حصار عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

” کیرل ایک ہفتے کی ریسرچ کرنے کے بعد ایک مضبوط فیصلہ کرتے ہوئے آج پھر میم سمیرا کے روم میں موجود تھی جو فیصلہ اس نے کیا تھا اس پر اس کا دل و دماغ دونوں مطمئن تھے ۔۔۔۔۔ وہ میم کے آنے کا انتظار کررہی تھی میم سمیرا اپنا پیریڈ لینے گئی ہوئیں تھیں “-
” گڈ مارننگ میم !!! کیرل انہیں روم میں آتا دیکھ کر کھڑی ہو گئی “-
” گڈ مارننگ !!! بیٹھو ۔۔ کیسے آنا ہوا ؟؟؟ میم سمیرا اسے بیٹھنے کا بول کر خود بھی بیٹھ گئیں “-
” میم میں ۔۔۔۔ وہ رکی میم اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔ میم میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں کیرل نے کچھ توقف کے بعد اپنے آنے کی وجہ بتائی “-
” یہ تو بہت خوشی بات ہے میم کو بہت خوشی ہوئی ۔۔۔۔ اللہ نے تمھیں اپنے دین کے لیے چن لیا ۔۔۔۔ پھر میم نے اسے کلمہ پڑھایا کیرل پر جیسے لرزا طاری ہوگیا تھا اس کی آنکھوں زارو قطار آنسوں بہنے لگے”-
” آج سے تمھارا نام ایمان ہے میم سمیرا اپنا کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آئیں اسے سینے سے لگا کر اس کے آنسوں صاف کر کے اس کا نام ایمان رکھ دیا “-
” میم میری ایک گزارش ہے پلیز آپ ابھی کسی کو بھی مت بتائیے گا کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں ۔۔۔ فلحال اس بات کو پوشیدہ رہنے دیں وہ ابھی کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی یہ بات نکلتی تو اس کے گھر تک بھی پہنچ ہی جاتی اور اس کے لیے مشکل ہو جاتی ابھی وہ کسی پریشانی کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ابھی تو اسے اپنا ایمان مظبوط کرنا تھا”-
” ٹھیک ہے ایمان میں خیال رکھوں گی تم بے فکر رہو ۔۔۔۔ بس تمھیں بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا ہے اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور کوشش کرنا کوئی ایسا کام نہ کرو جو اسلام کے خلاف ہے ۔۔۔۔ اور اگر تمھیں کبھی بھی کسی بھی معملات میری ضرورت پڑے تو بلا جھجھک بتانا میم کی بات پر وہ سر ہلاتی ہوئی انہیں شکریہ بول اپنی کلاس میں چلی گئی”-
” اے میرے مہربان رب تونے ہی اس کے دل میں ایمان ڈالا ہے اب تو ہی اس کی اور اس کے ایمان کی حفاظت کر بے شک تو بہترین حفاظت کرنے والا ہے میم سمیرا نے ہاتھ اٹھا کر دل سے ایمان کے لیے دعا کی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” میں اندر آ جاؤں ماں ؟؟؟ احتشام نے دروازے پر دستک دے کر اندر آنے کی اجازت مانگی اس وقت مبشر حسین کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے دونوں بہنیں بھی اپنے کاموں میں مصروف تھیں عاتکہ کھانا کھانے کے بعد کمرے میں آرام کر رہی تھیں اسی لیے وہ چلا آیا ورنہ مبشر حسین کی موجودگی میں وہ کبھی بھی نہیں آتا تھا نہ ہی ان کے سامنے عاتکہ سے زیادہ بات کرتا تھا اگر عاتکہ ان کے سامنے کچھ پوچھ لیتیں تھیں تو بس ان کو ہوں ہاں میں جواب دے دیتا تھا وہ زیادہ تر خاموش ہی پایہ جاتا تھا “-
” آ جاؤ احتشام عاتکہ نے اسے دروازے میں کھڑا دیکھ کر اندر بلایا اور خود اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں انہیں ہاسپٹل سے گھر آئے تین دن گزر چکے تھے ان تین دنوں میں سب نے مل کر ان کا بہت خیال رکھا تھا جس کی وجہ ان کی طبیعت کافی بہتر ہوگئی تھی ڈاکٹر کے سمجھانے کی وجہ سے مبشر حسین نے بھی ان سے کوئی بے وجہ بات نہیں کی تھی وہ خود بھی احتیاط برت رہے تھے “-
“احتشام ادھر آؤ میرے پاس عاتکہ نے اسے صوفے کی جانب بڑھتا ہوا دیکھ کر اپنے پاس بلایا وہ خاموشی سے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا “-
” کیسی طبعیت ہے اب آپ کی ماں اس نے عاتکہ کا ہاتھ تھام کر پوچھا “-
” بلکل ٹھیک ہوں دیکھ لو تمھارے سامنے ہوں ۔۔۔ تمھیں دیکھ کر تو میں ویسے ہی ٹھیک ہو جاتی ہوں عاتکہ نے محبت سے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا احتشام ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا ۔۔۔ تم بتاؤ !!! مجھے بنا بتائے ہی گاؤں چلے گئے اور وہاں جا کر بھی ماں کو ایک بار فون نہیں کیا تمھیں پتہ ہے کتنا پریشان ہو جاتی ہوں میں جب تم مجھ سے دور ہوتے ہو اپنے گھر جا کر ماں کو بلکل بھول جاتے ہو عاتکہ نے شکوہ کیا “-
” میرا کوئی گھر نہیں ہے ماں وہ عاتکہ کی اپنے گھر جانے والی بات سن کر انکار کر گیا اس بات پر عاتکہ کی اس بالوں میں حرکت کرتی انگلیاں اک لمحے کو ساکت ہوئیں تھیں “-
” ایسا کیوں سوچتے ہو یہ بھی تمھارا گھر ہے یہاں تمھاری ماں رہتی ہے اور بھی تمھارا گھر کیوں وہاں تمھارے بابا رہتے ہیں ۔۔۔ تمھارا تو دو دو گھر ہے “
” ماں میں اب بچہ نہیں رہا جسے آپ دو گھر کا دلاسہ دے کر خوش کر دینگی میں بڑا ہو چکا ہوں اور میری زندگی کا کڑوا ہی سہی مگر سچ یہی ہے کہ میرا کوئی گھر نہیں ہے یہ گھر مبشر صاحب کا ہے اور وہ گھر سجاول ملک کا یہاں ہوتا ہوں تو آپ کے شوہر کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہوں اور وہاں جاتا ہوں تو بابا کو غصہ آتا ہے میرے پاس مکان ضرور ہے ماں لیکن گھر نہیں گھر لوگوں اور محبت سے بنتا ہے شاید میں قابل ہی نہیں ہوں محبت کے وہ بول رہا تھا عاتکہ کو اس کے لہجے کا کرب نمایاں محسوس ہو رہا تھا “-
” احتشام ایسی بات نہیں ہے میرا بیٹا یہ آزمائش ہوتی ہے اللہ کی طرف سے کوئی کرے نہ کرے اللہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور میں بھی اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں عاتکہ جھک کر اس کی پیشانی چومی “-
” مجھے لگتا ہے شاید اللہ بھی مجھ سے محبت نہیں کرتا وہ ان لوگوں کو مجھ سے دور کر دیتا ہے جن سے میں پیار کرتا ہوں بولتے بولتے اس کی آواز میں نمی گھلنے لگی اس کے درد پر عاتکہ کی آنکھوں سے آنسوں نکل کر اس کے بالوں بالوں میں جذب ہو گئے”-
” تم ایسی مایوسی کی باتیں کیوں سوچتے ہو احتشام ۔۔۔۔ اللہ اپنے خاص بندوں کو ہی آزماتا ہے اور جن لوگوں کو اللہ آزمائش میں ڈالتا ہے نہ انہیں نوازتا بھی بہت ہے میری جان ۔۔۔۔ جو تم سے چھن گیا وہ تمھارے حق میں بہتر نہیں تھا اسی لیے اللہ نے تم سے لے لیا کیونکہ وہ اپنے خاص بندوں کو بہتر نہیں بلکہ بہترین سے نوازتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے اپنے رب کی زات پر تم دیکھنا ایک دن اللہ تمھیں اتنا نوازے گا کہ تمھارے لیے سنبھالنا مشکل ہو جائیگا وہ پاک زات تمھاری ہر محرومی کو ختم کردے گی ۔۔۔۔ تم بس صبر کرو میرے بیٹے صبر کا بڑا اجر ہے ۔۔۔۔ عاتکہ نے اسے پیار سے سمجھایا دروازہ پر دستک ہوئی ماریہ اندر آئی تو احتشام اٹھ کر بیٹھ گیا “-
” امی !! یہ کیا بات ہوئی آپ صرف بھیا کو ہی کہانیاں سناتی ہیں مجھے تو کبھی نہیں سناتی جب کہ بھیا بڑے ہو چکے ہیں ۔۔۔۔ صرف میں ہی اس گھر میں سب سے چھوٹی ہوں پھر بھی میرے ساتھ اتنا ظلم ماریہ ان کے لیے دودھ لے کر آئی تھی احتشام کو ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا دیکھ چکی تھی اسی لیے منہ بسور کر بولی “-
” کوئی کہانی نہیں سنا رہی تھی میں اتنی بڑی ہو گئی ہو لیکن ابھی بھی کہانیوں میں دل لگا ہوا ہوتا ہے تمھارا عاتکہ نے اسے گھورا ۔۔۔۔۔ تم یہ سب چھوڑو صبح تم نے کالج جانا ہے بہت چھٹیاں کر لی تم نے پڑھائی کا حرج ہو رہا “-
” میں صبح نہیں جاؤں گی امی اب میں پیر والے دن سے جاؤں گی تب تک آپ کی طبیعت بھی ٹھیک ہو جائے گی “-
” پیر تک تمھاری مزید پانچ چھٹیاں ہو جائیں گی “-
“او ہو امی جمعہ ہاف ڈے ہوتا ہے سٹردے آف ہوتا ہے ہمارا اور پھر سنڈے بھی تو آئیگا بیچ میں صرف دو ہی چھٹیاں ہو رہی ہیں “-
” ماریہ تم ماں کو داوا دے دو پھر آ کر میری بات سنو احتشام اسے بول کر باہر نکل گیا “-
–––––––––––––––––––––––––––”ماریہ کمرے میں آئی تو وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا “-
“شہرام پلیز یار تم کچھ دن دیکھ لو میں نہیں آ سکتا ۔۔۔۔ ماں کی طبیعت ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے اور آفس کا بھی کافی کام جمع ہو گیا ہے ۔۔۔ یار شہری ایز آ جاب کر لو تم نے صرف چیک کرنا ہو گا کہ وہ لوگ کام کر رہے یا روک کر بیٹھ گئے ہیں ۔۔۔۔ توں سمجھ نہیں رہا میں دلاور کو نہیں بول سکتا وہ دھیان نہیں کرتا یار …. احتشام شہرام کو ہسپتال کے بارے میں بول رہا تھا ماریہ کو آتا دیکھ کر اس نے صوفے پر بیٹھنے جانے کا اشارہ کیا ماریہ خاموشی سے اس کی بات ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی “-
” اگر تو ایز آ جاب کریگا تو ٹھیک ہے ورنہ میں کسی اور کو رکھ لوں گا ۔۔۔۔ شہرام پیسے لینے سے انکار کر رہا تھا مگر احتشام پیسے دینے پر بضد تھا وہ جانتا تھا شہرام کی جاب ختم ہوگئی ہے اس نے نئی جاب کے لیے ایک دو جگہ اپنی سی وی دے رکھی تھی مگر اس وقت اسے پیسوں کی ضرورت تھی اور احتشام کو کسی مخلص انسان کی جو ہسپتال کی دیکھ بھال کر سکے احتشام چاہتا تھا جلد سے جلد ہسپتال بن جائے تاکہ پھر کسی کو اس تکلیف سے نہ گزرنا پڑے جس سے وہ گزرا تھا “-
” ٹھیک ہے یار مجھے پتہ ہے تو نہیں مانے گا میں دیکھ لوں گا اب خوش شہرام نے ہار مانی “-
“ٹھیک ہے پھر میں تجھ سے بعد میں بات کرتا ہوں احتشام نے فون بند کیا “-
” ماریہ جو اس نے دن ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا میں کب سے تم سے اس بارے میں بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ ماریہ کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ اگر تمھارے بابا اور ثوبیہ غصے میں تھے تو تمھیں تو ماں کا خیال رکھنا چاہیے تھا نہ ۔۔۔۔ ثوبیہ کو تو میں زیادہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ تمھارے بابا کی بیٹی ہے اور پھر تمھارے پھوپھا نے جو شوشا چھوڑا ہے اس کی وجہ سے وہ پریشان ہے لیکن تم اور میں تو ماں کی اولاد ہیں نہ ہمیں اپنی ماں کا خود خیال رکھنا ہے تم نے سنا تھا نہ اس دن ڈاکٹر کیا کہا تھا اتنی پریشانی کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا اگر خدا ناخواستہ انہیں کچھ ہوجاتا تو ؟؟وہ ماریہ کو تحمل سے سمجھا رہا تھا “-
” آئی ایم سو سوری بھیا وہ ندامت سے سر جھکا کر بولی “-
” ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن آئیندہ خیال رکھنا اوکے احتشام نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔ اب جاؤ آرام کرو ۔۔۔۔ احتشام کے بولنے پر وہ سر ہلاتی چلی گئی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” ہیلو !!! کیسی ہو کیرل؟؟؟ اسپیکر پر ماریہ کی چہکتی ہوئی آواز ابھری ایمان نے آج خود اسے فون کیا تھا کتنا دن ہو گیا تھا وہ کالج ہی نہیں آ رہی تھی ایمان ریسیو کرتے ہی ماریہ بول پڑی “-
” ایمان کا دل کیا اسے سلام کرے لیکن وہ خاموش رہی ۔۔۔۔ کیسی ہو ماری ؟؟؟ کہاں غائب ہو اتنے دنوں سے مجھے بے وفا بول رہی تھی اور اب خود غائب ہو گئی ہو “-
” ارے ارے بس یار تم تو ایک ساتھ اتنے سارے سوال پوچھنے لگی ہو سانس تو لے لو ۔۔۔۔ میں بلکل ٹھیک ہوں گھر میں کچھ پریشانی تھی بس اسی وجہ سے نہیں آ رہی تھی نیکسٹ ویک تک آؤنگی ۔۔ماریہ گھر کے مسائل اس سے اس طرح ڈسکس کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔ تم بتاؤ کیسی ہو ؟؟؟ اتنے دنوں بعد یاد کیسے آئی میری ؟؟؟
” میں بھی بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ یاد تو تمھیں روز ہی کرتی ہوں بس کچھ مصروفیات تھی اسی وجہ سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی “-
” چلو ٹھیک ہے مجھے امی کو دوائی دینی ہے تم سے بعد میں بات کرتی ہوں ٹھیک ہے ۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا “-
” تم بھی اپنا خیال رکھنا اور جلدی کالج آنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔ ٹھیک پھر کالج میں ہی ملاقات ہو گی بائے ۔۔۔۔ ایمان نے فون بند کر کے گھڑی کو دیکھا جو آٹھ بجا رہی تھی رات کے کھانے ابھی کافی وقت تھا عشاء کی اذان ہو چکی تھی نماز کا وقت تھا اس نے سوچا جلدی سے نماز پڑھ لوں وہ فون ٹیبل پر رکھ کر باتھروم میں چلی گئی کچھ دیر بعد وضو کر کے باہر آئی جا نماز بچھا کر کھڑی ہو گئی لیکن وہ کمرے کا دروازہ لوک کرنا بھول گئی”-
” ایمان نے جب سے اسلام قبول کیا تھا اسے ہر چیز سیکھنی تھی اور اس میں میم سمیرا نے اس کی بہت مدد کی تھی وہ روازنہ ایک دو پیریڈ بنک کر کے ان کے پاس پہنچ جاتی تھی ۔۔۔ میم نے سب پہلے اسے نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ سکھایا تھا کیونکہ نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے ۔۔۔۔۔ انہوں نے تو اسے اسلامک اکیڈمی جوائن کرنے کا بھی کہا تھا مگر فلحال وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی اسی لیے اس نے گھر رہ کر ہی اونلائن قرآن پاک سیکھنا شروع کردیا تھا یہ مشورہ بھی اسے میم سمیرا نے ہی دیا تھا ۔۔۔۔ ایمان پوری توجہ اور دل لگا کر قرآن کو سیکھ اور سمجھ رہی تھی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” میکس روکو !!!! کہاں جا رہے ہو ؟؟ ولما نے اسے خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو آواز دی وہ ابھی ابھی گھر میں گھسا تھا اور سیدھا اوپر جا رہا تھا جبکہ اس کا کمرہ تو نیچے تھا ولما نیکپن سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی کچن سے باہر نکلیں “-
” میکس جو ولما سے کی نظروں سے بچ کر دبے پاؤں اوپر جا رہا تھا ان کے آواز دینے پر منہ بنا کر رک گیا دونوں ہاتھوں کو پیچھے کیا ۔۔۔ یس ممی “-
” یہ تم اوپر کہاں جا رہے ہو ؟؟؟ یہ پیچھے کیا چھپا رہے ہو ؟؟ دکھاؤ مجھے ولما نے اس کا ہاتھ آگے کیا ۔۔۔ کیا ہے اس میں ؟ ولما نے اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی باسکٹ دیکھ کر پوچھا “-
” اس میں ایک چھوٹا سا پپی ( کتا) ہے میکس نے دانت کو نمائش کر کے سچ سچ بتا دیا اور خود دوبارہ سیرھیاں چڑھنے لگا “-
” میکس نہیں !!! رک جاؤ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے ۔۔۔۔ ولما نے اسے تنبیہہ کی “-
” نو ممی میں اتنی مشکلوں سے کارلوس ( میکس کا دوست) سے ادھار مانگ کر لایا ہوں کیرل کو مزہ چکھانے کے اس نے میرے ساتھ پب جی نہ کھیل کر اچھا نہیں کیا تھا ۔۔۔۔ اب اسے پتہ چلے گا میکس کو انکار کرنے کا نتیجہ میکس اپنی آنکھوں میں شیطانی چمک لیے اوپر جانے لگا “-
” روک جاؤ میکس وہ کزن ہے تمھاری ۔۔۔ تمھیں پتہ ہے وہ دوگیز (کتوں) سے کتنا ڈرتی ہے ولما اسے روکتی رہیں مگر میکس نے ان کی ایک نہ سنی ۔۔۔۔ ولما واپس کچن میں آ گئیں “-
–––––––––––––––––––––––––––
” میکس دبے پاؤں کمرے کی جانب بڑھنے لگا کیرل کی حالت سوچ کر اسے بڑا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ اس نے دروازے کے پاس پہنچ کر آہستہ سے دروازہ کھولا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی باسکٹ اس کے ہاتھ چھوٹ کر فرش پر گر گئی “-
” ولما بھی اس کے پیچھے آئیں تھیں انہیں معلوم تھا میکس کیرل کو کتنا ڈرائے گا ۔۔۔۔ لیکن میکس کو اس کے کمرے کے دروازے پر بت بنا دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی باسکٹ فرش پر گری پڑی تھی اور وہ ساکن کھڑا تھا جبکہ باسکٹ مسلسل ہل رہی تھی یعنی پپی اندر ہی تھا تو وہ ایسے کیوں کھڑا تھا؟؟؟ ۔۔۔۔ ولما نے آگے بڑھ کر کمرے میں دیکھا اندر کا منظر دیکھ کر انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے چھت پوری قوت سے ان کے سر پر آکر گری ہو ۔۔۔۔ ایمان سجدے میں تھی پھر تشہد پڑھ کر اس نے سلام پھیرا نظر دروازے میں بت بنے کھڑے میکس اور ولما پر گئی ایمان نے تھوک نگلا ۔۔۔۔ وہ نماز میں ہی تھی جب باسکٹ کے گرنے کی آواز نے اسے اتنا تو سمجھا دیا تھا کوئی اس کے کمرے میں آ چکا ہے — پپی باسکٹ سے نکل کر اس کے کمرے میں ادھر ادھر بھاگنے لگا لیکن ایمان کو اس وقت پپی سے زیادہ خوف ان دونوں سے آ رہا تھا اسے اتنا تو پتہ تھا کہ یہ بات ایک نہ ایک دن سب کو پتہ چل جائے گی لیکن اتنی جلدی پتہ چل جائے گی یہ کبھی بھی نہیں سوچا تھا “-
” کیرل یہ سب کیا ہے ؟؟؟؟ میکس ہوش میں آتے ہوئے غصے سے اس کی طرف بڑھا اور زور سے ایمان کا بازو دبوچتے ہوئے غرایا ایمان بت بنی ولما کو دیکھ رہی تھی ولما بھی اس کی طرف آنے لگیں “-
” آنٹی میں ۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولنا چاہ رہی تھی کہ ولما کے تھپر پر اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے ۔۔۔۔ ان کا تھپڑ اتنا شدید تھا کہ اگر میکس نے اسے نہ پکڑا ہوا ہوتا تو وہ اب تک زمین بوس ہو چکی ہوتی “-
” کیا کمی رہ گئی تھی میری پرورش میں جو تم نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا بولو ۔۔۔۔ ہر طرح کی آزادی دی کہ تمھیں ماں کی کمی محسوس نہ ہو مگر تم نے میری آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ولما اسے بری طرح پیٹنا شروع ہو گئیں وہ خاموشی سے مار کھا رہی تھی ۔۔۔۔۔ کیرل میرا دل کر رہا ہے تمھارا گلہ دبا دوں تمھارے ڈیڈی کو کیا جواب دوں گی میں بتاؤ وہ ایمان کو جھنجھوڑتی ہوئیں چیخیں میکس خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا اس کے نزدیک یہ سب ٹھیک ہو رہا تھا کیرل نے گناہ کیا تھا بہت بڑا گناہ اور اسے سہی سزا مل رہی تھی “-
” کیرل تم اسلام چھوڑ دو !!!! شرافت سے باز آ جاؤ !!! ورنہ تمھارے ساتھ بہت برا ہوگا ولما نے اس کا گال دبوچ کر کہا اس کا پورا چہرہ خراب ہو چکا تھا ہونٹ کے کنارے سے خون رسنے لگا تھا گال سرخ ہو چکے تھے “-
” آئی ایم سو سوری آنٹی لیکن اب میں اپنا ایمان نہیں چھوڑونگی بھلے آپ مجھے جان سے مار دیں ۔۔۔ اسلام ہی سچا دین ہے میں جان چکی ہوں اتنی مار کھانے کے بعد بھی وہ نڈر ہو کر بولی “-
” کیرل میں تمھارا گلہ دبا دونگی ولما سخت غصے میں اس کا گلہ پکڑتی ہوئی غرائی ۔۔۔ کیرل کا دم گھٹنے لگا “-
” ممی یہ کیا کر رہی ہیں آپ مر جائے گی وہ ۔۔۔ چھوڑیں اسے میکس نے ولما کو ایمان سے دور ہٹایا ۔۔۔ ایمان کھانستی ہوئی فرش پر گر گئی ۔۔۔۔ ولما سر تھام گئی ۔۔۔۔ میکس اسے کہو شرافت سے اسلام چھوڑ دے “-
” ممی آپ انکل کو فون کریں انہیں اس کے کارنامے بتائیں اب وہ خود اس سے نمٹیں گے میکس نے ایک کڑی نگاہ فرش پر بے حال پڑی کیرل پر ڈال کر کہا “-
” میں کیا کہونگی تمھارے انکل کو انہوں نے امانت کے طور پر اسے میرے پاس چھوڑا تھا اس نے مجھے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا ۔۔۔ میری ہمت نہیں ہے ان سے بات کرنے کی “-
” ممی بتانا تو آپ کو پڑے گا انکل اس کے فادر ہیں انہیں پتہ ہونا چاہیے یہ کیا کرتی پھر رہی ہے وہ خود اسے سنبھالیں گے آپ بتا دیں پھر انکل جانے اور یہ جانے ۔۔۔۔ پتہ نہیں کب سے اس نے اسلام قبول کر رکھا ہے اگر ہم نے مزید دیر کی بتانے میں تو معاملہ مزید بگڑ جائے گا پھر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے “-
” تم ٹھیک کہتے ہو ۔۔۔۔ولما کو اس کی بات بلکل ٹھیک لگی ۔۔۔۔۔ میکس اسے کمرے میں بند کر دو ایک دو روز بھوکی رہے گی تو خود ہی عقل ٹھکانے آ جائے گی ولما غصے سے ایمان کو دیکھتی بول کر چلی گئیں “-
” تو یہ کام کرتی تھی تم کمرے میں بند ہو کر مکیس اس کے آگے پنجوں کے بل بیٹھ کر بولا ایمان نے آنسوؤں سے بھری نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ تم نے اپنے ساتھ بہت غلط کر لیا کیرل ۔۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے لوٹ آؤ میں ممی کو سمجھا لونگا وہ انکل کو کچھ نہیں بتائیں گی “-
” تمھیں جسے بتانا ہے بتا دو مجھے کوئی پرواہ نہیں اللہ اور اس کا رسول ہے میرے ساتھ مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں میں نے حق کا راستہ اختیار کیا ہے مجھے یقین ہے میرا رب مجھے تھام لے گا وہ اتنی تکلیف میں بھی مظبوط لہجے میں بولی میکس کو اس چہرے پر سکون دکھائی دے رہا تھا کچھ دیر پہلے والے ڈر کا اب دور دور تک شائبہ بھی نہیں تھا “-
” مرو تم!!! میکس تپ کر اٹھ کھڑا ہوا پپی کو پکڑ کر باسکٹ میں ڈالا اور باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔۔۔ رسوا ہوجاؤ گی تم یاد رکھنا میری بات میکس نے اسے ڈرانا چاہا “-
” پرواہ نہیں اب ۔۔۔۔ کیرل نے مسکرا کر کہا اس کا جواب سن کر میکس پیر پٹختا ہوا دروازہ لوک کر کے باہر نکل گیا”-
” اے میرے رب میں نے حق کا راستہ اختیار کیا ہے مجھے اس پر مظبوطی عطا کر اور مجھے صبر و حوصلہ دے کہ میں اس مشکل آزمائش پر پوری اتر سکوں تجھے واسطہ ہے تیرے حبیب کا میری مدد فرما ایمان وہیں فرش پر بیٹھی ہوئی دعا مانگنے لگی ۔۔۔ آنسوں آنکھوں کی باڑ توڑ کر اس کے گال بھگونے لگے “-
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial