دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے
تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے
جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے
وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے
خاک ہی اول و آخر ٹھہری
کر کے ذرے کو گہر کیا کرتے
رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے
عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسب ہنر کیا کرتے”
“کھلا آسمان”..
“آسمان میں چمکتا چاند”….
“اس باریک چاند کی مدھم روشنی میں کھڑی وہ صنف دلہن کے لال جوڑے میں ملبوس اپنے خیالوں میں گم نظر آتی تھی زیورات اور میک اپ سے سجی وہ دوشیزہ کافی حسین لگ رہی تھی ،” چاند کے مدھم سائے میں اسکا یہ سراپا مزید نکھر رہا تھا “…
لیکن اس کے چہرے پر چھائی اداسی کسی بہت بڑے دکھ کا سندیشہ دے رہی تھی جیسے زندگی سے بہت گہری چوٹ کھائی ہو اس نے ہاں اس نے چوٹ ہی تو کھائی تھی کسی بہت اپنے سے جسے اپنے دل بے حد قریب پاتی تھی وہ جس کی سیج سجانے کے خواب بہت پہلے سے دیکھتی آئی تھی لیکن” افسوس ،٫ اس کے وہ خواب پورے نا ہو سکے کیونکہ آج وہ دوشیزہ کسی اور کے نام لکھ دی گئی تھی اس شخص کے نام،” جو بنا اس کی مرضی کے اس کی زندگی میں داخل ہوا ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔
اب دیکھنا یہ تھا کیا وہ لڑکی “قبول کر پائے گی اس رشتے کو”…؟؟؟یا رہے گئی اس کی سوچ پر اپنی پرانی زندگی کی داستان ہاوی..”۔۔؟؟؟
»»»»»»»»»»❣️💯 «««««««««
کچھ مہینے پہلے۔۔۔۔
غازی روم میں داخل ہوا تو اپنی بیوی کو توقع کے عین مطابق روتے دیکھ اس کے دل کو کچھ ہوا تھا ہوا کے سپرد ایک سرد آہ خارج کیے اس کے پہلو میں آ بیٹھا تھا اور کوٹ اتار سائڈ پر رکھا
“غزل”…
“تمہیں یوں ،فنکشن چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا”…
ہاتھوں میں پہنی گھڑی اتار کر سائڈ ٹیبل پر رکھی تھی اس نے اور ایک نظر پہلو میں روتی غزل پر ڈالی جو اب بھی گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔۔۔
آ۔۔آپ کے ک۔۔کہنے کا م۔۔مطلب ہے، میں ان ۔۔ان آنٹیوں کی فضول باتیں سنتی “…؟؟؟
ہنوز اسی پوزیشن میں بیٹھتے وہ ہچکیوں کی صورت میں بولی تھی۔
“غازی”۔۔۔
وہ آنٹیاں ٹھیک ہی بول رہی تھیں میرا آپ کے پاس ہونے کا کو ۔۔۔کوئی فائدہ نہیں آ۔۔آپ کو دوسری شادی کر لینی چاہیے ک۔۔کیونکہ م۔۔میں آپ کو اولاد کی خوشی نہیں دے سکتی”…
“آنکھوں کو ضبط سے بھینچے جس ٹوٹے دل سے وہ بولی تھی اس کے لفظوں نے بھی ساتھ نا دیا تھا اس کا کیوں کہ ان لفظوں کے نشتر جس طرح اس کے دل پر لگ رہے تھے یہ بس وہی جانتی تھی لیکن اپنی اس بات سے ساتھ بیٹھے اپنے شوہر کا پارہ ہائی کر چکی تھی کہ غازی کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی تھیں رگیں تن سی گئی تھی آنکھوں میں غصہ جھلکنا شروع ہو گیا تھا۔
کیا بولا ہے تم نے دوبارا دوہرانا”..؟؟
“ہاتھ بڑھا کر اپنی جانب کھینچا تھا اسے وہ جو اس حملے کے لئے تیار نہ تھی کسی کٹی ڈالی کی مانند اسکے کشادہ سینے سے آ ٹکرائی۔
و۔۔۔وہ م۔۔میں”۔۔۔۔۔نظریں جھکاتی وہ لب کچکلتے لگی
“آئندہ اگر یہ فضول بات تمہاری زبان پر آئی تو بخدا یہ زبان گدی سے الگ کرنے میں لمحہ نہیں لگاؤں گا۔۔۔
لہجے میں سنجیدگی طاری کیے وہ پاس موجود اپنی بیوی سے بولا تھا سفید رنگت اس وقت غصے کی زیاتی سے لال سرخ ہو رہی تھی جبکہ چہرے پر موجود رگیں ابھرنے لگیں۔
غازی کے اتنے شدید ریکشن پر غزل لمحے بھر کے لئے خوف ذدہ سی ہوئی تھی وہ جو پہلے ہی آنسوں کی برسات کرنے میں مصروف تھی غازی کے اسطرح سے ڈانٹنے پر مزید پھوٹ پھوٹ کر رو دی کہ اس کا غصہ جھاگ کی مانند بیٹھتا چلا گیا۔
“غزل”
میری جان “…
دیکھو میں نے کبھی تمہیں اس بارے میں کچھ کہا…؟؟
نہیں نا۔۔۔۔؟؟
تو پھر تم اس بات کو سوچنا چھوڑ دو کیوں کہ جب مجھے تم سے کوئی مسلئہ نہیں ہے تو دنیا والے کون ہوتے ہیں بہتر یہی ہے کہ ان کو چھوڑ تم بس ہماری زندگی پر توجہ دو۔
“ک۔۔کیسے غازی”…؟؟؟
“کیسے چھوڑ دوں”..؟؟؟
“آبدیدہ آنکھیں اٹھائے اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولی تھیاسکی آنکھوں میں دوبارا آنسوں کو بہتے دیکھ غازی نے ان آنسوں کو اپنے لبوں سے چنا تھا کہ غزل کی دھڑکنیں منتشر ہونا شروع ہوئی تھیں۔
تم غازی کی جان ہو غزل اس طرح ان آنسوں کو بلا مقصد بے مول نہ کرو۔
وہ گھمبیر آواز میں کہتا ساتھ ساتھ اس کے سر کو سہلاتے بھی دھیرے دھیرے سہلا رہا تھا۔
“غ۔۔۔غازی م۔۔مجھے نیند”…
اس کے لبوں کی گستاخیاں بڑتے دیکھ وہ رونا بھول چکی تھی اور اٹک اٹک کر بولی۔
“تو سو جاؤ نا جاناں”….
“یہیں میری آغوش میں”….
“کہتے اس کو مزید خود میں بھینچا تھا”….
جب کہ اب وہ بھی اپنا آپ ڈھیلا چھوڑتے اس کے سینے پر سر ٹکائے آنکھیں موند چکی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں کمرے میں اسکی سانسوں کی بھاری آواز گونجنے لگی کیونکہ وہ نیند میں جا چکی تھی غازی نے اس کو سوتے دیکھ غزل کا سر آرام سے تکیے پر رکھا خود بھی سائڈ پر ہو کر آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹ گیا۔
غازی اور غزل کی شادی کو پانچ سال گئے تھے لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی اولاد کی خوشخبری نہ آئی تھی اور اس چیز کے طعنے غزل کو اپنے دور کے رشتے داروں سے سننے کو ملتے تھے ، بے شک وہ ایسی کوئی بات نہ کرتے لیکن ڈھکے چھپے لفظوں میں ایسے جملے کہہ جاتے تھے کہ غزل دل برداشتہ سی ہو کر رہ جاتی اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب وہ لوگ کسی رشتے دار کہ پارٹی میں گئے تھے اور م وہاں پر بھی خواتین کے وہی ” ٹیپیکل جملے ” ان کی وہ باتیں سن کر وہ روتی ہوئی گھر واپس آئی تھی۔۔۔
غازی کو چاہیے دوسری شادی کر لے۔۔۔۔
اولاد کے بنا کس کا گزارا ہوتا ہے۔۔۔
یہی دل چیرنے والے الفاظ تھے جو پورے راستے اس کے کانوں میں گونجتے رہے تھے جو اس نازک دل لڑکی کے لئے سننا سوہانِ روح تھے۔
»»»»»»»»»❤️😋«««««««««
لو مان لیا ہم نے ہے پیار نہیں تم کو
تم یاد نہیں ہم کو ہم یاد نہیں تم کو
کیا ان کو میری یاد آتی ہو گی؟
کیا اس عید پر ان سے ملاقات نصیب ہو گی؟
کھلے آسمان تلے جہاں چاند اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا وہ صنف نازک چھت پر کھڑی خود سے باتوں میں مشغول تھی یا یوں کہہ لیجئے اپنے محبوب شوہر کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ فون کی چنگھاڑتی آواز اسے ہوش میں لائی تھی کہ اس نے لمحوں میں فون کو چارپائی سے اٹھا کر نوٹیفکیشن دیکھا تھا لیکن یہ کیا۔۔۔
وہ جو موحد کے میسج کی امید لگائے بیٹھی تھی کمپنی والوں کے میسج کو دیکھ منہ بسورا تھا۔
اس میسج کو نظر انداز کیے چیٹ اوپن کر کے موحد کا نام سرچ کیا جہاں اسکا میسج سین کر کے چھوڑ دیا گیا تھا بے دلی سے فون واپس لا پٹخا تھا اور خود بھی وہاں اسی چارپائی پر ڈھہ گئی۔
“کیا موحد اس بات سے انجان تھا”…؟
“یا جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتا تھا”۔۔۔
بس یہی ایک سوچ ہمیشہ فریال کے سر پر سوار رہتی تھی۔۔۔
ان شاءاللہ ! موحد ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب آپ کو میری محبت پر یقین آئے گا”۔۔
خیالوں میں اسے سوچتی وہ نیند کی وادیوں میں کھونے سی لگی تھی تب ہی سب سوچوں کو جھٹک اٹھ نیچے کمرے میں آتی فون سائیڈ رکھ نیند کی وادیوں میں کھو سی گئی اس بات سے انجان کیا اس کی یہ امید کبھی پوری ہو پائے گی؟
یا دے گی دھوکہ اس کی قسمت۔۔۔۔۔؟؟؟
»»»»»»»»❣️💯😘«««««««
یہ تھی اپنی اعلیٰ شان طرز پر بنی ہوئی درانی حویلی
جس میں بستے وہاں کے مکین بھی اپنی شان آپ تھے خوبصورت باغیچہ ،کھلا لان ، ماربل پر بنا لانچ جس میں لگائے گئے چینی کے شو پیس حویلی کی شان کا منہ بولتا ثبوت تھے اس شاہانہ شان حویلی میں دو بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آباد تھے۔
رفتار درانی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
قاسم درانی اور حاشر درانی اور بیٹی سعدیہ درانی۔
قاسم کی شادی ان کی پسند کے مطابق ساحرہ بیگم سے کر دی گئی وہ بہت ہی دھیمی طبعیت کی خاتون تھیں
سب سے پیار اور محبت کرنے والی ، اپنوں کا خیال رکھنے والی شادی کے کچھ عرصے بعد ان کو خدا نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام ان نے “موحد ” رکھا اور بیٹی کا نام دلنشین۔۔۔
ایک دفع موحد کی پانچویں سالگرہ کے دن ان کی زندگی میں چار سالہ بچی کا اضافہ ہوا تھا موحد کی سالگرہ کے لئے جب وہ سامان لے کر لوٹ رہی تھیں کہ ایک روتی بلکتی چھوٹی سی بچی نے ان کی توجہ اپنی جانب کھینچی جو اپنا نام تک نا جانتی تھی۔
ساحرہ اس بچی کو اپنے ساتھ گھر لے آئی تھیں۔
سب ہی حیران ہوئے تھے اس بچی کو دیکھ جب کہ موحد ناراض اس کو یہ بچی بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی جو کہ اس کی سالگرہ والے دن سے ہی اس کی ماں کی توجہ اپنی جانب کروا چکی تھی جب کہ اس کے بر عکس دلنشین اس بچی کو دیکھ بہت خوش تھی۔
آخر اس کو کھیلنے کے لئے ساتھی جو مل گئی تھی اور کوئی ایک شخص ایسا بھی تھا جس کو یہ ننھی پری بہت پیاری تھی اس بچی کی خوبصورت اداؤں اور نرم طبعیت کے باعث ساحرہ بیگم نے فریال کا نام دیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے وقت گزرتا گیا فریال کی انسیت گھر والوں سے گہری ہوتی چلی گئی وہ زیادہ تر وقت ساحرہ بیگم کے ساتھ گزارتی تھی وہ اس کو بالکل دلنشین کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں ان کی خواہش تھی کہ وہ اس کو ہمیشہ کے لئے اپنی بیٹی بنا کر اسی حویلی میں رکھ لیں اور یہ خواب بھی پورا ہو گیا تھا جب قاسم درانی نے انہیں موحد اور فریال کے نکاح کی تجویز دی موحد جو پہلے ہی فریال سے تپتا تھا نکاح والی بات پر مزید بھپر گیا لیکن پھر جیسے تیسے کرتے ساحرہ نے اسے نکاح کے لئے راضی کر لیا موحد اس نکاح سے بے زار سا تھا جبکہ دوسری جانب فریال انتہاہ کی خوش کیونکہ جب اپنی محبت کو محرم کے رشتے میں پاتے ہیں تو دل واقعی ہی خوش ہوتا ہے۔
نکاح کے بعد موحد کام کے سلسلے میں باہر ملک چلا گیا تھا اس چیز کو یکسر فراموش کیے کہ کوئی وجود شدت سے اس کی واپسی کا منتظر ہے۔
»»»»»»»»💖💛««««««««
رفتار صاحب کے دوسرے بیٹے حاشر درانی۔۔۔
جن کی شادی تایا زاد فیروزہ بیگم سے ہوئی ان کی عادت میں سنجیدگی ، نرمی اور اپنانیت نمایاں تھیں اپنے بچے اور شوہر پر جان وارنے والی خاتونِ اوّل تھیں وہ ان کو خدا نے تین بیٹوں سے نوازا تھا بڑا بیٹا صارم درانی پھر اس سے پوچھٹا احتشام اور سب سے چھوٹا بیٹا صائم درانی ان کی عادات بھی اپنی ماں کی طرح تھی سنجیدہ ، محبت کرنے والے لیکن صائم کی عادت میں تھوڑی شوخی جھلکتی تھی اپنے والد کی طرح۔
»»»»»»»»»❣️😋«««««««
رفتار درانی صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی گھر بھر کی جان تھیں لیکن ان کی ایک غلطی نے انہیں گھر والوں سے دور کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی کلاس کے لڑکے کو پسند کرتی تھیں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن گھر والوں نے اعتراض ظاہر کیا مگر پھر ان کی ضد پر انہوں نے اسے رخصت تو کر دیا تھا اور ساتھ ہی سارے تعلقات بھی منقطع کر دیے اب وہ کہاں ہیں کیا کرتی ہیں کس حال میں کسی نے جاننے کی کوشش نہ کی تھی۔
»»»»»»»»»❤️😘««««««««
رمضان کے اس گرم ترین موسم میں روزے کی حالت میں جہاں سورج آسمان پر اپنے جاوجلال کے ساتھ سر پر کھڑے آگ برسا رہا تھا ایسے میں وہ خاتون ماتھے پر بہتے پسینے کو صاف کرتی ایک کھلی سی گلی میں داخل ہوتیں تیسرے مکان کا دروازا کھول اندر داخل ہوئی تھیں ساتھ ہی اپنی بڑی صاحب زادی پلوشہ کو پکارنے لگیں۔
پلوشہ۔۔۔
پلوشہ۔۔۔
ہائے! اللہ جی اتنی گرمی ہے باہر۔۔۔
سعدیہ بیگم نے چادر اتار کر تختے پر رکھی تھی اور ساتھ ہی پلوشہ کو آواز لگائی جو ان کی آواز سن کیچن میں سے کام چھوڑ کر باہر کی جانب چلی آئی۔
امی آج افطاری کے لئے کیا لائی ہیں؟
چھوٹی بیٹی فائقہ نے ماں کے پہلو میں بیٹھتے پوچھا اور ان شاپر کا جائزہ لینے لگی جو باہر سے سعدیہ بیگم لیتے ہوئے آئی تھیں۔
بیٹا ! لانا کیا ہے؟ وہی سبزی جو روزانہ بناتی ہوں۔
ماتھے پر آئے پسینے کو ایک مرتبہ پھر سے صاف کرتے بولیں۔
کیا امی! تنگ آ گئے ہیں روزانہ سبزی کھا کھا کر اگر کل بھی سبزی بناؤ گی تو میں روزہ نہیں رکھوں گی”۔۔
وہ منہ بسورے سائڈ پر ہوئی تھی
لڑکی کچھ ہوش کے ناخن لو۔۔۔
“روزے تم اللہ کی رضا کے لئے رکھتی ہو ، یا پھر یہ سب کھانے پینے کے لئے؟؟
سعدیہ بیگم کے ماتھوں پر بلوں کا اضافہ ہوا تھا ، اپنی چھوٹی بیٹی کی بات پر۔۔۔
دونوں کے لئے۔۔۔۔”
بنا ان کی جانب دیکھ کر کہتی وہ وہاں سے اٹھ سائیڈ پر سیڑھیوں کی جانب بیٹھ گئی۔
امی آپ چھوڑے اسے لائیں سبزی دیں میں کاٹ دیتی ہوں پھر نماز کا بھی وقت ہونے والا ہے۔۔۔۔
پلوشہ نے بات کو ختم کرنے کے لئے کہا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی اگر وہ بیچ میں نہ بولی تو تھوڑی دیر میں فائقہ کی دھلائی ہو رہی ہو گی”۔۔
تم سبزی کاٹو میں جب تک روٹیاں بنا کر فارغ ہو جاتی ہوں۔۔۔
اور تم فائقہ جلدی سے برتن دھو جا کر”۔۔۔
تختے سے کھڑے ہوتے انہوں نے ساتھ فائقہ کو بھی حکم دیا تھا جو کہ کونے پر منہ پھلائے بیٹھی تھی۔
بھئی میرا روزہ ہے ، میں کوئی کام نہیں کروں گی مجھ سے نہیں ہوتا روزے کی حالت میں کوئی کام وغیرہ۔۔۔
وہ کہتی کروٹ لئے لیٹ گئی جبکہ سعدیہ بیگم نے تاسف میں سر ہلاتے باورچی خانے کا رخ کیا تھا۔
”یہ تھا زید صاحب کا گھرانہ جس میں وہ دونوں میاں بیوی اپنی بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے۔زید صاحب ایک کمپنی میں مینجر تھے جبکہ پلوشہ پاس ہی اسکول میں ٹیچر تھی ذید صاحب کی چھوٹی بیٹی فائقہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial