تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 9

وہ اٹھا تو نو بج رہے تھے صبح پانچ نماز ادا کرنے کے بعد سویا وہ سویا تھا وہ گھر پر ہی تھا میٹنگ شام کو تھی وہ ساری رات کام کرتا کیونکہ اس کی فارن کمپنی کے ساتھ ایک بہت ہی امپورٹنٹ میٹنگ تھی اس لیے ساری رات وہ پریزٹیشن بناتا رہا تھا اس نے فائل آگے ایک آرگنائزیشن کو دینی تھی ساری رات اس پریزٹیشن کےلیے بدسکون رہا تھا اب جا کہ اس کو سکون حاصل ہوا تھاالماری میں سے سوٹ نکالنے لگا تو ٹھٹک گیا کیونکہ اس کے سارے کپڑے پریس ہوئے ترتیب سے لگے ہوئے تھے اس نے الماری ہی آج کھولی تھی کیونکہ اس سے پہلے کبھی زحمت ہی نہیں ہوئی تھی وہ خود بیڈ پہ رکھ جاتی تو وہ تیار ہوجاتا وہ پہلے فریش ہوا پھر ناشتے کےلیے کچن میں چلایا آیا اشنال کالج گئی ہوئی تھی اس رات کی تلخ کلامی کے بعد اس کی بات نہیں ہوئی تھی اس رات کے بعد وہ اس سے بالکل بات نہیں کرتی تھی اس کے بعد وہ اسے بہت حد تک بدلی لگی تھی۔۔۔صاف ستھرا کچن تھا ہر شے ترتیب سے سجی ہوئی تھی اس نے ہاٹ پاٹ اوپن کیا تو اس میں کباب کے ساتھ انڈے اور دو پراٹھے پڑے ہوئے تھے ہوا تھا چائے تھرمس میں پڑی ہوئی تھی وہ ناشتہ دیکھ کر اس کی سلیقہ مندی کا قائل ہو گیا تھا کیونکہ سارا گھر بھی چمک رہا تھا اس کے کمرہ بھی صاف تھا جو وہ اس کے سوتے ہوئے پونچھا لگا کر گئی تھی اس کے سارے کا خود کرتی تھی اس کی اتنے ستم کے باوجود ، اس کی نفرت کے باوجو بھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوئی تھی اس کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرنا ، اس کےلیے بریک فاسٹ رکھ جاتی ، دن کا کھانا وہ آفس میں آرڈر کرلیتا تھا رات کا بھی وہ خود بناتی تھی ایک دو بار وہ ہوٹل صرف سے کھانا لایا تھا اس کے بعد اس کے کپڑے دھونا،استری کرنا جوتے تک وہ پالش کرتی تھی ہر کام بھی وہ وقت پر کرتی تھی وہ ناشتہ لے کر لاونج میں چلا آیا تھا لاونج بھی صاف ستھرا تھا وہ ناشتہ کرنے لگا پراٹھے انڈا اور چائے اسے بہت ہی لذیز لگ رہے تھے وہ ساتھ ناشتہ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کی دماغ کی گرہیں تانے بانے گن رہی تھیں کیونکہ اس کو آج اس کی ذمہ داریں کا احساس ہوا تھا اس کو آج احساس ہوا تھا کہ اس ننھی سی جان پر اس کی عمر سے بڑھ کر ذمہ داریاں تھی اسے آج پتہ چلا تھا کہ اس میں بیوی بننے کی وہ تمام خوبیاں اتم بدرجہ موجود تھی جو وہ اپنے سفر میں دیکھنا چاہتا تھا آج اسے منال اشنال کے سامنے کچھ بھی نہ لگی تھی اسے صبح کی پڑی ہوئی ایک آیات کا تر جمعہ آگئی تھی
ترجمعہ :
؎ ہوسکتا ہے جو چیز تمھیں پسند آ رہی ہو وہ تمھارے حق میں بری ہو اور جو چیز تمھیں ناپسند ہو وہ تمھارے حق میں بہتر ہو اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے ۔۔۔۔
سورةالبقرہ
سچ میں اسے اللہ کا فیصلہ تو بہترین لگا وہ کتنی اسے سوچتا رہا اللہ نے تو شوہر کے بھی حقوق بیوی پر واضح کیے تھے لیکن محبت ہونے کے باوجود بھی ناجائز لاڈ نہیں دینا چاہتا وہ سمجھتا کہ وہ اس کے پیار اور محبت سے پہلے بگڑی تھا لیکن اس نے سوچا شادی کہ بعد اس نے اس کا شوہر ہونے کا ایک حقوق بھی پورا نہیں کیا اس سے صرف ضرورت کی چیزیں فراہم کیے تھے لیکن اس نے یہ نہ سوچا تھا کہ اس نے اسے جائز لاڈ بھی نہیں دیے تھے وہ اس کی ہر چیز کا خیال رکھتی تھی لیکن اس نے ایک دن نہیں دیکھا کہ اشنال نے کھانا کھایا یا اس کی طبعیت تو نہیں خراب تو نہیں وہ تو اپنی انا اور نفرت کے زم میں تھا وہ اسے یہاں لاکر بالکل لاوارث کر گیا تھا آج اس نے اس بارے میں سوچا تھا اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کی غلطی بھی تو معاف کرسکتا ہے نا وہ تو خدا ہی بن گیا تھا لیک وہ رب بھی تو ہر خطا پہ معاف کر دیتا ہے اسی سوچوں کے بھنور سونے کےلیے اٹھ کھڑا ہوا تھا کیونکہ دو گھنٹوں بعد اس نے مٹینگ پر بھی نکلنا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اس وقت کہاں سے آ رہے ہو ۔۔۔۔۔؟ منال کمر پہ بازوں ٹکائے دورازے کھڑی اس کی تشویش لے رہی کہ وہ اندر نہ آ پائے جو دس بجے گھر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
قسم سے آج آپ مجھے پوری کی پوری لیڈی ڈیانا لگ رہی ہیں ۔۔۔۔!
وہ اس کے انداز کو دیکھتا ہوا جس کے سر پر ڈوپٹہ نہیں
وہ صرف انویسٹیگشن کرنا چاہ رہی تھی وہ یہ بول کے ٹھہر کے کھسک جانا چاہتا تھا ۔۔۔
نہ نہ آج میں لیڈی ڈیانا لگوں یا کرینہ ۔۔۔۔آج تمھیں مجھے بتا کہ ہی جاؤں گے کہ کدھر تھے تم میں صرف بیوقوف لگتی ہوں یقین مانوں ہوں نہیں ۔۔۔۔!وہ ایک ابروؤ اچکاتے ہوئے تھی ۔۔۔۔
قسم سے آپ مجھے بے وقوف لگیں نہ لگیں ہاٹ ضرور لگ رہی ہیں۔۔۔۔
اس کی بات سے منال ایک دم سے گڑ گڑا گئی تھی اور اس کی گرفت دراوزے سے ڈھیلی پڑی ایک دم سے اپنی قمیض کو ٹھیک جو کہ پہلے ہی ٹھیک تھی وہ ڈوپٹہ پہ نگاہ پہ ڈوڑاتے ہوئے جو کہ بیڈ پہ تھا ۔۔۔
اس کو ایسے کنفیوز ہوتا دیکھ کر اس کا بازوؤں ہٹاتا تیزی سے اندر آیا اور بیڈ پر پڑے اس کے ڈوپٹے پر لیٹ گیا تھا۔۔۔۔
تم نہایت ہی چیپ انسان ہو۔۔۔وہ درازہ بند کرتی غصے سے اس کی طرف چیختی ہوئی اس کے پاس آئی تھی ۔۔
تھینک کیو۔۔۔۔تھنک کیو ۔۔۔۔شکر ہے کسی کو تو میرے حسن کا اندازہ ہوا نا کہ میں واقعی حسین انسان ہوں۔۔۔
ساتھ میں تم بہرے بھی ہو گئے۔۔۔۔
وہ اس کے سامنے کھڑی ہاتھ نچاتے ہوئے بولی تھی
نہیں نہیں سمارٹ تو میں پہلے ہی تھا ۔۔۔۔۔!
غصے سے اس کو لال پیلا ہوتا دیکھ کر حسنال اس کو دیکھنا لگا غصے سے اسے لال پیلا ہوتا دیکھ کر اس کو بازوؤں سے پکڑا اپنے اوپر گرا گیا تھا۔۔۔
منال کو تب سمجھ آئی جب وہ اس کے اوپر گری تھی ۔۔۔
چھوڑو مجھے چیپ انسان ۔۔۔۔!
وہ اس کی اوپر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی جس نے اس کی کمر پر مضبوطی سے ہاتھ جمایا ہوا تھا۔۔۔۔
ایسے نہیں پنکی ہارٹ ایسے تو نہیں چھوڑوں گا کچھ معائدات طے کرنے ہوں گے ، کچھ ان کہی باتیں ہوں گی کچھ محبت کرنی ہے ایسے چھوڑ دوں اتنا شریف ہوتا تو پکڑتا ہی نہیں وہ اس کی گلابی رنگت کو دیکھتا ہوا بولا جس کے گال شرم سے شاید لال لگ رہے تھے ۔۔۔
چ۔۔۔چھوڑو بے شرم انسان تمھیں شرم نہیں آرہی ایک لڑکی کے سامنے ایسی بے ہودہ باتیں کرتے ہوئے۔۔۔۔ اس کا معنی خیز اور بدلتے رویے سے اس کے دل میں خوف پیدا ہوا تھا وہ اس کے بدلتے رویے چاہ کر بھی اپنے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پر قابو نہ پاسکی تھی۔۔۔
نہ نہ۔۔۔۔۔بیوی سے کیسی شرم۔۔۔۔اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں برقع پہن کر رومینس کرلوں تو قسم سے میں کل پہن لوں گا لیکن آج نہیں۔۔۔۔۔!
آج تو بڑی مشکل سے ہاتھ لگی ہیں اس لیے آج نہیں وہ اس کو بیڈ پہ گراتے خود اس کے اوپر جھکتا ہوا بولا ۔۔۔
چھ۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔نہیں تو میں چیخ کر سب کو اکٹھا کرلوں گی اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرتے اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
چلیں چیخیں میں آپ کے ساتھ مل کر چیختا ہوں چلیں شروع ہو جائیں ۔۔۔۔
حسنال پلیز چھوڑ دو۔۔۔۔اس کی ان باتوں سے بے بس ہوئی تھی وہ ایسا کربھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔
پہلے آپ کو میری دو باتیں ماننی ہوں گی اس کے بعد آپ کو چھوڑ دوں گا وہ اس کی کلائیوں کو کمر کے پیچھے لگاتا ہوئے بولا جن کو وہ چھڑانے کی کوششش میں بولی تھی۔۔
میرے بازووں میں درد ہو رہا ہے جلدی بتاؤ۔۔۔وہ جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے سب سے پہلے آپ نے مجھے آپ کہنا ہے کیونکہ میں شوہر ہوں تو آپ پر فرض بنتا ہے میری عزت کریں ۔۔۔
جیسے میں آپکی کرتا ہوں ۔۔وہ اس کو مکمل بےبس اپنی شرافت کے قصے پڑھ رہا تھا۔۔۔
شکل دیکھی ہے اپنی ۔۔۔۔۔منال کے منہ سے جلدی سے نکل گیا تھا۔۔۔
چلیں پھر ٹھیک ہے آپ ادھر ہی ساری رات رہیں مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔وہ اس کے کندھے پہ سر رکھتا آنکھیں بند کر گیا تھا۔۔
حسنال اب آپ اٹھ جائیں ۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل اسے عزت دیتے ہوئے بولی کہ وہ اٹھ جائے ۔۔۔
یہ اب آپ نے آج ہی نہیں کہنا بلکہ مجھے روز اس طرح عزت دینی ہے اس کے آپ کہنے پر وہ اٹھ بھی گیا تھا۔۔
چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں میرا مطلب ہے حسنال جلدی کریں مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔۔
پہلے میری دوسری شرط پوری کریں پھر چھوڑ دوں گا پکا پرامس۔۔۔۔
بتا بھی دیں اب۔۔۔۔۔؟ وہ مصنوعی عزت دیتے تھک چکی تھی اس لیے دانت پیس کر بولی تھی۔۔۔
تو میری دوسری خواہش یہ ہے کہ ادھر کس کر دیں ۔۔۔۔
وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔ یہ تو میں ہرگز نہیں کروں گی تم عزت دینے کے لائق ہی نہیں ہو ۔۔۔۔اس کی دوسری شرط پہ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی تھی ۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہیں پھر ادھر ہی رہیں ۔۔۔۔۔! وہ یہ کہتا دوبارہ سے اس کے کندھے پر سر رکھ گیا تھا۔۔۔۔
وہ آدھا گھنٹا دیکھتی رہی کہ وہ اٹھ جائے گا لیکن وہ تھا کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا وہ اٹھی اور اس کے چہرے پر جھکی کہ یہ کرنے کے بعد ایٹ لیسٹ وہ چھوڑ تو دے گا ۔۔۔
اکیلے تنہا نوجوان حسین لڑکے کو دیکھ کر ایک لڑکی رات کے اس پہر اس پر لائنیں مار رہی ہے اپنے چہرے پر لمس محسوس کرتا پٹ سے آنکھیں کھول گیا تھا اور اٹھو چیپ انسان اب میرے اوپر سے ۔۔۔! وہ چیخی تھی
چھوڑ رہا ہوں یار کیا کرتی ہیں اتنی چیخ کیوں رہیں اس کو آزاد کیا جو اب بھاگی کہ صوفے پر لیٹی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد رات دس بجے گھر پہنچاتھا وہ کچن کے باہر سے گزرا جب اسے ڈائننگ ٹیبل سر رکھے سوئے ہوئے پایا جو اپنے پاس بک اور کوئی نوٹس سامنے رکھے ہاتھ میں پین اٹھائے شاید کچھ لکھتی لکھتی سوگئی تھی اس کو سوتے دیکھ کر وہ کچن میں ہی چلا آیا تھا اور اسے پانچ منٹ دیکھتارہا۔۔۔
یہ شاید اس کی نظر ہی کا اثر تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی تھی وہ چاند پل تو آنکھیں کھولے دیکھتی رہی اور پھر جیسے سپرنگ کی طرح اچھلتی ہوئی کھڑی ہوئی ۔۔
اگر آپ کا سونے کا شوق پورا ہوگیا تو مجھے روم میں کھانا دے دیں روشنال نے طنز مار کر کہا تھا۔۔۔
وہ اسے حیران چھوڑتا روم میں چلا آیا صوفے پر بیٹھتا ٹی وی آن کرلی تھی اپنی سوکس اتار کے شوز پر رکھیں
اور ٹی وی پر نظریں جمالی تھیں جب کچھ دیر بعد وہ آئی وہ کھانا اٹھائے اندر آئی صوفے پر اس کے سامنے رکھا اور دو بارہ پانی لے کر آئی تھی۔۔۔
کھانا دیکھتے ٹی وی بند کی اور اٹھا پہلے ہاتھ منہ دھوئے پھر آکے خاموشی سے کھانا کھانے لگا کھانا کھا کر فارغ ہوا تھا برتن کچن میں رکھنے چلا آیا تو دیکھا وہ آگے ہمیشہ کی طرح کچن کی سلیب کے پاس کھڑے اس کےلیے چائے بنا رہی تھی وہ جب کچن میں آیا تو اس نے پلٹ کے بغور دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف میں ہوگئی روشنال نے اس کے لب ہلتے ہوئے دیکھے جو کتاب ہاتھ میں اٹھائے شاید کچھ پڑھنے میں مصروف تھی وہ اس کو سر ہلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا وہ جانتا کہ وہ رٹے مار سٹوڈنٹ تھی وہ اسے پاس بیٹھ کر پڑھاتا جب تک نہیں سمجھاتا تب تک اس کو سمجھ نہیں آتی تھی اس سے ایسے پڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔
دو کپ چائے لے کر آؤ اور یہ بک ادھر ہی لے کر آؤ۔۔۔۔اس کی اونچی آواز سنتی وہ بالکل سن سی کھڑی ہوگئی تھی جبکہ وہ اسے بالکل ساکت کھڑے دیکھ کر پلٹ گیا تھا۔۔
وہ کچھ دیر کھڑکی کھول کر شہر کی رنگینوں کو دیکھتا رہا پھر گہری سانس لے کر کھڑکی بند کرکے اپنی شال درست کرتا صوفے پر لیٹ گیا کیونکہ ایک تو سردی بھی تھی اور دوسرا چائے کی طلب ہورہی تھی ۔۔۔۔ چائے لے کر بھی آجاؤ ۔۔۔۔اس کو نہ آتا دیکھ کر اس نے آواز لگائی تھی وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیوں نہیں آرہی تھی ایک منٹ کے اندر اسے آتا دیکھا لیکن اٹھا نہیں وہ ایسے ہی صوفے پر لیٹا رہا ۔۔۔
بک اور ایک رجسٹر لے کہ آؤ جلدی ود ان ٹو منٹ ۔۔۔۔۔؟ اس نے ٹیبل پر چائے رکھتی ہوئی اشنال سے کہا تھا سر پر نفاست سے ڈوپٹہ کیے جیسے وہ اس کے اگلے حکم کی منتظر تھی ۔۔
جی۔۔۔اور وہ ایک منٹ کے اندر بک لے آئی تھی۔۔۔
ادھر بیٹھو۔۔۔۔۔۔؟
اس پر گہری نگاہ ڈالتے ہوئے وہ اپنے پاس صوفے پر اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا
ججج۔۔۔۔۔جی وہ اس کے بدلتی آنکھوں اور اس کی نگاہوں کی تپش سے مزید پزل ہوگئی وہ وہی کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
کیا کھڑے کھڑے فوت ہونے کا ارادہ ہے اس کو ایسے ہی کھڑا دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔۔اس کی تھوڑی آواز پر وہ ڈری پر ہلی پھر بھی نہیں تھی ۔۔
بیٹھو۔۔۔۔۔ اس کو اپنے پاس نہ آتے دیکھ کر وہ غصہ ہو کر اٹھ بیٹھا تھا اور اپنا فولادی ہاتھ بڑھا کر اپنے پاس بیٹھا لیا تھا جو بے توازن سی ہوکر اس کی گود میں آ گری تھی ۔۔۔
جبکہ روشنال کی اس حرکت سے اس کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے رہ گیا تھا اس کا تو چہرہ گویا خون چھلکانے والا ہو گیا تھا۔
اشنال نے اٹھ کر اس سے فاصلہ کرنا چاہا تھا لیکن روشنال نے کمر سے پکڑ کر اسے نزدیک کر لیا تھا وہ تو اس کی ان مہربانیوں کی عادی نہ تھی وہ تو شادی کے بعد اس روشنال کو جانتی تھی جو صرف دکھ دینا جانتا ہے۔۔۔
میں نے کہا تھا ادھر سے اٹھنے کے لیے ۔۔۔روشنال کو جیسے اس کی دور ہونے والی حرکت پسند نہیں آئی تھی روشنال نے اس کی کمر پہ اپنی پکڑ مضبوط کی تھی اور اشنال کو تو گویا لگا جیسے اس کی کمر ٹوٹنے والی ہے ۔۔
چھ۔۔۔چھوڑیں مجھے پلیز۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بے بسی سے کہہ رہی تھی اس کی پرتپش سانسوں سے جیسے وہ مرنے والی ہوگئی تھی روشنال نے بغور اسے دیکھا جس جو سادگی میں بھی کمال حسن رکھتی تھی اس کی ہرنی جیسی خوف سے پھیلی چہرہ اس کی قربت پر ریڈ انار بنا ہوا تھا ۔۔۔
چلو چھوڑو ٹاپک بتاؤ ۔۔۔۔۔! اس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں پانی دیکھتے اس کو اپنی گود سے اتارتا ساتھ بٹھا گیا پر بھی اس کی کمر پر ہاتھ ویسے کا ویسے کاتھا۔۔
ٹاپک فنانس کے ریلٹ سارا تھا ۔۔۔۔پھر وہ اسے کرواتا رہا سمجھاتا رہا کچھ پریکٹکل کروایا تھا اور کچھ ویسے ہی فارمولاز وغیرہ بولے تھے ۔۔۔۔وہ واقعی مشکل ٹاپک تھا۔۔۔
سمجھ آیا۔۔۔۔اس کو سارا سمجھا کر جب نگاہیں پھیر کر اسے پوچھا جو اس کی قربت پہ لال ٹماٹر بنی ہوئی تھی جج۔۔۔جی ۔۔۔۔وہ صرف اثبات میں سر ہلا سکی حالانکہ اس کے سر کے اوپر سے سارا کچھ گزر گیا تھا اس کی پرفیوم کی مہک اس کے حواسوں پہ چھانے لگی تھی ۔۔
اب ۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے چھوڑ دیں پلیز میرے سر میں درد ہو رہا ہے اور مجھے نیند بھی آ رہی ہے ۔۔۔۔۔اس کے ہیوی پرفیوم سے واقعی اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا ۔۔۔
روشنال نے جب اس کی آنکھوں میں پانی دیکھا تو اس کی کمر پر گرفت ہلکی کرکے اسے اپنے ساتھ لگاکہ اس کی آنکھوں سے آتا پانی اپنے ہاتھوں صاف کیا اور بک سائیڈ پر رکھتا بک کی جگہ اس کا سر اپنی گود میں رکھا تھا اور نرمی سے دبانے لگا اس کی انگلیوں پہ لمس وہ نیند میں جا رہی تھی۔۔۔
جب کہ اشنال کو جھٹکے پہ جھٹکے لگ رہے تھے وہ اس کے جھٹکوں سے سنھبال رہی تھی ۔۔
پلیز اللہ کا واسطہ ہے مجھے جانے دیں ۔۔۔۔اس کی اس رات والی علیحدگی والی باتیں سوچ کر وہ تڑپ کر اٹھی اور وحشت زدہ سی چلائی تھی۔۔۔
وہ اس کی قربت میں پہلے وحشت زدہ ہوئی اور اپنا ضبط کھو دیا کیونکہ اس کے دیے گئے زخم اور تکلیف اُسے بھولتے نہیں تھے ۔۔
ایک دم سے اسے خود سے دور ہٹتے اور اس کی غیر ہوتی حالت پہ وہ حیران تھا لیکن اس کی حالت کے مدِ نظر رکھتے وہ اس کو پھر سے اپنے قریب کرگیا تھا اور اس کا سر اپنی سینے سے لگالیا تھا۔۔۔
کہاں جانا ہے۔۔۔۔؟ اس کے سر کو تھپکتے ہوئے اس نے نرمی سے پوچھا تھا جو اس کے ساتھ لگی کانپ رہی تھی ۔۔۔
م۔۔مجھے اللہ کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔!وہ نیند میں جاتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔
کیوں جانا چاہتی ہو۔۔۔۔اس کی بات پہ اس کے مضبوط دل پر کھینچ پڑی تھی وہ بڑی مشکل سے بولا تھا۔
کیونکہ یہاں مجھے کوئی پیار نہیں کرتا سب نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے میں اس لیے اللہ کے پاس جانا چاہتی ہوں میرا اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے ۔۔۔۔ وہاں میرے مما بابا ہیں وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں یہاں میرا کوئی خیال نہیں رکھتا۔۔۔
چپ۔۔۔چپ ۔۔۔۔ ایسے باتیں نہیں کرتے ایشو میں ہوں نہ تمھارے پاس ۔۔میں تم سے محبت کروں گا میں تمھارا خیال رکھوں گا زیادہ پریشان نہ ہوا کرو۔۔۔۔۔
؎دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو
دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
چلو کچھ تو میرا خیال کرتے ہو
شہرِ دل میں اداسیاں کیسی ۔۔۔۔
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو
مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے ۔۔۔۔
تم بھی جینا محال کرتے ہو۔۔۔۔۔
اب کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم ہی بے مثال کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔
(مرزا غالب )
اسے بہلاتے ہوئے بول کے دیکھا تھا جو اب نیند کی وادیوں میں گم تھی۔۔۔
اس سے بازوؤں میں اٹھاتا اسے بیڈ پہ ڈالا اس کے اوپر کمفرٹ درست کرتے خود صوفے پر لیٹ گیا تھا ۔۔
سیگریٹ اٹھاکر پھونکھنے لگا تھا پھر وہ ایک گھنٹہ سگریٹ پھونکتا رہا اور ساتھ ساتھ اسے دیکھ کر سوچتا رہا کہ وہ اسے دور ہوکر کتنا پر سکون رہتی ہے وہ لڑکی ہو کر سہارے نہیں ڈھونڈھتی اور وہ مرد ہو کر بھی سہارے کی تلاش میں رہتا ہے ۔۔۔جیسے ٹیبل کپوں میں پڑی چائے پر تہہ جم گئی تھی ایسے ہی تین مہینے پہلے اس کی دماغ میں پھری تھی جس نے اس معصوم کی زندگی برباد کی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیکٹ ختم ہونے کے بعدآخری سیگریٹ ایش ٹرے میں مسل کر کمفرٹ اپنے اوپر لیتا نیند کی وادیوں میں چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے خالہ سے بدتمیزی کیوں کی ۔۔۔وہ ماں ہیں آپ کے اچھے کےلیے آپ کو ڈانٹتی ہیں نا۔۔۔۔۔!
وہ باہر سے آتا اس کے پاس بیٹھتا نرم سے لہجے میں بولا تھا ۔۔۔
وہ ہیں ہی اسی قابل ۔۔۔۔!وہ واضح اور منہ پھٹ انداز میں بولی تھی ۔
بس ایک لفظ نہیں آپ ماں کے خلاف ایسی باتیں کررہی ہیں تف ہے آپ پر۔۔۔۔!
تمھیں کیا مسئلہ ۔۔۔۔؟ وہ میری ماں ہیں میں جو کچھ بھی کہوں تم میرے معاملات میں دخل اندازی مت کیا کرو۔۔۔۔وہ اونچی ہوئی تھی ۔۔۔
لڑائی جھگڑا یا ناراضگی اپنی جگہ ۔۔۔۔لیکن میں
آپ کو کسی سے بدتمیزی کرتے دیکھ سکتا ۔۔۔
ابھی جائیں اور معافی مانگیں ایک منٹ کے اندر اندر اپلاؤجائیز کرکے آئیں وہ اس کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے بولا تھا کہ وہ اٹھ جائے۔۔
میں نہیں جارہی کسی سے بھی معافی مانگنے یہ خوش فہمیاں اپنے آپ تک محدود رکھو۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ اپنی کمر سے ہاتھ جھٹکتے ہوئے نہایت بدتمیزی سے بولی تھی۔۔۔
آپ جا رہیں ہیں کہ نہیں میں آخری بار پوچھ رہا ہوں ۔۔۔
اس نے چلینج کرتی نگاہوں سے پوچھا ۔۔۔
نہیں جارہی کہیں بھی نہیں جارہی ۔۔۔۔منال نے صاف لفظوں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
جارہی ہیں یا نہیں ۔۔ ۔ وہ اسکے اور قریب جھکتے فاصلہ مٹاتے ہوئے بولا اس کے جبڑے کو دبوچتے ضبط کی آخری انتہا پر کھڑے ہوتے پوچھا تھا۔۔۔
چ۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔۔منال کی سانسیں بند ہوئیں تھی
تم دونوں بھائیوں نے مجھے رکھیل سمجھا ہوا ہے ۔۔۔۔جب چاہا چھوڑ دیا جب چاہا حاصل کرلیا ۔۔۔پہلے ایک بھائی نے چارسال اپنے نام پر بیٹھا کر رکھا اور پھر ایک دم سے چھوڑ دیا۔۔۔اور اب دوسرا بھائی قربت کے بہانے تلاش کرتا ہے۔۔۔ بمشکل اس فولادی گرفت سے اپنا آپ چھڑایا اور اٹھ کر کھڑی پاگلوں کی طرح بولی تھی ۔۔۔۔
جسٹ شٹ اپ منال۔۔۔۔۔حسنال نے دو تھپڑ اتنے زور سے مارے کہ وہ بیڈ پہ گر پڑی تھی اس کی تھپڑوں کی شدت اس کا کام تمام کرگئی تھی اس کے بھاری ہاتھ کے زناٹے تھپڑ نے اس کے چہرے پر انگلیوں کے نشان چھوڑے تھے۔۔۔
کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی ۔۔۔۔وہ اس کے سر پر کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔جبکہ اس کے تھپڑوں سے بمشکل سیدھی ہوپائی اور منہ پہ ہاتھ حیرت سے اسے دیکھنے لگی تھی جو اسے پاس کھڑا اسے مارنے کے در پہ تھا ۔۔
آپ سے تم تک کا فاصلہ وہ نہایت آسانی سے طے کرگیا تھا۔۔۔۔
بتاؤ ۔۔۔۔؟اس کا ایک دفعہ پھر مارنے کےلیے اٹھا جب وہ آگے ہاتھ کرگئی تھی ساری بدتمیزی پل میں اڑن چھو آئی
اس کا غصہ اس کے چھکے چھڑا گیا تھا حسنال کو اس نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا تھا اس کوکبھی کبھی غصہ آتا تھا لیکن جب آتا تو ہر چیز بہا کہ لے جاتا تھا۔
وہ حیران اس لیے تھی کہ اپنے سے چار سال چھوٹے شوہر نے اس کے اوپر ہاتھ اٹھایا تھا وہ بھی جیسے وہ بچہ سمجھتی تھی ………..!

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial