جن زاد

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

پانچویں دن ہم مرینہ بیچ کے پاس ایک بنگلے میں شفٹ ہوچکے تھے..
بنگلے پر میرے نام کا بورڈ موجود تھا..
پروفیسر انیل اگروال..
اور نیچے اسٹروپامسٹ سے لے کر عملیات تک بہت سی چیزوں کی تفصیلات درج تھیں..
میرا حلیہ مکمل تبدیل ہوچکا تھا اور فرنچ داڑھی اور سنہرے فریم کی عینک کے ساتھ میرا روپ کافی متاثرکن تھا..
بنگلے کے ڈرائنگ روم کو ریسیپشن اور ویٹنگ روم بنایا گیا تھا اور اندر میرا کمرہ حقیقت میں کسی ماہر پروفیسر کا کمرہ ہی لگ رہا تھا..
وسیع و عریض کمرے میں بھاری ابنوسی میز ایک طرف کتابوں کی الماری, دیواروں پر پامسٹری اور دیگر بہت سی تصاویر..
مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ یہاں کون لوگ ائیں گے اور کیسے..
میں نے یہ سوال بھاتی سے بھی کیا تھا مگر اس کا حتمی جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا..
داوا نے اسے صرف اتنا بتایا تھا کہ مقامی اخبارات کے ذریعے اور کلبوں وغیرہ میں اپنے لوگوں کے ذریعے میری شہرت اور مہارت کے قصے پھیلائے جائیں گے..
دو تین تو سکون سے گزر گئے ہم نے زیادہ تر وقت گھومتے پھرتے گزارا..
چوتھے دن صبح میں سو کر اٹھا تو بھاتی نے بتایا کہ کسی رینا ملہوترہ کا فون ایا تھا اپوائنٹمنٹ کے لئے مگر وہ کچھ وجوہات کی بناء پر صرف رات کو ملنے پر بضد تھی اس لئے اسے اگلے دن رات اٹھ بجے کا وقت دے دیا ہے..
اگلے دن تک اور کوئی خاص واقعہ پیش نہیں ایا شام سات بجے میں تھری پیس سوٹ پہن کر تیار ہوکر اپنے کمرے میں اگیا تھا..
بھاتی نے قیمتی ساڑھی پہن رکھی تھی اور ریسیپشن سنبھالی ہوئی تھی..
میں نے وقت گزاری کے لئے کتابیں دیکھنا شروع کردیں..
یہ ساری کتابیں پراسرار علوم سے متعلق ہی تھیں جانے داوا نے اتنا بڑا ذخیرہ کہاں سے جمع کیا تھا..
وقت گزاری کے لئے میں نے ہپناٹزم سے متعلق کتاب اٹھا کر پڑھنی شروع کردی…
ہپناٹزم یونانی زبان کے لفظ ’’ہپناسس‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے نیند یا خمار…
انیسویں صدی میں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس لفظ کو موجودہ معنی میں رائج کیا تھا…
دورجدید میں ہپناٹزم کی شروعات آسٹریا کے ڈاکٹر فرانز انٹون میسمر نے انیسویں صدی کے اوائل میں کی تھی…
میسمر ایک ماہر روحانیات تھا اس کے مطابق ہر شخص میں ایک مقناطیسیت ہوتی ہے…
اسی مقناطیسی قوت کو وہ اپنے جسم کے مختلف حصوں سے خارج کر کے اپنے معمول کو متاثر کر سکتا ہے…
ہاتھ اور آنکھیں اس کام میں خاص طور پر معاون ہوتی ہیں…
ڈاکٹر میسمر کا یہ فلسفہ اور طریقہ کار اس وقت اتنا مقبول ہوا…
کہ اسے باقاعدہ ایک علم تسلیم کر کے اس کا نام میسمریزم رکھ دیا گیا جو آج بھی کہیں کہیں استعمال ہوتا ہے…
بعدازاں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس عمل کو سائنسی پیرائے میں پیش کیا.. ہپناسس ’’نیند‘‘ کی ایک ایسی قسم ہے جو کہ مختلف طریقوں سے طاری کی جا سکتی ہے…
شدت کے اعتبار سے یہ کیفیت نیند اور بیداری کے درمیان واقع ہوتی ہے…
یعنی ہپناٹزم کے زیراثر معمول کو نہ تو بیدار کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ پوری طرح نیند میں ہوتا ہے…
ماہرین کے مطابق لاشعور ذہن کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق یادداشت سے ہے۔ ہم جو دیکھتے سنتے ہیں وہ ہمارے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے…جب کہ شعور ہمہ وقت بیدار رہتا ہے…
نیند کے دوران شعور پُرسکون یا کافی حد تک بے عمل ہو جاتا ہے.. جبکہ لاشعور اس دوران اکثر بیدار ہو جاتا ہے…
عموماً لاشعور کی بیدار ی ہمیں خواب دکھاتی ہے…
جو باتیں ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں یا لاشعور میں محفوظ تھیں وہ شعور کے دبتے ہی ابھر آتی ہیں…
ہم کہ سکتے ہیں کہ شعور کے آرام کا نام ہی نیند ہے…
ہپناٹزم میں مختلف طریقوں سے معمول کے شعور کو سلا کر اس کے لاشعور کو بیدار کیا جاتا ہے…
ہپناٹزم کی بنیاد ایما یا ترغیب پر ہوتی ہے…
ہپناٹزم کا استعمال مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے کیا گیا اور آج بھی محدود پیمانے پر یہ سلسلہ جاری ہے…
اس طریقہ علاج کو ہپنوتھراپی کہتے ہیں…
اس میں معمول کو آرام دہ جگہ پر آرام دہ حالت میں رکھ کر عامل اس کے شعور کو غافل کرتا ہے…
اس کام کے لیے ترغیب کا استعمال ہوتا ہے…
معمول کو بار بار عامل یقین کے ساتھ کہتاہے کہ تمہیں نیند آ رہی ہے، تم سونے والے ہو، تمہاری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں، تم سو رہے ہو…
اسی طرح کے اور بھی طریقے ہیں، جن کے نتیجے میں معمول پُرسکون ہو جاتا ہے اور نیند کی کیفیت میں چلا جاتا ہے…اس کیفیت کو ٹرانس کہتے ہیں…
ایسے میں معمول کے شعور کا بڑا حصہ غفلت میں چلا جاتا ہے…
اس حالت میں جب اس کو کسی بات کی ترغیب دی جاتی ہے تو اس کا ذہن بلا کسی تردید یا مخالفت کے اسے مان لیتا ہے…
اس طرح یہ بات اس کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے اور بیداری کے بعد بھی وہ اس پر عمل کرتا ہے..
اسی وقت انٹرکام کی گھنٹی بجی..
میں نے رسیور اٹھایا تو بھاتی کی اواز سنائی دی..
سر مس رینا ملہوترہ اچکی ہیں اور منتظر ہیں..
ٹھیک ہے بھیج دو..
میں نے کتاب ایک طرف رکھ دی..
چند لمحوں بعد کمرے میں ایک اپسرا داخل ہوئی..
دراز قد, کھلی زلفیں, گندمی رنگت, جھیل سی انکھیں, گلابی ہونٹ, کشادہ پیشانی, سیاہ ساڑھی اور مختصر بلائوز, کانوں میں جگماتے موتیوں کے اویزے..
بلاشبہ وہ حسن کا شاہکار تھی..
میں کرسی پر ساکت بیٹھا اسے دیکھتا رہ گیا..
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial