راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

رات بھی جیسے تیسے گزر گئی آج تو چاچو کے گھر سے اونچی آوازیں بلند نہیں ہو رہیں تھیں وہ آوازیں جو اسکی روح کو بد سکون کر دیتی تھیں ___”
نورِ حرم کو ساری رات مانی کا خیال کلبلاتا رہا اُسے ناجانے کیوں لگا کہ مانی غلط نہیں تھا اسے پہلی دفعہ چاچا کے الفاظ سن کہ وہ غلط لگے اور مانی کی کردار کی مضبوطی کا احساس ہوا ___”
وہ اسے تب اچھا لگا کل جب اس کے کندھے سے گرد جھاڑ رہا تھا اسے تب اچھا لگا جب اپنی سچی محبت کے جذبات غزل کے ذریعے اس تک پہنچائے ، وہ اُسے تب وفادار مرد لگا جب رات کو اپنی کرادر دفاع کےلیے خود کو گناہ گار ٹھہراتے ہوئے اتنی پاکیزہ کتاب پہ ہاتھ نہ رکھنے کا کہتا لڑ جھگڑ کہ نکل گیا ___”
نورِ حرم اس کے سامنے خود کو جھکانا گواراہ نہیں سمجھتی تھی اسے لگتا تھا کہ اگر ایک دفعہ اس کے سامنے اس نے اپنی زندگی میں اسکا اہمیت کا اسے بتا دیا کہ وہ اس کے جسم میں چلتی سانسوں کی طرح اہم ہے مگر دوسری طرف یہ سوچ بھی آئی اگر وہ اپنا اور اسکا رشتہ بچانے کےلیے جھک بھی گئی وہ تو اسے گرا ہوا سمجھ لے گا اور اپنا جھکنا تو اسے ذرا بھی منظور نہیں تھا___” بس خود سے شرمندہ ہونے کے واسطے وہ اپنی خوشیوں سے ہاتھ دھوئے بیٹھی تھی ___
وہ شخص سچ کہتا تھا کہ تمھیں اپنی “میں ” عزیز ہے اور نورِِ حرم واقعی وہ اسکی بات سے منحرف نہیں تھی اسے حقیقت میں اپنا آپ بہت عزیز تھا اپنی میں کے علاوہ اس کے پاس اور تھا ہی کیا جس کا وہ غرور کرتی ____” ایک عزتِ نفس اور خودراری کی وجہ سے اپنی ” میں” برقرار تھی اور اسے کسی چیز کا سمجھوتہ اسے منظور بھی نہیں تھا ___
مگر وہ شخص نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد اسے بہت عزیز تھا اس کی سوچوں پہ قابض اس میں کسی کمیکل محلول کی طرح جاذب تھا بس اس کے سامنے اقرار کرنا دنیا کا مشکل ترین امر تھا اس کےلیے __
زندگی میں کچھ نقصان ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں جن کے خسارے مقدروں میں لکھ دیے جاتے ہیں ایسا ہی ایک خسارہ اسکے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا بعض اوقات مداوے ، حقیقت اور پیار وقت پہ میسر نہ کیے جائیں تو پچھتاوے مقدر بن جاتے ہیں ___”
❤❤❤❤
ماسٹر صاحب نے تقربیاً چپہ چپہ چھان مارا ان کا غصہ کسی طور پہ بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے سپوت کو جان سے مار دیں اس رات کا گیا نہیں آیا دوسرا دن تھا گھر کے ماحول میں تلخی بڑھ گئی زارا بیگم بھی ان سے خفا خفا تھیں صبح
آٹھ بجے کا وقت تھا وہ اسے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈ رہے تھے طارق کے ہوٹل پہ بھی اسے ایک دفعہ دیکھ آئے تھے مگر اس کا پتہ کہیں معلوم نہیں ہوا وہ اس کے لفنگے یاروں کے گھر گئے جو ہر روز اس نے نئے سے نیا بنایا ہوتا ___”
انھیں بہت زیادہ پریشانی ہوئی اتنے ذلیل وہ زندگی میں نہیں ہوئے جتنا اس نے انھیں زندگی میں کر دیا تھا __”
ابھی بھی وہ چوک سے ہوتے مین روڈ پہ آئے کیونکہ ذہن میں شیدے کا ہوٹل رہ گیا تھا چلتے چلتے رشید کے ہوٹل کا خیال آتے ہی وہ تیز تیز چلنے لگے کتنی دفعہ ٹھوکریں لگنے سے بچی مگر پھر بھی خود کو سنھبالتے وہ چلنے لگے __”
کچے راستے سے نکل کہ انھوں نے سڑک پہ قدم رکھے تو سامنے ہی شیدے کا در میانے درجے کا ہوٹل تھا پارک کی مخالف طرف بنا یہ ہوٹل واحد تھا جو کچھ ویران جگہ پہ وقوع پذیر تھا کیونکہ یہاں بھی سب آوارہ گرد ہی محفلیں جمائے بیٹھے رہتے ___”
ابھی جیسے ہی وہ ہوٹل میں داخل ہوئے تو برآمدے کے نیچے سب کرسیوں پہ بیٹھے مرد انھیں معنی خیز نگاہوں سے دیکھنے لگے جن کےلیے نئے آنے والے کو بے معنی دیکھنا جیسے مشغلہ بن گیا تھا وہ محض اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے اس لیے کسی پہ دھیان نہیں دے رہے تھے مگر شرمندگی آنکھوں سے واضح جھلکتی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ کہ وہ قابلِ احترام جگہ پہ ہرگز نہیں آئے ان کےلیے گویا یہ چائے کا ہوٹل نہیں کوئی عبرت کی مقام گاہ تھی کیونکہ اس مقام سے ہی تو ان کے بیٹے کو برائی کی بیماریوں کی لت لگی تھی ورنہ وہ ایسا ہرگز نہیں تھا اگر مانی کی حرکتوں سے مجبور نہ ہوتے تو وہ یہاں قدم رکھنا پسند نہیں کرتے ___”
سلام علیکم ___” ماسٹر صاحب ___” خیریت تسی ایتھے ___” ایک طرف تندور تھا تو دوسری طرف باہر سلنڈر رکھا گیا تھا وہاں کوئی سولہ سترہ سال کا لڑکا چائے بنانے میں مصروف تھا چائے اور پراٹھے کی خوشبو فضا میں تحیل ہوتی بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی نارنجی سورج کی شعاعیں اس ہوٹل کے برآمدے کے اندر سے چھن کے آ رہی تھی برآمدے سے باہر کرسیوں پہ بھی دھوپ لگوانے کی خاطر لڑکے بیٹھے قہقوں پہ قہقے لگا رہے تھء __”
شیدہ جو پراٹھے بنا رہا تھا صبح صبح انھیں یہاں دیکھ کہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے ___”
وہ بے غیرت تیری شہہ پہ یہاں چُھپاہوگا ___” ماسٹر صاحب نے بمشکل غصہ ضبط کرتے بغیر سلام کا جواب دیے اصل مدعے پہ آئے ان کا خون کھول رہا تھا وہ کچھ جواب دیتے تیز قدموں سے ایک سیاہ رنگ کے بینچ کی طرف بڑھے ___”
بینچ پہ آڑھا ترچھا نہایت بے آرام سا شاید سویا ہوا تھا سفید مگر میلا سا لباس ، الجھے بکھرے لمبے بال ، منہ کھولے وہ کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی مانند نظر آ رہا تھا اس کا قد بہت لمبا تھا اس لیے ٹانگیں فولڈ کیے بیھٹنے والے انداز میں سویا ہوا تھا __”
ابا کا تو گویا خون کھول اٹھا وہ نہیں جانتے وہ اس حد تک بھی جاسکتا ہے__”
ماسٹر صاحب لبوں کو دانتوں تلے بھینچے غصہ ضبط کرتے اس بینچ کی طرف بڑھے جہاں وہ سویا ہوا مرد کی مانند دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ اس کے پاس پہنچے جیسے اس کے پاس پہنچے بازؤں سر کے اوپر وہ شاید ابھی ابھی جاگتے ہوئے آنکھوں کی جھری سے انھیں دیکھے گیا ___”
ابا___” وہ بڑبڑایا اس کےلیے تو ابا کا یہاں آنا زلزلے کے سے جھٹکے سے کم نہیں تھا جلدی سے قمیض جھاڑتا وہ اٹھ کھڑا ہوا ___”
شیدے ___” ابا پہلی دفعہ ہمارے غریب خانے پہ تشریف لائے ہیں ان کےلیے شہنشائی ناشتے کا بندوبست کیا جائے ___” وہ ایک نظر شیدے کو دیکھتا دانت نکالتے ایسا بولا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی اختلافات نہ ہوں
اس کے چہرے سے ایسے لگ رہا تھا جیسے ان دونوں کے درمیان کوئی پچھلی رات کا بھی کوئی قصہ بھی آیا تھا ___”
اس کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کہ ابا دانت پیس کہ رہ گئے لوگوں کی تمسخر اڑاتی نگاہوں کا خیال نہ ہوتا تو اب تک اسکے سارے دانت توڑ چکے ہوتے ___”
ایک لفظ اور نہیں ___” میں یہاں اپنی عزت کا تماشہ نہیں بنوانا چاہتا اس لیے آرام سے کہہ رہا ہوں تجھے کہ گھر آکے میری بات سن ___” وہ اس کے قریب جاتے مدھم سی آواز میں بولے تاکہ کوئی اور نہ سنیں ____”
نہ نہ ابا ____ابھی کہاں ___” آنکھ ونک کرتے اس نے گیپ دیتے بات کز ذرا سا وقفہ لیا ___”
ابھی تو بخش محمد کی دوسری بیٹی کو بھگا کے آپ کا نام روشن کرنا ہے وہ کیا ہے نہ جو رہ گیا ہے اسے بھی تو پتہ چلے آپ کی عظیم اولاد نے کونسے کونسے کارنامہ سر انجام دیے ہیں ___” جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکال کہ سگریٹ سلگایا کہ ایک گہرا کش خالص نشئی لہجے میں کہتے کرسی پیچھے دکھیلتا ایک ٹانگ کرسی پہ رکھ دوسری نیچے لٹکا کہ بیٹھ گیا اس کا ہر لفظ ، ہر بات ، ہر لائن ابا کا خون کھولا دیا اس لیے آگے پیچھے دیکھ کہ لعنت کا اشارہ کیا جسے دیکھ کہ وہ گردن موڑ کہ دانت کھول کہ ہنسا ___
ویسے لگتا ہے میرے بنا میرے ابا کا گھر میں دل نہیں لگ رہا آپکی حالت دیکھ کہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اتنا تو مجنوں نے لیلیٰ کی تلاش میں خاک نہ چھانی ہوگی جتنا آپ ان دو دونوں میں میرے لیے چھان چکے ہیں
وہ ایک چھوٹی سا ڈنڈی کا دانہ دانتوں میں ڈالتے ابا کا خون جلا رہا تھا ___”
تجھ جیسی لعنتی اولادیں ہو تو ماں باپ کو بوڑھی عمروں میں بھی خاک چھاننی پڑتی ہے تیری بے غیرتیوں کی وجہ سے میں جگہ جگہ رل رہا ہوں تیری وجہ سے میری زندگی میں سکون نامی چیز ختم ہوگئی ہے پتہ نہیں ایسا کونسا گناہ کیا تھا جس کی سزا میں تجھ جیسی سیاہی میرے مقدر میں لکھ دی ہے ___”
گہرے رنج سے بولتے انھوں نے اسے دیکھا جو لاپرواہ سے انداز میں دو کپ چائے کا اشارہ کر رہا تھا __”
یہ بھی ہوسکتا ہے آپ کی کسی جزا کی پیداوار ہوں میں ___” مانی منہ پھٹ انداز لہجے میں بولتا ان کو ضبط کی حدوں پہ کھڑا کرگیا___”
میں تیرا باپ ہوں مانی میں تمھیں اس مقام پہ دیکھنا چاہتا ہوں جس مقام پہ کوئی نہیں پہنچ سکا میں نہیں چاہتا جس طرح دو وقت کی روٹی کےلیے ساری زندگی میں نے دھکے کھائے ہیں اس طرح توُ اور تیری اولاد کھائے توُ تو میری کمائی پہ عیش کر رہا ہے مگر تیرے پاس اتنا ہوگا کہ تیری اولاد بیٹھ کہ کھائے گی میں نہیں چاہتا توُ اس حرام لت میں پڑتا لوگوں کا غلام بنے___”
میں دو دو سال اپنے لیے سوٹ نہیں بنواتا صرف اس ڈر سے کہ میری اولاد کی خواہشیں محدود نہ ہوں مگر تیری وجہ سے مجھے میرے بڑھاپے کی راہیں آساں نظر نہیں آ رہیں توُ آج کھا رہا ہے تو تجھے زندگی آسان لگ رہی ہے لیکن کل جب کمائے گا تو تجھے پتہ چلے گا کہ میں کیسے اپنی ہڈیوں کی چکی پیس کہ اپنے خون سے تیرے جیسی اولاد کی پرورش کر رہا ہوں ___” اس لیے آخری بار کہہ رہا ہوں اپنی غلطی تسلیم کر اور خود کو سدھارتا دیہاڑی دار مزدور بن کے حلال کی روٹی کما تو میرے نام کی لاج نہہں رکھ سکتا تو اسے مٹی میں بھی نہ رول ___” ابا مدھم سے پڑے بےبسی سے اس کے منہ سے سچ نکلوانا چاہا جو اب خاموش سا پراٹھوں کی دھوئیں کے مرغولے طرف دیکھتا ان کی باتیں سن رہا تھا جنھوں نے اس کے پاس بیٹھنا گوارہ نہیں کیا تھا مگر مدھم سا سرگوشی سے اپنے لفظ ادا کیے ___”
تو پھر جس مقام پہ آپ کو مجھے دیکھنے کی خواہش تھی وہ مقام بھی تو مجھے دیتے جس پہ آپ مجھے دیکھنا چاہتے تھے ابا___” اس نے اب کی بار بناء ابا کی طرف دیکھے کہا اسکا لہجہ ٹھنڈا کسی ٹھٹھرتی دوپہر کی طرح تھا ___”
چھوٹی سی عمر میں آپ نے y اور X کی صیح قمیتیں معلوم نہ کرنے پہ ڈنڈوں سے مارا جمع نفی کی غلطی پہ مرغا بنا دیا آدھی رات کو ٹھنڈے فرش پہ کھڑا کر دیا ریاضی کے اصولوں کی بجائے زندگی کے اصول بتاتے جمع نفی کو صیح جگہ ایڈجسٹ کرنے کی بجائے مثبت اور منفی چیزوں میں فرق بتاتے x کی قمیت کی بجائے آپ مجھے میری قمیت بتاتے تو شاید مجھ سمیت آپ کا نام کروڑ پتی کی سرفہرست میں ہوتا ماسٹر صاحب ___” طنزیہ انداز میں ہنستے اس نے چائے کا کپ ان کے آگے کیا ___”
کونسے مقام کی تجھے بھڑک ہے جو میں نے تجھے نہیں دیا ساری زندگی ، ساری زندگی صرف کر دی ہے مرحوم بھائی اور اسکی بیٹی تک کا نہیں سوچا بھائی بھی وہ جو باپ جتنا درجہ رکھتا تھا مگر میں نے اپنی خودغرضی کی بھینٹ پہ اپنے بھائی کی بیٹی کو چڑھایا بھیتجی پہ تجھے ترجیح دی میں یہ تک بھول گیا کہ روزِ محشر میرے باپ جیسے مرحوم بھائی کا ہاتھ میرا گریباں تک آئے گا مجھے لگتا تھا کہ ایک دن توُ سدھر جائے گا ابھی بھی تیرے بھلے کا سوچ کہ آیا ہوں ورنہ تجھ جیسی اولاد کو تو لوگ پیدا ہوتے ہی دفنا دیتے ہیں کاش میں تجھے دفنا دیتا تو آج اتنا بے بس تو نہ ہونا پڑتا نہ ___ ” وہ بےبسی کے ہاتھوں مجبور اسے کامیاب زندگی کا درس بھی دے رہے تھے اور پھر غیض و غضب اور ملامتوں سے نواز بھی رہے تھے کہ کوئی حربہ یا کوئی طریقہ ان کے ڈھیٹ بیٹے کےلیے کارآمد ہوسکے ___”
ویسے ایک فیصلہ کرلیں کہ آپ نے مجھے کہاں دیکھنا ہے اونچے مقام پہ یا قبر میں ___” سچ بتاؤں تو آپ کے ارادوں سے تو مجھ اپنا دفن ہونا ہی ظاہر ہو رہا ہے ____” ادھ کھلی آنکھوں سے جواب دیتے تمسخر خیز انداز میں ہنستے اپنے سوال کا جواب مانگا ___”
دیکھ مانی میں تیری فضول بکواس سننے نہیں آیا یہاں ___” میں تو تجھے سمجھانے آیا تھا مگر تیرا یہ باغی انداز صاف بتا رہا ہے کہ مجھے کوئی انتہائی فیصلہ پہلے ہی کرلینا چاہیے تھا میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہی کرلیتا لیکن میرا دل اس بات پہ راضی نہیں تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ تیرے ساتھ ناانصافی ہو جب میرے سب بچے اپنے گھروں میں خوش و خرم رہیں گے تو تیرا گھر بھی بسا رہے اور مجھے لگتا تھا کہ نورِ حرم بہت سمجھدار ہے وہ جیسے تیسے تمھارے ساتھ گزارا کرلے گی مگر جو تمھارے حالات ہیں مجھے اسکی جنہم سے بھی بدتر نظر آرہی ہے میں نہیں چاہتا کہ اسکا آہیں ، بدعائیں مجھے قبر میں بھی چین نہ لینے دیں ___” اب میرا یہ ہی فیصلہ ہے تو اسے اپنے نام سے آزاد کر تاکہ چھان پین کہ اسکا کسی اچھی جگہ رشتہ طے کردوں ____” بہت آسانی سے اسے وہ آزادی کی بات کہتے اسے غیض و غضب میں مبتلا کرگئے ___”
ایسا سوچیے گا بھی مت کہ یہ شرابی شخص نورِ حرم کو اپنے نام سے آزاد کرے گا ___” اسے لگا جیسے اسکے دل پہ ابا نے آرے سے وار کیا ابا کے اتنے سفاک لفظ سنتا وہ اب پرسکون نہ بیٹھ سکا اس لیے اٹھتے ہوئے بے یقینی سے پوچھا اسے لگا یہ ابا نہیں کوئی اور اجنبی شخص ہے جو کوئی قمیتی شے مانگ رہا ہو اور وہ دینے سے قاصر ہو ___”
میں جیسا کہہ رہا ہوں توُ ویسا کرے گا نہیں تو خلع کےلیے تجھے عدالتوں تک بھی گھیسٹنا پڑا تو گھیسٹوں گا میں نہیں چاہتا کہ میری بھیتجی تجھ جیسے بد کرادر مرد کے ساتھ زندگی گزارے اپنی آسانی چاہتا ہے تو جو میں کہہ رہا وہ ہی کرنا__”
اوہ ماسٹر صاحب ___کیا حال ہے ___؟ باپ اور بیٹے میں بڑے راز و نیاز چل رہے ہیں خیر تو ہے ____” ماسٹر صاحب جو لفظوں کو کھینچ ادا کر رہے تھے جیدے نے قہقے لگاتے کی طرف آتے مداخلت کرنا ضروری سمجھا ___”
اوہ چاچا دو گھڑی بیٹھ کہ سکون سے بات کر ایسے باؤلا کیوں ہو رہا ہے ___” جیدا انھیں کرسی پہ بیٹھاتے خود دوسری کرسی پہ بیٹھا ___”
شیدے ماسٹر صاحب کےلیے گرما گرم چائے اور پراٹھا لا ____” وہ اب کی بار شیدے سے کہتا پھر سے ماسٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوا جو ناگوار نظروں سے دیکھ کہ اٹھنے لگے ___”
جس طرح توُ لعنتی ہے ایسے ہی لعنتی یار پالے ہیں چاپلوسیوں کرنے والے نہ خوفِ خدا نہ ماں باپ کی عزت کا خیال ____” ابا نے مانی کی طرف دیکھتے جیدے کی طرف بھرپور نظر دیکھ کہ بیزارگی سے ملامت کی ___”
اوئے ___” چاچا میں جتنا نرمی سے میں پیش آ رہا تھا توُ اتنا ہی سر پہ چڑھتا چلا آ رہا ہے اتنی عزت تو میں نے زندگی میں سگے باپ کو نہیں دی جتنی تجھے ابھی دے دی مگر تجھے عزت ہی راس ہی نہیں آ رہی تو پھر کیا ہو سکتا ہے توُ باپ اسکا ہے تو صلاح مشورہ بھی اسے دے میرا سگا بننے کی کوشش نہ کر تو یہ ہی اچھا ہے تیرے لیے ____” جیدا ماسٹر صاحب کے الفاظ طیش میں آتے انھیں گریباں سے پکڑتا ان کی جھک کہ غرا کہ بولا اپنی اصلیت واضح کرتا وہ انھیں جنجھوڑ کہ رکھ گیا ___
مانی جو ابا سے بیزار سا اس کے ڈراموں کو دیکھ رہا تھا جیدے کے ہاتھوں کو ابا کے گریباں پہ دیکھا تو کرسی پیچھے دکھیلتا قدم اٹھاتے آگے ہوا سارا خون امڈ کہ چہرے پہ آگیا جوانی کا زور ٹوٹ پڑا جیدے کے ہاتھوں سے پہلے تو باپ کے گریباں کو چھڑوایا اور پھر پورے طاقت اور زور سمیٹ کرسی کو ٹھوکر ماری کہ پہلے تو کُرسی لڑکھڑائی اور پھر وہ بھی کرسی سمیٹ نیچے گر پڑا ___” یہ صورتحال دیکھتے ماسٹر صاحب بھی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے ___”
تیری ہمت ہوئی تو ہوئی کیسے کہ تیرے ہاتھ میرے باپ کے گریباں تک آئے تو بہت بدمعاش ہے تو مجھے دکھا اپنی بدمعاشی ____” وہ اس پہ جھکا تھا جو زمین پہ پڑی کرسی پہ آڑھا ترچھا لیٹا ہوا کراہتا پھٹی آنکھوں سے مانی کو دیکھ رہا تھا گویا ذہن یہ قبول نہ کر پا رہا ہو کہ اس کے باپ کو گریباں سے پکڑنے کی سزا اتنی بڑی ہوگی یوں لوگوں کے سامنے نہ دیکھا اور نہ سنا دے مار اور ساڑھے چار والا حال دیکھ کہ جیدے سے اٹھنے ہی نہ ہوا وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس کے بھلے کےلیے یہ سب کر رہا تھا___”
مانی ___” اس نے بے یقینی سے اسے پکارا جو اسے گریباں سے پکڑے ہلنے بھی نہیں دے رہا تھا مردوں کا ہجوم سا ارگرد اکھٹا دیکھتے جیدے نے سانس خارج کی جو نیچے گرنے کی وجہ سے لے نہیں پا رہا تھا ___”
ماسٹر صاحب نے مانی کو دکھیلنے کی کوشش کی مگر وہ بھی یکدم حیراں سے ہوگئے کیونکہ اس کی مضبوط ڈیل ڈول کو وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹا نہ پائے وہ قد میں بھء دو گناہ ان سے بڑا معلوم ہوا انھیں جیسے پہلی دفعہ حیرت سی ہوئی اور اندازہ بھی آج ہی ہوا کہ رب نے اسے بہت پرُ اثر طاقت کا حامل ٹھہرایا اگر وہ انکا تابعدار ہوتا اسکا نام اب تک ابا کی گڈ بک میں فیورٹ کی لسٹ میں شامل ہوتا اسے اسطرح دیکھ کہ انھیں اس میں جوانی کی پرچھائی نظر آئی ___” کچھ سوچتے اسے بازؤں سے پکڑ کہ پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر ہانپ سے گئے __”
لیکن پھر کئی مردوں کی آنکھوں میں تمسخر خیز مسکراہٹ کو دیکھتے انھوں نے مانی کو کندھے سے پکڑ کہ پورا زور لگا کہ اپنی طرف کیا اور ایک زور تھپڑ اس کے منہ پہ مارا اس ساری کوشش سے ان کا سانس پھول گیا انھیں لوگوں کی نظروں کو دیکھ کہ لگا کہ وہ ان کی تربیت پہ ہنس رہیں ہو اس لیے سہہ نہ پائے اور انکی تمسخر ہنسی کا جواب دیتے اس پہ بھڑاس نکالی ___”
میں سب جانتا ہوں یہ تیری اور اسکی ملی جُلی بھگت ہے تیرے جیسی بغیرت اولاد ہو تو دوسرے کے ہاتھ پھر گریبانوں آتے دیر نہیں لگتی پھر کیچڑ کے چھینٹوں سے ماں باپ کے دل و دامن ہی زخمی و آلودہ ہوتے ہیں __”
مانی کو مار کہ دل کا بوجھ ہلکا کرتے وہ نکل گئے جب کہ مانی نے مردوں کی طرف ایسی ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھا کہ سارے اپنی اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا جیدا غائب تھا اور مانی کے دل میں ابا کو لے کہ خدشات پیدا ہوئے ___”
_____❤❤❤❤____❤❤❤_____
نورِ حرم نور حرم ___”وہ اپنے کام میں مصروف تھی جب مانی کی آواز سنائی دی تھی اس کی آواز آج خلاف معمول اونچی تھی وہ جو دو دن اس شخص کی وجہ سے پریشان رہی تھی سارا غصہ اس کے آنے کی وجہ سے عود آیا تھا اس کے چہرے پہ جو دو دن پہلے ہیجان سا تھا اب بیزارگی سی اتر آئی تھی چاچو کا امی کو مانی کو اس کا چھوڑنے کا سن کہ وہ پہلے بدگمان تھی کہ چاہو کا جو دل چاہے وہ اس کے ساتھ ہی کریں گے کیا اس کی اپنی زندگی ہے وہ کچھ اپنے لیے کچھ فیصلہ نہیں لے سکتی ____’
ابھی دل میں ہزار سوچیں رکھتے اپنا سوٹ سلائی کر رہی تھی اس کی آواز پہ اٹھی تاکہ وہ منہ زور شخص کمرے میں آنے کی زحمت نہ کرے مگر وہ جیسے ہی اٹھی دروازہ زور سے کھلا اور وہ شخص اپنی گھٹیا عادتوں سمیت اندر داخل ہوا نور جو ڈوپٹہ لینے لگی تھی ایک دم رک گئی تھی ___”
یہ میں کیا سن رہا ہوں نورِ حرم ___” وہ بغیر جھجکے اس کے پاس کچھ فاصلے پہ آکھڑا ہوا___”
اندر آنے کے کچھ آدب و آداب ہوتے ہیں جائل نشئی انسان ___” اس کے سوال کو مکمل نظر اند اذ کیے اس نے اپنی بھڑاس نکالی تھی ___”
ادب و آداب گئے بھاڑ میں گئے لیکچر لینے نہیں آیا ___” مجھے صرف یہ بتاؤ ابا میرا اور تمھارا رشتہ ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں تم یہ بات جانتی ہو یا نہیں ___” وہ اس وقت صرف نشئی ہی نہیں بلکہ بگڑا آوارہ انسان لگ رہا تھا
نورِ حرم نے چونک کہ اسے دیکھا جو آج شاہد پہلی دفعہ غصے میں لگ رہا تھا آنکھیں تو ہمیشہ کی طرح سرخ ہی تھی مگر آج ان میں کچھ الگ ہی چیز تھی جسے نورِ حرم ٹھٹکنے پہ مجبور ہوئی تھی کھلا گریبان میلے لباس میں ملبوس پاؤں میں اپنے ماپ سے بڑی چپل پہنے ہوئے بلاشبہ وہ حقیقت ملنگ لگ رہا تھا __”
ہاں میں جانتی ہوں چاچو نے امی سے خود بات کی ہے کہ انھوں نے میرا اور تمھارا نکاح کرکے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی ہے انھوں نے اماں کو کہا ہے کہ وہ اپنی غلطی سدھارنا چاہتے ہیں ___” اس نے بغیر ڈر رکھے اصلی بات بتائی تھی __”
تو میں بھی دیکھتا ہوں ابا کیسے غلطی سدھارتے ہیں آج تک ان کی ہر زیادتی مار ، طنز برداشت کیے ہیں مگر یہ نہیں وہ بندو” ق کی نوک پہ بھی یہ رشتہ ختم کروانا چاہیں نہ تو بھی نہیں ___” وہ اسے چیزیں سنبھالتا دیکھ کہ غصے سے بڑ بڑاتا جا رہا تھا ___”
اٹھا وہ چپل لیں نہ تو تم تھر تھر کانپنے لگ جاتے ہو بند”وق کو تو رہنے دو ___” وہ استزائیہ میں ہنستی نفی میں سر ہلاتی پھر سے اپنے کام میں مگن ہوئی تھی
اس لیے بکواس کر رہا ہوں یہاں بات تمھاری ہے ___”
___”لیکن تم ہو تمھیں پرواہ نہیں ہے تمھیں کونسا مجھ سے محبت ہے فرق وہاں پڑتا ہے جہاں محبتیں راج کرتی ہیں تم تو خوش ہوگی __” اس کی بات سن کہ وہ سوچتی رہ گئی جو ابا کی چپلوں سے ڈر جاتا ہے آج کیسے اس کے پیچھے اس خطرنا”ک ہتھیار” سے نہیں ڈر رہا___”
پتہ ہے آج جب ابا نے جب یہ بات کہی تھی اس وقت کی اذیت شاید برداشت نہیں کرسکتا میں چاہتا ہوں میں تمھیں بتاؤں کہ کاش کوئی لفظ میری اذیت کے معیار پہ پورے اترے کہ اتنی تکلیف ابا کے جوتوں سے نہیں ہوتی جتنی تکلیف ابا کے سخت الفاظ سے ہوئی کہ وہ درد اور تکلیف اس اذیت سے بہت چھوٹے لفظ ہیں جو میں محسوس کر رہا ہوں ___” اس کے الفاظ سن کہ نورِ حرم کو ہمیشہ کی طرح غصے آیا اگر وہ اس شخص کے نگاہوں کے بدلتے تقاضے دیکھ لیتی سمجھ لیتی تو کبھی اس شخص کے جذبوں کا مذاق نہ اڑاتی __”
ابا نہیں سمجھ سکتے مجھے___” تم تو سمجھ لو تم تائی امی سے کہو کہ تم مجھ سے آزاد ہونا نہیں چاہتی یا پھر تم ابا کو ڈائریکٹ کہہ دو ___” وہ جیسے چل کہ کام کر رہی تھی مانی بالکل ویسے ہی رخ بدل کہ اس کی سمت چلتا اپنی بات منوانے کے چکروں میں تھا اور نورِ حرم کو جیسے کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا__”
اور تمھیں سچ میں ایسا لگتا ہے کہ میں ایسا کروں گی ___” کان کھول کہ سن لو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گی میں یہ بہت پہلے کہنا چاہتی تھی کہ مجھے یہ رشتہ نہیں رکھنا __” وہ پلٹی اس کی آنکھوں میں بہت مضبوطی جھلک رہی تھی بے شک وہ حالات سے لڑنے والی مضبوط پختہ کردار کی لڑکی تھی جہاں کوئی غلط کہتا تو اسے دوسرے کا منہ توڑنا آتا تھا __”
میں پہلے خاموش تھی مصلحت کے دھاگوں نے میرے لبوں کو سی دیا تھا مگر چاچو نے یہ بات کہہ کہ میری زندگی کی بہت بڑی مشکل آسان کر دی ہے مجھے اب لگتا ہے اس بے نام رشتے کو لے کے میرے اوپر کوئی پابندی نہیں ہے __” تم نے مجھے ایسا کوئی تحفظ نہیں دیا __” ایسا مان نہیں دیا جس بنا پہ میں تم سے یہ رشتہ نبھا رکھ سکوں یہ لو تمھاری چین جو تم مجھے دے کے گئے تھے یہ لے لو مجھے نہیں چاہیے تمھاری حرام کی کمائی سے ایک چیز اور ایک روپیہ بھی نورِ حرم پہ حرام ہے تو پھر سوچو میں تمھارے زندگی کیسے گزار دوں __” تم اور میں کبھی ایک نہیں ہوسکتے یہ ذہن نشین کرلو اور جیسا چاچو کہے بغیر بحث کیے وہ ہی کرو___”
وہ دراز سے چین نکالتی اس کے ہاتھ تھام کہ اس پہ رکھ گئی تھی وہ یہ چین لیتے مانی آنکھوں کی چمک بھول گئی تھی مانی کے دل میں پھانس چبھی تھی سانس لینے میں دشواری ہوئی تھی وہ گھٹیا شخص آج اس کے لفظوں سے ہار گیا تھا بے شک وہ لڑکی دل توڑنے میں ماہر تھی ___” وہ اسکا سوال و جواب لیے اپنی یکطرفہ محبت کا خالی کشکول بغیر مڑنے لگا مزید الفاظ سہنے کی ہمت نہیں رہی تھی ___”
سنو یہ چوڑیاں بھی لے کہ جاؤ ___” وہ اسے پکارتے ہوئے بولی پتہ نہیں کیوں اس کو آواز دیتے دل دھڑکا تھا مگر پھر بھی اپنی نظر میں سہی تھی اور سہی کر رہی تھی اس نے مڑتے ہوئے اورنج اور بلیک رنگ کی چوڑیاں نکالی جو اس ملنگ شخص نے بڑی چاہت سے دی تھی __”
توڑ دو __” کیونکہ تمھیں چیزوں کو توڑنا بہت اچھے سے آتا ہے پھر چاہے جاندار ہو یا بے جان ___” ایک نظر ٹھہر کہ اس پہ ڈال کہ کہی تھی اسے دیکھا جو اس کی بات سن کہ بھی نظر انداز کرتی مشین کی طرف رخ کرگئی نیلے لباس کے اوپر شفیون کا شوخ سا ڈوپٹہ پھسل اس کے گلے میں پڑا ہوا تھاوہ اس کے پشت پہ پڑی چٹیا کو کتنی دیر دیکھتا رہا جو اسے مکمل طور پہ نظر انداز کیے اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھی __ “
مانی میرا اور تمھارا پیار بھرا رشتہ نہیں تھا جس میں تمھارے تحفے تحائف کرتی پھرتی یہ رشتہ مصلحت کا تھا مجبوری کاتھا چاچو کا بیٹا ہونے کے ناطے ان کا مان رکھتے ہوئے میں نے نکاح کےلیے ہاں کی تھی اس وقت دادا ابو کی خوشی کی خاطر میں نے اس رشتے کےلیے ہاں کی ___” مگر اب ایسی کوئی مجبوری اور مصلحت نہیں رہی جو میں نبھاؤں ___” دل کو سخت کرتے اس نے ناجانے کس ضبط سے یہ الفاظ کہے یہ وہ ہی جانتی تھی اس وقت وہ خود کو خود ہی سمجھنے سے قاصر تھی
اس کی بات سنتے اس نے قدم باہر کی طرف بڑھائے مگر پھر کچھ سوچتا اس کی طرف بڑھا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کا رخ پھیرتے اپنے ساتھ لگا گیا وہ جو غصے سے پلٹی اس کی جرات پہ ہک دق رہ گئی تھی اس کا کھینچ کہ اپنے ساتھ لگانا اسے ورطہ حیرت میں ڈال گیا __”
اس ملنگ کے مضبوط ہاتھ اپنے گرد لپٹے محسوس ہوئے تو جیسے پہلی دفعہ لگا کہ وہ تپتی دھوپ سے گھنی چھاؤں میں آگئی جیسے وہ گھنا بادل ثابت ہوا تھا اب شاید ہی لمس فراموش کر سکتی __”
میں دنیا چھوڑ سکتاہوں مگر تمھیں نہیں ___” جانتا ہوں تمھیں یہ حصار بہت برا لگ رہا ہے مگر یہ میری آنے والی زندگی کا کل سرمایہ ہے تمھارے سب اعتراض بجا تم صیح میں غلط ، چلو کوئی نہیں اگر تمھیں مجھ سے محبت نہیں تو پھر زبردستی کرنا بے معنی ہے تم میرا ساتھ___” اس کی زبان بولنے سے انکاری ہوئی تھی نور اسے سن رہی تھی اس کا رکنا بھی محسوس ہوا تھا کچھ دیر بعد شاید وہ بولنے کے قابل ہوا
تم میرا ساتھ دیتی تو ابا سے کیا دنیا سے لڑ لیتا مگر تم اور تمھارے خدشے اپنی جگہ درست ہیں ابا نے ضرور سوچ سمجھ کہ فیصلہ لیا ہوگا ___”
؎ ہمارے بعد بھی قافلے چلتے رہیں گے ___”
اک تارا ٹوٹ جانے سے آسماں ویراں نہیں ہوتا
اسکا شعر سنتی وہ کانپ اٹھی تھی ابھی خود تو ہی کہا تھا کہ ان دونوں کے راستے جدا ہیں ابھی ہی تو وہ رائیں جدا کرنے کی بات کر رہی تھی مگر پھر اس کے منہ سے سن کہ کیوں برا لگا تھا ___
اگر میرے کھینچے گئے حصار میں بھی تمھیں تحفظ محسوس نہیں ہوا تو خدا کی قسم نورِ حرم تمھاری آزادی کا پروانہ خود ابا کو تھما کہ جاؤں گا ___” اس کے مکمل بولنے سے پہلے ہی وہ پتھر دل چٹان بے حس لڑکی جیسے آگے سن ہی نہ سکی اسکا ذہن سوچوں سے مفلوج ہوا اس کی زبان بولنے سے قاصر ہوئی تو وہ اس گھٹیا شخص کے گرد بازوں کا حصار کھینچ کے سر اس کے کشادے سینے پہ رکھ دیا جیسے اپنے اس عمل سے بتانا چاہا کہ یہ حصار برا نہیں ہے ___”
اس ملنگ شخص نے طلسم ہی ایسا کھینچا تھا کہ اس کا سارا غصہ انا ، غرور ، بہا کہ لے گیا آج اس کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے آج نورِ حرم اس ملنگ پہ بری طرح دل ہار گئی تھی اور اس ہار کے بعد اس کی جیت نامکمن تھی ___”
وہ جو اس محرم رشتے کو پہلی دفعہ محسوس کر رہی تھی آج اس انا پرست لڑکی کا دل چاہ رہا تھا کہ لمحے رک جائیں اور اس لمحے کو محسوس کرتے کرتے صدیاں بیت جائیں یہ وہ دل میں سوچ رہیں تھیں مگر اس کے جیب میں پڑا فون تھرتھرا اٹھا تھا اس سے الگ ہوتے اس نے اپنی جیب سے فون نکالا __”
اوہ مانی ___” انتظار کر رہے ہیں تیرا جلدی آ __” آج بہت بڑا شکار ہاتھ لگا ہے ابھی آنا ہے تو آ بعد میں مت پچھتانا ___” نہ سلام نہ دعا ___” مانی سنتے جلدی سے باہر نکلنے جیسے اس سب کام سے زیادہ کوئی اہم کام نہ ہو___”
تو سچ میں مجھے آزاد کردو گے ___” اس کی چوڑی پشت کی طرف بے یقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا جس کے سفید کرتے پہ گرد سی لگی ہوئی تھی ___
ظاہری سی بات ہے بد کرادر شخص ہوں اس کے علاوہ چارہ بھی تو نہیں ہے اور ایسی کوئی وجوہات بھی تو نہیں ہیں یا پھر میں کوئی لینڈ لارڈ تو ہوں نہیں جس بنا پہ اس رشتے کو نبھا سکوں زبردستی تو ابا کی وجہ سے کرنے سے رہا_____” آوارہ ، شرابی، بد کرادر ، بے عملا ہوں تو پھر کیسے تمھیں اپنے نام سے باندھ سکتا ہوں ____” رک کہ پیچھے پلٹتے نورِ حرم کو جیسے دوسالہ چھوٹے سے ناراض بچے کی طرح لگا جیسے اسے کی کوئی پسندیدہ چیز چھین لی گئی ہو اور وہ ناراض سا منہ بنائے کھڑا ہو اسے جیسے اس کے الفاظ سن کہ تکلیف ہوئی تھی کہ چور کب مانتا ہے اس نے چوری کی ہے بے اختیار اسے وہ دن یاد آگیا جب پیسے عبیدنے چرائے مگر اُس نے الزام اُس پہ لگایا کہ چوری اس نے کی ہے تو وہ بغیر ججھکے اعتراف کرگیا کہ چوری اس نے کی ہے آج پھر اسے واضح محسوس ہوا کہ کچھ بھی ہو جائے اس شخص کے کردار پہ داغ نہیں ہوسکتا کچھ دیر پہلے ہی تو اس کی آنکھوں میں جھلملاتا اپنا عکس دیکھا جو خود کو اسکا خیانتی کہہ رہا تھا ___
نورِ حرم نے چلتے ہوئے قدم اس کی طرف بڑھائے جو خفا خفا سا کھڑا ہوا تھا وہ بالکل اس کے نزدیک آ ٹھہری اور ایک پل کو دیکھتی اس کے ہاتھ پکڑے جو اسے ہی دیکھ رہا تھا مانی کی نگاہوں میں ہزار سوال تھے اس کے سفید نازک ہاتھوں میں چھپا اپنا گندمی میلا ہاتھ دیکھا تو حیرانی بڑھ گئی وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا نورِ حرم کے دل میں آج ایسا کیا تھا کہ اسے اس کراہیت کیوں نہیں ہو رہی ____”
مجھے تم سے محبت نہیں ہے مانی مگر میں نہیں چاہتی کہ تمھارے نام کے علاوہ کسی اور نام کا حوالہ بھی میرے نام کے ساتھ جڑے ____” میں نہیں چاہتی کہ میرا نام کسی اور مرد کے ساتھ منسوب ہو میں بس تمھارے ساتھ ایک لازوال بندھن میں بندھے رہنا چاہتی ہوں تم میرے لیے وہ واحد باکمال مرد ثابت ہوسکتے ہو جس کے ساتھ عمریں گزاری جاسکتی ہیں زندگیاں ہاری جاسکتی ہیں ____” تمھارے اور چاچو کے جو بھی مسائل ہیں وہ خود طے کرو ___” بس اب یہ تم پہ منحصر ہے کہ تم کیسے اس رشتے کو تاعمر نبھاسکتے ہو ____” وہ اس کے ہاتھوں پہ گرفت مضبوط کرتے اپنے لفظوں کی گہرائی جانے بغیر اقرار اس کے ساتھ زمانے گزارنے کا عندیہ دے گئی ___”
تمھاری محبت کا ہونا میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے نورِ حرم میں اس وقت کا انتظار کروں گا جب تم اپنے منہ سے اقرار کرو گی کہ مانی میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی میں اس دن سمجھ جاؤں گا کہ تمھیں مجھ سے محبت ہے کیونکہ ہم انسانوں کے بغیر تو رہ سکتے ہیں مگر محبت کے بغیر نہیں ____”
تمھاری اس رضامندی سے یہ بات تو طے ہوگئی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے یہ رشتہ ختم نہیں ہوسکتا ہرگز نہیں __”
مانی نے نرمی سے کہتے گرفت مضبوط کرتے اس کی طرف جھکتے اسکی پیشانی کی مانگ پہ لب رکھے جس کا ڈوپٹہ سر سے سرکا ہوا تھا وہ پہلی دفعہ اس کے سامنے یوں بغیر اس کی نظروں سے پریشان نہ ہوتی کھڑی تھی وہ اس کے تحفظ بھرے لمس پہ کانپ ضرور مگر سہمی نہیں تھی کچھ دیر بعد نورِ حرم نے اس کی آنکھوں کی چمک کو دیکھتے ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرواتی اپنے کام میں مگن ہوئی __”انا کے خول میں خود کو قید کرنا تو وہ گویا خود پہ فرض سمجھتی تھی مانی کچھ دیر اسے دیکھتا رہا جو ایسے اجنبی بن کہ کھڑی ہوگئی جیسے دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی ہو ____” پھر وہ کسی کام کے یاد آنے پہ باہر نکل گیا تھا_
❤❤❤
رات کا اندھیرہ ہر طرف پھیلا ہوا تھا نورِ حرم آج اماں کی طبعیت خرابی کے سبب سو نہیں پائی اماں کی ہلکی سی طبعیت خراب تھی مگر اب اماں کی طبعیت بگڑنے کا خدشہ زیادہ ہوا اس نے دوا دی کہ اماں کو کچھ تو افاقہ ہو مگر ان کی حالت مزید بگڑتے دیکھ کہ وہ باہر کی جانب بھاگی سیڑھیوں پہ قدم الٹے سیدھے پڑتے جا رہے تھے باپ کے بعد آخری سرمائے بچانے کےلیے قدم چاچو سیڑھیوں کی طرف بڑھائے ___” چاچو کے صحن میں قدم رکھنے تک اس کا سانس پھول گیا تھا ___”
لاشعوری طور پہ اسکے قدم بیٹھک کی طرف بڑھے تھے
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial