راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 17

مانی آج ابا گھر نہیں ہیں جاؤ نہ نورِ حرم کو لے آؤ سکول سے ___” دو بجے کا وقت تھا علیزے نے اسے لیپ ٹاپ پہ مسلسل ٹائپنگ کرتے دیکھ کہ اس کے سر پہ کھڑی ہوئی صبح اسکے سر درد تھا تو اس نے چھٹی کرلی اس لیے اسے نورِ حرم کی فکر ہو رہی تھے اس لیے ابھی مانی کے سر پہ کھڑے ہوتے لہجے میں بیزارگی رکھے کہا__”
ملکہ عالیہ مجھے آپکے یہ حکم سخت زہر لگتے ہیں ___” اس لیے درخواست کیا کریں تاکہ آپ کی کچھ جائز خواہشات پوری ہوسکیں ___” بنا اسے دیکھے وہ بڑے سکون سے بولا تو علیزے کا بس نہیں چل رہا تھا وہ مارنا شروع کردے وہ اس شخص کے سامنے بے بس ہو جاتی تھا__”
شہزادہ سلیم ___آپ بستر سے اٹھ کہ سکول تشریف لے کہ جاسکتے ہیں___” اس نے دانت کچکچاتے بمشکل اس نوابوں کے سردار کو عزت سے نوازا جو بڑے ادب سلیوٹ اٹھ کھڑا ہوا تھا
❤❤❤❤❤❤❤
تم کیوں آئے ہو چاچو کہاں ہیں ___” وہ سٹاف روم میں تھی جب چوکیدار اسے معلومات دیتے باہر نکلا وہ حیران ہوئی آج چاچو اتنی جلدی کیسے لینے آ گئے مگر اب اسکو باہر دیکھ کہ اسے عجیب سا لگا تب ہی زبان کی بات منہ پہ لے آئی تھی ___”
بیٹھو سارے سوال و جواب راستے میں کرلینا بتا دیتا ہوں ___”
ویسے یہ جو سانڈ سا جھالر والا چوکیدار کھڑا ہمیں دیکھ نہیں بلکہ گھور رہا ہے اس نےبچوں کے لینچ پہ تو ڈاکا نہیں مارکہ اتنی توند تو نہیں بڑھائی ہوئی ویسے شکل سے خاص و خاص ایتھوپیا کا پرنس لگتا ہے مجھے تو ___” وہ موٹر سائیکل سٹارٹ کرتا شروع ہوگیا جو اس کے ساتھ بیٹھنے کےلیے تیار نہیں تھی لیکن پھر لوگوں کو اپنی طرف دیکھتی زہر کے گھونٹ پیتی بیٹھ گئی مگر اب اس کی باتیں تو گویا اسکا دماغ ہلاگئی تھی وہ جانتی تھی وہ بال کی کھال ادھیڑ لینے والا شخص کیسے کیسی کو سلامت چھوڑتا تھا ___”
بکواس مت کرو وہ پرنسپل ہیں ہمارے ___” اسکی باتیں سن کہ وہ جی بھر کہ شرمندہ ہوئی وہ اس لیے ہی تو اس شخص سے دور بھاگتی تھی ہر جگہ وہ اسے شرمندہ کروا دیتا اب بھی سر شوکت کو دیکھ کہ اس کے کندھے پہ جھانپڑ رسید کرتے چپ کروایا کیونکہ سر شوکت انھیں ہی دیکھ رہے تھا یہ بندہ اسے ہر جگہ شرمندہ کرواتا تھا اسکا تھپڑ جب کندھے پہ پڑا وہ مسکاتا ہوا خاموش ہوگیا___”
ویسے آج تمھیں اپنے ساتھ جانے کا موقع دوں تو تم میرے ساتھ کہاں جاؤ گی ___” بائیک چلاتے اسکی نظریں روڈ پہ تھیں __”
کیا مطلب تمھارا ساتھ کہاں جانا ہے گھر چھوڑ کہ آؤ مجھے سیدھا سیدھا شکر کرو تمھارے ساتھ آگئی ہوں ورنہ یہ جو تمھاری عادتیں ہیں ان سے بڑی تنگ آئیں ہوں ___”وہ جو پیچھے ہینڈل پہ ہاتھ رکھے بیٹھی جھٹکا لگنے سے کندھے سے اسکی قمیض کو زور سے مُٹھیوں میں جھکڑا اور پھر نہ چھوڑا ___”
بس ایک احسان کرو مجھے میڈیسن پوائنٹ پہ لے چلو میں نے اماں کےلیے دوائیاں لینی ہیں ___” اسے خاموش دیکھ کہ اس نے اپنی چادر سے بنا نقاب سیٹ خود ہی مخاطب ہوئی ___”
کوئی ضرورت نہیں ہے میں خود لے آؤں گا ___” اس نے سہولت سے انکار کیا تھا __”
تمھیں کونسا پتہ ہے اُن دوائیوں کے متعلق اس لیے کہہ رہی ہوں میں خود لوں گی صرف پانچ منٹ ہی تو لگیں گے ___” نورِ حرم نے آہستگی سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلاکہ کچھ دیر بعد میڈیسن پوائنٹ کے سامنے بائیک کو روکا___”
نورِ حرم چادر ٹھیک کرتے اتر گئی سٹور پہ رش اکا دُکا لوگ تھے اس لیے وہ مطلوبہ دوائیاں لیتی باہر نکلی مگر بائیک خالی تھا وہ نہیں تھا اسے تشویش ہوئی کہ وہ کہاں چلا گیا کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ میں ہاتھ میں کوئی شاپر اٹھائے ادھر ہی آ رہا تھا ___”
کہاں چلے گئے تھے تم ___؟ اسے خود کی جانب بڑھتا دیکھ کہ اس نے ترچھی نگاہ کرتے اسے دیکھا اور اپنی ازلی سرد لہجے میں بولی ___”
کوئی ضروری چیز لینی تھی چلو ___” وہ بھی لاوپرائی سے جواب دیتا بائیک پہ بیٹھا تو وہ بھی خاموش ہوتی پیچھے بیٹھی تو اس نے بائیک سٹارٹ کرتے روڈ پہ ڈالا ___”
کچی آبادی جیسے ہی شروع ہوئی تو آگے سے ایک بکری کا بچہ اچھلتا ہوا موٹر سائیکل کے آگے ہوا مانی نے بڑی مہارت سے موٹر سائیکل اسے ہٹ کرنے سے پہلے ہی دوسری جانب کیا بکری کا بچہ تو بچ گیا مگر جھٹکا لگنے کی وجہ سے نورحرم توزان برقرار نہ رکھ سکی اور نیچے گرگئی تھی مانی جلدی سے بائیک کو روکتا پیچھے گیا جو اٹھنے کی کوشش کرگئی ___”
سوری سوری ___” نورِ حرم بخدا میرا ارادہ تمھیں گرانے کا ہرگز نہیں تھا وہ اس کے پاس آتے اس کے پاس بیٹھا ___”
دکھاؤ کئی لگی نہیں ___” وہ اب متفکر سے دکھائی دے رہا تھا___
جب حفاظت کرنا نہیں آتی تو پھر رکھوالے بھی مت بنا کرو ___” خفگی سے جواب دیتی سے آنکھیں پھیرتی اٹھنے کی کوشش کرنے لگی جب مانی نے اسکا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی تووہ بری طرح جھٹک کے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی __”
وہ اسے دیکھتا رہا کہ وہ تھامنے کا کہے گی وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ___”
اگر کوئی اپنی ” میں ” میں مشہور ہوتا نورِ حرم تو بخدا میں تمھارا نام لیتا میں ___” وہ اسے اٹھتا دیکھ کہ اسکی طرف آیا___”
اپنی میں تو تب عزیز رکھتی جب مجھ میں انا ہوتی ___” انا مجھ میں میں ذرا بھی نہیں ہے اگر ہوتی تو تم جیسے سوٹا پینے والے سے ہرگز نکاح نہیں کرتی ___” وہ اسکی باتوں پہ جیسے سلگتی اٹھی درد کی شدت بڑھی تھی مگر پھر بھی اسے سنانا نہیں بھولی ___”
وہ ہی میں کہہ رہا ہوں کہ تم میں انا ذرا بھی نہیں ہے مگر میں سوچ رہا اگر ہوتی تو پھر کیا ہوتا___” وہ اس کے پاس آتا مٹی اس کی چادر سے جھاڑتا ہوا رسانی سے بولا وہ اپنے لفظوں سے پل میں اسے لاجواب کرگیا تھا وہ مانی تھا جو لاجواب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا اس کی بات سن کہ وہ مکمل خاموش ہوگئی ___”
ویسے فرض کے طور پہ اگر تم میں انا ہوتی تو تم میرے اور اپنے رشتے کو قبول کرلیتی ویسے تو میں جانتا ہوں تم میں انا ذرا بھی نہیں ہے اس لیے اس رشتے کو قبول نہیں کر رہی اگر ہوتی تو پھر کیا میرا ساتھ تمھیں قبول ہوتا ___” وہ مٹی صاف کرتا عام سے لہجے بولا مگر نورِ حرم کو طنز لگا ___”
تم خود کو سدھار لو تو ہوسکتا ہے میں سچے دل سے تمھیں ہمسفر بنانے پہ رضا مند ہوجاؤں لیکن اس فقیر حلیے اور ان حرکتوں کے ساتھ ہرگز نہیں ___”
اور اگر میرا جواب نہ میں ہوا یا میں خود کو نہ سدھاروں تو پھر __؟ اس نے ذو معنی انداز میں بات ادھوری چھوڑ دی
وہ درختوں کی ایک طرف کھڑے تھے جہاں ان کے درختوں کے درمیان بیچ جاتے کوئی بھی نہیں تھا__
جب تم میری بات نہیں مان سکتے تو پھر مجھ سے بھی بہتری کی اُمید مت رکھو ___” اب کی بار اس کے لہجے میں اس کےلیے ہمدردی نہیں تھی ___”
حقیقت تو یہ ہے نور حرم تمھیں اس رشتے سے چھٹکارا پانے کا عذر چاہیے میں جانتا ہوں تم اس انسان کے ساتھ کبھی سراوئیو نہیں کرنا چاہو گی جس کے پاس سے پسینے کی بو آتی ہے جو روز حرام چیز کو منہ لگاتا ہے __”
یہ شرط بندیاں رکھ کہ تمھیں لگتا ہے ہمارا رشتہ مکمل ہو جائے گا تو کبھی بھی ایسا نہیں ہوگا کامل انسان کھوجتے کھوجتے خود کو کھو دوں گی __”
رشتوں میں پرفیکٹنس تب آتی ہے جب ہم خامیوں کو نظر انداز کرنا سیکھ لیں خامی کو دیکھتے ، سنتے جانتے بوجھتے ہوئے اندھے گونگے بہرے بن جائیں ___”
وہ بغور اسکی طرف دیکھنے لگی جو اسکے ساتھ لگی مٹی کو بڑی فکر سے جھاڑ رہا تھا وہ اسے بے اختیار دیکھے گئی جس کی چوڑی پیشانی پہ شکینں تھیں جو اسے اپنے لفظوں سے لاجواب کر دیتا تھا بے بس کر دیتا تھا وہ سوچنے پہ مجبورا ہو جاتی اسے کھٹک سی محسوس ہوتی اُسے لگتا جیسے وہ کچھ غلط کر رہی ہے __”
چلو وہ اسے بازوں سے تھامتا موٹر سائیکل تک لایا جو بس سوچے رہی تھی ___”
اب پکڑ لو مجھے ___” یہ کہتے وہ بائیک پہ بیٹھتے اسے کہا جو اس کا سہارا لیے اس کے پیچھے بیٹھ گئی تھی اسکا چادر کا بنا نقاب تو کب کا اتر گیا تھا اس نے نقاب صیح کیا __”راستہ اتنا لمبا نہیں تھا جتنا نورِ حرم کو آج محسوس ہوا___”
اس کے بعد وہ پورا راستہ دونوں ایک دوسرے سے مخاطب نہ ہوئے پھر وہ اس نے گھر کے سامنے بائیک روکی تو وہ اترتی ہوئی خود چلی گئی مانی بھی موٹر سائیکل سے چابی نکالتا ے دوائیوں کا شاپر لیتا اس کے پیچھے اندر کی جانب بڑھ گیا تھا___”
باجی جی السّلام علیکم ___” وہ جیسے اندر داخل ہوئی آج اس کے تھوڑا سا لیٹ پہ بچے پہلے ہی موجود تھے وہ سلام کا جواب دیتی اندر بڑھ گئی ___”
اماں نے بھی آج اس کے لیٹ آنے کی پوچھی تو مختصراً بتاتی اندر چلی آئی ___” کچھ دیر بعد وہ کپڑے بدل کہ کچن میں آئی تو مانی کو دیکھا جو کھڑے کھڑے بڑے مزے سے کھانا کھا رہا تھا جس کو صائمہ کھانا خود دے کہ گئی تھی ___”
پیٹو کہیں کے ___” اسے یہاں دیکھ کہ نورِ حرم کو بہت غصہ آیا وہ کچن میں داخل ہوتی اس کی حرکتوں سے چڑی __” وہ سالن پلیٹ میں ڈالتی روٹی لیے کرسی پہ بیٹھی گئی تھی مانی کو نظر انداز کرتے کھانا کھاتی اٹھ کھڑی ہوئی ___”
نورِ حرم ___” مانی نے اسے پکارا تو وہ رک گئی __”
اب کیا ہے ___؟ وہ جنجھلاتی ہوئی پلٹی مگر پھر ٹھٹک گئی کیونکہ وہ جیب سے چوڑیاں نکال رہا جو بند تھی مگر اسے نظر آگئیں جو سرخ رنگ کی تھی ___”
یہ میں تمھارے لیے ____”
مگر میں نے تمھیں پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے تمھاری حرام کی کمائی سے ایک روپیہ بھی اپنے اوپر خرچ کروانا نہیں پسند ___” وہ ماتھے پہ شکنیں لاتی اس کی بات بیچ میں کاٹتی کھٹور پن کی انتہا کرگئیں __
اس کو تم حرام کی کمائی نہیں کہہ سکتی نور یہ میرے ابا کی حق حلال کی کمائی ہے ___” بڑی محنت سے ابا کی جیب سے نکلوائے ہیں اس لیے یہ میری بھی حق حلال کی کمائی ہے اور اب تم انکار نہیں کرو گی ___”
وہ بڑی فنکاری سے کہتا اس کے نزدیک چلا آیا __” اس کی کلائی پکڑتے وہ اسے پہنانے لگا اب کی بار نورِ حرم کچھ نہ بولی کیونکہ اس کی آنکھوں میں چمکتا ایک اچھوتا احساس دیکھ کہ وہ کچھ تلخ سنانے سے رُک گئی __”
قسم سے اس رنگ سے مجھے سخت نفرت تھی مگر جب سے تمھاری کلائیوں پہ یہ رنگ دیکھا ہے یقین مانو اس رنگ سے اچھا کوئی رنگ نہیں لگا اس رنگ سے مجھے عشق ہوگیا ہے نورِ حرم __” اس رنگ میں __میں نے تمھیں اپنے نام کا ہوتا دیکھا تھا اس رنگ میں تم مجھے محرم بن کہ ملی تھی ___” وہ ساری چوڑیاں پہناتا اس کی کلائی پہ لب رکھ گیا ___
نور حرم کے دل میں ہلچل سی ہوئی دل کو چھولینے والا احساس رگ رگ میں برپا ہوا اس کا لمس محسوس ہوتے ہی وہ ایک دم ہاتھ کھینچ گئی وہ کیا بتاتی اپنی عادتوں کی وجہ سے اچھا لگنے لگا ہے مگر وہ نورِ حرم تھی جس نے قیامت تک اقرار نہیں کرنا تھا __” وہ اس کے ہاتھوں میں ایک چین رکھتا بولا جو سمپل سی نفیس سی تھی وہ حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھے گئے __”
مانی پھر بغیر کچھ کہے باہر نکل گیا پیچھے نورِ حرم اپنی بے قابو ہوتی ڈھرکنوں کو سنھبالنے لگی آج ایک اچھوتا سا احساس اس کے اندر سرائیت کرگیا __” کتنی دیر بعد وہ ہوش میں آتے برتن سنھبال کہ باہر نکلی اور کرسی لیے بچوں کے پاس بیٹھ گئی ___”
بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے اس کی نظر ایک صحفے پہ پڑی ___” جہاں کچھ لکھا ہوا محسوس ہوا تو اٹھ کہ اس نے تجسس سے اٹھایا صاف ستھری ہینڈ رائیٹنگ سے لکھی منیر نیازی کی بہت پیاری سی غزل تھی پہلا مصرعہ دلچسپ لگتے وہ پڑھنے لگی ___”
کُج شوق سی یار فقیری دا___”
کُج عشق نے دِر دِر رول دِتا___”
کُج سجن نے کسر نہ چھوڑی سی
کُج زہر رقبیاں گھول دِتا____”
کج ہجر فراق دا رنگ چڑھیا___”
کج درد مائی انمول دِتا_____”
کج سڑ گئی قسمت بدقسمت دی
کج پیار وچ جدائی رول دِتا__”
کج اُونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وِچ طوق غماں دا وی س__”
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن __”
کج سانوں مرن دا شوق وی سی __”
اس شخص کے رائٹنگ تھی یہ__” اس شخص کے الفاظ تھے یہ جس سے نورِ حرم کے نفرت کے دعوے بہت اونچے تھے
ان الفاظ کو پڑھ کہ اسے کتنی دیر ارگرد بھول گیا وہ آہستہ ہی سہی مگر اس کے اندر بہت گہری چھاپ چھوڑ گیا تھا کچھ بھی تھا اس شخص کا ذوق بہت اچھا تھا وہ کاغذ تہہ کرتی اسے بند کرکے ہاتھوں میں رکھ گئی شاید سنبھالنے کےلیے ___؟
آج اسے وہ بہت اچھا لگا آج تو اپنے احساسات چھپانے بھی مشکل ہوگئے تھے ___”
❤❤❤❤
مانی___مانی ابا جیسے ہی گھر داخل ہوئے ڈھارتے ہوئے اسے مخاطب کیا وہ جو مغرب کی نماز پڑھ کہ لوٹے کافی غصے میں لگ رہے تھا ان کی بھاری آواز سنتی علیزے باہر آئی ابا برآمدے میں تھے ___”
ابو جی ___” کک __کیا ہوا ہے ___؟ ابا کے خطرناک تیور دیکھتے وہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتی ان کے پاس آئی ___”
مانی ___” کچن سے اسکا بے ڈھنگا قہقہ سنتے وہ تن فن کرتے کچن میں چلے گئے جہاں وہ اسٹول پہ بیٹھا ہوا تھا اماں ہانڈی بنا چکی تھیں اسکا یہ وقت سب کو تنگ کرنے کا ہوتا وہ ابھی یہ مشغلہ اپنائے ہوئے تھا جب ابا نے اندر آتے اس کو گریباں سے پکڑ کہ اٹھایا ___”
ابا ____” حیرت سے بس اس کے منہ سے یہ ہی نکل سکا وہ ان کا چہرہ دیکھے جا رہا تھا ان کے عمل سے لگ رہا تھا جیسے وہ اسے جان سے مار دیں گے ___”
پچھلے دو دن سے کہاں عیاشیاں کرتا رہا ہے مجھے سچ سچ بتانا تیرے لفظوں میں پھیر ہوئی تو زندہ زمین میں گاڑوں گا ___” اسکا گریبان جنجھوڑتے انھوں نے اتنی سختی پوچھا اماں دل پہ ہاتھ رکھتیں آگے کو ہوئیں _”
مانی کے ابا اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں بات تو بتائیں __” زارا بیگم نے ماسٹر صاحب کے ہاتھ سے مانی کا گریبان چھڑانا چاہا ___”
وہ ابا___وہ ابا میں شیدے کے ہوٹل پہ تھا ___” اس نے ججھکتے ہوئے بات بنائی __”
چٹاخ ___” بکواس کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے تو ایک نمبر کا بے غیرت ہے ارے میں پوچھتا ہوں تیرے گھر میں بہن ہے تیرا دل نہیں کانپا خوف خدا نہیں ہے اوروں کی بیٹیوں کی تو عزتیں خراب کرتا پھر رہا ہے تجھے وقت کے پھیر سے ڈر نہیں لگتا ___” وہ ڈھار اٹھے مانی نے چونک کے انھیں دیکھا اماں پھر سے آگے ہوئیں ان کا ہاتھ بے ساختہ دل پہ گیا ___”
کس کی بیٹی عزت کی خراب کی ہے کیا کہہ رہے ہیں ابا
اس نے اماں کو بازوں سے پکڑتے پیچھے کیا اور اب وہ ان کے مقابل آگیا ___”
بخش محمد کی بی”ٹی کہا چھپائی ہوئی ہے اور کب سے چل رہا ہے یہ عیاشیوں کا چکر مجھے تو لگا تھا کہ توُ سوٹے کی چسکوں کی وجہ سے راتوں کو گھر نہیں آتا مگر مجھے کیا پتہ تھا تم جیسا کمینہ خبیث آدمی بد کرادری کے مرض میں بھی مبتلا ہوگا تجھ میں تو خوفِ خدا ذرا نہیں ہے کیونکہ مگر مجھ میں ہے کیونکہ میں بیٹی کا باپ ہوں بتا ان بے غیرتیوں کا سلسلہ کب سے شروع ہوا ___” اب کی بار گالی دیتے اسے گریبان سے دبوچتے صحن میں لے آئے ___”
ماسٹر صاحب ___ ماسٹر صاحب میرا بیٹا یہ نہیں کرسکتا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ___” زارا بیگم پیچھے کو لپکیں تاکہ وہ مانی کو نقصان نہ پہنچائے علیزے باہر تو نکل آئی مگر ہمت نہیں ہوئی آگے آنے کی وہ ابا کے غصے سے ڈرتی تھی نورِ حرم اور تائی بھی شور کی آواز سنتے دیوار کی طرف آئیں اس نے معاملہ جب گمھبیر دیکھا تو دروازہ کھولتے چاچو کے گھر داخل ہوئی ___”
غلط فہمی نہیں سچ ہے دیکھو لوگوں کو باہر باتیں بنا رہیں ہیں ابھی بخش محمد مجھے ملا تھا __” اس کو شفقت آرے والے نے دو دن پہلے آدھی رات کو اس کی بیٹی کے ساتھ دیکھا ہے بہتان نہیں ہے یہ وہ بھلا مانس آدمی میرے آگے رو رہا تھا وہ بد نامی و رسوائی سے ڈر رہا ہے اس لیے مجھے اپنے گھر لے کہ گیا مجھے یہ بات یہ کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے زارا مگر ڈر ہے کہ اس بے غیرت نے کہیں اسکی پاما”لی نہ کر دی ہو ___” اب دیکھو اس بے غیرت کی شکل کو کیسے منہ چھپاتا پھر رہا ہے ___”
لوگوں نے کہا اور آپ نے یقین کر لیا ابا ___” لوگ جو کچھ کہیں گے آپ یقین کرلیں گے __” اس نے ایک نظر اماں پہ ڈالی اور پھر گہری سانس باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ پوچھا لہجے میں درد بول رہے تھے الفاظ منہ سے نکلنے سے قاصر ہوئے ___”
ہاں جیسے میں تو تجھے جانتا ہی نہیں ہوں ___” مجھے پتہ ہے کہ توُ کتنے پانی میں ہے مجھے ادھر اُدھر کی باتوں میں لگا کہ موقف سے ہٹانے کی کوشش مت کر
میں باپ ہوں تیری رگ رگ سے واقف ہوں ____”
بتا کہاں لے کہ گیا توُ اس کی بیٹی کو ___” انھوں نے بغیر رعایت کے پوچھا ان کا بس نہیں چ رہا تھا وہ اسے زندہ دف”نا دیں ___”
باپ تو ہیں مگر میری رگ رگ سے واقف نہیں ہیں یہ خوشی فہمی تو بھی دل سے نکال دیں اگر غلط فہمی ہے تو بھی دل سے نکال دیں __” اس نے اپنی صفائی نہیں دی اور اسے اچھا بھی نہیں لگا تھا صفائیاں تو وہ تب دیتا جب اپنے مقام کا نہ پتہ ہوتا __”
میں کہہ رہا ہوں مانی اس میں تیری بھی بہتری ہے اور میری بھی مجھے سچ سچ بتا کہ وہ لڑکی کہاں ہے اس سے پہلے بات کوٹ کچہریوں تک جائے اور تیری وجہ سے میری مزید بدنامی ہو میرا سر جھکے مجھے آرام سے بتا دے پھر اگلا حل سوچوں گا یہ تو مجھے پتہ ہے کہ گھناونا کام توُ نے کیا ہے___” اب کی بارے تلخ مگر دھیما لہجہ اپنائے انھوں نے سچ اگلوانا چاہا نورِ حرم مانی کے بولنے کی منتظر تھی اسے ناجانے کیوں آج پہلی دفعہ چاچو غلط لگے ___”
۔
میں سمجھتا تھا میں بہت ڈھیٹ ہوں اتنا ڈیھٹ کہ کسی بات کا تو مجھ اثر کبھی نہیں ہوگا مگر آج اثر ہوا ہے اور بہت گہرا ہوا ___اتنا گہرا ____کہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ___”
میں نے ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کیا جسے آپ کا سر جھکے ہاں شفقت ٹھیک کہہ رہا تھا اس نے مجھے دیکھا ہے اس لڑکی کے ساتھ___لیکن وہ لڑکی وہاں پہلے ہی موجود تھی اس نے مجھے جیدہ سمجھا تھا شاید___”
وہ خود اپنے باپ کو دھوکہ دینے کے چکروں میں تھی میں نے اسے واپس گھر جانے تک کا کہا مجھے لگا وہ چلی گئی ہے ___ لیکن خیر ___آپ کیوں کریں گے اس سوٹا لگانے والے بے عملے انسان کا یقین آپ کو جب یقین نہیں آنا تو پھر صفائیاں دینے کا فائدہ ___؟
ٹھیک ہے پھر وضو کر مسجد چل میرے ساتھ ___” وہاں اس لڑکی کے باپ کے سامنے ، اور جو لوگ میری تربیت کو غلط کہہ رہے ہیں قرآن پاک پہ ہاتھ رکھ کہ کہو کہ اس لڑکی کو ورغلانے میں بھگانے میں تمھارا ہاتھ نہیں ہے تب پتہ چلے گا کہ تُو کتنے کھرے کردار کا ہے __” ابا نے سفاکی سے کہا تو وہ سمجھ گیا ابا کو اپنی عزت سے زیادہ کچھ نہیں ہے __” اس لیے آہستگی سے ان کے ہاتھ اپنے گریباں سے ہٹائے___”
صرف یہ بتانے کےلیے کہ میں کر ادر کا کتنا کھرا ہوں میں اتنی پاکیزہ کتاب کو گواہ نہیں بنا سکتا اگر میں سچا ہوا تو میرے کردار کی گواہی صرف میرا رب دے گا یا پھر وقت ___”
خیر کے پیچھے چھپی شر تو ہر کوئی جاننے کی کوشش کرتا ہے مگر شر کے پیچھے چُھپی خیر کوئی کوئی دیکھتا ہے سمجھ کی یہ نگاہ اللہ کسی کسی کو عطا کرتا ہے ___”
سچا ہوتا تو ثابت کرتا نہ کہ یہ حرکت تیری نہیں ہے ___” اس کی بات کاٹتے انھوں نے جواب دیا وہ اس کی ایک بات بھی سننے کو راضی تک نہیں تھے ابا بس اپنے موقف پہ ڈٹے ہوئے تھے ___”
جو مرضی ہو جائے ابا آپ یقین کریں نہ کریں مگر میں یہ کام ہرگز نہیں کروں گا ___” اس نے پہلی دفعہ غصے سے کہا کہ پہلے تو ابا ٹھٹک گئے مگر اس کی بغاوت کو دیکھتے الٹے ہاتھ کا تھپڑ گھوما کے پھر سے اسے مارا___”
ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری ___توُ ز ” انی مرد
ہے ___” ابا نے اب کی بار اس کو گریباں سے جنجھوڑا
چاچو _____چاچو ____” نہیں پلیز ___” نورِ حرم نے ان کے ہاتھوں سے مانی کا گریبان ہٹایا وہ اسے نفرت کرنے والی اس کی ڈھال بن کہ کھڑی ہوگئی ___”
اماں روز روز کی ناچاکیوں سے تنگ آتیں سر ہاتھوں پہ گرائے چرپائی بیٹھی ہوئیں تھی __”
چاچو ایک بار تصدیق اور غور و فکر تو کر لیں یوں لوگوں کی باتوں میں آگے اتنا بڑا بہتان پہلے سے نہ لگائیں یہ بہت سخت گناہ ہے چاچو ___” تقربیاً اس کی پشت اسکے سینے سے لگی ہوئی تھی وہ اس نورِ حرم سے بہت مخلتف تھی جو مانی ہر روز دیکھتا تھا آج وہ اس کے ساتھ لگی ہوئی اس کو صیح نہیں کہہ رہی تھی تو غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی ___”
تصدیق کرنے کو رہ کیا گیا ہے ؟ حرم بچے ___کیا پوچھو اپنے منہ سے کہ میرا بیٹے نے کیا کیا ہے ___” تصدیق تو تب کرواؤں نہ جب اسکا پتہ نہ ہو تم تو جانتی ہو یہ کیسی صحبت کا ہے میں تو آج تک یہ ہی سمجھتا آیا تھا کہ یہ بے غیرت ہے، کمینہ ہے، شرابی ہے، بے ادب ہے بگڑا ہوا ہے بری صبحت میں بیٹھتا ہے مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ حرام زدہ بد کردار بھی ہے مگر آج تو اس نے میرے شک کی آخری اینٹ بھی گرا دی دیے اس نے میرے شک کو یقین میں بدل دیا ہے __” میں نے تمھارے ساتھ نا انصافی کر دی ہے دیر سے احساس ہوا ہے مگر ہو ضرور ہے مجھے لگتا تھا یہ سدھر جائے گا مگر مجھے کیا پتہ تھا یہ اور بگڑ جائے گا باہر منہ مارتا پھرے گا ___”
آج دل کر رہا ہے خود کو آگ لگا لوں یا اسے جان سے مار دوں یہ بغیرت آدمی اولاد کے نام پہ میرے اوپر سیاہ دھبہ ہے جو مٹ بھی نہیں رہا اور نہ میں بے بسی کے ہاتھوں اس دھبے کو مٹا پا رہا ہوں اس سے اچھا تھا یہ پیدا ہوتے ہی مر جاتا __”
اس نے جگہ مجھے بد نام کر رکھا ہے تم بتاؤ میں لوگوں کا سامنے کیسے کروں گا میں سب کےلیے قابلِ احترام تھا
لیکن دو دن بعد جب معاملہ عام ہوگا تو پھر سب تو اسکی بے غیرتی کو قصہ سرعام مجھ پہ تھو تھو کریں گے ___بس اس کی وجہ سے میں بڑھاپے میں رُل رہا ہوں ہزاروں کی تعدا میں لوگ مرتے ہیں یہ م”ر جائے تو کم از کم میری مشکلیں کم ہوجائے میرا بڑھاپہ آرام سے گزر جائے ___” بے بسی سے کہتے وہ نورِ حرم کے سامنے بے بس ہوئے ___”
اس وقت کے انتظار میں رہیں اور دعا کرے کہ اب اس گھر میں میرا تابوت ہی آئے ابا مگر کیا پتہ آپکی یہ خواہش ادھوری رہے کیونکہ میں ان ڈھیٹ لوگوں میں سے جو اذیت کی انتہا پہ آکہ بھی نہیں مرتے ___” وہ نورِ حرم کے پیچھے سے گزرتا پھر ان کے مقابل ہوتا انھیں باور کراوتا بہت کچھ ضبط کر رہا تھا ___”
نہ نہ میرا بچہ اس وقت یہ دل دہلا دینے والی باتیں منہ سے نہ نکال مریں تمھارے دشمن ___” ابھی تیرے ابا غصے میں ہیں میں سمجھاؤں گی انھیں ___” اسکی بات سنتے اماں چرپائی سے اٹھتی اماں نے اسکا بازؤں پکڑتے اسے چپ کروانے کی کوششش کی ___”
رات ہونے سے پہلے کی ہلکی ہلکی سیاہی جیسے ان سب کے وجود میں داخل ہو رہی تھی
نہیں اماں یہ نہیں سمجھیں گے کیونکہ یہاں بات میری ہے ___”
سب کی نظروں میں شرابی ہوں آوارہ ہوں اور ایک بدکرادری کا داغ رہتا تھا آج وہ بھی وہ بھی لگ گیا ہے میں بس آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں اماں___وہ رکا پھر توقف لے کہ بولا
آپ اس ہجوم سے الگ کیوں ہے اماں کیوں___؟ ان جیسی کیوں نہیں ہیں یا پھر ان سب کے سینے میں آپ جیسا دل کیوں نہیں ہے ___؟ ماں کے ہاتھ پکڑتے ایک ایک نگاہ سب پہ ڈالتے اس نے کافی متاسفانہ لہجے میں کہا ___”
انداز بچوں جیسا تھا علیزے ، نورِ حرم ماں کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ کہ نظریں جھکا گئیں __”
اسے کہو یہ یہاں سے دفعان ہو جائے اپنی شکل گم کریں
ان کی ڈھار ایک بار پھر پورے صحن میں گونجی __”
مجھے بھی کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں رہنے کی جا رہا ہوں مگر آپ کو پچھتاوا ہوگا __”
وہ یہ کہتا تن فن کرتا راستے میں آئی ہر چیز کو ٹھوکریں مار کہ نکلا تو نورِ حرم اس کے پیچھے بھاگی ___”
خوش ہو جائیں ماسٹر صاحب چلا گیا ہے وہ ___” زارا بیگم چبھتی نگاہ ڈالتی اندر کو بڑھ گئی تھی
ہاں اور کرو نہ حمایتیں اسکی اس کو بگاڑنے میں سارا ہاتھ تمھارا ہی ہے کُھلی چھوٹ دے رکھی ہے تم نے اسے جہاں مرضی چلا جائیں یہ یہاں ہی واپس آئے گا__” نہ بھی آیا تو گھیسٹ کہ لاؤں گا کیونکہ غلطی کرتا تو معافی مل جاتی مگر آج اس نے گناہ کیا ہے جس کےلیے اسے جگہ جگہ ناک رگڑواؤں گا ___”
مانی ___مانی نورِ حرم بھاگی جس کے قدم داخلی دروازے سے اندر تھے وہ اُسکی ایک نہیں سن رہا تھا بس تیز تیز چلتا جا رہا تھا __
مانی مانی وہ تیزی سے بھاگی اس کی پشت پہ ہاتھ رکھ کہ روکنا چاہا اس نے قدم مزید بڑھائے اور اسے بازوں سے پکڑ کہ روکنے کی کوشش کی ___”
مانی ___مانی ___” اس نے اسے روکنا چاہا اس کو روکا ____”
فکر مت کرو ڈھیٹ ہڈی ہے میری اتنا جلدی نہیں مرنے والا ___” وہ یہ کہتا تیز قدموں سے اسے گلی میں چھوڑ کہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا نور حرم کا آج پہلا دن خوشگوار گزرا اس کا اختتام ایسا ہوگا اس نے کہاں سوچا تھا ___” وصل کے ہزاروں پیغام کی نوید سناتا یہ دن بھی جیسے آخری دہانے تھے __”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial