دل جان

maya khan

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

ساری دنیا کے رواجوں سے بغاوت کی تھی !
تم کو یاد ہے جب میں نے محبت کی تھی !
اسے راز دار مان کر بتایا تھا حالِ دل اپنا !
پھر اس سخص نے مجھ سے عداوت کی تھی !
جب تیری یادوں نےآنکھوں کو بھگو دیا تھا !
تو میں نے تسبیح پر ایک نام کی تلاوت کی تھی !
اسے چھوڈ کر جب ہستے ہوئے گھر آیا !
اتنا رویا کہ آنکھوں نے شکایت کی تھی !
میرے اجڑنے کا سبب جب بھی کوئی پوچھتا ہے نہ !
بس اتنا کہہ دیتا ہوں محبت کی تھی !
##################################
رات بڑی مشکل سے غزان نے گزاری تھی اور پھر صبح ہوتے ہی وہ مسرت بیگم کے پاس پہنچ چکا تھا – تاکہ ان سے کنفرم کر سکے کہ کیا واقعی میں دل روز کا رشتہ طے کر دیا گیا ہے ؟؟ امی مجھے اپ سے بات پوچھنی ہے –
مسرت بیگم اس وقت کمرے میں اکیلی تھیں کہ تب ہی غزان نے ان کے پاس اتے کہا جب کہ اس کے چہرے پر عجیب سی بے چینی نظر ارہی تھی – کیا ہوا ہے میرا بچہ کیا بات پوچھنی ہے تمہیں ؟؟ ادھر اؤ میرے پاس بیٹھو –
مسرت بیگم نے اسے کہتے ساتھ اپنے پاس بٹھایا تھا – کیا واقعی میں ہی دل روز کا رشتہ طے کر دیا ہے اپ لوگوں نے ؟؟ غزان کے سوال پر مسرت بیگم مسکرا پڑیں – انہیں لگا کہ غزان ان سے اس لیے پوچھ رہا ہے کیونکہ وہ دل روز کی فکر کرتا ہے اور اب اسے یہ فکر تھی کہ نہ جانے وہ لڑکا کیسا ہوگا – بتا دیا تمہیں دل روز نے ؟؟ میں تو تمہیں بتانے والی تھی لیکن دل روز نے ہم سب کو منع کر دیا تھا –
اس نے کہا تھا جب تم واپس اؤ گے تو وہ خود ہی تمہیں بتا دے گی – بتا دیا اس نے تم کو لگتا ہے – اور کیا ہو گئی تم دونوں کی صلح ؟؟ مسرت بیگم مسکراتے ہوئے کہتیں اخر میں اس سے تجسس سے پوچھنے لگیں – اپ ان سب باتوں کو چھوڑیں اپ میری بات کا صحیح سے جواب دیں کون ہے وہ لڑکا کس سے اس کا رشتہ طے کیا ہے ؟؟
غزان نے ان کی بات کو اگنور کرتے پریشانی سے پوچھا – تمہارے چاچو کے دوست کا بیٹا ہے اور دل روز کا کلاس فیلو بھی ہے – مسرت بیگم نے اسے جواب دیا – اس کا کلاس فیلو ہے تو مطلب وہ دل جتنا ہوگا مطلب چھوٹا ہے – اتنی جلدی شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے پھر ؟؟
غزان کے اندر کی تو بے چینی ختم ہی نہیں ہو رہی تھی – او ہو کس نے تم سے کہہ دیا کہ وہ دل روز کی عمر کا ہے دراصل اس کی عمر 23 سے 24 سال ہے اس کی والدہ بتا رہی تھیں کہ انہوں نے اس کا ایڈمیشن لیٹ کروایا تھا کیونکہ وہ بچپن میں بیمار بہت رہتا تھا – ان کا اکلوتا بیٹا ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اس کی خوشیاں دیکھ لیں –
دل روز بتا رہی تھی کہ اس نے اسے پروپوز کیا تھا اور دل روز نے اس کا پروپوزل ایکسیپٹ کر لیا تھا – ہمیں تو نہیں پتہ تھا کہ وہ تمہارے چاچو کے دوست کا بیٹا ہوگا وہ تو جب وہ رشتہ لے کر ائے تب تمہارے چاچو اپنے دوست کو دیکھ کر کافی حیران تھے اور پھر تو تمہارے چاچو کو بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض نہ تھا –
کیونکہ وہ اپنے دوست اور اس کی فیملی کو بہت اچھے سے جانتے ہیں- تمہارے چاچو تو بہت خوش ہیں اس رشتے پر – مسرت بیگم اپنی ہی دھن میں غزان کو ساری بات بتائی جا رہی تھیں جبکہ غزان کا تو یہ حال تھا کہ اسے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا – یعنی دل روز صحیح کہہ رہی تھی یہ رشتہ اس کی مرضی سے ہی ہوا تھا –
ویسے تمہیں ایک بات کہوں غزان – اچانک مسرت بیگم نے اسے مخاطب کرتے پوچھا تو غزان ان کی طرف متوجہ ہوا – جی امی کہیں ! غزان نے خود کو نارمل ظاہر کرتے کہا – میری ناں دلی خواہش تھی کہ دل روز تمہاری دلہن بنتی – کتنی محبت ہے نا تم دونوں میں اور پھر میری بیٹی ہمیشہ میرے پاس رہ جاتی –
لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم بالکل بھی ایسا نہیں چاہتے ہو گے اسی لیے میں نے بات نہیں کی تمہارے چاچو سے ورنہ دل روز کو میں تمہارے لیے تمہارے چاچو سے مانگ لیتی – مسرت بیگم اداسی سے بولتیں غزان کے دل کو مٹھی میں جکڑ گئی تھیں – اب وہ انہیں کیا بتاتا کہ وہ بھی تو چاہتا تھا دل روز اس کی دلہن بنے لیکن سب کچھ اس نے خود بگاڑ دیا تھا –
اس سے پہلے وہ مسرت بیگم کو کوئی جواب دیتا اچانک سے اس نے پلٹ کر دروازے کی جانب دیکھا تھا – دل ارہی ہے اپ کے کمرے میں امی – غزان نے دروازے کو دیکھتے مسرت بیگم سے کہا تو انہوں نے حیران ہوتے بند دروازے کو دیکھا – تمہیں کیسے پتہ دل روز ا رہی ہے ؟؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا –
آپ بھول گئی ہیں شاید امی کہ میں شروع سے ہی جان جاتا ہوں دل روز جب بھی قریب ہوتی ہے – اپ کو یاد نہیں جب اس کی سکول وین ہماری قالونی میں ابھی انٹر ہوتی تھی اور میں جان جاتا تھا کہ دل روز پہنچنے والی ہے – ابھی تو پھر وہ آپ کے کمرے سے تھوڑا دور ہے –
غزان نے انہیں مسکراتے ہوئے جواب دیا اور تبھی دل روز ہلکے سے دروازہ نوک کرتی اندر ائی تھی – دل روز کو دیکھ کر غزان اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا کیونکہ وہ ریڈ کلر کی فراک میں بہت ہی زیادہ پیاری لگ رہی تھی اور اوپر سے اس نے ہونٹوں پر ریڈ رنگ کی ہی لپسٹک لگا رکھی تھی –
انکھوں میں بھر بھر کر کاجل لگائے وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ غزان نے بے ساختہ ماشاءاللہ کہتے نظروں ہی نظروں اس کی نظر اتاری تھی –
جو اس پہ انی وہ مجھ پہ ائے !
میں اپنے سر لوں بلائیں اس کی !
سوائے اس کے کہ وہ حسیں ہیں !
کوئی برائی بتائیں اس کی !
غزان کو اندر مسرت بیگم کے پاس بیٹھا دیکھ کر پہلے تو اس کا دل کیا کہ وہ واپس چلی جائے لیکن پھر اس سے اگنور کیے وہ مسرت بیگم کی جانب متوجہ ہوئی جب کہ اس کے خود کو اگنور کرنے پر غزان نے لمبا سانس کھینچا تھا –
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا !
سامنے بیٹھا تھا وہ میرے اور وہ میرا نہ تھا !
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو !
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا !
امی میں اج حماد کے ساتھ یونیورسٹی جانے والی ہوں کیونکہ دانیال بھائی کی میٹنگ تھی اور وہ جلدی چلے گئے ہیں – بابا کو میں نے بتا دیا ہے وہ کہہ رہے تھے اپ کو بھی ایک بار بتا دوں – دل روز کی بات پر مسرت بیگم کے ساتھ غزان بھی حیران ہوا تھا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ حماد کون ہے –
میں چھوڈ آتا ہوں تمہیں – غزان نے کہا تو دل نے ناچاہتے ہوئے مسرت بیگم کے سامنے اسے جواب دیا تھا – نہیں شکریہ حماد باہر آ چکا ہے – دل نے غزان کو انکار کیا تو غزان اسے دیکھ کر رہ گیا تھا – کہاں وہ اس کے بغیر کبھی کہیں جاتی نہیں تھی اوراب اس کے ساتھ نہیں جاتی تھی – حماد باہر ہے اندر نہیں آیا کیا ؟؟
مسرت بیگم نے حیران ہوتے پوچھا جس پر دل روز نے ہاں میں سر ہلایا – جی وہ باہر گاڑی میں میرا انتظار کر رہے ہیں – دل روز نے انہیں جواب دیا جبکہ غزان کو ابھی بھی سمجھ نہیں ائی تھی کہ اخر یہ حماد ہے کون –
دل روز مجھے پہلے بتاتی میں بچے کے لیے کچھ بنا کر رکھتی اللہ دل روز تم کتنی لاپرواہ ہو وہ کیا سوچ رہا ہوگا کہ میں اپنے ہونے والے سسرال میں پہلی مرتبہ ایا ہوں اور ان لوگوں نے مجھے اندر بلا کر چائے پانی کا بھی نہیں پوچھا – مسرت بیگم پریشانی سے کھڑی ہوتیں دل روز پر غصہ کرتی بولیں جب کہ ان کے غصے پر دل روز مسکرائی تھی –
دوسری جانب غزان بھی سمجھ چکا تھا کہ حماد ہی وہ لڑکا ہے جس کے ساتھ دل روز کی منگنی ہوئی ہے – وہ ایک دم سے کھڑا ہوتا کمرے سے باہر نکل گیا کیونکہ اسے دیکھنا تھا کہ اخر یہ حماد صاحب دیکھتے کیسے ہیں اور کس شخصیت کے مالک ہیں –
نہیں امی ہمیں یونیورسٹی کے لیے دیر ہو رہی ہے اور میں نے ان سے چائے پانی کا پوچھا ہے وہ کہہ رہے ہیں نہیں تم بس جلدی سے ا جاؤ – اپ بے فکر رہیں وہ کچھ نہیں کہتے میں جانتی ہوں انہیں – ویسے بھی واپسی میں نے انہی کے ساتھ انا ہے تب پلا لینا آپ چائے پانی – دل روز ان کو کندھوں سے پکڑ کر کول ڈاؤن کرتی بولی –
اچھا ٹھیک ہے لیکن دیکھ لو دل روز بہت برا لگ رہا ہے مجھے تو – مسرت بیگم کو واقعی بہت برا لگ رہا تھا کہ حماد پہلی بار گھر ایا ہے اور روز نے اس سے اندر بھی نہیں بلایا – کچھ نہیں ہوتا کوئی برا نہیں لگ رہا اور ہاں میں اج دیر سے واپس اؤں گی کیونکہ میں نے اور حماد نے اج ڈیزائنر کو میری شادی کے لہنگے کا ارڈر دینے جانا ہے –
اپ کو تو پتہ ہے نا پھر وہ تیار کرنے میں کتنی دیر لگاتے ہیں اس لیے مجھے حماد کہہ رہے تھے کہ ہم ٹائم سے لہنگے کا ارڈر دے اتے ہیں –
دل روز نے انہیں اپنے لیٹ انے کا بتاتے ساتھ وجہ بھی بتائی تھی جس پر مسرت بیگم نے مسکرا کر اس کے گال تھپتھپائے تھے – اچھا ٹھیک ہے پر خیال رکھنا اپنا اور چلو اؤ میں ذرا حماد سے مل تو لوں کم سے کم یہ تو نہیں کہے گا کہ اس سے کوئی ا کر ملا بھی نہیں – مسرت بیگم اسے کہتں اس سے پہلے ہی کمرے سے باہر نکلی تھیں جب کہ دل روز مسکرا کر ان کے پیچھے نکلی تھی –
##################################
غزان حماد سے ملنے اس کے پاس تو نہیں گیا تھا مگر اس نے دوسرے پورشن کی گرل سے ہی اسے دیکھ لیا تھا جو گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا دل روز کا انتظار کر رہا تھا – وہ بہت خوبصورت تھا مگر غزان سے کم تھا لیکن حماد کو دیکھ کر اسے اج لفظ رقیب کا اصل معنی میں مطلب سمجھ ایا تھا –
ہاں واقعی وہ اسے اپنا رقیب سمجھ رہا تھا جب کہ حماد ہر چیز سے بے خبر دل روز کا انتظار کر رہا تھا – دل روز اور مسرت بیگم کہ وہاں اتے اس نے اگے بڑھ کر فورا مسرت بیگم کے سامنے اپنا سر جھکایا تھا جس پر انہوں نے اس کہ سر پر ہاتھ رکھتے اسے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا تھا –
دل روز اور حماد کے جاتے ہی مسرت بیگم واپس اندر چلی گئی تھیں جب کہ غزان جو دوسرے پورشن کی گرل سے حماد کو دیکھ رہا تھا ان کے وہاں سے جانے پر وہ بھی پیچھے پلٹا مگر اپنے پیچھے صبا کو دیکھ کر اسے حیرانگی ہوئی تھی – تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟ غزان نے اسے دیکھتے پوچھا جس پر اس نے اپنے دانت دکھائے تھے –
وہ جب سے اپ ائے ہیں اپ نے مجھ سے بات ہی نہیں کی اچھے سے تو میں نے سوچا کیوں نہ میں خود ہی اپ کے پاس ا کر اپ سے بات کر لوں – صبا نے بے فضول اپنے دانتوں کی نمائش کرتے کہا جب کہ اسے دیکھ کر غزان کو اریٹیشن ہو رہی تھی –
اسے شروع دن سے ہی وہ اچھی نہیں لگتی تھی کیونکہ صبا میں دکھاوا بہت تھا یعنی وہ جیسی تھی ویسا خود کو ظاہر نہیں کرتی تھی اور یہ بات غزان بہت اچھے سے جانتا تھا اس لیے اسے وہ پسند نہیں تھی کیونکہ اسے دوغلے لوگوں سے نفرت تھی – میرے پاس ٹائم نہیں ہے مجھے ضروری کام سے جانا ہے پھر کبھی تم سے بات کروں گا – غزان اسے کہتے جانے لگا مگر صبا نے اسے پھر سے روکا تھا –
اچھا وہ کیا آپ سے دل روز کی ناراضگی چل رہی ہے کسی بات پر ؟؟ صبا نے انکھیں جھپکتے تیکھے انداز میں پوچھا مقصد صاف غزان کو چڑھانا تھا کیونکہ وہ ان دونوں میں دیکھ رہی تھی کہ غزان اور دل روز کے درمیان ناراضگی چل رہی ہے –
وجہ تو وہ نہیں جانتی تھی لیکن ہاں وہ یہ ضرور دیکھ رہی تھی کہ ناراضگی دل روز کی جانب سے تھی کیونکہ غزان تو اسے بہت بار مخاطب کرتا اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا لیکن ہمیشہ دل روز اسے اگنور کر دیتی تھی – اسے یہ دیکھ کر خوشی تو بہت ہوتی تھی لیکن اسے یہ تجسس بھی تھا کہ اخر ان دونوں کے درمیان ہوا کیا ہے کیوں کہ وہ دونوں تو کبھی ایک دوسرے کے بغیر رہتے ہی نہیں تھے –
جو بھی تھا باقی سب گھر والوں کی طرح اسے نہیں یہ لگتا تھا کہ غزان کے ایک سال گھر سے دور رہنے کی وجہ سے دل روز اس سے ناراض ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو غزان کے واپس ا جانے پر دل روز فورا اپنی ساری ناراضگی بھلا دیتی لیکن یہاں تو وہ اس سے دیکھ کر ہی اپنا رخ موڑ لیتی تھی اسی لیے صبا کو اور زیادہ تجسس تھا کیونکہ اسے اندر کی بات جاننی تھی –
صبا تم اپنے کام سے کام رکھو میں اور دل روز ناراض ہیں یا نہیں ہیں اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر وہ مجھ سے ناراض ہے بھی تو مجھے اچھے سے اتا ہے اسے منانا اج نہیں تو کل میں اس نے منا لوں گا اس لیے بہتر ہے کہ تم یہ چٹخے لینے والا کام نہ کرو – غزان اس کو اچھے سے بے عزت کرتا وہاں سے چلا گیا جب کہ پیچھے صبا اپنا سا منہ لے کر رہ گئی تھی –
##################################
دل روز دیکھو تین دن ہو گئے ہیں یہ مجھے مسلسل اگنور کر رہا ہے نہ جانے کس بات کا گھمنڈ ہے اسے وجہ بھی نہیں بتا رہا اپنے ناراض ہونے کی اور اگر میں بات کروں تو جواب بھی نہیں دیتا نہ میرا فون اٹھاتا ہے یونیورسٹی میں بھی مجھ سے بات نہیں کرتا اور گھر جا کر بھی اس کا یہی حال ہے میں ان کے گھر بھی گئی تھی کل لیکن اس شخص نے میری طرف منہ بھی نہیں کیا –
دل روز کی دوست زینب اس کے پاس اتی اپنے منگیتر احمد کی شکایت لگاتے بولی جو کہ اس کا ہمسایہ بھی تھا – دراصل حماد دل روز زینب اور احمد ان چاروں کا اپس میں گروپ تھا اس لیے ابھی زینب احمد کو دل روز کے پاس بیٹھا دیکھ کر اس سے شکایت لگاتی بولی جب کہ زینب کی شکایت پر دل روز نے احمد کو گھور کر دیکھا جس پر احمد نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے دل روز کو دکھایا تھا –
کیوں تنگ کر رہے ہو تم زینب کو ؟؟ دل روز نے احمد کو گھورتے ہوئے پوچھا جس پر احمد نے کوئی جواب نہ دیا تو زینب کو اور زیادہ غصہ ایا – اب میسنے بن کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو جواب دو نا کیوں اتنے دن مجھے اگنور کیا ایسے جیسے تم اندھے ہو اور تمہیں نظر ہی نہیں اتی میں – زینب نے دانت پیستے ہوئے کہا تو اس بار احمد ایک دم سے کھڑا ہوا تھا – کیا کہا تم نے مجھے میں اندھا ہوں ؟؟
احمد نے اپنی طرف اشارہ کرتے پوچھا جب کہ زینب نے فورا ہاں میں سر ہلاتے تصدیق کی تھی – اگر میں اندھا ہوں تو قصور بھی تمہارا ہی ہے زینب – احمد نے انگلی سے اس کی جانب اشارہ کرتے اسے قصوروار ٹھہرایا تو زینب کے ساتھ دل روز بھی حیران ہوئی تھی – وہ کیسے ؟؟ وہ دونوں ایک ساتھ بولیں – وہ ایسے زینب بی بی کہ !
نہ تو چھت پہ اتی نہ میں دیوانہ ہوتا !
نہ تو وٹا مارتی نہ میں کانا ہوتا !
سیریس انداز میں فنی شیر پڑھتے اخر میں وہ انکھ مار کر وہاں سے بھاگ گیا تھا جبکہ زینب کو اب سمجھ ائی تھی کہ وہ تین دن سے جان بوجھ کر اسے ستا رہا تھا – وہ بھی غصے سے لال پیلی ہوتی اپنا بیگ اٹھا کر اس کے پیچھے اسے مارنے کے لیے بھاگ گئی تھی جبکہ دل روز ہنستے ہوئے ان دونوں کو ٹومن جیری کی طرح ایک دوسرے کے اگے پیچھے بھاگتے دیکھ رہی تھی –
چلیں دل روز ہمیں ٹیلر کے پاس بھی جانا ہے – دل روز زینب اور احمد کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی کہ تبھی حماد اس کے پاس اتا بولا تو وہ ہاں میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے ساتھ چل پڑی-
،
##################################
لہنگے کا ارڈر دیتے حماد اسے لنچ کروانے کے لیے ریسٹورنٹ میں لے گیا تھا اور اب دونوں کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر کی باتیں بھی کر رہے تھے – اپ کو پتہ ہے حماد میں نے انہیں بتا دیا کہ میری منگنی ہو چکی ہے اور بہت جلد شادی ہونے والی ہے – دل روز نے اچانک کہا تو حماد حیران ہو کر اسے دیکھتے لگا اور یہ سوچنے لگا کہ اخر وہ کس کی بات کر رہی تھی مگر تبھی اس کو غزان کا خیال ایا –
غزان کی بات کر رہی ہو تم ؟؟ حماد نے پوچھا تو دل روز نے ہاں میں سر ہلایا – جی میں ان کی ہی بات کر رہی ہوں – دل روز نے اسے جواب دیتے بریانی کا چمچ منہ میں رکھا تھا – تو کیا کہا پھر اگے سے اس نے ؟؟ حماد نے بھی تجسس سے پوچھا – کچھ نہیں یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے کیوں نہیں پتہ وغیرہ وغیرہ اور اپ کو پتہ ہے انہوں نے مجھےپرانے رویے کی معافی مانگتے اپنی محبت کا اظہار کرتے پروپوز بھی کیا تھا شادی کے لیے لیکن میں نے انکار کر دیا –
اچھا کیا نا ؟؟ دل روز نے اسے بتاتے ساتھ اس سے تائید چاہی جب کہ حماد نے ہاں میں سر ہلاتے اس کی تائید کی تھی جس پر روز واپس سے اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی – وہ اسے اپنی ساری باتیں بتاتی تھی اور حماد اس کی باتیں سنتا بھی تھا –
اگر دانیال کے بعد اس نے غزان کے بارے میں کسی کو بتایا تھا تو وہ حماد تھا کیونکہ جب حماد کا پروپوزل اس نے ایکسیپٹ کیا تھا تو اس نے حماد کو ہر بات بتائی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بعد میں اس کے لیے کسی قسم کی پریشانی ہو –
وہ اپنے مستقبل کو اپنے ماضی کی وجہ سے برباد نہیں کر سکتی تھی – وہ دونوں خاموشی سے اپنا کھانا کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے کہ تبھی ویٹر ان سے ان کے پاس ایا تھا – سر اپ پینے کے لیے کیا لینا چاہیں گے ؟؟ ویٹر نے ان سے پوچھا- ایسا کریں دو مینگو جوس لے ائیں کیونکہ یہ ہم دونوں کو ہی بہت پسند ہے –
دل روز نے مسکراتے ہوئے جلدی سے ویٹر کو جواب دیا جبکہ حماد جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ایک دم اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی – دل روز مجھے مینگو جوس سے الرجی ہے ! حماد نے اس کو یاد دہانی کروائی تو دل روز کے چہرے کی مسکراہٹ بھی غائب ہوئی تھی – ہاں واقعی حماد کو تو مینگو سے الرجی تھی –
مینگو جوس تو غزان کا فیورٹ تھا حماد کا نہیں – یہ بات یاد اتے ہی اس کا کھانے سے دل بھر گیا تھا – کچھ نہیں پینے کے لیے منگوانا بھائی اپ جائیں – اس نے ویٹر کو منع کرتے پاس پرے ٹشو سے اپنے ہونٹ اور ہاتھ صاف کیے تھے اور پھر بڑی مشکل سے اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاتے حماد کو دیکھا تھا –
میرے خیال سے اب ہمیں چلنا چاہیے میرا پیٹ بھر گیا ہے – دل روز نے حماد سے کہا تو حماد نے بھی ہاں میں سر ہلاتے ویٹر کو بل لانے کا کہا تھا جبکہ دل روز اٹھ کر باہر چلی گئی تھی – دل روز کے ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے تک حماد کی نظروں نے اسے دیکھا تھا –
اسے پتا تھا کہ دل جتنا مرضی غزان کو بھلانے کی کوشش کرتی مگر آج بھی غزان کے لیے اس کا دل جزبات رکھتا تھا – اور یہی بات اس کو تو تکلیف دیتی مگر دل روز کو بھی تکلیف دیتی تھی –
وہ جانتی تھی کہ میں دنیا نہیں محبت ہوں !
اس لیے وہ مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھی !
اسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا !
یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رلاتی تھی !
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial