قسط: 8
“ڈائٹنگ ٹیبل پر موجود دلنشین کب سے خود پر احتشام کی نظریں محسوس کر کے ایریٹیٹ ہو رہی تھی”….
“بیچاری سے صحیح سے کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا تھا”…
“احتشام بھائی “..
“با آواز بلند اس نے پکارا تھا کہ سب کی نظریں بے ساختہ اسکی جانب اٹھی تھیں جبکہ احتشام کا نوالہ حلق میں اٹکا تھا”….
“کیا ہوا آپ سب مجھے ایسے کیوں گھور رہے ہیں”…؟؟؟
“سب کی نظریں خود پر پا کر وہ کندھے اچکائے بولی اور ساتھ ہی کولڈڈرنک کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگائے پینے لگی “….
“کیوں بچے کو تنگ کر رہی ہو”…؟؟؟
“ساحرہ بیگم نے دلنشین کو آنکھیں دکھاتے ڈانٹا تھا”…
“میں کب تنگ کیا میں نے تو صرف اتنا کہا کہ “بھائی ” کباب پکڑا دیں”…
“آنکھیں پٹپٹاتے وہ معصومیت سے بولی تھی کہ ساتھ بیٹھے صائم کی دبی دبی ہنسی گونجی تھی”….
“کیوں بیچارے کو ہارٹ اٹیک کروانا ہے “…؟؟
“ہنسی ضبط کیے دلنشین کے کان کے پاس جھک کر کہا تھا”…
“جب کہ انہیں یوں سرگوشی کرتے دیکھ احتشام نے گھورا تھا”…


آپ نے چیٹ کیا ہے نا مجھے”…؟
“کب سے کمرے میں چکر کاٹتی سحرش نے کمرے میں داخل ہوتے موحد سے کہا تھا”…
“جو کہ صوفے پر بیٹھے اپنے جوتے اتارنے لگا تھا”…
“میں نے کب چیٹ کیا تمہیں”..؟؟؟
استہفامیہ لہجے میں کہتا اس کے روبرو آیا تھا”…
آپ نے بتایا نہیں کہ آپ شادی شدہ ہیں۔
آنکھوں میں نمی جبکہ چہرے پر غصہ نمایاں تھا”…
سچ میں شادی نہیں ہوئی میری فریال کے ساتھ بس نکاح ہوا تھا ،وہ بھی میری مرضی کے بغیر ، میرے پیرینٹس کی زبردستی مجبور کرنے پر،میں تو اس یتیم سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتا تھا،جس کی نہ ماں کا پتہ ہو نہ باپ کا،وہ نامکمل لڑکی مجھے اپنی زندگی میں منظور ہی نہیں ،پتہ نہیں موم کو اس میں کون سے ہیرے جواہرات نظر آتے ہیں جو اس کو میرے پلے باندھ دیا۔
وہ فریال کے وجود کو سوچتا نخوت سے بولا تھا۔
“موحد”…
“یتیم تو میں بھی ہوں”…
“کیا میں بھی نا مکمل ہوں آپ کی نظر میں”…
“اس کی آنکھوں میں دیکھ وہ افسوس سے بولی تھی”..
“نہیں سحرش “…
“تم اس دل کی ملکہ ہو “…
“تمہارے بارے میں ، میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا “….
“تمہارا اپنا ایک مقام ہے”…
“اس کے بازوں کو تھام وہ محبت سے بھرپور لہجے میں بولا تھا”….
“م۔۔موحد”…
“آ۔۔۔آپ فریال کو ط۔۔طلاق دے دیں”…
“کیونکہ جب آپ اسے قبول نہیں کر رہے تو اس کی زندگی خراب نہ کریں”….
“سحرش کی بات سن فریال کے ہاتھ پر اسکے ہاتھوں کی گرفت کم ہوئی تھی”..
“نہیں “..موم نہیں مانیں گی”….
“جب آپ فریال کو بیوی کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کر رہے تو کیوں رکھ رہے ہیں اسے اپنے نام کے ساتھ”…
“کیا عورتوں کی دوسری خواہشات نہیں ہوتی “..؟؟؟
“کیا وہ ایک شوہر کی محبت اس کی اپنائیت اس کا اپنا پن ، اسکی توجہ حاصل کرنا نہیں چاہتی”…؟؟؟
“میں نے اسکی آنکھوں میں آپ کے لئے محبت دیکھی ہے موحد”…
“اس کا رخ اپنی جانب کیے وہ دھیمے سے بولی “…
“کیا تم یہ برداشت کر پاؤ گی کہ تمہارا شوہر تمہارے حصے کی محبت اور توجہ کسی اور کے ساتھ بانٹے”…؟؟؟؟
“نہ۔۔نہیں کبھی نہیں”…
“آپ صرف میرے ہیں موحد “..
“اور اپنے شوہر کو میں کسی اور کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہونگی”…
“نہیں برداشت کر پاؤں گی اپنے شوہر کی توجہ کسی اور پر”…
“اسلئے کہہ رہی ہوں آپ طلاق دے دیں اسے”…
“ورنہ وہ آپ کے رشتے ہیں رہے گی تو نا چا کر بھی وہ آپ کی محبت اور توجہ حاصل کر لے گی”..
“اور میں ایسا بالکل نہیں چاہتی”….
“اس کے گلے لگی بولی تھی جبکہ ان آنکھوں سے آنسوں بے اختیار بہہ رہے تھے”…
“سحرش ریلکس”…
“اسکی کمر تھپکتے خاموش کروانا چاہا تھا”…


یتیم۔۔۔۔یہ لفظ سوچنے میں ہی کتنا بھیانک لگ رہا ہے ، آج زندگی میں پہلی بار اسے اندازہ ہوا کہ وہ یتیم ہے۔۔۔۔
”اللہ میاں کیوں مجھ سے میرے ماں باپ کو چھینا کیوں مجھے یتیم بنایا۔۔۔
یہ یتیم ہونا تو میری زندگی کا گرہن بن گیا ۔۔۔۔۔
چھت پر کھڑی وہ آسمان کی جانب دیکھی رب سے شکوہ کر رہی تھی لہجے میں بے بسی آنکھوں میں اشک تھے۔۔۔۔
اس سے محبت چھینیں گئی صرف یتیم ہونے کی وجہ سے ، اسے اس کے ہی شوہر نے دھتکارا صرف اس یتیمی کے داغ کی وجہ سے کہ وہ لاوارث ہے۔
”کچھ بھی کرنا پر کسی کو یتیم نہ کرنا“
اوپر آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے وہ رب سے اپنا حالِ دل بانٹ رہی تھی، ہاں اسکی آنکھوں میں آج آنسوں تھے لیکن وہ برس نہیں رہے تھے کیونکہ وہ آنسوں چہرے کے بجائے دل پر گرتے ہوئے اسے بوجھل بنا رہے تھے۔
کیا ہوا کہاں کھوئی ہیں؟
اپنی دنیا میں کھوئی فریال، صارم کی آواز پر پلٹی جو ایک ہاتھ پاکٹ میں ڈالے چھت کی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔
فریال نے ایک عام سی نظر اپنے بچپن کے ساتھی پر ڈالی جس کے پاس فریال کی ہر مشکل کا حل ہوتا تھا کتنا خیال رکھتا تھا وہ اسکا، لیکن وقت کے ساتھ وہ بھی دور ہوتا چلا گیا بقول فریال کے۔
فری۔۔۔۔۔صارم نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی ، جس پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹتی ہوئی نظریں چرا گئی
کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔نظریں چراتے کہا گیا
واقعی؟؟بھنویں سکیڑے صارم نے پوچھا جس پر وہ بس ہنکار بھرتی رہ گئی۔
ہممم۔۔۔۔۔فریال کے جواب کے ساتھ ایک طویل خاموشی چھائی رہی ، لیکن اس خاموشی کو فریال کی بھیگی آواز نے ہی توڑا۔
کیا یتیم ہونا بہت بڑا گناہ ہے؟
اسکے اداس سے لہجے میں کہے گئے جملے پر صارم پل بھر کو چونکا پھر اچانک ماتھے پر ان گنت بل نمایاں ہوئے۔
کیا مطلب ؟
سنجیدگی سے پوچھا تھا اس نے،
تم بس جواب دو ، کیا یتیم ہونا گناہ ہے؟
نہیں، یہ اللہ کی مرضی کی ہوتی ہے اس میں انسان کا بس نہیں۔
تو پھر مجھے اس کی سزا کیوں دی جا رہی ہے ؟ میرا اس میں کیا قصور کہ میں یتیم ہوں؟
وہ کھوئی سی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی بول رہی تھی ، ایک بے مول آنسوں دغا کر کے ہتھیلی پر آ گرا۔
یہ فضول سوال آپ کے دماغ میں کب اپڈیٹ ہوا؟
بس ابھی جب وقت نے احساس دلایا کہ میں یتیم اور لاوارث ہوں۔
بھرائے لہجے میں کہتی وہ رخ موڑ گئی تھی کہ صارم اسکے آنسوں نہ دیکھ سکے۔
فریال ، کیا ہو گیا ہے آپ کو ، کس نے کہا کہ تم لاوارث ہو ، ہم سب ہیں نا ، میں ماما بابا سب ، ہم ہیں تمہارے وارث۔۔۔۔
وہ تڑپ کر لب بھینچے آگے بڑھا تھا ، یہ بات سچ تھی اس شہزادی کے آنسوں اسے تکلیف پہنچا رہے تھے۔
ص۔۔صارم ، موحد نے مجھے دھتکارا صرف اسلیے کہ میں یتیم ہوں، میرا کوئی خاندان نہیں ، تم سب نے بے شک مجھے محبت دی ، نازوں سے پالا لیکن ، میں آج بھی یتیم ہی ہوں ، وہ بچے جن کے سر لر ماں باپ نہیں ہوتے ان کا کوئی نہیں ہوتا۔
یاسیت سے کہتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ، جب کہ صارم کا دل چا رہا تھا کہ موحد کا حشر بگاڑ دے اس کی آنکھیں ضبط کے باعث لال سرخ ہو رہی تھیں ، کہ وہ شخص فریال کے آنسوں کی وجہ بنا تھا لیکن وہ کمال مہارت سے خود پر ضبط پا گیا لیکن دل میں عہد ضرور کیا تھا کہ موحد کو اسکا جواب ضرور دے گا۔


“وہ اپنی دھن میں فون چلاتے ہوئے کمرے میں جا رہی تھی کہ کسی نے اسے بازو سے تھام دیوار سے لگایا تھا وہ جو اس سب کے لئے تیار نہ تھی کٹی پتنگ کی مانند کھینچتی چلی گئی تھی”…
“وہ تو کچھ لمحے سمجھ نہ پائی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن جیسے ہی اس کی نظر خود کو جانچتی نظروں سے دیکھتے احتشام پر پڑی تو اسکو خود سے دور کرنا چاہا تھا جو کہ بے سود رہا “….
“کیا ہے کیوں بار بار فلموں کے ہیرو کی طرح دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہو ایسے تم سے بات نہیں کی جاتی کیا”..؟؟؟
“بھنونے اچکائے وہ بے زار لہجے میں بولی کہ اسکی بات سن احتشام کے ہونٹ صفر کی شکل اختیار کر گئے تھے”….
“اووو”…
“محترمہ مجھے کوئی فلموں کو ہیرو بننے کا شوق نہیں اور ویسے بھی میں ہیرو سے کم تھوڑی ہوں”….
“بالوں میں ایک ادا سے ہاتھ پھیرتے کہا”…
“ہنہہ خوش فہمی”…
“آنکھیں چڑھائے وہ منہ بناتے ہوئے بولی تھی “…..
“سب باتیں چھوڑو یہ بتاؤ تم ڈائٹنگ ٹیبل پر کیا بدتمیزی کر رہی تھی”…
” آنکھوں میں یکدم سنجیدگی اتری تھی “….
“کون سی بدتمیزی بھلا”.؟؟
“کندھے اچکائے وہ ہاتھ میں موجود فون کی اسکرین دیکھنے لگی اور ایسا شو کرنے لگی تھی جیسے اس میں کچھ بہت خاص دیکھ رہی ہے”…
“میں بھائی ہوں تمہارا”..؟؟؟
“جو وہاں بار بار بھائی کی گردان لگا رہی تھی اور بھی پورے گھر والوں کے سامنے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارا کیا رشتہ ہے”..؟؟؟
“وہ بول رہا تھا لیکن دل کی نظریں ہنوز فون پر منجمد تھیں”….
“وہ سن نہیں رہی تھی اسے یا شائد جان بوجھ کر انجان بن رہی تھی”…
“احتشام نے غصے سے مٹھیاں بھینچی تھیں اور بنا اسکو سمجھنے کا موقع دیے فون چھپٹے زمیں پر پٹخا تھا”…
“دلنشین منہ کھولے اپنے فون کو دیکھ رہی تھی “…
“یہ ۔۔یہ کیا کیا تم نے”…؟؟؟
“زمین پر کر چیوں کی صورت میں بٹے فون کو دیکھتے وہ غم و غصے کی سی کیفیت میں بولی”…
“میں یہاں کب سے بکواس کر رہا ہوں”..؟؟؟؟
“احتشام نے اسکے بازوں پر گرفت مضبوط کرتے کہا تھا کہ بے اختیار اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں اب یہ اندازا لگانا مشکل تھا کہ یہ فون کے ٹوٹنے پر ہیں یا پھر اسکی سخت گرفت کے باعث”..؟؟؟؟؟
“مسئلہ کیا ہے تمہارا”..؟؟؟
“ہو کیا تم “..؟؟؟
“جب مزاق برداشت نہیں ہوتا تو خود بھی نہ کیا کرو”…..
“م۔۔میں نے صرف تمہیں تنگ کرنے کے کئے کہا تھا مگر تم نے چھوٹی سی بات کا پتنگڑ ہی بنا ڈالا “…
“اسکو خود سے دور کرتے ہوئے سائڈ سے نکلنا چاہا تھا لیکن احتشام نے بازو دیوار پر ٹکائے اسکے جانے کے تمام راستے بند کیے تھے “…..
“اگر اب آئندہ تم نے مجھے اس نام سے پکارا تو بخدا اچھا نہیں ہو گا تمہارے لئے”…
“بے شک مزاق ہو یا حقیقت میں برداشت نہیں کروں گا”….
“اس کے چہرے کو اوپر کی جانب اٹھایا اور اپنے ہاتھ کی گرفت میں بھینچا جسے جھٹکے سے دل نے چھڑایا “…
“م۔۔میں بولوں گی سو بار بولوں گی”…
“کیا کر لو گے”……
“ہاں تم م۔۔۔
“اسکے باقی کے لفظ کہیں گم ہو گئے تھے کیونکہ مقابل نے اسکو جملا مکمل کرنے ہی نہ دیا تھا”……
“دلنشین کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئی تھیں احتشام کی اس جرت پر “…
“وہ تڑپ پر پیچھے ہوئی تھی اور حیرت کی زیاتی سے اسکو دیکھا اسکو کچھ سمجھ ہی نہ آ رہا تھا شائد اسکے حواس اسکو یہ سب سمجھنے کا موقع ہی نہیں دے رہے تھے لیکن چند ثانیے بعد بے اختیار دلنشین کا ہاتھ شدید غصے میں اٹھا تھا اور سامنے کھڑے احتشام کے گال پر نشان چھوڑ گیا”…..
“مٹھیوں کو آپس میں بھینچے وہ غصے سے وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا”….
“جبکہ پیچھے کھڑی دلنشین کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے تھے “…..