جنون محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

غصے سے اسنے نے سائیڈ پر پڑا واس اٹھا کر زور سے زمین پر پھینکا تیز آواز کے ساتھ وہ قیمتی واس ٹکڑوں میں بٹ گیا
اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسنے گہرا سانس لیا
حورم ناراض تھی اور جب تک وہ ناراض رہتی تب تک ارتضیٰ نے کوئی کام ٹھیک سے نہیں کرپانا تھا
سارا سامان اٹھا کر اسنے ایک طرف رکھا اور گہرا سانس لے کر وہیں پر بیٹھ گیا
“میں کیسے اس پر ہاتھ اٹھا سکتا ہوں”
وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا جب اسکے کانوں میں حفضہ کی آواز پڑی
ارتضیٰ نظریں اٹھا کر اسنے سامنے کھڑی حفضہ کو دیکھا جو خفگی سے اسے دیکھ رہی تھی
“حورم پر ہاتھ اٹھایا ہے تم نے”
“ہاں”
“کس لیے ارتضیٰ پتہ ہے تمہیں کتنا رو رہی تھی ابھی اسنے یہ بات صرف مجھے بتائی ہے تم خود سوچو اگر حویلی کے کسی فرد کو یہ بات پتہ چل گئی تو مجھے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی”
“تو آپ اسے بھی سمجھائیں جب میں اسے ایک بات سے منع کرچکا ہوں تو پھر کیوں وہ وہی کام کرتی ہے”
اسکا لہجہ تیز ہوا
“کیا کردیا ہے اسنے”
حفضہ کے کہنے پر اسنے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں
“وہ مجھے چاچو کیوں بلاتی ہے”
“جو رشتہ ہے وہی بلائے گی نہ”
“میرا اس سے ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے مام بہتر ہے آپ اسے سمجھا دیں ورنہ اسکی اس حرکت پر میں دوبارہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے گریز نہیں کروں گا”
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے چلا گیا جس پر حفضہ بس گہرا سانس لے کر رہ گئی
ارتضیٰ ضدی تھا اور اسے ضدی بنانے والے اسکے ماں باپ ہی تھے لیکن آج تک اسنے ایسا رویہ کبھی نہیں اپنایا تھا جیسا وہ حورم کو دیکھ کر اپناتا تھا
حفضہ اسکے رویے کو سمجھ ہی نہیں پاتی اور جو چیز سمجھ میں آتی اسے وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی
ارتضیٰ اور حورم کا رشتہ الگ تھا ارتضیٰ حورم کے بارے میں کچھ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا
جو وہ سوچتی تھی
اسے یہ سب چیزیں اپنا وہم لگتی تھیں لیکن ارتضیٰ ہر بار کچھ ایسا کردیتا کہ وہ پھر اس معاملے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتی
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی
اسکی بیڈ شیٹ خراب ہورہی تھی جبکہ اسٹڈی ٹیبل پر رکھا سامان بھی بےترتیب تھا
یہ کام حورم ہی کرسکتی تھی جب بھی ارتضیٰ اس پر غصہ کرتا یا اسے ڈانٹتا تھا تو وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے جتنا ہوسکتا تھا اسکے کمرے کا حالیہ بگاڑ دیتی تھی
کیونکہ ارتضیٰ کو پھیلی چیزوں سے سخت چڑ تھی لیکن حورم ایک واحد ہستی تھی جس کی اس حرکت پر اسنے آج تک غصہ نہیں کیا تھا
°°°°°
اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ باہر لان میں آگیا جہاں پر بیٹھی وہ اپنے ٹیڈی کے ساتھ کھیل رہی تھی جبکہ قریب ہی مزید کھلونے بکھرے پڑے تھے
“حور”
اسکی آواز سن کر حورم نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا اور بھاگ کر اندر جانے لگی کیونکہ ارتضیٰ سے اسکا بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اسکے اندر جانے سے پہلے ہی ارتضیٰ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کھینچ چکا تھا
“سوری ناراض ہو نہ تم مجھ سے”
اسکی بات کا حورم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا جس پر وہ خود ہی مزید بات کرنے لگا
“ہونا بھی چاہیے میں نے غلطی کی ہے تم بھی مجھے تھپڑ مار سکتی ہو یہ اور بات ہے کہ تمہارے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے تھپڑ کھا کر مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا”
وہ اسکے چھوٹے گلابی ہاتھوں کو دیکھ کر بےساختہ ہنسا جس پر حورم مزید ناراضگی سے اسکی طرف دیکھنے لگی
“چھوڑیں میرا ہاتھ”
“میں تمہارے لیے کچھ چیزیں لایا تھا لیکن تم تو ناراض ہو”
اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑا بیگ سامنے رکھا اور اس میں سے ایک گڑیا نکالی
“یہ ڈول میں عائشہ کو دے دوں گا کیونکہ تم تو ناراض ہو”
اسنے گڑیا اسکے سامنے کی جس پر حورم غور سے اس گڑیا کو دیکھنے لگی
جب ارتضیٰ نے بیگ سے مزید چیزیں نکال کر اسکے سامنے رکھیں
“یہ چیزیں المیر اور ازمیر کو دے دوں گا کیونکہ تم تو ناراض ہو نہ مجھ سے”
“نہیں میں ناراض نہیں ہوں”
اسنے لالچائی نظروں سے چیزوں کی طرف دیکھا اور ان سب کو واپس بیگ میں بھر کر گڑیا سمیت اپنے قریب کرلیا
“سچ میں”
“ہاں”
اسکے کہنے پر ارتضیٰ نے مسکراتے ہوئے بیگ ہاتھ میں پکڑا اور ڈول اسے تھما کر اسے اپنی گود میں اٹھائے اندر کی طرف لے گیا
°°°°°
“حفضہ دادو ارتضیٰ کی اسپیلنگ کیا ہوتی ہے” حورم کی آواز سن کر حفضہ نے کتاب سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھا جو ہاتھ میں گلابی رنگ کا کارڈ پکڑے کھڑی تھی
“تم کیا کرو گی جان کر”
“ارتضیٰ نے بتایا کل انکی برتھ ڈے ہے تو میں انکے لیے کارڈ بنارہی ہوں لیکن مجھے ارتضی کی اسپیلنگ ٹھیک سے نہیں آتی”
“اچھا لاؤ میں لکھ دیتی ہوں”
حفضہ نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا جس پر وہ اپنا سر نفی میں ہلانے لگی
“نہیں میں نے ہیپی برتھ ڈے لکھ دیا ہے اگر آپ لکھیں گی تو رائیٹنگ چینج ہو جائے گی”
اسکے کہنے پر حفضہ نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے قریب بٹھایا اور اسے ارتضیٰ کے نام کی اسپیلنگ بتانے لگی
°°°°°
نام لکھوا کر وہ کارڈ کمرے میں لے کر آئی اور وہاں رکھا اپنا چھوٹا سا لال رنگ کا بیگ اٹھالیا جس میں اسکے کلرز اسٹیکرز اور اس طرح کی کئیں چیزیں موجود تھی آئرہ نے اسکا پورا بیگ تیار کرکے بھیجا تھا
اپنے بیگ میں سے دل اور باربی والے اسٹیکر نکال کر وہ کارڈ پر لگانے لگی لیکن پھر رک گئی
ارتضیٰ تو لڑکا تھا پھر اسے باربی والے اسٹیکرز کیوں اچھے لگتے اسکے لیے تو لڑکوں والے اسٹیکرز لگانے چاہئیں
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ جلدی سے باہر بھاگی جہاں تھوڑا ڈھونڈنے کے بعد المیر اور ازمیر اسے ڈرائیونگ روم میں کلر کرتے مل گئے
“المیر تمہارے بین ٹین والے اسٹیکرز چاہئیں”
“کیوں تمیں بھی وہ اچھا لگنے لگ گیا”
“نہیں میں ارتضیٰ کے لیے لے رہی ہو”
“ارتضیٰ کو وہ اچھے نہیں لگیں گے حورم”
حورم کے منہ سے ارتضیٰ سن سن کر وہ دونوں بھی اسے نام سے ہی مخاطب کرتے تھے
“تم دے رہے ہو یا نہیں”
اسکے کہنے پر المیر نے اپنے باکس میں سے اسٹیکر نکال کر اسے دے دیے جسے پکڑ کر وہ خوشی سے واپس کمرے کی طرف بھاگی اور اسے کارڈ پر چپکا دیا
°°°°°
المیر اور ازمیر حفصہ کے برابر والے کمرے میں سوتے تھے تاکہ اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو آرام سے اسے بلاسکیں جبکہ حورم حفضہ کے پاس ہی سوتی تھی
اس وقت بھی وہ نیند سے بیدار ہوئی تھی لیکن روز کی طرح حفصہ اسکے برابر نہیں تھی
اسنے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اپنے آپ کو دیکھا اس وقت اسنے وائٹ کلر کا نائٹ سوٹ پہنا ہوا تھا جس پر پرنسس بنی ہوئی تھیں جبکہ بال ڈھیلی پونی میں قید تھے
ہوش و حواس بحال ہوتے ہی اسنے جلدی سے سائیڈ ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں کل اسنے ارتضیٰ کے لیے بنایا ہوا کارڈ رکھا تھا وہ ابھی تک وہیں پڑا ہوا تھا
کمبل اپنے اوپر سے ہٹا کر اسنے کارڈ پکڑا اور اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی اسے ارتضیٰ کو برتھ ڈے وش جو کرنا تھا
°°°°°
“واؤ کیا یہ میری ہے”
اسنے حیرت سے اپنے سامنے کھڑی چمچماتی بلیک ٹیسلا کو دیکھتے ہوئے کہا
“ہاں یہ تمہارا برتھ ڈے گفٹ ہے”
احسان کی بات سنتے ہوئے وہ خوشی سے اسکے گلے لگ گیا
جبکہ دور کھڑی حورم اپنے ہاتھ میں پکڑا کارڈ لیے منہ بناتی ہوئی واپس چلی گئی
ارتضیٰ کو اتنا بڑا تحفہ مل گیا تھا اب بھلا اسے حورم کے کارڈ کی کیا ضرورت تھی
وہ واپس کمرے کی طرف جانے لگی جب اسے پیچھے سے ارتضیٰ کی آواز سنائی دی جسے سن کر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں کھڑا ارتضیٰ اسے ہی دیکھ رہا تھا اور وہاں اسے کھڑا دیکھ کر اسنے اپنا ہاتھ جلدی سے پیچھے کرلیا
“تم نے مجھے برتھ ڈے وش نہیں کیا”
ارتضیٰ نے اسکے سامنے بیٹھ کر کہا جس پر اسنے اپنی نظریں جھکالیں
“کیا چھپا رہی ہو”
“کچھ نہیں”
“دکھاؤ”
اسکا ہاتھ خود ہی سامنے کرکے ارتضیٰ نے اسکے ہاتھ میں پکڑا کارڈ لے لیا اور اسے دیکھتے ہی لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ پھیل گئی
“یہ تم نے میرے لیے بنایا ہے”
“آپ کو اچھا لگا”
“ہاں پر تم بتاؤ کیا یہ واقعی میرے لیے ہے”
اسکے کہنے پر حورم نے اپنا سر ہاں میں ہلادیا
“تو پھر مجھے دیا کیوں نہیں”
“آپ کو اتنی بڑی گاڑی مل گئی تو مجھے لگا آپ کو یہ اچھا نہیں لگے گا”
اپنے ہاتھوں کو کھول کر وہ اسے بتانے لگی کہ اسے کتنی بڑی گاڑی مل گئی ہے
“ہاں مجھے گاڑی مل گئی ہے پر اسکا مطلب یہ تو نہیں ہے تمہارا تحفہ مجھے پسند نہیں آئے گا یہ تو بیسٹ گفٹ ہے مجھے بہت پسند آیا”
“گاڑی سے بھی زیادہ”
“ہاں بلکل گاڑی سے بھی زیادہ”
اسکے کہنے کر وہ خوشی سے کھلکھلائی ارتضیٰ کو اس کا بنایا کارڈ جو پسند آگیا تھا
وہ حورم شاہ کا تحفہ تھا ارتضیٰ آفندی کو وہ کیسے پسند نہیں آتا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial