قسط: 1
“کیرل یہ تم ہی ہو نہ ؟؟؟ کلاس میں داخل ہوتے ہی ماریہ اپنی مخصوص جگہ پر آئی کیرل کو وہاں موجود دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا جبکہ اس کے بے تکے سوال پر کیرل نے اسے گھورا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو نہیں کوئی بھوت پریت ہے”-
“واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز ” ماریہ اس کی گھوری کو نظر انداز کرتی خوشی سے اس کے گلے لگی “مجھے تو لگا تھا اب تم کبھی آؤ گی ہی نہیں ماریہ اس سے گلے ملنے کے بعد کیرل کے برابر والی سیٹ پر بیگ رکھ کر بیٹھ گئی “-
“تمھیں ایسا کیوں لگا کہ میں اب کبھی نہیں آؤنگی؟؟؟ اوہ ہاں تمھیں تو بڑی خوشی ہو رہی ہوگی تمھاری جان چھوٹ گئی مجھ سے کیرل نے اسے گھورا “-
“لو بھئی ایک تو تم پچھلے ایک ماہ سے لا پتہ ہو کوئی خیر خبر ہی نہیں مجھے تو یہی لگا اب تم نہیں آؤ گی …. خیر تم بتاؤ کیوں نہیں آ رہی تھی اتنے دنوں سے ؟؟ ماریہ نے اس کی غیر حاضری کی وجہ پوچھی”-
“لندن گئی ہوئی تھی یار ڈیڈی نے اپنے پاس بلالیا تھا کیرل نے اپنی غیر موجود گی کی وجہ بتائی “-
“اوہ تو میڈم سیر سپاٹے پر گئی ہوئیں تھیں ماریہ آنکھیں گھما کر بولی ۔۔۔انسان بتا کر بھی جا سکتا ہے کیرل میڈم ۔۔۔ یا کم از کم بندہ فون تو اٹھا ہی لیتا ہے میں نے کتنی کالز کی تم نے ایک بھی ریسیو نہیں کی ایسی ہوتی ہیں بیسٹ فرینڈ ماریہ نے ناک منہ سکوڑ کر کہا “-
“آئی ایم سوری !! یار مجھے خود نہیں پتہ تھا ڈیڈی نے اچانک ہی بلوالیا ساری تیاری کر کے انہوں ٹکٹ بھیج دیئے میں تو خود حیران تھی ان کے سرپرائز پر جلدی جلدی میں فون بھی یہیں رہ گیا کئی بار کال کو سوچا تمھارا نمبر یاد ہی نہیں آ رہا تھا تھا کیرل اسے تفصیل سے بتانے لگی”-
“ہاں بھئی ہم اور ہمارا نمبر کہاں یاد رہے گا تم تو ٹہری پردیسی ساتھ کیا نبھاؤ گی جب بھی ملے گی پہلی فلائٹ تم تو چھوڑ جاؤ گی ماریہ نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر گانے کا ستیا ناس کرتے ہوئے بھر پور ادکاری کا مظاہرہ کیا۔۔۔ آ آہ ہ کیرل نے اس کمر پر مکا جڑھا جس پر وہ کراہ کر رہ گئی”-
“اف ماری تمھاری ان ہی باتوں کو کتنا مس کیا میں نے کیرل اس کی اداکاری پر ہنستے ہوئے دوبارہ گلے لگی “-
“بس بس زیادہ چپکنے کی ضرورت نہیں ہے ماریہ نے اسے دور کیا “-
” ماری اب تم زیادہ ہی پھیل رہی ہو کیرل نے اس کے دور کرنے پر چوٹ کی …. اچھا نہ اب ناراضگی ختم کر دو اتنے دنوں بعد آئی ہوں میں ایسے تو نہ کرو یار اتنی ساری باتیں کرنی ہے تم سے ۔۔۔ ماری کیرل نے اسے جھنجھوڑا مگر وہ ہنوز خاموش رہی -“
یہ لو !!!! ماریہ نے بیگ سے نوٹس نکال کر اس کی طرف بڑھائے پیر والے دن فزکس کا ٹیسٹ ہے تیاری کر لینا ماریہ اس کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر خود ہی بتانے لگی “-
” یہ تو تمھارے ہیں نہ مجھے دے دو گی تو خود کیسے تیاری کرو گی ؟؟؟
“میری تھوڑی بہت تیاری ہے باقی لیکچر دیکھ کر کر لونگی تمھی زیادہ ضرورت ہے ورنہ مس خاتون نے تمھیں چھوڑنا نہیں ہے ناراضگی ابھی بھی قائم تھی “-
“تھینک یو سو مچ !!!! ماری کیرل پھر اس کے چپکی۔۔۔۔ اگر تم نہ ہو تو میں فیل ہی ہو جاؤ “لو یو ” ماری کیرل کے لو یو بولنے پر ماریہ مسکرا اٹھی “-
“لو یو ٹو ” ماریہ نے کہا وہ کیرل سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتی تھی خاص کر جب کیرل اتنے دنوں بعد آئی ہو …. ٹیچر کو کلاس میں داخل ہوتا دیکھ وہ دونوں ان کی طرف متوجہ ہو گئیں “-
–––––––––––––––––––––––––––
“دستک کا جواب نہ ملنے پر وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی وہ کہیں نہیں تھا واشروم کا بند دروازہ دیکھ کر اسے لگا وہ واشروم میں ہوگا وہ واپس جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کہ وہ کمرے کے ساتھ ملحقہ بالکنی سے اندر آتا دکھائی دیا ثوبیہ کی نظر اس کی آنکھوں پر پڑی اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر ثوبیہ دھک سے رہ گئی “-
“آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستاروں سے بھرا آسمان ایک دلفریب منظر پیش کر رہے تھے سردیوں کی آمد سے ہوائیں یخ بستہ تھیں ایسے پر سکون ماحول میں وہ بالکنی میں کھڑا آسمان کو دیکھتا کسی گہری سوچ میں غرق تھا کمرے کا دروازہ کھل کر بند ہونے کی آواز نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑا تھا وہ سر جھٹکتا کمرے میں آیا تھا واپس جاتی ثوبیہ اسے دیکھ کر رک گئی تھی ۔۔۔ کوئی کام تھا ؟؟ وہ ثوبیہ کو یونہی خاموش کھڑا دیکھ کر خود ہی پوچھ بیٹھا “-
“جی بھیا میں آپ کو بلانے آئی ہوں آپ کو بابا بلا رہے کھانا کھانے کے لیے چلیے آ جائیے سب انتظار کر رہے ہیں آپ کا ڈائینگ ٹیبل پر ثوبیہ نے اسے ساتھ چلنے کا کہا”-
“ٹھیک ہے تم چلو میں آتا ہوں اس کہنے پر ثوبیہ سر ہلا کر چلی گئی تھی وہ الماری سے آرام دہ سوٹ لے کر سیدھا باتھروم میں گھسا تھا شاور کا ٹھنڈا پانی جسم پر گرتے ہی اس کی سانسیں اکھڑی تھیں وہ آنکھیں بند کیے بے حس بنا کھڑا رہا تقریباً دس منٹ شاور لینے کے بعد وہ باہر نکلا بال بنائے اور باہر آ گیا سب ہی ٹیبل پر موجود تھے عاتکہ ، ثوبیہ ، ماریہ اور مبشر صاحب سب کھانا شروع کر چکے تھے وہ بھی چپ چاپ اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ماریہ نے سالن کی ڈش اس کی طرف بڑھائی اس نے اپنی پلیٹ میں سالن نکالا ابھی وہ پہلا لقمہ کھانے ہی لگا تھا کہ مبشر صاحب کی آواز پر منہ کی طرف جاتا اس کا ہاتھ رکا تھا “-
“کیا سوچا احتشام تم نے اپنے بارے میں … احتشام نے ان کی طرف دیکھا وہ کھانے میں مشغول تھے اسے نہیں دیکھ رہے تھے”-
“کس بارے میں؟؟.. احتشام کو سمجھ نہیں آیا وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں یا شاید وہ انجان بن رہا تھا “-
“مبشر صاحب ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگے احتشام کا انجان بنا انہیں سخت ناگوار لگا تھا ۔۔۔اپنی شادی کے بارے میں ۔۔۔۔ مبشر صاحب کے جملے پر ٹیبل پر موجود سبھی نفوس نے ہاتھ روک کر اچھنبے سے ان کی جانب دیکھا تھا جیسے انہوں نے کوئی عجوبہ بات کہہ دی ہو سب نے ایک نظر مبشر صاحب کو دیکھا پھر احتشام کو دیکھا جس کے نقوش تنے ہوئے تھے”-
“تمھاری عمر ہو چکی ہے شادی کی تعلیم بھی مکمل ہوچکی ہے ماشاءاللہ کاروبار بھی اچھا چل رہا ہے اب تمھیں شادی کر کے اپنا گھر بسانا چاہیے تمھاری عمر کے لڑکوں کے بچے ہو چکے ہیں اور ایک تم ہو تمھاری شادی ہو جائے تو ہم تمھاری بہنوں کے بارے میں بھی سوچیں وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دوبارہ کھانے میں مشغول ہو چکے تھے انہوں احتشام کے چہرے کے بدلتے تاثرات نہیں دیکھے تھے دیکھ لیتے تو بات آگے نہ بڑھاتے “-
“انوار بھائی( مبشر صاحب کے بہنوئی) نے رائقہ کے لیے تمھارا رشتہ مانگا ہے ہمیں تو کوئی برائی نظر نہیں آتی اس رشتے میں ہماری بھانجی ہے گھر کی بچی ہے تم ہاں کرو تو ہم بات آگے بڑھائیں۔۔احتشام کی دھاڑ پر مبشر صاحب کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے “-
“بس !!! اب ایک لفظ اور نہیں احتشام زور سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر دھاڑا سب اسے دیکھنے لگے ۔۔” نہیں کرنی مجھے کوئی شادی نفرت ہے مجھے شادی کے نام سے بھی ہزار بار کہا ہے میرے سامنے نام نہ لیا کریں لیکن پتہ نہیں آپ کو کیا ملتا ہے میرے زخم کرید کر احتشام کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے ۔۔۔۔اور آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے میری وجہ سے آپ کی بیٹیوں کی شادی میں رکاوٹ ہے آپ کو اپنی بیٹیوں کی شادی کرنی ہے تو کریں لیکن آئندہ میرے سامنے شادی کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے وہ بول کر کھڑا ہوا پیر مار کر کرسی کو گرا کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا”-
“احتشام روکو بیٹا میری بات تو سنو عاتکہ بیگم اس کے پیچھے لپکی تھیں لیکن وہ بنا سنے جا چکا تھا۔۔۔آپ کو کیا ضرورت تھی اس سے یہ بات کرنے کی آپ سب جانتے ہیں پھر بھی ۔۔۔اگر مجھے اندازہ ہوتا آپ احتشام سے اس طرح کی کوئی بات کرینگے تو میں کبھی آپ کو نہ کرنے دیتی عاتکہ بیگم کو مبشر صاحب سے اس بات کی امید ہرگز نہیں تھی”-
“بس کردو عاتکہ کوئی انوکھی بات نہیں کی میں نے تمھارا بیٹا تو پاگل ہو گیا ہے نفسیاتی مریض بن چکا ہے پتہ نہیں کس بات کا روگ ہے جو دیوداس بنا پھرتا ہے بجائے اس کے کہ تم اسے سمجھاؤ تم الٹا مجھ سے بحث کر رہی ہو مبشر صاحب بیٹے کی حمایت پر برہم ہوئے تھے “-
“بابا کھانا تو کھا لیں ثوبیہ نے انہیں کھانا چھوڑ کر جاتے ہوئے دیکھا تو بول اٹھی “-
“جتنی بے عزتی میری کی ہے تمھارے بھائی نے اس سے پیٹ بھر چکا ہے میرا مبشر صاحب انہیں گھور کر اپنے کمرے میں چل دیئے”-
“پتا نہیں کہاں گیا ہو گا احتشام اس وقت عاتکہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔۔امی بھیا آ جائینگے آپ پریشان نہ ہوں ماریہ نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینی چاہی “-
“ماریہ تم نے دیکھا نہ وہ کتنے غصے میں نکلا ہے کہیں خود کو کوئی نقصان ہی نہ پہنچا لے عاتکہ بیگم کی پریشانی کسی حال کم نہیں ہو رہی تھی”-
“امی ایسا کچھ نہیں ہوگا آپ پریشان نہیں ہوں ماریہ کو خود بھی احتشام کی بہت فکر تھی دونوں بہنیں اپنے بھائی کے غصے سے اچھی طرح واقف تھیں”-
–––––––––––––––––––––––––––
“وہ اس وقت کلب میں بار کے آگے بیٹھا ہوا ناگواری سے بہت سے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا جو نشے میں مدہوش ہلکے ہلکے میوزک پر رقص کرنے میں مصروف تھے وہ گھر سے سیدھا یہیں آیا تھا۔۔۔۔ ویٹر نے اس کے آگے شراب کا گلاس رکھا اس نے گلاس اٹھا لیا حرام مشروب سے سرور حاصل کر کے سکون کا طلبگار تھا وہ۔۔۔۔۔اس نے جیسے ہی گلاس اٹھا کر لبوں سے لگانا چاہا گلاس میں نظر آتے ہنستے مسکراتے عکس کو دیکھ کر ٹھٹک گیا اس نے دوبارہ گلاس کو دیکھا شاید عکس پھر نظر آ جائے لیکن وہاں کچھ نہیں تھا صرف اس کی نظر کا دھوکا تھا لیکن وہ چہرا کہاں اس کا پیچھا چھوڑتا تھا جب بھی اس نے حرام کا سہارا لے نے کی کوشش کی تھی وہ چہرہ سامنے آ کر حرام سے بچا لیتا تھا ہر جگہ اس کے پیچھے آ جاتا تھا اس کا پارہ یک دم ہائی ہوا تھا احتشام نے گلاس پوری شدت سے زمین پر دے مارا گلاس ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا شور کی آواز سن کر کچھ لوگوں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو چکے تھے وہاں موجود لوگوں میں کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا ان لوگوں کے لیے یہ عام سی بات تھی اکثر ہی کوئی نہ کوئی امیر زادہ شراب کے نشے میں توڑ پھوڑ ضرور کرتا تھا”-
“احتشام نے اپنے والٹ سے پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھے اور اٹھ کر چلا آیا۔۔۔۔ تم کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑتی چلی جاؤ میری زندگی سے دفعہ ہو جاؤ وہ اپنے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے چلایا آنکھیں حد درجے تک سرخ ہو رہی تھیں دماغ درد کی شدت سے پھٹنے کو تھا بے بسی کی انتہا پر پہنچتے ہوئے اپنا سر سیٹ پر گرا کر آنکھیں موند گیا”-
” موبائل کی مسلسل ہوتی رنگ پر اس نے اپنا فون دیکھا ماریہ کی سات مسڈ کالز تھی اس نے فون ہی آف کر دیا فلحال وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا کچھ سوچ کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی “-
–––––––––––––––––––––––––––
“دلاور احمد والی زمین کا کیا بنا ؟؟ اتنا دن ہو گیا تم نے ابھی تک کام شروع نہیں کروایا ہم نے گاؤں والوں کو زبان دے رکھی ہے جلد سے جلد تعمیراتی کام مکمل کروادینگے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تم کیوں ہماری بات خراب کرنے پر تلے ہو شمشیر صاحب اس وقت اپنے بڑے پوتے کے ساتھ بیٹھے تھے باتیں کر رہے تھے گھر کے باقی لوگ کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں جا چکے دلاور کو انہوں نے بات کرنے کے لیے روک لیا تھا “-
“دادا سائیں ہسپتال بننے میں وقت لگتا ہے اتنا کوئی آسان کام نہیں ہے ٹھیکیدار مزید رقم کا تقاضا کر رہا ہے کہہ رہا ہے مہنگائی کی وجہ سے مزودروں کا کہنا ہے تنخواہ بڑھاؤ گے تو ہی کام شروع کرینگے آپ احمد کو بولیں پیسے بھیجے تو کام میں آج ہی کام شروع کروا دوں “-
” تو یہ بات تم ہمیں پہلے ہی بتا دیتے خیر ابھی تو کافی وقت ہو گیا ہے صبح ہم سے پیسے لے کر کام شروع کروا دینا اب مزید دیر نہ ہو شمشیر ملک دلاور کی کنجوس طبعیت سے اچھی طرح واقف تھے وہ جانتے تھے وہ اپنی جیب سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا “-
“ٹھیک ہے دادا سائیں جیسے آپ بولیں ٹھیک ہے میں چلتا ہوں سونے بہت نیند آ رہی ہے دلاور منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جمائی روکتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا “-
” شمشیر ملک بھی جانے ہی لگے تھے باہر گاڑی کے رکنے کی آواز پر انہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا رات کے گیارہ بجے بھلا کون آ سکتا تھا وہ رک کر دیکھنے لگے اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی رہ گئیں”-
“احمد میرے بیٹے شمشیر صاحب نے آگے بڑھ کر اپنے چھوٹے پوتے کو گرم جوشی سے گلے لگایا ۔۔۔بہت یاد کر رہے تھے ہم تمہیں اچھا کیا آگئے اب ہم تمھیں اتنی جلدی نہیں جانے دینگے ۔۔۔۔شمشیر ملک اس کی آمد سے انتہائی خوش تھے آؤ کچھ دیر ہم دادا پوتے باتیں کرتے ہیں وہ احمد کو اپنے ساتھ لگائے ہوئےصوفے لے آئے “-
“دادا سائیں میں بہت تھک گیا ہوں کیا ہم صبح بات کر سکتے ہیں ؟؟؟ وہ اجازت مانگ رہا تھا وہ بیزار سا جانے کے لیے پر تول رہا تھا”-
” ٹھیک ہے!!! جاؤ تم آرام کرو ہم کل بات کرینگے وہ مسکرا کر بولے دادا سائیں سے اس کا اترا ہوا چہرہ پوشیدہ نہیں تھا انہیں احساس ہوا اتنے دنوں بعد اسے دیکھ کر اپنی خوشی میں وہ اس کی تھکن فراموش کر رہے تھے ان کی اجازت کی دیر تھی وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا جیسے آزادی کا پروانہ مل گیا ہو”-
AKASHA ALI: فیس بک پیج