قسط: 4
پلوشہ دیکھو زرا دروازے پر کون ہے”…؟؟؟
باورچی خانے میں کام کرتی سعدیہ بیگم نے پلوشہ سے کہا”…
بستر پر آرام فرماتی پلوشہ ڈوپٹہ سر پر اوڑھے دروازے کی جانب بڑھی تھی”..
دروازے کے باہر کھڑے ندیم کو دیکھ اس کا سانس اٹکا تھا وہ جلدی سے دروازا بند کرنے لگی تھی لیکن ندیم نے ہاتھ بڑھا کر پلوشہ کی اس کوشش کو نا کام بنایا
ندیم دروازے کو پورا دھکیل اندر داخل ہو چکا تھا جب کہ پلوشہ اضطرابی کیفیت میں اندر بھاگنے لگی۔۔۔۔
کدھر چلی جانِ من”…؟؟؟؟
“ایک ہاتھ سے اسکی کلائی تھامے جبکہ دوسرے سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے وہ شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا”….
“چ۔۔چھوڑ۔۔۔چھوڑو ۔۔۔مجھے”…..
“ا۔امی”..
“اسکے ہاتھوں سے اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کرتی بولی تھی اور ساتھ ہی سعدیہ بیگم کو بھی مدد کے لیے پکارا تھا اس نے”…..
“کون ہے پل۔۔۔۔”….
“ان کی آدھی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی صحن میں کھڑے ندیم کو دیکھ کر۔۔۔۔
“تم جاہل انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی”..؟؟؟؟
وہ ماتھے پر بل سجائے غصے سے بولی تھیں”…
ارے ساسو ماں”…
خیریت”…؟؟؟
“اتنا غصہ کیوں”..؟؟؟؟میں تو بس اپنی ہونے والی بیوی سے ملنے آیا ہوں اور یہ سامان دینے آیا تھا کہ کل شام میں تیار رکھنا اس کو نکاح ہے اسکا میرے سے”….
وہ ترچھی آنکھوں سے ان کی جانب دیکھتے دونوں کے کانوں میں سور پھونک گیا تھا۔۔۔۔
اور آئندہ میری ہمت کی بات مت کیجئے ہمت تو بہت کچھ کرنے کی ہے”….
“وہ زو معنیٰ لہجے میں کہتا انہیں ششدر کر گیا”…
“ن۔۔نہیں۔۔۔
م۔۔میں تم سے ش۔۔شادی ن۔۔نہیں کروں گی جاہل گوار”..
“وہ روتے ہوئے مسلسل اپنے ہاتھوں کو چھڑا رہی تھی”….
“جورو تو ، تو میری ہی بنے گی چاہے زبردستی یا پیار سے شام تک دماغ ٹھیک کر لینا ورنہ ایسے ہی لے جاؤ گا”…
کرخت آواز میں کہتا اسکو وہیں چارپائی پر پٹخ گیا تھا وہ سر گھٹنوں میں دیے اپنی قسمت پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جبکہ سعدیہ بیگم اپنا سر تھام گئی تھیں۔
»»»»»»»»»
«««««««


احتشام کوریڈور سے گزرتے ہوئے جا رہا تھا کہ بے ساختہ اسکی نظر دلنشین کی کلاس میں گئی تھی اسکے چہرے کے تاثرات یکدم سپاٹ ہوئے تھے آنکھوں میں سنجیدگی چھانے لگی تھی جب دلنشین کو اپنے بیک بینچر لڑکے کو پیپر دیکھاتے دیکھا۔۔۔۔
اور لڑکا پیپر دیکھنے کے بہانے بار بار اسے ٹچ کر رہا تھا جسے دل شائد محسوس نہیں کر رہی تھی یا پیپر کی پریشانی کی وجہ سے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی تھی۔۔۔
وہ وہیں کونے پر کھڑے ہو کر اس منظر کو انگارا ہوتی آنکھوں سے دیکھتا رہا پھر کب بھینجتا وہاں سے چل دیا۔
»»»»»»»
««««««


وہ پیپر دینے کے بعد کوریڈور سے گزرتی ہوئی جارہی تھی کہ اچانک کسی نے اسے پاس بنی لیب کے اندر کھینچا تھا۔۔۔۔
دلنشین جو اس سب کے تیار نہ تھی کسی کٹی ہوئی ڈالی کی مانند لیباٹری روم میں کھینچتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
احتشام نے دروازہ لاک کیے دلنشین کو کھینچ کر دیوار سے پن کیا تھا اسکا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رہ گیا وہ اپنی آنکھوں کو کھولے احتشام کو دیکھ رہی تھی جو اسکے دیوار سے پن کیے بہت آرام سے کھڑا تھا۔
“ک۔۔کیا ہے ی۔۔یہاں کیوں لائے ہیں اور۔۔اور یہ ڈور ک۔۔کیوں لاک کیا”..؟؟؟
وہ اس کی لال ڈور آنکھوں میں دیکھے اٹکتے ہوئے بولی تھی”….
اور ساتھ ہی دلنشین نے احتشام کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے زور سے پیچھے دھکیلنا چاہا تھا لیکن وہ اسکے ان نازک ہاتھوں کو اپنی آہنی گرفت میں تھام گیا۔۔۔۔
“تمھیں لگتا ہے تمھارے یہ نازک ہاتھ مجھے پیچھے ہٹانے کے لئے کافی ہیں”..؟؟؟؟
وہ دلنشین کے اوپر جھکتے استہزایہ لہجے میں بولا تھا جبکہ اسکے سوال کو سراسر نظر انداز کر گیا”…
وہ اسکے یوں قریب آنے پر جھجھکی تھی۔۔۔۔
تمہیں میں نے اسلئے تیاری کروائی تھی کہ تم غیر مردوں کو پیپر کرواتی پھرو۔۔۔۔
مزید اپنا چہرا اسکے چہرے کے قریب کر گیا تھا وہ کہ اس کی گرم سانسیں باقاعدہ دلنشین کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔۔۔
“پ۔۔پیچھ۔۔پیچھے ہٹ۔۔ہٹیں ۔۔”
وہ غصے سے اسکو آنکھیں دیکھاتی چیخی تھی کہ احتشام نے غصے سے اسے گھورتے اس کے بازوں پر اپنی گرفت کو اور مضبوط بنایا تھا”….
“شش۔۔۔۔۔ چپ !!!!
انگت شہادت اپنے لبوں پر رکھ آنکھیں ترچھی کیے اسے خاموش رہنے کی تلقین کی گئی۔
سنائی نہیں دیا تمھیں میں نے کیا کہا ہے؟
میرے سوال کا جواب دو”…..
وہ غصے سے غرایا تھا کہ دل کو خوف سے اپنے وجود میں سنسناہٹ ہوتی محسوس ہوئی تھی”…
“وہ اس وقت اکیلی تھی اسکے ساتھ “…
“بے شک وہ منگیتر اور کزن تھا اس کا لیکن تھا تو غیر محرم ہی۔۔۔۔
نہیں مجھے کچھ سنائی نہیں دیا اور نہ ہی میں کچھ سننا چاہتی ہوں دور ہٹیں ورنہ چاچی کو شکایت کر دوں گی”….
اپنی تیکھی ناک پھیلاتی وہ چٹختے بولی
اور ویسے بھی پیپر ہی دیکھایا ہے کوئی گناہ نہیں کیا ۔۔۔
وہ بنا اپنا ڈر ظاہر کیے ڈھٹائی سے بولی تھی یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اپنے پرانے روپ میں آ چکی تھی ۔۔۔
احتشام کے ہونٹوں پر لمحے بھر کے کئے مسکراہٹ آ کر معدوم ہوئی تھی لیکن جیسے ہی اس لڑکے کا دلنشین کے ساتھ بہت ہی فرینک انداز یاد آیا آنکھوں میں سنجیدگی نے واپس اپنی جگہ بنائی تھی۔
“پیپر۔۔۔۔۔۔فار گاڈ سیک۔۔۔
وہ بار بار تمہیں ٹچ کر رہا تھا اس پیپر کے بہانے۔۔۔۔۔
“اسکے دونوں کندھوں کو زور سے بھینچا تھا کہ وہ سسک اٹھی تھی۔
میری ایک بات غور سے سن لو اور اسے اپنی اس خالی کھوپڑی میں اچھے سے بٹھا لو۔۔”
“دلنشین کو اپنی گرفت میں بےبس دیکھتا سنجیدہ ہوئے لہجے میں بولا تھا۔وہ بےبسی سے اس کی باتیں سننے کو مجبور تھی ورنہ دل تو کر رہا تھا احتشام کا منہ نوچ لے جس سے وہ اسے گھورے ہوئے تھا”…..
“آئندہ میں تمہیں دوبارا اس لڑکے کے آس پاس بھی نہ دیکھوں ورنہ تمہارے ساتھ ساتھ اسے بھی دنیا سے اوپر پہنچا دوں گا”…..
وہ دلنشین کے کان کے قریب جھک کر گھمبیر لہجے میں بولتا اسکا ہاتھ تھام کر وہ وہاں سے لے نکل گیا تھا”…..
جب کہ وہ حیرانگی کے عالم میں اسکے چہرے کو تکتی جا رہی تھی یہ وہ احتشام تو نہ تھا جو ہر وقت مزاق کے موڈ میں رہتا تھا بلکہ یہ تو کوئی اور ہی تھا جسے شائد وہ نہ جانتی تھی۔۔۔
»»»»»»»»»
«««««««««


کیا ہوا ڈارلنگ اتنی اداس کیوں ہو ؟؟
فریج سے پانی نکالتے غازی نے کیچن کی صفائی کرتی غزل کو دیکھ حیرانی سے کہا
کتنی عجیب بات تھی شوہر ہو کر آپ مجھ سے اداسی کی وجہ معلوم کر رہے ہیں۔۔۔!!
غزل نے طنزیہ کہا تھا
ایسے گھور کیا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
دیکھ رہا ہوں روزے کی حالت میں کام کر رہی ہو لیکن ایک بھی شکن تمہارے چہرے پر نہیں ہے”….
ٹائل کے ساتھ ٹیک لگائے بہت معویت سے دیکھ رہا تھا اس کو۔۔۔
کاٹن کی سادہ شلوار شوٹ میں ملبوس بالوں کا میسی جوڑا باندھے ماتھے پر بہتے پسینے کے ساتھ کام کر رہی تھی لیکن اف کا لفظ ابھی تک اس کی زبان پر نا آیا تھا۔
غازی جب ہم روزے کی نیت باندھتے ہیں تو اللہ خود ہی صبر دے دیتا ہے بس ہمارا کام صرف پاک نیت باندھنا ہے۔
مسکرا کر کہتی اب وہ کیبنٹ کی چیزیں ترتیب سے رکھ رہی تھی۔۔۔۔
ہمممم واقعی بہت مضبوط ہوتی ہو تم عورتیں مطلب صبح سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہو سب گھر والوں کے لئے تھکی ہوئے ہونے کے باوجود سحری تیار کرتی ہو روزہ رکھنے کے بعد گھر کی صفائی کرتی ہو اور پھر گھر والوں کے لئے افطاری تیار کرنے میں لگ جاتی ہیں تم خواتینیں۔۔۔
اتنا سارا کھانا روزے کی حالت میں تیار کرنا اذان سے پہلے دسترخوان لگانا اور پھر سے سحری میں سب سے پہلے جاگنا۔۔۔
وہ نان اسٹاپ سا اسکو کام کرتے دیکھ ٹرانس سی کیفیت میں بول رہا تھا۔
میرے معصوم شوہر۔۔۔۔!!
سحری کھانا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہےاور سحری کھانے اور کھلانے میں برکت ہے۔
اسلئے یہ سب کر کے مجھے یا ہر عورت کس دلی خوشی ملتی ہے
مسکرا کر کہتی وہ مقابل کھڑے اپنے شوہر کے دماغ کو روشن کر گئی تھی۔
کتنی مضبوط اور محبتوں کا پیکر ہے میری بیگم۔۔۔۔
آنچ دیتے لہجے میں کہتا غزل کے چہرے پر جھولتی آوارہ زلف کو کان کے پیچھے اڑسا تھا۔۔۔۔
اب تو تمہیں دیکھ میرا بھی دل کرتا ہے کہ کیوں نا میں بھی روزے رکھ لوں ویسے بچپن سے اس معاملے میں بہت کچا رہا ہوں یعنی بچپن میں رکھتا تھا روزے لیکن بھوک پر قابو نہیں رکھ پاتا تھا اسلئے روزہ ٹوٹ جایا کرتا تھا۔۔۔۔
غازی۔۔۔۔
روزے کے لیے عربی میں ”صوم” کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ”رکنے” کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد ”طلوع فجر سے غروب آفتاب تک روزہ توڑنے والی چیزوں سے نیت و ارادہ کے ساتھ بچے رہنا ہے۔”
“ہممم۔۔۔۔
کیوں نا کوشش کر کے دیکھا جائے۔۔
وہ کچھ سوچ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا
یہ تو بہت اچھی بات ہے مجھے بہت خوشی ہو گی کہ آپ رمضان المبارک کے تمام روزے رکھیں گے۔۔۔۔
وہ چہکتے ہوئے بولی تھی غازی نے اس کی آنکھوں میں عجب خوشی کی چمک ابھرتی دیکھی۔
جانتے ہیں۔۔۔۔۔!!!
روزہ وہ عبادت ہے جسے اللّہ تعالی نے اپنے بندوں پر فرض کیا اور جس کا مقصد تقوی کا حصول ہے۔ (البقرہ:۱٨۳)
روزہ ہر بالغ، مقیم، عاقل اور روزہ کی طاقت رکھنے والے ہر مسلمان پر فرض ہے۔
اب کے اس کی آنکھوں میں دیکھ وہ تھوڑی سنجیدگی سے بولی تھی۔
ادھر آئیں بیٹھیں یہاں”…
غازی کا ہاتھ تھامے اسکو کرسی پر بیٹھایا تھا اور خود سامنے رکھی گئی کرسی پر براجمان ہوئی۔
اب اللہ کے کرم سے آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو کیوں نا آپ کو اس معاملے میں تھوڑا سا گائیڈ کیا جائے۔۔۔۔
مسکراتے ہوئے آنکھ ونک کرتی وہ ایک ادا سے بولی کہ بے ساختہ غازی کا قہقہ گونجا تھا ۔۔۔
فرض روزے کی نیت فجر سے قبل کرنا چاہیے کیونکہ یہ ضروری ہے۔۔۔
اگر ہم سحری کھا رہے ہوں تو کھاتے ہوۓ اذان شروع ہو جانے کی صورت میں سحری چھوڑنے کے بجاۓ جلدی جلدی کھا لینی چاہیے ۔۔۔۔
افطار جلدی کرنا مسنون ہے چنانچہ سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیے۔۔
بیگم اتنا تو معلوم ہے مجھ معصوم کو اب اتنا بھی نکما نہیں ہے آپ کا شوہر نامدار۔۔۔
مصنوعی خفگی ظاہر کرتا وہ منہ بسورے بولا تھا کہ غزل کھلکھلا دی۔۔۔۔
اچھا اچھا ماہان لارڈ صاحب سنیں اب ۔۔۔
تراویح نفل نماز ہے جسے تہجد یا قیام اللیل بھی کہتے ہیں، اس کی مسنون رکعتیں ٨ ہیں۔ نفل نماز ہونے کی وجہ سے کم یا زیادہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
اور میری یہ خواہش ہے کہ میرا شوہر میرے ساتھ ہر نفل ادا کرے۔۔
اپنے پر نور چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے پر ٹکائے وہ مسکرا کر کہتی ایک آس سے بولی تھی جی پر مقابل نے سر کو خم کیا ۔۔۔۔
ہاں تو ہم کہاں تھے۔۔۔۔؟؟
کچھ سوچنے کے انداز میں بولی۔۔
ہم یاد آیا۔۔۔۔۔
رمضان کی انتہائی قدر و منزلت والی رات لیلۃ القدر بھی ہےاسکی کی برکتوں سے محروم رہنے والا بدنصیب ہے اسلئے اسکو چھوڑ نہیں سکتے۔۔
لیلۃ القدر کی دعا۔۔۔!!!
اللّھمّ انّک عفوّ تحب العفو فاعف عنّی ”اے اللّہ، تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے بھی معاف فرما دے۔۔۔۔
غزل کے بولنے سے پہلے ہی غازی کے لبوں نے اس دعا کو پڑھا تھا کہ وہ آنکھیں کھولے حیرت سے اسے دیکھے گئی ۔۔۔۔۔
یہ دعا مجھے دادی سا نے یاد کروائی تھی
اس کے چہرے پر ابھرتی حیرانی اور آنکھوں میں پنپتے سوال کو جانتے وہ آسودگی سے مسکراتے بولا
اس رات ہماری دعاؤں اور نیت کے نتیجے وہ پاک زات ہمارے گناہوں کو درگزر کرتی ہے۔۔۔
غازی کے ہاتھوں کو تھام نرمی سے بات مکمل کی تھی جب کہ تعریفی نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھا جس نے آج اس کی خوشی دیدنی کی تھی۔
وہ کسی معلمہ کی مانند سمجھا رہی تھی جبکہ غازی اب بھی ایک ہاتھ ٹیبل پر ٹکائے اس کی ایک ایک حرکات کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔۔
روزے کی حالت میں غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، گالی دینا، لڑائی کرنا، بیہودہ، فہوش اور جہالت کے کام یا گفتگو کرنا گناہ ہے۔
اگر روزہ رکھتے ہوئے بھی یہ سب کریں تو ہمارا روزہ مکرو ہو جائے گا۔۔۔۔
بیگم جانی۔۔۔۔
اتنا تو میں جانتا ہی ہوں آپ نے تو پورا ہی بچہ سمجھ لیا۔
کسی معصوم بچے کی مانند منہ بنائے شکوہ کیا تھا کہ وہ ہنس دی تھی۔
میرے ساتھ آپ کے یہ پہلے روزے ہیں اسلئے گائڈ کرنا لازم سمجھا۔۔۔۔
کندھے اچکا کر کہتی وہ واپس کیچن میں چلی گئی تھی جبکہ فریش ہونے کی نیت سے غازی روم میں۔