تک بھی کہہ دیا تم دونوں بھائیوں کو ورغلاتی رہو۔۔۔۔وہ سناتی رہیں وہ سنتی رہی ۔۔۔۔اس کا دل خون کے آنسوؤں رو رہا تھا ۔۔۔۔لیکن زبان خاموش تھی دل حسنال سے بغاوت پہ آمادہ تھا ۔۔۔۔۔
*****
وہ نماز کر فارغ ہوئیں تھیں جب سے خالہ گئیں تھیں تب سے اس کا دل بوجھل تھا اسے حسنال پہ رہ رہ کہ غصہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔
اسے بس حسنال کا انتظار تھا جسے اسے رہ رہ کہ غصہ آرہا تھا کتنا دوغلا وہ شخص تھا اس کے منہ پر میٹھا اندر سے اور باہر سے اور۔۔۔۔۔اس نے وہ غصہ کب سے ضبط کر رکھا تھا۔جو اس نے حسنال پہ اتارنا تھا وہ ٹہلنے لگی تھی ۔۔۔۔۔اسے شدید غصہ آر ہا تھا ۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد اسے بائیک کی آواز آئی تھی وہ کھڑکی کے پاس گئی تھی ۔۔۔۔ ٹوٹی کھڑی سے اسےدیکھا جو دھیمی چال اندر آ رہا تھا۔۔۔۔وہ اپنے سر پر ڈوپٹہ کرتے نیچے کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔۔۔اتنے دنوں بعد اس منافق کو شخص کو دیکھ کر وہ غصہ سے لال پیلی ہوئی تھی ۔۔
وہ گھر میں خاموشی دیکھ کر آہستہ سے اتری تھی ۔۔۔۔
حسنال اندر چلا گیا تھا۔۔۔۔
اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا وہ اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔۔۔۔
کتنے دوغلے اور منافق انسان ہو تم۔۔۔۔۔میرے سامنے تو بڑے تمیز دار بنتے ہو ۔۔۔۔جیسے میں تمھاری چالاکیاں جانتی ہوں نہیں ۔۔۔ وہ اس کو دیکھتے غصہ ضبط کیے بنا بولی تھی۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔وہ مڑ کر اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا ۔۔۔وہ پہلے ہی پریشان تھا۔۔۔!
مطلب تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے بہت بھولے ہو۔۔۔۔باہر سے آوارگیاں کرکے مظلوم بننا تو کوئی تم سے سیکھے۔۔۔۔
مجھ جیسی عورت سے شادی کرکے تم تو سب کے سامنے معصوم بن گئے۔۔۔۔لیکن میری عزت کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے تم نے۔۔۔! وہ پہلے تو اسکی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر ٹھٹکی تھی جوبہت کمزور لگ رہا تھا اس کا چہرہ اسے سرخ لگا تھا9۔۔۔۔!لیکن پھر اس کی ماں کی گئی باتیں یاد آئی تھیں تو رہ نہ سکی تھی۔۔
منال ایک بار کہہ رہا ہوں میں تم سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا اس لیے دور رہو تو بہتر ہوگا۔۔۔وہ آپ سے تم پر آیا تھا ۔۔آج منال کو بدلا ہوا حسنال لگا تھا جس کے چہرے کی مخصوص مسکراہٹ غائب تھی۔۔۔
میں میں بھی تم سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی بس مجھے طلاق دو۔۔۔۔اور چھٹکارا پاؤ۔۔۔۔وہ اس کے نزدیک آئی اس کا گریبان تھام گئی تھی ۔۔۔۔
کیوں دوں۔۔۔۔مجھ سے دل بھرگیا یا کوئی اور پسند آگیا ہے ۔۔۔وہ اپنے گریباں سے اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا تھا۔۔
مجھے کوئی پسند آیا ہو نہ ہو۔۔۔۔۔مجھے طلاق دو۔۔۔۔ابھی وہ اس کا پھر سے شرٹ کا گریباں تھامے پاگلوں کی طرح بولی ۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔آج ساری اکٹر ختم کروں گا مجھ سے جدا ہونے کا اتنا شوق جو ہے پاگل عورت ہر وقت میرا دماغ کر رکھا ہے تم نے ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ گریباں سے ہٹا کر اسے بیڈ پر پھینکا تھا۔۔۔۔! وہ اللماری سے بیلٹ لے کر آیا تھا ۔۔۔۔
حسنال۔۔۔۔۔۔۔پلیز۔تم مجھے ممعاف کردوں ۔۔اس کے سامنے ہاتھ جوڑیں ۔۔۔۔۔اس کا ایک دم سے غصہ آنا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔اس کا دل وحشت سے بیٹھا جارہا تھا تھا۔۔۔
آپ۔۔۔۔بولو۔۔۔۔۔
وہ بیلٹ کو ایک بار اپنے ہاتھوں کے گرد لپٹے بولا تھا۔۔
حسنال ۔۔۔۔یہ تم کر رہے ہو ۔۔۔۔جانے دو مجھے۔۔۔۔! وہ اس کے خطرناک رویے پر دل پہ ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔
کیا بکواس کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔شوہر نہ سمجھا کاٹھ کا الو سمجھ لیا۔۔۔۔۔تمھارا یہ خوبصورت چہرے میں کسی اور کے قابل چھوڑوں گا۔۔ ۔تو کوئی تمھیں پسند کریں گا۔۔۔۔
آ۔۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔آپپ۔۔۔۔۔آپ چھوڑ دیں مم۔۔۔۔مجھے۔ ۔۔خوف سے اس کا رنگ پیلا پڑا تھا وہ بمشکل بول پائی تھی۔۔۔۔
اس نے بیلٹ اچھلا تھا اور اس کے لمبے بالوں کو دیکھق کو آگے پچھے بکھرے ہوئے تھے جو سہمی ہوئی چڑیا لگ رہی تھی جس نے خوف س اپنی آنکھیں بند کیا تھی ۔۔۔۔۔
کچھ دیر اپنے جسم پہ کوئی ضرب نہ پاکر ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولی تھی ۔۔۔۔تو حسنال ۔۔۔۔۔کو صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔جس نے سر ہاتھوں میں گرایا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اس کو ایسے دیکھ کر پریشان ہوئی اور اپنی شرٹ درست کرتی اس کی طرف آئی تھی ۔ ۔۔۔
حسنال۔۔۔۔۔۔اس نے نرم سی آواز میں اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پکاڑا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔کوئی پریشانی ہے۔۔کسی سے لڑائی ہوئی ہے۔۔۔! وہ اسکے میلے کپڑوں کودیکھتے ہوئے دکھ سے بولی تھی ۔۔۔
حسنال نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اس کےلیے پریشان نظر آرہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے پریشان چہرے اور اسے اپنی فکر میں گھلتا دیکھ ایک دم سے اس کے ساتھ آلگا تھا۔۔۔
جب کہ منال کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوگئی تھی وہ اس شخص کے ویران چہرے اور اس کے گرم ہوتے گال اپنے گردن پر ۔حسوس کرکے کر اپنی سانس روک گئی تھی۔۔۔۔