قسط: 5
میں تھوڑی دیر پہلے تجھ پر رال ٹپکا رہا تھا تو تو میرا پیٹ پھاڑنے پر تلی ہوئی تھی..
اب کہ رہی ہےتجھ پر اگیا ہے…تیرا دماغ کا اسکرو واقعی ڈھیلا ہے..
ہاں تو شرم نہیں اتی تجھے پرائی عورتوں پر گندی نظر ڈالتے ہوئے..
ہر عورت کو تم لوٹ کا مال کیوں سمجھتے ہو اور صرف جسم سے مطلب کیوں رکھتے ہو..
تو تیرا مطلب ہے پرائی عورتوں کو میں بہن بنا کر ان سے راکھیاں بندھواتا پھروں..
ہاں ہونا تو ایسا ہی چاہئے..بھاتی مسکرائی..
دل انے کا مطلب یہ نہیں میرا کہ تجھے میں اپنے شریر سے کھیلنے دوں گی..
شریر کیا بھاتی کی ہر سانس تیری ہوگی اگر تو میرا مرد بننے پر راضی ہوجائے..بھاتی نے میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا..
اچھا..اور داوا کا کیا..میں نے پوچھا..
میں اسے منا لوں گی اسکی فکر ناں کر تو…بھاتی نے جواب دیا..
تو نرمل کو تونے اپنا مرد کیوں نہیں بنایا..
بتایا تو ہے کینچوا ہے وہ بس حکم کا غلام وہ تو مرد بھی نہیں ہے..بھاتی نے برا سا منہ بنایا..
یعنی تونے اس کی مردانگی بھی چیک کی ہے..واہ..
بکواس ناں کر..اسے باہر سے ہی دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کتنا مرد ہے وہ..اسے چھوڑ تو اپنی بات کر..
اپنی کیا بات کروں..
تو مجھے جانتی تک نہیں اج سے پہلے ملی نہیں اور تونے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرلیا پھر..میں نے سوال کیا..
میں تھک گئی ہوں..باقی زندگی سکون سےگزارنا چاہتی ہوں اپنے مرد کے سائےمیں سارے مسئلوں اور پریشانیوں سے دور..تو ساتھ دے گا میرا…بھاتی نے پرامید نظروں سے مجھے دیکھا..
دیکھ بھاتی..جو میں تجھے بتائوں گا تو اس پر یقین نہیں کرے گی..
تو بول میں کرلوں گی یقین.بھاتی نے میری بات کاٹی..
اچھا تو سن پھر…میری عمر کئی ہزار برس ہے اور میں انسان نہیں جن ہوں ایک بھشکو نے میری شکتیاں مجھ سے چھین کر بھکاری بنا دیا میں فٹ پاتھ پر پڑا..
ہاہاہاہاہا..میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بھاتی کھلکھلا کر ہنسنا شروع ہوگئی اور پیٹ پکڑ کر ہنستی چلی گئی..
مجھے لگ رہا ہے میرا نہیں تیرے دماغ کا اسکرو ڈھیلا ہے..
ابھی تک تو اچھی خاصی ہوش و حواس میں باتیں کر رہا تھا ایک دم سے سٹک گیا ہے اب تو..
میں نے پہلے ہی کہا تھا تو یقین نہیں کرے گی..
ارے..تو یہ کیا یقین کرنے والی بات ہے کہ تو جن ہے اور تیری عمر ہزاروں برس ہے اور داوا تجھے کان سے پکڑ کر یہاں لے ایا ہے پاگل بنانے کو تجھے میں ہی ملی ہوں کیا..
تونے نہیں دینا میرا ساتھ تو تیری مرضی یہ کوئی زور زبردستی کا سودا تھوڑی ہوتا ہے..مگر کم سے کم مجھے الو تو مت بنا..
نہیں بھاتی میں تجھے بیوقوف نہیں بنا رہا ہوں مجھے انکار کرنا ہوگا میں ڈائریکٹ کردوں گا اس کے لئے مجھے کسی جواز یا کہانی گھڑنے کی ضرورت نہیں ہے..
میری زندگی کا مقصد اس بھشکو کو ڈھونڈنا اور اپنی شکتیاں واپس لینا ہے..پر تو یقین نہیں کرے گی اس لئے چھوڑ دے اس بات کو..
پاگل ہے کیا تو..میں کیا کوئی بھی یقین نہیں کرے گا تیری پاگل پن کی باتوں پر..بھاتی نے برا سا منہ بنایا..
اچھا چھوڑ اس بات کو یہ بتا کہ داوا کو یہ ڈر نہیں ہوتا کہ جس مرد یا عورت کو یہاں چھوڑے گا بھاگ بھی سکتا ہے وہ..میں نے پوچھا..
کیوں بھاگے گا..داوا جسے بھی یہاں لاتا ہے کوئی ناں کوئی خواب دکھا کر لاتا ہے یہاں انے والا ہر شخص مرد ہو یا عورت اپنی مرضی سے اتے ہیں..بھاتی نے جواب دیا..
ابھی ہم بات کر رہے تھے کہ باہر گاڑی رکنے کی اواز ائی تو بھاتی چونک گئی..
یہ کیسے واپس اگیا اتنی جلدی..اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا..
کون..میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا..
داوا اور کون اسکتا ہے یہاں موٹرگاڑی میں..
اسی وقت داوا اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں کاغذ کا شاپر تھا جو اس نے اندر اکر بھاتی کی طرف بڑھا دیا اور ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گیا..
اس بار بہت جلدی اگیا رے تو..اور یہ شراب بھی اٹھا لایا ہے مطلب رات یہیں رکے گا تو..بھاتی نے داوا سے سوال کیا…
نہیں بس اسے سنبھال دے تو اور اکر ادھر بیٹھ ضروری بات کرنی ہے..
تیرا نام کیا ہے رے..داوا بھاتی کو ہدایت دے کر میری طرف متوجہ ہوا..
بدری ناتھ..میں نے اپنے دماغ میں انے والا پہلا نام دوہرا دیا..
بیٹھ ادھر اکر میرے پاس..
میں کرسی کھینچ کر داوا کے سامنے بیٹھ گیا..
زندگی بدلنا چاہتا ہے اپنی..داوا نے میری انکھوں میں دیکھ کر سوال کیا..
کون نہیں بدلنا چاہتا میں تو ویسے ہی فٹ پاتھ…
کم بولا کر..داوا نے میری بات کاٹ دی..
بھاتی بھی سامان رکھ کر واپس اچکی تھی اور کرسی لے کر ہمارے پاس اکر بیٹھ گئی تھی مگر اب وہ مململ کی قمیض کے نیچے جینز پہن چکی تھی..
میں سارے دو نمبر دھندے کرتا ہوں لڑکی, دارو, نشہ ہر کام…تو اتما پرماتما کو تو نہیں سوچتا ناں..
پاپی پیٹ سوچنے کدھر دیتا ہے یہ سب..میں نے اس بار مختصر جواب دیا..
ہاں اچھا ہے اپنے دھندے میں یہ سب سوچنے والوں کی جگہ نہیں ہے..
پچھلے دنوں ایک انکائونٹر میں میرا خاص ادمی مارا گیا ہے جس سے مجھے بہت نقصان ہورہا ہے..
تم بے فکر ہوجائو میں ہر طرح..
چپ بے سسرے..چے پدی اور چے پدی کا شوربہ..تو میرا دھندا سنبھالے گا..داوا نے میری بات کاٹ دی..
مجھے غصہ تو بہت ایا مگر میں برداشت کرگیا..
اگر داوا کو میری اصلیت پتہ چل جاتی تو اسکی دھوتی میں ہی پیشاب نکل جاتا..
مگر میں ابھی انسانی روپ میں تھا اور اپنی شکتیاں کھو چکا تھا تو مجھے انسان ہی طرح چلنا تھا..
بھاتی تو شہر میں رہ چکی اونچی نیچی ہر جگہ پر جاچکی..پر تجھے ابھی بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے..
کھٹمنڈو میں میتی دیوی ٹیمپل کے پاس میرا ایک ٹھکانہ ہے جو خالی ہے تم دونوں وہاں چلے جائو..
بھاتی اسے ادب اداب سکھا اچھی بری جگہوں پر اٹھنا بیٹھنا اور بڑے لوگوں کی طرح پیش انا سکھا..
مجھ سے کیا کام لینا چاہتے ہو تم..میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا..جواب میں داوا نے مجھے گھور کر دیکھا..
مطلب اگر پتہ ہو تو میں اس حساب سے محنت کروں ویسا بننے کی..میں نے وضاحت کی..
چپ کرجا تو..بولا ہے ناں کہ کم بولا کر میرے سامنے..
بھاتی تو جا سامان باندھ اپنا باہر ڈرائیور کھڑا ہے وہ تم لوگاں کو ادھر چھوڑ ائے گا میں یہیں رکوں گا..
اور یہ پکڑ..داوا نے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر بھاتی کی طرف بڑھائی خرچہ پانی رکھ اس کے کپڑوں جوتوں کا انتظام کر..
بھاتی نے نوٹوں کی گڈی لے کر ہاتھ میں تھام لی اور اٹھ کر اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی..
داوا خود کو کوئی بہت بڑا طرم خان بدمعاش سمجھتا تھا اور شاید ہو بھی اسی لئے اس کے لہجے اور باتوں میں اتنی رعونت تھی اور اپنے سامنے وہ کسی کو کچھ نہیں جانتا تھا..
فی الحال خاموش رہنا میری مجبوری تھی کہ میں ایک عام ادمی کے روپ میں تھا اور اپنی شکتیاں بھی کھو چکا تھا تو بہتر یہی تھا کہ جو ہورہا ہے اسے برداشت کیا جائے..
مگر میں نے سوچ لیا تھا جلد از جلد میں کالے جادو کی کوئی ناں کوئی شکتی حاصل کر لوں گا اس کا چلہ کاٹنے کے لئے مجھے سکون اور تنہائی کی ضرورت تھی جو امید تھی اس نئے ٹھکانے پر مل جاتی..
اس بھشکو نے مجھے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا تھا اور ایسے وقت میں وار کیا تھا جب میں سحر کے جسم میں تھا اور میری زیادہ تر شکتیاں بے اثر تھیں..
اس کے جسم سے باہر اتے ہیں بھشکو نے مجھے بے دست و پا کردیا تھا..
مجھے اس سے انتقام لینا تھا اور اپنی شکتیاں واپس حاصل کرنی تھیں یہی میری زندگی کا مقصد تھا اب..