قسط: 5
چٹاخ۔۔۔۔۔۔
سماہرا کے بابا کے ہاتھ سے پڑھنے تھپڑ نے حازم کی چلتی زبان کو قفل لگایا۔۔۔
یہ کس طرح بات کر رہے ہو؟؟۔۔۔
لگتا ہے باہر کے ملک میں رہ کر تم تمیز و تہذیب بھول چکے ہو۔افسوس ہو رہا ہے مجھے اپنی مرحوم بہن پر جو تمہاری صحیح تربیت نا کر سکی۔۔
ماموں پلیز۔۔میری موم کے بارے میں ،میں ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا۔۔وہ غصے کے عالم میں مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولا۔۔
کیوں ۔۔؟ کیوں نا بولوں۔۔تم میں کہیں سے بھی اپنے والدین کے جراثیم نہیں ۔۔۔
کیا تمہارے باپ نے آج تک تمہاری ماں پر ہاتھ اٹھایا۔ ؟
تو تم نے اپنی بیوی پر کیسے ہاتھ اٹھایا۔
عورت پر ہاتھ اٹھانا مرد کی مردانگی نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔۔
اب میں یہاں ایک لمحہ اپنی بیٹی کو تم جیسے وحشی اور انسانیت سے گرے ہوئے انسان کے ساتھ نہیں رہنے دوں گا۔۔
اگر آپ اپنی بیٹی کو لے کر یہاں سے گئے تو واپسی کے دروازے اس کے لئیے ہمیشہ بند رہیں گے۔۔اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ خلع دلائیں گے تو میں آپ کو یہ یاد کروا دوں کہ ہمارے خاندان میں خلع لینا مکرو ہے۔۔
اور طلاق میں دوں گا نہیں۔۔
اب فیصلہ آپ پر ہے۔۔۔
وہ تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جتانے والے انداذ میں کہتا گھر سے نکل گیا۔۔یہ بات اس کی انا کو کہاں گوارا تھی کہ کوئی اس کو دھتکارے ۔
گڑیا چلو۔۔تم میرے ساتھ۔۔
نہیں بابا۔۔میں انہیں اس حال میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔خدا کو حاضر و ناظر جان کر میں نے انہیں قبول کیا ہے۔
۔رخصتی کے وقت آپ نے اور ماما نے کہا تھا کہ شادی کے بعد سسرال ہی عورت کا اصل گھر ہوتا ہے۔۔
اس کو سنوارنا ،بنانا سب عورت کے ہاتھ میں ہے۔۔
اور۔میں اپنا گھر توڑنا نہیں چاہتی ہے۔
میں ایک طلاق یافتہ عورت بن کر لوگوں کی نظروں میں مظلوم نہیں بننا چاہتی ۔۔
یہ داغ نہیں چاہتی میں اپنے دامن پر۔۔
آپ نے کہا تھا کہ آپ کا بھرم رکھوں ۔۔۔اور آپ کی یہ گڑیا کبھی اپ کا بھرم ٹوٹنے نہیں دیگی۔۔وہ مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجائے اپنے بابا سے بولی وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پرے دھکیلتے اس کے سر پر ہاتھ رکھے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دے کر جا چکے تھے۔۔
_____________________
حازم کی ماں کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک مہینہ بیت چکا تھا۔۔کہتے ہیں کسی کے جانے سے وقت رکتا نہیں ہے۔۔، تھوڑے عرصہ کے لئیے ان کے ساتھ بتائے گئے لمحے یاد آتے ہیں۔انسان ان لمحوں کے حصار میں ہوتا ہے۔۔۔پر بہت جلد وہ واپس اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتا ہے کچھ ایسا ہی حال حازم کا بھی تھا وہ بھی اپنی زندگی میں مگن ہو چکا تھا۔۔
______________________
ہیل کی ٹک ٹک کرتی آواز پورے فلور پر گونج رہی تھی۔
وہ لڑکی گرلز پینک کوٹ پینٹ میں ملبوس بالوں کو ہائی پونی میں مقید کیے آنکھوں میں مہنگے سن گلاسس لگائے آگے بڑھ رہی تھی۔۔جب کہ اس لڑکی کے گارڈز اس کے پیچھے ہاتھوں میں گن تھامے اسکی پیروری کر رہے تھے۔۔
وہ اپنے آفس کے گلاس کے دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہوئی اور مغرور چال چلتی چکور میز کے سامنے رکھی راکنگ چئیر پر جا بیٹھی۔۔جہاں اس کا لیپ ٹپ ،ٹیشو باکس ،پین اور ایک ٹیلی فون رکھا تھا جس سے آفس کے ورکرز سے بآسانی رابطہ کیا جا سکتا تھا۔۔
______________________
سماہرا کو صبح سے اپنی طبیعت بوجھل بوجھل محسوس ہو رہی تھی۔۔کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔۔اس کا سر درد کی شدت سے پھٹا جا رہا تھا۔لیکن پھر بھی وہ میڈیسن لیتی کیچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی اگر نا بنایا تو ذلت اسی کے حصے میں آنی ہے۔۔
بابا کے ڈانٹنے کے بعد اس نے سماہرا پر دوبارا ہاتھ تو نا اٹھایا پر لفظوں کی چوٹ دینے سے باز نا آیا۔۔۔
حازم گھر آیا تو سامنے کا منظر دیکھ اس کی پیشانی پر شکن نمایاں ہوئیں۔
کیونکہ سماہرا لائٹس اوف کرکے بیڈ پر سکون کی نیند فرما رہی تھی۔۔اس نے آگے بڑھ کے اسکا ہاتھ کھینچ کر اٹھایا تھا۔۔۔
تم میں مینرز نہیں ہیں کیا؟
جب تک شوہر گھر پر نہیں آ جاتا تب تک سوتے نہیں ہیں۔۔اس دن تمہارے بابا مجھے تو بڑا درس رہے تھے۔۔اگر تمہیں تھوڑی عقل دے جاتے تو کیا تھا۔۔
سماہرا جو پندرا منٹ پہلے دوائی لے کر لیٹی تھی۔۔اچانک یوں اٹھائے جانے پر ہڑبڑا کر اٹھی اور حیرت سے حازم کو دیکھا۔۔
اب یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو؟
کھانا لگاو۔۔میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔
وہ حکم دیتے ہوئے جا چکا تھا مگر اپنی انا ،اپنے غرور اور غصے میں اس کے سر پر باندھے گئے دوپٹے کو نا دیکھ پایا یا پھر دیکھ کر بھی انجان بن گیا تھا۔۔
وہ فریش ہو کر نیچے آیا تب تک وہ کھانا لگا چکی تھی۔۔وہ کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔۔اور کھانا کھانے لگا۔۔
تمہیں کیا ہوا؟؟
وہ اس کو ٹیبل پر سر ٹکائے دیکھ کب بولا۔۔
کچ۔کچھ نہیں بس۔۔ایسے ہی سر میں درد ہے۔۔
اچھا۔۔ایک لفظی جواب دیے وہ واپس کھانے میں مصروف ہو گیا۔۔
______________________
You are my love, you are my life…
(تم میرا پیار ہو ، میری زندگی ہو)
I love you so much , I will get you and hide in my soul…..
( میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں، میں تمہیں حاصل کر کے اپنی روح میں چھپا لوں گی)
وہ لڑکی شاندار کمرے میں موجود جہاں اس کے آرام کی ہر آرائش مہیا تھی۔۔۔نائیٹ بلب کی روشنی میں کسی خوبرو نوجوان کی تصویر ہاتھوں میں تھامے ایک ٹرانس سی کیفیت میں بول رہی تھی۔۔۔
_______________________
برتن سمیٹ کر جلدی سے اوپر پہنچو؟
حازم سماہرا سے کہتا کمرے میں چلے گیا۔۔جب کہ وہ سر میں اٹھنے والے درد کو برداشت کرتی کیچن سمیٹ کر کمرے میں آئی جہاں حازم پہلے سے بیڈ پر لیٹا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔۔
میں نے سونے کے لئیے نہیں کہا..پہلے سر دباو میرا۔۔سر درد ہو گیا ہے۔۔۔سارا دن آفس میں ورکرز کے ساتھ سر کھپانا پڑتا ہے۔۔
وہ اس کو لیٹتے دیکھ کر بولا۔۔
جبکہ وہ خاموشی سے اپنے نازک ہاتھوں سے اس کا سر دبانے لگی۔۔
تھوڑا زور سے دباو!! جان نہیں ہے کیا ہاتھوں میں۔۔
تمہیں نا کبھی عقل نہیں آنی ہے۔۔۔یہاں لیٹو میں بتاتا ہوں کیسے دباتے ہیں۔کہنے کو تو ایک سلیقہ شعار لڑکی ہو مگر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتی ۔۔
حازم اٹھ کر بیٹھا اور سماہرا کا سر اپنی گود میں رکھ کر آرام آرام سے اس کے سر کی مالش کرنے لگا۔۔
اس طرح دباتے ہیں۔۔وہ اس کے سر کی فیزیو کرتے ہوئے بولا۔۔جبکہ دوسری طرف سماہرا سر میں سکون ملنے کے باعث نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی۔۔
سماہرا کو سوتے دیکھ اس نے اس کو صحیح سے لٹایا اور خود بھی اس کے ساتھ لیٹ گیا۔۔اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔
وہ جانتا تھا کہ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔لیکن یہ چیز اس کی انا کو گوارا نا تھی وہ خود سے اسے دبانے میں پہل کرے۔۔۔ اسی لئیے اس کو سیکھانے کا ناٹک رچائے اس کے سر کی مالش کر گیا۔۔۔
حازم کا دل سماہرا کے لئیے نرم پڑ رہا تھا۔۔لیکن وہ ایسا کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔کیا ان کی زندگی، ان کی کہانی مکمل ہو پائے گی۔۔؟؟
یا لے گی سماہرا کی زندگی نیا موڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔