جنون محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

(بائیس سال بعد)
حیرت و بےیقینی سے وہ سڑک پر پڑے اسکے خون میں لت پت وجود کو دیکھ رہا تھا
اسے کیا کرنا چاہیے تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے زہہن بند ہوچکا ہو
حواس بحال ہوتے ہی وہ بھاگتے ہوئے اسکے قریب آیا اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے ہوش دلانے لگا
“عائزل اٹھو”
اسکا گال تھپتھپا کر وہ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا لیکن سب کچھ بےسود تھا
اسکا دل گھبرا رہا تھا پہلی بار اسنے اس طرح کے حالات کا سامنا کیا تھا اسے کیا کرنا چاہیے تھا اسے نہیں پتہ تھا
زہہن پر اس وقت بس ایک ہی چیز سوار تھی کہ عائزل شاہ اس حالت میں اسکی وجہ سے تھی
°°°°°
شاہ حویلی میں ہر طرف شور مچا ہوا تھا جبکہ پورے گھر کو ہر طرف سے سجایا جارہا تھا
کیونکہ آج جنت عالم شاہ کی انیسویں سالگرہ تھی اور اس شور شرابے میں مزید شور جنت کی چیخ نے کیا
“حورم رکو”
گاڑی سے اترتے ہی وہ بھاگتے ہوئے اسکے پیچھے گئی جو اس سے پہلے ہی گاڑی سے اتر کر اندر بھاگ چکی تھی
کیونکہ جانتی تھی سفر میں جنت نے اپنا غصہ کنٹرول کرلیا تھا لیکن گھر پہنچنے کے بعد اسکی خیر نہیں تھی اور راستے میں بھی جنت نے اپنا غصہ کس طرح ضبط کیا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی
“پھوپھو جان اس میں غصے والی کیا بات ہے” اسنے بھاگتے ہوئے چلا کر کہا تاکہ جنت کو اسکی بات ٹھیک سے سمجھ آجائے
“میں چھوڑوں گی نہیں تمہیں”
بھاگتے ہوئے وہ دونوں اندر داخل ہوئیں جہاں زریام کھڑا ہوا تھا اسے دیکھتے ہی حورم اسکے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی اور سکون بھرا سانس لیا کیونکہ زریام کے ہوتے ہوئے تو جنت اسکا کچھ نہیں کرسکتی تھی
“بابا سائیں بچا لیں پھوپھو جان تو مجھے مارنے پر تلی ہوئی ہیں”
سب اسے جنت ہی بلاتے تھے بس ایک حورم تھی جو اسے چھیڑنے کے خاطر پھوپھو جان بلاتی تھی
“آرام سے کیا ہوگیا ہے”
اسنے جنت کے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھا جو گھورتے ہوئے اسکے پیچھے کھڑی حورم ہو دیکھ رہی تھی
“لالا اس نے میری ساری دوستوں کو یہ بات بتادی کہ میں اسکی پھوپھو ہوں”
“تو اس میں غلط کیا ہے جنت”
“وہ سب مجھے تنگ کررہی ہیں میرا مذاق بنا رہی ہیں کہ پھوپھو سے بڑی تو بھتیجی ہے اوپر سے ہر جگہ پر میرا نام جنت پھوپھو کے نام سے مشہور ہوچکا ہے”
اسکے کہنے پر زریام نے مسکراہٹ دبا کر اپنے پیچھے کھڑی حورم کو دیکھا
“آپ بھی ہنس لیں مجھے بات ہی نہیں کرنی ہے”
وہ خفگی سے کہتی ہوئی جانے لگی جب زریام نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
“جنت ناراض مت ہو”
“ہاں جنت اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے شکر کرو اسنے تمہیں کوئی رشتہ دے دیا ورنہ ہم سب جانتے ہیں عالم دادا کو تم کچرے کے ڈھیر پر ملی تھیں”
وہاں بیٹھے المیر کی بات سن کر وہ آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورنے لگی
“ہاں بلکل اور اسی کچرے کے ڈھیر پر تم اور تمہارا بھائی کچرا چن رہے تھے اسلیے بابا سائیں تم دونوں کو بھی لے آئے”
اسکے کہنے پر سینڈوچ کھاتے ازمیر نے منہ بگاڑا
“میں نے تھوڑی کچھ کہا ہے جنت جو تم مجھے بھی اس کے ساتھ گھسیٹ رہی ہو”
“گھسیٹنا پڑھتا ہے یہ تمہارا ٹوئینی جو ہے”
اسکے کہنے پر ازمیر نے منہ بنا کر پورا سینڈوچ اک ساتھ ہی منہ میں رکھ لیا
المیر کی وجہ سے اسے بھی ہمیشہ کچھ نہ کچھ سننا پڑتا تھا
°°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی اسنے اپنا کوٹ اتار کر ٹائی ڈھیلی کی اور تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
آج جو چیز غیر معمولی تھی وہ تھی حورم کی موجودگی کیونکہ جب سے حورم یہاں آئی تھی گھر میں داخل ہوتے ہی اسے سب سے پہلے حورم کا چہرہ دیکھنے کو ملتا تھا لیکن آج وہ یہاں نہیں تھی اور یہ بات ارتضیٰ کو بےچین کررہی تھی
اپنا کوٹ اور سامان اسنے کمرے میں رکھا اور حورم کے کمرے کی طرف چلا گیا وہاں سے اسکا سامان غائب تھا جس کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ پاکستان جاچکی تھی ماتھے پر بل ڈالے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا حفضہ کے کمرے کی طرف گیا
“تم کب آئے ارتضیٰ”
اسے دیکھتے ہی حفضہ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری
“حور کہاں ہے مام”
“وہ پاکستان چلی گئی ہے بتایا تو تھا تمہیں احسان نے اسکی فلائٹ پہلے ہی بک کروادی تھی”
اپنے کام کی وجہ سے وہ زیادہ پاکستان نہیں جاپاتا تھا لیکن ہر چھٹیوں میں سب بچے یہاں پر ضرور آتے تھے اور اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا لیکن ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ حورم اس سے ملاقات کیے بنا چلی گئی تھی
“مجھے بتایا بھی نہیں وہ مجھ سے ملے بنا کیسے جاسکتی ہے”
“کال کی تھی تمہیں تم نے شاید دیکھی نہیں”
حفضہ کی بات سن کر غصے سے بڑبڑاتے ہوئے وہ اسکے کمرے سے نکل کر چلا گیا حورم یہاں نہیں تھی اسلیے اسکا سارا موڈ خراب ہوچکا تھا
°°°°°
اسنے وارڈروب سے بلیک کلر کی کمیز شلوار نکال کر زیب تن کی اور بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنالیا جن میں اب ہلکے ہلکے سفید بال بھی نمایاں ہوتے تھے لیکن عالم شاہ کے لیے تو وہ ابھی بھی جوان اور خوبصورت تھی
اسکی کہی یہ بات سوچتے ہی آئرہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی جب عالم نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لے لیا
“اکیلے اکیلے مسکرا رہی ہو جان عالم”
“عالم ہٹیں پہلے ہی دیر ہورہی ہے”
اسنے شیشے میں نظر آتے عالم کو گھور کر دیکھا جس نے خود بھی بلیک کلر کا کمیز شلوار پہنا ہوا تھا جبکہ بالوں میں سفیدی جھلک رہی تھی
“کوئی دیر نہیں ہورہی ہے ہم نے کون سا دوسرے شہر جانا ہے دو قدم اٹھا کر نیچے ہی تو جانا ہے”
“عالم شاہ اپنی حرکتیں سدھار لیں زیادہ نہیں تو اپنی عمر کا ہی لحاظ کرلیں”
“کیا لحاظ کروں جان عالم ابھی تو میں جوان ہوں”
عالم کی بات سن کر پر وہ بےساختہ ہنسی جب کمرے کا دروازہ بجنے لگا
“آجاؤ”
عالم کی آواز پر جنت نے دروازہ کھول کر اپنا چہرہ اندر کیا اور اسے دیکھتے ہی دلکش مسکراہٹ عالم کے لبوں پر بکھر گئی
وہ عالم شاہ کی جان تھی جسے وہ زریام اور آہان سے زیادہ پیار کرتا تھا اسے بیٹی کی خواہش تھی جو جنت نے پوری کردی تھی اور دوسرا وہ دکھنے میں بلکل آئرہ کی طرح تھی آنکھیں بال ہونٹ سب کچھ اسنے آئرہ سے ہی لیا تھا
“آجاؤ میری جان”
“نیچے چلیں نہ آپ دونوں سب انتظار کررہے ہیں”
“ہاں بلکل چلو میں تو کب سے کہہ رہا تھا یہ تمہاری ماں ہی دیر کروارہی ہے”
اسکے کہنے پر آئرہ نے گھور کر اسے دیکھا اور اسکی گھوری کو اگنور کرکے وہ جنت کے ساتھ نیچے چلا گیا
°°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد تیار ہوکر فریش سا باہر نکلا اور اب جس ہستی کو دیکھنے کی اسے بےتابی تھی وہ تھی عائزل شاہ جو پورے گھر میں دیکھنے کے بعد بھی اسے کہیں نہیں ملی تھی
“حیات عائزل کہاں ہے”
سب لوگ یہیں موجود تھے سوائے عائزل کے اور ایسے میں اسکی غیر موجودگی شاہ میر کو پریشان کر رہی تھی
“وہ اسکول سے واپس نہیں آئی”
“کیا مطلب وہ ابھی تک نہیں آئی ڈرائیور گیا تو تھا اسے لینے کے لیے”
“شاہ میر اسنے کہا تھا وہ نور کے ساتھ آئے گی ہوسکتا ہے اسی لیے دیر ہوگئی ہو”
“لیکن نور اور عصیرم بھائی تو صبح ہی جاچکے ہیں آج ان کی فلائٹ تھی نہ”
“تو پھر عائزل وہاں کیا کررہی ہے اسے تو آجانا چاہیے تھا”
اسکے لہجے میں پریشانی در آئی
“اسفند وہیں ہے میں اس سے فون کرکے پوچھتا ہوں یقیناً عائزل اسی کے ساتھ ہوگی”
اسنے اپنی جیب سے موبائل نکالا جب اس کے کال کرنے سے پہلے ہی اسفندیار کی کال آنے لگی
اسنے مسکراتے ہوئے کال پک کی اور اسکی بات سنتے ہی شاہ میر کی مسکراہٹ سمٹ گئی
“ماموں عائزل کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے”
اسنے بھیگے لہجے میں کہا جبکہ اسکی بات سن کر شاہ میر کا تو جیسے سانس ہی رک چکا تھا
“کیا کہہ رہے ہو اسفند کیا ہوا ہے میری بچی کو”
اسنے چلا کر کہا جسے سن کر آس پاس کھڑے افراد اسکی طرف دیکھنے لگے
“میں ، میں اسے ڈرائیور کے ساتھ ہاسپٹل لے کر آیا ہوں پر مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں پلیز آپ آجائیں”
اس سے ہاسپٹل کا نام پوچھتے ہی شاہ میر نے فون رکھا اور اپنے ساتھ کھڑی حیات کو دیکھا جو فکرمندی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی
“کیا ہوا ہے عائزل کہاں ہے”
“اسکا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے”
اسے جواب دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باہر کی جانب چلا گیا جبکہ اسکی بات سن کر باقی افراد بھی جلدی سے باہر کی طرف بھاگے
°°°°°
ہاسپٹل میں داخل ہوتے ہی اسے اسفند باہر ہی مل گیا جو رو رہا تھا ایسا واقعی اسکے ساتھ پہلی بار پیش آیا تھا اسکا گھبرانہ بنتا تھا
شکر تھا کہ ڈرائیور یہاں پر موجود تھا اسلیے سب کچھ اسنے ہی مینیج کیا تھا
ڈرائیور سے پوچھ کر وہ اس طرف ہی چلا گیا جہاں عائزل اس وقت موجود تھی اسفندیار کی حالت دیکھ کر اسے دکھ ہورہا تھا لیکن اس وقت اسنفدیار سے زیادہ اہم اسکے لیے اپنی بیٹی تھی
اسنے بھیگی آنکھوں سے شاہ میر کی پشت کو دیکھا جب اسے اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس ہوا اسنے مڑ کر دیکھا اور وہاں کھڑے زریام کو دیکھ کر روتے ہوئے اسکے گلے لگ گیا
“اسفند چپ ہوجاؤ انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا عائزل بلکل ٹھیک ہو جائے گی”
اسکی کمر تھپتھپاتے ہوئے اسنے تسلی دی
اگر نور اور عصیرم یہاں ہوتے تو وہ اتنا گھبرایا ہوا نہیں ہوتا لیکن یہ سب کچھ اسنے اکیلے سہا تھا اسلیے وہ کچھ زیادہ ہی گھبرا رہا تھا
اسے لے کر باقی سب بھی اسی طرف چلے گئے جہاں شاہ میر گیا تھا
°°°°°
“شاہ میر کیا ہوگیا ہے فکر مت کرو کچھ نہیں ہوگا اسے”
عصیم نے اسے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی جس پر اسنے بھیگی آنکھوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا
“بابا سائیں میری عائزل تو بہت معصوم ہے اسکے ساتھ یہ سب کیوں ہوا ہے”
“بلکل ہماری عائزل معصوم ہے اسنے کسی کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا تو اسکے ساتھ بھی کچھ برا نہیں ہوگا دیکھنا تم انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا”
اسکی بات سن کر شاہ میر نے لب بھینچ کر اپنا سر ہلایا
جب ڈاکٹر روم سے باہر نکلے انہیں دیکھتے ہی سب بےچینی سے اپنی جگہ سے اٹھے
“میری بیٹی کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نہ”
“مسٹر شاہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے یہ چوبیس گھٹنے انکے لیے بہت اہم ہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ کوما میں جاسکتی ہیں انکی میموری لوس ہوسکتی ہے یا پھر ہوسکتا ہے وہ اسی حالت میں مر”
“خبردار جو ایک لفظ بھی کہا کچھ نہیں ہوا ہے میری بیٹی کو ٹھیک کرو اسے”
اسنے چلاتے ہوئے ڈاکٹر کا کوٹ پکڑ کر اسے جھنجھوڑا جس پر ساحر نے جلدی سے اسے کھینچ کر پیچھے کیا اور ڈاکٹر سے معذرت کی
شاہ میر کی کیفیت سمجھ کر ڈاکٹر نے اپنا سر ہلایا اور وہاں سے چلے گئے جس پر وہ بے بسی سے ساحر کی طرف دیکھنے لگا
“میری عائزل”
”شاہ میر کچھ نہیں ہوا ہے عائزل کو ٹھیک ہے وہ بہت جلد اسے ہوش آجائے گا”
اسنے شاہ میر کو اپنے ساتھ لگایا جو لب بھینچ کر اپنے آنسو کو قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا
“حیات کو کال کرکے کہو عائزل ٹھیک ہے ورنہ وہ اسی طرح سے پریشان ہوتی رہے گی”
جلدی جلدی میں صرف گھر کے بڑے ہی ہاسپٹل آئے تھے یقینا حویلی میں اس وقت سب بےچینی سے بیٹھے کسی کی کال کا ہی انتظار کررہے ہوں گے جس میں وہ سب کو عائزل کی خیریت کی خبر دے
“کال کرو”
اسکے دوبارہ کہنے پر شاہ میر نے اپنے آنسو صاف کرکے اپنا سر ہلایا اور اپنا موبائل نکالا جہاں حیات کی بارہ مس کالز لگی ہوئی تھیں
جو بات اسنے سنی یہ بات وہ حیات کو بتانے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا بہتر تھا اس سے جھوٹ ہی بول دیا جاتا ویسے بھی اس میں جھوٹ تھا ہی کیا اسے یقین تھا کہ اسکی بیٹی کو کچھ نہیں ہوگا اور وہ بہت جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی
°°°°°
اسنے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا جس کی وجہ سے باہر سے آتی روشنی نے اندھیرے کمرے میں اجالا کیا
دروازہ بند کرکے عصیرم نے کمرے کی لائٹ آن کی اور نظر کمرے کے کونے میں بیٹھے اسنفدیار پر گئی
عائزل کے ایکسیڈینٹ کی خبر ملتے ہی عصیرم اور نور ارجنٹ فلائٹ سے واپس آچکے تھے
لیکن واپس آکر جو چیز اسے یہاں دیکھنے کو ملی تھی وہ تھا بدلا ہوا اسفندیار
وہ عصیرم اور نور کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد تھا پر زیادہ لاڈلا وہ عصیرم کا تھا جبکہ اسکے برعکس نور ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ اسفند کو اتنا لاڈ پیار نہ دیا جائے کہ وہ بگڑ جائے لیکن عصیرم نے کبھی اسکی اس بات پر دھیان نہیں دیا تھا
“اسفند”
اسکی آواز سن کر اسفندیار نے اپنی نیلی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا
جب عائزل ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھی تب وہ رو رہا تھا لیکن جب سے اسے عائزل کے کوما میں جانے کی خبر ملی تھی تب سے اسنے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیا تھا اور یہ سب چیزیں عصیرم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی تھیں
“تم نے ابھی تک کسی کو بتایا نہیں کہ اس دن کیا ہوا تھا اب تک کسی نے اس بارے میں نہیں پوچھا کیونکہ انہیں تمہاری حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی پر میں اب جانتا چاہتا ہوں بتاؤ مجھے اس دن کیا ہوا تھا”
اسے اٹھا کر عصیرم نے بیڈ پر بٹھایا اور خود اسکے برابر بیٹھ گیا
“اس دن عائزل گھر آئی تھی نہ بتاؤ کیا ہوا تھا اس دن تم نے سارے گارڈز اور سرونٹ کو بھی چھٹی دے دی تھی کیوں”
اسکے کہنے پر اسفندیار نے زور سے آنکھیں میچ لیں
“اسفند بتاؤ مجھے اس دن کیا ہوا تھا”
“بابا عائزل یہاں آئی تھی وہ میرے ساتھ ہی تھی پھر اسنے کہا کہ اسے گھر جانا ہے تو میں نے اس سے کہا تھا کہ ڈرائیور باہر کھڑا ہے اسکے ساتھ چلی جاؤ وہ باہر چلی گئی تھی اور بس تب ہی اسکا ایکسیڈینٹ ہوگیا”
اسنے نظریں جھکا کر ایک ہی سانس میں سب کچھ بتادیا جسے سنتے ہی عصیرم گہرا سانس لے کر رہ گیا
سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا یا پھر جھوٹ
“گارڈز کو کیوں چھٹی دی تھی تم نے”
“مجھے نہیں پسند ہر وقت میرے سر پر سوار رہتے ہیں الجھن ہونے لگ گئی ہے مجھے انکی وجہ سے”
اسکی بات سن کر عصیرم نے حیرت سے اسے دیکھا یہ بات اسفندیار کہہ رہا تھا جو لوگوں کو دکھانے کے لیے خود گارڈ کی ایک فوج اپنے ساتھ لے کر پھرتا تھا
“اسفند میں تم پر اعتبار کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے تم نے ابھی مجھ سے جو کچھ بھی کہا وہ سب کچھ سچ ہے”
اسکے کہنے پر اسنفدیار نے گہرا سانس لے کر اپنا سر ہلایا
اسکا دل چاہ رہا تھا خود کو کچھ کر لے عائزل کوما میں جاچکی تھی صرف اسکی وجہ سے اور اسنے اپنے باپ سے پہلی بار جھوٹ کہا تھا
ایک پل کے لیے اسکے زہہن میں یہ بات آئی تھی کہ اگر عائزل کو ہوش آگیا تو کیا ہوگا اور اس سوچ نے ہی اسکے پورے وجود کو جھنجھوڑ ڈالا تھا
اگر عائزل ہوش میں آکر گھر والوں کو سب کچھ بتا دیتی تو کیا ہوتا وہ تو شاید اپنے ماں باپ سے کبھی نظریں بھی نہیں ملا پاتا
اسکی خاموشی دیکھ کر عصیرم اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر جانے لگا جب اسکے کانوں میں اسفندیار کی آواز پڑی
“بابا آپ چاہتے تھے نہ میں تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلا جاؤں”
عصیرم نے چہرہ موڑ کر اسکی جانب دیکھا یہ اسکی خواہش تھی کہ اسنفدیار اپنی تعلیم ایبروڈ جاکر حاصل کرے لیکن اس بات کے لیے وہ کبھی نہیں مانا تھا
کیونکہ یہاں اسکے باپ کی وجہ سے اسے جو مقام جو عزت ملتی تھی اسے لگتا تھا باہر جاکر شاید وہ سب کچھ نہیں ملے گا
اسلیے وہ ہمیشہ اس بات کو ٹالتا آیا تھا لیکن آج وہ خود ہی یہ بات کہہ رہا تھا
“ہاں”
“میں جانا چاہتا ہوں”
”اسفند کیا واقعی سب کچھ ٹھیک ہے”
“ہاں بس میں اس سب کے بعد سے ڈر گیا ہوں مجھے یہاں سے جانا ہے اس ماحول سے جانا ہے” اسکی بات سمجھ کر عصیرم نے اپنا سر ہاں میں ہلایا اور کمرے سے چلا گیا
اسکے جانے کے بعد کب سے رکے ہوئے آنسو ٹوٹ کر اسفندیار کی آنکھوں سے بہہ نکلے
°°°°°
کمرے میں آکر اسنے اپنی وارڈروب کھولی اور اسفندیار کا ضروری سامان نکالنے لگا
اسکے جانے کی تیاری وہ پہلے ہی کرچکا تھا لیکن اسفندیار کے نہ کہنے پر اسنے یہ سب کچھ ایک کونے میں پٹھخ دیا تھا لیکن اب اسکی ضرورت تھی کیونکہ اسنفدیار جانا چاہتا تھا
“عصیرم کیا کررہے ہیں”
واشروم سے نکلتے ہی اسنے حیرت سے بیڈ پر پڑے سامان کو دیکھے ہوئے کہا
“اسفند جانے کے لیے راضی ہوگیا ہے”
“کیسے اور آپ اسے جانے کا کیوں کہہ رہے ہیں وہ اس وقت ایسی حالت میں نہیں ہے کہ اسے اکیلا کہیں بھیجا جائے عصیرم وہ اس حادثے کے بعد سے بہت ڈر گیا ہے”
“نور بلکل وہ اس وقت ٹھیک حالت میں نہیں ہے لیکن اسکی حالت وہاں جاکر ہی ٹھیک ہوگی مجھ پر بھروسہ رکھو میں اسکے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا”
اپنی بات کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا
اسکے جانے کے بعد نور نے دکھ سے بیڈ پر پڑے سامان کو دیکھا وہ کیسے اپنے بیٹے سے دوری برداشت کرلیتی لیکن عصیرم یہ سب کررہا تھا تو یقیناً اسفندیار کی بہتری کی وجہ سے ہی کررہا تھا
°°°°°
گاڑی ہاسپٹل کے سامنے رکتے ہی وہ گاڑی سے اترا
اس وقت اسنے وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیو جینز اور بلیو جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور نیلی آنکھوں میں سنجیدگی چھائی ہوئی تھی
گہرا سانس لے کر وہ ہاسپٹل میں داخل ہوا اور سیدھا عائزل کے روم میں گیا جہاں حیات بیٹھی ہوئی تھی
ہاسپٹل میں زیادہ لوگوں کو رکنے کی اجازت نہیں تھی اسلیے اس وقت بھی وہاں پر صرف حیات شاہ میر اور ماہر موجود تھے جبکہ باقی کے افراد نور کے گھر پر موجود تھے
“کیسی ہیں ممانی”
اسکی سنجیدہ سی آواز سن کر حیات نے ہولے سے اپنا سر ہلادیا
“ماموں کہاں ہیں”
“وہ ماہر بھائی کے ساتھ کسی ضروری کام سے گئے تھے تھوڑی دیر میں آجائیں گے”
اسکی بات سن کر اسنفدیار نے اپنا سر ہلایا جب موبائل پر آتی کال دیکھ کر حیات اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر چلی گئی اور اسکے جاتے ہی اسفندیار کی نظروں کا مرکز وہاں بیڈ پر لیٹی عائزل بن گئی
جسے دیکھنے کے لیے وہ یہاں آیا تھا
وہ دو ہفتوں سے اسی بیڈ پر پڑی ہوئی تھی بھلا کس نے سوچا تھا کبھی ایسا بھی کوئی دن دیکھنا پڑے گا
“میں جانتا ہوں تمہارے ساتھ میں نے غلط کیا ہے عائزل ہوسکے تو مجھے معاف کردینا میں جارہا ہوں واپس کب آؤں گا نہیں جانتا بس جانے سے پہلے آخری بار تم سے ملنا چاہتا تھا تمہیں دیکھنا چاہتا تھا”
اسنے عائزل کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اسکا ہاتھ تھام کر نرمی سے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے
بند آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر عائزل کے گال پر گرے جنہیں اسنے خود ہی نرمی سے صاف کردیا اور اس سے دور ہوکر تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا
تاکہ عائزل سے دور جاسکے بہت دور
وہ اس سے دور جانا چاہتا تھا لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اسکے دور جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا
کیونکہ وہ تو عائزل شاہ کی یادیں اپنے ساتھ لے کر جارہا تھا جن سے اسکا پیچھا اب کبھی نہیں چھوٹنا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial