قسط: 4
” مے آئی کم ان میم ؟؟؟؟ دروازے پر دستک دے کر اس نے اجازت مانگی وہ اپنے ذہن میں آنے والے سوالوں کے جواب لینے ان کے پاس آئی تھی وہ سوال جو اس کے ذہن سے چمٹ کر رہ گئے تھے “-
“کم ان !!! میم نے مصروف انداز میں بنا دیکھے اجازت دی وہ اپنے سامنے رکھی کتابوں میں کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھیں کیرل آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی اپنے سامنے کسی کو کھڑا دیکھ کر انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا کیرل کو سامنے کھڑا دیکھ کر ان کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا وہ اسلامک اسٹدیز کی ٹیچر تھیں کیرل کو ان سے بھلا کیا کام ہو سکتا تھا ….” بیٹھ جاؤ بیٹا !!! کیرل کو یونہی کھڑا دیکھ کر انہوں نے کرسی کی جانب اشارہ کیا کیرل خاموشی سے بیٹھ گئی “-
” میم میں اسلام کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں کیرل کچھ توقف کے بعد بولی اس کے الفاظ سن کر میم سمیرا کا صفحہ پلٹتا ہاتھ رکا تھا انہوں ایک نظر کیرل کو دیکھ کر کتابوں کو بند کر کے ایک طرف رکھ دیا اب وہ بھر پور طریقے سے کیرل کی طرف متوجہ تھیں”-
“آپ کیا جاننا چاہتی ہو بیٹا میم سمیرا مسکرا کر نرم لہجے میں بولیں ۔۔۔۔ کیرل نے اپنے بیگ سے نوٹ بک نکالی پھر بولی”-
“آپ لوگ اپنے نبی کو اتنا کیوں مانتے ہیں جبکہ ہمارے نبی عیسی اللہ کے بیٹے ہیں ؟”-
” میم سمیرا اس کے سوال پر مسکرائیں پھر تحمل سے بولیں۔۔۔ ” سب سے پہلی بات اللہ ایک ہے وہ وحدہ لاشریک ہے وہ پاک ہے اس کو کوئی شریک نہیں ۔۔۔۔۔قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ۔۔۔۔
(” کہو کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں”(سورۃ اخلاص) –
” اور نصاریٰ جو معاذاللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اللہ رب العزت خود قرآن کریم میں اس باطل بات کو رد فرماتا ہے ۔۔۔۔
(“یہ ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا سچی بات جس میں شک کرتے ہیں اللہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا ٹہرائے پاکی ہے اس کو جب کسی کام کا حکم فرماتا تو اس سے فرماتا ہے ہو جا وہ فوراً ہو جاتا ہے”)( سورۃ مریم آیت نمبر : 34 تا 35)-
اور اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں جیسا کہ …
(“اور عیسیٰ نے کہا بے شک اللہ رب ہے میرا اور تمھارا تو اسی کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے “)( سورۃ مریم آیت نمبر: 36 )
” اور رہی بات ہمارے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور اللہ کے حبیب ہیں تمام انسانوں پر فرض ہے ان کی اتباع کرنا ہے “-
“آپ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ ہم عیسائی کافر ہیں؟ جبکہ ہم بھی اپنے نبی کو اور ان کے احکام کو مانتے ہیں “-
“اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لیے تمھاری مزید توجہ درکار ہوگی میم سمیرا نوٹس کر رہی تھی کیرل ان کے بتائی ہو باتیں اپنی نوٹ بک میں لکھ رہی تھی ان کے بولنے پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی “-
“تمام پیغمبر نبی تو ہیں مگر رسول نہیں ہیں۔۔۔ “نبی وہ ہوتا ہے جو اپنے سے پہلے رسول کی اتباع کرتا ہے۔۔ جبکہ”رسول وہ ہوتا ہے جس کی طرف وحی اور کتاب بھیجی گئی ہو جو اپنی شریعت لے کر آئے اور اس کے آنے سے سابقہ ( پچھلے) رسول کی شریعت منسوخ ہو جائے۔۔۔اور تمام انسان اس آنے والے رسول پر ایمان لائے ۔اب چونکہ حضرت عیسیٰ رسول ہیں ان پر اللّٰہ تعالیٰ نے انجیل نازل فرمائی تو سب انسانوں کو حضرت عیسیٰ پر ایمان لانا تھا جو لوگوں عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے وہ مومن تھے باقی جن لوگوں نے انہیں معاذ اللہ خدا کا بیٹا کا کہا وہ گمراہ ہو گئے ۔۔۔ لیکن جب حضور صلی علیہ وآلہ وسلّم تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی شریعت لے کر آئیں ہیں آپ کے آنے سے حضرت عیسیٰ کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے کیونکہ رسول کے آنے سے سابقہ رسول کی شریعت منسوخ ہو جاتی ہے اب تمام انسانوں پر فرض ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔۔۔۔ اور حضور کے آنے کی خبر تو خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو دی تھی جس کا ذکر اللہ قرآن پاک میں بھی کرتا ہے :-
(“اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔ بھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو بولے یہ کھلا جادو ہے”) (سورۃ الصف آیت نمبر: 6)
“جب حضور کے آنے کی بشارت خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی دے دی تو بنی اسرائیل پر لازم تھا کہ اپنی نبی کی بشارت پر ایمان رکھتے ہوئے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے لیکن وہ منکر ہوگئے انہوں نے اپنی نبی کے احکام کو ہی نہیں مانا جب آخری رسول پر ایمان ہی نہیں لائے جن کے آنے سے حضرت عیسیٰ کی شریعت منسوخ ہوگئ تو ایمان پر کیسے ہوئے؟؟”-
” لیکن میم آپ لوگ یہ اتنے یقین کے ساتھ کیوں کہتے ہیں کہ آپ کے نبی آخری نبی ہیں ہو سکتا ہے ان کے بعد بھی کوئی نبی آ جائے ؟”-
” یہ ناممکن ہے اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کردی ہے اور اس بات کا ذکر قرآن کریم میں بھی کیا ہے :-
(“محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ ہیں ہاں مگر اللّٰہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ سب کچھ جانتا ہے”)(سورۃ احزاب آیت نمبر : 40)
” یہ بھی تو ہو سکتا ہے قرآن کو تبدیل کیا گیا ہو ؟”-
” قرآن کو تبدیل کرنا ناممکن ہے قرآن کریم کی حفاظت کا زمہ اللہ ربّ العزت نے خود لے رکھا ہے :-
(“بے شک ہم نے اتارا قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان (محافظ) ہیں”)- (سورۃ الحجر آیت نمبر : 9)
” یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے علاوہ پچھلی کسی کتاب اور صحائف کے لیے نہیں فرمائی اسی وجہ پچھلی کتابوں اور صحائف کو مکمل طور پر تغیر اور تبدیل کر دیا گیا جبکہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی قرآن میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی قیامت تک ہوگی “-
” دیکھو بیٹا اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول بھیجے آسمانی کتابیں بھیجیں کھلی نشانیاں دی انسانوں کو سمجھنے کے لیے ہر بات واضح کر دی لیکن انسان حسد عداوت پر اتر آئے ۔۔۔لوگوں نے کہا فلاں نبی افضل ہے اسی بحث میں لگے رہے جبکہ سب اللہ کے پیغمبر ہیں سب پر ایمان لانا ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تو اللہ کے حبیب ہیں وہ تمام نبیوں کے سردار ہیں ان کی شان سب سے اعلی ہے آپ کی شان اللہ تعالیٰ نے توریت ،انجیل میں بتائی ہے لیکن لوگوں نے ان کتابوں کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے بس اسی وجہ سے بہت سارے لوگ سہی اور غلط کو پہچان نہیں پاتے ۔۔۔ ہاں جن لوگوں کو اللہ نے اپنے لیے چن لیا ہے ان کا دل وہ ایمان سے بھر دیتا ہے پھر چاہے وہ دلدل میں ہیں کیوں نہ دھنسا ہو …. اور کوئی سوال ہے؟؟ میم سمیرا اسے خاموش دیکھ کر بولی “-
” کیرل نے نفی میں گردن ہلائی اس کا چہرہ ہر تاثر سے پاک تھا میم سمیرا کو سمجھنا مشکل ہو ہو گیا کہ وہ ان باتوں پر مطمئن ہوئی یا نہیں ۔۔۔ “شکریہ!!! میم کیرل اپنا سامان سمیٹ کر کھڑی ہو گئی “-
” کیرل !!! ان کے آواز پر اس کے بڑھتے قدم رکے تھے اس مڑ کر میم کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اگر کبھی بھی میری ضرورت پڑے تو آ جانا میم سمیرا کی بات پر کیرل کے لب مسکرائے ۔۔۔جی ضرور میم اینڈ تھیکنس اگین” کیرل بول کر چلی گئی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” احتشام واپس آیا؟؟؟؟ مبشر صاحب عاتکہ سے پوچھنے لگے وہ اس وقت کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں آج اتوار کا دن تھا وہ گھر میں ہی تھے پچھلے کئی دنوں سے مبشر حسین اس کے واپس آنے کاانتظار کر رہے تھے اب ان کی برداشت جواب دے چکی تھی انوار علی کا دباؤ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا تھا وہ جلد سے جلد اس معاملے کا حل چاہتے تھے “-
” آپ کیوں پوچھ رہے ہیں آپ کو میرے بیٹے کی کب سے فکر ستانے لگی؟؟؟ عاتکہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گئیں انہیں بے اختیار اس رات والا واقعہ یاد آیا جس کی وجہ سے احتشام گھر سے ہی چلا گیا تھا “-
” جو پوچھا ہے اس کا جواب دو وہ غصے سے بولے عاتکہ کے جواب پر ان تن بدن میں آگ لگ گئی ثوبیہ اور ماریہ پریشانی سے انہیں دیکھنے لگیں “-
” گاؤں گیا ہے بتا کر نہیں گیا کب آئے گا نہ ہی میری اس سے کوئی بات ہوئی ہے “-
” فون کر کے بلاؤ اپنے بیٹے کو مجھے اس سے بات کرنی ہے وہ دانت پیس کر بولے”-
” کیا بات کرینگے آپ ؟؟؟ یقیناً آپ کو رشتے کی ہی بات کرنی ہوگی ؟؟؟ آپ لوگ احتشام کا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے سکون سے رہنے دیں اسے ہر وقت میرے بیٹے سے مسئلہ ہوتا ہے بخش دیں آپ سب اسے عاتکہ کو بھی غصہ آنے لگا تھا ہر کوئی احتشام کے کندھے پر بندوق رکھ کر کھڑا ہو جاتا تھا “-
” تمھارا بیٹا ہے ہی منحوس جس کے پاس ہوتا ہے اس کی زندگی میں مشکل پیدا کرتا ہے اس کے باپ نے اپنے سر سے مصیبت اتار کر ہمارے سر ڈال دی اور مت بھولو اس بچی کو جو تمھارے بیٹے سے منسوب ہو کر جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی مزید بھی کچھ سننا چاہتی ہوں اپنے بیٹے کی تعریف میں مبشر حسین عاتکہ کو ہونقوں کی طرح خود کو گھورتا دیکھ کر بولے۔۔۔۔۔” تمھارے بیٹا دن بدن میرے لیے مصیبت بنتا جا رہا ہے انوار بھائی نے صاف لفظوں میں کہا ہے احتشام رائقہ کی پسند ہے اگر احتشام نہ مانا تو میں ثوبیہ اور ربیان کا رشتہ تو ختم ہی سمجھوں ساتھ میں سائرہ آپا( مبشر حسین کی بڑی بہن) کی طلاق کا طوق بھی اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار رہوں ۔۔۔۔” عاتکہ اگر میری بیٹی کا رشتہ ٹوٹا یا آپ کو طلاق ہوئی تو تم بھی اپنے بیٹے کے ساتھ جانے کے لیے تیار رہنا ان کے الفاظ تھے یا زہر سب اپنی جگہ ساکت ہوگئے عاتکہ کی حالت تو ایسی تھی کاٹو تو لہو نہیں “-
” بابا یہ آپ امی سے کیسی باتیں کر رہیں ہیں؟؟؟ ماریہ نے ہوش سنبھالتے احتجاج کیا اس کا باپ اتنا سفاک پتھر دل کیسے ہو سکتا ہے جو اس عمر میں طلاق کی باتیں کر رہا تھا”-
” بس !!! ماریہ بچے بڑوں کے درمیان نہیں بولتے یہ تربیت کی ہے؟؟؟ عاتکہ تم نے میری بیٹیوں کی باپ سے سوال پوچھنے لگیں ہیں ۔۔۔اس سب کا زمے دار بھی تمھارا ںیٹا ہے اس سے جان چھوٹے تو کچھ کرو گی نہ جانے کیا دکھتا ہے سب کو اس منحوس میں جو میری زندگی حرام کردی ہے وہ بھڑاس نکالتے گھر سے باہر چلے گئے”-
” امی !!! ماریہ نے عاتکہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ سر جھکائے خاموشی سے آنسوں بہانے میں مصروف تھیں ان کی اتنی سالوں کی محبت وفاداری کا یہ صلہ دیا تھا کہ ان کی تربیت پر بھی سوال اٹھا دیا تھا “-
” بھیا کتنے خود غرض ہیں صرف اپنے بارے میں سوچتے انہیں ہماری بلکل کوئی پرواہ نہیں ہے کیا ہوجائے گا اگر وہ رائقہ سے شادی کرلیں… ان کی وجہ سے ربیان بھی مجھ سے بات نہیں کر رہا وہ روتے ہوئے بتانے لگی ثوبیہ کو ربیان کی خود کو نظر انداز کرنے کی وجہ سمجھ آ رہی تھی وہ اپنی بہن کی خوشیوں کے لیے ایسا کر رہا تھا “-
“آپی آپ کو کیا ہو گیا ہے؟؟؟ ربیان بھائی آپ سے بات نہیں کر رہے تو اس میں بھیا کیا قصور ہے ان کا ان سب سے کیا تعلق ماریہ اور عاتکہ حیرانگی سے ثوبیہ کی بات سن رہیں تھیں “-
” بھیا کا ہی تعلق ان سب سے اور بہت گہرا تعلق ہے رائقہ بھیا سے پیار کرتی ہے اور پھوپھا اور ربیان نے رائقہ سے بے حد محبت کرتے ہیں اس کی کوئی بات نہیں ٹالتے تم نے سنا نہیں بابا نے کیا بتایا ہے پھوپھا میرا اور ربیان کا رشتہ ختم کر دینگے یہ سب صرف بھیا کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔۔۔۔ ایک رائقہ کا بھائی ہے اپنی بہن کے لئے اپنی بچپن کی محبت اپنی منگیتر سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہے اور ایک میرا بھائی ہے جو بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں قربانی دینا تو بہت دور کی بات ہے اگر ہمارا سگہ بھائی ہوتا تو ایسا کبھی نہیں ہوتا سوتیلے سوتیلے ہی ہوتے ہیں ثوبیہ کے الفاظ پر عاتکہ کے دل میں شدید تکلیف ہوئی جب کہ ماریہ نے افسوس بھری نگاہوں سے اپنی خود غرض بہن کو دیکھا”-
” آپی اللہ کا خوف کریں جتنا بھیا ہم سے پیار کرتے ہیں نہ ہمارا اپنا سگہ بھائی بھی نہیں کر سکتا یہ بات آپ اچھی طرح جانتی ہیں انہوں نے ہمارے لیے جو کچھ کیا ۔۔۔۔اور ہاں جب وہ ہے ہی سوتیلے تو آپ لوگوں نے کیوں ان سے امیدیں باندھ رکھی ہیں کیوں آپ لوگ ان پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ رہی بات ربیان بھائی اور آپ کے رشتے کی تو مجھے نہیں لگتا کوئی کسی کے سوتیلے بھائی یا بہن کی وجہ سے اپنا بچپن کا رشتہ توڑ سکتا ہے ۔۔۔۔کوئی پیار نہیں اس رائقہ کو صرف بھیا کے اسٹیٹس پر نظر ہے اس کی آپ پھپھو کی فیملی کی لالچی طبیعیت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔۔۔۔ خود غرض بھیا نہیں آپ لوگ ہیں جو ہر صورت صرف اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں بھیا کی کسی کو پراوہ نہیں ہے ماریہ نے اسے آئینہ دکھایا “-
” خدا کا واسطہ تم دونوں چپ کر جاؤ میرا سر درد سے پھٹ جائے گا عاتکہ کانوں پر ہاتھ رکھ بولیں ان کے سر میں شدید درد اٹھ رہا تھا “-
“چپ آپ اپنی لاڈلی کو کروائیں ۔۔۔ بابا ٹھیک کہہ رہے تھے تمھیں تربیت کی سخت ضرورت ہے ماریہ زرا تمیز نہیں رہی تم میں بڑوں سے بات کرنے کی ثوبیہ تو بلبلا اٹھی تھی ماریہ کی صاف گوئی پر ثوبیہ ان لوگوں میں سے جنہیں صرف اپنی خوشیوں سے مطلب ہوتا ہے سامنے والا جائے بھاڑ میں ان کی بلا سے ثوبیہ تن فن کرتی اپنے کمرے میں گھس گئی”-
“امی!!!! عاتکہ سر تھامتیں ہوئیں زمین بوس ہو گئیں ٹیبل پر سر لگنے کی وجہ سے ان کا خون سفید ماربل کےفرش کو رنگنے لگا ۔۔۔امی آنکھیں کھولیں …. امی اٹھیں ماریہ ان کا سر گود میں رکھتی ہوئی انہیں جاگانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔آپی !!!! آپی جلدی آئیں دیکھیں امیں کو کیا ہو گیا آپی !!!! ماریہ کی چیخ سن کر ثوبیہ بھاگتی ہوئی واپس آئی آپی بابا کو فون کریں جلدی ماریہ اسے سن کھڑا دیکھ کر چیخی ثوبیہ حواس باختہ سی فون ملانے لگی”-
” بابا فون نہیں اٹھا رہے ماریہ “-
“آپی کسی کو بلائیں ہماری مدد کے لیے دیکھیں امی کا کتنا جون بہہ رہا ہے ماریہ عاتکہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر خون کو روکنے کی ناکام کوششیں کر رہی تھی”-
” ثوبیہ ہوش میں آتی باہر کی جانب لپکی پڑوس والی آنٹی کو بلا لائی وہ تو شکر تھا ان کے شوہر گھر پر ہی انہوں فوراً ایمبولینس بلائی اور خود بھی دونوں میاں بیوی ان کے ساتھ روانہ ہوئے راستے بھر ثوبیہ مبشر حسین کو کال ملاتی رہی لیکن ان کا فون مسلسل بند آ رہا تھا”-
” عاتکہ کو روم میں لے جایا گیا تھا ماریہ نے ثوبیہ سے فون لے کر احتشام کا نمبر ملایا “-
–––––––––––––––––––––––––––
” احمد !!! تم یہاں کچھ چاہیے ؟؟؟ زیبا اسے کچن کے دروازے کھڑا میں دیکھ کر پوچھنے لگی “-
” جی بھابھی کافی بنانی ہے وہ کچن میں ادھر ادھر دیکھتا ہوا بولا کچن میں آنے سے وہ تھوڑا جھجھک رہا تھا “-
” تم بیٹھو میں بنا دیتی ہوں زیبا نے کچن میں رکھی گول میز کی کرسی کی جانب اشارہ کیا اس نے احتشام کی جھجک محسوس کر کے اس کی مشکل اسان کی احتشام کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا “-
” تم ٹھیک ہو !!! زیبا اس کے آگے کافی کا کپ رکھتے ہوئے اس کا اداس چہرہ دیکھ کر بولی”-
” جی اس نے یک لفظی جواب دی وہ چاہ کر بھی مسکرا نہ سکا “-
“تم نے جھوٹ بولنا کب سے شروع کر دیا ؟؟؟ تمھارا چہرہ دیکھ کر کوئی انجان بھی بتا سکتا ہے کہ تم ٹھیک نہیں ہو میں تو پھر بھی تمھارے چاچا زاد اور بھابھی ہوں بچپن سے جانتی ہوں تمھیں پہلے تو تم مجھ سے ہر بات شئیر کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔” احمد تم نے خود پر خوشیوں کو کیوں حرام کر لیا ہے ؟؟؟ زیبا کو دکھ ہوتا تھا اسے دیکھ کر اتنا خوبصورت پڑھا لکھا تھا اس کا دیور لیکن افسوس اس کے خوبصورت چہرے پر اداسیوں کا جہاں آباد تھا “-
ایسی کوئی بات نہیں ہے میں خوش ہوں بھابھی وہ کپ کے کنارے پر انگلیاں پھرتے ہوئے اس میں سے اڑھتی ہوئی ہلکی سی بھاپ کو غور سے دیکھ رہا تھا “-
” بہت اچھے اپنا چہرہ دیکھو اپنی بات پر غور کرو تم چہرہ تمھارے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا زیبا اس کا ستا ہوا چہرہ افسوس سے دیکھ رہی تھی “-
” ابھی وہ کچھ بولتا کے اس کا فون بجنے لگا … ہیلو !!!! ماریہ گڑیا تم رو کیوں رہی ہو احتشام اس کے رونے پر پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔کیا ہوا ہے ؟ بتاؤ مجھے ماریہ ۔۔۔۔ کیسے ؟؟ ٹھیک ہے تم رونا بند کرو میں ابھی آتا ہوں تم دونوں وہیں رہنا ٹھیک ہے اور رونا بند کرو میں آ رہا ہوں “-
“کیا ہوا احمد ؟؟ زیبا اسے جلد بازی میں جاتا دیکھ کر پوچھ اٹھی “-
” بھابھی ماں کو چوٹ لگی ہے میں شہر جا رہا ہوں وہ بتا کر اپنے کمرے میں بھاگا گاڑی کی چابیاں اور والٹ لے کر گھر سے باہر نکل گیا “-
” یہ آندھی طوفان کی طرح کہاں بھاگا جا رہا ہے ماں بیگم احتشام کو جلد بازی میں جاتا ہوا دیکھ کر کچن کے دروازے پر کھڑی زیبا سے پوچھنے لگی “-
“فون آیا تھا شہر سے بتا رہا تھا اس کی ماں کو چوٹ لگی ہے وہ ہسپتال میں ہیں زیبا کے منہ سے عاتکہ کے لیے تائی نکلتے نکلتے روکا ورنہ ماں بیگم اسے سنا سنا کر حشر کر دیتی ۔۔۔ زیبا انہیں بتا کر دوبارہ کچن میں چلی گئی “-
” اللہ کرے مر ہی جائے فرازنہ بیگم نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی انہیں تو سکون مل گیا تھا کہ عاتکہ ہسپتال میں ہے “-