تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 22

وہ اس کو مسلسل کروٹیں بدلتا دیکھ رہا تھا جو بہت ہی بے چین لگ رہی تھی..جیسے اس کو کوئی غم رہا ہو اور وہ بتا نہ پا رہی ۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھتا وہ کروٹ بدل گئی روشنال کی طرف اس کی پشت تھی ۔۔۔
وہ اس کو بے چین دیکھتے اٹھا اور میانہ روی سی چال چلتا اس کے پاس آکے بیڈ پہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔
آؤ تہجد ادا کرلیں ۔۔۔۔۔اور کے سر پر انگلیاں چلاتے ہوئے وہ
مدھم سی آواز بولی تھی۔۔۔۔
اس کی انگلیاں اپنے بالوں پر پھیرتے دیکھ کر پہلے تو ڈری تھی اس کا دل کیا کہ جھٹک دے لیکن اس کے اگلے الفاظ اس کی روح میں چاشنی اتار گئے تھے ۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔میں وضو کر آؤں ۔۔۔۔یہ کہہ وہ آہستگی سے اس کے بالوں سے اس کے ہاتھ کو ہاتھ کو ہٹاتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
وہ وضو کرنے چلی گئی تھی وہ پیچھے بیٹھا اس کی بے چینی کی وجہ سوچنے لگا تھا بے شک وہ اسے جتنی بھی بدتمیزی کرتی پر اب وہ اسے اپنی جان سے بھی پیاری ہوگئی تھی پر وہ یہ سمجھ نہیں پارہا تھا اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔؟
تھوڑی بعد وہ وضو کرکے ڈوپٹہ سیٹ کرتی واپس آئی تھی۔۔۔! اس کے بعد وہ وضو کرنے چلا گیا تھا دس منٹ بعد آیا وہ اسی کے انتظار میں بیڈ پر گبھرائی ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔!
میں جائے نماز لے آتا ہوں تمھارے روم سے وہ واپس آیا تو اس کو پھر ساکت سا بیٹھا دیکھ کر نرمی سے بولا۔۔۔اور اس کے کمرے سے جائے نماز لے آیا تھا اور سر پر وائٹ کلر کا رومال باندھا تھا۔۔
وہ رومال باندھ رہا تھا جب اشنال کی نظر اس پہ پڑھی تھی اتنی پریشانی میں بھی اپنے ہمسفر کی ڈاڑھی میں جذب ہوتا پانی کا منظر اسے کوئی اونچائی سے نظر آتا خوبصورت جھرنا لگا تھا وہ مبہوت سی ہوکر تکنے لگی تھی اور کالج میں ہو نے والے سوچ کر پریشان ہوگئی تھی
میرے ساتھ بچھاؤ وہ اس کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔۔
وہ پیچھے بچھانے لگی جب اسے نے اسے ٹوکا تھا۔۔۔
جی۔۔۔۔وہ اس کے ساتھ بچھا گئی تھی دونوں توجہ سے پڑھنے لگی تھی وہ اس کی تقلید کرتی تہجد پڑھ رہی تھی اپنے ہمسفر کے ساتھ عبادت کرنے کا اپنا ہی لطف تھا ۔۔۔۔
تہجد پڑھ کہ دونوں نے ہاتھ اٹھائے تھے وہ بھی دل میں دعا مانگنے لگا ۔۔۔اشنال بھی دل میں دعا مانگتی رہی۔۔۔۔!
اے اللہ میں بے بس ہوں ۔۔۔۔میری مدد فرما۔۔۔۔اے اللہ میں ٹوٹ گئی ہوں میری مدد فرما۔۔۔اے اللہ میں تیرے فیصلوں پر راضی ہوں لیکن میری زندگی کی مشکلیں دور فرما ۔۔۔۔اے اللہ میں تجھ سے نا امید نہیں ہوں۔۔۔پر تیرے بندوں نے مجھے نا اُ مید کر دیا ہے۔۔۔مم۔۔۔۔میں اتنی پریشان دل کر رہا ہے خود کے ساتھ کچھ کرلوں ۔۔۔۔چھوٹی سی عمر میں زندگی کی الجھنوں نے مجھے تھکا دیا ہے ۔۔۔یا اللہ بے شک خوشیاں دے کہ میں مغرور ہوکر تجھے بھول جاؤں بس مجھے اپنی رحمتیں دے دیں ۔۔۔جن کا میں شکر کرتے کرتے نہ تھکوں۔۔۔
اس نے اللہ سے شکوہ نہیں کیا بس پریشانی سے اپنے رب کے ساتھ ڈوپٹہ پہ سر رکھ کے چہرہ ہاتھوں میں چھپائے روئی تھی اپنا غم اللہ کے سامنے ہلکا کیا تھا۔۔
*****
ہم شاید بھول جائیں مگر وہ رب ہمارے صبر ڪے لمحات ، وہ روتی ہوئی آنڪھیں ، وہ ڪپڪاتے ہوئے ہونٹ ، وہ سجدوں میں جھکنے والا سر اور وہ تڑپ میں رہنے والا دل ڪچھ بھی نہیں بھولتا..
رجوع الٰہی اللہ کے بغیر چارا نہیں!!
جو جتنی دیر سے لوٹے گا پچهتاوے کی گهٹڑی اتنی ہی بهاری ہو گی۔اور اس گهٹڑی کی گرہیں کهولنے کے لیے اتنے ہی زیادہ آنسو درکار ہوں گے ۔
تمہارے دکھ کی ہر ایک داستان صفحہ تقدیر پر درج ہے۔
جو نہ تو تمہارے رب سے چھپی ہوئی ہے
اور نہ وہ تمہارے غموں سے بے خبر ہے
تم اپنے حصے کی محنت جاری رکھو۔اجر تو اللہ پاک نے دینا ہے ۔۔
*****
ادھر روشنال کی آنکھوں سے آنسو تو نہ آئے تھا پر وہ بھی اپنا دل رکھے بوجھ کو ہلکا کرکے ہٹا تو تو اس کو دیکھ جو ایسے ہی جائے نماز پہ چہرے ڈوپٹہ میں لپٹے ہاتھوں میں دعا کی انداز میں پھیلائے ہاتھوں میں رکھا تھا۔۔
وہ چند لمحے اسکے سسکے وجود کو دیکھتا رہا اور پھر اسے ہاتھ بڑھا کہ اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔
کوئی پریشانی ہے تو ہمسفر سمجھ کر نہ سہی اپنا سپر مین سجھ کر بتا دو۔۔۔۔اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلو۔۔۔
آج کی رات پرانے والی ایشو بن کہ کوئی ضد کرلو
۔۔۔۔میں سپر مین بن کہ پوری کر دوں گا۔۔۔! آج بس یہ سمجھ لو ۔۔۔۔کہ میں تمھارا دوست ہوں ، غمگسار ہوں ۔۔۔
وہ اس کے چہرے کو ہاتھ میں تمھتا اس کی آنکھوں کو
اپنے لمس سے معطر کرتا بولا۔۔۔۔اسے پتہ تھا کہ وہ بہت الجھن کا شکار ہے ۔۔۔۔وہ جب سے آیا تھا اس کی پریشانی گبھرائٹ کو نوٹ کر رہا تھا وہ بہت غائب دماغ لگ رہی تھی ۔۔۔
وہ پہلے اس کے حصار سے جھجکی تھی پر پھر یہ سوچ کر سکون ہوگئی تھی کہ پاک جگہ تھی، پاک رشتہ تھا ،
پاک وقت تھا۔۔۔اور اوپر سے اس کی پاکیزہ باتیں ۔۔۔اور کوئی وقت ہتا تو وہ اس کے پاس پھٹکتی بھی نہ تھی
لیکن اب اس کآ چہرہ تھوڑا سا اطمینان وہ پھر سے اس کے سینے سے سر ٹکا گئی تھی۔۔
پتہ ہے اللہ نے محرم رشتوں میں بہت طاقت رکھی ہے ۔۔۔
میں تمھارا محرم ہوں تمھارا محافظ ہوں، مانا کہ غلط فہمی میں تمھارا بہت نقصان کیا ہے ۔۔۔تمھاری روح پہ بھی داغ لگائیں ہیں ۔۔۔۔وہ نرمی سے کہتا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے پرسکون کر رہا تھا۔۔۔!
لیکن اس کی باتیں سن کر وہ پھر سے بے سکون ہوئی تھی ۔۔۔وہ پھر سے کالج میں ہونے والے واقع کو یاد کرکے بے سکون ہوئی ۔۔۔۔اس کے حصار میں لایا گیا سکون اسے پھر سے بے سکون کر گیا تھا وہ اس کے حصار سے خود کو چھڑاتی پیچھے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔!
*****
سجدوں میں گرنے سے پہلے ان لوگوں کو گلے لگائیں جو آپکی وجہ سے اذیت میں مبتلا ہے _!!
“دل آزاریاں معاف نہیں ہوتی “
وہ اٹھ کر اس کے پیچھے آیا جو ایسے ہی بیڈ پر بیٹھی تھی وہ نرمی سے قدم اٹھاتا اس کے پاس آیا اور اسے پھر سے اپنے ساتھ لگالیا تھا۔۔۔!
اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے ۔۔۔! وہ اپنی گرفت سخت کرتا ہوا بولا تاکہ وہ پھر سےاس کے حصار سے نکل نہ سکے ۔۔۔۔!
ک۔۔۔کچھ نہیں ۔۔۔! وہ گبھرا کر بولی تھی۔۔۔!
پھر اتنی بے چین کیوں ہو۔۔۔وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔!
ن۔۔۔نہیں۔۔تو۔میں تو بے چین نہ۔۔نہیں ہوں۔۔۔۔وہ اس کے حصار سے اور زیادہ گبھرائی تھی۔۔۔۔
پر مجھے تو لگ رہی ہو۔۔۔۔! اس کی آواز سن کر بھاری لہجے میں بولا۔۔
تت۔۔۔۔تھک گئی ہوں۔۔۔۔!وہ بوجھل لہجہ لیے بولی تھی ۔۔
کس سے۔۔۔۔۔؟
زندگی سے۔۔۔اس دنیا سے ۔۔۔۔ کھوکھلے رشتوں سے ، ان لوگوں سے ۔۔۔سب سے بڑھ کر خود سے۔۔۔ اپنے ان سگے رشتوں سے جنہوں نے مجھے وہاں آزمایا جہاں مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔۔
سب نے میری امید اور مان کو توڑا ۔۔۔۔۔جیسے میں کوئی بے جان شے ہوں ۔۔۔ان سب میں آپ بھی تھے ۔۔۔!
آپ نے بھی میری امید اور مان کو توڑا ہے۔۔۔پتا ہے یہ سب مجھے اتنا تکلیف دہ لگتا ہے ۔۔۔۔جیسے زندگی کو موت آگئی ہو پھر بھی سانسیں چل رہیں ہو۔۔۔میں اپنی زندگی سے ہی تھک گئی ہوں۔۔۔۔وہ اس کی آغوش میں پرسکون نہی تھیں ۔۔۔!
اگر میں اس تھکن کو سمیٹ لوں تو۔۔۔۔؟ وہ اس کو اس طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔!
نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔! وہ اور وحشت زدہ ہوتی پیچھے ہٹی تھی اور بھاگ کر روم سے نکلی تھی۔۔۔جب کہ پیچھے بیٹھے روشنال نے غصے سے بیڈ پہ مکا مارا تھا
******
یار یہ فائل سبمنٹ کروا دینا۔۔۔میں نے آج دس بجے نکلنا ہے
وہ رات کو بنائی گئی اسائمنٹ کی پریزنٹیشن فرقان ضیا کے حوالے کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔!
کیوں خیر تو ہے آج بڑا چمک دھمک رہا ہے وہ اس کی جاذب شخصیت کو دیکھتا ہوا ہنستا ہوا بول۔۔
ہاں یار اشنال کے کالج میں میٹنگ ہے وہ اٹینڈ کرنی ہے ۔۔۔
وہ اس کو جواب دیتے ہوئے بولا تھا۔۔
وہ ساری رات اسے دیکھتا رہا وہ ایسی کی ایسی بے چین تھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔! اس کے چہرے پر کچھ نشانات دیکھ کر وہ چونکا تھا۔۔۔!
اوکے ۔۔کوئی بات نہیں ۔۔۔بس ٹنشن نہ لے اور نہ اس بچاری کو دے۔۔۔۔آرام سے آ اور جا۔۔۔۔کئی لونگ ڈرائیو پہ بھی چلے جانا بھابھی کو لے کر۔۔۔۔فرقان نے معن خیزی سے کہتا
فائل لیتا چلا گیا تھا۔۔۔
جبکہ وہ بھی اشنال کے کالج کی طرح نکلا تھا ساڑھے نو تو ادھر ہی ہوگئے تھے۔۔۔
*****
حسنال کی آنکھ کھلی تو نو بج رہے تھے وہ جلدی سے اٹھا۔۔اس نے دس بجے نکلنا تھا رات والی تھکن غائب تھی اب اس کے لہجے میں ایک نیا عزم تھا۔۔۔
وہ اٹھا تھا جب اس کی نظر منال پر پڑھی تھی ۔۔۔۔! وہ جو بیڈ کرواؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی بیٹھی سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔!
منال ۔۔۔۔اس نے بازؤں سے پکڑ کر ہلکا سا جنجھوڑا تھا سیدھی ہو کر سوجاؤ۔۔۔اس کی ساری رات کی بے آرامی کا سوچ کر اسے اٹھایا تھا
وہ اس کی جنجھوڑنے سے ہلکی سی آنکھیں کھولتی اسے دیکھتی پھر سے سیدھی ہو کر اپنے اوپر کمفرٹ اوڑھ گئی تھی۔۔۔
جبکہ وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھا تھا۔۔۔اور فریش ہونے چل دیا تھا۔۔۔!
.تھوڑی دیر بعد جب فریش ہوکر آیا تو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوکر بالوں میں کنگھی کی اور لیپ اٹھانے لگا۔
اب کہاں جا رہے ہو ۔۔۔؟ وہ اسکی کھٹ پھٹ کرتی آواز سے اٹھ بیٹھی اور سوال کیا تھا۔۔
کام پہ ۔۔۔۔وہ نرمی سے جواب دے کر نکلنے لگا۔۔۔
آج میں تمھیں کئی نہیں جانے دوں گی۔۔پانچ دن بعد گھر آئے اور پانچ گھنٹے سوکر پھر سے نکل چلے ۔وہ اٹھ کر اس کے سامنے آئی اور اسے بازوؤں سے پکڑ جانے سے روکا تھا ۔۔
یار آج قسم سے کام پینڈنگ پڑا ہوا ہے بس آج جانے دیں ۔۔۔کل رات کو گھر ہی آنا ہے۔۔۔۔!
کیا۔۔کل رات کو اب تو تم بالکل بھی نہیں نکل سکتے ۔۔
آج دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے ۔۔۔آج میں تمھیں نہیں جانے دوں گی۔۔۔!
وہ یہ کہتی ڈور سے لگ کر کھڑی ہوگئی تھی اور ہاتھ پھیلا لیے۔۔۔۔!
حسنال جو پریشان سا ہوگیا تھا کہ وہ اس کو کسی بھی جانے نہیں دے رہی۔۔۔۔۔اس کے حلیے پر نظر پڑی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔! جو فیروزی کلر کے سوٹ میں بغیر ڈوپٹے بغیر چپل کے کھڑی تھی بال آگے پیچھے بکھرے ہوئے تھے۔۔ اس کے بکھرے حلیے سے اس کے فگرز عیاں ہورہے تھے۔۔۔!
قسم سے مس ہلاکو بہت ہاٹ لگ رہی ہیں ۔۔۔آپ کے اس حسن سے مکمل طور پر بہک جانا چاہتا ہوں۔۔۔میں چاہتا پوں کہ مجھے دنیا بھول جائے ۔۔۔بس آپ یاد رہیں ۔۔۔۔وہ یہ کہتا اس کے پاس آتا اس کے سر کے پاس ہاتھ رکھ کر گمبھیر لہجے میں بولا۔۔۔!
کک۔۔۔کیا۔۔۔کر رہے ہو۔۔۔۔۔! جاؤ۔۔۔۔تمھیں دیر ہو رہی ہے نا۔۔۔!
وہ اس کے چہرے کو اپنے بہت قریب دیکھتی ہوئی گبھرا کر بولی تھی۔۔۔!
نہ نہ ۔۔۔۔۔! ایسے کیسے۔۔۔۔۔آپ نے خود روکا ہے مجھے۔۔۔۔!
وہ ناک اس کی ناک سے مس کرتا ۔۔۔۔ایک ہی سیکنڈ میں اس کے حوش اڑا گیا تھا۔۔۔۔! اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔! وہ پچھتائی تھی اسے روک کر۔۔۔۔وی بگڑا شخص جب اپنی منمانی پہ آتا تو سب کچھ بھول جاتا تھا۔۔۔!
ابھی تو میں صرف قریب آیا ہوں ۔۔۔۔۔! آپ ایسے ہی لال ہو رہی ہیں ہے ۔۔۔۔!
ہائے جب میں جب آپ کو ٹچ کروں گا ۔۔۔۔پھر کیا عالم ہوگا۔۔۔۔۔۔! وہ اس کے خون چھلکاتے چہرے کو دیکھ کر معنی خیزی سے بولا تھا ۔۔۔۔!
ہٹو۔۔۔ بدتمیز ٹھرکی انسان۔۔۔۔ہر بات پہ ٹھرک جھاڑنا تو ضروری سمجھتے ہو۔۔۔! میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ رات کو تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے تھے رات کو تمھاری طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔! وہ اس کو دھکا مارتی دور ہٹی تھی۔۔۔۔!
رات گئی بات گئی ۔۔۔۔! یاد رکھئیے گا میرے دو چہرے ہیں جو پل پل بدلتے رہتے ہیں۔۔۔۔! یہ کہتے ڈوپٹہ اٹھا کر اس پہ ڈالا تھا۔۔۔!
ٹائم ہوتا تو چپل بھی پہنا دیتا ۔۔۔۔پر ابھی جا رہا ہوں
اتنا ٹھرکی نہیں ہوں جتنا نظر آتا ہوں۔۔۔۔!
اللہ حافظ۔۔۔!
اس کے ماتھے پر عقیدت بھرا لمس چھوڑتا بیگ اپنے کاندھوں پہ ڈالتا اس کو ساکت چھو ڑتا نکل گیا تھا۔۔۔!
جب کہ وہ دھک دھک کرتا دل اور لال چہرے لیے بیڈ پہ بیٹھی تھی۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ ایک ماہر کباڑیہ ہے ۔۔۔۔! جو پرانی چیزوں کے بدلے میں نئے دل کو دھڑکانا جانتا تھا۔۔۔
وہ چلا گیا تھا ۔۔۔لیکن اس شضص کی خوشبو ابھی بھی اردگرد محسوس ہو رہی تھی۔
****
ملازمہ اسے آفسں میں بیٹھا کہ چلی گئی تھی وہ پیچھے بیٹھا ویٹ کر رہا تھا۔۔۔!
جب اڈھیر عمر پرنسپل سر ناظم کو اندر آتے دیکھا تھا
السلام علیکم محترم ۔۔۔۔انہوں آتے ہی کہا تھا۔۔۔
وعلیکم سلام سر ۔۔۔۔وہ چئیر سے اٹھتا مصافحہ کرتا چئیر پہ بیٹھا تھا
بیٹھیے ۔۔۔۔وہ وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے کہتے خود سیٹ پہ بیٹھے تھے۔۔۔
چائے یا کولڈرنک۔۔۔۔! انہوں نے گیسٹ کے حوالے سے پوچھا تھا۔۔۔
نو سر۔۔۔۔نو نیڈ۔۔۔۔تھینک یو ۔۔۔۔کس سسلے میں بلایا تھا آپ نے ۔۔۔!
وہ سہولت سے انکار کرتا کام کی بات پہ آیا تھا۔۔۔!
بات دراصل یہ ہے نوجوان۔۔۔۔کہ دراصل ہمارے کالج کی ریپو بہت اچھی ہے ایک نام ہے ۔۔۔!
ماں باپ بچیوں پہ ٹرسٹ کرکے یہاں بھیجتے ہیں جو بھی ایڈمیشن کرواتا ہے وہ کالج کا نام دیکھتا ہے اسکا سینڈرڈ دیکھتا ہے ۔۔۔۔لیکن میں آپ سے جو کہنا چاہ رہا تھا مجھے لگتا ہے ہمیں آپکی بہن کو ڈس مس کر دینا چاہیے۔۔۔۔اس نے جو حرکت کی ہے اس سے کالج کی اور بچیوں کو بھی شہہ ملے گئی وہ بھی اس کی طرح غلط راہ پہ چلیں گے ۔۔۔دیکھیے محترم کبھی کبھی گھر سے عدم توجہ کی وجہ سے بھی غلط راہ پہ چل پڑھتی ہیں گھر میں ان کو پیار کی کمی دی جاتی ہے ان کے ساتھ رویے مار ڈھار والے رکھے جاتے ہیں اٹھارہ سال ہوگئے ہیں میں نے اس ٹیچنگ کرئیر میں قدم رکھا ہوا ہے یہاں میں لوگوں کے چہرے اک منٹ میں پیچان لیتا ہوں کہ بچی کی تربیت کیسی ہے بچی کا خاندان حسب و نسب کونسا ہے، اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے۔۔۔۔!
لیکن آپ کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔! بس بچوں پر دھیان رکھنا چاہیے۔۔!
وہ لمبی چوڑی بات کی تہمید باندھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔
سوری سر لیکن آپ کی بات سمجھ نہیں آئی ۔۔۔آپ کا یہ سب کہنے کا مطلب کیا ہے۔۔۔۔۔ کچھ باتیں مجھے کلیئر کریں گے ۔۔۔!
وہ ناسمجھی سے بولا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی..
یہ پڑھ لیں آپ کو خود سمجھ آجائے گی۔۔۔وہ دھیمی آواز میں کہتے صفحہ پکڑا گئے تھے ۔۔۔۔!
اس پیج پہ لکھی گئی تحریر پڑھی تو اسکا دماغ گھوم گیا۔۔۔نہایت گھٹیا تھڑڈ کلاس محبت کا اظہار لڑکی نے کیا ہوا تھا لیکن ٹیڑھے میڑھے زوایے ہینڈ رائیٹنگ کے زوایے والی رائٹنگ بالکل بھی اشنال کی معلوم نہیں ہو رہی تھے ۔۔۔!
یقنناً آپ نے پڑھ لیا ہوگ ۔۔۔! اب آپ خود سوچ لیں یہ کالج میں رکھنے کے لائق ہیں جب ہماری میم نے پوچھ گچھ کی تو اوپر سے انہوں نے بدتمیزی بھی کی ہے۔۔۔!
سر ناظم اس کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات نوٹ کرتے ہوئے بولے تھے۔۔۔!
آپ اشنال اور ان میم کو بلوا دیں گے پلیز۔۔۔۔! اشنال نے جن سے بدتمیزی کی ہے۔۔۔!
اوکے ۔۔۔اثبات میں سر ہلاتے باہر چلے گئے تھے ۔۔۔!اور پھر تھوڑی دیر بعد آئے تھے۔۔۔۔!
تھوڑی دیر گزری جب میم اور ان کے پیچھے اشنال اندر آئی تھی۔۔۔!
اشنال کی نظر جب روشنال پہ پڑی اس کی چہرے کی رنگت اڑی تھی اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔۔۔۔!
اشنال آگے آؤ۔۔۔۔میم نے سختی سے کہا تھا ان کی بات سن کر وہ سہمتی آگے آئ تھیں۔۔۔!
روشنال نے جب اسے ایسا دیکھا تو اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔۔
ایک پیج دیں ۔۔۔۔۔اس نے سر ناظم سے کہا تھا سر نے کاغذ روشنال کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔!
ادھر آؤ اس بیج یہ ہی تحریر لکھو۔۔۔۔۔اس نے اشنال کو پکارا تھا اور اپنی پاکٹ سے پنسل نکال کر اسے تھمائی تھی۔۔۔
ج۔۔۔۔جی۔۔۔۔وہ ٹیبل کے پاس آتی اس کے ہاتھ سے پنسل لے کر لکھ کہ اس کے ہاتھ میں پیج تھما کہ پیچھے ہٹ گئی تھی ۔۔۔
اب آپ بتائیں اس رائٹینگ اور اس رائیٹنگ میں کتنا فرق ہے۔۔۔۔وہ سر ناظم کے ہاتھ میں پییج پکڑاتے ہوئے بولے۔۔۔
آپ اپنے اٹھارہ سالہ کئرئیر میں لوگوں کے چہرہ پہیچانا تو سیکھ گئے۔۔۔۔! لیکن ایک رائنٹنگ نہیں پہچان پائے مجھے بہت افسوس ہوا سر۔۔۔
لیکن کہنا صرف یہ چاہوں گا۔۔۔حقیقت دیکھنے سے پہلے ضرور جان لیا کریں ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ۔۔۔۔
لہذا ایک رخ کو دیکھ کر الٹے سیدھے اندازے مت لگایا کریں سر ۔۔۔!
وہ ان کو شاک میں دیکھ کر بولا تھا ۔۔۔
آپ ان میم کو کسی پولیس کانسٹیبل میں جاب لگوا دیں۔۔۔وہاں یہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں جرائم میں اٹی خواتین کو مار کر ۔۔۔میری بیوی کو نہیں۔۔۔! اور آپ نے کہا تھا کہ یہ اس کالج میں پڑھنے کے لائق نہیں ہے ۔۔۔اتنی نااصافی دیکھ کر میرا یہ ماننا ہے کہ یہ ادارہ ہی میری بیوی کے لائق نہیں۔۔۔۔ آپ ڈس مس کریں نہ کریں میں اب خود ڈس مس کرواؤں گا۔۔۔۔میں چاہوں تو ایک سیکنڈ میں یہ کالج سیل کروا دوں ۔۔۔۔ لیکن نہیں ۔۔۔۔!
اشنال بیگ لے کہ آؤ۔۔۔۔! اس نے اب ا شنال کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔۔
وہ اٹل لہجے میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔جب کہ سر اور میم بولنے کے لائق رہے ہی نہیں تھے۔۔ وہ تو اسے ان کی بہن سمجھ رہے تھےلیکن شدت پسند شخص کو دیکھ وہ سہی معنوں میں گبھرائے تھے۔۔!
سوری۔۔۔۔سر آپ بیٹھیں۔۔۔۔ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں ساتھ میں اس بچی سے بھی ۔۔۔۔!
وہ اس کی شاندار شخصیت سے متاثر ہوتے گبھرا کر بولے۔۔۔!جو سیاہ لباس میں غضب کی شخصیت کا مالک لگ رہا تھا۔۔۔
آپ کا یہ ایک لفظ اس کی ساری رات کی ذہنی تکلیف کا ازالہ نہیں کرسکتی ۔۔۔۔آپ نے میری بیوی کو اتنا مینٹلی ٹارچر کیا ہے کہ وہ بے قصور ہوکر بھی ساری رات سو نہ پائی۔۔۔!
وہ اب کی بار سارے لحاظ بھول گیا تھا۔۔۔! اشنال باہر جانے لگی جب اس شخص کے لفظوں نے اسے نئی زندگی کی نوید سنائی تھی اس بار کچھ انمول آنسوؤں اس کے چہرے کو بھگوگئے تھے اس بار اسکی آنکھوں میں آنسو خوشی کے تھے ۔۔۔۔یہ آنسو اپنی اپنی ذات کے معتبر ہونے کے تھے اسے لگا تھا کہ بھاری سلِ کا بوجھ اس پر ہٹ گیا تھا۔
وہ شخص اس کو تپتی دھوپ میں ایک گھنا درخت لگا تھا جس کی چھاؤں سے اس کے سارے جسم میں راحت پہنچی تھی ۔۔۔ایک صفحے کی وجہ سے وہ اس کی ذات کو اندھیرے میں دھکیل گیا تھا اور ایک ہی صفحے کی وجہ سے اسی ہی ذات کو فرش سے عرش پہ بیٹھا گیا تھا۔۔۔وہ سوچتی رہ گئی تھی تو کیا وہ اسے ساری رات بے چین ہوتے دیکھتا رہا تھا کیا وہ اس کے پریشانی کو بھانپ گیا تھا۔۔۔!
میم ثنا معزرت کریں ان سے ۔۔۔۔آپ کی ایک غلط فہمی کی وجہ سے بچی ٹارچر رہی ہے۔۔۔آپ پہلے اچھی طرح سے تصدیق تو کرلیتں۔۔۔۔! تو شاید اتنا بڑا واو یلا نہ بنتا ۔۔۔یہ محترم اپنا قیمتی وقت نکال کہ یہاں آئے ہیں۔
پر سر وہ پیج تو اشنال کے بیگ سے ہی نکلا ہے ۔۔پھر میں کیوں معافی مانگوں۔۔۔میم ثنا سر ناظم اور روشنال کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں تھیں۔۔۔
میں جو کہہ رہا ہوں وہ کریں۔۔۔۔اب صفائیاں دینے کا کوئی مقصد۔۔۔آپ پھر بھی خود کو ڈیفینڈ کر رہی ہیں ۔۔۔۔!
پر ۔۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔!
آپ معافی مانگ رہی ہے یا پھر مجھے آپ کو کالج سے ڈس مس کرنا پڑے گا۔۔۔وہ اب کی بار سختی سے بولے تھے۔۔۔!
سوری سر۔۔۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔میں بہت بہت معزرت کرتی ہوں اگر آپ کہتے ہیں تو میں اشنال سے بھی سوری کرلیتی ۔۔۔۔۔مجھے یہ بات آفس میں کرنے سے پہلے سوچنی چاییے تھی۔۔۔انویسٹگشن کرنی چاہیے تھی ۔۔۔۔
میں پھر سے معزرت کرتی ہوں۔۔۔
میم ثنا سر ناظم کے سخت تاثرات سے ڈرتی معذرت کر گئیں تھیں ۔۔۔
اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے محترمہ۔۔۔۔میں عورتوں کی بہت عزت کرتا ہوں ۔۔۔۔! بس مجھے غصہ تھا۔۔۔۔ کیونکہ میری بیوی کا کردار گرا ہوا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔!
یہ یقیناً پہلی اور آخری بار ہے کہ میں اس گھٹیا الزام کی وجہ سے کالج آیا ہوں ۔۔آئندہ ذرا احتیاط کیجئے گا۔۔۔ !
اوکے ۔۔۔۔میم ثنا اب آپ جاسکتی ہیں ۔۔۔!سر ناظم نے کہا تھا۔۔
روشنال صاحب بیٹھیے۔۔۔۔! میم ثنا چلی گئی تھیں جب وہ اس کو کھڑا دیکھ کر بولے تھے ۔۔۔۔!
آپ آج بچی کو لے جائیں ۔۔۔۔۔ جب تک وہ خود کالج نہ آنا چاہیں بے شک انہیں فورس نہ کریں ۔۔۔۔! مجھے بھی لگتا ہے ان کو کچھ دن سکون سے رہنا چاہیے ۔۔۔!
وہ آرام سے کہتے اسے پرسکون کر چکے تھے۔۔۔۔۔!
اشنال بیگ لے کہ آئی تو اس شخص چبھتی نگاہیں دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔! اسے پتہ تھا وہ کیوں گھور رہا تھا وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اس کے اتنے فورس کرنے پر بھی نہ بتا پائی تھی۔۔۔۔! لیکن وہ اس کے ہونے والے شدید رئیکشن سے انجان تھی اس کے آنکھوں کہ تاثرات بتا رہے تھے کہ اس ستمگر کو اس پر بہت غصہ ہے۔۔۔۔!
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial