قسط: 15
اوئے مسٹنڈوں کیا گھورگھور کہ دیکھ رہے ہو ___” گھر میں ماں بہن نہیں ہے ___” گلی کے نکڑ میں کھڑے مانی اور اس کے چرسی ساتھی قہقے پہ قہقے لگائے جا رہا تھے جب وہاں سے گزرتی محلے کی تیز طرار سی سیکینہ خالہ نے پیچھے ہوتے اپنے ازلی جلال سے کہا تو مانی کو چھوڑ کہ سارے بری طرح گڑبڑا گئے تھے بالی جیدی اور مانی تینوں ہی آج گلی کے نکڑ پہ بیٹھے سیگریٹ کے بڑے بڑے کش لگا رہے تھے __”
گلی سے مسلسل قہقوں کی آواز راہ گیروں کو پہنچتی تو وہ ان کی سماعت پہ ناگوار گزرتی پہلے تو محلے کے کئی افراد نے اس پورے گروہ کو بہت بے عزت کیاحاجی نواز نے انھیں صاف لفظوں میں جتایا کہ گلی سے ماں بہنیں گزرتی ہیں ان کی بے عزتی پہ بھی ان کا یہ دستور رہاگر پھر سب کے ملے جلے بھرپور تعاون پہ وہ کچھ حد تک دبک کہ رفیق کوچوان کے اڈے پہ بیٹھنے لگے پہلے گلی میں سکون ہوا کرتا تھا مگر آج پھر وہ ہی بے سکونی وہ ہی شور وہ ہی ہنگامہ تھے جسے بچے بوڑھے پریشان عاجز آئے ہوئے تھے __”
خدا کا خوف کرو خالہ ہم تمھیں کباڑیے لگتے ہیں ہیں جو پرانی چیزوں کو ہی گھور گھور کہ دیکھیں گے ___” بالی نے قہقہ لگاتے چھچھورے پن سے کہا تو مانی کا مکا کمر پہ آ لگا تھا___
اوہ چوسے ہوئے آم کی ہڈی پہلے اپنی شکل دیکھ پھر مجھے کہنا میرے حسن کی مثالیں تو زمانہ دیتا ہے ارے جوانی میں میرے حسن کے آگے سب کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی تھی تمھارا چاچا تو کہتا تھا شادی کرنی ہے تو سکینہ سے ہی کرنی ہے نہیں تو مجھے موت منظور ہے سکینہ سے جدائی نہیں __” ارے میرے لیے تو تمھارے چاچے نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا میرے حسن کو دیکھ کہ تو تیرے چاچے نیند ہی حرام ہوگئیں تھیں __”
بالی نے تو گویا خالہ سیکنہ کا دماغ ہی الٹا کہ رکھ دیا تھا پیچھے مڑتے انھوں نے اسے لاٹھی دکھاتے اپنی جوانی کے حسن کے چرچے کھول کہ رکھ دیے تھے __” ان کی پٹر پٹر کرتی زبان کو دیکھتے سب کو سانپ سونگھ گیا اب کی بار کسی نے سرگوشی تک نہ کی سب خالہ کہ لاٹھی سے ڈر رہے تھے __”
( کتنی عجیب بات ہے نا ہر شخص جوانی میں خوبصورت ہوتا ہے کتنے فخر سے سب اپنی جوانی کا حسن بیان کرتے ہیں کیا واقعی جوانی میں ہر انسان ہی خوبصورت ہوتا ہے نہیں بلکہ مجھے لگتا ہےکہ جوانی نام ہی خوبصورتی کا ہے جس میں ہر انسان خود کو خوبصورت دکھائی دیتا ہے )
مانی خالہ سکینہ کے چھوٹے سے قد، پھیلے ناک ، چھوٹی چھوٹی آنکھوں اور سیاہ رنگ کو دیکھتا سوچ و بچار میں گم تھا جبکہ باقی سب تو خالہ کے ڈنڈوں سے ڈرتے پیچھے ہو رہا تھا
خالہ ایک دفعہ پھر سے کینہ توُز نگاہوں سے دیکھتی کمر جھکائے لاٹھی کا سہارا دیے چل دی ___”
اوہ مانے ___” توُ کئی سکینہ خالہ کی جوانی کے حسن میں ہی تو نہیں کھوگیا جو بس اُن ہی کو گھورے جا رہا ہے ___”
جیدے نے مانی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے دانتوں کی نمائش کرتے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھ کہ پوچھا جو ابھی تک گلی کے کونے میں گم ہوتی خالا سکینہ کے عکس کو دھندلی نگاہوں سے دیکھتا سوچوں میں گم تھا وہ مانی تھا اپنے محلے کا آوارہ اور بگڑا شخص جس کی سوچیں خلا میں سفر کرتی تھیں جبکہ اس کی نگاہیں غیر مرئی زوایوں کو زمین میں گھورا کرتی تھیں __



چار سال سے آپ مجھے دھتکار رہے ہیں کپٹن میں روز یہ دھتکار آپ کے در سے سہہ کے جاتی ہوں آپ کو معلوم بھی ہے کہ آپ روز اس دھتکار سےط میری روح کو زخمی کرتے ہیں میں سمجھتی تھی آپ بہت اچھے نرم دل انسان ہیں مگر نہیں آپ اچھے انسان نہیں ہے آپ صرف اچھے انسان بننے کا ناٹک کرتے ہیں ___”
آپ ایک احساسات سے عاری بے رحم قاتل انسان ہیں ایسے قا” تل جس نے میرا دل کا قتل کیا ہے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہی صرف شریف النّفس انسان ہیں دنیا جہاں کی شرافت آپ کے اندر ہیں اس لیے آپ کو ہر چیز میں خامیاں ہی نظر آتی ہیں ہر لڑکی ہی گناہ گار لگتی ہے آپ سمجھتے ہیں کہ میں جیسے آپ کے سامنے فرینک ہوتی ہوں ایسےہر مرد کے ساتھ فرینک ہوتی ہوں لیکن جو دل کسی ایک کے آگے جھک جائے اس شخص کے سامنے انسان کو اپنی سیلف ریسپکیٹ تک کو قربان کر دیتا ہے میں نے اپنی سلیف ریسپکیٹ قربان کی ہے آپ سمجھتے ہیں مجھے برا نہیں لگتا کیونکہ میں فطرتا لا اُبالالی لڑکی ہوں لیکن مجھے برا لگتا ہے میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں مجھے ہارش لہجے بہت بڑی تکلیف سے دو چار کرتے ہیں
آپ ہی تو کہتے تھے کہ وہ تو نگاہوں کی خیانت بھی جانتا ہے آپ کی اس بات پہ غورو فکر کی ہے __”
میں نے آپ سے ہی تو نگاہوں کو قابو کرنے کی صلاحیت سیکھی ہے اور میں اس رب کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میرے رب نے مجھے یہ صلاحیت عطا کی ہے وسیلہ آپ بنے ہیں توفیق میرے رب نے عطا کی ہے اب میں ہر ایرے غیرے کو نگاہ اٹھا کہ نہیں دیکھتی میں کسی کو بلاوجہ مخاطب بھی نہیں کرتہ جب سے میں نے اپنی نگاہیں جھکانے کا ہنر سیکھا ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ زندگی میں عزت کا ہونا کتنا ضروری ہے کپٹن
لیکن میں آپکے معاملے بہت بے بس ہوں آپ کے سامنے یہ نگاہیں قابو میں نہیں رہتی میں ہزار کوشش کرتی ہوں کہ یہ نظریں آپ کو دیکھ کہ ہی ایسے جھک جائیں جیسے سب نامحرم کو دیکھ کہ جھکتی ہیں مگر یہ مجھ سے نہیں ہو پاتا ___” آپ دعا کریں کہ یہ نگاہیں آپ کے سامنے جھک نہیں سکتی تو پھر بند ہو جائیں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ___” میں نے پڑھا تھا کہ نامحرم کو ایک شعوری نگاہ بھی دیکھنا گناہ ہے مگر میں کیا کروں مجھ سے نہیں ہو پاتا میں ایک بار آپ کو دیکھتی ہوں تو یہ نگاہیں آپ ہی کا مرکز بن جاتی ہے میں کیا کروں __؟
ایمن فاروق غصے میں آتی ہمیشہ کی طرح بے بس ہوئی تھی __”
یقین مانیں آپ بہت اچھی ہے مس ایمن ___” آپ کو کس نے کہہ دیا میں شریف ہوں میں شریف نہیں ہوں بدکرادری کا ٹیگ لگوا کہ یہاں تک پہنچا ہوں یہ گریڈ حاصل کیا ہے پھر آپ کیسے سوچ سکتی ہے میں شریف ہوسکتا ہوں آپ بہت پاکیزہ ہے مس ایمن میں نے کبھی آپ کو غلط نہیں سمجھا یہ میرا خدا جانتا ہے___”
اس کی باتیں سن کہ کپٹن ارمغان کچھ دیر سکتے کے عالم میں رہا اس اسے کچھ بولنے ہی نہیں ہوا کیونکہ اس لڑکی کی باتیں ہی ایسی تھیں ایمن کتنی دیر اس شخص کو دیکھتی رہی جس کی نگاہیں وال پہ بنی کیلگرافی پہ ٹکی تھی مگر وہ مخاطب اس سے تھا یہ کیسا ستم تھا وہ دیکھ کہیں اور تھا سن اسے رہا تھا کھوج وہ اپنی ذات کی کر رہا تھا ___” اسے اسطرح دیکھ کہ ایمن فاروق کو اپنے الفاظ پہ افسوس ہوا اور یہ بات وہ ہمیشہ کی طرح منہ بھی لے آئی تھی ___”
ایمن فاروقی کو وہ چمکتا ہیرے کی مانند معلوم ہو رہا تھا ایسا نایاب ہیرا جو بہت قمیتی تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وقت نے اس ہیرے کو تراش تراش کہ اتنا انمول بنایا تھا
اسے اس لڑکی پہ رشک آرہا تھا جس لڑکی کا یہ انمول شخص مقدر تھا اس کی غلافی نگاہوں کو اپنی طرف ایک نظر دیکھنے کی تمنائی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ ایک نظر تو دیکھے مگر اس کی نظریں اسے کہاں دیکھتی تھیں ___”
مجھے اپنے آج کے الفاظ پہ شرمندگی ہے کہ میں نے غصے کی حالت یہ الفاظ استعمال کیے ہیں مجھے یہ الفاظ نہیں کہنے چاہیے تھے
بدکرادری کا ٹیگ لگوانا اور بد کردار ہونا الگ بات ہے مجھے نہیں معلوم آپ کے ماضی کے بارے میں ___” میں نہیں جانتی آپ کی سخت باتوں کی پیچھے چھپی وجہ کو ، آپ کے سرد رویے کو ، لیکن جب سے آپ کو دیکھا ہے آپ میں کوئی برائی نہیں دیکھی کپٹن مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں جب سے آئیں آپ میری سوچوں پہ قابض ہیں آپ کو سوچتی بھی ہوں تو ایک پاکیزہ سا حصار اپنے گرد کھینچتا ہوا محسوس ہوتا ہے ___” بابا نے کچھ دن پہلے میری پسند کا پوچھا تھا میں انھیں واضح تو کیا ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی نہیں بتاسکی کہ میں ہر لمحے ، ہر پل آپ کو سوچتی ہوں___”
میرے دل نے آپکے ساتھ کی دعا کی ہے مجھے آپ اپنے لیے ایک بہترین آپشن لگے ہیں __” ایمن فاروق جذب کے عالم میں اس کے چہرے کو دیکھتی ایک ہی سانس میں ناجانے کتنی باتیں کہہ گئی دی تھیں __”
یہ بھی خوب رہی ارمغان عالم تو ہر کسی کےلیے آپشن ہی رہا ہے ہر کسی کےلیے تو میں منتخب کردہ ایک آپشن ہی ہوں ___” ایک بھی نگاہ اس پہ ڈالے بغیر اس نے اپنی بات جاری رکھی ___” وہ اسے باتوں میں مصروف تھا جب ڈور ناک ہوا تھا ___”
جی مجائد بھائی آجائیں __” اس کی اجازت اس نے اجازت دی تھی وہ جانتا تھا یہ حرکت صرف مجائد کرسکتا تھا ___”
ارمغان بھائی ___” باہر آپ کے دوست آپ کا پوچھ رہے ہیں میں نے انھیں لیونگ روم میں بیٹھا دیا ہے ___”
مجائد نے ڈروازے کے بیچ و بیج ہی کھڑے بتایا تو ارمغان عالم مستعد ہوکہ کھڑا ہوا یعنی حکم جاری ہوا چاہتا تھا __”
مس ایمن میری عیادت کا شکریہ اب آپ جاسکتی ہیں اور آئندہ آپ یہاں آنے کا تکلف اس وقت کریں گی جس وقت میں کہوں گا __” اس نے اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھتے مڑ کہ اسے دیکھتے سنجیدہ اور مضبوط لہجے میں کہا__”
اور مجھے معلوم ہے آپ کا یہ وقت کبھی نہیں آئے گا یہ وقت تب آتا جب آپ کے دل میں میرے لیے محبت ہوتی __” وہ یہ بات کہتی اسے لاجواب کرگئی تھا
مجائد بھائی مس ایمن بنتے فاروق کو آپ سائیڈ ڈور سے گاڑی کے پاس چھوڑ کہ آئیں __” اس نے مجائد کی طرف روکھے سے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔”
کوئی ضرورت نہیں ہے جا رہی ہوں ___” اللہ حافظ اپنا خیال رکھئے گا ___” وہ اپنے حجاب کو سیٹ کرتی باہر نکلی تو ارمغان عالم نے گہرہ سانس لیتے مجائد کو ایمن کی تقلید کا اشارہ کیا تو وہ اثبات میں سر ہلاتا نکل گیس تھا_



اماں کھانا دے دیں نا پلیز ___” اس نے تقربیاً دسویں بار دہائی دی تاکہ زارا بیگم اسے کھانا فراہم کریں __”
پہلے میرا پرس دو پھر کھانا دوں گی ___” وہ بھی اسی کی ماں تھیں جانتی تھیں اسے کیسے قابو کرنا ہے
آپ ہزار روپیہ تیار رکھیں میرے موکل آپ کا پرس ڈھونڈ رہے ہیں __” سیب کھاتے اس نے سنجیدگی سے کہا تو اسکی باتوں کو دیکھ کہ زارا بیگم تیکھی نظروں سے گھورا__”
دیکھ مانی میں کہہ رہی ہوں میرے پیسے شرافت سے واپس کر دے __” نہیں تو تیرے ابا کو بتانے کی دیر ہے وہ تیرے بخیے اڈھیڑ دیں گے __” ابا کا موقف رکھتے انھوں نے اسے ڈرانا چاہا ___”
شرافت چاچا آج کل نظر نہیں آ رہے نہیں تو ان سے ہی ہزار روپے لے آتا اماں فلحال ان کو چھوڑیں پرس چاہیے آپ ہزار روپیہ تیار رکھیں __” اس نے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ازلی لاپرواہ انداز میں کہا __”
میں آخری بار کہہ رہی ہوں مانی تو خود کو سدھار لے نہیں تو تیرے ابا تجھے سدھارنا جانتے ہیں ___” اسکی بے تکی باتیں سنتے وہ عاجز ہی آگئی تھی اس کے ہر دوسرے روز کی یہ ہی حرکت تھی__
مانی بالکل سدھر جائے گا ایک ہزار روپے کی تو بات ہے __اس نے قیاس آرائی کرتے بات کو بڑھایا تھا __
تیرے باپ نے میرے نام کے اکاونٹ نہیں کھلوائے یا میرے
نام کے خزانے نہیں ہے جو میں ہر روز تجھے دیتی پھروں ___” زارا بیگم نے اسے لاونج میں بے ڈھنگے انداز سے چلتے دیکھ کہ اپنی بے بسی کا رونا رویا ___”
چلیں مان لیتا ہوں آپکے نام کے اکاونٹ یا خزانے نہیں ہیں مگر یہ نہیں مان سکتا کہ میرے ابا آپ کو ہلکی اماؤنٹ دیتے ہیں ویسے بھی جو خواتین پرس چھپائے پھرتی ہیں نہ ہر وقت ان کے پاس اچھی خاصی اماونٹ پائی جاتی ہے اور مجھے علم ہے ماسٹر صاحب کی جائیداد پہ تو آپ ہی دھاک جماکہ بیٹھی ہیں __”
میں تجھ سے پوچھ رہی ہوں مانی میرا پرس کہا رکھا ہے توُ نے ___” وہ اس کی عادتوں سے جنجھلا کہ چلائیں تھیں جو چمکے ہوئے فرش پہ گند پھیلا رہا تھا
وہ تو میرے موکل کو پتہ ہوگا ویسے غیبی آواز آئی ہے کہ پہلے فیس ادائیگی ہوگی جو کل دوپہر کو دہی لایا گیا تھا کچھ اضافی چارجز سمیٹ ___” سیب ایک ایک بڑا سا بائٹ لیتے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے دانت نکالت ہوئے نہایت سکون سے بولا __”
میرے اللہ ایک تو یہ لڑکا ایک تو میں اسے بڑی ہی تنگ آگئی ہوں
وہ منہ میں بڑ بڑاتی علیزے کو دیکھتی بولی جو بڑی خونخوار نظروں سے مانی کی حرکتوں کو دیکھ رہی تھی اسکا تیسرا چکر نورِ حرم کی طرف تھا جس کو وہ اسپشل بریانی کا کہہ کے آئی تھی ۔۔۔”
لڑکا خود بھی اپنے آپ سے بڑا تنگ آیا ہوا ہے ناجانے کیا بنے گا اس لڑکے کااور کیا کریں گی اسکی زندگی اس کے ساتھ ___” ایک اور بڑا سا بائٹ لیتے جب اس نے نورِ حرم کو صحن کی طرف آتے دیکھاتو معنی خیزی نظروں سے دیکھتے جان بوجھ کے کہا ___” جس نے کوئی چیز چادر کے نیچے چھپائی ہوئی تھی ___”
اچھا میرا پرس دے پھر لے لینا ہزار روپے ___” آخر تنگ آتے انھوں نے پچکارتے ہوئے پیسے لینے چاہے تھے مانی نے انھیں پرس دیا تو ایک منٹ سے پہلے انھوں نے کھول کہ دیکھ کہ اپنی زبان سے پھرنا چاہا کہ کون سے پیسے اور کہاں کے پیسے ___؟
فکر مت کریں اماں میرے چیلوں نے چارجز سمیت اپنی فیس وصول کرلی ہے ___” وہ بھی دانت نکالتے ماں کو بری طرح تپاتے ہوئے بولا __”
اللہ کرے تیرے چیلے بھوکے مرجائیں مانی ___” تیرے چیلوں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہ ہو___” انھوں نے جیسے بد دعا دی تو وہ مزید منہ کھول کہ ہنسنے لگا تھا __
شکر ہے نورِ حرم __تمھیں نہیں پتہ کہ یہ سوٹ اتنی جلدی سلائی کرکے تم نے میرے اوپر کتنا بڑا احسان کیا ہے میرا ایک جوڑا بھی ایسا نہیں تھا جو میں فنکشن پہ پہن کہ جاتی ___” اٹھ کہ اس نے جلدی سے کہا کہ کئی مانی کو شک نہ ہو کہ سوٹ کی جگہ بریانی ہے وہ جانتی
تھی اس انسان کو جس کا ہر جگہ دھیان ہوتا تھا اب بھی بظاہر زارا بیگم کے ساتھ باتوں میں لگا ہوا تھا مگر اسکا دھیان پورا کا بر آمدے میں کھڑی ان دونوں کی طرف تھا نور حرم جانتی تھی مانی کی حرکتوں کو اس لیے علیزے کی چالاکی کو دیکھ کہ مسکرائے جا رہی تھی ___”
تم میرے کمرے میں جاؤ میں آ رہی ہوں نور___” وہ اس سے چاولوں سے پلیٹ لیتے خاموشی سے نکالی تاکہ مانی کو شک نہ گزرے اپنی طرف سے بڑی چالاکی دکھاتے وہ پلیٹ کو مانی کی نظروں سے بچاتے پلیٹ کچن کی طرف بڑھ گئی تھی__”
سچ سچ بتانا یہ تم چادر کے نیچے کیا چھپا کہ لائی تھی ___؟
نورحرم جو ہنوز چادر کے نیچے ہاتھ رکھے علیزے کے انتظار میں بیٹھی سوچوں میں غلطاں و پہیماں تھی یک دم سے قریب سے آواز سنتی ہوئی پیچھے ہوئی تھی __”
کچھ بھی نہیں بس علیزے کے کپڑے سہلائی کرکے لائی تھی ___” ایک دم سے اس نے نافہم سے انداز میں کہتے اس کی طرف دیکھا ہمیشہ کی طرح اس کی یہ حرکت ناگوار سی گزری تھی وہ ناک بھنویں چڑاتی اسے دیکھے گئی جو دروازے کے بیچ و بیچ اسی پہ نگاہیں جمائیں کھڑا تھا___”
سچ کہہ رہی ہو نا ___ اس کی طرف آتے اس نے تائید چاہی تو نورِ حرم نے اثبات میں سر ہلایا __
اچھا تو یہ پھر یہاں کیا چھپا کہ لائی تھی __” مانی نے چادر اس کے ہاتھوں سے اوپر کی تاکہ اس کی لائی گئی چیز کو دیکھ سکے دوسری طرف اس کی اس بے باک حرکت کو دیکھتے نورحرم نے بری طرح سپٹپا کہ ہاتھ پیچھے کھینچے تاکہ اس کی انگلی بھی اس شخص کے ہاتھ کے ساتھ مس نہ ہو ___” مانی نے اس کی یہ حرکت بخوبی نوٹ کی تھی جو ناگوار کیفت لیے پیچھے ہوئی جیسے باہر نکلنے کو تیار بیٹھی ہو ___”
ضرور تم آج اس بل بتھوڑی کےلیے کوئی چیز لے کہ آئی ہوگی دیکھ لینا آج صفایا ہوکہ رئیگا___ویسے اس بل بتھوڑی کے نئے سوٹ سے کئی تم نے بریانی کو دم تو نہیں لگایا ___”
جاتے جاتے وہ جتانا نہیں بھولا کہ وہ کسی بھی چیز سے انجان نہیں ہے اس کی اس بات پہ نورِ آنکھیں پھاڑے اس کی پشت کو دیکھنے لگی تھی اس ی جاسوس حرکتوں سے وہ کچھ بھی اخذ کرسکتی تھی __”
مانی نورِ حرم کو دھمکی دیتا باہر نکلا تو علیزے کو اندر آتے دیکھا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھ کہ قریب سے گزرتے مانی اس کے سر کے بالوں کو کھینچتا باہر نکل گیا ___”
کمینہ نشئی __آنے دو ابو کو ایک ایک چیز کا بدلہ لوں گی __” چیختے چلاتے وہ اسے سناتے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتی نور حرم کے پاس کمرے کی طرف بڑھی___”
کیا تھا میں اسے بھی پلیٹ دے دیتی حرج تو نہیں تھا ویسے بھی میں نے کھانے کا اچھا خاصہ اہتمام کیا تھا اسے بھی دے دیتی __” نور حرم نے اس کی اتنی مشکوک حرکتیں دیکھ کہ اسے دیکھ کہ تاسفانہ انداز میں بولی ___”
کوئی ضرورت نہییں ہے اسے دینے کی ___” ایک بار دیتی تو یہ نواب زدہ روز حق جتانے پہنچ جاتا مجھے آج بنا کہ دو مجھے ابھی بنا کہ دو اس کی حرکتوں سے تو اچھی خاصی واقف ہو تم ___” وہ بیڈ پہ اس کے ساتھ بیٹھتی الماری سے میک اپ باکس لے آئی تھی
مجھے حد میں رکھنا آتا ہے علیزے __” میں تمھارے بھائی کو اس کی اوقات میں ہی رکھتی ہوں جتنی اہمیت اس پہ جچتی ہیں میں اتنی ہی اِس شخص کو دیتی ہوں ___” نورِ حرم نے صاف انداز میں اسے جتایا کہ مانی اس کےلیے اتنا اہم نہیں ہے کہ وہ حق جتائے اور وہ جتانے دے یہ نورِ حرم کو منظور نہیں تھا اس کی باتوں پہ علیزے کے چہرے پہ تاریکی سی چھائی تھی اس کے چہرے پہ ایک گہرا سا سایہ ہوکہ گزرا تھا کچھ لمحے کچھ پل بعد وہ بولنے کے قابل ہوئی تھی
پھر تو تمھاری نظروں میں مانی کےلیے رائی بھر بھی اہمیت نہ ہوگی ___” علیزے کا سوال بے ساختہ شک و شہبات میں الجھا گھرا سا تھا اس کا سوال کا انداز ہی ایسا تھا کہ نورِ حرم بولنے کے قابل ہی نہیں رہی اسے لگا اس نے کم از کم اس وقت علیزے کے سامنے یہ بات غلط کہہ دی ہے ___”
ایسی بات نہیں ہے وہ تو بس میں نے ایسے ہی کہہ دیا تھا ___” اس نے فٹ سے صفائی دی کہ علیزے برا ہی نہ مان جائے ___”
ایک بات کہوں گی بالکل سچ تم مجھے غلط مت سمجھنا یا میری دوستی پہ شک ہرگز مت کرنا ___” تم مجھے بہت عزیز ہو ، میرے تایا کی بیٹی ہو ، میری بھابھی بھی ہو ___” ہم نے تقربیاً اب تک کی زندگی ساتھ گزارہی ہے اور تم جانتی بھی ہو میں نے اپنی ہر بات تم سے شئیر کی ہے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی ہمیشہ تمھارے ساتھ مخلص رہی بھی ہوں اور تمھیں سمجھا بھی ہے__”
مگر جہاں مجھے مانی ہے وہاں مجھے تم نہیں ہو یہاں تم مجھے خود غرض ہی سمجھ لو بہن بھائی کے رشتے میں سو اختلافات ہوتے ہیں اس طرح اُس کے اور میرے رشتے میں بھی ہیں ہم ایک دوسرے کو مارتے ہیں بیزار ہوتے ہیں لڑتے جھگڑتے ہیں مگر نفرت نہیں کرتے __”
تم جب مجھ سے کہتی ہو کہ تمھارا بھائی ایسا__”
تمھارا بھائی ویسا __” تو مجھے تمھاری باتیں بہت بری لگتی ہیں یہاں جتنا عزیز وہ مجھے ہے اتنی تم مجھے نہیں __” میں یہ ساری باتیں تمھارے گوش نہیں گزار رہی میں چاہتی ہوں کہ تمھاری نظروں میں مانی کا وہ مقام بنیں کہ تمھاری آنکھوں میں بھی میرے بھائی کا عکس نظر آئے __” وہ دنیا کی نظر میں چاہے آوارہ بدمعاش ہی سہی مگر میری نظر میرا بھائی ہے مجھے ہیرو سے کم نہیں لگتا اس کے ساتھ مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے موٹر سائیکل پہ اس کے پیچھے بیٹھے میں ہر غلط نگاہ سے محفوظ رہتی ہوں اس کے چوڑے کندھوں کے پیچھے ایک شفقت اور مضبوطی کا احساس ہوتا ہے جو شاید مجھے بڑے بھائی کے ساتھ بھی نہیں ہوا ___”
تم جب اس کے بارے میں کوئی ایسی بات کرتی ہو تو پتہ ہے میرے دل میں تمھاری باتیں چُھب کے رہ جاتی ہیں ___یہ سچ ہیں کہ اس رشتے میں بے بس اور خو غرض ہوں ___” مانی میرا ماں جایا ہے اور مجھے بہت پیارا ہے ___” ایموشنل ہوتے ہی وہ ایک ہی سانس میں ناجانے کتنی باتیں کرگئی اور نورِ حرم بغیر منائے دیکھنے لگی تھی آج اسے لگا کہ بہن بھائیوں چاہے جتنے بھی لڑ لیں پر ایک دوسرے کے خلاف کوئی بات بھی نہیں سن سکتے اسے علیزے کی آنکھوں مانی کےلیے پیار دیکھ نہ جانے کیوں اسے اچھا لگا اسے خود بھی نہ معلوم ہوا ___”
بل بیٹھوری یہ تم نے مجھے پیارا کہہ کہ ایموشنل کردیا ہے اب اس بریانی پہ صرف اور صرف تمھارا ہی حق ہے اگر کچھ دیر پہلے ان بہترہن اور اپنے پیار بھرے الفاظ کا چناؤ کرتی تو چکن کا ایک پیس تمھارا مقدر بنتا ___” اس کی آخری دو چند الفاظ سنتے اپنے نام کی پکار پہ رکا اور اندر داخل ہوگیا __
اس کی شوخ و شنگ آواز پہ علیزے نے مڑ کہ دیکھا اس کے ہاتھوں میں بریانی کی پلیٹ دیکھی تو چیخ پڑی ___”
نشئی ، کمینے چرسی ، مانی کے بچے ___” وہ چلاتی ہوئی اس کی جانب بڑھی تھی اسے اتنا غصہ آیا اس کے ہاتھ میں پلیٹ دیکھ کہ اسکا دل کیا کمرے کی سارے چیزیں مانی کو مار مار کے حشر کر دے ___”
ہائے میرے بچوں __” کہاں ہو تم جلدی آجاؤ ، تمھارا باپ دروازے میں کھڑا تمھاری راہیں دیکھ رہا ہے ___”
ویسے بائی دے وے بیوی میری تمھارے پاس ہے بچہ میرا کہاں سے آگیا ___” وہ نوٹنکی سے کہتا مسلسل نورِ حرم کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اس کی شوخ وارفتانہ نگاہیں اپنے اوپر جمے دیکھ کہ نور کنیفوز سی ہوگئی تھی اس کی معنی باتیں سنتے ہی اس کا چہرہ بلش کرنے لگا وہ نظریں ادھر ادھر کرتے فانوس پہ جما گئی تھی ___”
نشئی انسان تم ہمدردی کے لائق ہی نہیں ہو __” تم بھائی تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہو تم نے ایک بے ضرر بہن کے حق پہ ڈاکا مارا ہے ___” علیزے نے اسکا گریباں پکڑ کہ کھینچا اور پھر اس کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ کی طرف دیکھا جہاں ایک نوالے برابر چاول اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں تھا __”
نہیں نہیں رونا نہیں رونا نہیں تیرا رونا دیکھ کہ میرا دل پھٹ جائے گا تُو جانتی ہے نہ میں ہر چیز برداشت کرسکتا ہوں لیکن تیری آنکھوں میں آنسو نہیں ___” بس آنسو صاف کرو بریانی کا کیا ہے ابھی لے آؤں گا بس پانچ سو روپے کا چمکتا نوٹ میرے ہتیھلی پہ رکھو اور کمال دیکھو___” وہ اسکی آنکھوں میں چمکتی نمی دیکھتا اس کا چہرے سے آنسوؤ صاف کرتے بڑے پیار سے بولتا آخر پہ اپنی لائن پہ آیا ___”
نورِ حرم نے ایک نظر علیزے کو دیکھا اور پھر ایک دفعہ
اس لفنگے انسان کو دیکھا جو مکھن لگاکہ علیزے کے غصے کو ٹھنڈا کر رہا تھا اور چالباز انسان کی ڈرامہ بازیاں دیکھتی ٹھنڈی بھرتی چاچی کی جانب بڑھ گئی تھی __



آج فیقے چاچے کے اڈے پہ نہیں جانا بالی ___” آج اس بوہڑ والی درخت کے پاس بڑے اڈے پہ جائیں گے کیونکہ وہاں پہ بڑا شکار ہاتھ آیا ہے یہ شکار اگر تو ہم کرلیا تو ہمارے نسلیں بھی بیٹھ کہ کھائیں گی __” جیدے نے بالی اور مانی کو دیکھتے کافی معنی خیزی سے کہا تو ان کی آنکھوں میں بھی چمک آگئی سارے داد کن نگاہوں سے اس کے منصوبے کو دیکھ رہے تھے __”
جیدے تُو نے تو میرا دل خوش کر دیا ہے میرا پتر ___” مانی کی آنکھوں میں نافہم سی چمک اور چہرے پہ ایک پر اسرار سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا اس پراُسرار مسکراہٹ میں بھی ہزاروں راز دفن تھے ایسے راز جو پرانے صندوقوں میں بند تھے یہ راز صرف وقت ہی کھول سکتا تھا ہر راز سے پردہ اٹھانے کا وقت جلد آگیا تھا مگر یہ راز عام نہیں تھا جسے اچانک سے سر عام کر دیا جاتا یہ راز وفا کا تھا اور اس وفا کے راز کو کھلنے میں عرصہ درکار تھا یہ وفا کا وہ راز تھا جس پہ وقت نے تالے لگاکے چابیاں کہیں چھپا دی تھیں وفا کے اس راز کو کھلنے کےلیے تالوں کا ٹوٹنا بہت ضروری تھا کیونکہ جن تالوں کی چابیاں نہ ہوں وہ توڑے جاتے ہیں کھولے نہیں __”
وفا کے اس راز نے ٹوٹنا تھا کھلنا نہیں ___”
تم نکلو میں پہلے پٹرول پمپ پہ جاؤں گا کیونکہ میرا موٹر سائیکل کل سے مسئلہ کر رہا ہے ___” اس نے انھیں جانے کا عندیہ دے دیا ___”
اوہ مانے تُو کئی اپنے وعدے سے مکر تو نہیں جائے گا کئی ابا کے ڈر سے توُ عورتوں کی طرح چھپ ہی نہ جانا __” مودے نے مونچھوں کو تاؤ دیتے تھوڑا سا مشکوک نگاہوں سے دیکھا تھا ___”
اوہ مُودے ___” مانا مرتو سکتا ہے پر وعدے سے نہیں پھر سکتا ___” مانی نے لاکٹ کی چین کو پیچھے کرتے خالص نشئی انداز میں کہہ تو سب کے قہقے امڈ آئے تھے __”
پھر دیکھتے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تو مانی نے بائیک کو ہاتھ سے چلا کہ آہستہ آہستہ جانے لگا __”
تقربیا آدھے گھنٹے بعد جب وہ بوہڑ کے اڈے پہ پہنچے تو مانی کو سب سے پہلے ایک ٹوٹی پرانی کرسی پہ بیٹھا پایا تھا وہ دانت نکالے ان ہی کو دیکھ رہا تھا ___”
سب چہرے پہ مکروہانہ انداز لیے اس کی طرف بڑھے اور ایک بیگ نکالا تھا یہ ایک چھوٹا سا کوٹھڑی نما کمرہ تھا
سارے مسکراتے ہوئے مانی کے پاس پرانی بوسیدہ کرسیوں پہ بیٹھ گئے سب کے چہرے ایک فتح کن سے مسکراہٹ احاطہ لیے ہوئے تھی وقت کی اس بازی میں سب فاتح تھا اصل مفتوح کون تھا ؟____یہ کوئی نہیں جانتا تھا کس کے چہرے پہ کیا راز تھا یہ بھی کسی کو نہیں معلوم تھا ایک بازی وہ چل رہے تھے اور ایک بازی کوئی اور چل رہا تھا___
جیت کس کی تھی ___؟ یہ وقت نے طے کرنی تھی یہاں تو سب فاتح معلوم ہو رہے تھے پھر مات کس کا مقدر ٹھہرنی تھی ایک کی یا سب کی ___؟ یہ قرضے بھی وقت نے کچھ اپنے اوپر ادھار رکھے تھے __”
کچھ دیر بعد بالی ایک اور بھاری بیگ لیتا اندر داخل ہوا جسے دیکھ کہ سب کے چہرے پہ ایک شاطرانہ مسکراہٹ چھا گئی تھی__” اور مانی ان سب میں نمایاں لگ رہا تھا__”
جیدے ____”
آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا وہ جو اس بازی سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہو پائے سب کے چہرے پہ گبھرائٹ طاری ہوگئی تھی سائرن کی آواز دماغ پہ ایسی اثر انداز ہوئی کہ سب کے چہرے پہ پیسنے چھاگئے تھے اور اب ان سب میں مانی بھی گبھرایا ہوا لگ رہا تھا اس کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کو تیار تھی وہ بار بار جیدے کے کندھے کو پکڑ رہا تھا __”
جیدے ___” ابا کو پتہ چل گیا تھا ابا تو مجھے جان سے مار دیں گے ___” مانی نے اپنے کانپتے ہاتھ جیدے کے کندھے پہ رکھے تھے ___”
او ہ سالے پہلے یہاں سے تو بچ __” یہاں سے بچے گا تو ابا کی مار کھانے کے قابل ہوگا نہ __” جیدے نے اسے پیچھے دھکا دیا وہ اس صورت حال میں بھاگا __”مانی بھی بھاگ کہ ایک کے پیچھے چھپ گیا __”
کچھ ہی دیر میں شکار کی گھاٹ لگائے تھے سب بازی گر غائب تھے سب کو پو”لیس پکڑ کہ لے گئی جبکہ جیدہ تو نظر ہی نہ آیا مانی ابھی تک بلاک کے پیچھے چھپ کے بیٹھا ہوا تھا ابا کا ڈر دل میں بری طرح بیٹھ گیا تھا چہرہ پیسنے سے تر تھا___”
مانے توُ بھی اُن سے بچ بچ گیا ___”
وہ باہر نکلا تو جیدے کو دیکھا جس کی حالت ڈری سہمی تو نہیں تھی مگر کچھ دیر پہلے کی گبھرائٹ اس کے چہرہ کچھ حد تک طاری تھی ___”
یار چل یہاں سے ابا دیکھے گے تو جان سے مار ڈالے گے __” آستین سے چہرہ صاف کرنی اس وقت بہت گبھرایا ہوا لگ رہا تھا__”
ارے سالے بغیرت آدمی تجھے ابھی تک ابے کی مار کی پڑی ہے اور یہاں کوئی ہماری خبر گیری کرتا اتنا بڑا کام کرتا ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کہ چا گیا اسی کی بدولت تو ہمارے بندے پکڑے گئے __” جیدا جنجھلا کہ چیخ پڑا اسے بہت غصہ آ رہا تھا ایک ہی منٹ میں بازی پلٹ گئی تھی آج کی رات تو جشن کا اعلان ہوا تھا مگر اب وہ برباد ہوتے منصوبہ بندی کا سوگ منا رہا تھا __
اب چل یہاں سے ___” کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونی چاہیے کچھ کرتا ہوں کل تک ___” گھر تو اب پیدل ہی جانا پڑے گا__”
وہ اپنے کانوں میں پڑی بالی کو مسلتا اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا باہر نکل نکلا تھا ___”