قسط: 4
سب کی دعاوں کا ہی نتیجہ تھا کہ دل روز کو ہوش آ گیا تھا – غزان نے اس کے ہوش میں آتے کئی ہزار کے نوٹ ہاسپٹل کے باہر موجود فقیروں کو دل کے صدقے کے طور پر دیے تھے – سب سے پہلے دل سے ملنے ایوب ملک اور فریاد ملک دونوں ایک ساتھ گئے تھے جبکہ غزان ان کے ساتھ دل سے ملنے نہیں گیا تھا –
ایوب ملک دل کو سینے سے لگاتے روتے ہوئے اس سے شکایت کر رہے تھے اس کی اس بیوقوفی کی جبکہ دل انکی حالت اور ان کو روتا دیکھ بہت زیادہ شرمندہ ہوئی تھی اپنے عمل پر – تھوڑی دیر بعد ایوب ملک اور فریاد ملک روم سے باہر ائے تو وہ غزان کو اپنے پریئر روم میں جانے کا بتاتے وہاں سے چلے گئے جب کہ ان کے جاتے ہی غزان دل روز سے ملنے روم میں گیا تھا –
وہ جیسے ہی اندر ایا تو دل روز جو بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اسے دیکھ کر کھل اٹھی تھی – جان آپ آ گئے ! روز اسے دیکھتی خوشی سے بولی – جب کہ غزان چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے اس کے پاس پہنچا تھا – کیا مجھے بتا سکتی ہو اپنی اس حرکت کی وجہ ؟؟ غزان نے اپنی سنجیدہ نظریں اس پر جمائے پوچھا جس پر دل روز کے چہرے کی خوشی سمٹ گئی تھی –
چپ کیوں ہو اب بتاؤ نا ! تمہیں کیا لگتا ہے تم یہ سب کچھ کر کے مجھے بلیک میل کرو گی اور میں تمہاری بات مان لوں گا ؟؟ اگر تم جانتی ہو کہ میں تمہارے لئے کس قدر پوزیسو ہوں کس قدر مجھے تمہاری فکر ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس چیز کا ناجائز فائدہ اٹھاؤ گی –
کسی اور کا نہیں تو اپنے باپ کا ہی سوچ لیتی یہ قدم اٹھانے سے پہلے – دیکھی ہے ان کی حالت تم نے کہ کچھ گھنٹوں میں کس طرح سے وہ صدیوں کے مریض لگ رہے ہیں –
دل روز کے جواب نہ دینے پر غزان نے اپنی بات جاری رکھتے غصے سے اسے ڈانٹے کہا – کیا فائدہ اپ کے پوزیسو ہونے کا ؟؟ کیا فائدہ اپ کی فکر کا جب اپ میرا دل ہی توڑ رہے ہیں ؟؟ دل روز نے چہرہ اٹھاتے اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہا جب کہ غزان پھر اسے اسی بحث پر اتا دیکھ ضبط کا گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا –
کیوں ضد کر رہی ہو دل روز تم کیوں میری فکر میری محبت کو غلط رنگ دے رہی ہو ؟؟ نہیں ہے مجھے تم سے وہ محبت جو تم سمجھ رہی ہو نہ ہی میں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ میں تم سے شادی کروں گا –
تم ابھی ایک بچی ہو کوئی سوچ سمجھ نہیں ہے تمہیں نہ جانے کہاں سے شادی نام کا خناس دماغ میں بھر کر ا گئی ہو – میں نے اپنی لائف پارٹنر تم جیسی بالکل نہیں چاہی – ہمیشہ سے میری خواہش ایک میچور اور پڑھی لکھی بیوی کی رہی ہے اور تم میچور بالکل بھی نہیں ہو – غزان نے لہجہ تھوڑا دھیما رکھتے اسے سمجھاتے کہا جبکہ اس کی باتوں پر دل روز انکھوں میں انسو لے ائی –
اگر ہم میچور نہیں ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے ؟؟ بتائیں نا ؟؟ آپ نہیں تو ہم بتاتے ہیں کہ سارا قصور ہے آپ کا – کیونکہ اپ نے ہمیں میچور ہونے ہی نہیں دیا ہمیشہ اپ نے ہمیں بچوں کی طرح ٹریٹ کیا ہمیں بچی ہی رہنے دیا – تو کیسے ہوتے ہیں ہم میچور ؟؟ اپ نے ہمیں صرف خود تک محدود رکھا اور کچھ ہم خود بھی اپ کی حد تک ہی رہے – تو بتائیں کہ ہم کیسے ہوتے میچور ؟؟
کیسے اپ کے علاوہ کسی اور کو سوچتے ؟؟ بتائیں نا اب بولیں جواب کیوں نہیں ہے اس بات جواب اپ کے پاس ؟؟ دل روز نے بھی اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا تو غزان خاموش ہو گیا کیونکہ واقعی حقیقت تو یہی تھی اس نے خود ہی اسے اس قدر بچوں کی طرح ٹریٹ کیا کہ اس کا بچپنہ گیا ہی نہیں اور وہ میںچور ہوئی ہی نہیں – حالانکہ اس عمر میں ا کر لڑکیاں کافی میچور ہو جاتی ہیں –
جو بھی ہو دل روز لیکن میں نے تمہارے دماغ میں یہ پیار محبت کی باتیں بھی نہیں ڈالی تھیں- ہمیشہ تمہیں بچی سمجھا اسی لیے بچوں کی طرح ٹریٹ کیا اور تم واقع ہی میرے لیے بچی ہی ہو میں تم سے 12 سال بڑا ہوں کچھ تو اس عمر کا ہی لحاظ کر لو – زوریز نے کہا تو دل روز نے نہ میں سر ہلایا تھا –
نہیں پڑتا ہمیں فرق اس عمر سے – اپ ہم سے 12 سال بڑے ہوں یاں پھر جتنے مرضی سال بڑے ہوں کوئی اہمیت نہیں اس کی ہمارے سامنے. – ہمیں بس اپ سے محبت ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں ہم میچور ہو جائیں گے اپ جیسا کہیں گے ہم ویسا بن جائیں گے لیکن ہماری محبت کو مت ٹھکرائیں –
دل روز اس کی منت کرتے ہوئے بولی تو غزان نے اس کی جانب جھکتے غصے سے اس کا کندھا پکڑا تھا – نہیں کرنی مجھے تم سے شادی سنا تم نے اور اب بھول جاؤ کہ کسی غزان کی تم لاڈلی تھی کیونکہ تم اپنی حد سے بڑھ گئی ہو اور اپنی حد سے بڑھنے کے بعد تم اپنی وہ اہمیت کھو چکی ہو جو تمہاری میرے نزدیک تھی –
غزان نے ایک ایک لفظ غصے سے چباتے ہوئے کہا جب کہ دل روز نے روتے ہوئے ہچکی لی تھی – آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا تین سال پہلے اپ اپنا وعدہ توڑیں گے – دل روز کو جب کہیں سے بات بنتی نہ نظر ائی تو اس نے اسے اس کا وعدہ یاد کروایا – کیا تھا میں نے تم سے وعدہ مگر تمہارا بچپنا سمجھ کر کر بیٹھا تھا وہ غلطی مگر میرے اگے اس وعدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے –
سمجھی تم ؟؟ میں نے ہمیشہ تمہیں اس طرح کی باتوں سے دور رکھا مگر نہ جانے تم نے یہ سب باتیں کہاں سے سیکھی اور اتنا گرا لیا اپنا کردار کہ یوں بے شرموں کی طرح مجھے شادی کے لیے کنوینس کر رہی ہو –
یہ میں ہی ہوں جو تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا – اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو تمہیں ایسے ایسے القابات سے نوازتا کہ تم اپنی ہی نظروں میں گر جاتی کیونکہ زمانے والے بولڈ اور خود سے لڑکوں کو شادی کا کہنے والی لڑکیوں کو بد کردار بد چلن کہتے ہیں –
جا رہا ہوں میں کوئٹہ اور اب یہ مت سوچنا کہ تم پھر سے کوئی بے وقوفی کرو گی اور میں بھاگا چلا آؤں گا – یہ اخری مرتبہ تھا کہ میں تمہاری تکلیف پر بھاگا ایا –
غزان نے اسے کہتے قدم باہر کی جانب بڑھائے تو دل روز کی بات پر اس کے قدم تھمے تھے – جانا ہے تو جائیں پھر پلٹ کر کبھی دل روز کی طرف دیکھے گا بھی مت کیونکہ اپ کے ان اخری الفاظوں نے دل روز کی محبت کو منہ کے بل گرایا ہے –
نہیں ہے اب دل روز کو اپ سے کوئی بھی امید نہ ہی وہ اپ سے کسی قسم کی خواہش کرے گی مگر یاد رکھیے گا کہ کسی کا دل توڑو تو سکون خود کو بھی نہیں ملتا – دل روز نے اپنے انسو صاف کرتے غزان سے کہا تو غزان نے واپس پیچھے پلٹ کر اسے دیکھا جو شکایتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی مگر اس کی بات کا بنا کوئی جواب دیے غزان وہاں سے چلا گیا –
غزان کے جاتے ہی پیچھے دل روز دل کھول کر روئی تھی – اسے سانس نہیں ارہا تھا اور دل میں الگ سے درد ہو رہا تھا – اس کا بس چلتا تو وہ خود کو ختم کر کے اس تکلیف سے نجات حاصل کر لیتی لیکن اپنی ابھی کی جانے والی غلطی سے بھی وہ ابھی تک شرمندہ تھی کیونکہ اس نے اپنے باپ کی حالت دیکھی تھی اور اپنے باپ کی حالت دیکھ اسے اپنی غلطی پر بے حد شرمندگی ہوئی تھی –
اب دوبارہ سے وہ یہ غلطی نہیں دہرانا چاہتی تھی ویسے بھی غزان اسے بہت اچھے سے بتا گیا تھا کہ اس کی کیا اوقات تھی اس کی نظروں میں – وہ اسے لفظوں ہی لفظوں میں بد کردار اور بدچلن کہہ گیا تھا جب کہ اپنے کردار پر بات اتے دل روز نے اپنی محبت کو سائیڈ پر رکھتے اپنے کردار کو فوقیت دی تھی اور یہ اس کا بہترین فیصلہ تھا –
کر ہی لیا ہے فیصلہ تو اک دعا سنتے جاو !
اس ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سنتے جاو !
کوئی خوبصورت دل نشین تیری چاہت ہو جائے !
رفتہ رفتہ تجھے اس کی عادت ہو جائے !
اس قدر سر چڑھے دیوانگی تیرے !
تو ہو نید میں تو بھی اس کا نام لب پہ آئے !
وہ نہ دیکھے اک دن تو تجھے چین ہی نہ ائے !
خدا کرے تجھے بھی محبت ہو جائے !
افسانہ ہمارے عشق کا پھر سے دہرایا جائے !
تجھے میری جگہ ، اسے تیری جگہ بنایا جائے !
اس بار یہ قصہ کچھ اس طرح سنایا جائے !
کہ وہ خواہش ہو تیری تو اس کی آرزو نہ ہو !
توخود کو اس میں ڈھونڈے پر کہیں بھی تو نہ ہو !
تو سجدوں میں اس کو مانگے اس کو سوچتا رہے !
خیال میں اس کے خودی کو نوچتا رہے !
اخر میں کہانی ایسے موڑ پہ ائے !
وہ تیرے ہی رقیب کو تجھ سے بڑی خوشی سے ملائے !
کچھ بول نہ سکے ایسا صدمہ لگے تجھے !
روح تیری چیختی ہو مگر ہسنا پڑے تجھے !
اسی طرح محبت کا یہ سلسلہ چلے !
کیسے ٹوٹتا ہے دل تجھے بھی تو پتا چلے !
##################################
دانیال پھر اج دو دن بعد گھر ایا تھا جب کہ گھر اتے ہی اسے خبر مل گئی تھی کہ دل روز بالکل ٹھیک ہو کر گھر ا چکی ہے – سب گھر والے ہی اس بات پر خوش تھے سوائے ہاجرہ بیگم اور صبا کے –
دل روز کو ٹیس کرنے کے ارادے سے دانیال اس کے کمرے کی طرف بڑھا لیکن جیسے ہی اس نے اس کے کمرے کا ہلکا سا دروازہ کھولا تو اندر سے اسے دل روز کے رونے کی اواز سنائی دی تھی – شاید وہ روتے ہوئے کسی سے بات کر رہی تھی – دانیال وہیں کھڑا ہو کر اس کی باتیں سننے لگا –
##################################
امی اپ کیوں چلی گئیں اتنی جلدی ؟؟ مجھے اپ کی ضرورت ہے امی ! اپ کی بیٹی اس وقت تکلیف میں ہے ! آ جائیں نا امی مجھے اپ کے سینے سے لگنا ہے مجھے اپنے اندر کی تکلیف کو کسی سے بانٹنا ہے –
کوئی نہیں ہے میرا جس سے میں اپنے دل کی بات کہہ سکوں – جسے بتا سکوں کہ مجھے یہاں یہاں تکلیف ہو رہی ہے – ایک ہاتھ سے اپنی ماں کی تصویر پکڑے اس سے باتیں کرتی دل روز دوسرے ہاتھ سے اپنے دل کے مقام پر انگلی رکھتی بولی –
بتائیں نا میں کس کے پاس جاؤں کس کو بتاؤں اپنا درد کس کو بتاؤں کہ دل روز درد میں ہے- میرا تو کوئی بھائی بہن بھی نہیں ہے جس سے میں اپنی بات شیئر کر سکوں – کوئی بیسٹ فرینڈ نہیں ہے میرا –
جو تھا اسی نے تکلیف دی ہے مجھے ، اسی نے دل توڑا ہے میرا – اپ ا جائیں نا امی یا مجھے اپنے پاس بلا لیں – میں کیا کروں میرا دل پھٹ رہا ہے میری محبت مجھے بد کردار کہہ گئی – میں تو بابا کو بھی کچھ نہیں بتا سکتی نہ کسی اور کو – اگر اج اپ میرے پاس ہوتی یا میرا کوئی بھائی بہن ہوتا تو میں اس کے سینے سے لگتی اپنا سارا درد انسو میں بہا دیتی –
کوئی تو ہوتا جو مجھے دلاسہ دیتا مگر امی دل روز اکیلی ہے کوئی نہیں ہے دل روز کو دلاسہ دینے والا – دل روز روتے ہوئے اپنی ماں کی تصویر سے باتیں کر رہی تھی جبکہ دانیال جو اس کی باتیں سن رہا تھا پہلی بار اس کے دل کو کھنچاؤ پڑا تھا کسی کو روتا دیکھ کر ، پہلی بار اسے دل روز کے لیے برا لگا تھا –
وہ نہیں جانتا کہ اصل بات کیا ہے مگر دل روز کی باتیں اس کے دل پر لگ رہی تھیں – وہ دروازہ پورا کھولتا کمرے کے اندر ایا تھا جبکہ اس کے اندر اتے ہی روز نے فورا اپنے انسو صاف کیے تھے – خیریت تھی دانیال بھائی ؟.
دل روز نے اپنی ماں کی تصویر کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا جب کہ پہلی بار اج دانیال کی انکھوں میں دل روز کے لیے عزت تھی احترام تھا – کام تو کوئی نہیں تھا بس تمہاری طبیعت کا پوچھنے ایا تھا – دانیال اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتا بولا – کیا ہونا ہے میری طبیعت کو اپ کے سامنے ہوں ٹھیک ہوں –
دل روز نے اہستہ اواز میں جواب دیا جبکہ دانیال کو اس کی اہستہ اواز بہت چبھی تھی – وہ جس دل روز کو جانتا تھا وہ تو کبھی اس سے یوں اہستہ اواز میں نہیں بولی تھی بلکہ وہ تو اس سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھی –
کیا ہوا ہے دل روز ؟؟ دانیال نے اس سے پوچھا تو دل روز نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا تھا – کک..کیا ہوا ہے ؟؟ روز نے انجان بنتے پوچھا – تم ابھی چچی کی تصویر سے شکایت کر رہی تھی نا کہ تمہارا کوئی بھائی یا تمہاری کوئی بہن کیوں نہیں تو ادھر دیکھو میری طرف اج سے میں تمہارا بڑا بھائی ہوں اپنے پرانے رویے پر میں بے حد شرمندہ ہوں لیکن اج سے اور ابھی سے میں تمہارا بھائی ہوں تم مجھ سے اپنی ہر بات شیئر کر سکتی ہو تم مجھ پہ ٹرسٹ کر سکتی ہو –
دانیال نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے کہا تو دل روز کی انکھوں سے پھر سے انسو بہنے لگے تھے اور اگلے ہی پل وہ دانیال کے گلے لگتی زور زور سے رونے لگی – اس کے یوں رونے پر دانیال کو بھی بہت برا لگا تھا جب کہ وہ اس کے بال اور کمر سہلاتا اسے کھل کر رونے دینے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ کھل کر نہیں روئے گی اس کے اندر کی تکلیف کم نہیں ہوگی –
##################################
اب بتاؤ مجھے کیا بات ہے ؟؟ دل روز جب جی بھر کر رونے کے بعد اس سے دور ہوئی تو دانیال نے پھر سے نرمی سے پوچھا جس پر دل روز نے نظر جھکائے اہستہ اواز میں اسے ساری کہانی بتا دی تھی – ساری بات سن دانیال کو دل روز کے لیے بہت برا لگا تھا اور غزان پر اسے غصہ ایا تھا – اسے پہلے غصہ اتا تھا کہ غزان سے دل روز اتنی اٹیچ کیوں ہے ؟؟ کیوں غزان اس کا اتنا خیال رکھتا ہے ؟؟
لیکن اج اسے غصہ ارہا تھا کہ غزان نے دل روز کا دل توڑا ہے – اپنی اسے عادت لگا کر وہ اسے یوں چھوڑ کر چلا گیا – دانیال کو دل روز سے ویسے کوئی بری اٹینشن نہیں تھی – وہ بچن سے دل روز کا دوست بننا چاہتا تھا مگر غزان نے دل روز کو صرف خود تک محدود کر رکھا تھا –
اسی لیے دل روز بھی دانیال سے دور رہتی جس سے دانیال کو غصہ آتا – بس اسی غصے میں وہ دل روز کو تنگ کرتا کیونکہ وہ دل روز کو خود کی طرف مائیل کر کے غزان سے بدلہ لینا چاہتا تھا کہ دیکھو دل روز اب مجھ سے بات کرنے کو ترستی ہے – مگر یہاں دل روز کی بات سن اسے غصہ اتا ہے غزان پر – تم رونا بند کرو بس –
تم اتنی بے مول تو نہیں ہو کہ اس انسان کے لیے رؤ جو تمہیں ٹھکرا کر چلا گیا. – اب تم نہیں رو گی بلکہ تم اسے مضبوط بن کر دکھاؤ گی – اسے دکھاؤ گی کہ تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے ٹھکرانے پر – دانیال نے اس کے انسو صاف کرتے کہا – میںایسا ہی چاہتی ہوں مگر دل میں درد ہوتا ہے –
دل نے اس ہی بات پر معصومیت سے کہا جبکہ لہجہ رونے والا تھا – کوشش کرو بلکہ یہ سوچو کہ تمہیں اسے دیکھانا ہے کہ دل روز اتنی گری پڑی چیز نہیں جو غزان کے لیے روئے – دانیال نے سمجھاتے کہا تو دل روز نے بھی ہاں میں سر ہلاتے لمبے لمبے سانس لیتے خود کو نارمل کیا تھا – اب تو نہیں روں گی نا تم ؟؟
دانیال نے اس سے پوچھا تو دل روز نے نہ میں سر ہلایا تھا جس پر دانیال مسکرا پڑا – یہ ہوئی نا اچھے بچوں والی بات چلو میری پیاری سی بہن جلدی سے اٹھے اور پیارے پیارے کپڑے چینج کرے میں اپنی بہن کو باہر اؤٹنگ پر لے کر چلتا ہوں – دانیال نے اس کے بال بگاڑ تو ہے کہا تو دل روز ہنس پڑی اسے دانیال کا یہ انداز اچھا لگا تھا –
وہ بالکل بھائی کی طرح اس سے بات کر رہا تھا اور دل روز کا بھی اب فل موڈ تھا اس سے اپنے نکھرے اٹھوانے کا – وہ فورا اس کی بات مانتی بھاگ کر واش روم میں بند ہوئی تھی جبکہ دانیال اس کے یوں بھاگ کر جانے پر ہنس پڑا تھا –
وہ نہیں جانتا تھا کہ اچانک اسے کیا ہوا وہ کیوں دل روز کے لیے نرم پڑا اور اپنے خیالات اس نے دل روز کے لیے بدلے لیکن جو بھی تھا اسے اپنے پہلے والی سوچ پر بہت گھن ارہی تھی خود سے مگر اب اس نے ارادہ کر دیا تھا کہ وہ دل روز کا ایک اچھا بھائی بن کے دکھائے گا اور اندر ہی اندر خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک اچھا انسان بھی بنے گا –
کتنا عجیب ہوتا ہے نا جب ایک ہی پل میں اپ کی ساری زندگی بدل جائے اپ کے خیالات بدل جائیں اپ کا دل بدل جائے بالکل وہی ہوا تھا دانیال کے ساتھ کچھ ہی دیر میں اس کا نرم کیا پڑا اسے اپنی کوتاہیاں اپنی غلطیاں اپنے گناہ یاد اگئے –