قسط: 6
غزان اج سے اپنی ڈیوٹی پھر سے مری میں جوائن کرنے والا تھا اس لیے وہ اپنے کمرے سے آرمی یونی فورم میں تیار ہو کر باہر نکلا کہ تب ہی اس کی نظر دل روز پر پڑی جو سیم ٹائم پر اپنے کمرے سے نکلی تھی –
دل روز کو دیکھ کر غزان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی لیکن جیسے ہی اس کی نظر دل روز کے بالوں پر پڑی اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی – اس نے حیرت سے انکھیں پھاڑے دل روز کے بالوں کو دیکھا جو کندھوں سے تھوڑا تھوڑا نیچے ا رہے تھے جبکہ دل روز کے بال تو کمر سے بھی نیچے اتے تھے کیونکہ غزان نے اسے کبھی بال کٹوانے ہی نہیں دیے تھے –
دل روز سے زیادہ اسے خود اس کے بالوں کی فکر ہوتی تھی فری ٹائم میں تو وہ باقاعدہ اس کے بالوں میں اچھے سے خود تیل لگاتا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا دل روز کے بال اور زیادہ اچھے سے گروتھ کریں لیکن اب دل روز کہ کٹے ہوئے بال دیکھ کر غزان کو بے حد غصہ ایا تھا – پچھلے کچھ دنوں سے دل بالوں کو کیچر میں قید رکھ رہی تھی جس کی وجہ سے غزان کا پہلے دیہان نہیں گیا تھا اسکے بالوں پر –
یہ بھولتے ہوئے کہ دل روز اس سے ناراض ہے وہ غصے سے لمبی لمبی پھلانگیں بھرتا دل روز کے پاس پہنچا تھا – دل روز کے پاس پہنچتے ہی اس نے غصے سے اس کو دونوں کندھوں سے پکڑا تھا جبکہ اس کے یوں اچانک ا کر کندھے پکڑنے پر دل روز نے حیران ہوتے اسے دیکھا – یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں مجھے – دل روز اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتے بولی –
کس کی اجازت سے تم نے بال کٹوائے ہیں ؟؟ غزان نے غصے سے اس سے پوچھا – کس کی اجازت سے اپ کا کیا مطلب ہے میرے بال ہیں میں جب چاہے انہیں کٹواؤں یا انہیں لمبا رکھوں اس سے اپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے –
دل روز نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاتے دو قدم پیچھے ہوتے کہا جب کہ غزان تو اس کے بولنے پر حیران تھا – وہ دل روز جو ہمیشہ خود کو بھی مخاطب کرنے کے لیے ہم یا ہمیں کا لفظ یوز کرتی تھی وہ اب خود کو میں اور مجھے کہہ کر پکار رہی تھی – کیا اس نے اتنا خود کو بدل لیا تھا کہ اپنا رہنے کا انداز اپنا بولنے کا انداز پہننے اوڑھنے کا سلیقہ ہر چیز وہ بدل چکی تھی –
دیکھو دل روز تم جانتی ہو نا مجھے تمہارے بال کتنے پسند تھے میں نے تمہیں کبھی اجازت نہیں دی انہیں کٹوانے کی تو تم کیسے کٹوا سکتی ہو بال ؟؟ غزان نے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے نرمی سے کہا کیونکہ وہ اور دل روز کو خود سے بدظن نہیں کر سکتا تھا – مجھے کوئیفرق نہیں پڑتا کہ اپ کو پسند ہیں یاں نہیں – مجھے ایسے اچھے لگتے ہیں تو میں نے کٹوا لیے –
اور میں کیوں مانوں اپ کی بات ؟؟ میں میرے ہر عمل کے لیے خود مختار ہوں مجھے کسی کے حکم کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اگر مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت ہے تو وہ میرا باپ ہے اور ان کی اجازت سے ہی میں نے اپنے بال کٹوائے ہیں باقی میں کسی کی بات کو کسی بھی خاطر میں نہیں لاتی –
دل روز نے غزان کو اپنے الفاظوں سے اس کی اہمیت بتائی تھی کہ اب وہ اس کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا ہے – پہلے بھی تو تم میری ہی کہی بات مانتی تھی نا – غزان نے اسے یاد کروایا جب کہ اس کی بات پر دل روز طنزیہ ہنس پڑی – اپنی بات کے اخری لفظوں پر غور کیجئے کہ میں بات مانتی تھی –
لفظ تھی پر غور کیجئے یعنی میں بات ماضی میں مانتی تھی تھی- یہ حال ہے غزان بھائی اور اب دل روز کسی کی بھی نہیں مانتی – کیا ہے نا یہ میں نے خود کو خود تک محدود کر لیا ہے اب میں کسی کی بھی بات نہیں سنتی ، نہ کسی کی عادت ڈالتی ہوں خود کو اور نہ ہی میں اب کسی پر ڈیپینڈ کرتی ہوں –
بہتر ہوگا یہ بات اپ بھی سمجھ لیجئے – دل روز اسے کہتی اس کے سائیڈ سے ہو کر گزر گئی تھی جبکہ غزان اسے روکنے کے لیے فورا اس کے پیچھے جانے ہی والا تھا مگر تب ہی دانیال بھی وہاں پر اگیا تھا جو اب دل روز سے بات کر رہا تھا – دانیال سے بات کرتے ہوئے دل روز کے چہرے پر گہری مسکراہٹ تھی بالکل ویسی جیسے کبھی اس سے بات کرتے ہوئے دل کے چہرے پر ہوتی تھی –
یعنی اب غزان کی جگہ دانیال لے چکا تھا – دانیال اور دل روز اپس میں بات کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے جبکہ پیچھے غزان خود کو بالکل اکیلا اور خالی ہاتھ محسوس کر رہا تھا – اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی دل اس سے بہت دور جا چکی ہے لیکن پھر اسے خیال ایا کہ دور کرنے والا بھی تو وہ خود ہی تھا –
تو پھر اب شکوہ کیسا ؟؟ اس کا بالکل بھی اب موڈ نہیں تھا کہیں پر بھی جانے کا اس لیے وہ واپس اپنے کمرے میں چلا گیا تاکہ اپنا یونیفارم چینج کر سکے –
##################################
کافی دیر کمرے میں بند رہنے کے بعد وہ اپنے پینٹنگ روم کی طرف چل پڑا – پینٹنگ روم کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوتے اس نے لائٹ ان کی تھی جب کہ لائٹ ان ہوتے ہی پورے کمرے میں روشنی نے بسیرا کیا تھا –
جیسے ہی پورے کمرے میں روشنی بکھری ہر طرف کمرے میں دل روز کی تصویریں نظر انے لگیں جو اس نے اپنے ہاتھوں سے پینٹ کی تھیں – دل روز کے چھوٹے ہونے سے لے کر پچھلے سال تک کی اس کی ساری تصویریں تھیں اس روم میں –
کسی میں وہ ہاتھوں میں پھول لیے بیٹھی مسکرا رہی تھی تو کسی میں ائس کریم کھاتے ہوئے کھلکھلا رہی تھی – کہیں پر اس نے پنک کلر کی فراک پہنی تھی تو کہیں پر سکول یونیفارم میں تیار بیٹھی تھی – عرض یہ کہ غزان نے دل روز کے ہر ایک مومنٹ کو اپنے ہاتھوں سے تصویر کی صورت میں قید کیا تھا –
پنک فراک والی تصویر دیکھ کر اسے چار سال پہلے کا وہ دن یاد ایا جب دل روز نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اس سے شادی کرے گا – ان ساری تصویروں کو دیکھ کر اس کے ضمیر نے ہنستے ہوئے اس سے سوال کیا تھا کہ کیا تم اب بھی یہی کہتے ہو کہ تمہیں دل روز سے محبت نہیں ؟؟
اگر تمہیں اس سے محبت نہیں تو کیوں تم نے اپنا پورا پینٹنگ روم صرف اس کی تصویروں کی پینٹنگ سے بھرا ہوا ہے ، اگر تمہیں اس سے محبت نہیں تو کیوں تم اس کی ناراضگی برداشت نہیں کر پا رہے ، اگر تمہیں اس سے محبت نہیں تو کیوں تمہیں اس کا کسی اور کے ساتھ بات کرنا ہنسنا ملنا برا لگتا ہے –
اپنے ضمیر کے خود سے پوچھے گئے سوالوں پر غزان کو احساس ہوا تھا کہ ہاں اسے بھی تھی دل روز سے محبت مگر کبھی اس نے اس محبت کو خود پر بھی ظاہر نہ ہونے دیا اور اپنی ہی محبت سے انجان رہا – وہ یہ سمجھتا رہا کہ وہ اسے چھوٹے بچوں کی طرح عزیز ہے – مگر وہ تو اس کی عادت تھی ، اس کی محبت تھی شاید اس کا عشق تھی –
تب ہی تو غزان کو وہ بے حد عزیز تھی اسی لیے تو اس نے اج تک ہر کام روز کے کہنے پر کیا حتی کہ اس نے ارمی بھی دل روز کے کہنے پر ہی جوائن کی جب کہ اسے ارمی میں جانے کا بالکل بھی کریز نہیں تھا – گھر سے جانے سے پہلے بنا دل روز کو دیکھے وہ اپنا قدم بھی گھر سے باہر نہیں رکھتا تھا –
جب تک رات کو سونے سے پہلے وہ دل روز کو نہ دیکھ لیتا اسے نیند نہیں اتی تھی – دل روز کی چہرے کی مسکراہٹ اس کا پورا دن خوبصورت بنا دیتی تھی اور وہ پاگل پھر بھی ان سب باتوں کے باوجود اس محبت سے انجان بنا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ نہیں اسے تو دل روز سے محبت ہے ہی نہیں لیکن اب جب اسے احساس ہو رہا تھا تو دل روز اس سے بہت دور ہو چکی تھی –
وہ اس سے بدگمان ہو چکی تھی اور اسے بدگمان کرنے والا بھی وہ خود ہی تھا – اسے یاد ایا کہ کیسے دل روز نے روتے ہوئے تڑپتے ہوئے اس سے اپنی محبت کی بھیک مانگی تھی اور کس طرح غزان نے سنگدلی کا ثبوت دیتے اس کی محبت کو ٹھکرایا تھا –
ان ساری باتوں کا احساس ہوتے غزان ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا اور اپنا سر ہاتھوں میں گرا کر اپنے سلکی کالے بال مٹھی میں دبوچ چکا تھا – یہ کیا کر دیا تم نے غزان ملک ؟؟ اپنے ہاتھوں سے تم نے اپنی محبت کو دور کر دیا – تم نے اپنی دل کو خود سے دور کر دیا –
کیسے نہیں جان پائے تم اپنے ہی دل کا حال کیوں نہیں سمجھ پائے اپنے احساسات کو ؟؟ وہ خود کو کوستا خود سے ہی شکایت کر رہا تھا جبکہ اس کا ضمیر اور اس کی قسمت اس پر ہنس رہے تھے کہ دیکھو ایسے ہی ہوتا ہے جب کسی کی محبت کو ٹھکرا کر اس کا دل بری طرح سے توڑو اور پھر وہی محبت تمہیں بری طرح سے منہ کے بل گرائے –
کوئی خوبصورت دل نشین تیری چاہت ہو جائے !!
رفتہ رفتہ تجھے اس کی عادت ہو جائے !!
اس قدر سر چڑھے دیوانگی تیرے !!
تو ہو نیند میں تو بھی اس کا نام لب پہ ائے !!
وہ نہ دکھے تجھے اک دن تو تجھے چین ہی نہ ائے !!
خدا کرے تجھے بھی محبت ہو جائے !!
##################################
وہ بے قراری سے دل روز کے واپس انے کا انتظار کر رہا تھا – اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ دل روز کو اپنا حال دل سنائے گا اسے بتائے گا کہ ہاں وہ اس سے شادی کرے گا وہ دل روز کی محبت کو اپنائے گا وہ اسے بے تحاشہ خوشیاں دے گا بس ایک بار جو روز اسے معاف کر دے –
وہ لاؤنج میں بیٹھا ہی ان کا انتظار کر رہا تھا کہ تب داخلی دروازے سے وہ دونوں اندر اتے ہوئے نظر ائے – دونوں بے حد خوش تھے ایسے جیسے نہ جانے کتنی بڑی کوئی ان کی لاٹری نکلی ہو – اچھا دل تم اپنے کمرے میں جاؤ میں بھی اپنے کمرے میں جا رہا ہوں ارام کرنے رات کو میں تمہارے کمرے میں اؤں گا ہم مل لڈو کھیلیں گے اور یاد رکھنا اس بار ہارنے والا شاپنگ کروائے گا –
دانیال دل روز سے کہتے اپنے دائیں ہاتھ سے اس کے بال بکھیرتا غزان کو اگنور کیے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا جبکہ دل روز نے بھی غزان کو دانیال کی طرح اگنور کرتے اپنا رخ اپنے کمرے کی جانب کیا – دل روز کے کمرے میں جاتے ہی غزان بھی اٹھ کر فورا اس کے پیچھے گیا تھا اس سے بات کرنے –
##################################
کمرے میں آ کر دل روز نے اپنا بیگ بیڈ پر رکھتے ڈریسنگ ٹیبل سے پونی اٹھا کر اپنے بالوں کو اس میں قید کیا تھا کہ تبھی اس کے روم کا دروازہ ناک ہوا – اسے لگا کہ ایوب ملک ائے ہوں گے اس لیے اندر انے کا کہتے وہ بیڈ پر جا کر بیٹھتی اپنی ہیل اتارنے لگی –
دروازہ کھولنے کی اواز پر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو غزان کو دیکھ کر وہ فورا کھڑی ہوئی – کیوں بار بار ا رہے ہیں میرے سامنے آپ غزان بھائی ؟؟ کیا اپ کو ایک بار کہی میری بات سمجھ نہیں ارہی ؟؟ کتنی دفع میں اپ سے کہوں کہ مجھے اپ سے بات نہیں کرنی مجھے اپ کی شکل نہیں دیکھنی –
دل روز تو اس کے بار بار سامنے انے پر غصے سے پھٹ ہی پڑی تھی جبکہ غزان اس کے غصے کو اگنور کرتا اس کے پاس پہنچا تھا – مجھے تم سے بات کرنی ہے پلیز باتتو سن لو دل – غزان نے اس کے پاس پہنچتے کہا جب کہ اس کے یوں ڈھیٹوں کی طرح پھر سے خود سے مخاطب کرنے پر دل روز صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گئی تھی –
میرا نام دل روز ہے تو مجھے پورے نام سے پکاریں دوسرا اپنی بات جلدی کہیں اور پھر جائیں میرے کمرے سے – دل روز نے اسے سختی سے کہا – مجھ سے شادی کرو گی ؟؟ غزان ایک دم بولا تو دل روز حیران رہ گی تھی –
پھر سے کہیے گا کیا کہا آپ نے ؟؟ دل روز نے نہ سمجھی بھرے تاثرات چہرے پر لاتے کہا جبکہ اس کے کہنے پر غزان نے پھر سے اپنی بات دہرائی تھی جس پر اب کی بار دل روز ہستی چلی گئی تھی حتہ کہ اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے – ہاہا آپ کو لگتا ہے میں اب بھی آپ سے شادی کی خواہشمند ہوں ؟؟
دل روز نے سینے پر ہاتھ باندھتے اس سے پوچھا – میں جانتا ہوں دل روز کہ میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا تھا لیکن مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں میں اپنی محبت کو سمجھ ہی نہیں پایا پلیز مجھے معاف کر دو – میں امی سے بات کروں گا ہمارے رشتے کی ہم پھر سے اپنے درمیان سب کچھ ٹھیک کریں گے پلیز مجھے معاف کر دو مجھے ایک موقع دے دو –
غزان نے دل روز کی منت کرتے کہا جبکہ دل روز تو اس کی باتوں پر ہنستی ہی جا رہی تھی – مجھے اپ سے شادی نہیں کرنی اور ویسے بھی اب میں کسی اور سے شادی کا وعدہ کر چکی ہوں اور اگلے دو ماہ میں میری اس سے شادی بھی ہونے والی ہے – دل روز نے غزان پر جیسے پورے گھر کی چھت ہی گرا دی تھی –
وہ تو دل روز کے الفاظوں پر ساقت ہی ہو گیا تھا – یہ کیا کہہ رہی ہو تم دل روز ؟؟ دیکھو اگر تم مذاق کر رہی ہو تو بتا دوں کہ بہت ہی بیہودہ مذاق ہے یہ – غزان نے تھوڑا غصہ ہوتے کہا – میں مذاق نہیں کر رہی اور نہ مجھے شوق ہے آپ سے مزاق کرنے کا – میری بات پر نہیں یقین تو جا کر گھر کے کسی بھی فرد سے پوچھ لیں –
میری شادی ہونے والی ہے اور میرا ہونے والا شوہر بابا کے دوست کا بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ میرا کلاس فیلو ہے اور دوست بھی ہے – اس نے مجھے پروپوز کیا تھا اور میں نے اس کا پروپوزل ایکسپٹ کر لیا کیونکہ میں کسی کا دل نہیں توڑ سکتی نا اپ کی طرح –
دل روز نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے غزان کو بتایا تھا جبکہ غزان سے تو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا محال ہوا تھا –
تم جھوٹ بول رہی ہو مجھے پتا ہے – اگر ایسا کچھ ہوتا تو امی ابو یا گھر کا کوئی بھی فرد مجھے بتاتا ضرور – لیکن کسی نے مجھ سے اس متعلق بات نہیں کی – غزان نے اس کی بات کو جھٹلاتے کہا – ہ
ہں انہوں نے نہیں بتایا کیونکہ ان کو میں نے منع کیا تھا اور سب کو قسم دی تھی کہ کوئی بھی اپ کو نہیں بتائے گا اور کہا کہ جب اپ واپس ائیں گے تو اپ کو خود پتہ چل جائے گا – دل روز مسکراتے ہوئے اسے کہتی بیڈ پر رکھا اپنا بیگ اٹھا کر بیگ سٹینڈ پر لٹکانے لگی کہ تبھی غزان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا –
تم یہ شادی نہیں کرو گی ! غزان نے اسے جیسے حکم دیا – کیوں نہیں کروں گی میں یہ شادی ؟؟ میں یہ شادی کروں گی اور ہر حالت میں کروں گی اور پلیز جائیں اب میرے کمرے سے مجھے ارام کرنا ہے – دل روز بھی ضدی انداز میں کہتی اسے کمرے سے جانے کا کہہ چکی تھی جب کہ غزان کا تو بس نہیں چل رہا تھا وہ پوری دنیا کو تہس نہس کر دیتا – دیکھتا ہوں کیسے کرتی ہو تم یہ شادی –
تمہاری شادی صرف مجھ سے ہوگی کیونکہ تم صرف غزان کی دل ہو اور غزان اپنی دل کو کسی اور کا نہیں ہونے دے گا – غزان اسے انگلی سے وارن کرتے ہوئے کہتا کمرے سے نکل گیا تھا جبکہ اس کے کمرے سے جاتے ہی دل روز جو خود کو تب سے مضبوط ظاہر کر رہی تھی ایک دم بیڈ پر کندھے ڈھیلے چھوڑتی بیٹھ گئی تھی اور پھر بے اواز رونے لگی – کیوں کرتا تھا وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ایسا ؟؟
پہلے اسے اپنی عادت لگا کر اسے چھوڑ گیا اور پھر جب اس نے خود کو مضبوط بنایا تو اب پھر سے اگیا تھا اسے کمزور کرنے لیکن اس بار دل روز کمزور نہیں بننے والی تھی وہ غزان کو دکھانا چاہتی تھی کہ اس نے کیا کھویا ہے –