قسط: 5
ایک سال بعد
غزان کو گئے ہوئے ایک سال ہو گیا تھا اور اس ایک سال میں دل روز بالکل تبدیل ہو گئی تھی – پہلے جو ہر وقت شرارتیں کرتی پھرتی تھی اب سنجیدہ لڑکی بن گئی تھی – غزان کی محبت کو اس نے دل میں ایک گہری قبر کھود کر دفنا دیا تھا جبکہ اس ایک سال میں وہ دانیال سے بہت اٹیچ ہو گئی تھی –
دانیال نے واقعی اپنا کہا سچ کیا تھا اور ایک بھائی سے بڑھ کر اس کا خیال رکھا تھا – سب گھر والے بھی حیران تھے ان دونوں کو دیکھ کر – وہ سب ہی جانتے تھے دانیال سے تو دل روز پہلے بات بھی نہیں کرتی تھی – اب تو جیسے غزان کی جگہ دانیال نے اس کی زندگی میں لے لی تھی –
غزان کو کوئٹہ جا کر دل روز کے ساتھ رکھے اپنے رویے پر بہت زیادہ شرمندگی ہوئی تھی – اس نے بہت بار کوشش کی دل روز سے بات کرنے کی لیکن دل روز نے اسکا نمبر شاید بلاک لسٹ میں لگا دیا تھا اور اگر وہ گھر میں کسی کے موبائل سے اس سے بات کرنا چاہتا تو بھی دل روز اس سے بات نہیں کرتی تھی –
غزان کو لگتا تھا وہ اس سے ناراض ہے لیکن دل روز اس سے ناراض نہیں تھی بلکہ وہ تو غزان کو اپنے سامنے دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی – دل سے تو غزان نے کہہ دیا تھا کہ وہ عزان کے بغیر رہنے سیکھے بٹ وہ خود اسے بہت مس کر ریا تھا وہاں – اج غزان کی گھر واپسی تھی اور وہ بہت زیادہ خوش تھا کیونکہ وہ ایک سال بعد دل سے ملنے والا تھا-
اس نے دل روز کو منانے کے لیے ڈھیر سارے تحفے بھی لیے تھے تاکہ وہ اپنے رویے کی معذرت کر سکے جو اس نے روز کے ساتھ جاتے ہوئے اپنایا تھا -اسے خود پر بے حد غصہ تھا کہ وہ دل روز کو ارام سے پیار سے سمجھا سکتا تھا لیکن اس نے روز کو ڈانٹتے ہوئے سمجھایا –
سب سے بڑی بات جو اسے چین نہیں لینے دیتی تھی وہ تھی اتے ہوئے دل روز کی انکھوں میں دیکھے انسو – وہ پتھر دل بن کر وہاں سے آ تو گیا تھا لیکن یہ وہی جانتا تھا کہ دل روز کو روتا دیکھ کر اس پر کیا بیت رہی تھی –
وہ بس یہ چاہتا تھا کہ دل روز اپنے دل و دماغ سے اس سے محبت نام کا خناس نکال دے – اس لیے وہ دل روز پر غصہ ہوا تھا – اسے یقین تھا کہ دل روز اسے جب واپس دیکھے گی تو وہ بے حد خوش ہوگی –
لیکن اس کا یقین بہت بری طرح سے ٹوٹنے والا تھا – بلکل ویسے جیسے ایک سال پہلے اس نے دل روز کا دل توڑا تھا –
##################################
دل روز کہاں جا رہی ہو؟؟ دل روز یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو کر نیچے آئی تو اسے دیکھ کر مسرت بیگم نے حیرانگی سے پوچھا – کہاں جا رہی ہوں کا کیا مطلب امی ؟؟ یونی جا رہی ہوں اپ کو پتہ تو ہے یونیورسٹی ہی جاتی ہوں اس ٹائم –
دل روز نے اپنا بیگ ڈائننگ ٹیبل پر رکھتے مسرت بیگم کو جواب دیا اور پھر اپنے لیے بریڈ اٹھا کر اس پر جیم لگانے لگی – وہ تو ٹھیک ہے بیٹا لیکن آج تمہاراجان انے والا ہے – تم اج بھی یونیورسٹی جاؤ گی ؟؟ کیا اتنی ناراض ہو غزان سے ؟؟ مسرت بیگم نے اس کے پاس اتے پوچھا –
سب کو لگتا تھا کہ غزان کے کوئٹہ جانے کی وجہ سے دل روز اس سے ناراض ہے لیکن اصل بات سے دانیال کے علاوہ کوئی بھی واقف نہیں تھا – اس سے پہلے کہ وہ مسرت بیگم کو کوئی جواب دیتی وہاں دانیال آگیا تھا – دل روز تیار ہو تو چلیں ؟؟ وہ گلاسسز لگاتا اس سے بولا –
جب سے دل روز نہیں یونیورسٹی جوائن کی تھی دانیال ہی اسے لے کر جاتا اور واپس لے کر اتا تھا – اس کی دل روز کے لیے اتنی کیئر دیکھ کر سب کو اس پر غزان کا گمان ہوتا تھا کہ جیسے جاتے ہوئے غزان اپنی روح دانیال میں ڈال کر چلا گیا ہے –
ہاجرہ بیگم اور صبا تو دانیال کے رویے پر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھیں کیونکہ دانیال نے انہیں صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ دل روز اس کی اب سے بہن ہے اور خبردار جو ان دونوں نے دل روز کے خلاف کوئی بات کہی یا اسے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی – ہاجرہ بیگم تو دانیال کے اتنا بدل جانے پر بے حد پریشان تھیں –
انہیں لگتا تھا کہ دل روز نے ان سے ان کا بیٹا بد زن کر دیا ہے – اب یہ تو دانیال کے بعد خدا ہی اچھے سے جانتا کہ وہ بد زن ہوا ہے یا سدھر گیا ہے – دانیال کے پوچھنے پر روز اپنا سر ہلاتی اپنا بیگ اٹھا کر مسرت بیگم کو خدا حافظ بولتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ پیچھے مسرت بیگم انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی تھیں –
##################################
کیا بات ہے صبح صبح تمہارا موڈ کیوں اف ہے ؟؟ گاڑی گھر سے تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ تبھی دانیال نے دل روز کی جانب منہ کرتے پوچھا – آپ کو پتہ تو ہے دانیال بھائی کہ اج غزان واپس ا رہے ہیں –
دل روز نے سر جھکائے ہاتھوں کی انگلیاں اپس میں الجھاتے جواب دیا – تو انے دو اب اس نے واپس تو انا ہی تھا بلکہ اب تو وہ یہیں رہے گا – اس کا مطلب دلروز تمہارا موڈ روز آف ہوگا ؟؟ تم نے تو کہا تھا کہ اب تمہیں اس سے محبت نہیں رہی تو پھر یہ سب کیا ہے ؟؟
گاڑی کو ایک سائیڈ پر روکتے دانیال اپنا رخ دل روز کی جانب کرتے بولا – نہیں ہمیں ان سے محبت نہیں ہے اب لیکن جب جب ہم انہیں دیکھیں گے ہمیں یاد ائے گا کہ کس طرح سے انہوں نے ہماری محبت کو ٹھکرایا تھا –
پتہ ہے نہ دانیال بھائی میں چاہے جتنا مرضی خود کو بدل لوں لیکن میں نہیں بھول پاتی وہ الفاظ جو انہوں نے مجھے کہے تھے – دل روز انکھوں میں انسو لے کر اتی ہوئی بولی تو دانیال نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے دلاسہ دیا تھا –
تم خود کو مضبوط کرو اور یہ یاد رکھو کہ تمہارا بھائی تمہارے ساتھ ہے- بس تم اسے اگنور کرنا اس سے کسی بھی قسم کی بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں – دانیال نے کہا تو دل روز نے اپنے انسو صاف کرتے ہاں میں سر ہلایا –
وہ عہد کر چکی تھی کہ وہ غزان کو بالکل اگنور کرے گی اور اس کا خود سے کیا گیا یہی عہد کسی کا چین اور سکون بری طرح سے برباد کرنے والا ہے –
##################################
روز اور دانیال واپس ائے تو سب لوگ ہی انہیں لاونچ میں ہی مل گئے تھے لیکن ان سب کے درمیان انہیں غزان بھی بیٹھا ہوا نظر ایا جسے دیکھ کر دانیال نے تو اپنے منہ کے زاویے بگاڑے تھے جبکہ دل روز کی انکھیں اسے دیکھ کر خود بخود نم ہوئی تھیں – ان دونوں پر نظر پڑتے فریاد ملک نے انہیں پکارا تھا –
ارے دانیال دل روز اگئے تم دونوں دیکھو غزان بھی ا گیا ہے واپس – فریاد ملک نے انہیں خوشی سے بتایا لیکن ان دونوں کے چہرے پر خوشی بالکل بھی نہیں ائی تھی – مروت کے مارے اگے بڑھتے مشکل سے اپنے چہرے کے تاثرات چھپاتے انہوں نے غزان سے سلام دعا کی تھی اور پھر دونوں ان سب کے درمیان ہی بیٹھ گئے تھے –
سبکی نظر دل روز کے چہرے پر تھی کیونکہ وہ دیکھنا چاہتے تھے غزان کی واپسی پر دل روز کس قدر خوش ہوتی ہے – لیکن دل روز کے چہرے پر تو خوشی کی ہلکی سی بھی رمک نظر نہیں ارہی تھی – دل روز دیکھو غزان واپس اگیا ہے کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی اس کے واپس انے کی ؟؟
کیا ابھی بھی ناراض ہو اس سے ؟؟ مسرت بیگم دل روز کو دیکھتی ہوئی بولیں تو دل روز نے بمشکل اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیری – نہیں ایسی بات نہیں ہے امی دراصل اج میں بہت تھکی ہوئی ہوں – سر درد کر رہا ہے اور میرا بس ارام کرنے کو دل چاہ رہا ہے – وہ مسکرا کر جھوٹ بولنے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر اپنا بیگ اٹھا کر بنا ادھر ادھر دیکھے کمرے کی جانب بڑھ گئی –
سب لوگ ہی اسے حیرانگی سے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے جبکہ دل روز کے وہاں سے جاتے ہی دانیال بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا – غزان تو بس ابھی تک دل روز کے کمرے کے بند دروازے کو ہی دیکھ رہا تھا –
اسے یقین نہیں ا رہا تھا اس کی دل اسے اگنور کر کے گئی ہے – وہ بھول گیا تھا کہ جب اس نے دل روز کی محبت کو ٹھکرایا تھا تب دل روز کو بھی بالکل اسی طرح یقین نہیں ایا تھا کہ اس کا جان اس کی محبت کو ٹھکرا رہا ہے –
##################################،
دل روز نے رات کا کھانا بھی باہر ا کر سب کے ساتھ نہیں کھایا تھا بلکہ ملازمہ سے کہہ کر اپنے کمرے میں ہی کھانا منگوا لیا تھا – دانیال نے اسے کھانا اکیلے بالکل بھی نہیں کھانے دیا تھا کیونکہ اس کا خود موڈ نہیں تھا باہر جا کر سب کے ساتھ بیٹھنے کا اس لیے وہ دل روز کے کمرے میں جا کر اس کے ساتھ ہی کھانا کھانے بیٹھ گیا تھا –
مجھے لگتا ہے غزان دل روز تم سے بہت زیادہ ہی ناراض ہے – کھانا کھاتے ہوئے مسرت بیگم غزان سے بولیں تو غزان نے اپنا سر ہاں میں ہلایا – ان کی بات سے وہ بھی اتفاق کرتا تھا – جی جانتا ہوں امی لیکن میں منا لوں گا اسے –
اس کے لیے ڈھیر سارے تحفے بھی لے کر ایا ہوں سب اس کی فیورٹ چیزیں لے کر ایا ہوں اور اپ دیکھنا وہ اپنے تحفے دیکھ کر بے حد خوش ہوگی اور اپنی ناراضگی بھول جائے گی – غزان نے پورے یقین سے کہا جس پر سب لوگ مسکرا پڑے سوائے ہاجرہ بیگم اور صبا کے –
##################################
رات کے تقریبا اٹھ بجے کا وقت تھا جب دل روز کے کمرے کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا تھا – دل روز اس وقت اپنی سٹڈی میں مصروف تھی دروازہ کھٹکنے کی اواز پر کتاب سائیڈ پر رکھتی دروازہ کھولنے اٹھ کھڑی ہوئی –
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے غزان کو دیکھ کر وہ دروازہ واپس بند کرنے لگی کہ تب ہی غزان نے دروازے پر ہاتھ رکھتے اسے ایسا کرنے سے روکا تھا – بس بھی کر دو اب دل اور کتنا ناراض رہنا ہے تمہیں ؟؟ بس کر دو اب یہ ناراضگی ؟؟
کہو تو کان پکڑ کر معافی مانگ لیتا ہوں – غزان نے اس سے کہتے اپنے ہاتھ میں موجود بیگ کو نیچے رکھتے باقاعدہ اپنے کان پکڑے تھے جبکہ روز اس کی بات پر دروازے کو چھوڑتی اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی – کس بات کی معافی مانگ رہے ہیں اپ ؟؟ دل روز نے پوچھا تو غزان نے شرمندہ ہوتے سر جھکایا تھا –
اپنے رویے کی! میں جانتا ہوں کہ مجھے تم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی – اور میں شرمندہ ہوں بہت ، میں تمہیں پیار سے بھی سمجھا سکتا تھا لیکن میں نے تم پر غصہ کیا اور تمہیں ہرٹ کیا – غزان نے شرمندگی سے کہا تو دل روز ہنسی تھی – اس کی ہسی میں کرب تھا –
اپ کو اپنے رویے کی معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور پیار کی تو اپ بات کریں ہی مت – بد کردار اور بد چلن لڑکیوں سے پیار سے بات نہیں کرتے – دل روز نے کہا تو غزان اور زیادہ شرمندہ ہوا – ائ ایم سوری دل روز ! میں وہ سب کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن غصے میں نہ جانے کیا کیا بول گیا –
غزان شرمندہ ہوتے بولتا اس کو کندھوں سے تھامنے ہی لگا تھا مگر دل روز فورا دو قدم پیچھے ہوئی تھی – خبردار جو اپ نے مجھے ہاتھ بھی لگایا – میں اب پرانی دل روز نہیں ہوں مجھے اب ہاتھ لگانے کی اجازت میں کسی کو بھی نہیں دیتی اور خدا کے لیے غزان بھائی چلے جائیں یہاں سے –
دل روز غصے سے بولی جبکہ اس کی بات کے اخر میں اس کے منہ سے اپنے لیے غزان بھائی کا لفظ سن کر وہ حیران ہوا تھا – دل روز تم کب سے مجھے غزان بھائی کہنے لگی ؟؟ غزان نے حیرانگی سے پوچھا –
تب سے ہی جب اپ نے میری محبت کو ٹھکرایا تھا – آپ نے ہی کہا تھا نا کہ یہ محبت نام کا خناس میں اپنے دماغ سے نکال دوں بس وہ خناس میں نے اپنے دماغ سے نکال دیا – اب جائیں مجھے پڑھنا ہے – دل روز اسے کہتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگی مگر غزان نے پھر سے اسے ایسا کرنے سے روکا تھا –
میں تمہارے لیے گفٹ لایا ہوں وہ تو لے لو – غزان کا لہجہ دھیما تھا مانو اسے ابھی تک یقین نہیں ارہا تھا کہ دل روز اس قدر بدل گئی ہے کہ اب اسے غزان بھائی کہہ رہی ہے – نہیں چاہیے مجھے اپ کے گفٹ سب کچھ ہے میرے پاس اپنے پاس رکھیے اپنے یہ لائے ہوئے تحفے دل روز ان تحفوں کی بھوکی نہیں ہے –
دل روز اسے سختی سے کہتی دروازہ بند کر چکی تھی جب کے غزان ابھی بھی وہیں کھڑا حیرت میں تھا – یہ اس کی دل روز تو نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا – اس نے خود سے سوال کیا – کاش کوئی اسے بتاتا کہ وہ اس کی دل روز کیسے ہو سکتی تھی جبکہ وہ خود اس دل روز کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر کے گیا تھا –
##################################
غزان کو واپس ائے ہوئے دو سے تین دن گزر گئے تھے اور ان تین دنوں میں دل روز بالکل بھی اس کے سامنے نہیں ائی تھی – اگر غلطی سے سامنا ہو بھی جاتا تو وہ خاموشی سے اس کے پاس سے گزر جاتی تھی –
ان تین دنوں میں غزان نے جو بات بے حد نوٹ کی تھی وہ یہ تھی کہ دل دانیال سے بہت زیادہ اٹیچ ہو گئی تھی – مانو جیسے اس نے غزان کی جگہ دانیال کو دے دی تھی اور غزان یہ دیکھ کر اور بھی حیران تھا دانیال بھی بالکل چینج ہو چکا تھا – دل کا دانیال سے بات کرنا اس کے ساتھ ہنسنا باہر جانا غزان کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا –
نہ جانے کیوں اسے جلن ہوتی تھی دل روز کو دانیال کے ساتھ دیکھ کر – وہ خود حیران تھا کہ اخر اسے کیوں جلن ہو رہی تھی – لیکن اگر وہ غور کرتا تو شروع دن سے اس کا یہی حال تھا کہ وہ دل روز کو کسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا –
اس نے دل روز کو صرف خود تک محدود رکھا تھا اور یہی وجہ تھی کہ دل روز پھر بس اس تک ہی محدود ہو کر رہ گئی لیکن اب اس کا یوں دانیال کے ساتھ اٹیچ ہو جانا غزان کو بے حد غصہ دلا رہا تھا –
اس کا بس چلتا تو وہ دل روز کو ڈانٹ ڈبٹ کر دانیال سے دور کر دیتا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اب وہ دل روز پرانی دل روز نہیں تھی جو اس کی بات مانتی بلکہ اب تو وہ دل روز غزان کی دل روز تھی ہی نہیں یہ تو شاید دانیال کی دل روز تھی –