تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

اس کی آنکھ کھلی تو چند پل تو وہ منظر کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی رات کے سارے منظر اس کی نگاہوں میں گھومے تھے اس نے دیکھا تو وہ اس کے مضبوط ہاتھ اس کے بازوں کے گرد لپٹے تھے اس کی سانسوں کی آواز بخوبی وہ اپنی گردن پر محسوس کر سکتی تھی اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو اس کشادہ چہرے اس کے سامنے تھا وہ شخص غضب کی پرسنلیٹی کا مالک تھا لمبا چوڑا شاندار وجہیہ سراپا ۔۔۔۔نیم واہ آنکھیں ، ہلکے سے کھلے ہونٹ پیشانی پہ بکھرے بال ۔۔۔وہ اسے سویا شیر لگا تھا جس کی کچھار میں ہاتھ دینا موت کے مترداف تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اس کو اپنے قریب دیکھ کر جلدی سے کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی تھی کیونکہ وہ بالکل اس کے قریب تھا اشنال بخت کو اس کے دیے گئے ستم یاد آئے تو اس کی آنکھیں بھر آئیں تھی تو کیا وہ ساری رات اس شخص کے قریب رہی تھی جس نے اس کے جسمانی اور روحانی تکلیف دی اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھاوہ اٹھا تو اس کی عزتِ نفس کو مجروح کرے گا کہ تم میرے قریب کیوں آئی ہو ۔۔۔۔۔! یہ سوچیں اس کے دماغ کے ارگرد گھومنے لگی تھیں اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر انجان بن جاتا وہ نکل گئی تھی۔۔۔
نماز پڑھ کے ہمیشہ کی طرح اسکا ناشتہ بنایا اور خود کالج کےلیے تیار ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
آج میں تمھیں خود ڈراپ کروں گا ۔۔۔۔۔؟ وہ ناشتہ کر چکا تھا جب وہ اپنا بیگ لے کر باہر آئی تھی وائٹ کالج یونیفارم پہنے اور سیاہ بلیک شال سر پہ کیے ہاتھوں میں رجسڑ اٹھائے وہ جلدی میں تھی اس کے چہرے پہ بلا کہ معصومیت دیکھ کر اشنال بخت کے مضبوط دل انسیکیورٹی ہوئی تھی
نہیں شکریہ میں وین میں چلی جاؤں گی ۔۔۔۔۔وہ یہ کہتی صاف لفظوں میں انکار کرگئی تھی۔۔۔۔!
میں پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں….! پر مم۔۔۔میں
بس جب میں نے کہہ دیا ہے تو کہہ دیا ہے ۔۔۔۔؟ وہ اس کی بات کاٹتا صاف لفظوں میں اس کی حثیت جتا گیا تھا۔۔۔!
چلو۔۔۔۔۔؟وہ نپکین سے ہاتھ صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا اپنا بیگ ہاتھ میں لیا موبائل پاکٹ میں ڈالا۔۔۔
سکائی بلیو سوٹ ٹو پیس میں ۔۔۔۔برانٹڈ واچ کلائی پہ باندھے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ ۔۔۔۔وہ بہت ہی الگ اور ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔۔
لیکچر یہ ہی اٹنیڈ کرنے کا ارادہ ہے یہاں اس کےلیے کالج جانا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔؟اس نے دو تین قدم اٹھائے پیچھے سے کوئی آواز نہ سنتا پاکر پیچھے پلٹا اور بھاری آواز میں کہا وہ وہ اسی جگہ سر جھکائے کھڑی اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی اس کی طنزیہ آواز پہ جی بھر کے شرمندہ ہوئی تھی اور اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگ پڑی۔۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھا تو وہ بھی پیچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی آگے بیٹھو نہ میں تمھارے نوکر ہوں اور نہ تمھارا بوائے فرینڈ جو تمھارے برداشت کروں ۔۔۔۔
اس کی بات پہ اشنال کا منہ لال ہوگیا تھا اسے لفظ بوائے فرینڈ اپنی ذات پہ گالی لگا تھا۔۔۔۔
وہ بمشکل آنسووؤں ضبط کرتی آگے بیٹھی ۔۔۔۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی تھی۔۔۔۔
تھمیں کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو مجھے بتانا وہ پھر سے اس کا نرم لہجہ دیکھ کر حیران ہوئی تھی
جو کر تو ڈرائیونگ رہا تھا لیکن دھیان آگے ونڈو سکرین پر تھا۔۔۔۔
سکون ۔۔۔۔۔وہ بس اتنا ہی کہہ سکی تھی۔۔۔
سوری وہ میں کیا کوئی بھی نہیں دے سکتا بس وہ آپ کے نامہ اعمال دیتے ہیں وہ یہ بات کہ پھر تلخ ہوا۔۔۔۔
خیر چھوڑو ۔۔۔۔۔ایک دم سے اس کا مرجھاتا چہرہ دیکھ کر
وہ اپنی بات بدل گیا تھا۔۔۔
میرے دوست کے گھر رات کو ڈنر ہے میں جلدی آؤں گا تمھاری کچھ چیزیں میں لے آیا تھا وہ لاونج کے صوفے پر پڑی ہوئی ہیں میرے آنے سے پہلے تیار ہوجانا ۔۔۔۔۔۔! اس کے بات سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا وہ اسے کالج چھوڑتا خود آفس کی طرف گاڑی موڑی لی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے صوفے سے شاپر اٹھائے اندر لے آئی وہ اس کے
اور اپنے بیڈ پر چیزیں پھیلائی اور دیکھنے لگی ۔۔۔۔دو تین سوٹ اور ایک فراک اس میں سے نکلا تھا ساتھ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس کی مرضی کب چلنی تھی ۔۔۔۔
وہ بلیو کلر کا فراق پہن ہیلز پہنی اور صرف لپ سٹک لگائی اور پھر جانے وہ کتنی دیر اس کا ویٹ کرتی رہی لیکب وہ نہیں آیا وہ اس کا انتظار کرتے صوفے پر سوگئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنال عجلت میں گھر آیا وہ جلدی میں تھا پہلے گاڑی خراب ہوگئی ۔۔۔شوروم سے گاڑی ٹھیک کروانے کے بعد فرقان کے گھر لے جانے کےلیے بیکری گیا تھا اوپر سےفرقان کی کالز پہ کالز آ رہے تھے۔۔۔۔اور گھر آیا کئی نظر نہ آئی تھی صوفے پر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔
بلیو اور سنہری فراق میں گلابی مائل رنگت ، سحر کرتے ہوئے دلکش نقوش سے سجا چہرہ، لانبی پلکیں ، سلکی بال اور نازک سراپے میں وہ شہزادیوں کو مات دے رہی تھی اس کا ڈوپٹہ کاندھوں سے ڈھلک رہا تھا اس کے سلکی بال اس کے چہرے اور کندھوں میں بکھرے ہوئے تھے وہ اپنے آپ سے بے خبر سوئی تھی اپنے سے بارہ سال چھوٹی لڑکی ایک منٹ میں اس کو چاروں شانے چت کر گئی تھی ۔۔۔۔روشنال نے آج پہلی بار فرصت سے دیکھا تھا آج اسے پتہ چلا کہ نکاح کہ رشتے میں واقعی طاقت ہوتی ہے وہ اس لمحے کمزور ہوگیا تھا لیکن اپنی یہ کمزوری اس کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہتا تھا اوراپنے آپ کو سخت کیا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اندر گیا کہ وہ اٹھ جائے اور زور سے دروازہ بند کیا تھا اور اس تجربے سے وہ واقعی اٹھ بھی گئی اور ارگرد دیکھنے لگ پڑی تھی ۔۔۔
چلو میں آلریڈی لیٹ ہوں۔۔؟وہ ہر چیز کمرے کرتا ہوا اس تک آیا اور جلدی سے بولا تھا۔۔۔۔
اس کی بات سنتی وہ ساتھ رکھی شال اپنے اوپر کرکے خود کو کوور کیا تھا۔۔۔
بے وقوف تمبو تو ایسے کر رہی ہو جیسے مسجد جا رہی ہو وہ اس کو اپنے اوپر لمبی شال کرتا دیکھ کر چڑا اور ٹوک گیا تھا۔۔۔
پر ایسے ۔۔۔۔ممم۔۔۔۔۔میں کیسے وہاں آپکے۔۔۔۔۔؟
وہاں کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔! وہ اس کو ٹوکتا ہوا بولا تھا ۔۔۔
پر آپ کے دوست تو ہیں نہ۔۔۔۔اب کے لہجے میں لرزش نہیں اعتماد تھا۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔۔چلو۔۔۔۔! وہ اس کے بات سے متفق تھا وہ چاہتا بھی یہ ہی تھا اس کی شے ڈھکی چھپی رہے اور وہ حقیقت میں اپنی چیزوں کے بارے خطرناک حد تک پوزیسسو تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشنال ۔۔۔۔۔۔وہ چیخ مار کے اٹھی تھی ۔۔۔۔؟
کیا ہوا آپکو۔۔۔۔۔۔حسنال جو لیپ ٹاپ پہ گیم کھیل رہا تھا اسے پیسنے سے شربور سر سے ڈوپٹہ ندارد ۔۔۔۔۔روتا ہوا
حسنال اس کے پاس بیٹھا۔۔۔
وہ۔۔۔۔۔وہ اش۔۔۔۔۔اشن۔۔۔اشنال ہو۔۔۔ہوسپٹل ۔۔۔۔مممم۔۔میں ہے۔۔۔
کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔اس تسلی دینے کےلیے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا جب وہ شدت سے اس کے سینے سے آ لگی تھی اور سسکیوں سے رونے لگی جب کہ حسنال ایک دم ساکت ہوا اس سے منال سے اس چیز کی امید نہیں تھی وہ ایک دم سے اس کے دل میں نئے جذبات جگاگئی تھی وہ صرف گیم ، لیپ ٹاپ، موبائل اور نئے ہنڈا وغیرہ کےلیے جنونی تھا وہ محبت میں جنونی تو نہیں تھا لیکن وہ اسے شاید جنونی بنانے والی تھی و کر گئی تھی وہ بچہ تو نہیں تھا وہ تئیس سال کا پورا جوان مرد لگتا تھا وہ خود سوگئی لیکن اسے بے چین کر گئی تھی اب اس کی رات آنکھوں میں کٹنے والی تھی وہ ایک ہی لمحے میں اس کا کام تمام کرگئی تھیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا نام کیا ہے ۔۔۔۔۔؟ وہ کھانا کھا رہے تھے جب فرقان نے اس سے اسکا نام پوچھا تھا ۔۔۔۔۔؟
اشنال۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہلکی سے ہچکاتے ہوئے بولی۔۔۔
نام تو آپ سے بڑھ کر پیارا ہے اب کہ کنزہ بولی جس سے اشنال جھیپنپ گئی تھی۔۔۔
جبکہ کھانا کھاتے فرقان کو زور دار کھانسی آئی تھی ۔۔۔۔!
کیا۔۔۔۔یار توُ بڑا گُھنا ہے تو کہہ رہا تھا کہ بھابھی تجھ سے بارہ سال چھوٹی ہیں تو بھابھی کو بچہ بچہ کہہ رہا تھا یاد ہے تیری منگنی والے دن ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کیا تو نے تو بھابی کی بہن سے منگنی کی تھی ۔۔۔۔ جبھی میں سوچ رہا تھا کہ بھابھی اتنی چینج کیسے ہوگئی ہے میں نے منگنی پہ دیکھا تھا اس وقت یہ چھوٹی سی تھیں ۔۔
ویسے بھابھی کا نام توُ نے رکھا ہے نہ ۔۔۔۔۔؟ فرقان نان سٹاپ بول رہا تھا اور اب کی بار معنی خیزی سے پوچھا تھا لیکن روشنال کے لہجے کے پتھریلے تاثرات دیکھ کر منہ بند کر گیا تھا ۔۔۔
آغا جان نے شادی کروائی تھی وہ اپنے لہجے کو بہت حد تک کنڑول پاتا مضبوط اور سنجیدہ لہجے میں بولا ورنہ اس کا دل کر رہا تھا کہ ہر چیز کو تہس نہس کر دے ۔۔۔۔۔
جس دل سے اس نے بات کو سنبھالا تھا یہ وہ جانتا یا اس کا خدا۔۔۔۔۔کھانا کھاتے اس کے حلق میں نوالا اٹکا تھا اشنال نے بمشکل نظریں اٹھا کر دیکھا جس کا ضبط کرنے کے چکر میں لال ہوا تھا وہ بھی اسی کو دیکھ رہا تھا اس کی کاٹ نظروں سے وہ اندر تک سہم گئی تھی ۔۔۔۔اس کے بعد پھر تقربیاً ہنسی مزاح چلتا رہا تھا ۔۔۔
فرقان اور روشنال لاونج میں بیٹھ کہ باتیں کر رہے تھے اور ساتھ چائے پی رہے تھے جبکہ فرقان کی بیوی کنزہ اسے اپنے ساتھ کچن میں لے گئی تھی۔
مجھے لگتا ہے روشنال بھائی آپ کی بہت کیئر کرتے ہیں تبھی تو آپ پریوں کی طرح لگتی ہیں وہ اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر بولی تھی۔۔
آپکی ایج کیا ہے۔۔۔۔۔۔ !
انیس سال کی اس منتھ ہو جاؤں گی وہ نگاہیں کر سادگی سے بولی تھی ۔۔۔
واٹ ۔۔۔۔۔انیس سال اتنی کم ایج ۔۔۔۔۔کوئی مسئلہ تھا جو آپکی شادی ۔۔۔۔۔؟ وہ آدھی بات کرتی ادھوری چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔
بھابی روشنال بلا رہا ہے ۔۔۔وہ کسی بات کا جواب دیتی ہی کہ جب فرقان اسے اطلاع دینے آگیا تھا۔۔۔
وہ باہر نکلی تو روشنال پہلے فرقان ملا۔۔۔۔۔اور فرقان نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کے پانچ ہزار کا نوٹ تھمایا ۔۔۔۔
ن۔۔۔نہیں بھائی وہ اپنے ہاتھوں کو بھنیچ گئی گویا صاف کر گئی تھی ۔۔۔
بھائی بھی کہہ رہی ہیں اور پرایا بھی کر رہی ہیں اس کے شکوے سے وہ نا چاہتے ہوئے ہاتھ آگے کر گئی تھی اس کہ ایموشنل ڈائلاگز سے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پیسے پکڑ گئی تھی ۔۔
کنزہ نے بغور اسے دیکھا جس کے گلابی ہاتھوں کی لرزش ہو رہی تھی پھر وہ ان سے اجازت لیتے باہر نکل آئے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھو ۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ درشت لہجے میں ڈھاڑا ۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھی تو روشنال نے زور سے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور خود بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔۔۔اشنال درود شریف کا ورد کرتی رہی ۔۔۔۔کیونکہ گاڑی کی خطرناک حد فل تھی خوف سے اس کا رنگ پیلا پڑگیا تھا۔۔۔
پل۔۔۔پل۔۔۔پلیز آہستہ چلائیں وہ گھگیائی آواز میں بولی تھی ۔۔۔۔
تم چپ بیٹھو آج گھر جا کر حساب کلئیر کرتا ہوں۔۔۔
گھر پہنچیں گے یا میں بچوں گی تو حساب کتاب بچیں گے۔۔۔۔۔۔اس نے دل میں سوچا تھا۔۔۔۔
روشنال ۔۔۔موڑ کاٹتے ہی گاڑی کے سامنے ٹرک آیا تھا اس کے بال سارے آگئے وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخی تھی ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial