دشتِ ہرجائی

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4

حازم تولیے سے بال رگڑتا واشروم سے باہر نکلا تو بے ساختہ طور پر اس کی نظر سماہرا پر گئی۔جو آنکھوں کو بند کیے صوفے سے ٹیگ لگائے بیٹھی تھی۔
تم کیا بیٹھی یوں ماتم کر رہی ہو۔۔ناشتہ بناو جا کر میرے لئیے۔۔کوئی جابرانہ یا دنیا سے انوکھا کام نہیں کیا ہے ۔تمہاری اور موم کی خواہش کے مطابق بس اپنا حق وصول کیا ہے۔۔۔میں تمہارا کوئی عاشق نہیں ہوں جس کو یوں نکھرے دکھا رہی ہو۔۔۔
ناٹک تو ایسے کر رہی ہو جیسے بہت ظلم ڈھا دیا ہو تم پر ۔۔وہ بالوں میں کنکھی پھیرتے ہوئے بولا۔۔
کون سا حق؟ کیسا حق؟ کس حق کی بات کر رہے ہیں آپ مسٹر حازم؟
وہ دھیمے قدم چلتی اس تک آئی اس کی آنکھوں میں دیکھتے سوال کرتی بولی۔۔
یہ ہے آپکا سو کالڈ حق۔۔وہ ۔۔۔کندھے اور گردن پر اس ستمگر کے دیے گئے نشان کی جانب اشارا کرتے ہوئے بولی۔۔
جسے ایک پل کے لئیے دیکھ حازم بھی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔۔
۔۔نہیں حازم یہ حق نہیں ہے۔۔یہ غصہ ، نفرت اور وحشت ہے جو آپ کے دل میں میرے لئیے بھری ہے۔
وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔
آپ جیسے مرد اسی طرح اپنا غصہ اوسیفیشن اپنی بیویوں پر نکالتے ہیں اور اسے حق کا نام دے دیتے ہیں۔۔تاکہ بعد میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔۔
اگر آپ لوگ زیادہ ہی حق پر اکڑتے ہیں تو بیویوں کے دوسرے حقوق کیوں یاد نہیں رہتے آپ لوگوں کو۔۔
عزت دینا ، محبت کرنا، خیال رکھنا ، بھروسہ رکھنا، اعتبار کرنا۔۔یہ سب چیزیں میاں بیوی کے رشتے کے لئیے ضروری ہیں۔۔
لیکن آج کل آپ لوگوں کے ذہن میں صرف ایک ہی حق سر چڑ بول رہا ہے۔باقی کہیں دفن ہو چکے ہیں۔۔ہمارے خوابوں کی طرح۔۔۔
تلخ مسکان چہرے پر سجائے ،آنکھوں میں بے بسی لیے۔۔وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
جب کہ حازم اس کو حیرت سے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
جس لڑکی کی زبان اس کے آگے چلتی نہیں تھی آج وہ بے خوف اس کو آئینہ دکھا گئی تھی۔
______________________
ناشتہ بنانے کے بعد سماہرا کا رخ شمائلہ بیگم کے کمرے کی جانب تھا تاکہ ان کو ناشتہ کروا کر میڈیسن دے سکے۔
جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کو کچھ معمول سے ہٹ کر محسوس ہوا۔۔اس کی نظر شمائلہ بیگم کی جانب اٹھی جو کہ کروٹ لئیے لیٹی تھیں۔
وہ ناشتہ ٹیبل پر رکھتی ان تک آئی اور ان کو آواز دے کر اٹھانے لگی۔۔
مما۔۔۔مما جی۔۔!!۔ناشتہ کر لیں میڈیسن کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔
لیکن آگے سے جواب نادارا۔۔۔
اس کو کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا۔
آگے بڑ کر سماہرا نے ان کو رخ اپنی جانب کیا مگر ان کا ڈھیلا وجود دیکھ اس کی چیخ بلند ہوئی۔۔۔
مما۔۔۔۔!!!
سماہرا کی چیخ سن سیڑھیوں سے اترتا حازم جلدی سے کمرے کی جانب آیا جہاں وہ شمائلہ بیگم کے وجود سے لپٹی رو رہی تھی۔۔
کیااا ہوا۔۔۔؟؟؟
حا۔۔حاز۔۔حازم۔۔۔مما ۔۔۔۔ہ۔۔ہمیں چ۔چھوڑ کر چلی گئیں۔۔
وہ روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی۔۔
سماہرا کی بات سن کر یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟
وہ غصے میں کھولتا اس کی جانب آیا۔۔۔
لیکن جیسے اس کی نظر اپنی ماں کے بے جان وجود پر پڑی تو اس کو کھڑا رہنا محال لگا۔۔۔
موم۔۔۔آپ ناراض ہیں۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔پر اس دنیا میں تنہاہ چھوڑ کر نا جائیں۔۔ناراضگی کی اتنی بڑی سزا نا دیں۔۔
وہ ان کے ٹھنڈے وجود کو خود میں بھینچے روتے ہوئے ہوئے بولا۔۔
اپنے کندھوں پر نرم ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے اس نے پیچھے دیکھا جہاں سماہرا کھڑی تھی۔۔
سمی۔۔۔سمی تم بولو نا موم کو وہ تمہاری بات سنیں گی۔۔بے خیالی میں اس کو یہ بھی معلوم نا ہوا کہ وہ اسکو اس نام سے پکار گایا جس سے بچپن میں پیار سے بلاتا تھا۔۔
نہیں۔۔وہ اب کسی کی نہیں سنیں گی۔۔۔۔وہ ٹپ ٹپ بہتے آنسوں کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔
______________________
اپنی ماں کی تدفین کرنے کے بعد وہ تھکے ہوئے وجود کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔جہاں اس کی نظریں سسکیوں کے ساتھ روتی سماہرا پر گئی۔۔
یہ لڑکی ہی منحوس ہے۔۔اس کے قدم اس گھر کے لئیے بھاری ثابت ہوئے ہیں۔۔توبہ توبہ اپنی ساس کو کھا گئی۔
یہ سارے جملے اس کو دورانِ تدفین سننے پڑے تھے۔
لیکن وہ صبر کا گھونٹ بھر چکی تھی۔۔۔
تم کیوں رو رہی ہو؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا مقصد پورا ہوا۔۔میری ماں کو مجھ سے دور کر دیا۔
وہ گھٹنے کے بل اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
تم ایک کالا سایہ ہوا جس نے میری خوشگوار زندگی کو اندھیرے اور ویرانی میں بدل دیا ہے۔۔
تمہاری وجہ۔۔سے صرف تمہاری وجہ سے میری ماں مجھ سے ناراض ہو کر اس دنیا سے چلی گئیں۔۔
مجھے ان سے معافی مانگنے تک کا موقع نہیں ملا ۔
اور ان سب کی زمہ دار تم ہو۔
صرف تم۔۔۔وہ چیختے ہوئے بولا۔۔غصے اور غم کی وجہ سے اس کی نسیں پھول رہی تھیں۔۔۔گوری رنگت میں سرخی سی مل گئی۔۔
میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔تمہیں مر جانا چاہیے۔۔
کہتے ہی حازم نے سماہرا کی سرائی دار گردن کو اپنی گرفت میں لے کر دبایا تھا۔سماہرا کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا ۔۔آنکھیں بار ابل آنے کو تیار تھیں۔۔اس نے حازم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اپنا اپ چھڑانے کی کوشش کی جس پر اس کی گرفت مزید سخت ہوئی۔۔حازم کے سر پر اس وقت صرف خون سوار تھا۔۔وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔۔
ٹھک ۔۔۔ٹھک۔۔۔دروازے کی آواز پر اس نے سماہرا کو رہائی بخشی تھی۔حازم کے چھوڑنے پر وہ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے کھانسنے لگی تھی۔
اور شکوہ کناں نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا جیسے یہ احساس دلانا چاہ رہی ہو۔۔۔ان سب میں میری کیا غلطی ہے۔۔
وہ اس کی نظروں کے مفہوم کو نظر انداز کرتا دروازا کھولنے گیا جہاں ملازمہ کھڑی تھی۔
صاحب نیچے آپ کو بی بی کے ابو بلا رہے ہیں۔۔
ہم تم جاو ہم آتے ہیں۔۔
نیچے جا کر اگر کوئی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔سماہرا کا ہاتھ پکڑے وہ اس کو نیچے لے کر آیا۔۔جہاں اس کے بابا اپنا بیگ پکڑے جانے کے لئیے تیار تھے۔۔
وہ اپنا ہاتھ حازم سے چھڑا کے اپنے بابا کے پاس بھاگی اور ان کے گلے لگ گئی۔۔کافی دونوں بعد کسی اپنے کا لمس پاکر وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔
گڑیا۔۔بابا کی جان روتے نہہ۔۔ان کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب ان کی نظر اس کی گردن کے نشان پر گئ۔۔
ی۔۔یہ۔۔تم نے ک۔۔کیاںہ۔۔ہے۔۔۔
ان نے حازم کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔ان کو اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
ماموں وہ ہم دونوں میاں بیوی کا معملہ ہے آپ بیچ میں نا بولیں۔۔
وہ نہایت تلخ وہ گستاخانہ لہجے میں گویا ہوا۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
سوری سوری بہت سارا والا سوری ہمارے پیارے پیارے ریڈرز۔۔۔۔ایپی دیر سے دینے کے لئیے۔۔۔۔ناراض مت ہوئیے گا۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial