قسط: 13
امی امی اگر آپ کام کر رہی ہیں تو علیزے صائم سے کہیں نہ مجھے چائے بنادے ___” اماں کپڑے سلائی کر رہی تھیں جب مانی شام کے وقت کمرے سے نکل کہ زارا بیگم کے پاس چارپائی پہ آکہ بیٹھا اور ان کے گرد بازوں حمائل کر اپنے بھرپور لاڈ سے بولا علیزے جو چرپائی پہ بیٹھ کہ غور سے کرافٹ ڈائینز دیکھ رہی تھی اسکا دھیان ذرا بھی مانی کی باتوں کی طرف نہیں تھا مگر جب مانی نے اسے علیزے صائم سے پکارا تو اس نے ترچھی نگاہ سے دیکھنا ضروری سمجھا تھا___”
ابا کے سامنے ذرا اس نام سے مجھے مخاطب کرنا لفنگے انسان پھر تمھارا بوریا بسترا دروازے کے باہر نہ ہوا اور تم بھکاریوں کی طرح مانگ نہ رہے تو میرا نام بھی __”
تو کیا تمھارا نام بھی علیزے صائم نہیں ___” مانی نے اسکے لفظوں کو اُچکتے جلدی سے اسکا جملہ مکمل کر دیا
امی اسے سمجھا لیں نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا لڑکیوں کے اتنے کمینے بھائی تو نہیں ہیں جو بہنوں کو اسطرح ان کے شوہروں کے نام سے چھیڑتے ہوں گے اسے کہیں اماں کہ یہ اپنا منہ بند رکھے ___ ” وہ اٹھ کہ ہاتھ میں پکڑی قینچی سے اس کی جانب اشارہ کرتی وارننگ زدہ لہجہ لیے بول رہی تھی
لڑکوں کی اتنی چول بہنیں بھی نہیں ہوتیں نیک شریف معصوم سی بھائیوں کے سامنے بولتی بھی ہیں تو سرجھکا کہ اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتیں ہیں ان سے اونچی آواز میں بات کرنے سے بھی ڈرتی ہیں___” بسکٹ سمیت ٹرے میں چائے پیش کرتی ہیں
مجھے نہیں پتہ اماں ___” میں نے نہیں بنا کہ دینی اس نے ہر وقت میرا جینا حرام کر رکھا ہے ___”
علیزے نے انکار کرتے اسے انگوٹھے دکھا کہ کمرے میں چلی گئی جبکہ مانی معنی خیزی سے مسکراتا بایر نکلتا سیڑھیوں سے ہوتا تایا کے گھرآگیا تھا








قسم سے مانی مجھے روز روز تمھیں منع کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے مگر تمہیں تو مانگتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی لیکن پھر بھی بتا رہی ہوں میں تمہاری یہ روز روز کی چائے افورڈ نہیں کرسکتی ___”
وہ تنگ آگئی تھی آج بھی اُس کےلیے چائے نہیں رہی تو اس نے چائے بنوائی تھی ورنہ دھمکی ہی ایسی ہوتی کہ نورِحرم کی اس کے آگے ایک بھی نہ چلتی تھی
ایسے لیکچر دے کہ تمھیں لگتا ہے کہ مجھے شرم آجائے
گی تو یہ محض تمھاری سوچ ہے اس لیے چائے والے معاملے کو کونے پہ رکھ دو اور دوسرا اس بات کی فکر مت کرو کہ اس چائے کا معاوضہ تمھیں مل جائے گا بس رخصتی ہوجائے اگر معاوضہ نہ مل سکا تو میری آدھی سلطنت میری انت الحیات کے نام ___”
معنی خیزی سے کہتے اس نے آنکھ مارتے اپنے ازلی لوفرانہ انداز میں کہا تو نور حرم نے بچوں کی طرف دیکھتے تیکھے چتونوں سے اسے گھورا تھا
ویسے تم پہلی واحد بے شرم خاتون ہو زوجہ ___” جو شوہر کی چھوٹی چھوٹی گستاخیوں پہ شرمانے کی بجائے مزید گھورے جا رہی ہو___”
کرسی سے سر اٹھا کہ ایک آنکھ بند کرتے کھولتی نگاہ سے اسے دیکھ کہ بے شرم و ڈھٹائی کے سارے ریکاڑڈ توڑ ڈالے وہ جو ایک بچے کو ریاضی کے سوال سمجھا رہی تھی اس کا دل کیا وہ ہی ریاضی کی کتاب اٹھا کہ اس کے سر پہ مارے ___”
تم چائے پینے آتے ہو یا بغیرتیوں کے ریکارڈ توڑنے آتے ہو قسم سے ایک قت”ل اگر معاف ہوتا تو میں بخوشی اور اپنی رضا سے پہلے تمھارا منہ توڑتی پھر تمھاری گردن مروڑ کے رکھ دیتی نشئی انسان ___”
اس نے پنسل کو زور سے کاپی پہ لکھ کہ دباؤ ڈالا جیسے پنسل کی جگہ مانی کا سر ہو__” اس نے کہا تو مانی اسے ہی دیکھ رہا تھا آگے سے وہ بولا کچھ بھی نہیں __” اس کی نظر خود پہ مرکوز پاکہ نورِ حرم کو وحشت ہوئی تھا
(سستا نشئی انسان ) منہ میں بڑ بڑاتے اس نے بہت مدھم آواز میں کہا تھا
بل دوں جمع کروا دو گے ___؟
کچھ دیر بعد اس نے مانی سے پوچھا جس کی نظریں اسی پہ تھیں مگر سوچیں اس کی دور معلوم ہو رہیں تھیں نور کو اس شخص کی ذرا سمجھ نہیں آتی ہے وہ اسے کبھی کبھی بڑا ہی پیچیدہ قسم کا سیاسی انسان معلوم ہوتا تھا اس کے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا کہ دیکھ کہاں رہا ہے سوچ کیا رہا ہے مسکراتے مسکراتے اچانک اس کے اچانک لب سکڑ جاتے تھے
مانی کیا بکواس کر رہی ہوں میں ___” اس نے اب اتنی بلند آواز میں پکارا کہ بچے بھی ڈر گئے کہ باجی صاحبہ کو ہوکیا گیا ہے ___؟
ہوں ____” کافی دیر بعد اس نے یک لفاظی جواب دیا
تھا نورِ حرم اس کے تاثرات دیکھتی کڑوا منہ بناتی کمرے کی جانب چلی گئی کچھ دیر بعد اس نے پرس لایا اور اسے بال نکال کہ تھمایا ___”
یہ پیسے اور یہ بل ہے یاد اور توفیق سے جمع کروانا___” بل اور پیسے اسے تھماتے بے دھیانی سے پرس چرپائی پہ رکھے ٹیوشین والے بچوں کو رٹے رٹے مارتے دیکھ کہ سمینٹ کی بنی چھوٹی چھوٹی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی تھی جو برآمدے سے باہر صحن کی رائدری پہ وقوع پذیر تھیں وہ وہی بیٹھ کہ بچوں کا کام چیک کرنے لگی تھی
فرحان کہہ رہا تھا کہ تم نے چچا رازق کی مدد کی ___”
یقین تو ذرا نہیں آیا کہ ایک نشئی انسان کسی بے بس انسان کی بھلا کیا مدد کرسکتا ہے پھر دو تین بچوں سے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کہ ماڑ ڈھار کے سہی لیکن تم نے چاچا رازق کو ان کی دکان واپس کروا دی ___”
کچھ دیر بعد سچ جاننے کےلیے تحقیق کرنا شروع ہوگئی صبح سکول میں چاچا رازق بیٹے فرحان کی مانی کی تعریف کرنے ہہ اسے ذرا بھی یقین نہیں آیا کہ مانی یہ بھی کر سکتا ہے اس کےلیے مقام حیرت تو ہونا ہی تھا ___”
ہائے یہ لوگ ____” جب انسان کوئی نیک عمل سر انجام دیتا ہے لوگوں کی تحقیق شروع ہو جاتی ہے کہ آیا یہ کام اس نے سر انجام دیا بھی ہے یا نہیں اور ایک خطا پہ بغیر پوچھے سمجھے الزمات کی بوچھاڑ شروع کر دی جاتی ہے کیوں ؟
کچھ دیر کے اس نے ایک سانس سپرد کرنے کےلیے وہ رکا جو سوالیہ نظروں سے اس کی ہی جانب دیکھ رہی تھی
کیونکہ آپ کی نیت کتنی بھی اچھی کیوں نہ دنیا آپ کو ظاہر سے آپ کے دکھاوے سے جانتی ہے مگر آپ کا دکھاوا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اللہ آپ کو آپکی نیت سے جانتاہے یہ دنیا کا دستور ہے وہ مٹی میں پڑا سونا نکال لیتی ہے وہ بھی نہیں چھوڑتی مگر سونے پہ پڑی ہلکی سی گرد بھی ایسے جھاڑتی ہے کہ کئی وہ سونے کی خوبصورتی اس کی نمود و نمائش کو ختم ہی نہ کر دے ___” اب مجھے خود نہیں علم کہ میں کس کی نظروں میں مٹی پہ پڑا ہوں سونا ہوں یا سونے پہ پڑی وہ ہلکی سی گرد جو سب کی نظروں میں کھٹک رہی ہے پر مجھے نہیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ میں اپنی نظروں میں متعبر ہوں میرے لیے یہ ہی کافی ہے اور انسان کو سب سے ضرورت اپی نظروں میں معتبر رہنے کی ہوتی ہے نیت میں کھوٹ رکھے نمازی ہونے سے بہتر ہے کہ میں شرابی ہی ٹھیک ہوں ابا کا فرمانبرار بیٹے سے میں الو کا پٹھا ہی صیح ہوں___”
دونوں ہاتھ سر کے پیچھے سے گزارتے اس کی نظریں افق پر ہوتے ہوئے تخلیل کے گہرے پردوں میں گم تھیں نور حرم نے حیرت کے جھٹکوں سے سر ہٹاتے اس کو غور سے دیکھا سفید لمبے کرتے گھسی پٹی جینز پہنے وہ وہی مانی تھی جسے نورِ حرم کو کوفت ہوتی تھی وہ بظاہر وہی گھٹیا شخص تھا جو اسے ذرا اچھا نہیں لگتا تھا مگر اسکا انداز اسے ورطہ حیرت میں ڈال گیا تھا اس شخص کے منہ سےخیر کی بات سننا تو ناممکن تھا مگر آج یہ سب کم ازکم نور کےلیے نیا تھا ____؟
باجی اب تو ہوم ورک بھی پورا ہوگیا ہمیں چھٹی دے دیں مغرب ہو جائے گی تو مما کو ٹنشن ہو رہی ہوگی__”
گیارہ سالہ عبید کی آواز نے نور حرم کے اوپر سے گہری سوچوں کا ارتکاز توڑا تھا ___”
اوئے سالے توُ نے کونسی امامت کروانی ہے جو تجھے فکر ہو رہی ہے ___” مانی نے اچھل کہ کھڑے ہوتے کافی تیزی اور شوخی سے کہا تھا ___” اب لہجہ اسکا ایسا تھا نورِ حرم کی بے زاری ایک پل میں واپس آئی تھی اس نے بچوں کو جانے کا اشارہ دیا تھا
بچے نکلے تو وہ بھی سیٹی کی مخصوص دُھن بجاتا ان کے پیچھے دروازے سے نکلتا کبھی ایک بچے کے سر پہ تھپڑ مار رہا تھا تو کبھی دوسرے کی ___” آخر نورِ حرم نے گہری سانس لیتے انھیں دروازے سے اوجھل ہوتے دیکھا تو چٹائی طے کرنے لگی___”
نشئی چرسی انسان ___” گلی سے مانی کے قہقوں کی مطلوبہ آواز سنتے اس نے بیزارگی سے کہا اس کے قہقوں کی آواز اس پہ سے ناگوار گزری تھی
ساری چیزیں سمیٹتے اس نے سالن بنانے کا سوچا آج تو اچھی خاصی دیر ہوگئی تھی اماں کا تو روز معمول تھا وہ آگے پیچھے چھوٹے چھوٹے کام نپٹاتی یا پھر محلے میں خواتین کے پاس چلی جاتیں جب تک وہ واپس آتیں وہ بچوں کو چھٹی دے کہ سالن بنا چکی ہوتی تھی
نور حرم نے سورج کی مدھم سی کرنوں کو دیکھا جس کا سنہری پن فصیل سے مدھم ہوتا معلوم ہو رہا تھا اسے یہ شام کا وقت بہت بھلا محسوس ہوتا یہ وقت بہت سی گہری یادوں کے دروازے واہ کر دیتا تھا
سوچوں سے چھٹکارا پاتے وہ پلٹی تو پرس دیکھا جو مکمل کھلا ہوا تھا اسے جھٹکا سا لگا تشویش سے پرس کو ٹٹولا سارا پرس ٹٹول کہ اس نے پرس چھان مارا مگر اس کے پیسے کہیں نہیں تھے خالی ذہن سے دیکھتے رہنے کے بعد وہ گلی کی جانب بھاگی تھی دروازہ سے نکلتے اس نے گلی میں دیکھا تھا اسے شک تھا کہ پیسے مانی نے ہی نکالے ہیں اس کی پسند اسکی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا وہ پیسے لے کہ فرار ہوگیا تھا گلی میں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا ___
تقربیاً پانچ منٹ بعد وہ خالی ذہن لیے دراوزے کی بیچ کھڑی رہی اسے خود پہ غصہ تھا کہ اس پہ اعتبار ہی کیوں کیا جب کہ وہ اس عیاش پرست کی انسان فطرت جانتی نہیں تھی اسے خود پہ افسوس ہونے خشک آنسو آنکھوں سے بہے جا رہا تھا حق حلال کی کمائی ایک روپیہ بھی نہیں رہا تھا __”




مسٹر فہیم ___آپ کے موکل نے ان کی ہمشیرہ کو مینٹلی تھریڈ کیا گن ” پوائنٹ پہ ان سے بچے چھیننے کی مکمل کوشش کی اپنے ہی بچوں کے چہرے پہ ای”سڈ پھینکنے کو کہا گیا __”
دیکھئے مسڑ ارمغان __” جو بھی ہے آپ میرے ساتھ ڈیل کرلیں پارٹی بہت مضبوط ہے ان کے بہت اثرو رسوخ ہیں
ویسے بھی وہ آپ کے معمولی ملازم کی ہمیشرہ ہیں آپکی تو نہیں ہے خوامخوا اس معاملے میں خود کو مت پھنسائیں ___”
مسٹر فہیم ___” گیٹ آؤٹ فرام مائی ہاؤس ___” وہ صوفے پر سے اٹھتا زور سے ڈھارا چہرے کی رگیں تن آئی تھی غلافی آنکھوں میں سرد مہری چھاگئی تھی
مجائد بھائی ادھر آئیں ان کو باہر کا رستہ دکھائیں __” اب کی بار ارمغان کا سارا دن مجائد کی طرف مرکوز تھا
دیکھئیں مسٹر ارمغان آپ میری انسلٹ کر رہے ہیں ___” وکیل کے چہرے پہ اپنی توہین کی سرخی نمایاں تھیں
میں آپ کی انسلٹ کر نہیں رہا بلکہ کر دی ہے ___” جائیں اب یہاں سے ___” اس نے انگلی اٹھا کہ باہر کی جانب اشارہ کیا ___”
اب دیکھیں گا مسٹر ارمغان عالم میں آپ کے ساتھ کرتا کیا ہوں ___” وکیل نے چہرے پہ خباثت بھری مسکراہٹ دھمکی دی تھی
میں دیکھتا نہیں بلکہ میں عملاً کرتا ہوں جائیں کچھ کرنا ہے کرلیں اگلی ملاقات اب آپ سے کورٹ میں ہوگی ___” ارمغان کے لہجے کی مضبوطی ہی ایسی تھی کہ وکیل گھور بھی نہ سکا اور بیگ اٹھاتے باہر نکل گیا تھا__



مانی نورِ حرم آج صبح سے تیسرا چکر لگا کہ تمھارا پوچھ کہ گئی ہے میں نے اسے پوچھا کہ مجھے بتادو میں تمھیں بتا دوں گی مگر میرے ہزار دفع پوچھنے پہ بھی اس نے مجھے نہیں بتایا وہ بہت پریشان لگ رہی تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی رو دے گی __”
سچ بتاؤ تم نے اسے پریشان تو نہیں کیا __” علیزے نے دونوں کمر پہ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح استفسار کیا تھا
وہ دوسرے دن شام کو گھر پہنچا جب علیزے نے نورِ حرم کے تین دفعہ آنے کی اطلاع دی تھی وہ حیران ہوا تھا کہ نورِ حرم جس کے سامنے وہ گزر جاتا وہ اسے خود سے بلانا گوارہ تک نہیں کرتی تھی پھر آج ایسا کیا تھا کہ وہ اس کےلیے دو سے تین چکر لگا چکا تھی اسے کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی تھی
وہ علیزے کی بات کا جواب دیے بغیر چھت پہ پہنچا پھر تایا کی سیڑھیوں وہ صحن میں پہنچا نورحرم برآمدے کے دہلیز پہ بیٹھی ہوئی تھی متورم لال آنکھیں ، بالوں کی ایک آدھ چہرے پہ پھیلی ، ڈوپٹہ کندھوں سے اترا ہوا
چپل سے بے نیاز ، وہ اپنے خیال میں بیٹھی جیسے اپنے ہوش میں نہیں لگ رہی تھی مانی نے اسے پہلی بار اس حلیے میں دیکھا تھا نورِ حرم کی جیسے ہی نظر مانی پہ پڑی۔۔۔
مانی ___” سراسرتی ہوئی آواز میں سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے کچھ ہی پل میں وہ چیل سے تیز اس کی جانب بڑھی تھی اسکا ڈوپٹہ ادھر ہی گرگیا تھا مگر اُسے تو جیسے آج ڈوپٹے کی پرواہ نہیں تھی
مانی مجھے میرے پیسے واپس کرو __” وہ اونچی آواز میں ڈھارتی اس کے مقابل ہوئی تھی
کونسے پیسے __؟ اس کی طرف دیکھتے مانی نے نا انجانی سے پوچھا تھا
وہ ہی جو کل تم نے میرے پرس سے چرائے تھے جب کل شام کے وقت چائے کے پینے کے بہانے تم پرس سے چراگیا__”
میں نے تمھارے پیسے کیا کرنے تھے مجھے کیا ضرورت پڑی تھی کہ تمھارے پیسے اٹھانے کی __” اس کی بے چینی کو دیکھتے مانی نے عام سے انداز میں کہا تھا
جھوٹ مت بولو مانی پیسے تم نے چرائے ہیں کیونکہ تمھاری آنکھیں تمھارے چہرے کا ساتھ دے رہیں __” مجھے میرے بیس ہزار دو نہیں تو میں چاچو کو بتا دوں گی آرام سے میرے پیسے میرے حوالے کر دو گے تو میں کسی کو خبر نہیں ہونے دوں گی __” وہ ضبط سے چیخی تھی دل کیا کہ مانی کا چہرہ تھپڑوں سے لال کردے ___”
نورِ حرم میں سچ کہہ رہا ہوں تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے __” تمھاری اتنی بڑی رقم کا کیا کرنا تھا میں نے __” مانی نے سکون سے کہا جب آنکھوں میں کچھ اور ہی رنگ تھے __
مانی میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاؤں گی مجھے میرے پیسے واپس کر دو تمھیں اللہ کا واسطہ ہے مجھے کل سیلری ملی ہے میں نے اماں کی دوائی لینی ہے پورے مہینے کا راشن وہ بیس ہزار تھے بجلی کا بل بھی اسی میں سے دینا تھا آدھا بجٹ ابو کی پنشن تھا اور آدھا میں نے سیلری کا بنایا ہے مانی اللہ کا نام مجھے دے دو وہ بیس ہزار میری پورے مہینے کی جمع پونجی تھی مانی
تم تو وہ بیس ہزار ایک منٹ میں اڑا دو گے لیکن میرا پورا مہنیہ نکل جائے گا دیکھو رات سے مجھے نیند نہیں آ رہی اماں کی دوائیاں ختم ہیں
اماں صبح بھی مجھے پیسوں کا کہہ رہیں تھی میں انھیں کیسے بتاؤں گی کہ میرے پاس ایک روپے نہیں بچا __”
کہتے ہو تو میں تمھارے پاؤں پڑ جاتی ہوں لیکن مجھے میرے پیسے واپس لوٹا دو__” وہ اس کا گریبان پکڑ کہ جنھجھوڑتی رو رہی تھی اس کی حالت قابلِ رحم لگ رہی تھی آج اپنی مجبوری کے تحت کئی سے وہ خود دار اور عزتِِ نفس میں جینے والی لڑکی نہیں لگ رہی تھی جو رعب و دبدبہ اس کی شخصیت میں نمایاں ہوتا تھا کچھ دیر پہلے وہ زائل ہوچکا تھا __”
اچھا بیس ہزار پورے نہیں دینے تو دس ہزار مجھے دے دو __” دس ہزار خود رکھ لو بے شک پورے نہ دو مگر مجھے دس ہزار تو دے دو جس میں اماں کی دوائی آجائے گی مجھے دس ہزار دو __” مانی میں تمھارا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گی __”
وہ بے بسی سے روتے تڑپٹے اسی کے سینے پہ سرٹکاگئی وہ سسک رہی تھی مانی اسکے چہرے کی گرمائش اپنے سینے پہ محسوس کر رہا تھا وہ بیس ہزار روپے کےلیے رو رہی تھی مانی کو اس کی حالت دیکھ کہ پچھتاوا ہونے لگا __”
مانی کے سینے پہ تپیش سے ہونے لگی تشویش سے اسکے گرد حصار باندھتے اس کے چہرہ پہ ہاتھ رکھا اسے اُس کا چہرا تپتا ہوا معلوم ہوا تھا اسے سمجھ لگ گئی تھی کہ ٹنشن وجہ سے اس کی یہ حالت اور بخار بھی سارا پیسوں کی وجہ سے تھا
نورِ ___” مانی نے اسکا چہرہ تھپتھپایا لیکن بے سود کوئی حرکت نہ ہوئی تھی __”
انتہائی فکرمندی کی حالت اس نے اسے بر آمدے کی چارپائی پہ لٹایا صحن سے ڈوپٹہ اٹھا کہ اوپر کروایا تھا
کچن سے پانی کا گلاس سے اس پہ چھڑکاؤ کیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور ایک دم سے اٹھتے پیچھے ہوئی تھی جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو گرتی پڑتی وہ چارپائی سے ہی اٹھ کھڑی ہوئی __”
گھٹیا کمینے چور عیاش پرست انسان ہو تم ___” اپنے پیسوں کی وجہ سے اس کی تمیز کئی دور جا سوئی تھی
پیسوں کےلیے تو تم عزت لوٹنے سے بھی گریز نہیں کرو گے ڈاکے مار انسان انتہائی گرے کردار کے ہو تم کیا بھروسہ ہے تمھارا کیا پتہ آج وہ بھی ___”
نور خاموش ایک لفظ نہیں تمھارے پیسوں کا مجھے نہیں پتہ سچ کہہ رہا ہوں ___” چارپائی سے اٹھتے مانی نے اس کی بات کاٹتے سرد لہجے میں تنبیہ کی تھی
کیا خاموش ہاں کیا خاموش کیوں خاموش ہوں میں کس لیے کس وجہ سے آج تک ایک اپنے نام کا مان نہیں دے سکے صرف اور چائے کے بہانے اپنے طلب پوری کرنے آتے تھے مگر جب سوچا کہ یہ تو ہونا نہیں ہے کیونکہ اس کا کردار تو مضبوط ہے تو پھر کیوں نہ اس کی حق حلال کی کمائی پہ ڈاکا مار کہ اپنی دوسری فضول طلب پوری کرلوں ___”
تم نے پیسے تو لے لیے مگر یہ یاد رکھنا میں تم سے اپنے پیسے نکلوا کہ رہوں گی ماسٹر چاچو کو بتانے کی دیر ہے وہ ساری گلی میں گھسیٹ کہ نکلوا لیں گے تم سے___”
وہ چیخ پڑی لال آنکھیں اس پہ مرکوز کیے وہ تو جیسے ہوش و حواس میں نہیں تھی
کاش ابا کی طرح تم پہ ہاتھ اٹھا کے اپنی مرادنگی کا ثبوت دیتا جیسے وہ اماں پہ ہاتھ اٹھا کہ ان کا منہ لال کرکے ثبوت دیتے کہ وہ مرد ہیں اس لیے اماں اپنی زبان بند رکھیں مگر میں ابا نہیں ہوں __”
میں ٹھہرا شرابی انسان ایسی حرکت کی تو کل تک جیل کی سلاخوں میں بند ہوں گا کیونکہ تم اماں کی طرح کمزور عورت تو ہو نہیں جو چپ چاپ سہہ لو گی __”
بھینچا ہاتھ کھول کہ اس نے سر پہ پھیرتے بغیر کسی دلیل کے کہا تھا
انسان کو انسان نہیں رلاتے نورِ حرم انسانوں کو اُن سے وابستہ امیدیں رلاتی ہیں مجھے آج تک رونا ہی نہیں آیا کیوں کہ نہ میں نے کسی انسان سے امیدیں وابستہ کیں اور نہ مجھے کسی نے امیدیں وابستہ کرنے کا حق دیا ہے دلیل وہاں دی جاتی جہاں اگلے کی نظر میں کوئی مقام ہو میرا کوئی مقام ہی نہیں ہے پھر کیا دلیل تو کیا وضاحت___؟”لیکن ایک دور آئے گا جب وقت خود دلیل دے گا میری ___”
کچھ نہیں ہوا بس تھوڑا سا درد ہوا ہے اس میں __” وہ دل پہ ہاتھ رکھے
آخر میں اپنے ازلی چچھورے پن سے بولا ___”
دیکھتا ہوں کوئی سستہ سا بینک کھلا ہوا ہو مسسز تمھارے دس ہزار تو بھی لوٹانے ہیں دعا کرو بینک کا منیجر سو رہا ہو پھر کوئی لمبا سا ہاتھ مار کہ تمھارے بیس ہزار پورے واپس کر سکوں ___”
سنجیدگی سے کہتے آخر میں آنکھ مارتے کہا تو نورِ حرم سسٹپا گئی تھی پیسوں کی واپسی سن کہ یکدم سے اس کے تاثرات ڈھیلے پڑے تھے
سچی پیسے واپس دو گے نا ___؟ اس نے بے صبری سے پوچھا جیسے یقین نہ آیا ہو ظاہری بات وہ پہلا چور تھا جو پیسوں کی واپسی کی گرنٹی دے رہا تھا۔۔۔
سچی ___” لیکن کوئی دور یا نزدیک شادی وغیرہ کا معلوم ہو تو بتا دو جلدی سے تمھاری کسی کولیگ کی کسی دوست کی بس ذرا سا ہنٹ دے دو تو کل صبح ہی تمھیں بیس ہزار مل جائیں گے کیونکہ بینک والا پلان تو کینسل ہے ہاں شادی ہوئی تو ڈھول بجا کہ بیس ہزار پورا کر دوں گا __” سیٹی مار کہ اس نے معاملہ حل کیا تھا
تو جو میرے پیسے ہیں وہ ہی مجھے واپس کر دو جو میری حق حلال کی کمائی __”
جو آیا وہ کھایا___” مطلب بھول جاؤ تمھارے کوئی پیسے تھے
ویسے چور مانتا تو نہیں ہے کہ اس نے پیسے چرائے ہیں لیکن میں پہلا چور ہوں گا جو اپنی مسسز خوشی کےلیے مان رہا ہے کہ چوری اس نے کی ہے ___” اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا قہقے میں پتہ نہیں کس چیز کی شدت تھی کہ آنکھوں سے پانی نکل آیا جو نورِ حرم نے اسکی سرمے لگی آنکھوں میں بغور دیکھا کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا __”
اور پھر اس کی بات سنتے سانس ہوا میں سپرد کرتی اپنے بخار زدہ وجود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے وہ پلنگ پہ بیٹھ گئی تھی وہ جانتی تھی مانی اس کے پیسے لٹائے گا جس طرح لٹائے گا اسکا اسے علم نہیں تھا اسے بس اپنی حق حلال کی کمائی سے غرض تھی وہ اب اس کی پشت دیکھ رہی تھی جو اس کی طرف تھی اس کا بس ایک چاچو کے نام سے ڈرانا ہی کافی تھا وہ جانتی تھی چاچو کے ڈر سے وہ کچھ بھی کرکے اسے پیسے واپس لٹائے گا __”
حوالہ بڑا سخت دیا ہے مسسز اب تو مداری بن کہ بھی پیسے نہ دیے تو ابا نے خود مداری بن کہ مجھے گلی میں بندر بنوا کہ ناچنا ہے بندر بن کہ ناچنے سے بہتر ہے کہ میں خود ہی اپنی نیلامی لگوا کہ تمھیں پیسے واپس کردوں ____”
پیچھے پلٹ کہ ہنستے ہوئے وہ اب بے بس سا دکھائی دے رہا تھا چہرے پہ وہ ہی چھچوری مسکراہٹ تھی
چلو چلتا ہوں اللہ حافظ بس دعا کرنا کچھ کام بن جائے __” یہ کہتے وہ مڑا اور جانے لگا
سنو چائے بنا دوں ___” اس نے جان بوجھ کہ کہا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ چائے تو نہیں چھوڑے گا
نہیں پتہ نہیں کیوں آج دل نہیں ہے ___” اس کی آواز سن کہ پھر سے پلٹ ایک نظر ڈالتے دانت دکھاتے نکل گیا تھا ___”
اور یہاں نور حرم کو اپنے غلط ہونے کا احساس ہوا اس شخص کا چائے کےلیے انکار کرنا اس صدی میں مقام حیرت تھی اس شخص کا پیسے چوری کرنے سے انکار کرنا
نہیں کھٹک رہا تھا جتنا پہلی دفع چائے سے انکار کرنا کھٹک رہا تھا ___”




بس اتنی سی بات ___” بیس ہزار چاہیے تجھے ___”
جیدے نے جان بوجھ کہ چسکا لگایا اور اسے دیکھا جو تھڑے پہ بیٹھ کہ اپنا مسئلہ بتانے کے بعد بے چین تھا
مگر اس کےلیے تجھے ہمارا ایک کام کرنے پڑے گا ___” جیدہ بڑا شاطر انسان تھا موقع پرست بندے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والا ___” اپنا لاکھوں کا مطلب نکلوانے کےلیے بیس ہزار تو اس کے آگے بہت کم تھے
جو تم کہو گے میں کروں بس پیسے مجھے دو __؟ مانی نزدیک سے بات بنتے دیکھ کہ بے صبرا سا ہوا تھا کیونکہ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہاں پہ بیٹھا سوٹے پہ سوٹے لگا رہا تھا ۔
ٹھیک ہے آج رات آجانا ذرا سا کام کرنے کے بعد پیسے بھی لے جانا بس چھوٹا سا کام ہے جگہ تجھے فون پہ بتاؤں گا ابھی ذرا میں جلدی میں ہوا وہ سالہ سارا کام خراب کر دے گا ___”
جیدہ یہ کہتے موٹر سائیکل پہ بیٹھ کہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا اور مانی تو گویا خوش ہوا تھا اس کے تو وارے نیارے ہوگئے تھے ___”




نور حرم یہ مانی کوئی لفافہ دے گیا تھا صبح سویرے جب تم سوئی ہوئی تھی ___” آج اتوار تھی اس لیے وہ نماز پڑھ کہ سوگئی تھی اور آج وہ کافی دیر سے اٹھی تھی وہ ناشتہ کر رہی تھیں جب امی لفافہ لے کہ کچن میں نمودار ہوئیں تھیں کل میڈیسن اس کی طبعیت مکمل ٹھیک تھی اسے مانی سے پیسوں کی واپسی امید تو تھی مگر اتنی جلدی یہ اُس نے کب سوچا تھا __؟
اس نے بغیر کچھ کہے وہ لفافہ پکڑکہ اپنی گود میں رکھ کہ ناشتہ کرنے لگی آنکھوں میں چمک سی اٹھی تھی __”
کیا ہے یہ نورِ حرم __؟ انھوں نے تیکھی نظروں سے پوچھا کہ ان کی بیٹی کچھ اور ہی نہ سوچے بیٹھی ہو_”
پیسے ہیں حفاظت کے طور پہ رکھوائے تھے کل علیزے کے پاس وہ ہی دینے آیا تھا___” اس نے لفافہ کھول کہ دکھایا تھا س نے امی کو پیسوں کے متعلق ہرگز نہیں بتایا بس پیسوں کا بتایا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے باہر چلی گئیں ___”
لفافہ کھول کہ دیکھا تو پورے بیس ہزار تھے ایک روپیہ کم نہیں تھی فتح کا چہرے پہ نظر آ رہا تھا آج اپنی جیت کا سوچ کہ خوشی ہوئی تھی اس نہیں پتہ تھا کہ یہ ہی جیت اس کی ہار ہے ___” ناشتہ کرنے کے بعد اس نے پیسے اماں کو دیے تھے اور گھر کا کام کےلیے جُت گئی تھی
تقربیا دو گھنٹوں کی انتھک محنت کے بعد وہ کام سے فارغ ہوئی تو دروازے کھٹکھنے کی آواز پہ وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی __”
آئمہ باجی آپ ___؟ دروازہ کھلا تو سامنے آئمہ کا چہرہ نظر آیا __”
آئیں اندر آئیں ____” چہرے پہ نرم سی مسکراہٹ رکھے اس نے سائیڈ پہ ہوکہ جگہ دی تو وہ اندر چلی آئیں اس نے دروازہ بند کیا تھا ___”
خیریت ہے عبید دو تین دنوں سے ٹیوشین نہیں آ رہا وہ ٹھیک تو ہے __” پلنگ ان کے پاس بیٹھتے اس نے پوچھا___”
الحمداللہ وہ تو ٹھیک ہے ___” بس وہ اماں کی اچانک طبعیت خراب ہوگئی تھی ہسپتال داخل رہیں ہیں کل ہی ان کی طبعیت بہتر تھیں تو ہم واپس آگئے ___”
اوہ اچھااچھا کوئی بات نہیں آج تو چھٹی مگر آئندہ روٹین سے بھیج دیجئے گا ___”
اچھا آپ کےلیے چائے لاؤں یا کولڈرنک ___” مروت نبھاتے وہ اٹھی تھی
کچھ نہیں بس بیٹھو تم __” مجھے ایک بہت اہم بات ہے ___”
سب سے پہلے تو معذرت ___” یہ لو تمھاری امانت __”
آئمہ نے پرس کی زیپ کھولتے پیسے اسے تھمائے تھے
اس دن عبید کے بیگ سے نکلے تھے یہ بیس ہزار روپے میں تو اسی دن دیتی تمھیں لیکن اماں کی طبعیت خراب ہوگئی تو مجھ جانا پڑ گیا تھا
آئمہ نے اسے پہسے دیے تو اس کے سر پہ جیسے “دھما”گہ ہوا تھا
اس دن جب عبید گھر آیا تھا تو بیگ اس نے سنھبال کہ رکھ دیا دو تین باہر چھپ کہ اس نے بیگ کھولا تو مجھے شک پڑا میں نے چیکنگ کی تو پیسے نکلے اس سے پوچھا وہ گبھراگیا کچھ نہیں بتایا ماں تھی ظاہری بات بیٹے کے پاس اتنی رقم دیکھ کہ
فکرمندی تو تھی اسے ڈانٹ کہ اگلوانے کی کوشش کی دو تین تھپڑ کھاکہ اس نے خود بخود سب کچھ اگل دیا تھا
چھوٹا بچہ سمجھ کہ اسے معاف کر دینا__” میں تمھاری محنت اور حلال کی کمائی کو جانتی ہوں اور تمھیں سمجھتی بھی تھی اس لیے آج پہلی فرصت میں تمھیں پیسے لٹانے آئی ہوں
آئندہ یہ پیسے سنھبال کہ رکھنا __بڑوں سے سنا ہے کہ جس کی چیز جاتی ہیں اس کا ایمان جاتا ہے اور ایمان جب چلا تو پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا ___”
آئمہ کی بات سنتے اس پہ سر پہ دھما”کے ہونے لگا آنکھوں کے سامنے چہرہ آیا تھا اس نشئی شرابی انسان کا ___”
وہ جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا __” اس کے بعد اسے نہیں پتہ تھا آئمہ چلی گئی اس نے دروازہ بند کیا کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی
(انسان کو انسان نہیں رلاتے نورِ حرم انسانوں کو ان سے وابستہ امیدیں رلاتی ہیں مجھے آج تک رونا ہی نہیں آیا کیوں کہ نہ میں نے کسی انسان سے امیدیں وابستہ کیں اور نہ مجھے کسی نے امیدیں وابستہ کرنے کا حق دیا ہے دلیل وہاں دی جاتی جہاں اگلے کی نظر میں کوئی مقام ہو میرا کوئی مقام ہی نہیں ہے پھر کیا دلیل تو کیا وضاحت___” ) مانی کی بازگشت اس کے کانوں میں گونجی تھی آنکھوں سے آنسوؤں نکلنے لگے تھے
(ویسے چور مانتا تو نہیں ہے کہ اس نے پیسے چرائے ہیں لیکن میں پہلا چور ہوں جو تمھاری خوشی کےلیے مان رہا ہوں ___) دوسری بازگشت پہ اسے لگا کہ اس کا دل پھٹ جائے گا آواز کے ساتھ وہ چہرہ بھی آنکھوں میں بس گیا جہاں آنکھوں سے درد کی شدت نکلی تھی ___”
(نہیں پتہ نہیں کیوں آج دل نہیں ہے)اس کی ایک آواز پھر گونجی تو اس نے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ گھٹیا شخص کس کس مقام پہ صیح ہوگا اور وہ کس مقام پہ غلط تھی ___”